Author: عثمان دانش

  • خیبرپختونخوا اسمبلی بحال کرنے کے لئے ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    خیبرپختونخوا اسمبلی بحال کرنے کے لئے ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    پشاور : خیبرپختونخوا اسمبلی بحال کرنے کے لئے درخواست دائر کردی گئی، جس میں 18 جنوری 2023 کو اسمبلی تحلیل کے اقدام کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں خیبرپختونخوا اسمبلی بحال کرنے کے لئے درخواست دائر کردی گئی، درخواست محمد فرقان نے سیف اللہ محب کاکاخیل کی وساطت سے دائر کی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا نے بغیر کسی وجہ کے پارٹی سربراہ کی ہدایات پر اسمبلی تحلیل کی، تحریک انصاف کے چیئرمین نے بھی بعد میں کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل کا مشورہ ان کو کسی اور نے دیا تھا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ 9 مئی کو افسوسناک واقعات ہوئے، الیکٹڈ حکومت ہوتی تو ایسے واقعات رونما نہ ہوتے، ملک میں نئے الیکشن کا دور دور کوئی امکان نہیں ہے۔

    دائر درخواست میں کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی استعفوں کو کالعدم قرار دیا ہے، صوبائی اسمبلی تحلیل کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔

    درخواست گزار نے کہا کہ قومی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے اسمبلی کو بحال کیا تھا۔

    درخواست میں 18 جنوری 2023 کو اسمبلی تحلیل کے اقدام کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت بھی ناکام ہوچکی ہے, نگران حکومت کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہوتے، ملک میں مہنگائی عروج پر ہے عوام شدید مشکلات کا شکار ہے۔

    درخواست میں وفاقی اور صوبائی حکومت, الیکشن کمیشن اور سیکرٹری قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • خیبر پختون خوا میں تیندوے آبادی کا رخ کرنے پر کیوں مجبور ہو رہے ہیں؟

    خیبر پختون خوا میں تیندوے آبادی کا رخ کرنے پر کیوں مجبور ہو رہے ہیں؟

    انسانی آبادی میں اضافے سے جہاں خود انسان متاثر ہو رہے ہیں، وہاں جنگلی حیات کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں، ملک کے صوبے خیبر پختون خوا میں گزشتہ کچھ عرصے سے تیندووں کی آبادی کی طرف آنے اور لوگوں کی جانب سے ان کو ہلاک کرنے کی خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں، اس رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ تیندوے کیوں آبادی کا رخ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

    تیندوے خوں خوار جانور ہیں اور پہاڑی علاقوں میں انسانوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن کبھی کبھار شکار کے پیچھے انسانی آبادی کے قریب بھی آ جاتے ہیں، جو اُن کی زندگی کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہوتا۔

    تیندوے آبادی کی طرف کیوں آتے ہیں؟

    اس سوال پر کہ تیندوے آبادی کی طرف کیوں آتے ہیں؟ کنزرویٹر وائلڈ لائف ہزارہ محمد حسین نے بتایا کہ انسانی آبادی میں اضافہ جنگلی حیات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، تیندوے اور دیگر جنگلی جانور انسانوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اب آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور پہاڑی علاقوں میں بھی تعمیرات شروع ہو گئے ہیں۔ جنگلی حیات کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہے، لوگ جنگل میں تعیمرات کریں گے تو ایسے میں جانور کہاں جائیں گے، وہ آبادی کی طرف ہی آئیں گے، اور حالیہ رونما ہونے والے کچھ واقعات بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔

    ڈویژنل فارسٹ وائلڈ آفیسر ڈی آئی خان اشتیاق وزیر نے بتایا کہ سردیوں میں پہاڑوں پر برف باری کی وجہ سے جانوروں کا خوارک کم ہو جاتا ہے، تو تیندوے بھی خوراک کی تلاش میں نیچے آتے ہیں، جب ان کو خوراک نہیں ملتا تو پھر مجبوری میں آبادی کا رخ کرتے ہیں۔

    تیندووں کی پسندیدہ خوراک کیا ہے؟

    اشتیاق وزیر نے بتایا کہ تیندؤں کی پسندیدہ خوراک بندر ہے، اور یہ بندروں کو بڑے شوق سے کھاتے ہیں، ان کی آبادی کی طرف آنے کی ایک وجہ بندر بھی ہے، بندروں کو جنگل میں خوراک نہیں ملتا تو وہ آبادی کی طرف آتے ہیں، سیاحتی مقامات پر اگر دیکھا جائے تو لوگ اپنے ساتھ خوراک لے جاتے ہیں تو پھر وہ ان بندروں کو بھی خوراک دیتے ہیں۔ اس وجہ سے بندر جنگل کی طرف نہیں جاتے۔ جب تیندوو کو پسندیدہ خوراک نہیں ملتی تو وہ شکار کے لیے آبادی کی طرف آ جاتے ہیں۔ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر نھتیاگلی، ایوبیہ کی کئی ایسی ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن میں تیندؤں کو سڑک کنارے دکھایا گیا ہے۔

    انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر ( آئی سی یو این) کے مطابق تیندوے معدومی کے شکار جانوروں کی فہرست میں شامل ہیں اور دنیا بھر میں ان کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ شکار کے پیچھے انسانی آبادی کی طرف آنا ہے، محکمہ وائلڈ لائف خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تیندؤں کی تعداد میں معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔

    خیبر پختونخوا میں تیندووں کی تعداد میں اضافہ

    کنزرویٹر وائلڈ لائف ہزارہ ڈویژن محمد حسین نے بتایا کہ خیبر پختون خوا میں گزشتہ کچھ سالوں سے تیندووں کی تعداد میں معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، ایوبیہ، نتھیاگلی، مانسہرہ، چراٹ، ضلع خیبر میں تیندووں کی بڑی تعداد موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ ان کی زندگی کو لاحق خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔

    تیندوے خاص علاقے میں شکار کرتے ہیں

    اشتیاق وزیر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ خیبرپختون خوا میں تیندووں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، تیندووں کا جوڑا ایک خاص علاقے میں شکار کرتا ہے اور اس علاقے میں پھر دوسرے تیندوے کو برداشت نہیں کرتے، جب ان کے علاقے میں دوسرا جوڑا داخل ہوتا ہے تو یہ ان کو بھگاتے ہیں اور اس وجہ سے تیندوے کا وہ جوڑا دوسرے علاقے کا رخ کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تیندووں کی تعداد میں اضافہ بھی انسانی آبادی کے قریب آنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ جنگلات کے قریب تعیمرات پر پابندی لگائی جائے۔

    اشتیاق وزیر کے مطابق مارگلہ پہاڑی سلسلے، کوہ سلیمان کے سلسلے، خیبر، درہ آدم خیل، کرم، شمالی وزیرستان میں تیندوے پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ابھی نئی سروے نہیں ہوئی ہے لیکن تیندووں کی ایک بڑی تعداد ان علاقوں میں موجود ہے، ضم اضلاع میں اب تک وائلڈ لائف دفاتر نہیں تھے، لیکن اب بن رہے ہیں، ان اضلاع میں پہلے جب لوگ جنگلی جانوروں کو مارتے تھے تو وہ میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے تھے کیوں کہ وہاں پر وائلڈ لائف محکمے کی رسد نہیں تھی، لیکن اب وہاں دفاتر بن رہے ہیں۔ وائلڈ لائف اہلکاروں کی موجودگی میں لوگوں کو بھی آگاہی حاصل ہوگی اور پھر لوگ خود جانوروں کو نہیں ماریں گے بلکہ وائلد لائف اہلکاروں کو اطلاع دیں گے، اس طرح جانوروں کو زندہ پکڑ کر محفوظ علاقے میں منتقل کیا جائے گا۔

    گزشتہ مہینہ تیندوے پر بھاری رہا

    کچھ دنوں سے تیندووں کے بارے میں اچھی خبریں نہیں آ رہی ہیں، خیبر پختون خوا کے علاقے درہ آدم خیل میں کچھ دن پہلے دو تیندووں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا، مقامی افراد کے مطابق تیندوے آبادی میں داخل ہو گئے تھے اور انھوں نے کچھ مویشیوں کو مار دیا تھا، تیندووں کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس بھی پھیل گیا تھا، جس کی وجہ انھیں ہلاک کیا گیا۔

    مانسہرہ کے علاقے کاوی میں بھی 19 فروری کی صبح سڑک کنارے ایک تیندوا زخمی حالت میں ملا تھا، محکمہ وائلڈ لائف ہزارہ کے مطابق صبح کے وقت ان کو اطلاع ملی کہ مادہ تیندوا زخمی حالت میں سڑک کنارے پڑا ہے، جس پر وائلڈ لائف کی ٹیم وہاں پہنچی اور تیندوے کو زخمی حالت میں ڈھوڈیال فیزنٹری منتقل کیا گیا، جہاں تیندوے کا علاج جاری ہے۔

    محکمہ وائلڈ لائف حکام کے مطابق تیندوا روڈ کراس کرتے وقت گاڑی کی زد میں آیا تھا، جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو گیا، کنزرویٹر وائلڈ لائف ہزارہ محمد حسین کے مطابق مادہ تیندوے کو کمر پر چوٹ آئی ہے لیکن اس کی ریڑھ کی ہڈی محفوظ ہے، اور اسے صحت یابی کے بعد جنگل میں چھوڑا جائے گا۔

    پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی رہائشی سوسائٹی ڈی ایچ اے فیز ٹو میں بھی ایک تیندوا داخل ہوا تھا، جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں، تو اس کے بعد محکمہ وائلڈ لائف اور ریسکیو کی ٹیمیں وہاں پہنچیں، اور کئی گھنٹے آپریشن کے بعد تیندوے کو زندہ پکڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسلام آباد دارالخلافہ ہے، اس لیے تیندوے کی قسمت اچھی تھی کہ لوگوں نے اسے مارا نہیں، بلکہ وائلڈ لائف اہلکاروں کو اطلاع دے دی، جب کہ درہ آدم خیل میں تیندووں کا فیصلہ خود عوام نے کیا۔

  • پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    پشاور: جسٹس مسرت ہلالی نے پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا، دو دن میں پشاور ہائیکورٹ کے دو چیف جسٹس کی عہدوں سے سبکدوشی کے بعد، جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

    جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جب تک پشاور ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تقرری نہیں کی جاتی، تب تک جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی 2013 کو پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں، پھر 2014 میں ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔ اس وقت جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی سینئر ترین جج ہیں، قائمقام چیف جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس مسرت ہلالی کو قائمقام چیف جسٹس ہائیکورٹ تعینات کیا گیا۔

    جسٹس مسرت ہلالی

    مسرت ہلالی 8 اگست 1961 کو پشاور میں پیدا ہوئیں، ان کا آبائی گاؤں ملاکنڈ ڈویژن میں ہے، انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خیبر لا کالج پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد انھوں نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کر لیا۔ 1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔

    مختلف عہدوں پر تعیناتی

    جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختون خوا کی پہلی بار وکیل تھیں جو 2001 سے 2004 تک ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہیں۔ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ٹربیونل کی پہلی خاتون چیئر پرسن اور پہلی صوبائی محتسب کا اعزاز بھی جسٹس مسرت ہلالی کو حاصل ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی وکالت کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی سرگرم رہی ہیں، 1992 سے 1994 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون نائب صدر کے عہدے پر تعینات رہیں۔ 1997 سے 1998 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون جنرل سیکریٹری بھی رہی ہیں، اور 2007 سے 2009 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون ایگزیکٹو ممبر بھی رہیں۔

    وکلا تحریک کے دوران ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی

    2007 کی وکلا تحریک میں جسٹس مسرت ہلالی بھی دیگر وکلا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں، وکلا احتجاج کے باعث پولیس وکلا کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی، پولیس نے جسٹس مسرت ہلالی کے گھر پر بھی چھاپا مارا تو اس دوران ان کی ایک ٹانگ فریکچر ہو گئی تھی۔

    وکلا کیا کہتے ہیں؟

    پلوشہ رانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے، ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون جج نے آج قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھایا ہے، وکالت کے شعبے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو اتنے مواقع نہیں ملتے لیکن جسٹس مسرت ہلالی نے خود کو منوایا، امید ہے جوڈیشل کمیشن جلد ان کی مستقل چیف جسٹس تقرری کی منظوری بھی دے گا۔

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل ندا خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کا چیف جسٹس بننا پورے پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی جدوجہد کا نام ہے، یہ مقام انھوں نے اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کیا ہے۔ ندا خان نے بتایا کہ نوجوان خواتین وکلا کے لیے جسٹس مسرت ہلالی مشعل راہ ہیں۔

    علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی نہ صرف ایک وکیل بلکہ سماجی کارکن بھی رہی ہیں، اور بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔ وکلا تحریک میں وہ صف اول میں کھڑی رہیں، ان کی قابلیت ہی تھی جس کی وجہ سے ان کو ہائیکورٹ جج تعینات کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی اپنے کورٹ روم کو بھی بڑے بیلنس انداز میں چلاتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے تمام وکلا ان کی عدالت میں کیس آرگو کرنا پسند کرتے ہیں۔

    جسٹس ہلالی نے پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    علی گوہر درانی نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کی چیف جسٹس بننے سے خواتین نوجوان وکلا کو بہت حوصلہ ملا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین وکلا وکالت کا شعبہ اختیار کرتی ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں، شائد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ یہاں ان کے لیے مواقع کم ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے اور اس کی مثال جسٹس مسرت ہلالی ہیں۔

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل نازش مظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جج جج ہوتا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، جسٹس مسرت ہلالی بھی ہائیکورٹ کی ایک قابل جج ہیں اور اسی وجہ سے قائمقام چیف جسٹس تعینات ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب خواتین کے لیے فخریہ فخریہ ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے محنت کی اور آج پورے پاکستان کی خواتین کو ان پر ناز ہے۔

  • ایک دن کے چیف جسٹس کون ؟

    ایک دن کے چیف جسٹس کون ؟

    قائمقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس روح الامین نے تاریخ رقم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس روح الامین پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم عرصہ یعنی ایک دن قائمقام چیف جسٹس رہنے والے پہلے جج بن گئے۔

    پشاور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس روح الامین آج پشاور ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے گورنر خیبرپختونخوا غلام علی نے آج صبح ان سے حلف لیا۔

    حلف لینے کے بعد قائمقام چیف جسٹس روح الامین نے چارج سنبھالا اور بطور قائمقام چیف جسٹس تین کیسز کی سماعت کی۔

    عدالتی کارروائی ختم ہونے کے بعد ہائیکورٹ اسٹاف نے قائمقام چیف جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کی تیاری شروع کی۔

    پشاور ہائیکورٹ کا کمرہ عدالت نمبرایک کچھ ہی لمحوں میں وکلا سے کچھا کھچ بھر گیا، ہائیکورٹ کے تمام ججز صاحبان فل کورٹ ریفرنس میں شریک ہوئے۔

    ایڈوکیٹ جنرل عامر جاوید، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ثنااللہ اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رحمان اللہ ایڈوکیٹ نے قائمقام چیف جسٹس جسٹس روح الامین کی خدمات پر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔

    جسٹس روح الامین نے بھی تمام وکلا نے بھی اپنے اسٹاف اور فیملی کا شکریہ ادا کیا، تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ بطور جج انہوں نے سائلین کو انصاف فراہمی کی بھرپور کوشش کی۔

    اسی اعزاز کے ساتھ قائمقام چیف جسٹس روح الامین تقریبا بارہ سال پشاور ہائیکورٹ کے جج رہنے کے بعد آج عہدے سے سبکوش ہوگئے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ میں دو دن میں دو چیف جسٹس مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان تیس مارچ کو جبکہ آج جسٹس روح الامین ایک دن کے لئے قائمقام چیف جسٹس تعیناتی کے بعد عہدے سے ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔

    یکم اپریل سے سینئر ترین جج جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گی۔

    جسٹس روح الامین

    جسٹس روح الامین یکم اپریل 1961 کو پشاور کے علاقے چمکنی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول سے حاصل کی، انیس سو چھہتر ستتر میں گورنمنٹ سیکنڈری اسکول چمکنی سے سیکنڈری تعلیم حاصل کرنے کے بعد انیس سو اکیاسی بیاسی میں گورنمنٹ کالج پشاور سے گریجویشن مکمل کی۔

    انیس سو پچاسی میں خیبر لاء کالج پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انیس سو چھیاسی میں وکالت کا شعبہ اختیار کیا، انیس سو نواسی میں پشاور ہائیکورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا اور دو ہزار ایک میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بنے۔

    جولائی دو ہزار بارہ میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے اور مارچ دو ہزار چودہ میں ہائیکورٹ کے مستقل جج بن گئے۔

    جسٹس روح الامین کن عہدوں پر تعینات رہے؟

    جسٹس روح الامین اپنے پروفیشنل لائف میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے وہ ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان بھی رہے۔

    بطور وکیل جسٹس روح الامین کو آئینی، سول، کرمنل، سروس اور لیبر قانون پر عبور حاصل تھا۔

    وہ بار کی سیاست میں بھی سرگرم رہے انیس سو چورانوے پچانوے میں ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری بھی رہے، 2003 سے 2006 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایگزیگٹیو کمیٹی کے رکن رہے۔

  • جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس تعینات

    جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس تعینات

    پشاور: جسٹس مسرت ہلالی یکم اپریل سے پشاور ہائیکورٹ کی قائمقام چیف جسٹس تعینات ہوں گی۔

    تفصیلات کے مطابق 30 مارچ کو چیف جسٹس قیصر رشید خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پشاور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس روح الامین ایک دن کے لیے قائمقام چیف جسٹس تعینات کر دیے گئے ہیں۔

    31 مارچ کو جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گی۔ جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس ہوں گی۔

    صدر مملکت نے جسٹس روح الامین کی ایک دن اور جسٹس مسرت ہلالی کو مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی تک قائمقام چیف جسٹس تعینات کیا ہے۔

    وزارت قانون کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق جوڈیشل کمیشن جب تک مستقل چیف جسٹس کی تقرری نہیں کرتا اس وقت تک جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی 2013 کو پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں اور پھر 2014 میں ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    8 اگست 1961 کو ملاکنڈ دویژن کے گاؤں بٹ خیلہ میں پیدا ہونے والی جسٹس مسرت ہلالی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے پشاور منتقل ہوئیں۔

    پشاور یونیورسٹی خیبر لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کر لیا۔

    1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا، 2013 میں وہ پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج مقرر ہوئیں اور 2014 میں ان کو مستقل جج تعینات کر دیا گیا۔

  • پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات کو چیلنج کر دیا

    پشاور: پاکستان تحریک انصاف کے سابق ممبران قومی اسمبلی نے 16 مارچ کو ہونے والے ضمنی انتخابات کو ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔

    درخواست میں عدالت سے 16 مارچ کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے پراسس کو معطل کرنے اور 16 مارچ کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے پراسس کو روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی, سیکرٹری قومی اسمبلی, الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی نے بیرسٹر گوہر خان کی وساطت سے دائر کیا ہے۔

    مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اسپیکرقومی اسمبلی نے قانونی نکات پورے کئے بغیر 35 اراکین کے استعفی منظور کئے ممبران قومی اسمبلی استعفی کی تصدیق کے لئے سپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوئے لیکن سپیکر نے ان کے استعفی منظور کئے آئین کے مطابق اسپیکر ممبران کی جانب سے استعفی کی تصدیق کئے بغیر استعفی منظور نہیں کرسکتے۔

    درخواست کے مطابق 15 جنوری کو پنجاب اور 17 کو خیبرپختونخوا کے اسمبلی تحلیل کی تو اسپیکر نے پہلے 35 اور پھر 42 ممبران کے استعفی منظور کئے اسپیکر نے خود رولنگ دی کہ ویریفیکیشن کے بغیر استعفی منظور نہیں کرے گے اب اسپیکر نے خود استعفی منظور کئے ہیں وہ غیر قانونی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا اعلان کیا تو اسپیکر نے ممبران کی استعفی منظور کئے اسپیکر نے 35 ممبران اسمبلی کو استعفی کی تصدیق کے لئے بلائے بغیر ان کے استعفی منظور کئے جو غیر قانونی ہے سپریم کورٹ نے بھی کیس کے سماعت کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی ممبران کو پارلیمنٹ میں واپس جانا چاہیئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ممبران کو پارلیمنٹ میں واپس جاکر جمہوری پراسس میں حصہ لینا چاہیئے۔

  • نوشہرہ پولیس کی بربریت، نوجوان پر چچا کے گھر چوری کے الزام میں بدترین تشدد

    نوشہرہ پولیس کی بربریت، نوجوان پر چچا کے گھر چوری کے الزام میں بدترین تشدد

    پشاور: نوشہرہ پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نوجوان کو چچا کے گھر چوری کے الزام میں اٹھا کر بدترین تشدد کا نشانہ بنا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے ایک نوجوان ثاقب الرحمٰن کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور اس پر بد ترین تشدد کرنے پر پولیس افسران کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دے دیا۔

    آج جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ میں نوشہرہ میں شہری پر پولیس کے بے جا تشدد کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے ڈی پی او نوشہرہ، ایس ایچ او اضاخیل، انچارج پولیس پوسٹ پشتون گڑھی کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    خالد انور ایڈووکیٹ نے شہری پر پولیس تشدد کی تصاویر عدالت میں پیش کر دیں، اور عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار چچا کے ساتھ پشاور گیا اور جب واپس آیا تو ان کے چچا کے گھر چوری ہوئی تھی، پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی، اور پھر پولیس درخواست گزار ثاقب کو تفتیش کے لیے اٹھا کر لے گئے۔

    وکیل نے بتایا کہ پولیس نے درخواست گزار ثاقب الرحمٰن کے والد کو بتایا کہ معمول کی تفتیش کے لیے لے جا رہے ہیں لیکن جب وہ گھر نہیں آیا تو ان کے والد نے سیشن جج کی عدالت میں حبس بے جا میں رکھنے کی درخواست دے دی، جب پولیس کو درخواست کا پتا چلا تو انھوں نے ثاقب کو چھوڑ دیا۔

    وکیل کے مطابق ثاقب جب گھر آیا تو پولیس تشدد کے باعث اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں تھا، جس پر اسے اسپتال لے جایا گیا، ڈاکٹر نے بھی تشدد کی تصدیق کر دی ہے۔

    وکیل نے عدالت میں کہا کہ آئے روز پولیس کی جانب سے شہریوں پر تشدد کی شکایات سامنے آ رہی ہیں، ایک بے گناہ شہری کو پولیس نے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا اور ٹارچر کیا، یہ کہاں کا انصاف ہے، ثاقب پر جس طرح تشدد کیا گیا ہے اس سے تو شہری ذہنی مریض بننے کا خطرہ ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پولیس لوگوں کو بغیر کسی جرم کے اٹھاتی ہے، جو آئین اور قانون کی خلاف وزری ہے، استدعا کی جاتی ہے کہ متعلقہ افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، تاکہ آئندہ کسی بے گناہ شہری کے ساتھ ایسا نہ ہو۔

    کیس کی سماعت کے بعد عدالت نے ڈی پی او نوشہرہ، ایس ایچ او اضاخیل اور تھانہ انچارج کو 28 فروری کو طلب کر لیا۔

  • پشاور ہائیکورٹ بار نے حکومت سے اقتصادی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا

    پشاور ہائیکورٹ بار نے حکومت سے اقتصادی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا

    پشاور: ملک میں شہباز شریف کی حکومت کے بعد مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، ایسے میں پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے حکومت سے اقتصادی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے حالیہ مہنگائی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، وکلا نے مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکامی پر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کر دیا، صدر ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت نے عالمی اداروں کے دباؤ میں مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے، حکومت فوری طور پر اقتصادی ایمرجنسی نافذ کرے۔

    رحمان اللہ نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹرینز اور سرکاری ملازمین کا مختص پٹرول، بجلی، گیس اور وی آئی پی پروٹوکول کا کوٹہ فوری ختم کیا جائے، ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کی وجہ سے دفاعی بجٹ کو بھی کم کرنے پر غور کیا جائے۔

    صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ حکومت معاشی بہتری کے لیے اقتصادی ماہرین پر مشتمل بورڈ تشکیل دیں، اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے۔

    انھوں نے کہا کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی تو وکلا کے پاس حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔

  • سندھ حکومت کا پشاور کے عوام کے لیے تحفہ

    سندھ حکومت کا پشاور کے عوام کے لیے تحفہ

    پشاور: سندھ حکومت نے پشاور چڑیا گھر کو 2 مگرمچھ تحفے میں دے دیے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے پشاور کے عوام کے لیے تحفہ بھیجا گیا ہے، جو مگرمچھوں کے ایک جوڑے کی صورت میں ہے۔

    ترجمان وائلڈ لائف لطیف الرحمٰن نے بتایا کہ سندھ سے آئے مگرمچھ پشاور چڑیا گھر پہنچا دیے گئے ہیں، مگرمچھ کی جوڑی سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے خیبر پختون خوا وائلڈ لائف کو گفٹ کی ہے۔

    وائلڈ لائف کے ترجمان نے مزید بتایا کہ مگرمچھ جوڑے کو چڑیا گھر میں ان کے مخصوص کمپاؤنڈ میں رکھا گیا ہے، نر اور مادہ مگرمچھ 4 سے 5 میٹر لمبے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ پشاور چڑیا گھر میں بھی اب عوام کو مگر مچھ دیکھنے کو ملیں گے۔ چڑیا گھر میں مہمان مگرمچھوں کا پورا خیال رکھا جا رہا ہے۔

  • نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیلئےاعظم خان کے نام پراتفاق ہوگیا

    پشاور: سیاسی تلخی میں تازہ ہوا کا جھونکا، خیبر پختونخواہ میں نگراں وزیراعلیٰ کا نام فائنل کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیکر ہاؤس میں وزیراعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈراکرم دارنی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ نگراں وزیراعلیٰ کیلئےاعظم خان کےنام پراتفاق ہوگیا ہے۔

    اپوزیشن لیڈراکرم درانی نے بتایا کہ اعظم خان ریٹائرڈبیورو کریٹ اورسابق چیف سیکریٹری رہ چکے ہیں اور صوبے میں اچھی ساکھ کے حامل ہیں

    باہمی مشاورت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خیبرپختونخوا اکرم خان درانی نے کہا کہ ہم  نےمشورہ کیا کہ قوم کو مزید مشکلات میں نہیں ڈالیں گے، معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہونے پر وزیراعلیٰ محمود خان، پرویزخٹک اوراسپیکرصاحب کا مشکور ہوں۔

    اکرم خان درانی نے بتایا کہ دو تین نام میرے پاس تھے جبکہ دو نام میرے پاس، ان کے نام بھی اچھےتھےاور ہمارے نام بھی، اعظم خان اورظفراللہ خان ہماری طرف سےتھے جبکہ اویس حیا الدین،صاحبزادہ سعید کا نام ان کا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  کے پی حکومت کی جانب سے نگراں وزیر اعلیٰ کیلیے 2 نام زیرِ غور

    انہوں نے بتایا کہ مشورہ کیا کہ ایک ایسا آدمی ہو جو معیشت اور صوبےکےحالات سے واقف ہو، ان سب میں بہترکا چناؤ کیا اور ہمارا اعظم خان کےنام پراتفاق ہوگیا۔

    یاد رہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد گورنر حاجی غلام علی نے وزیراعلیٰ محمودخان اور اپوزیشن لیڈراکرم درانی کو نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے سلسلے میں مشاورت کرنے کی ہدایت اور اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔

    واضح رہے کہ اعظم خان چیف سیکرٹری سمیت دیگر عہدوں پر رہ چکے ہیں، وہ سابق نگراں وفاقی وزیر بھی رہے، اس کے علاوہ وہ پیٹرولیم اور مذہبی امور کی وزارتوں کے وفاقی سیکریٹری بھی رہے ہیں۔