Author: عثمان دانش

  • خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات  کے دوسرے مرحلے کا نوٹیفکیشن معطل

    خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا نوٹیفکیشن معطل

    پشاور : پشاور ہائی کورٹ نے خیبرپختونخوابلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے بعد بلدیاتی الیکشن کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ ایبٹ آباد بنچ نے خیبرپختونخوابلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے11صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا،جسٹس شکیل احمد نے فیصلہ تحریر کیا۔

    فیصلے میں عدالت نےخیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا نوٹی فکیشن معطل کردیا اور چیف الیکشن کمشنر کو بلدیاتی انتخابات کے دوسرےمرحلے کو رمضان کے بعد منعقد کرانے کا حکم دے دیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ مارچ میں پہاڑی علاقوں میں برف باری کی وجہ سےالیکشن ممکن نہیں لگتا، محکمہ موسمیات کےمطابق مارچ میں بارشوں ، برفباری کاامکان ہے۔

    تحریری فیصلے کے مطابق صوبائی حکومت اورمحکمہ موسمیات نے الیکشن کمیشن کومراسلہ جاری کیا، رپورٹ کےباوجود الیکشن کمیشن نےکوئی فیصلہ کن اقدام نہیں اٹھایا، الیکشن کمیشن اس ضمن میں اپنےفرائض کی انجام دہی میں ناکام رہا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کادوسرامرحلہ زیادہ ترپہاڑی علاقوں میں منعقدہوناہے، درخواست گزاروں کاموقف ہےسردموسم میں ووٹرزکانکلناممکن نہیں ، برف والےعلاقوں میں الیکشن عملےکوبھی مشکلات درپیش ہوں گی۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ حالات کےتناظرمیں پہاڑی علاقوں میں شفاف انتخابات ممکن نہیں لگتے، الیکشن کمیشن پہاڑی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رمضان کے بعد کرے۔

    خیال رہے کوہستان، ناران کےعمائدین نے ہائیکورٹ بینچ میں الیکشن ملتوی کی درخواست دائر کی تھی۔

  • پاکستان: 2 ہزار سال قدیم آثار دریافت

    پاکستان: 2 ہزار سال قدیم آثار دریافت

    پشاور: صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر صوابی میں قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں، جن میں بدھ مت کی یادگار اسٹوپا بھی شامل ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 18 سے 19 سو سال پرانا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ آرکیالوجی اینڈ میوزم خیبر پختون خوا کو آثار قدیمہ کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے، 6 ماہ قبل صوابی کے ایک گاؤں باہو ڈھیری میں کھدائی شروع کرنے کے بعد اب محکمے نے تقریباً دو ہزار سال قدیم اسٹوپا دریافت کر لیا ہے۔

    ڈائریکٹر محکمہ آرکیالوجی اینڈ میوزیم ڈاکٹر عبدالصمد نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ صوابی کے گاؤں باہو ڈھیری میں محکمہ آرکیالوجی کو کچھ عرصہ قبل قدیم آثار ملے تھے، اس جگہ پر 6 مہینے کھدائی کر کے ہمیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

    ڈاکٹر صمد نے بتایا کہ محکمہ آرکیالوجی نے سائنٹیفک طریقے سے اس جگہ پر کھدائی کی تاکہ نوادرات کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اس وجہ سے کھدائی کو مکمل کرنے میں 6 مہینے لگے۔

    محکمے کے مطابق دریافت شدہ اسٹوپا میں 4 سو سے زائد نواردات ملے ہیں، جو 18 سے 19 سو سال پرانی ہیں، خیبر پختون خوا میں جتنے اسٹوپا ہیں یہ ان سب میں سے بڑا ہے، ڈاکٹر صمد نے بتایا کہ اتنی پرانی اور بڑے اسٹوپا کی دریافت آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

    اس علاقے کے آس پاس اور بھی آرکیالوجیکل سائٹس موجود ہیں، ڈاکٹر صمد نے بتایا کہ نئے اسٹوپا سے جو نوادرات ملے ہیں ان پر مزید ریسرچ کی جائے گی، اس سے علاقے اور خیبر پختون خوا کے تاریخ کا پتا چلے گا۔

    ڈائریکٹر آرکیالوجی نے بتایا کہ محکمہ آثار قدیمہ اب اس سائٹ کو محفوظ بنانے کے لیے مزید اقدامات کر رہا ہے۔

    خیبرپختونخوا: قبرستان سے برآمد ہونے والی شے نے ہوش اڑا دیے

    ڈاکٹر عبدالصمد نے بتایا کہ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ صوابی کے اس علاقے میں غیر قانونی کھدائی کی جا رہی ہے، جس پر ہم نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر کارروائی کی اور غیر قانونی کھدائی پر پابندی لگا کر وہاں پر عالمی معیار کے مطابق کھدائی شروع کر دی تھی۔

  • وادئ کیلاش میں بڑی پابندی عائد

    وادئ کیلاش میں بڑی پابندی عائد

    چترال: وادئ کیلاش میں زمین کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق شمالی خیبر پختون خوا کے شہر چترال میں کیلاش قبیلے کی منفرد ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے وادی میں زمین کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔

    ضلعی انتظامیہ لوئر چترال نے انٹکیویٹی ایکٹ 2016 کے تحت کیلاش میں زمین کی خرید و فروخت پر دفعہ 144 نافذ کر کے پابندی لگائی ہے۔

    انتظامیہ نے اس حوالے سے مراسلہ جاری کیا ہے جس کے مطابق وادئ کیلاش میں نئی تعمیرات پر بھی پابندی ہوگی۔

    ڈپٹی کمشنر لوئر چترال کے مطابق غیر مقامی افراد کیلاش میں پراپرٹی خرید کر اس پر تجارتی سرگرمیاں کر رہے ہیں، جس سے وادی کی منفرد ثقافت کو خطرہ لاحق ہے۔

    صوبائی حکومت سیاحت کو فروغ دے رہی ہے اور کیلاش وادی کی ثقافت کو تحفظ فراہم کرنے میں سنجیدہ ہے، اس کے لیے کیلاش ویلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی منظوری بھی دی گئی ہے۔

    انتظامیہ نے وادئ کیلاش میں جائیداد کی ہر قسم کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی ہے، انتظامیہ کے مطابق خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

  • ٹک ٹاک سے  2 کروڑ  سے زائد غیراخلاقی ویڈیوز اور  14 لاکھ سے زائد اکاونٹس بلاک

    ٹک ٹاک سے 2 کروڑ سے زائد غیراخلاقی ویڈیوز اور 14 لاکھ سے زائد اکاونٹس بلاک

    پشاور: پی ٹی اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں ٹک ٹاک سے 2 کروڑ 89 لاکھ 35 ہزار 34 غیر اخلاقی ویڈیوز کو ہٹایا اور 14 لاکھ 65 ہزار 612 اکاونٹ غیر اخلاقی مواد شیئر کرنے پر بلاک کئے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد کی روک تھام کے لئے دائر درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

    تحریری حکم نامے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد سے زیادہ تر نوجوان نسل متاثر ہورہا ہے، عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ٹک ٹاک پر غیراخلاقی مواد روکنے کے لئے ہدایات جاری کئے تھے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ پی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں ٹک ٹاک سے 2 کروڑ 89 لاکھ 35 ہزار 34 غیر اخلاقی ویڈیوز کو اب تک ہٹایا جاچکا ہے جبکہ غیر اخلاقی مواد شیئر کرنے والے 14 لاکھ 65 ہزار 612 اکاونٹ بلاک کر دیئے گئے ہیں۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق عدالت کے نوٹس میں لایا گیا کہ غیر اخلاقی مواد شیئر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے لیکن ان کو سزا نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ اکاؤنٹ چلانے والے دوبارہ خلاف ورزی کرتے ہیں۔

    عدالت نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ پی ٹی اے ٹک ٹاک سے غیر اخلاقی مواد ہٹانے کے لئے جو اقدامات کررہی ہے عدالت اس کو سراہتی ہے ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی اے اس ایکسرسائز کو جاری رکھے جو غیر اخلاقی مواد شیئر کرتا ہے اسی وقت ان کو بلاک کیا جائے۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے اس کے لئے ایک طریقہ کار بنائے تاکہ بار بار خلاف ورزی کرنے والے اکاؤنٹس کو بلاک کیا جائے اور عدالت نے پی ٹی اے سے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کرلی۔

    ٹک ٹاک کے سے غیر اخلاقی مواد ہٹانے کے عصمت اللہ نامی شہری نے درخواست دائر کیا ہے، درخواست گزار کے وکیل سارہ علی خان نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ شروع دن سے ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹک سے غیر اخلاقی مواد کو ہٹایا جائے۔

    وکیل سارہ علی خان کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اس ایپ کومکمل بند کیا جائے لوگوں کو تفریح کے مواقع ملنا چاہیئے لیکن ایسا تفریح نہیں جو ہمارے معاشرتی اقدار کے خلاف ہوں، ٹک ٹک پر بہت سے ایسے اکاؤنٹ ہے جس سے غیر اخلاقی ویڈیوز شیئر ہوتے ہیں جس کے ہمارے نوجوان نسل پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

    پی ٹی اے نے اپنے رپورٹ میں کہا تھا کہ ٹک ٹک پر زیادہ تر اکاونٹ 15 سے 18 سال کے درمیان عمر کے نوجوانوں کی ہے، سارہ علی خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ پی ٹی اے اور متعلقہ ادارے کام کررہے ہیں اور غیر اخلاقی مواد شیئر کرنے والے بہت سے اکاونٹ کو بلاک کیا ہے لیکن مسلہ ابھی حل نہیں ہوا اب بھی ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ ہورہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اس کا کوئی مستقل حل نکالا جائے تاکہ ٹک ٹک پر غیر اخلاقی مواد نہ ہوں اور لوگوں کو تفریح بھی میسر ہوں۔

  • بلین ٹری سونامی سے متعلق نیب اور محکمہ فارسٹ کی رپورٹ میں تضاد ہے: ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب

    بلین ٹری سونامی سے متعلق نیب اور محکمہ فارسٹ کی رپورٹ میں تضاد ہے: ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب

    پشاور: بلین ٹری سونامی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے نیب سے کہا کہ اکتوبر سے ہم اس کیس کو سن رہے ہیں لیکن ابھی تک آپ لوگوں نے ایک رپورٹ بھی جمع نہیں کرائی۔

    تفصیلات کے مطابق آج پشاور ہائی کورٹ میں مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر انکوائری سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس روح الامین اور جسٹس ارشد علی نے شروع کی، تو ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد، پراسیکیوٹر نیب محمد علی، محکمہ جنگلات حکام اور درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد نے عدالت کو بتایا کہ ہم رپورٹ تیار کر رہے ہیں، اس کے لیے مزید وقت دیا جائے، اگلی سماعت پر رپورٹ جمع کر دیں گے۔ اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم اکتوبر سے اس کیس کو سماعت کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک آپ لوگوں نے ایک بھی رپورٹ جمع نہیں کرائی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ بلین ٹری سونامی سے متعلق نیب اور محکمہ فارسٹ کی رپورٹس میں کچھ تضاد ہے، 27 اضلاع ہیں اور 5 ہزار 600 سائٹس ہیں، ان کی نشان دہی پر بھی وقت لگے گا، کرونا وبا کی وجہ سے بھی کام رک گیا تھا، ابھی اومیکرون ویرینٹ کی وجہ سے آفس اسٹاف کے ویکسینیشن کا عمل جاری ہے، اور آفسز بند ہیں، جس کی وجہ سے رپورٹ تیار کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

    اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ کرونا 2019 میں آیا تھا، اور ختم ہو گیا ہے، دیکھیں آج آپ نے بھی ماسک نہیں پہنا، اب آپ یہ نہ کہیں کہ کرونا کی وجہ سے اسٹاف نے جنگل میں درختوں کو نہیں گنا، ہمیں یہ بتا دیں کہ کتنے درخت جل گئے، کتنے پودے لوگوں نے خراب کیے اور ابھی کتنے درخت جنگل میں موجود ہیں۔

    انھوں نے کہا نیب اور محکمہ جنگلات کی رپورٹ میں جو تضاد ہے اس کو بالائے طاق رکھ کر ہمیں رپورٹ پیش کر دیں، ہمیں پتا ہے کہ آپ لوگوں کی مجیوریاں کیا ہیں، اور یہ تضاد کیوں ہے، آپ دیکھیں کہ ملاکنڈ کے پہاڑوں پر لاچی کے کتنے درخت لگائے گئے، اس پر درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی کمی کا مسئلہ ہے لیکن پھر بھی یہ لاچی کے درخت لگا رہے ہیں، لاچی پانی زیادہ جذب کرتا ہے، اگر یہ لاچی کے پودے لگائیں گے تو اس سے پانی کا مسئلہ اور بھی بڑھے گا۔

    جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکیوٹر نے استفسار کیا کہ اس کیس میں کتنے انوسٹیگیشن افسران ہیں، ڈپٹی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس کیس میں 3 انوسٹیگیشن افسران ہیں، جسٹس روح الامین نے کہا کہ ان میں ہر ایک کو 9 اضلاع دے دیں، وہ جائیں اور خود دیکھیں اور رپورٹ تیار کریں تو جلد یہ کام ہو جائے گا۔

    جسٹس روح الامین نے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ مالم جبہ کیس کا کیا ہوا، اس پر درخواست گزار وکیل علی گوہر درانی نے بتایا کہ مالم جبہ انکوائری کو نیب نے اس عدالت کے آرڈر کا سہارا لے کر بند کیا ہے، عدالت نے انکوائری بند کرنے کا نہیں کہا لیکن نیب نے وہ انکوائری بند کر دی ہے، عدالت نے مالم جبہ انکوائری رپورٹ بھی طلب کی ہے جو ابھی تک جمع نہیں کی گئی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد نے عدالت کو بتایا کہ 75 ایکڑ زمین پر فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ اور ٹورزم میں مسئلہ چل رہا تھا، اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ اس بات کو چھوڑ دیں کہ محکموں کے درمیان کیا تھا، آپ یہ بتا دیں کہ نیب اس کیس میں کیا کر رہا تھا، یہ زمین کس کو الاٹ کی گئی ہے اور کیسے الاٹ کی گئی، اس کی رپورٹ ہمیں دیں۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا ہمیں مزید تھوڑا وقت دیا جائے تو ہم رپورٹ پیش کر دیں گے، ڈپٹی پراسیکیوٹر عظیم داد کی جانب سے رپورٹ جمع کرنے کے لیے مزید وقت مانگنے کی استدعا عدالت نے منظور کر لی اور نیب سے مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر انکوائری سے متعلق رپورٹس طلب کرتے ہوئے سماعت 15 مارچ تک ملتوی کر دی۔

  • مردان: 4 سالہ بچی اسما کے قاتل کو کڑی سزا مل گئی

    مردان: 4 سالہ بچی اسما کے قاتل کو کڑی سزا مل گئی

    مردان: چار سال قبل خیبر پختون خوا کے شہر مردان میں زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل ہونے والی ایک چار سالہ معصوم بچی اسما کے قاتل کو بچوں کے تحفظ کی عدالت نے عمر قید کی سزا دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کے جج اعجاز احمد نے مردان کے مشہور زمانہ 4 سالہ بچی اسما کے اغوااور قتل کیس میں جرم ثابت ہونے پر ملزم کو عمر قید اور 1 لاکھ 40 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔

    متعلقہ کیس پشاور ہائی کورٹ نے چائلڈ پروٹیکشن کورٹ منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، جس میں ٹرائل مکمل ہونے کے بعد ملزم کو سزا سنا دی گئی۔

    سرکار کی جانب سے اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر فرمان اللہ خان اور سید عنایت شاہ بادشاہ ایڈوکیٹس نے مقدمے کی پیروی کی۔ استغاثہ کے مطابق ملزم محمد نبی ولد عبیداللہ پر الزام تھا کہ اس نے 2018 میں ایک بچی اسما سکنہ گجر گڑھی مردان کو اغوا کرنے کے بعد اسے زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں اسے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔

    ملزم کے خلاف صدر مردان پولیس اسٹیشن نے 14 جنوری 2018 کو مختلف دفعات 302,364,376 کے تحت مقدمہ درج کیا، اور ملزم کو گرفتار کیا گیا۔

    ملزم محمد نبی کو جرم ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزا سنائی تھی، تاہم اس کے خلاف ملزم نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا، اور مؤقف اپنایا کہ متعلقہ عدالت کے پاس یہ اختیار حاصل نہیں کہ اسے سزا دے کیوں کہ جس وقت یہ وقوعہ ہوا اس وقت ملزم کی عمر 16 سال تھی۔

    اس پر ہائی کورٹ نے کیس کے دوبارہ ٹرائل کا حکم دیتے ہوئے اسے چائلڈ کورٹ ریمانڈ کر دیا تھا، آج چائلڈ کورٹ نے کیس میں سماعت مکمل ہونے پر ملزم کو عمر قیداور جرمانے کی سزا سنا دی۔

    واضح رہے کہ جولائی 2018 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسما کے قتل کے ملزم محمد نبی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، عدالت نے مجرم پر 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ اسما قتل کیس میں 200 سے زائد بلڈ سیمپلز لیے گئے تھے، جن میں سے ملزم محمد نبی کا ڈی این اے میچ کر گیا تھا۔

  • احتجاج کی آڑ میں اہم سڑکوں کی بندش، عدالت کا اہم قدم

    احتجاج کی آڑ میں اہم سڑکوں کی بندش، عدالت کا اہم قدم

    پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ احتجاج کی آڑ میں دوسروں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیئں، عدالت نے اس سلسلے میں ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا اسمبلی چوک اور شہر پشاور کے دیگر اہم سڑکوں پر احتجاج اور جلسے جلوسوں کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس روح الامین اور جسٹس سید عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    درخواست گزار سینئر صحافی جمشید باغوان کے وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی چوک اور شہر کی دیگر اہم سڑکوں پر مظاہرین نکل آتے ہیں جس سے پورے شہر کا ٹریفک نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔

    اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ یہ اہم مسئلہ ہے حکومت کو اس کے حل کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، چند لوگ نکل کر سڑک بند کر دیتے ہیں جس سے پورا شہر متاثر ہو جاتا ہے، ہر چیز کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ یہ کس کی ذمہ داری ہے، اس پر اے اے جی نے جواب دیا کہ یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے، اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ پھر حکومت اس کے لیے اقدامات کیوں نہیں کرتی؟

    جسٹس سید عتیق شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے ڈی چوک میں احتجاج پر پابندی لگائی ہے، پنجاب حکومت نے بھی مال روڈ پر احتجاج پر پابندی لگائی ہے، آپ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے، جو اہم جگہیں ہیں وہاں احتجاج پر پابندی کیوں نہیں لگاتے۔

    درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ قانون ہر شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیئں، اس حوالے سے سپریم کورٹ، ہائیکورٹ، اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں کہ احتجاج سے دوسروں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیئں۔

    علی گوہر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں بھی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ احتجاج کی آڑ میں شہریوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 26 جنوری تک ملتوی کر دی۔

  • پشاور: اسپتال کے گیٹ پر بچے کی پیدائش، عدالت کا اظہار برہمی

    پشاور: اسپتال کے گیٹ پر بچے کی پیدائش، عدالت کا اظہار برہمی

    پشاور ہائی کورٹ میں قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس کے گیٹ پر ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے خاتون کے بچہ جنم دینے کے واقعہ کے کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔

    اس موقع پر اسپیشل سیکرٹری اور سیکرٹری ہیلتھ، چیئرمین بورڈ آف گورنر قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس اور اے جی عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان نے کہا کہ قاضی حسین احمد کمپلیکس سے متعلق روزانہ کوئی نہ کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے، اس اسپتال میں ہو کیا رہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹھیکیدار کو چیئرمین بورڈ آف گورنر بنایا گیا۔

    جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ نے بتایا کہ اب نیا چیئرمین بورڈ آف گورنر ہے اس کو ہٹا دیا گیا ہے، اے جی نے کہا کہ اسپتال میں کل افسوسناک واقعہ پیش آیا اس کی انکوائری ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اب ہٹا دیا ہے لیکن ایک ٹھیکیدار کواسپتال حوالے کیا گیا تھا۔

    چیئرمین بی او جی نور الاایمان نے کہا کہ مجھے چارج سنبھالے ہوئے100دن ہوگئے ہیں میں 100دن کی گارگردگی پیش کرونگا، بدقسمتی سے اسپتال میں غیرقانونی طور پرغیرضروری اسٹاف بھرتی کیا گیا، جس چیزکوبھی ہاتھ لگائیں غیرقانونی چیزیں ہی نکل آتی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اسپتال کا 90فیصد بجٹ تنخواہوں میں جاتا ہے، غیر قانونی بھرتی 126لوگوں کو نکالا  تواحتجاج شروع ہوگیا، گزشتہ 8 دن سے ہسپتال بند ہے وہاں کوئی کام نہیں کررہا۔

    چیف جسٹس قیصررشیدخان کا کہنا تھا کہ اسپتال بند ہے توحکومت کیا کر رہی ہے، اسپتال کو کوئی کیسے بند کرسکتا ہے، جوغیر قانونی کام ہےاس کےخلاف سخت کارروائی کریں، اس اسپتال کا نام بھی بہت بڑا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جوغیرقانونی کام کررہے ہیں ان کےخلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی، بعد ازاں عدالت نے چیئرمین بورڈآف گورنر سےاسپتال سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس نوشہرہ کے گیٹ پر خاتون نے دو بچوں کو جنم دیا تھا ہسپتال میں ڈاکٹرز اور دیگر عملہ کے احتجاج کی وجہ سے کوئی بھی ہسپتال میں موجود نہیں تھا ہسپتال سے واپسی پر گیٹ میں ہی خاتون کی حالت غیرہوگئی ریسکیو 1122 کی ٹیم پہنچ گئی جس میں موجود خاتون اہلکار نے خاتون کی ڈلیوری کرائی خاتون نے دو بچوں کو جنم دیا۔

  • خیبر پختونخوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا

    خیبر پختونخوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا

    پشاور: خیبر پختون خوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا، آج پشاور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر اہم سماعت ہوئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ میں پی کے 55 مردان سے پاکستان مسلم لیگ ن کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی جمشید مہمند کی جانب سے، حلقے کا ترقیاتی فنڈ منصوبے کی منظوری کے باوجود روکے جانے کے خلاف دائر درخواست پر جسٹس روح الامین اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    درخواست گزار کے وکیل اور رکن صوبائی اسمبلی خوشدل خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار پی کے 55 مردان سے رکن صوبائی اسمبلی ہیں، اپوزیشن سے تعلق ہونے کی وجہ سے حکومت نے ان کے حلقے کے ترقیاتی فنڈ کو روک دیا ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اگر اپوزیشن ارکان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ہے، تو اپوزیشن ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کر لیتے، حکومت نے اگر اپوزیشن ارکان کو ہر معاملے میں نظر انداز کرنا ہے تو سادہ الفاظ میں کہہ دے کہ آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے باہر بیٹھ جائیں۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے ہر دور میں ایسا ہوتا ہے جب کوئی وزیر اعلیٰ بنتا ہے تو مجموعی سوچ کی بجائے صرف اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے سوچتا ہے۔

    جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ ایک منصوبے کی انتظامی سطح پر منظوری کے بعد بھی اسے کس طرح واپس لیا گیا، کیا صرف ایک حلقہ ایسا ہے جس کے لیے فنڈز نہیں ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو پھر تمام حلقوں کے لیے نہیں ہوں گے، صرف اپوزیشن ارکان کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔

    جسٹس روح الامین نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے فنڈز کی تقسیم کے لیے میکنزم بنانے کا حکم دیا ہے، کیا آپ کو پتا ہے؟ متعلقہ لوگوں نے صرف اپنے حکام بالا کو خوش کرنے کے لیے اس حلقے کا فنڈ روکا، اور منصوبے کو نکال دیا، اس اقدام سے صرف اس حلقے کے عوام ہی متاثر ہوں گے۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز کی کمی ہے، جیسے ہی فنڈز کا مسئلہ حل ہوگا تو اس ٹینڈر کو دوبارہ کھولا جائے گا، اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ جب اس منصوبے کی منظوری دی جا رہی تھی تو اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ فنڈ نہیں ہے، اس سے لگتا ہے کہ متعلقہ حکام نے دباؤ میں یا کسی کو خوش کرنے کے لیے اپوزیشن ارکان کے فنڈز کو روکا، لیکن ہم کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنے دیں گے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب فنڈ منظور ہو جائے اور ایڈمنسٹریٹیو منظوری دی جائے، تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، یہ واحد حکومت ہے جس میں فنڈز نہ ملنے پر ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا تھا، حکومت کے ایسے اقدامات سے لوگوں میں بے چینی پھیلتی ہے۔

    عدالت نے ایم پی اے جمشید مہمند کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو اس حلقے کے ڈرافٹ شدہ منصوبوں کو واپس ای بڈنگ میں شامل کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے قرار دیا کہ فریقین اگر کوئی جواب جمع کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنا جواب جمع کروا سکتے ہیں۔

  • نیب نے عدالتی حکم کا سہارا لے کر مالم جبہ اسکینڈل کی انکوائری بند کی: پشاور ہائیکورٹ

    نیب نے عدالتی حکم کا سہارا لے کر مالم جبہ اسکینڈل کی انکوائری بند کی: پشاور ہائیکورٹ

    پشاور: ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ نیب نے عدالتی حکم کا سہارا لے کر مالم جبہ اسکینڈل کی انکوائری بند کی ہے، عدالت نے انکوائری بند کرنے کا حکم جاری نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ مالم جبہ اسکینڈل انکوائری بند کرنے کا حکم عدالت نے نہیں دیا تھا، عدالت نے کہا تھا یہ 2 ڈیپارٹمنٹس کا مسئلہ ہے مل بیٹھ کر حل کریں لیکن نیب نے انکوائری ہی بند کر دی۔

    پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مالم جبہ، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر انکوائری ٹھیک طریقے سے کرانے اور ملوث افسران کو بچانے کے خلاف کیس کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار عادل ظریف کے وکیل علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ بار بار نوٹس کے باوجود نیب نے ابھی تک رپورٹ جمع نہیں کی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد نے عدالت کو بتایا کہ دو رپورٹس ہیں، بلین ٹری سونامی رپورٹ تقریباً تیار ہے، اور جلد جمع کر دیں گے، جب کہ بینک آف خیبر رپورٹ بھی جمع کریں گے، اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے دو نہیں تین رپورٹس جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔

    مالم جبہ اسکینڈل: نیب نے پرویز خٹک کے خلاف انکوائری روک دی

    انھوں نے کہا عدالت نے کوئی انکوائری بند کرنے کا حکم نہیں دیا لیکن نیب نے اس عدالت کے آرڈر کا سہارا لے کر مالم جبہ انکوائری بند کر دی ہے، جسٹس روح الامین نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ یہ دو ڈیپارٹمنٹس کے درمیان مسئلہ ہے، مل بیٹھ کر اس کو حل کریں، عدالت نے انکوائری بند کرنے کا نہیں کہا، نیب نے مالم جبہ انکوائری ہی بند کر دی۔

    عدالت نے نیب کو مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر انکوائری کی جامع رپورٹس جمع کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 26 جنوری تک ملتوی کر دی۔

    علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ مالم جبہ کیس کو نیب نے دبایا ہے، مالم جبہ اسکینڈل میں بڑے افسران ملوث ہیں، شاید اس وجہ سے نیب اس کیس میں دل چسپی نہیں لے رہا اور ان کو بچانے کی کوشش میں ہے۔

    نیب نے احتساب عدالت کو انکوائری بند کرنے کی درخواست کی ہے، اور اس میں یہ مؤقف تھا کہ پشاور ہائیکورٹ نے انکوائری بند کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن پشاور ہائی کورٹ نے انکوائری بند کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا، آج عدالت کے معزز جج جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکویٹر کو بھی کہا کہ عدالت نے مالم جبہ انکوائری بند کرنے کا کہیں پر بھی حکم نہیں دیا۔

    انھوں نے کہا کہ عدالت نے نیب کو 26 جنوری تک مالم جبہ اسکینڈل، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر سے متعلق انکوائری کی جامع رپورٹ کے ساتھ طلب کر لیا ہے۔