Author: عثمان دانش

  • ’لطیف لالا اب ہم میں نہیں رہے‘

    قانون کی بالادستی کے لیے صف اوّل میں کھڑے رہنے والے لطیف لالا اب ہم میں نہیں رہے۔

    سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبدالطیف آفریدی، جنھیں لوگ لالا کے نام سے پکارتے تھے، کو ہائیکورٹ بار میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔

    پولیس اور واقعے کے وقت ہائیکورٹ بار روم میں موجود وکلا کے مطابق حملہ آور، جس نے وکیل کا روپ دھارا تھا، بار روم میں داخل ہوا اور عبدالطیف آفریدی ایڈووکیٹ پر 5 گولیاں برسا دیں، جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گئے، جس صوفے میں وہ بیٹھے تھے اسی صوفے پر انھیں ہائیکورٹ کے باہر لایا گیا اور گاڑی میں ان کو قریب واقع لیڈی ریڈنگ اسپتال لے جایا گیا، تاہم اسپتال انتظامیہ کے مطابق اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ جاں بحق ہو چکے تھے۔

    ایس ایس پی آپریشن کے مطابق ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس کی شناخت عدنان آفریدی ولد سمیع اللہ کے نام سے ہوئی ہے، ملزم سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔

    بار روم میں موجود وکلا کے مطابق عبدالطیف آفریدی بار روم میں سامنے صوفے پر بیٹھے تھے اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اس دوران مسلح شخص نے ان پر فائرنگ شروع کر دی، فائرنگ کے واقعے کے کچھ لمحے بعد جب میں خود (راقم تحریر) بار روم پہنچا، تو وہاں پر دیکھا کہ صوفوں پر خون کے نشان تھے اور لطیف لالا جس لاٹھی کے سہارے چلتے تھے، وہ بھی صوفے پر پڑی تھی۔

    عبدالطیف آفریدی کون تھے

    عبدالطیف آفریدی 1943 میں ضلع خیبر (انضمام سے پہلے خیبر ایجنسی) کے علاقے تیراہ میں پیدا ہوئے، انھوں نے 1966 میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کیا، زمانہ طالب علمی میں 1964 کے الیکشن میں فاطمہ جناح کی حمایت پر ان کو یونیورسٹی سے نکالا گیا، پھر اسی یونیورسٹی سے لطیف لالا نے دو سال بعد ہی ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر لی اور 1968 میں وکالت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔

    لطیف آفریدی کے صاحب زادے دانش آفریدی ایڈووکیٹ

    پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رحمان اللہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ لطیف لالا کا قتل بہت بڑا سانحہ ہے، سیکیورٹی اداروں سے بار بار ہم نے لالا کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا، ہم کہتے رہے کہ ان کی زندگی کو خطرات لا حق ہیں، لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، آج عبدالطیف لالا ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔

    رحمان اللہ ایڈوکیٹ نے بتایا کہ لطیف لالا نے شروع دن سے قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے جنگ لڑی ہے، وکلا تحریک میں وہ صف اوّل میں کھڑے رہے، انھوں نے غریبوں کی جنگ لڑی، اور پختون قوم کی جنگ لڑی۔

    وکالت اور سیاسی سفر

    عبدالطیف آفریدی ایک پروفیشنل وکیل تھے، وہ وکالت کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے، پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے 6 بار صدر رہے، پاکستان بار کونسل کے بھی نائب صدر رہے، 2020/21 میں وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔

    ہائیکورٹ بار ہو یا کوئی سیاسی تقریب، انھیں ایک ہی بات کہتے سنا گیا کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہو، تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں، تب ہی ملک ترقی کرسکتا ہے۔

    لطیف آفریدی ایڈووکیٹ ملک میں مارشل لا کے سخت خلاف تھے، ملک میں جب بھی مارشل لا لگا، لطیف آفریدی نے مخالف تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کئی بار وہ جیل بھی گئے۔

    سابق صدر پرویز مشرف نے 2007 میں ایمرجنسی لگائی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا تو وکلا تحریک کا آغاز پشاور سے ہوا، 6 اکتوبر کو ہائیکورٹ کے سامنے وکلا احتجاج کررہے تھے تو پولیس نے ان پر دھاوا بولا، ایک بکتربند گاڑی ان کی ٹانگ پر چڑھ دوڑی، جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی، اور اس کے بعد سے وہ لاٹھی کے سہارے چلنے لگے۔

    بیٹا کیا کہتا ہے

    عبدالطیف آفریدی کے بیٹے دانش آفریدی جو خود بھی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، نے بتایا ’’یہ بہت بڑا سانحہ ہے، وہ میرے والد تھے، ان کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔‘‘ دانش آفریدی ایڈووکیٹ نے کہا ’’ہماری دشمنی تھی، لیکن گولی مارنا اور وہ بھی ہائیکورٹ بار روم کے اندر، یہ بہت تشویش ناک ہے، اس سے پہلے بھی ہمارے خاندان کے لوگوں کو مارا گیا وہ بھی بے گناہ تھے، میرے والد کو بھی بے گناہ قتل کیا گیا، جس پر ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔‘‘

    دانش آفریدی نے کہا ’’میرے والد اور مجھ پر قتل کا الزام لگایا گیا، میں خود جیل گیا، عدالت میں کیس چلا اور ہم اس کیس سے بری ہو گئے، عدالت جب بری کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ملزم بے گناہ ہے۔‘‘ دانش نے بتایا ’’جب میں جیل گیا تو وہاں پر دیکھا ہزاروں لوگ بے گناہ جیل میں پڑے ہیں، میری حکومت اور عدالتوں سے التجا ہے کہ جو بے گناہ لوگ جیلوں میں پڑے ہیں ان کے کیسز کو جلد سنا جائے اور انھیں بری کیا جائے۔‘‘

    دانش آفریدی نے بتایا ’’صبح میرے والد ہائیکورٹ کیسز میں پیشی کے لیے گئے، روزانہ ہزاروں سائلین اپنے مسائل کے حل کے لیے ہائیکورٹ آتے ہیں، ہمارا جو نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا، کسی دوسرے کے ساتھ ایسا واقعہ نہ ہو، اس کے لیے اقدامات کیے جائیں، کیوں کہ ہائیکورٹ بھی غیر محفوظ ہوگا تو وکلا اور سائلین کہاں جائیں گے؟‘‘

    دانش کے مطابق ان پر صوبے میں دوبارہ ٹارگٹ کلنگ اور دستی بم حملے شروع ہو گئے ہیں، عوام کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، ریاستی اداروں اور حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

    عبدالطیف آفریدی ایڈووکیٹ کی نماز جنارہ باغ ناران میں ادا کر دی گئی ہے، نماز جنازہ میں وکلا، ججز، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی، ان کو بڈھ بیر قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • مری، گلیات میں برف باری شروع، پچھلے برس 23 سیاحوں کی ہلاکت کے خوف کی بازگشت

    پشاور: پاکستان کے مشہور تفریحی مقامات مری اور گلیات میں برف باری شروع ہو گئی ہے، سرد برفیلے موسم کے ساتھ ہی پچھلے برس کے 23 سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کے خوف کی بازگشت بھی ذہنوں میں تازہ ہو گئی ہے، تاہم رواں برس کسی سانحے سے بچنے کے لیے ایک پلان مرتب کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی احسن حمید نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال شدید برف باری کے باعث جو صورت حال پیدا ہوئی تھی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے گلیات میں سیاحوں کی حفاظت کے لیے ایک پلان مرتب کیا گیا ہے۔

    پلان کے مطابق گلیات کو 4 یونٹس میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا یونٹ نتھیا گلی، دوسرا ڈونگا گلی، تیسرا چھانگا گلی اور چوتھا یونٹ پاڑیاں کا علاقہ ہوگا، جو خیبر پختون خوا اور مری کو آپس میں ملاتا ہے، اس مقام کو بھی ایک حکمت عملی کے تحت دیکھا جائے گا۔

    ترجمان احسن حمید نے بتایا کہ جب برف باری شروع ہوگی، ہم تیار رہیں گے اور چاروں مقامات پر ہماری مشینری کام شروع کر دے گی، اسنو کلیئرنس آپریشن کو چاروں پوائنٹس پر مانیٹر کیا جائے گا، برف پڑتے ہی راستوں کی صفائی کا عمل بھی شروع کر دیا جائے گا، تاکہ گلیات میں پہلے سے زیادہ سیاح آئیں اور برف باری سے لطف اندوز ہوں۔

    خیال رہے کہ موسم سرما کی برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے زیادہ تر سیاح مری، گلیات اور وادئ سوات کا رخ کرتے ہیں۔ ملک کے ان شمالی علاقوں میں برف باری کا آغاز ہو گیا ہے، محکمہ موسمیات نے جنوری میں بارشوں اور پہاڑی علاقوں میں زیادہ برف باری کا امکان ظاہر کیا ہے، اور بعض مقامات پر شدید برف باری کا بھی امکان ہے۔

    جب گلیات ڈویلپمنٹ اٹھارٹی کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اس سال سیاحوں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اگر توقع سے زیادہ برف باری ہوتی ہے تو انتظامیہ کیسے نمٹے گی؟ تو احسن حمید نے بتایا کہ پچھلے سال جو ہوا اللہ کرے ایسا پھر کبھی نہ ہو، ہم نے انتظامات کر لیے ہیں، اور اس بار سیاحوں کو بہتریں سہولیات فراہم کریں گے۔

    موسم

    محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال دسمبر خشک رہا، آخری ہفتے میں کمشیر، گلکت اور خیبر پختون خوا کے پہاڑی علاقوں میں ہلکی بارش اور پہاڑوں پر ہلکی برف باری ہوئی، جنوری میں بھی اس بار معمول سے کم بارشوں کا امکان ہے، لیکن کچھ پہاڑی علاقوں میں شدید برف باری بھی ہو سکتی ہے۔

    ہیلپ لائن 1422

    خیبر پختون خوا کے محکمہ سیاحت کے ترجمان سعد بن اویس نے بتایا کہ ہر سال موسم سرما میں سیاحوں کی بڑی تعداد سوات اور گلیات کے حسین نظارے دیکھنے کے لیے آتے ہیں، محکمہ سیاحت ان کو بہترین سہولیات دینے کے لیے کوشاں ہے، بارش اور برف باری کے موسم میں سیاح جس سیاحتی مقام پر جانا چاہتے ہیں، وہ ہیلپ لائن 1422 پر رابطہ کر کے معلومات حاصل کرسکتے ہیں، ہیلپ لائن پر سیاحوں کو راستوں اور ہوٹلوں کے بارے میں بھی معلومات مہیا کی جائیں گی۔

    پی ڈی ایم اے کی منصوبہ بندی

    پراونشل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان تیمور خان نے بتایا کہ پی ڈی ایم اے نے کسی بھی ہنگامی صورت حال سے بچنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے، تمام اضلاع کے ضلعی انتظامیہ پہلے سے نشان دہی کریں گے کہ کون سی جگہ پر لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر ہنگامی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے، ایسی کسی صورت حال سے بچنے کے لیے پلان بھی تیار کیا جائے گا۔

    پچھلے سال گلیات اور مری میں زیادہ برف باری سے نقصانات ہوئے تھے، پی ڈی ایم اے نے پہلے سے انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا، کہ برف باری زیادہ ہوگی، تیمور خان نے بتایا کہ پچھلے سال پی ڈی ایم اے کی ہدایات پر انتظامیہ نے سیاحوں کی تقریبا 27 سو گاڑیاں جو خیبر پختون خوا سے مری جا رہی تھیں، کو مری میں داخل ہونے سے روکا تھا، اگر یہ 27 سو گاڑیاں مری میں داخل ہوتیں تو زیادہ نقصان کا خدشہ تھا۔

    مری، گلیات میں گزشتہ برس

    یاد رہے کہ گزشتہ موسم سرما میں 7 اور 8 جنوری 2022 کی رات مری اور گلیات میں شدید برف باری کی وجہ سے ہزاروں سیاح پھنس گئے تھے، توقع سے زیادہ برف باری اور راستے بلاک ہونے کی وجہ سے ہزاروں گاڑیاں برف میں پھنس گئی تھیں، جس کی وجہ سے ٹریفک مکمل جام ہو گیا تھا اور سیاحوں کو رات گاڑیوں میں گزارنا پڑی، اس دوران شدید سردی کی وجہ سے 23 سیاح جاں بحق ہو گئے۔

    ترجمان گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی احسن حمید نے بتایا کہ پچھلے سال جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک تھا، گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ریسکیو عملے نے سیاحوں کو بہ حفاظت نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی، جس کے نتیجے میں گلیات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، احسن حمید نے بتایا کہ برف باری کے باعث پچھلے سال جو سیاح پھنس گئے تھے ان کو ہوٹلوں میں رہائش اور کھانا پینا مفت فراہم کیا گیا تھا۔

    احسن حمید نے کہا ’’گلیات ہوٹل ایسوسی ایشن سے ہماری بات جیت جاری ہے، توقع سے زیادہ برفباری کی صورت میں جو سیاح ہوٹلوں میں پہلے سے موجود ہوں گے، ان کو ہر قسم سہولت دی جائے گی، جب تک روڈ کلیئر نہیں کیے جاتے، سیاح ہوٹلوں میں رہیں گے اور ان کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی۔‘‘

  • پلاسٹک کی تھیلیوں میں سوئی گیس فروخت کرنے والے 16دکاندار گرفتار

    پلاسٹک کی تھیلیوں میں سوئی گیس فروخت کرنے والے 16دکاندار گرفتار

    پشاور : خیبر پختونخوا کی ضلعی انتظامیہ نے پلاسٹک کے پولیتھین بیگز میں سوئی گیس بھر کر فروخت کرنے والے 16 دکاندار گرفتار کرلئے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے شہر کے مختلف علاقوں میں عوام کیلئے موت کا سامان فروخت کرنے والوں کے خلاف کامیاب کارروائی کی ہے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور میں متعدد دکاندار پلاسٹک بیگز میں غیرقانونی طور پر وال اور نوزل لگا کر سوئی گیس بھرنے کے لیے فروخت کر رہے تھے جس پر انتطامیہ حرکت میں آگئی۔

    انتظامیہ نے کارروائی کے دوران پلاسٹک کی تھیلیوں کو سوئی گیس بھرنے کے لیے فروخت کرنے پر 16 دکاندار گرفتار کرلئے اوراشرف روڈ پر ایک گودام سیل کردیا۔

    اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ سوئی گیس کیلئے پلاسٹک کی تھیلیوںکو اس طرح استعمال کرنا انتہائی خطرناک عمل ہے۔

    انہوں نے انتظامی افسران کو اس طرح کے غیر قانونی پلاسٹک بیگز فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ کسی بھی دکان میں ایسے پلاسٹک بیگز کی موجودگی پر قانونی کارروائی کی جائے۔

  • اپر چترال کا وہ گاؤں جسے دریا کھا رہا ہے

    اپر چترال کا وہ گاؤں جسے دریا کھا رہا ہے

    چترال: اپر چترال کا تاریخی گاؤں ریشون دریا برد ہونےلگا، چند سال میں گاؤں کی سیکڑوں ایکڑا راضی دریا کی نذر ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق اپر چترال کا تاریخی اور خوبصورت گاؤں ریشون دریا کی نذر ہونے لگا ہے, دریا کے کنارے زمین کی کٹائی سے اب تک کئی ایکڑ زرعی زمین اور 25 کے قریب گھر دریا برد ہوگئے ہیں۔

    خیبرپختونخوا کا دور دراز اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع چترال جسے اب لوئر اور اپرچترال میں تقسیم کیا گیا ہے ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے چترال سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔

    اپرچترال کا گاؤں ریشون جو دریا کے کنارے واقع ہے زمین کی کٹائی کی وجہ سے سکڑتا جارہا ہے، ریشون گاؤں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے ہمارا گاؤں دریا کھا رہا ہے۔

    ریشون گاؤں کے رہائشی 75 سالہ رحمت نبی نے بتایا کہ ان کا 8 کنال زمین اور گھر دریا کی نذر ہوگیا ہے سیلاب میں زمین کٹائی کی وجہ سے ان کا گھر تباہ ہوگیا اور اب ایک شلیٹر میں رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

    اپنے تباہ حال کھنڈر نما گھر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رحمت نبی نے بتایا کہ اسی جگہ پر ان کا گھر تھا جودریا برد ہوگیا اور اب وہاں صرف ایک چھوٹا سا دیوار ہی نظر آتا ہے, رحمت نبی نے بتایا کہ ان کا گھر تو دریا بہا کر لے گیا لیکن اب ان کے بیٹے کے گھر کو بھی خطرات لاحق ہے دریا کا رخ موڑنے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے تو ان کے بیٹے کا گھر جو دریا سے 50 فٹ فاصلے پر ہے وہ بھی دریا میں گر کر بہہ جائے گا۔

    ڈپٹی کمشنر اپر چترال منظور آفریدی نے بتایا کہ ریشون دریا کے کنارے واقع ہے اس وجہ سے جب فلڈ آتا ہے یا سلائیڈنگ ہوتی ہے تو اس وقت زمین کی کٹائی ہوتی ہے اس وقت کٹائی نہیں ہورہی موسم سرما میں دریا میں پانی کم ہوتا ہے۔.

    منظور آفریدی کا کہنا ہے کہ دریا کے کنارے واقع ہونے کی وجہ ریشون کی زمین غیر مستحکم ہے اور وہاں پر لوگ چاول گاشت کرتے ہیں چاول کی فصل کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس وجہ سے بھی زمین نرم ہوجاتی ہے ہم وہاں کے لوگوں سے بار بار درخواست کرتے ہیں کہ چاول کی فصل کی کاشت نہ کریں لیکن پھر بھی وہ چاول کاشت کرتے ہیں۔

    ریشون کے ایک اور رہائشی چراغ الدین نے بتایا کہ 2013 میں سیلاب آیا تو اس وقت سے زمین کی کٹائی جاری ہے اور ہرسال اس میں اضافہ ہورہا ہے دریا کے کنارے 25 گھر دریا برد ہوگئے ہیں اور سینکڑوں ایکڑزمین دریا میں بہہ گئی ہے۔

    چراغ الدین کا مزید کہنا تھا کہ پورے گاؤں کو خطرہ ہے گاؤں کو بچانے کے لئے دریا کا رخ موڑنا بہت ضروری ہے اور اس کے لئے مضبوط حفاظتی دیوار تعمیر کرنا ہوگا حکومت نے دریا کے کنارے حفاظتی دیوار شروع کیا لیکن سیلاب نے اس کو بھی نقصان پہنچایا,

    انھوں نے کہا کہ پاکستان ہلال احمر ندی نالوں میں آنے والے سیلابی پانی سے گاؤں کو محفوظ کرنے کے لئے پروٹیکشن وال تعمیر کررہے ہیں اس سے ندی نالوں میں آنے والے پانی سے گاؤں کچھ حد تک محفوظ ہوگا لیکن دریا کا رخ جب تک موڑا نہیں جاتا گاؤں کو خطرہ رہے گا۔

    دوسری جانب پاکستان ہلال احمر خیبرپختونخوا نے ریشون گاؤں کے مکینوں کے مشکلات کو کم کرنے کے لئے کچھ پراجیکٹس شروع کئے ہیں۔

    ترجمان ہلال احمر کے پی ذیشان انور نے بتایا کہ دریا کا رخ گاؤں کی جانب ہونے سے مسلسل زمین کی کٹاؤ جاری ہے زمین کی کٹائی سے گاؤں کو شدید خطرات ہے۔

    ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے ریشون زیادہ متاثر ہورہا ہے ایک طرف بارشوں کے بعد ندی نالوں میں طغیانی علاقہ مکینوں کے گھروں کو متاثر کرتا ہے تو دوسری جانب دریا کی طرف زمین کی جوکٹائی ہورہی ہے وہ اس گاؤں کے لئے بڑا خطرہ ہے۔

    ہلال احمر نے برساتی نالوں سے مقامی آبادی کو محفوظ کرنے کے لیے پروٹیکشن وال تعمیر کئے ہیں لیکن دریا کی کٹائی سنگین مسئلہ ہے جس کے لیے مزید اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔

    ڈپٹی کمشنر اپر چترال منظور آفریدی نے بتایا حالیہ سیلاب سے ریشون میں 17 گھر متاثر ہوئے تھے اس وقت متاثرہ خاندانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا اور ان کو معاوضہ بھی دیا ہے.

    ان کا کہنا تھا کہ زمینی کٹاؤں روکنے اور گاؤں کو محفوظ بنانے کے لئے ایریگشن ڈیپارٹمنٹ نے پروٹیکشن وال پر کام شروع کیا لیکن سیلاب اور پانی کے بہاؤں میں اضافے نے اس کو نقصان پہنچایا ہے, اس وقت چترال میں برف باری کا سیزن شروع ہوگیا ہے اور درجہ حرات منفی 1 ہے اب تعمیراتی کام رک گئے ہیں اپریل 2023 میں دوبارہ کام کا آغاز ہوگا این ایچ اے بھی روڈ تعمیر کررہا ہے ریشون گاؤں کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

    ذیشان انور نے بتایا کہ ہلال احمر مقامی کمیونٹی کو سیلاب کے نقصانات سے بچانے کے لئے پروٹیکشن وال تعمیر کررہے ہیں اس کے ساتھ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے خود کو محفوظ رکھنے اور نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لئے مقامی کمیونٹی کو آگاہی بھی فراہم کررہے ہیں۔

    ذیشان انور نے کہا کہ دریائے کا رخ اس مقام پر ریشون گاؤں کی جانب ہے دریا میں پانی کا بہاؤں زیادہ ہوجاتا ہے تو پھر زمین کی کٹائی ہوتی ہے یہی وجہ سے کہ ریشون میں زرعی زمین اور گھر دریا برد ہورہے ہی

  • ہراسمنٹ کا کیس کیوں کیا؟ خاتون افسر کے خلاف افغان کمشنریٹ میں انکوائری شروع

    ہراسمنٹ کا کیس کیوں کیا؟ خاتون افسر کے خلاف افغان کمشنریٹ میں انکوائری شروع

    پشاور: افغان کمشنریٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون افسر کے خلاف ہی انکوائری کا شروع کر دی گئی ہے، خاتون نے ادارے کے افسران کے خلاف ہراساں کرنے کا کیس دائر کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق افغان کمشنریٹ کی خاتون افسر نے فریاد کی ہے کہ جب سے انھوں نے ادارے کے 2 افسران کے خلاف ہراساں کرنے کا کیس کیا ہے، تب سے انھیں مختلف طریقوں سے مزید ہراساں کیا جانے لگا ہے۔

    افغان کمشنریٹ کی خاتون افسر نے کمشنریٹ کی جانب سے انکوائری شروع کرنے کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دے دی، جس پر سماعت جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

    درخواست گزار کے وکیل سلیم شاہ ہوتی نے عدالت کو بتایا کہ خاتون افسر نے کمشنریٹ کے دو افسران کے خلاف ہراسمنٹ کیس کیا تو کمشنریٹ نے الٹا خاتون کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے اور اب ان کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔

    افغان کمشنریٹ کے وکیل رزتاج انور نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، خاتون افسر نے 2012 سے 2020 تک مختلف ممالک کے 12 دورے کیے ہیں اور کوئی این او سی نہیں لیا، اسی پر انکوائری شروع کی گئی ہے، اس کے خلاف کوئی اور انکوائری نہیں ہو رہی۔

    جسٹس محمد ابراہیم خان نے خاتون افسر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو شوکاز ملا ہے؟ اس پر خاتون افسر نے بتایا کہ ان کو ابھی تک کوئی شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا۔ تاہم افغان کمشنریٹ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کو شوکاز نہیں دیا گیا، بلکہ ان کو چارج شیٹ کیا گیا ہے۔

    جسٹس محمد ابراہیم خان نے استفسار کیا کہ چارج شیٹ ہراسمنٹ کیس کے بعد کیا گیا ہے یا پہلے؟ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ چارج شیٹ ہراسمنٹ کیس دائر کرنے کے دو تین دن بعد کیا گیا ہے۔ جس پر جسٹس محمد ابراہیم خان نے ریمارکس دیے کہ ہراسمنٹ کیس کرنے کے بعد چارج شیٹ کیا گیا، اس کا مطلب ہے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ اس خاتون سے خوش نہیں ہے، اس وجہ سے چارج شیٹ کیا گیا ہے۔

    جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ جن افسران کے خلاف ہراسمنٹ کیس کیا گیا ہے ان کی درخواست بھی زیر سماعت ہے، آج اگر ہم اس کیس پر فیصلہ جاری کرتے ہیں، تو اس کیس پر اس کا اثر پڑے گا، اس پر جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا کہ ہم ان دونوں کیسز کو ایک ساتھ سنیں گے اور فیصلہ جاری کریں گے۔

    عدالت نے کمشنر افغان کمشنریٹ کو ذاتی حیثیت میں کل پیش ہونے کا حکم دے دیا اور سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو

    سماعت کے بعد خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے آر وائی نیوز کو بتایا ’’جب سے میں نے ہراسمنٹ کیس کیا ہے اس دن سے یہ لوگ میرے پیچھے پڑے ہیں، افسران ہمیں مختلف طریقوں سے ہراساں کر رہے تھے، اس کے خلاف کمشنر کو درخواست دی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘‘

    انھوں نے بتایا ’’ہم نے صوبائی محتسب کو درخواست دی، انھوں نے کیس وفاقی محتسب کو بھیج دیا، وفاقی محتسب نے کیس کو سنا اور 8 ماہ بعد فیصلہ دیا، اور الزامات ثابت ہونے پر دونوں افسران کو نوکری سے برخاست کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘

    خاتون افسر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کمشنر نے ان کا تبادلہ ہری پور اور دوسری ساتھی خاتون کا تبادلہ ڈی آئی خان کیا، جس پر انھوں نے اس کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، اور عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا، اور ٹرانسفر کی نوٹیفکیشن معطل کر دی۔‘‘

    انھوں نے مزید بتایا ’’لیکن جب ہم آفس گئے تو دوسرے ہی دن ہمارا تبادلہ پھر دوسرے آفس کیا گیا، جس آفس میرا تبادلہ کیا گیا ہے وہاں میرا کوئی کام نہیں ہے، میں روز جاتی ہوں لیکن کوئی کام نہیں ہوتا، اس آفس میں سارے مرد ملازمین ہیں، پورے آفس میں صرف میں ایک خاتون ہوں، ہراسمنٹ کیس کرنے کی یہ سزا مجھے دے رہے ہیں۔‘‘

    واضح رہے کہ ہراسمنٹ کیس میں نوکری سے برخاست ہونے والے افسران نے وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کی تھی، لیکن صدر پاکستان نے بھی ملزم افسران کی اپیل مسترد کر دی، اس کے بعد اب افغان کمشنریٹ نے بھی دونوں افسران کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔

  • کے پی کے بڑے کڈنی انسٹیٹیوٹ میں کسی ماہر سرجن کے نہ ہونے کا انکشاف

    کے پی کے بڑے کڈنی انسٹیٹیوٹ میں کسی ماہر سرجن کے نہ ہونے کا انکشاف

    پشاور: خیبر پختون خوا کے سب بڑے کڈنی انسٹیٹیوٹ میں کسی ماہر سرجن کے نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا کے سب سے بڑے کڈنی انسٹیٹیوٹ میں سرجری کا کوئی ماہر ڈاکٹر موجود نہیں، انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز حیات آباد میں سرجری کے لیے آنے والوں مریضوں کو اسلام آباد سے ڈاکٹر دیکھتا ہے، اور یہاں کے ڈاکٹرز کو بھی سرجری کی آن لائن ٹریننگ دے رہے ہیں۔

    اس حوالے سے محمد اللہ نامی شہری کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔

    انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز( آئی کے ڈی) کے ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ کئی سال سے آئی کے ڈی میں مریضوں کی سرجری ہو رہی ہے، لیکن کرونا وبا کے دوران سرجری کے عمل کو روکنا پڑا تھا، اور دو سال تک سرجری کا عمل تعطل کا شکار رہا، اس دوران آئی کے ڈی میں سینئر ڈاکٹرز ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ اب جب کہ سرجری کا عمل دوبارہ شروع ہو گیا ہے تو سینئر ڈاکٹرز کی غیر موجودگی میں ہم نے اسلام آباد کے ایک سینئر ڈاکٹر کی خدمات حاصل کر لی ہیں، جو سرجری کے لیے آنے والے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، اور آئی کے ڈی کے ڈاکٹرز کو ٹریننگ بھی دے رہے ہیں، ان میں چار سرجن بھی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر مریض کی جان بہت قیمتی ہے، انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز میں کسی ماہر ڈاکٹر کا نہ ہونا بہت سنگین معاملہ ہے، اسپتال میں مریضوں کو مشکلات نہیں ہونی چاہیئں۔

    کیس کی سماعت کے دوران بہت سے لوگ روسٹرم پر کھڑے تھے، ان میں ایک شخص نے عدالت سے بات کرنے کی استدعا کی تو عدالت نے ان کو بولنے کا موقع دیا، اس شخص نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ آئی کے ڈی میں سینئر ڈاکٹر ہے، اور انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز میں پہلی سرجری کرنے والے تین رکنی ٹیم کا وہ حصہ تھے، لیکن اب آئی کے ڈی انتظامیہ نے ان کو برطرف کر دیا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ اپنے معاملات خود ٹھیک کریں، ہم نہیں چاہتے کہ کسی مریض کو کوئی بھی مسئلہ ہو، ڈاکٹرز کی آپس کے معاملات سے کسی مریض کو اسپتال میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔

    ڈائریکٹر آئی کے ڈی نے عدالت کو بتایا کہ سینئر ڈاکٹر نے اسپتال میں کام سے بائیکاٹ کیا، اس وجہ سے ان کو برطرف کیا گیا ہے اور اب ان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز یا نرسنگ اسٹاف کو اجازت نہیں کہ وہ ہڑتال کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر اسپتال بند کر کے ہڑتال پر چلا جائے، چیف جسٹس نے آئی کے ڈی کے لیگل ایڈوائزر منصور طارق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیئرمین بی او جی کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائیں، اگر معاملات ٹھیک نہیں ہوئے تو پھر چیئرمین بی او جی خود آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری لیے یہ مشکل نہیں کہ ایک کمیشن بنائیں اور ان سب چیزوں کو دیکھیں، جو ڈاکٹر ڈیوٹی ٹھیک طریقے سے ڈیوٹی نہیں کرتے ہم یہاں سے ان کو برخاست کرنے کے احکامات جاری کریں گے، آپ رپورٹ دیں کہ کتنے ڈاکٹرز کو ٹریننگ دی جا رہی ہے، عدالت نے ڈائریکٹر آئی کے ڈی سے سینئر ڈاکٹر کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔

    درخواست گزار کے وکیل اجمل خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز حیات آباد میں کوئی ماہر ڈاکٹر نہیں ہے، یہ مسئلہ کافی عرصے سے ہے، اور مریضوں کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔

    انھوں ںے بتایا کہ انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز میں جب سرجری کے لیے مریض آتے ہیں تو انتظامیہ کے کہنے پر اسلام آباد کے ایک سینئر ڈاکٹر جس کا نام سعید اختر ہے، وہ اپنی 14 رکنی ٹیم کے ساتھ آئی کے ڈی وزٹ کرتے ہیں اور مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔

    ملک اجمل خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ حالت یہ ہے کہ کسی مریض کو تکلیف بھی ہو تو اس کو اسلام آباد سے آنے والے ڈاکٹر کا انتظار کرنا پڑے گا، ڈاکٹر مریضوں کو آن لائن چیک کرتے ہیں اور ساتھ ہی ڈاکٹرز کو ٹریننگ بھی آن لائن دیتے ہیں۔

  • پشاور این اے 31 کا حلقہ: عمران خان کا مقابلہ حاجی غلام احمد بلور کے ساتھ

    پشاور این اے 31 کا حلقہ: عمران خان کا مقابلہ حاجی غلام احمد بلور کے ساتھ

    پشاور: این اے 31 تاریخ اہمیت کا حامل حلقہ ہے، اس کے عوام نے ہر بار عام انتخابات میں نئے امیدوار کو خوش آمدید کہہ کر قومی اسمبلی پہنچایا ہے۔

    1990 سے اب تک اس حلقے سے حاجی غلام احمد بلور سب سے زیادہ 4 بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون پشاور 2017 مرد شماری کے بعد سے اب این اے 31 بن گیا ہے۔

    2018 الیکشن میں اس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار شوکت علی 87 ہزار 895 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے، جب کہ دوسرے نمبر پر عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور رہے، جن کو 42 ہزار 476 ووٹ ملے تھے۔

    عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیا تھا، الیکشن کمیشن نے 10 ارکان کے استعفے منظور کیے جن میں 8 حلقوں پر 16 اکتوبر کو دوبارہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں، حلقہ این اے 31 شوکت علی کے استعفے کے باعث خالی ہوا ہے۔

    کیا عمران خان مولانا محمد قاسم سے حلقہ این اے 22 فتح کر سکیں گے

    پشاور کا یہ حلقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ اس حلقے سے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، سابق وزیر اعظم عمران خان اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ بھی قسمت آزمائی کر چکے ہیں۔

    یہ حلقہ کب کس نے جیتا؟

    1985 کے عام انتخابات میں، جو غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے، پشاور کے حلقہ این اے ون سے حاجی محمد یونس 26 ہزار 815 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جب کہ سید ظفر علی شاہ 22 ہزار 524 لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

    1988 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ (آفتاب شیرپاؤ نے بعد میں پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر قومی وطن پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی) کامیاب قرار پائے، انھوں نے 44 ہزار 658 ووٹ حاصل کیے جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور 35 ہزار 947 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

    1990 جنرل الیکشن میں پشاور کے حلقہ این اے ون سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو بھی امیدوار تھی لیکن اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور نے انھیں شکست دی، غلام احمد بلور 51 ہزار 233 ووٹ کے ساتھ پہلے جب کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو 38 ہزار 951 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہیں۔

    1993 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 1 پشاور پیپلز پارٹی کے نام رہا، اور پی پی پی کے امیدوار سید ظفر علی شاہ 40 ہزار 343 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جب کہ حاجی غلام احمد بلور 35 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

    1997 کے عام انتخابات میں پشاور کے حلقہ این اے 1 سے ایک بار پھر عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور کامیاب ہو گئے، انھوں نے 25 ہزار ووٹ لے کر پہلے جب کہ پیپلز پارٹی کے قمر عباس 11 ہزار 275 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

    2002 کے انتخابات میں حلقہ این اے ون پشاور کے عوام نے مذہبی پارٹیوں کے اتحاد کے حق میں فیصلہ دیا، اور ایم ایم اے کے امیدوار شبیر احمد خان 37 ہزار 179 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے عثمان بشیر بلور 35 ہزار 675 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ساجد عبداللہ نے 2 ہزار 29 ووٹ حاصل کیے تھے۔ 2002 کے عام انتخابات میں حاجی غلام احمد بلور بی اے کی ڈگری میں مسئلے کے باعث حصہ نہ لے سکے تھے، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انتخابات میں امیدوار کے لیے گریجویشن کی شرط رکھی گئی تھی۔

    2008 کے جنرل الیکشن میں ایک بار پھر حلقہ این اے ون کے ووٹرز نے عوامی نیشنل پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا اور حاجی غلام احمد بلور 44 ہزار 210 ووٹ لے کر تیسری بار حلقے کے عوام کی نمائندگی کرنے کے لیے قومی اسمبلی پہنچ گئے، 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ 37 ہزار 628 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

    2013 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حلقہ این اے ون سے انتخاب لڑنے کے لیے میدان میں اترے اور حلقے کے عوام نے بھاری اکثریت سے انھیں منتخب کیا، عمران خان 90 ہزار 500 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جب کہ ان کے مقابلے میں اے این پی کے تین بار اس حلقے سے منتخب ہونے والے حاجی غلام احمد بلور 24 ہزار 468 ووٹ حاصل کر سکے۔

    بعد میں عمران خان نے این اے ون کی نشست چھوڑ دی اور ضمنی انتخابات میں ایک بار پھر یہ حلقہ اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کے نام رہا، ضمنی انتخابات میں غلام احمد بلور 59 ہزار 456 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جب کہ پی ٹی آئی کے گل بادشاہ 28 ہزار ووٹ لے سکے۔

    2018 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر حلقہ این اے 31 جو پہلے این اے 1 کہلاتا تھا، کے عوام نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا اور پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی کو قومی اسمبلی پہنچا دیا۔ شوکت علی 87 ہزار 895 ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے، جب کہ حاجی غلام احمد بلور 42 ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔

    رکن قومی اسمبلی شوکت علی کے استعفے کے باعث خالی ہونے والی اس نشست پر اب ایک بار پھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مقابلہ پی ڈی ایم کے حاجی غلام احمد بلور کے ساتھ ہے، حاجی غلام احمد بلور کو ساتھ اس بار جمیعت علماء اسلام، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، قومی وطن پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کا سپورٹ حاصل ہے۔ حلقہ این اے 31 پشاور کے عوام چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں یا پھر پی ڈی ایم کے امیدار حاجی غلام احمد بلور کو پانچویں بار ممبر قومی اسمبلی منتخب کرتے ہیں، اس کے لیے 16 اکتوبر شام 5 بجے تک انتظار کرنا پڑے گا۔

  • کیا عمران خان مولانا محمد قاسم سے حلقہ این اے 22 فتح کر سکیں گے

    کیا عمران خان مولانا محمد قاسم سے حلقہ این اے 22 فتح کر سکیں گے

    پاکستان تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفوں کے باعث خالی ہونے والی قومی اسمبلی کے 8 حلقوں میں 16 اکتوبر کو ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان حلقوں میں مردان قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 22 بھی شامل ہے، جہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو مضبوط امیدوار جمیعت علماء اسلام کے مولانا محمد قاسم اور جماعت اسلامی کے امیدوار عبدالواسع کا چیلنج درپیش ہے۔

    دیکھا جائے تو خیبر پختون خوا کے تین حلقوں میں، جہاں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، عمران خان کے مقابلے میں سب سے مضبوط امیدوار پی ڈی ایم کے مولانا محمد قاسم ہیں، جو دو مرتبہ پہلے بھی اس نشست سے کامیاب ہو چکے ہیں۔

    اس حلقے سے 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے علی محمد خان کامیاب قرار پائے تھے، جب کہ 2002 اور 2008 کے جنرل الیکشن میں اس حلقے سے مولانا محمد قاسم ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

    اب کی بار مولانا محمد قاسم کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان خود مد مقابل ہیں، اور ان دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، جب کہ جماعت اسلامی نے بھی اس حلقے میں بھرپور الیکشن کمپین چلائی ہے، سینیٹر مشتاق احمد خان اس حلقے میں سرگرم رہے اور عبدالواسع کے لیے انھوں نے خود الیکشن کمپیئن چلائی۔ جماعت اسلامی اس بار الیکشن میں ’حل صرف جماعت اسلامی‘ کے نعرے کے ساتھ میدان میں ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی اپنے ووٹ بینک میں کتنا اضافہ کرتا ہے۔

    اس حلقے سے 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار علی محمد خان 58 ہزار 652 ووٹ لے کر دوسری بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، جب کہ ایم ایم اے کے امیدوار مولانا محمد قاسم 56 ہزار 587 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، مسلم لیگ ن کے امیدوار جمشید مہمند 36 ہزار سے زائد ووٹ لے کر تیسرے جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ملک امان خان 27 ہزار 303 ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔

    اگر مولانا محمد قاسم کو مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، اور پیپلز پارٹی کا ووٹ پڑتا ہے تو پھر عمران کے مقابلے میں مولانا قاسم کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔

    2013 الیکشن میں بھی یہ حلقہ تحریک انصاف کے علی محمد خان نے اپنے نام کیا تھا، اور 46 ہزار 531 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ مولانا محمد قاسم 39 ہزار 269 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

    اس نشست سے تحریک انصاف دو بار جیتی ہے، اب ووٹرز ضمنی الیکشن میں عمران خان کو کامیاب کراتے ہیں یا مولانا محمد قاسم دس سال انتظار کے بعد پھر قومی ممبر اسمبلی منتخب ہوتے ہیں، یہ 16 اکتوبر کو پولنگ کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔

    اس حلقے سے کون کب کامیاب ہوا؟

    انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق 1988 میں مردان کا یہ حلقہ این اے 7 تھا، اس سے قبل یہ حلقہ این 7 کہلاتا تھا پھر 2002 سے 2017 تک یہ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 10 ہو گیا، اور 2017 مردم شماری کے بعد یہ قومی اسمبلی کا حلقہ اے این 22 کہلانے لگا۔

    1990 میں اس حلقے سے آئی جے آئی ( اسلامی جمہوری اتحاد) کے خان میر افضل خان 37 ہزار 452 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جب کہ پی ڈی اے ( پاکستان ڈیموکریٹک الائنس) کے رحیم داد خان 24 ہزار 813 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

    1993 عام انتخابات میں مردان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 7 مردان 2 سے پیپلز پارٹی کے حاجی یعقوب کامیاب قرار پائے تھے، اے این پی کے محمد اعظم خان ہوتی 32 ہزار 709 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

    1997 کے انتخابات میں یہ نشست اے این پی کے محمد اعظم خان کے نام رہی، اعظم خان 29 ہزار 117 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ٹھہرے تھے، جب کہ آزاد امیدوار محمد ادریس خان 17 ہزار اور پیپلز پارٹی کے حاجی سرفراز خان 15 ہزار سے زائد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

    2002 کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے مولانا محمد قاسم 69 ہزار 726 ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے جب کہ پیپلز پارٹی کے رحیم داد خان 14 ہزار 541 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

    2008 کے جنرل الیکشن میں اس حلقے سے ایک بار پھر مولانا قاسم ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے، مولانا قاسم 29 ہزار 279 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جب کہ پیپلز پارٹی کے نواب زادہ عبدالقادر خان 23 ہزار 138 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔

    2013 اور 2018 الیکشن میں اس حلقے کے عوام نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا اور پی ٹی آئی کے امیدوار علی محمد خان کامیاب ہوئے۔

    ضمنی انتخابات کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہیں، مردان کے حلقہ این اے 22 میں کل ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار 647 ہے، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 54 ہزار 733 ہے جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 95 ہزار 914 ہے۔

    حلقے میں کل 330 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں جن میں مردوں کے 87 اور خواتین کے 80 پولنگ اسٹیشن ہیں، جب کہ 163 مشترکہ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

  • غیرملکی شوہر کی شہریت، پاکستانی خاتون مقدمہ جیت گئیں

    غیرملکی شوہر کی شہریت، پاکستانی خاتون مقدمہ جیت گئیں

    پشاور ہائی کورٹ نے پاکستانی خاتون کے غیر ملکی شوہر کو شہریت دینے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں افغان شہری کو پاکستانی شہریت دینے کا حکم دیا ہے۔

    ثمینہ روحی نامی خاتون نے سال دو ہزار اکیس میں اپنے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل ایڈوکیٹ کی وساطت سے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں انہوں نے پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ 1951 کے سیکشن (2) 10 کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

    درخواست گزارہ ثمینہ روحی پاکستانی شہری ہے اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے نصیر نامی شخص سے 1980 شادی کی ہے اور اب ان کے جوان بچے بھی ہیں ثمینہ روحی کا شوہر اس وقت کویت میں ملازمت کررہے ہیں اور چھٹیوں میں اپنے فیملی سے ملنے پاکستان آتے ہیں, ثمینہ چاہتی تھی کہ ان کے شوہر کو پاکستانی شہریت ملے۔

    عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا اور اب عدالت نے محفوظ فیصلہ جاری کیا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے اپنے تحریری فیصلے جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس عبدالشکور نے تحریر کیا ہے میں قرار دیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے پاکستان سیٹزن ایکٹ 1951 کے سیشکن 10(2) کو آئین سے متصادم قرار دے چکی ہے۔

    ہائیکورٹ شرعی عدالت کے حکم کی پابند ہے حکومت پاکستان درخواست گزارہ کے شوہر کو شرعی عدالت فیصلے کی روشنی میں شہریت دیں۔

    تحریری فیصلے کی روشنی میں نادرا کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی نصیر نامی شخص کو کارڈر جاری کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔

    ثمینہ روحی کے وکیل نے کیا کہا؟

    درخواست گزار ثمینہ روحی کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل نے بتایا کہ عدالت نے پاکستانی خاتون کے شوہر کو پاکستانی شہریت دینے کا حکم دیا ہے اور امید ہے کہ نادرا ان کو جلد شہریت کارڈ جاری کرے گا۔

    سیف اللہ کاکاخیل نے بتایا کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پرحملہ کیا تو اس وقت بڑی تعداد میں افغانستان کے لوگ پاکستان ہجرت کرکے آئیں، اور زیادہ تر مہاجرین خیبرپختونخوا میں ٹہرے، افغانستان میں کئی سال جنگ جاری رہی جس کے باعث افغان مہاجرین نے یہاں پر قیام کیا اور اپنا کاروبار بھی شروع کیا۔End violence and serious human rights violations against Afghan refugees -  Amnesty International

    سیف اللہ نے بتایا کہ خیبرپختونخواہ اور افغانستان کے لوگوں کا کلچر اور رہن سہن کے طور و طریقے زیادہ تر ملتے جلتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان رشتہ داریاں بھی قائم ہوئی ہے، جن افغان خواتین نے پاکستانی مردوں سے شادی کی ان خواتین کو تو شہریت کارڈ مل گئی ہے لیکن جن پاکستانی خواتین نے افغان شہریوں سے شادی کی ان کو مسائل کا سامنا رہا۔

    سیف اللہ کاکاخیل نے بتایا کہ اب ان لوگوں کا مسئلہ حل ہوگا ہائیکورٹ نے شرعی عدالت فیصلے کی روشنی میں ان کو شہریت کارڈ جاری کرنے حکم دیا ہے اس سے بہت سے افغان بھائی جنہوں نے پاکستانی خواتین سے شادی کی ہے ان کے مسائل ہوجائے گے۔

    پاکستان اوریجن کارڈ کیا ہے؟

    پشاور ہائیکورٹ کے تحریری فیصلے کے بعد نادرا کے لیگل ایڈوائزر شاھد عمران گگیانی نےاے آر وائی نیوز کو بتایا کہ پاکستان اوریجن کارڈ کا اجرا ایک طریقہ کارکے تحٹ ہوتا ہے جو غیر ملکی شخص حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پہلے نادرا میں درخواست دے گا۔Pakistan Origin Cardپاکستان اوریجن کارڈ ان غیر ملکیوں کو مل سکتا ہے جن کے ماں باپ پاکستانی رہ چکے ہوں، دوسرے وہ لوگ جن کی بیوی غیر ملکی ہوں یا کسی پاکستانی خاتون کا شوہر تو وہ بھی اپلائی کرسکتے ہیں۔

    ایک مکمل طریقہ کار اور وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد یہ کارڈ اہل شخص کو دیا جاتا ہے۔

  • ’انتظامیہ حکومتی رٹ قائم نہیں کر سکتی تو انہیں عہدوں پر رہنے کا حق نہیں‘

    ’انتظامیہ حکومتی رٹ قائم نہیں کر سکتی تو انہیں عہدوں پر رہنے کا حق نہیں‘

    پشاور ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ حکومتی رٹ قائم نہیں کر سکتی تو ان کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

    خیبرپختون خوا اسمبلی کے سامنے آئے روز احتجاج اور شہر کی مین شاہراہوں پر جلسے جلوسوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ اگر انتظامیہ حکومتی رٹ قائم نہیں کر سکتی تو ان کو عہدوں پر براجماں رہنے کا کوئی حق نہیں، یہاں صوبے کا سب سے بڑا اسپتال، ہائی کورٹ اور اسمبلی واقع ہے، یہاں احتجاج کے باعث لوگوں کو مسائل ہوتے ہیں، مظاہرین کیسے جناح پارک سے اسمبلی چوک پہنچے؟ یہ انتظامیہ کی ناکامی ہے۔

    اس موقع پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ قانون تمام شہریوں کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے، پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن جہاں پر دوسرے کے حقوق متاثر ہوتے ہیں وہاں ان کا یہ حق ختم ہو جاتا ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ جو اپنا حق مانگتا ہے تو پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس یا گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج کریں، عام شہریوں کو تکلیف نہ دیں۔

    ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختون خوا شمائل بٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی چوک میں احتجاج کے باعث پورے شہر میں ٹریفک جام ہو جاتا ہے، کل بھی اساتذہ احتجاج کے باعث شہر میں ٹریفک کا برا حال تھا، حکومت قانون سازی کر رہی ہے اس کے لیے کمیٹی بھی بنائی ہے، اسمبلی چوک میں کسی کو احتجاج کی اجازت نہیں ہے، جو احتجاج کرنا چاہتا ہے وہ جناح پارک میں احتجاج رکارڈ کر سکتے ہیں۔

    ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ قانون سازی کر رہے ہیں جو بھی گروپ خلاف وزری کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

    جسٹس روح الامین کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ایسی کیسز عدالت نہیں آنا چاہیے لیکن جب حکومت کچھ نہیں کرتی تو لوگ عدالت آجاتے ہیں۔

    درخواست گزار وکیل علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی چوک میں احتجاج کے باعث پورے شہر میں ٹریفک کا برا حال ہوتا ہے، کل بھی احتجاج کے باعث خیبر روڈ کئی گھنٹے بلاک رہا، 5 منٹ کا سفر کئی گھنٹوں میں طے کرنا پڑا۔

    عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور سی سی پی او کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔