Author: عثمان دانش

  • غیرت کے نام پر کولئی پالس میں ایک اور لڑکی کے لرزہ خیز قتل پر خصوصی رپورٹ

    غیرت کے نام پر کولئی پالس میں ایک اور لڑکی کے لرزہ خیز قتل پر خصوصی رپورٹ

    خیبر پختون خوا کے بالائی ضلع کولئی پالس میں 18 سالہ لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے، پولیس کے مطابق لڑکی کو گھر والوں نے گھر کے اندر ہی قتل کیا۔

    ابتدائی طور یہ خبر سامنے آئی تھی کہ مقتولہ اور لڑکی کا ایک لڑکے کے ساتھ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، جس پر گھر والوں نے لڑکی کو قتل کر دیا، اور لڑکا روپوش ہو گیا ہے۔ جب کہ ویڈیو میں نظر آنے والی دوسری لڑکی کو عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کے والدین کی یقین دہانی پر عدالت نے لڑکی کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔

    پولیس کے مطابق لڑکی کے والد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور چچا کی گرفتاری کے لیے کوشش جاری ہے، تصویر میں نظر آنے والے لڑکے کو پولیس نے اپنی تحویل میں لیا ہے۔

    غیرت کے نام پر قتل میں اضافہ

    غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال خیبر پختون خوا میں غیرت کے نام پر 23 خواتین کو قتل کیا گیا۔

    مہوش محب کاکاخیل: سوشل میڈیا نیٹ ورک کے دفاتر پاکستان میں نہیں

    سماجی کارکن اور پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ نے اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا غیرت کے نام پر خواتین کا قتل ہوتا ہے تو وہ رپورٹ نہیں ہوتا اور دوسرا یہ کہ جو قوانین ہیں، ان پر عمل نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا حکومت قوانین بناتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔

    مہوش محب نے بتایا کہ لڑکی کی جو تصویر وائرل ہوئی ہے یہ بھی ابھی تک کنفرم نہیں ہے کہ یہ تصویر اصلی ہے یا ایڈٹ شدہ، ریاست کو چاہیے کہ اس کے لیے ایک مکینزم بنائے جب تک ایسے کیسز کو ڈیل کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں ہوگا اس طرح کے واقعات پر قابو پانا مشکل ہوگا۔

    مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا نیٹ ورک کے دفاتر پاکستان میں نہیں ہیں، اگر دفاتر یہاں ہوتے تو جب ایسے ویڈیوز یا تصاویر کوئی اپ لوڈ کرتا تو فوری طور پر ان کو ہٹایا جا سکتا تھا، لیکن یہاں دفاتر ہی نہیں ہیں۔ ایسے بہت سے کیسز سامنے آئے ہیں کہ لڑکیوں کی تصاویر ایڈٹ کر کے لگائی گئی ہیں، ہمارا پختون معاشرہ ہے اور اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

    شبینہ آیاز: گزشتہ واقعے کا قاتل اب بھی آزاد ہے

    عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ آیاز نے کولئی پالس میں پیش آنے والے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی، ان کا کہنا تھا کہ اب ہم مذمت ہی کر سکتے ہیں کیوں کہ پہلے بھی کوہستان میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، جس میں ویڈیو میں گانا گانے پر خواتین کو قتل کیا گیا تھا، جب ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوان کے بھائی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور خواتین کے قتل کو سامنے لایا، تو اس کے خاندان کے تمام مردوں کو قتل کر دیا گیا۔ شبینہ آیاز نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا لیکن کیا ہوا؟ قاتل آج بھی آزاد ہے اور آج ایک اور واقعہ پیش آیا ہے، آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

    غیرت کے نام پر قتل کیس کیوں دبایا جاتا ہے؟

    مہوش محب نے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کو اکثر چھپا لیا جاتا ہے اور رپورٹ ہی نہیں ہوتا، کیوں کہ اس کی سزائیں کافی سخت ہیں۔ اس میں معافی نہیں ہے اور نہ کمپرومائز ہوتا ہے، اس لیے ایسے کیسز کو یا تو قتل کا رنگ دیا جاتا ہے یا خودکشی کا رنگ دے کر اس کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں، اگر آواز نہیں اٹھائیں گے تو پھر ایسے واقعات پیش آتے رہے گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا، ایسے کیسز میں وہ صحیح طور پر انویسٹی گیشن کریں۔ اگر ایسے ملزم بری ہوتے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ اس کے خلاف اپیل دائر کریں اور ایسے لوگوں کو سزائیں دیں۔

    فارنزک لیب کی عدم دستیابی

    کاکاخیل کے مطابق خیبر پختون خوا میں فارنزک لیب نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل ہیں، اگر فارنزک لیبارٹری ہوتی تو صحیح طور پر ان کیسز کو انوسٹی گیٹ کیا جاتا، اور ویڈیوز کو ڈیجیٹل فارنزک کے ذریعے پرکھا جاتا کہ آیا یہ اصلی ہیں یا ان کو ایڈٹ کر کے بنایا گیا ہے۔ اگر یہ حقاق سامنے آتے ہیں تو لوگ اس طرح اپنے بیٹیوں کو قتل نہیں کریں گے۔

    تازہ واقعے کی اصل کہانی ہے کیا؟

    کولئی پالس خیبر پختون خوا کا دور دراز علاقہ ہے، وہاں کے مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچھ دن پہلے تصویر والے لڑکے نے سوشل میڈیا پر لڑکی کے ساتھ تصویر شیئر کی، تو ابتدا میں لوگ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ فیک ہے اور ایڈٹ کر کے لگائی گئی ہے، لیکن دو تین بار ایسا ہوا تو گھر والوں نے لڑکی سے پوچھا اور اس پر پریشر ڈالا تو لڑکی نے اقرار کیا کہ ان کا لڑکے کے ساتھ تعلق ہے۔

    اس کے دوسرے دن اس لڑکی کے والد اور چچا نے اس کو قتل کر دیا، پولیس نے لڑکی کے والد کو گرفتار کر لیا ہے اور چچا کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ ڈی پی او کولئی پالس مختیار تنولی نے بتایا کہ والد ارسلا کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔

    مقامی صحافی کے مطابق دوسری لڑکی کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی تصویر کسی اور نے شیئر کی ہے، اس کا کچھ پتا نہیں ہے کہ کون ہے، اور اسے ضمانت پر عدالت نے والدین کے ساتھ گھر جانے دے دیا ہے، ان کے والدین نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد ان کو گھر جانے دیا گیا۔

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا

    2011 میں بھی اس ضلع میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک ویڈیو وائرل ہو گئی تھی، جس میں لڑکے ناچ رہے تھے اور لڑکیاں گانا گا رہی اور تالیاں بجا رہی تھیں، جب یہ ویڈیو سامنے آئی تو اس میں نظر آنے والی لڑکیوں کو جرگے کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔

  • کیا آصفہ بھٹو چترال کے حلقے سے الیکشن لڑیں گی؟

    کیا آصفہ بھٹو چترال کے حلقے سے الیکشن لڑیں گی؟

    الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا ہے اور اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہم کا اغاز کر دیا ہے۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چترال میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے عوام کا مطالبہ ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری یہاں سے الیکشن لڑے اور اس کے لیے وہ آصفہ بھٹو کو منائیں گے کہ وہ چترال کے حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور جیت کر یہاں کے عوام کی خدمت کریں۔

    واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے حقلہ این اے 1 چترال سے ماضی میں بلاول بھٹو کی نانی نصرت بھٹو بھی کامیاب ہوئی تھیں، انھوں نے یہاں سے الیکشن لڑا اور چترال کے عوام نے ان کو دل کھول کر ووٹ دیا۔

    چترال کے حلقے سے کتنی خواتین نے الیکشن لڑا؟

    چترال کے حقلے سے اب تک 3 خواتین امیدواروں نے قسمت آزمائی کی ہے، ان میں دو خواتین امیدواروں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ نصرت بھٹو نے 1988 کے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ٹھہریں جب کہ 1988 کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر بھی خاتون امیدوار بیگم شیر علی رہیں۔ 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پھر خاتون امیدوار کو ٹکٹ دیا، زوجہ محمد سلیمان نے الیکشن میں حصہ لیا اور وہ 15 ہزار ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہیں، جب کہ پاکستان اسلامی فرنٹ کے مولانا عبدالرحیم 16 ہزار 275 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

    الیکشن کب ہونا ہے؟

    الیکشن 8 فروری 2024 کو ہونا ہے، الیکشن کا شیڈول ابھی تک جاری نہیں ہوا لیکن سپریم کورٹ میں 90 دن میں الیکشن سے متعلق کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ الیکشن کے انعقاد پر کسی کو شک و شبہات نہیں ہونے چاہیئں، میڈیا بھی یہ نہ کہے کہ الیکشن ہوگا یا نہیں۔ صدر مملکت، الیکشن کمیشن اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے دستخط کر کے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ الیکشن 8 فروری کو ہوں گے۔ چناں چہ الیکشن کے انعقاد میں اب کوئی دو رائے نہیں ہیں، 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔

    قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون چترال جہاں سے قومی اسمبلی کی نشستوں کا آغاز ہوتا ہے، اس حلقے سے کون کون منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے، اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔

    قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون چترال تاریخی حیثیت کا حامل حلقہ ہے، یہ پاکستان کا دور دراز پہاڑی علاقہ ہے اور ترقی کے لحاظ سے بھی دیگر علاقوں سے بہت پیچھے ہے۔ سڑکیں خراب ہیں اور دیگر بنیادی ضروریات بھی وہاں کے عوام کی نصیب میں اب تک نہیں آئیں،

    لیکن چترال خوب صورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ قدرتی حسن سے مالامال چترال کے عوام مہمان نواز بھی ہیں اور نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ ملک میں سب سے پرامن علاقہ بھی چترال ہے، جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    چترال کے عوام الیکشن میں جہاں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیگر کامیاب کراتے ہیں وہاں ماضی میں خواتین امیدواروں کو بھی دل کھول کر ووٹ دیے گئے ہیں اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو چترال کی نشست سے 1988 کے الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔

    ماضی میں کس پارٹی کے امیدوار یہاں سے کامیاب ہوئے؟

    صاحب زادہ محی الدین

    1985 کے عام انتخابات میں چترال کا حلقہ این اے 24 کہلاتا تھا اور اس حلقے سے 1985 میں صاحب زادہ محی الدین 26 ہزار 707 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جب کہ مولانا عبدالرحیم چترالی 22 ہزار 745 ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے۔ یاد رہے کہ 1985 کے عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے۔

    20 مارچ 1985 کو محمد خان جونیجو وزیر اعظم منتخب ہوئے، ان کی حکومت 3 سال چلی اور پھر اس وقت کے صدر نے آرٹیکل 58(2)(b) کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔

    نصرت بھٹو

    جنرل ضیاالحق کے طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو عام انتخابات ہوئے اور اس بار چترال کے حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار نصرت بھٹو نے 32 ہزار 819 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کر لی اور دوسرے نمبر پر آئی جے آئی کے امیدوار صاحب زادہ محی الدین رہے، جب کہ تیسرے نمبر پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والی خاتون امیداور بیگم شیر علی رہیں۔ نصرت بھٹو چترال سے کامیاب ہونے والی پہلی خاتون امیدوار تھیں۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے لیے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) کے نام سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا تھا، 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن حکومت ڈھائی سال ہی چل سکی اور ماضی کی طرح ایک بار پھر صدر پاکستان (غلام اسحاق خان) نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کر دیا۔

    صاحب زادہ محی الدین

    1990 کے جنرل الیکشن میں چترال کے حلقے این اے 24 سے اسلامی جمہوری اتحاد کے صاحب زادہ محی الدین کامیاب قرار پائے، ان انتخابات میں مسلم لیگ کے نواز شریف وزیر اعظم بنے، لیکن ان کی حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی اور جمہوریت کُش روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 18 اپریل 1993 کو اسمبلی تحلیل کر دی، لیکن اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور سپریم کورٹ نے کیس سننے کے بعد 26 مئی کو اسمبلی بحال کر دی لیکن پھر 18 جولائی 1993 کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور نئے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔

    مولانا عبدالرحیم

    1993 کے عام انتخابات میں چترال کے حلقے این اے 24 سے پاکستان اسلامی فرنٹ کے مولانا عبدالرحیم 16275 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار زوجہ محمد سلیمان خان 15 ہزار 765 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہیں۔ ان انتخابات میں قومی سطح پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بے نظیر بھٹو دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بنیں، لیکن ان کی حکومت بھی اپنی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی 5 نومبر 1996 کو اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے ختم کر دی اور یوں پاکستانی صدور کی جانب سے جمہوریت کُش روایت کو جاری رکھا گیا۔

    صاحب زادہ محی الدین

    1997 کے عام انتخابات میں صاحب زادہ محی الدین مسلم لیگ ن کے میدوار تھے اور اس بار بھی وہ چترال سے کامیاب ہوئے، انھوں نے 24 ہزار 302 ووٹ لیے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار پیپلز پارٹی کے میجر ریٹائرڈ احمد سعید تھے، جنھوں نے 12 ہزار 222 ووٹ لیے تھے۔

    1997 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی اور نواز شریف دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجماں ہوئے لیکن یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی، اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو حکومت کو چلتا کر دیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتار کر کے اٹک قلعہ پہنچا دیا۔

    مولانا عبدالکبیر چترالی

    2002 میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں الیکشن کا انعقاد کیا گیا اور چترال کے حلقے این اے 32 (2002 الیکشن سے قبل یہ حلقہ این اے 24 کہلاتا تھا) سے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالکبیر چترالی کامیاب ہوئے۔ انھوں نے 36 ہزار 130 ووٹ لیے جب کہ 2002 الیکشن سے کچھ مہینے پہلے بننے والی نئی جماعت مسلم لیگ قائد اعظم کے امیدوار افتحار الدین 23 ہزار 907 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

    شہزادہ محی الدین

    2008 کے عام انتخابات سے پہلے پرویز مشرف نے اپنی نئی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنائی اور چترال کے حلقے سے شہزادہ محی الدین اس بار آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اترے اور 33 ہزار 278 ووٹ لے کر کامیاب قرار دیے گئے، جب کہ آزاد امیدوار سردار محمد خان 31 ہزار 120 ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے شہزادہ غلام محی الدین 18 ہزار 516 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

    2008 انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے، جب کہ آصف علی زرداری صدر بنے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی ایک سیاسی پارٹی نے اپنا 5 سالہ دور پورا کیا۔

    افتخار الدین

    2013 جنرل الیکشن میں چترال کے عوام نے ایک بار پھر آل پاکستان مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ دیا، اور اے پی ایم ایل کے امیدوار افتخار الدین نے 29 ہزار 772 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالطیف 24 ہزار 182 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

    مولانا عبدالکبر چترالی

    2018 کے انتخابات میں چترال کا حلقہ این اے ون بن گیا، قومی اسمبلی کا این اے ون پہلے پشاور سٹی ہوا کرتا تھا، لیکن 2018 الیکشن سے پہلے حلقہ این اے ون چترال کو دیا گیا۔ 2018 جنرل الیکشن میں چترال کے عوام نے جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ دیا، جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا عبدالکبر چترالی 48 ہزار 616 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے عبدالطیف 40 ہزار 2 ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم خان 32 ہزار 635 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

    چترال کے حلقے سے اگلا فاتح کون؟

    اب 8 فروری 2024 کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور مختلف حلقوں سے اپنے اپنے امیدوار فائنل کر رہے ہیں۔

    چترال سے اس بار سیاسی پارٹیاں کون سے امیدوارں کو میدان میں اتارتی ہیں، کیا اس میں خواتین امیدوار بھی قسمت آزمائی کریں گی؟ یہ تو الیکشن کے ٹکٹ کنفرم ہونے کے بعد پتا چلے گا، لیکن اگر ماضی کے انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو چترال کے عوام نے کسی ایک پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ ہر دور میں نئے امیدواروں کو ووٹ دیا گیا اور خواتین امیدوار جب بھی مقابلے میں آئیں تو انھوں نے اچھا مقابلہ کیا ہے۔ اس لیے اگر پیپلز پارٹی کی جانب سے آصفہ بھٹو زرداری کو کھڑا کیا جاتا ہے، تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس بار یہ حلقہ آصفہ بھٹو کے نام رہے گا۔

  • خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ کے پی کے میں ایک سال میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 43 کا ریپ ہوا جب کہ 19 نے مبینہ طور پر خود کشی کی۔

    خیبر پختون خوا سمیت ملک بھر میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات آئے دن رونما ہو رہے ہیں، خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل پر بات تو کی جاتی ہے، حکومت قانون سازی بھی کرتی ہے، لیکن پھر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

    عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، خواتین پر تشدد کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں، خیبر پختون خوا میں گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ مختلف طریقوں سے خواتین کے ہراسانی کے واقعات میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں ذہنی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    قتل یا خود کشی؟

    شبینہ ایاز نے بتایا کہ سوات اور چترال میں خاص طور پر خواتین میں خودکشی اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آ رہے ہیں، اور گزشتہ 5 ماہ کے دوران 19 خواتین نے خود کشی کی ہے، لیکن پولیس تفتیش کے دوران پتا چلا کہ مبینہ خود کشی کرنے والی بیش تر خواتین کو قتل کیا گیا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔ شبینہ ایاز نے بتایا کہ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور جب تشدد میں خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں تو پھر ان کو خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔

    قوانین موجود پھر بھی واقعات میں اضافے کی وجہ کیا؟

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ 2021 میں خیبر پختون خوا اسمبلی سے گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ جسم ہو اور اس میں روح نہ ہو، کیوں کہ اس ایکٹ کی روح ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز ہے لیکن ابھی تک یہ کمیٹیز نوٹیفائی نہیں ہوئیں، جس کی وجہ سے خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    انھوں نے کہا کسی خاتون پر تشدد ہوتا ہے اور وہ پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر درج کرنا چاہتی ہے تو پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی، زیادہ سے زیادہ پولیس روزنامچہ درج کر دیتی ہے اور ایک دو دن بعد اس شخص کی ضمانت ہو جاتی ہے اور پھر مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ تشدد کرنے والا جب جیل سے واپس گھر آتا ہے تو خاتون پر اور بھی تشدد شروع کر دیتا ہے اور اس طرح بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے، اس کا سدباب صرف پروٹیکشن کمیٹیز ہیں۔

    خواتین کے ساتھ ساتھ پولیس بھی قانون سے بے خبر

    سماجی کارکن صائمہ منیر نے بتایا کہ قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، پارلیمنٹرین اسمبلی سے بل منظور کرتے ہیں اس پر عمل درآمد کرانا بھول جاتے ہیں۔ صائمہ منیر نے بتایا کہ گھریلو تشدد بل کو منظور ہوئے 2 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج تک اس قانون کے تحت ایک بھی کیس تھانے میں درج نہیں ہوا کیوں کہ خواتین کو اس قانون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے اور نہ پولیس کو پتا ہے کہ یہ قانون کیا ہے۔

    مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ بھی صائمہ منیر کی بات سے اتفاق کرتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ قانون بنایا جاتا ہے لیکن قانون سازی کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا، گھریلو تشدد بل اسمبلی سے منظور ہوا ہے لیکن پولیس کو اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں۔ اب پولیس کو اس حوالے سے ٹریننک دی جا رہی ہے کہ اگر کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوئی ہے تو اس ایکٹ کے تحت ملزمان کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے مسائل پر ہونے والی قانون سازی پر صوبے کے مختلف پولیس لائنز جا کر اہلکاروں کو لیکچر بھی دے رہی ہیں۔

    مہوش کے مطابق تشدد کی روک تھام اس وقت تک مشکل ہے جب تک لوگوں کو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس سے آگاہی نہ ہو، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے تو وہ پہلے تو اس کی رپورٹ درج نہیں کرتی اور اگر کوئی خاتون رپورٹ درج کرنا چاہے تو پھر پولیس اس کی رپورٹ نہیں لیتی، جب تک معاشرے میں اس کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوگی یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔

    جرم ثابت ہونے پر سزا کتنی ہوگی؟

    گھریلو تشدد کے قانون کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے ملزم کو کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال تک سزا ہوگی، اس کے علاوہ جرم ثابت ہونے پر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا، اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے اور بیوی اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی تو ملزم خاتون کو خرچہ بھی دے گا اور اگر بچے بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بچوں کا خرچ بھی وہی مرد برداشت کرے گا۔

    ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز کیوں ضروری ہیں اور یہ کام کیسے کریں گی؟

    جب کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوتی ہے تو وہ پہلے ڈسٹرکٹ کمیٹی کو شکایت درج کرے گی، پروٹیکشن کمیٹی پہلے فریقین کے درمیان مصالحت سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک جرگہ میں ہوتا ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکالا جائے۔

    مسئلے کا حل نہیں نکلتا تو پھر کمیٹی متاثرہ خاتون کا بیان لے گی اور دوسرے فریق کو نوٹس جاری کرے گی، کمیٹی میں ایک سیکریٹری ہوگا جس کی اپنی ذمہ داریاں ہوں گی، جتنے سروس فراہم کرنے والے سرکاری اور نجی ادارے ہوں گے ان کی ایک ڈائریکٹری کمیٹی میں ہوگی، کسی بھی متاثرہ خاتون کو مدد کی ضرورت ہوگی تو سیکریٹری ان کو فراہمی کے لیے اقدامات کرے گا، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کمیٹیز ہے نہیں، کمیٹیز نوٹیفائی ہو جاتی ہیں تو خواتین کو بڑی آسانی ہوگی۔

    بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟

    ریجنل ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن شبینہ ایاز نے بتایا کہ مختلف تنازعات کے حل کے لیے تھانوں کی سطح پر قائم مصالحتی کمیٹیوں (ڈی آرسیز) میں خواتین نمائندگی بڑھانی چاہیے اور ضم اضلاع میں بھی فوری طور پر ڈی آرسیز قائم ہونی چاہیئں، تاکہ ضم اضلاع میں خواتین کو درپیش وراثت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

    الیکشن وقت پر نہیں ہوتے تو کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر ہو سکتی ہے

    خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی رہنما صائمہ منیر نے بتایا کہ اب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہے ہیں، اب الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، اگر فوری الیکشن نہیں ہوتے اور نگران حکومتیں قائم رہتی ہیں تو اس سے گھریلو تشدد بل کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت، ضلعی انتظامیہ، محکمہ پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن بڑھانے کی ضرورت ہے۔

  • جب تک میں کُرسی پر ہوں کوئی سفارش نہیں چلے گی، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ

    جب تک میں کُرسی پر ہوں کوئی سفارش نہیں چلے گی، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ

    پشاور: چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ محمد ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ جب تک میں چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھا ہوں کوئی سفارش نہیں چلے گی۔

    چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ محمد ابراہیم خان نے اوپن کورٹ میں دیے گئے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ میں تمام مقدمات میرٹ اور آئین و قانون کے مطابق نمٹائے جاتے ہیں، عدالت میں کوئی سفارش نہیں چلے گی۔

    انہوں نے کہا کہ کسی نے ججز کو سفارش کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، عدالت آنے والے تمام سائلین ایک جیسے ہیں، ہم کسی میں فرق نہیں کر سکتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسی نے کوئی بات کرنی ہے تو عدالت میں کھڑے ہو کر کریں، میرے اپنے خاندان کا کیس ہے، خدا کی قسم میں نے کسی جج کو نہیں کہا کہ میرے حق میں فیصلہ کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی ہمیں اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا، آئین و قانون کے مطابق جس کا جو حق بنتا ہے اس کو دیا جائے گا، کسی کو سفارش کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    ’اگر انصاف نہیں دے سکتا تو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں‘

    قبل ازیں 4 اگست کو عدالتی احکامات کے باوجود سابق ایم پی اے رنگیز احمد کی گرفتاری کے معاملے پر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انصاف نہیں دے سکتا تو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔

    اینٹی کرپشن پولیس نے سماعت میں سابق ایم پی اے ملزم رنگیز احمد کو عدالت میں پیش کیا تھا جبکہ اس موقع پر محکمہ اینٹی کرپشن کا انوسٹی گیشن آفیسر بھی عدالت میں موجود تھا۔

    مقدمے کی دوبارہ سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے استفسار کیا تھا کہ عدالت کے فیصلے کی کیوں خلاف ورزی کی گئی؟ اگر قانون کی پاسداری نہیں ہوگی تو پھر یہ جنگل کا قانون ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو ایڈوکیٹ جنرل اور سب اپنے گھر جائیں گے، اگر میں کسی کو انصاف نہیں دے سکتا تو مجھے اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ اگر آج ملزم رنگیز خان کو پیش نہ کیا جاتا تو میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیتا، اس موقع پر اینٹی کرپشن انسپکٹر نے بھری عدالت میں معافی مانگ لی۔

  • عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف  پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    پشاور : عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ، جس میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا پریس ریلیز آئین اور سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواست دائر کردی گئی ، درخواست میں چیف الیکشن کمشنر،الیکشن کمیشن ممبران ،سیکرٹری جوڈیشل کمیشن فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 17 اگست کو پریس ریلیز جاری کیا کہ انتخابات 3ماہ میں نہیں ہوسکتے، کےپی اسمبلی تحلیل کے 3ماہ میں الیکشن آئینی تقاضا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے ابھی حلقہ بندیاں شروع ہے 2023 تک جاری رہے گی، الیکشن کمیشن کا پریس ریلیز آئین اور سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرار دیا ہے آئینی مدت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، الیکشن التوا کے پیچھے ایسے عوامل ہے جو آئینی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، استدعا ہے کہ عدالت الیکشن کمیشن کے اس اقدام کو کالعدم قرار دے۔

  • چترال میں سیلاب نے کئی گاؤں اجاڑ دیے، اپر چترال کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع

    چترال میں سیلاب نے کئی گاؤں اجاڑ دیے، اپر چترال کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع

    چترال: موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ چترال میں بارشوں کے باعث سیلاب نے کئی گاؤں اجاڑ دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں سیلاب نے کئی گاؤں اجاڑ دیے، لوئر اور اپر چترال میں سیلاب سے متعدد گھر اور رابطہ پل پانی میں بہہ گئے۔

    میراگرام ، کوغذی، کاری اور وادئ کیلاش میں علاقہ مکینوں نے گھر خالی کر دیے ہیں، دریائے چترال بپھر جانے سے اپر چترال کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے، جس کے باعث لوگوں کو آمد و رفت میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

    ڈپٹی کمشنر چترال محمد علی نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں کی جانب سے ریسکیو ٹیمیں روانہ کر دی ہیں، شاہراہیں سیلاب میں بہہ گئی ہیں تاہم گرم چشمہ اور دنین کا راستہ بحال کر دیا گیا ہے۔

    سیلاب اور بارشوں نے وادئ کیلاش ﻣﯿﮟ بھی ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻣﭽﺎ ﺩﯼ ہے، کیلاش کے علاقے رمبور میں شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورت حال پیدا ہونے سے معتدد گھروں کو نقصان پہنچا، جب کہ بجلی گھر بھی متاثر ہوئے ہیں، رمبور میں بارش اور سیلاب سے باغات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، تاہم چترال میں بارشوں سے اب تک جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

  • چترال مسلسل ساتویں بار شندور پولو فیسٹول کا فاتح قرار

    چترال مسلسل ساتویں بار شندور پولو فیسٹول کا فاتح قرار

    چترال نے گلگت کی ٹیم کو شکت دے کر شندور پولو فیسٹول 2023 بھی اپنے نام کر لیا۔

    چترال کی ٹیم نے گلگت بلتستان کو 5 گول کے مقابلے میں 7 گول سے شکست دے کر مسلسل ساتویں بار فائنل کی فاتح ٹیم کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔

    دنیا کے، سب سے بلندی پر واقع کھیل کے میدان شندور کے پولو گراؤنڈ میں کھیلے گئے پولو فیسٹول میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی، سیاح شندور کے پولو گراؤنڈ میں کھیل کے ساتھ وادئ شندور کے خوب صورت نظاروں سے بھی محظوظ ہوئے۔

    تین روزہ پولو فیسٹول کا فائنل چترال کی ٹیم نے اپنے نام کیا تو چترال کے باسی خوشی سے جھوم اٹھے، کیلاشی رقص سمیت مختلف بینڈز نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور پیرا گلائیڈنگ کا بھی شان دار مظاہرہ کیا گیا۔

    چترال مسلسل ساتویں بار فاتح قرار

    چترال کی پولو ٹیم نے اس بار بھی جیت کی روایت برقرار رکھی اور ٹرافی اپنے نام کی، چترال ٹیم 2015 سے شندور پولو فیسٹول کا تاج اپنے سر سجاتے آ رہی ہے۔

    2015، 2016، 2017، 2018 اور 2019 میں چترال کی ٹیم نے مسلسل کامیابی سمیٹی، 2020 میں دنیا بھر میں کرونا وبا کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہوئے تو 2020 اور 2012 میں شندور پولو فیسٹول کا انعقاد بھی ممکن نہیں ہو سکا، یوں دو سال وقفے کے بعد 2022 میں شندور فیسٹول کا انعقاد کیا گیا۔

    گلگت کی ٹیم دو سال وقفے کے بعد پرامید تھی کہ وہ چترال کی فتح کے تسلسل کو توڑنے میں کامیاب ہوگی، لیکن 2022 میں بھی دل چسپ مقابلے کے بعد چترال پھر بازی لے گیا اور فاتح قرار پائی، اور اب 2023 کا فائنل جیت کر مسلسل ساتویں بار ٹائنل کا دفاع کیا۔

  • عدالتی فیصلے کے بعد کیا گاوری، توروالی اور گوجری زبان مردم شماری فارم میں جگہ پالے گی؟

    عدالتی فیصلے کے بعد کیا گاوری، توروالی اور گوجری زبان مردم شماری فارم میں جگہ پالے گی؟

    پشاور: پاکستان کی مقامی زبانیں گاوری، توروالی اور گوجری زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے ان زبانوں کے بولنے والے لوگوں کی کوششیں کچھ حد تک کامیاب ہونے لگی ہیں۔

    پشاور ہائیکورٹ نے مذکورہ زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کو بھیج دیا ہے اور ہدایات جاری کی ہیں کہ اگلا اجلاس جب بھی ہوگا تو تمام امور کا جائزہ لینے کے بعد ان زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

    اس کیس کی پیروی کرنے والے شاہد علی یفتالی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہم نے گاوری، توروالی اور گوجری زبان کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے، اس وقت ملک بھر میں نئی مردم شماری جاری ہے، فارم میں یہ زبانیں شامل نہیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان زبانوں کو بھی مردم شماری فارم میں شامل کیا جائے۔

    عدالت نے اب اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل بھیج دیا ہے، لیکن اس وقت ملک میں جاری مردم شماری میں ان زبانوں کو شامل کرنا ممکن نہیں لگ رہا ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے اور دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں، متشرکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی انتخابات کے بعد جب حکومتیں بنیں گی تو پھر کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا اور اس کے بعد اس معاملے کو بھی اجلاس میں رکھا جائے گا۔

    ایف ایل آئی ( فورم فار لینگویچ اینیشیٹیو، قومی زبانوں کے حوالے سے کام کر رہی ہے) کے رہنما اعجاز احمد نے بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ نے گاوری، توروالی اور گوجری زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے، یہ خوش آئند بات ہے لیکن ہم اب بھی اتنے پرامید نہیں ہیں کہ اتنی آسانی سے ان زبانوں کو مردم شماری فارم میں جگہ مل جائے گی، اس سے پہلے کھوار زبان کا مسئلہ بھی آیا تھا اور 2017 میں لوگ اس کو عدالت لے گئے تھے، پشاور ہائیکورٹ نے اس کیس میں بھی حکم جاری کیا تھا کہ اس کو آئندہ مردم شماری میں شامل کیا جائے لیکن حکومت نے مختلف بہانے بنائے اور ابھی تک اس کو مردم شماری فارم میں شامل نہیں کیا گیا۔

    پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں

    پاکستان میں 73 زبانیں بولی جاتی ہیں، اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، 2017 مردم شماری کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے، جب کہ دوسرے نمبر پر پشتو اور سندھی زبان تیسرے نمبر پر ہے۔

    پاکستان میں 38.78 فی صد لوگ پنجابی بولتے ہیں

    18.24 فی صد لوگ پشتو بولتے ہیں

    14.57 فی صد لوگ سندھی بولتے ہیں

    12.19 فی صد عوام سرائیکی بولتے ہیں

    قومی زبان اردو بولنے والوں کی تعداد 7.08 فی صد ہے

    3.02 فی صد بلوچی اور 6.12 فی صد لوگ دیگر زبانیں بولتے ہیں

    اعجاز احمد نے بتایا کہ اگر حکومت چاہے تو پاکستان کی تمام زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کر سکتی ہے، اب تو ڈیجیٹل مردم شماری شروع کی گئی ہے اور نمائندے ٹیبلٹ لے کر گھر گھر جا رہے ہیں اور لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، اب تو بہت آسان ہے کہ تمام زبانوں کو فارم میں شامل کیا جائے، لیکن پھر وہی بات آ جاتی ہے کہ اگر حکومت چاہے تو۔

    اعجاز نے بتایا کہ پاکستان میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ان تمام کو مردم شماری فارم میں شامل کرنا چاہیے اور ان زبانوں کو پہچان ملنی چاہیے، زبان ہر قوم کی شناخت ہوتی ہے اور پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں جتنے پاکستانی ہیں وہ مردم شماری میں زبان کو اپنے نام کے ساتھ ظاہر کر سکتے ہیں، باہر کے ممالک ہمارے لوگوں کو یہ اجازت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے نام کے ساتھ زبان کو ظاہر کریں لیکن بدقسمتی سے ہمارے اپنے ملک میں ان کو یہ اجازت نہیں دی جا رہی۔

    توروالی زبان

    توروالی زبان سوات، کوہستان، بحرین میں بولی جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔

    گاوری زبان

    گاوری زبان کالام، دیر کوہستان میں یہ زبان بولی جاتی ہے، اس کے بولنے والوں کی تعداد بھی تقریباً ایک لاکھ ہے۔

    گوجری زبان

    گوجری زبان آزاد کشمیر، سوات اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بولی جاتی ہے، اس کے علاوہ پوٹھوہار کے علاقے اور گلگلت میں بھی گوجری بولنے والے ملتے ہیں۔

    اعجاز احمد نے بتایا کہ گوجری کسی خاص ضلع یا علاقے کی زبان نہیں ہے، کشمیر میں اس کے بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ملک کے دیگر حصوں میں بھی گوجری بولنے والے کی خاصی تعداد موجود ہیں۔

    اعجاز احمد نے بتایا کہ گوجری، توروالی، گاوری زبان کے بولنے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے اور اس کی وجہ مردم شماری فارم میں اس کا شامل نہ ہونا ہے، جب مردم شماری فارم میں یہ شامل ہوگا تو پھر صحیح اعداد و شمار سامنے آئیں گے۔

    شاہد علی یفتالی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پہلے تو حکومتی لوگ ان زبانوں کو مان نہیں رہے تھے، عدالت میں حکومتی نمائندے نے کہا تھا کہ یہ کوئی زبان ہی نہیں ہے، اب عدالت نے اسے مشترکہ مفادات کونسل بھیج دیا ہے، عدالت کے حکم کے بعد اب ان زبانوں کو تحفظ مل گیا ہے، اور یہ اب مردم شماری فارم میں شامل ہوں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اب یہ لوگ حکومت سے مطالبہ بھی کر سکتے ہیں کہ ابتدائی نصاب میں بھی اس زبان کو شامل کیا جائے تاکہ ان کے بچے پانچویں جماعت تک اس کو اسکول میں پڑھ سکیں۔

    اعجاز احمد نے بتایا کہ گزشتہ مردم شماری میں حکومت نے 9 نئی زبانوں کو شامل کیا تھا اور اس بار 6 مزید زبانیں شامل کی ہیں، یہ بہت اچھا اقدام ہے لیکن جو علاقائی زبانیں شامل نہیں ہیں ان کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اب لوگ اس کے لیے عدالت جا رہے ہیں اور عدالت ان زبانوں کو مردم شماری میں شامل کرنے کے احکامات جاری کر رہی ہے، ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ آئندہ مردم شماری میں مزید 8 سے 10 زبانیں شامل کی جائیں۔

  • عمران خان اور فیض حمید کے خلاف درخواست دائر

    عمران خان اور فیض حمید کے خلاف درخواست دائر

    پشاور : پشاور ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور فیض حمید کے خلاف درخواست کی سماعت میں کہا کہ کمیشن بنانے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے آپ حکومت سے پہلے رابطہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور فیض حمید کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    وکیل نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے کچھ ایسے معاہدےکئے جس نے طالبان کو دوبارہ بحالی میں مدد کی، معاہدوں کی تحقیقات اورملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

    جسٹس عبدالشکور نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں بتائیں عدالت ایسے معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے؟ کمیشن بنانے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے آپ حکومت سے پہلے رابطہ کریں۔

    جسٹس عبدالشکور نے استفسار کیا ایمل ولی خان کون ہے اور کیا کام کرتا ہے، بابر خان یوسفزئی نے بتایا کہ ایمل ولی خان سیاسی پارٹی کا صوبائی صدر ہے۔

    جس پر جسٹس وقار احمد کا کہنا تھا کہ کیا پہلے ایسا ہوا ہے عدالت نے کمیشن بنانے کا حکم دیا ہو، یہ اختیار حکومت کا ہے حکومت کہے تو کمیشن بن سکتا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ آپ اس کو دیکھیں اور عدالت کی رہنمائی کریں، چائے کے وقفے کے بعد اس کیس کو دوبارہ سنیں گے۔

  • 9 مئی واقعات کی انکوائری کیلیے جے آئی ٹی بنانے کی درخواست دائر

    9 مئی واقعات کی انکوائری کیلیے جے آئی ٹی بنانے کی درخواست دائر

    پشاور ہائی کورٹ میں 9 اور 10 مئی واقعات کی انکوائری کیلیے جے آئی ٹی قائم کرنے کیلیے درخواست دائر کر دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق درخواست انصاف لائرز فورم کی جانب سے قاضی انور ایڈوکیٹ نے دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جو واقعات ہوئے اس کی انکوائری کیلیے جے آئی ٹی قائم کی جائے۔

    درخواست گزار نے کہا کہ جے آئی ٹی 9 مئی کے واقعات کی انکوائری کر کے ذمہ داروں کا تعین کرے، ہائی کورٹ جج کی سربراہی میں ریٹائرڈ پولیس افسر اور ایکسپرٹس پر مشتمل جے آئی ٹی قائم کی جائے۔

    انصاف لائرز فورم کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی ریڈیو پاکستان، چاغی یادگار، مردان، صوابی اور سوات واقعات کی انکوائری کرے، رہنماؤں، ورکرز کے گھروں پر چھاپوں، چادر اور چار دیواری کی خلاف ورزی پر انکوائری کرے۔