کراچی: سابق رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل نے کہا ہے کہ لاہور کی ریلی سے بڑی کراچی کے ماہی گیروں کی جشن آزادی ریلی ہے۔
یہ بات انہوں نے کراچی کے ماہی گیروں کی جانب سے منوڑا پر جشن آزادی کی خوشی میں نکالی گئی کشتی ریلی کے موقع پر کہی۔
کراچی کے ماہی گیروں نے جشن آزادی کے موقع پر کیماڑی سے منوڑا جزیرے تک کشتی ریلی کا اہتمام کیا۔ کیماڑی کی جیٹی پر ملی جوش وجذبے سے سرشار نوجوانوں نے ملی نغموں کی دھن پر ثقافتی رقص پیش کیا۔
اس موقع پر سابق رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل کا کہنا تھا کہ کراچی کے جزیروں پر بسنے والے ماہی گیر وطن پر جان قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، کشتی ریلی وطن سے محبت کا اظہار ہے۔
سمندر کی موجوں پر ملی نغموں کی دھنوں سے جشن آزادی کشتی ریلی نے ماحول کو گرما دیا، ماہی گیروں اور جزیروں کے باسیوں نے کشتی ریلی کے منفرد انداز سے وطن سے محبت کا اظہار کیا۔ریلی منوڑا بابا بھٹ سے ہوتی ہوئی کیماڑی جیٹی پر ختم ہوگئی۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کے شہر میں لگی ہوئی اسٹریٹ لائٹس کا رنگ پیلا ہی کیوں ہے؟ آخر کوئی اور رنگ کیوں نہیں؟ آپ اگر ذرا دنیا بھر کی اسٹریٹ لائٹس کے بارے میں غور کریں، سرچ کریں یا کسی بھی غیر ملکی سڑک کی کوئی ویڈیو دیکھیں تو آپ پر منکشف ہوگا دنیا میں اسٹریٹ پر نصب زیادہ تر لائٹس پیلے رنگ ہی کی ہیں۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ سڑک کنارے جو لائٹس استعمال کی جاتی ہیں ان کی تیاری میں سوڈیم استعمال ہوتا ہے، سوڈیم سے بنی ہوئی لاٹس سے نکلنے والی روشنی پیلی ہوتی ہے، ان لائٹس کی قیمت کم ہوتی ہے اور دنیا بھر کی بلدیاتی حکومتوں کو سڑکوں پر لائٹس لگانے کے لیے بہت بڑی تعداد درکار ہوتی ہے اسی لیے وہ سوڈیم سے بنی لائٹس ہی خریدتی ہیں۔
عام طور پر بنے ہوئے بلب میں جب بجلی بلب کے اندر پہنچتی ہے اور سوڈیم سے متصل ہوتی ہے تو اس اتصال سے یک دم بہت ساری اورنج رنگ کی روشنی خارج ہوتی ہے۔
یعنی بالفاظ دیگر کہیں تو اس کی تیاری میں کسی رنگ کا استعمال نہیں کرنا پڑتا یعنی اسے بنانے میں کوئی پیچیدہ عمل نہیں اور کوئی خاص لاگت بھی نہیں، کم لاگت میں بڑی جگہ روشن کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ لائٹ ہے۔
دوسری جانب پیلی لائٹس کی بہ نسبت سفید لائٹس لائٹس بنانے کا عمل انتہائی پیچیدہ ہے، سفید لائٹس بنانے کے لیے مختلف اقسام کے رنگوں کو ملانا پڑتا ہے جو کہ بلب کے اندر لگایا جاتا ہے جس کے بعد بلب سے سفید رنگ کی روشنی خارج ہوتی ہے۔
اسی طرح کسی بھی دیگر رنگ کی لائٹ بنانے کے لیے مختلف رنگوں کے کیمیکلز کو ملا کر مرکب تیار کرنا پڑتا ہے جس سے لائٹ کی تیاری مشکل ہوجاتی ہے، زیادہ وقت لگتا ہے اور اس کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔
اسی لیے دنیا بھر میں حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ کم لاگت میں زیادہ روشنی دینے والی یہ لائٹس ہی سڑکوں پر نصب کی جائیں۔
بہر حال یہ پیلی لائٹس اپنی جگہ لیکن اب دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں، کمپنیوں اور گھروں میں بھی ایل ای ڈی لائٹس کا رجحان فروغ پارہا ہے جو کہ ان لائٹس کی بہ نسبت کم بجلی خرچ کرتی ہیں اور ماہانہ بل ان لائٹس کی بہ نسبت آتا ہے۔
پیلی لائٹس کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ لائٹس سفید رنگ کی ہیں جن میں ہلکی سی نیلے رنگ کی آمیزش ہوتی ہے جیسا کہ چاندنی کا رنگ ہوتا ہے، ایل ای ڈی لائٹس میں یہی رنگ استعمال کیا جارہا ہے۔
قرآن شریف دنیا کا سب سے بڑا وہ ظاہر معجزہ ہے اور وہ الہامی کتاب ہے جس میں قیامت تک پیش آنے والے ہر واقعہ کی پیش گوئی کردی گئی ہے، کچھ باتیں کھلی اور کچھ ڈھکی چھپی ہیں تاکہ سمجھنے والے اسے سمجھ سکیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ عقل والوں کے لیے اس میں کھلی نشانیاں موجود ہیں۔
آج دنیا زمین کے مسلسل بڑھنے والے درجہ حرارت سے پریشان ہے، جسے گلوبل وارمنگ کا نام دیا گیا ہے، سائنس دان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، اس ضمن میں قرآن شریف میں بہت واضح طور پر کم از کم دو بار اللہ تعالیٰ دنیا بھر کو خبردار کرچکے ہیں۔
سورۃ الانبیا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو برتاوا دیا یہاں تک کہ زندگی ان پر دراز ہوئی تو کیا نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں تو کیا یہ غالب ہوں گے؟( سورۃ انبیاء، آیت 44)
سورہ الرعد میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں اور خدا (جیسا چاہتا ہے) حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کا رد کرنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے(سورۃ الرعد، آیت 41)
ان دونوں سورۃ کی آیات کا ترجمہ دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور ہم زمین کے کناروں کو گھٹاتے چلے آئے ہیں؟ کیسے؟؟
زمین پر تین حصے پانی، ایک حصہ خشکی
ہماری زمین پر تین حصے پانی اور صرف ایک حصہ یا اس سے کم خشکی ہے، سائنس دانوں کے مطابق زمین پر 71 فیصد پانی اور 29 فیصد خشکی ہے۔
اس خشک حصے کا 20 فیصد پہاڑوں پر مشتمل ہے اور 20 فیصد حصہ برف سے ڈھکا ہوا ہے جس میں پورا براعظم انٹار کٹیکا شامل ہے جہاں برف کے عظیم الشان گلیشیر بھی موجود ہیں۔
زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اس کی وجہ انسان خود ہے جو اپنی ایجادات، درختوں کے کٹاؤ اور دیگر اقسام کی ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے سبب زمین کے اطراف موجود اوزون کی تہہ ختم کررہا ہے جس کے باعث دھوپ کی شعاعیں چھن کر آنے کے بجائے براہ راست زمین پر پڑ رہی ہیں اور درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
برف کے پہاڑ پگھلنے لگے
درجہ حرارت بڑھنے کے سبب زمین پر موجود برف کے عظیم الشان پہاڑ متاثر ہیں اور حالیہ رپورٹس کے مطابق ان کے پگھلنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے نتیجے میں سمندروں میں پانی کی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے اور سطح آب مسلسل بلند ہورہی ہے۔
چند روز قبل ہی عالمی اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے سبب قطب جنوبی میں واقع براعظم انٹارکٹیکا میں 6 ہزار مربع کلومیٹر برفانی تودہ شگاف پڑ جانے کے باعث ٹوٹ کر خطے سے علیحدہ ہوگیا۔
دنیا کے کئی بڑے شہر غرق ہونے کی پیش گوئیاں
سطح سمندر بلند ہونے سے زمین کا خشک حصہ کم ہورہا ہے حتیٰ کہ کچھ اداروں نے برسوں بعد دنیا کے کئی بڑے شہر غرق آب ہونے کی پیش گوئی بھی کررکھی ہے جو کہ سمندر کنارے واقع ہیں۔
یہ واقعی حقیت ہے کہ درجہ حرارت اگر اسی طرح بڑھتا رہا تو سمندر میں پانی کی سطح کئی انچ تک بلند ہوجائے گی اور پانی سمندر کنارے بنے شہروں میں داخل ہوجائے گا۔
یہ بات سائنس دان اب کہہ رہے ہیں مگر 1400 برس قبل قرآن شریف میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا گیا تھا کہ انسان اپنے اعمال اپنی ایجادات اور توانائی کے بے جا اور غیر محفوظ استعمال کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھانے کا باعث بنے گا جس کی وجہ سے برف کے پہاڑ پگھل جائیں گے اور خشکی کا رقبہ کم ہوجائے گا۔
عین ممکن ہے کہ سطح سمندر دنیا کے کئی شہروں سے بلند ہوجائے اور سمندر کا پانی جب شہروں میں داخل ہوگا تو وہ پورے کے پورے شہر سمندر کا حصہ بن جائیں گے۔
ہمیں اس آیت پر بارہا غور کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کس قدر کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ہم زمین کے کناروں کو گھٹاتے چلے آئے ہیں۔
اگر آپ کو یہ مضمون پسند نہیں آیا تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
کراچی: پاناما کیس میں بننے والی جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے والیم نمبر 10 میں آخر ایسا ہے کیا جو جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو سپریم کورٹ میں باقاعدہ درخواست دائر کرنی پڑی کہ اس رپورٹ کو کسی صورت منظر عام پر نہ لایا جائے اور اسے سپریم کورٹ نے بغیر کسی اعتراض کے اسے قبول کرلیا۔
رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، ن لیگ
ن لیگ کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اس جلد کو منظر عام پر لایا جائے، رپورٹ پیش کرنے کے فوری بعد دانیال عزیز نے سپریم کورٹ کے باہر بیان دیا تھا کہ یہ جلد منظر عام پر کیوں نہیں لائی جارہی بعدازاں دوبارہ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 10 میں آخر ہے کیا؟؟ اگر امکانات پر بات کی جائے تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔
سلطانی گواہوں کے نام؟
جے آئی کی رپورٹ میں جن افراد کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا گیا ان میں سے سلطانی گواہوں کے نام اور ان کے بیانات ہوسکتے ہیں جنہوں نے پاناما کیس کی تحقیقات میں جے آئی ٹی کی پس پردہ مدد کی۔
غیر ملکی تحقیقاتی اداروں کی معاونت کے بارے میں؟
جن غیر ملکی تحقیقاتی اداروں نے مدد کری ان کے بار ے میں ہوسکتا ہے کیوں کہ جے آئی ٹی نے خود کہا تھا کہ جلد 10 خفیہ رکھی جائے کیوں کہ اس میں غیر ملک جا کر کی گئی تحقیقات بھی شامل ہیں۔
آف شور کمپنیوں کے مالک دیگر افراد خبردار نہ ہوجائیں؟
پاناما کیس میں سامنے آنے والے دیگر پاکستانی سیاست دان، صنعت کار، بیورو کریٹس، ارکان اسمبلی اور دیگر حکومتی و غیر حکومتی شخصیات کے بارے میں کی گئی تحقیقات ہوسکتی ہے کہ قبل از وقت اگر یہ والیم سامنے آگیا تو یہ نام کہیں پہلے سے ہوشیار نہ ہوجائیں یا کچھ نام ملک سے فرار نہ ہوجائیں۔
جے آئی ٹی کی مدد کرنے والے پس پردہ افراد کے نام؟
ممکن ہے والیم نمبر 10 میں جے آئی ٹی ارکان کی مدد کرنے والے افراد کے نام اور ان کے کاموں کا تذکرہ ہو جن کی مدد سے مواد جمع کیا گیا اور ان میں سے کچھ لوگ بیرون ملک تو کچھ لوگ اندرون ملک موجود ہیں۔
ن لیگ کے اندر شامل افراد نے مدد کی ہو؟
ہر ادارے اور تنظیم میں کچھ افراد ایسے موجود ہوتے ہیں جو اس کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہوتے، ممکن ہے ن لیگ کے اندر موجود کچھ افراد نے جے آئی ٹی کو کچھ مواد فراہم کیا ہو تو ان کے بارے میں تفصیلات موجود ہوں۔
ان میں سے کچھ خود حکومتی عہدے داروں میں سے ہوں جو شریف فیملی کو اب برسراقتدار دیکھنے کے خواہش مند نہ ہوں، کیوں کہ پے درپے ن لیگ اجلاسوں میں آپس کے اختلاف سامنے آرہے ہیں کہ نواز شریف وزارت عظمی چھوڑ دیں اور حکومت بچالیں۔
یاد رہے کہ جے آئی ٹی نے جلد 10 کو خفیہ رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد نمبر 10 میں پاناما کیس میں وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے اثاثہ جات کی تحقیقات کے لیے غیر ملکی معاونت اور اہم دستاویزات شامل ہیں جس کے عام ہوجانے پرآئندہ کی تحقیقات پراثر پڑسکتا ہے اس لیے معززعدالت اس جلد کو عام نہ کرے۔
ریاض: سعودی عرب میں مقیم غیر ملکی باشندوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا، آج سے ہر غیر ملکی ہر ماہ 100 ریال لیوی ٹیکس کی مد میں ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق سعودی حکومت تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصان کو مختلف ٹیکس لگا کر پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
جون کے وسط میں سعودی عرب نے تمباکو سے بننے والے ہر شے مع سگریٹ، سافٹ ڈرنک اور کولڈ ڈرنک پر سن ٹیکس یعنی گناہ ٹیکس عائد کیا تھا جس سے ان مصنوعات کی قیمتیں دگنا ہوگئی ہیں۔
اس کے کچھ دن بعد ہی سعودیہ حکومت نے ’’سعودیزیشن پلان 2020‘‘ کے تحت ہر غیر ملکی پر لیوی ٹیکس عائد کردیا ہے جو کہ آج یعنی یکم جولائی سے وصول کیا جائے گا اور یہ بتدریج 2020ء تک ہر سال 100 ریال فی فرد کے حساب سے بڑھتا ہی رہے گا۔
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوگا بلکہ ہر سال اس ٹیکس کی رقم میں 100 ریال کا اضافہ کیا جائے گا جو کہ بتدریج 2020ء تک جاری رہے گا یعنی اگلے برس سال 2018ء یکم جولائی سے لیوی ٹیکس کی یہ رقم بڑھا کر 200 ریال ماہانہ کردی جائے گی اور ایک سال وہاں گزارنے والا غیر ملکی 2400 ریال سالانہ ادا کرے گا۔
سال 2019ء یکم جولائی میں ٹیکس کی رقم 200 سے بڑھا کر 300 ریال ماہانہ کردی جائے گی یعنی ہر غیر ملکی کو فی کس 3600 ریال سالانہ ادا کرنے ہوں گے ۔
اسی طرح سال 2020ء یکم جولائی میں مزید 100 ریال کا اضافہ ہوگا اور لیوی ٹیکس کی رقم 400 ریال ماہانہ فی فرد ہوجائے گی یعنی ہر غیر ملکی اپنے ذمہ واجب الادا 4800 ریال سالانہ ادا کرے گا۔
یہ ٹیکس منسٹری آف لیبر کی جانب سے متعارف کرایا گیا ہے جس کا مقصد نجی کمپنیوں میں غیر ملکیوں کی جگہ سعودی ملازمین کی بھرتیوں میں اضافہ کرنا ہے۔
غیر ملکی شہری اپنے گھر کے ہر فرد کے عوض 100 ریال ماہانہ ادا کرے گا
یہ رقم محکمہ پاسپورٹ کی طرف سے اقامہ (ریذیڈنٹ پرمٹ)کی تجدید کے وقت سالانہ مد میں وصول کی جائے گی یعنی اگر کوئی شخص اپنی زوجہ اور دو بچوں(چار فرد کا گھرانہ) کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم ہے اور وہ اپنے خاندان کو مزید اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو وہ اقامہ کی تجدید کے وقت ہر فرد کے عوض 100 ریال ماہانہ ادا کرے گا۔
چار فرد کے گھرانے پر لاگو ٹیکس کتنا ہوگا؟
چار فرد پر مشتمل گھرانہ یکم جولائی سے ہر ماہ 400 ریال ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
اگلے سال 2018ء یہ گھرانہ 800 ریال ماہانہ یعنی 9600 ریال سالانہ ادا کرے گا۔
سال 2019ء میں یہ گھرانہ 1200 ریال ماہانہ یعنی 14 ہزار 400 ریال سالانہ ادا کرے گا۔
سال 2020ء میں یہ گھرانہ 1600 ریال ماہانہ یعنی 19 ہزار 200 ریال سالانہ ادا کرے گا۔
یہ ٹیکس کمپنی کو نہیں ملازم کو خود ادا کرنا ہوگا
غیر ملکی باشندوں کو اس بات کی امید نہیں ہے کہ ان کے حصے کا یہ ٹیکس کمپنی مالکان ادا کریں گے کیوں کہ ہر وہ کمپنی غیر ملکی ملازم کے عوض سعودی حکومت کو فی کس 200 ریال ماہانہ کے حساب سے پہلے ہی ادا کررہی ہے جس میں سعودی ملازمین کم اور غیر ملکی ملازمین زیادہ ہیں۔
غیر ملکی ملازمین کی بڑی تعداد بھارتی، بنگلہ دیشی اور پاکستانی ہے
خیال رہے کہ غیر ملکی باشندوں کی بڑی تعداد ایشیائی ممالک کی ہے جن میں سرفہرست بھارتی، بنگلہ دیشی اور پاکستانی باشندے ہیں، بھارتی حکام کے ایک اندازے کے مطابق 41 لاکھ بھارتی باشندے سعودی عرب میں موجود ہیں جبکہ پاکستانی حکام کے ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد پاکستانی وہاں مقیم ہیں، لگ بھگ بنگلہ دیشی باشندوں کی تعداد پاکستانیوں سے زیادہ یا برابر ہے۔
اہل خانہ کو واپس بھیجنا پڑے گا، غیر ملکی شہری
سعودی عرب میں مقیم بھارتی شہریوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی باشندوں کی بہت بڑی تعداد یہ ٹیکس برداشت نہیں کرپائے گی اور وہ اپنے اہل خانہ کو واپس بھیجنے پر مجبور ہوجائے گی۔
یہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے کمپنی ہماری تنخواہیں نہیں بڑھائے گی
ان کا کہنا تھا یہ ٹیکس لگنے کے بعد لوگوں کو خود ادا کرنا ہوگا یہ نیا لیوی ٹیکس کمپنی ادا نہیں کرے گی اور ملازمین کی بڑھتی ہوئی پریشانی کے باوجود تنخواہیں بڑھانا پسند نہیں کرے گی کیوں کہ آئل کی قیمتیں کم ہونے اور معیشت متاثر ہونے کے سبب پہلے ہی نجی سیکٹر پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، پہلے ہی بہت سے نجی اداروں میں تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہورہی ہے، کٹوتیاں بھی کی جارہی ہیں اور ملازمین کی ترقیاں رکی ہوئی ہیں۔
یہ ٹیکس مالی، چوکیدار، ہیلپر پر عائد نہیں ہوگا، سعودی وزیر
یہ ٹیکس انتہائی کم آمدنی والے ملازمین پر عائد نہیں ہوگا جیسا کہ مالی، ڈرائیور، چوکی دار، قاصد، ہیلپر، صفائی والے۔
اس ضمن میں سعودی عرب کے فائنانس منسٹر محمد الجادان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ یہ لیوی ٹیکس غیر ملکی ہیلپر پر عائد نہیں ہو جیسا کہ ڈرائیور اور صفائی کرنے والے ملازمین۔
لیوی ٹیکس سے سعودی حکومت کو 65 ارب ریال آمدنی ہوگی
گلف نیوز کے مطابق سعودی عرب میں غیر ملکی باشندوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، لیوی ٹیکس عائد کرنے سے سعودی عرب حکومت کو 2020ء تک 65 ارب سعودی ریال کی آمدنی متوقع ہے۔
اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے حالیہ بحران کے سبب بڑی تعداد میں لوگوں کو نکالا جاسکتا ہے، تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے ملٹی نیشنل سعودی کمپنی بن لادن گروپ نے حال ہی میں جدہ سے 70 ہزار غیر ملکی ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کردیا ہے۔
دوسری جانب معاشی ماہرین نے سعودی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ یہ ٹیکس معیشت کی بہتری نہیں بلکہ اس کے زوال کا سبب بھی بن سکتا ہے، ٹیکس سے نجی سیکٹر پر برا اثر پڑے گا کیوں کہ نجی سیکٹری میں موجود ملازمین کی بہت بڑی تعداد غیر ملکی ہے۔
سعودی گزٹ کے مطابق سعودیہ عرب کی رائل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے رکن عبداللہ المغلوتھ نے کہا تھا کہ اس ٹیکس کے عائد ہونے سے تعمیراتی، غذائی اور اشیائے صرف کی لاگت میں اضافہ ہوجائے گا جس کا مقامی شہریوں کو بھی نقصان پہنچے گا، یہاں قائم کاروباری ماحول متاثر ہوگا۔
کراچی: آج 21 جون کو اگلے 31 برس کا سب سے طویل روزہ ہے جو دوبارہ 2048ء میں دیکھنے کو ملے گا۔
تفصیلات کے مطابق 21 جون کو سال کا سب سے بڑا دن ہوتا ہے اور سب سے چھوٹی رات، بعد ازاں 22 جون سے دن واپس چھوٹا اور رات بڑی ہونے لگتی ہے، یہ عمل 21 دسمبر تک جاری رہتا ہے جس کے بعد دن واپس بڑا اور رات چھوٹی ہونے لگتی ہے۔
21 جون کو سال کا سب سے بڑا دن ہے اور ماہ رمضان المبارک جاری رہنے کی وجہ سے کل روزہ بھی ہوگا تو اس لیے یہ روزہ سب سے طویل روزہ کہلائےگا۔
ویسے تو 21 جون ہر سال آتی ہے لیکن اگلے برس 21 جون کو رمضان المبارک نہیں ہوگا بلکہ ماہ شوال جاری ہوگا، اگلے برس 16 یا 17 جون کو عید الفطر ہوگی رمضان المبارک 21 جون آنے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گے۔
اب 21 جون 2017ء کو روزہ رکھا جارہا ہے اس کے ٹھیک 31 برس بعد 21 جون 2048 کو پھر رمضان المبارک جاری ہوگا۔
ماضی قریب کا جائزہ لیں تو 21 جون 1984ء کو 21 رمضان المبارک کا دن تھا جس کے ٹھیک 31 برس بعد 21 جون 2015ء کو 4 رمضان المبارک کا دن آیا۔
شمسی کیلنڈر 365 دن اور قمری کیلنڈر 355 دن کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قمری کلینڈر کے ہر سال 10 دن کم ہوجاتے ہیں، بتدریج ہر سال 10 کم ہونے کے بعد جس عیسوی تاریخ کو جو ہجری تاریخ ہوتی ہے اس کے آس پاس کی تاریخ 31 برس بعد دوباری گھوم کر آتی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
دوحا:سات عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم ہونے کے بعد قطر کی اسٹاک مارکیٹ کریش ہوگئی، فٹ بال ورلڈ کا انعقاد خطرے میں پڑھ گیا، قطر ایئرویز کی پروازوں پر پابندی عائد کردی اور ان ممالک نے الجزیرہ ٹی وی کی نشریات بند کردیں، پاکستان نے بائیکاٹ سے غیر جانب دار رہنے کا اعلان کردیا۔
تفصیلات کے مطابق سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا، مالدیپ اور یمن نے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کرتے ہوئے قطر سے زمینی اور فضائی رابطے منقطع کردیے ہیں جس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ قطر دہشت گردوں کو سپورٹ کررہا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ اس تنازع کی ایک وجہ قطری امیر کا ایک بیان بھی ہے امیر قطر نے مبینہ طور پر ایک فوجی تقریب میں کہا تھا کہ ایران ایک عظیم اسلامی ریاست ہے، اسرائیل کے ساتھ قطر کے تعلقات اچھے ہیں اور حماس فلسطینی مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے اس بیان نے عرب دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔
قطر کے امیر کا ایران کے حق میں بیان اصلی تھا یا نقلی؟ قطری حکام کا کہنا ہے کہ ان کی ویب سائٹ ہیک کرلی گئی تھی جس سے یہ بیان نشر ہوا۔
اس ضمن میں سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر ہیکرز نے حملہ کردیا اور یہ بیان ہیکرز کی کارروائی کا نتیجہ ہے،لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ امیر قطر کے اس بیان کے ٹکر سرکاری ٹی وی پر بھی چلے ہیں۔
تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ناراضی کی ایک وجہ یہ بیان بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستان کا غیر جانب دار رہنے کا اعلان
دوسری جانب پاکستان نے اس معاملے سے غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا ہے۔
قطر کا بہت کچھ داؤ پر لگ گیا
بلندو بالا عمارات رکھنے والی یہ عرب ریاست عالمی توجہ اپنی جانب مرکوز رکھنے میں کامیاب رہی ہے لیکن خطے میں حالیہ تنازع قطر کو شدید مشکلات کا شکار کرسکتا ہے اور اس ریاست کا بہت کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔
سات عرب ممالک کی جانب سے قطر کے سفارتی بائیکاٹ کے بعد قطر ایئر ویز کو شدید مالی نقصان کا خدشہ ہے، بائیکاٹ کے بعد قطر کی اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی ساتھ ہی فٹ بال ورلڈ کپ کا انعقاد بھی مشکلات کا شکار ہوگیا۔
عرب ممالک میں الجزیرہ ٹی وی کی نشریات بند
سعودی عرب نے الجزیرہ ٹی وی کی نشریات بھی بند کردی ہیں۔
قطر کی اسٹاک مارکیٹ کریش ہوگئی
عرب ممالک کے بائیکاٹ کا پہلا دھچکا قطر کو شیئر مارکیٹ کریش ہونے کی صورت میں لگا جہاں تمام شعبہ جات میں شیئرز کی قیمتیں بری طرح گر گئیں۔
قطر ایئر ویز پر پابندی، فضائی حدود استعمال کرنے سے روک دیا
سعودی عرب نے قطری فضائی کمپنی قطر ایئر ویز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے بھی روک دیا جس سے کمپنی کو بہت بڑے مالی نقصان کا خدشہ ہے۔
ملک کا واحد زمینی راستہ بند، فضائی اور بحری رابطے منقطع
قطر کی واحد زمین سرحد سعودیہ عرب سے ملتی ہے جو کہ ملک کا واحد زمینی تجارتی راستہ ہے جو کہ بند کردیا گیا ہے۔
فٹ بال ورلڈ کپ کا انعقاد خطرے سے دوچار
قطر میں سال 2022ء میں فٹ بال ورلڈ کپ منعقد ہونا ہے اور وہ بھی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے، فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے آٹھ نئے اسٹیڈیم بنائے جارہے ہیں،سرحدی بندشیں، تعمیراتی میٹریل آنے میں تاخیر اور راستے طویل ہونے سےسامان کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔
قطری شہریوں کو 14 روز میں ملک چھوڑنے کا حکم
بائیکاٹ کرنے والے ممالک نے اپنے سفیر واپس بلالیے وہیں سعودی عرب نے قیام پذیر قطری شہریوں کو چودہ روز میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
سعودی اسلامی اتحاد سے باہر
قطر کو 39 ممالک کے سعودی اسلامی اتحاد سے باہر کردیا گیا، جنگی محاذوں پرقطری سپاہیوں کی ڈیوٹی ختم کرکے اتحاد میں شریک تمام قطری فوجی دستوں کو نکال دیا گیا۔
دبئی: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے پر عالمی عدالت جانا کا فیصلہ غلط ہے، یہ ہمارا داخلی اور قومی سلامتی کا معاملہ ہے، آئی سی جے جیسی جگہوں پر بھارتی لابی چلتی ہے،ممکن ہے جندال کلبھوشن سے متعلق پیغام لایا ہو، 80ء کی دہائی میں جہادیوں پر سپورٹ کرنے کا فیصلہ درست تھا، اسامہ بن لادن 80ء کی دہائی کا ہیرو ہے، امریکا افغانستان سے نکل جائے تو طالبان دوبارہ چھا جائیں گے۔
یہ باتیں انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’اعتراض یہ ہے ‘‘ میں میزبان عادل عباسی سے بات کرتے ہوئے کہیں۔
کسی کو حق نہیں کہ ہماری قومی سلامتی پر ہمیں رائے دے
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر آئی سی جے میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا،کسی کو حق نہیں کہ ہماری قومی سلامتی پر ہمیں رائے دے، اگر یہی بات ہے تو اجمل قصاب کا کیس ہمیں بھی لے جانا چاہیے تھاجب کہ کلبھوشن تو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو دیکھ رہا تھا۔
جس کی مرضی ہوتی ہے عالمی عدالت کا فیصلہ مانتا ہے ورنہ نہیں
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر جس کی مرضی ہوتی ہے آئی سی جے کا فیصلہ مان لیتا ہے،ماضی میں مثالیں ہیں کہ آئی سی جے کے فیصلوں سے انکار کیا گیا،پاکستانی طیارہ گرانے کے معاملہ پر بھارت آئی سی جے میں نہیں آیا تھا۔
آئی سی جے جیسی جگہوں پر بھارتی لابی بھی چلتی ہے
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کامعاملہ قومی سلامتی کا ایشو ہے اس میں مداخلت برداشت نہیں کرنی چاہیے، آئی سی جے جیسی جگہوں پر بھارتی لابی وغیرہ بھی چلتی ہے،کلبھوشن کا کورٹ مارشل ہوا ہے یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے۔
بھارت کلبھوشن جیسوں کے ذریعے دہشت گردی کرارہا ہے
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کلبھوشن جیسے دہشت گردوں کے ذریعے بھارت دہشت گردی کرا رہا ہے، بلوچستان میں کچھ لوگ پٹاخے چلاتے ہیں اور بھارت ان کی مدد کرتا ہے،بھارت ان ہی ایشوز کا سہارا لے کر پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرتا ہے۔
آرمی چیف نے عالمی عدالت بھیجا تب بھی فیصلہ غلط ہے
آرمی چیف قمر باجوہ کی جانب سے کل کے سیمینار میں کہا گیا کہ عالمی عدالت جانے کا ہم نے کہا تھا تو اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ اگر آرمی چیف کے کہنے پر عالمی عدالت گئے تب بھی یہی کہتا ہوں کہ عالمی عدالت جانا ہی نہیں چاہیے تھا یہ فیصلہ غلط تھا۔
یہ کام حکومت یا دفتر خارجہ کو کرنا چاہیے فوج نے کیوں کیا؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں قوانین تو یہی ہیں کہ حکومت یا دفتر خارجہ یہ بات کرے لیکن کلبھوشن کو چوں کہ فوجی عدالت نے سزا دی ہے اس لیے فوج نے ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ عالمی عدالت جایا جائے۔
کلبھوشن کا معاملہ بہت اچھالنا چاہیے تھا
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حاضر سروس نیوی کا کمانڈر را کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہا ہے اس معاملے کو ہمیں بہت زیادہ اچھالنا چاہیے تھا۔
جندال آیا تھا تو اسلام آباد میں ملاقات کرنی چاہیے تھی
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جندال پاکستان آیا تو اسلام آباد میں ہی ملاقات کرنی چاہیے تھی، جندال آپ کا ذاتی دوست ہے تو ذاتی سطح پر ملاقات کی جائے۔
نواز شریف جندال سے ملاقات کی وضاحت کریں
انہوں نے کہا کہ سجن جندال سے مری میں ملاقات کی وضاحت ہونی چاہیے، سجن جندال کی نواز شریف سے ملاقات پر کنفیوژن ہے،سجن جندال سے ٹیلی فون پر بھی بات ہوسکتی تھی۔
ممکن ہے جندال کلبھوشن سے متعلق پیغام لایا ہو
ملاقات میں کلبھوشن کا معاملہ زیر بحث آیا؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ بھارتی چالاک بہت ہیں، مودی کے ویسے ہی نواز شریف سے تعلقات ہیں، وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہتے ہیں، ممکن ہے کہ کبلھوشن کے معاملے پر جندال کوئی پیغام لائے ہوں۔
پاکستان کوئی بھوٹان نہیں جو بھارت دھمکیاں دیتا ہے
انہوں نے کہا کہ واجپائی سے ہاتھ سیاسی بریک تھرو کے لیے ملایا تھا، اب یہ ملاقاتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف اشتعال انگیزی کرتے ہیں،پاکستان کوئی بھوٹان نہیں جو بھارت دھمکیاں دے رہا ہے،ہمیں سبق سکھانے کی بات کرنے والے خود سبق یاد کریں۔
ن لیگ انتخابات میں حکومتی مشینری استعمال کرتی ہے
پرویز مشرف نے کہا کہ یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، مجھ سمیت قوم کی نظر میں نواز شریف صادق اور امین نہیں، انتخابی اصلاحات نہ ہوئیں تو آئندہ الیکشن ن لیگ جیت جائے گی،ن لیگ انتخابات میں حکومتی مشینری استعمال کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تیسری سیاسی قوت وقت کی اہم ضرورت ہے، پی ٹی آئی سندھ میں دوسری سیاسی قوت بھی نہیں ہے۔
جہادیوں کو سپورٹ اور بعد میں ان کا مخالف بننا، پالیسی ایک نہیں رہتی
سوشل میڈل کے ذریعے نوجوانوں کا ذہن تبدیل ہونے کے سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ 80ء میں جہادیوں کو سپورٹ اور نائن الیون کے بعد ان کے خلاف ہوجانا،پالیسی کبھی ایک نہیں رہتی، جو مرے ہوئے ملک ہیں وہ ایک ہی پالیسی پر چلتے ہیں جب کہ جاگے ہوئے ملک دنیا کے ماحول کو دیکھتے ہیں، تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے مطابق رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور پالیسی وضع کرتے ہیں۔
سال 1980ء میں جہادیوں کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ درست تھا
انہوں نے کہا کہ 1980ء میں جہادیوں کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ درست تھا، وہ فیصلہ امریکا کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ پاکستان کا فیصلہ تھا کیوں روس اور افغان فورسز گرم پانیوں کی طرف جانا چاہتے تھے ہمیں دو طرفہ تھریٹ تھے۔
پشاور اور کوئٹہ کے سوا لاکھ افراد افغان جہاد میں فنڈنگ کرکے بھیجے
مشرف کا کہنا تھا کہ ہم نے الیون اور ٹویلو(12) کور یعنی پشاور اور کوئٹہ والے سوا لاکھ افراد کو اخراجات کے بعد افغان جہاد بھیجا یہ ہمارا اپنا مفاد تھا کہ روسیوں کو نکالیں جو ہمارے لیے خطرہ بن رہے تھے۔
اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری 80ء کے ہیرو ہیں
انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کی بات تھی اور اب معاملہ دوسرا ہے، روسی جاچکے ہیں، 90ء کا دور آگیا، یہی لوگ جنہیں جہادی کہتے ہیں پلٹ گئے، اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری 80ء کی دہائی کے ہیرو ہیں جو روسیوں سے لڑنے آئے تھے لیکن اب انہوں نے اپنی توپیں انٹرنیشنل ٹیررازم کی جانب موڑ دیں، کیا اب بھی ہم انہیں سپورٹ کرتے رہے ہیں؟ بالکل نہیں۔
سال 80ء میں ہونے والا جہاد بعد میں فساد میں تبدیل ہوگیا
انہوں نے کہا کہ اب معاملہ بدل گیا، اب طالبان آگئے، ملا عمر آگئے اور ہم نے انہیں سپورٹ نہیں کیا، 80ء میں ہونے والا جہاد بعد میں فساد میں تبدیل ہوگیا، اس سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ امریکا کی غلطی ہے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے، میں امریکا میں بھی یہ کہتا ہوں۔
افغانستان میں ہم فیل طالبان کامیاب کیوں ہوئے؟ تجزیہ کیا جائے
افغانستان میں امریکا موجود ہے پھر بھی حالات تبدیل کیوں نہ ہوئے اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ سب فیل ہوئے اور طالبان وہاں کامیاب ہوئے، ایسا کیوں ہوا اس کا ہم سب کو تجزیہ کرنا چاہیے کہ حالات کیوں ٹھیک نہ ہوئے۔
امریکا افغانستان سے نکل جائے تو طالبان دوبارہ چھا جائیں گے
آج امریکا افغانستان سے نکل جائے تو طالبان دوبارہ وہاں چھا جائیں گے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔
امریکا نے حملہ کیا تو طالبان بھاگ کر پاکستان کے پہاڑوں میں آگئے
انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پوری دنیا نے مشترکہ طور پر کہا کہ انہیں سزا دی جائے جس پر امریکا نے وہاں کارروائی کی تو القاعدہ اور طالبان بھاگ کر پاکستان کے پہاڑوں میں آگئے، افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری وکٹری فائنل سلوشن نہیں ہوتی اس بات کو یاد رکھیں۔
نیویارک: امریکی سیکیورٹی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کمپیوٹرز کے بعد اب ہیکرز اسمارٹ فونز کو نشانہ بناسکتے ہیں۔
بڑے بڑے اداروں کے بعد اب عام آدمی کی زندگی بھی سائبر کرائم حملوں سے متاثر ہوسکتی ہے ۔امریکی سیکیورٹی ماہرین نے کہا ہے کہ 150 ممالک میں تین لاکھ سے زائد کمپیوٹرز پر وانا کرائے وائرس حملوں کے بعد اب ہیکرز موبائل نیٹ ورک پر حملہ کرسکتے ہیں۔
ہیکرز اب تک تو موبائل نیٹ ورکس کی سیکیورٹی توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں لیکن مستقبل میں اس سیکیورٹی کو توڑے جانے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ وانا کرائے سائبر حملے میں ہیکرز نے کمپیوٹر کو بحال کرنے کے عوض انٹرنیٹ منی بٹ کوائن کی شکل میں تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا۔
ہیکنگ سے کیسے بچیں؟
نامعلوم ای میل نہ کھولیں:
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے آپ چاہے کمپیوٹر استعمال کریں یا ای میل، نامعلوم فرد کی جانب سے موصولہ ای میل کو ہرگز نہ کھولیں، یہ میل ویئر اور فشنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، ایسی ای میل کھولتے ہی آپ کا سسٹم یا اسمارٹ فونز وائرس زدہ ہوجاتا ہے اور جو اسکرپٹ اس وائرس میں فیڈ کیا گیا ہے وہ اپنا کام شروع کردیتا ہے ، اگر ای میل کھول ہی لی ہے تو کم از کم ای میل میں دیے گئے لنک پر تو ہرگز کلک نہ کریں۔
کمپیوٹر میں نیا آپریٹنگ سسٹم انسٹال کریں:
اپنے کمپیوٹر میں نیا آپریٹنگ سسٹم انسٹال کریں جیسے ونڈوز کا نیا ورژن جو دستیاب ہو، اگر پہلے سے کوئی ونڈوز کی ہوئی ہے تو نئی ونڈوز کرنا مزید بہتر ہے، پتا نہیں وہ کتنی پرانی ونڈوز ہو اور مسلسل کئی ماہ رواں رہ کر اس کی کتنی فائلیں کرپٹ ہوچکی ہوں یا ڈیلیٹ ہوچکی ہوں۔
اپنے ڈیٹا کا بیک اپ بنالیں:
کمپیوٹر یا اسمارٹ فون میں موجود اپنے ڈیٹا کا بیک اپ بنالیں اگر کسی بھی صورت آپ کی یہ الیکٹرونک ڈیوائس یرغمال بنالی جاتی ہے تو تاوان ادا کیے بغیر آپ اپنا سسٹم ری کور کراسکیں یا آپ کو ڈیٹا ضائع کرنے کی دھمکی ملے تو آپ کو اس کی پروا نہیں رہے گی۔
سسٹم اپ ڈیٹ کرتے رہیں:
اپنا سسٹم اپ ڈیٹ کرتے رہیں، جیسا کہ ونڈوز کی اپ ڈیٹ، یا اسمارٹ فونز ہے تو اسمارٹ فون کی اپ ڈیٹ انسٹال کرتے رہیں۔
اینٹی وائرس انسٹال کریں:
کمپیوٹر ہو یا اسمارٹ فون، اینٹی وائرس سافٹ ویئرز کا انسٹال ہونا ناگزیر ہے، کوشش کریں کہ اینٹی وائرس معیاری ہو، نیا ورژن ہو اور ساتھ یہ دھیان رہے کہ انٹرنیٹ سے وہ مسلسل اپ ڈیٹ بھی ہورہا ہو، اگر آپ اپنا اینٹی وائرس اپ ڈیٹ نہیں کررہے تو اس کا انسٹال ہونا غیر موثر ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ویانا: آسٹریا میں برقع پہننے اور قرآٓن شریف تقسیم کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، برقع کرنے والی خاتون پر 150 یورو جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق کئی ممالک کے بعد اب آسٹریا بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیا جہاں برقع پر پابندی عائد کردی گئی، منگل کی شام آسٹریا کی پارلیمنٹ نے برقع پر پابندی کے بل کی منظوری دے دی۔
لیکن یہاں اضافی طور پر قرآن کی مفت تقسیم پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے،اب عوامی مقامات پر قرآن کریم کے نسخے مفت تقسیم نہیں کیے جاسکیں گے۔
آسٹرین میڈیا کے مطابق منظور شدہ بل کے تحت پابندی کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا، خلاف ورزی کرنےو الے خاتون کو 150 یورو یعنی 166 ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
بل میں مہاجرین کو جرمن زبان سیکھنے کا بھی پابند کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لے کر جرمن زبان سیکھیں اور یہاں کے طور طریقوں سے آگاہی کا ایک سالہ کورس مکمل کریں۔
آسٹرین میڈیا کے مطابق یہ قانون نیو مائیگرنٹ لا کا تسلسل ہے ، اس قانون کا مقصد ہجرت کرکے آنے والے افراد کو مقامی افراد میں ضم کرنا ہے۔
آسٹریا کے قوانین سیاسی پناہ کے خواہش مند مہاجرین کی اس ضمن میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بلا معاوضہ رفاہی کام کریں تاکہ وہ لیبر مارکیٹ میں کام کرنے کےلیے تیار ہوجائیں۔
قبل ازیں آسٹریا کی عدالت برقع کے ضمن میں کمپنیوں کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے کہ وہ اپنے ملازمین پر برقع پہننے کی پابندی عائد کرسکتے ہیں تاہم اب پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر بھی برقع پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔
یاد رہے کہ فرانس اور بیلجیم کی طرح متعدد یورپی ممالک میں بھی برقع پہننے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔