Author: ضیاء الحق

  • بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    یہ جمعہ پندرہ اگست دو ہزار پچیس کی دوپہر کا وقت تھا۔ میں اپنے اے آر وائے نیوز پشاور بیورو میں موجود تھا اور صبح سے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات کے اضلاع، شانگلہ، سوات، دیر، باجوڑ، بٹ گرام، مانسہرہ، چترال اور بونیر میں شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات آرہی تھیں اور جب کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال جنم لیتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ابتدائی ویڈیو یا تصاویر موبائل سے بنا کر واٹس ایپ سے شیئر کر دی جائیں اور جہاں ممکن ہو وہاں فوراً لائیو کوریج کے لئے سیٹیلائٹ لنک سے جوڑنے والی گاڑی جس پر ڈش لگی ہوتی ہے اسے روانہ کیا جائے عرف عام میں ہم اس کو ڈائرکٹ سٹیلائیٹ نیوز گیدرنگ ( ڈی ایس این جی ) گاڑی پکارتے ہیں اور اس گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو ایمبولینس کا ہوٹر لگا کر پہنچائے کیونکہ فوراً سے پیشتر پہنچ کر لائیو کوریج شروع کرنے کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔

    یقیناً یہ ایک خطرناک عمل ہوتا ہے لیکن ہر چینل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین تک کیمرے کی آنکھ سے تازہ صورتحال سب سے پہلے بتائے۔ خیر یہ تو لائیو کوریج کی بات ہوگئی تو اسی تناظر میں ہم نے اپنے بیورو میں میٹنگ کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ پہلا خیال تھا کہ باجوڑ جایا جائے لیکن ہمارے ساتھی ظفر اللہ نے بتایا وہاں اب سیلابی صورتحال کنٹرول میں ہے اور دوسرا سیکیورٹی نقطۂ نظر سے یہاں حالات بہتر نہیں کیونکہ سیلاب سے قبل شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن چل رہا تھا اور ماموند تحصیل میں کچھ گاؤں سے نقل مکانی بھی ہوئی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ بونیر اور سوات میں سیلابی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے تو فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد بیورو سے رابطہ کرکے وہاں کی ایک ڈی ایس این جی سوات جہاں ہمارے ساتھی شہزاد عالم اور کیمرہ میں کامران کوریج کررہے تھے انکو بھیجی جائے جبکہ پشاور کی دو ڈی ایس این جیز میں ایک بونیر لے جانا کا فیصلہ ہوا۔ جہاں ہمارے ساتھی شوکت علی بھر پور کوریج کر کے پل پل کی خبر دے رہے تھے۔

    بونیر روانگی

    بونیر جانے والی ڈی ایس این جی میں راقمِ حروف اپنے کیمرہ مین ارشد خان، ڈی ایس این جی آپریٹر لئیق اور ڈرائیور رؤف کے ساتھ روانہ ہوا۔ چونکہ ہنگامی صورتحال تھی تو بیورو میں موجود، اسائنمٹ ایڈیٹر وقار احمد، رپورٹر ظفر اقبال، عدنان طارق، نواب شیر، عثمان علی، شازیہ نثار اور مدیحہ سنبل کو پشاور میں سیلاب کی صورتحال اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کی ہدایت دی جبکہ عدنان طارق کو ریسکیو کے ہیڈ کوارٹر بھیج دیا جہاں وزیر اعلیٰ کے پی علی امین کی ہدایت پر آپریشن روم بن چکا تھا۔ ہم نے پشاور میں جو انتطامات کئے تھے اس حوالے سے کراچی ہیڈ آفس میں صدر اے آر وائی نیوز عماد یوسف اور سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر فیاض منگی کو بھی آگاہ کیا۔ اس دوران ہم دن دو بجے پشاور سے نکلے تو کراچی سنٹرل ڈیسک سے فون موصول ہوا کہ چھ بجے آپکا بونیر سے لائیو بیپر ہوگا۔ کیونکہ میں نے انکو بتایا تھا کہ ہم چار گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ جب ہم پشاور سے نکلے تو موسم ابر آلود تھا اور ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ پتہ چلا خیبر پختونخواحکومت نے امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لئے زمینی اور فضائی ٹیمیں روانہ کردی ہیں اور فضائی ریسکیو کے لئے دو ہیلی کاپٹر استعمال میں لائے جا رہے ہیں لیکن ان میں ایک ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا ہے اب یہ خبر جب ملی تو مصدقہ نہیں تھی اور میری کوشش تھی کہ اسکی تصدیق ہوسکے جس کے لئے جہاں نے میں پشاور کی ٹیم کو متحرک کیا وہیں باجوڑ میں ظفر اللہ اور مہمند میں اپنے ساتھی فوزی خان سے رابطہ کیا ۔ فوزی خان نے واقعہ کے رونما ہونے کے بارے میں بتایا لیکن تصدیق نہیں کرسکا۔ میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو میں بونیر کے راستے میں تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے موبائیل سگنل بھی نہیں مل رہے تھے اس دوران میرا رابطہ کچھ ذمہ دار حکام سے ہوگیا جنہوں نے پہلے لاپتہ ہونے کی تصدیق کردی تو میں نے فیاض منگی کو بتایا اور انہوں نے خبر اے ار وائے نیوز پر بریک کروا کے میرا بیپر لے لیا اور اس دوران وزیراعلیٰ علی امین کا بیان بھی آگیا کہ ہیلی کاپٹر کریش ہوگیا ہے جس میں پائلٹ سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس خبر کو کور کرتے کرتے ہم سوات موٹر وے کے راستے کاٹلنگ مردان سے ہوتے ہوئے بونیر پہنچ گئے۔

    بونیر کا ماحول اور ڈگر ہسپتال کی صورتحال

    جب بونیر میں داخل ہوئے تو پہلا گاؤں کنگر گلی تھا لیکن وہاں زندگی معمول پر تھی حالانکہ اس وقت تک صرف بونیر میں سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ادھر سے ہم تیزی سے بونیر کے صدر مقام ڈگر کو روانہ ہوئے جہاں ضلعی ہسپتال تھا۔ وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اے آر وائے نیوز پہلا چینل ہے جس کی ڈی ایس این جی پہنچی ہے۔ یہاں ایک افراتفری والا ماحول تھا، ایمرجنسی ہوٹر والی گاڑیوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا ۔ وہیں ہم نے ہسپتال کے باہر ڈی ایس این جی سے سٹیلائیٹ رابطہ کرکے ہسپتال کے اندر اور باہر کی فوٹیجز بھیجیں اور ساتھ لائیو تبصرہ بھی دیا ۔ میرے ساتھ ہمارے ساتھی شوکت علی بھی لائیو تھے جنہوں نے بتایا کہ بونیر کے اہم علاقے جو سیلاب سے متاثر ہوئے ان میں پیر بابا بازار، بیشنوئی،قدر نگر اور حصار تنگی ہیں ۔ ابھی ہم لائیو تبصرہ دے رہے تھے کہ اس دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر جو بونیر سے ممبر قومی اسمبلی بھی ہیں پہنچ گئے اور ہمارے ساتھ گفتگو کی جو آن ائیر تھی ۔

    پیر بابا کا سفر اور سیلاب سے متاثرہ خاندان سے ملاقات
    یہاں سے ہم پیر بابا بازار کے لئے روانہ ہوئے تو مجھے ساتھی نے بتایا کہ سیلاب نے بجلی کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے ۔ کھمبے زمین سے اکھڑ چکے ہیں ،تاریں سڑکوں پر گری ہوئی ہیں اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے موبائیل فون بھی کام نہیں کررہے ۔ ہم اپنے ساتھ احتیاطاً سٹیلائیٹ فون لے کر گئے تھے لیکن اس کے ذریعے بھی رابطہ مشکل سے ہو رہا تھا اس لئے ہم نے ہیڈ آفس سے ڈی ایس این جی کے لئے فکس پیرامیٹر لئے کہ اگر رابطہ نہ ہو تو ہم چینل کو فوٹیجز اور ریکارڈڈ تبصرہ یا انٹرویو بھیجتے رہیں جو کہ کامیاب تجربہ رہا ۔ کیونکہ جب ڈگر سے پیر بابا کے لئے روانہ ہوئے تو سلطان وس تک موبائل سگنل تھے اس وقت تک رات کی تاریکی شروع ہوچکی تھی اور یہیں میں نے گاڑی روکی تو سیلاب سے تباہ حال ایک غریب مزدور کا مکان نظر آیا جو پہلے ہی کچا تھا میں نے میری وہاں گھر کے چند مرد حضرات سے ملاقات کی جو کیچڑ سے لت پت تھے اور پاوں میں جوتے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا سیلابی پانی اچانک آیا اور بس انکو اتنا موقع ملا کہ خواتین کو گھر سے نکال سکیں باقی زیادہ تر جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی اور وہ یہاں اس لئے موجود ہیں جو بچ گیا ہے اسکی حفاطت کرسکیں۔

    اس موقع پر میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سے بھوکے پیاسے ہیں کیونکہ سیلاب نے کنویں اور ہینڈ پمپ کے پانی کو بھی متاثر کیا ہے ۔یہ گھر پیر بابا بازار کے راستے میں آتا تھا اور اس وقت ریسکیو اہلکار ایمبولینس کے ذریعے مردہ و زخمی افراد کو ہسپتال پہنچا رہے تھے ۔ جب میں نے اس شخص کے ساتھ لائیو تبصرہ شروع کیا تو چند مقامی رہنما کیمرے کو دیکھ کر رک گئے تاکہ انٹرویو دے سکیں لیکن میں انکو آن ایئر شرم دلائی کہ آپکے علاقے کا یہ شخص اپنی مدد آپ کے تحت گھر سے سامان نکال رہاہے کم از کم اس کی مدد نہیں کرسکتے تو کھانے یا پانی کا بندوبست کر دیں تو انکا جواب تھا پیر بابا بازار میں بہت تباہی ہوئی ہے آپ وہاں جائیں ۔ اس دوران لائیو شو میں ہمارے چینل نے وزیر اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل سے بھی رابطہ کیا اور انکو بتایا کہ ابھی تک حکومتی امداد نہیں پہنچ سکی جبکہ انہوں نے وضاحت دی کہ ریسکیو ۱۱۲۲کے اہلکار اور ایمبولینس پہنچ چکی ہے بلکہ آرمی اور صوبائی حکومت کا ایک ہیلی کاپٹر بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔

    پیر بابا بازار کی رات کا منظر

    خیر ہم وہاں سے جب پیر بابا بازار کی طرف روانہ ہوئے تو آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا اور زمین کی بھی یہی صورتحال تھی کیونکہ ہم نے راستہ میں دیکھا جہاں کھڑی فصلیں ، جنگل تباہی کا منظر پیش کررہے تھے وہیں بڑی تعداد میں درخت، بجلی کی تاریں اور کھمبے گرے ہوئے تھے جسکی وجہ سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے نہ صرف بونیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں بلکہ سواتاور شانگلہ میں بھی بجلی منقطع کردی تھی ۔ بہرحال ہم آگے بڑھے تو پیر بازار جہاں جنرل سٹور، کھانے پینے ، مٹھائی ، کپڑے ، الیکٹرانکس، ورکشاپس۔ پیربابا مزار سے متصل سوغات سے بھری سو سے زائد دکانیں تھیں وہ سامان سمیت تباہی کا منظر پیش کررہی تھیں ۔ راستے بند تھے ہر طرف کیچڑ نظر آرہا تھا ، گھر، دکانیں، گیراج، کاروباری عمارتیں سیلابی پانی اور اس میں آنے والی ریت سے بھر چکی تھیں ۔ جو گاڑی سیلاب سے پہلے زمین پر کھڑی تھی وہ یا تو سیلابی پانی کی نذر ہو گئی یا عمارتوں کی چھتوں پر پہنچ گئی تھیں جو افراد سیلاب سے بچ گئے تھے وہ بے بسی اور صدمے میں ڈوبے ہوئے تھے کیونکہ کسی کا گھر تباہ تھا تو کسی کے پیارے سیلابی پانی کی وجہ سے لاپتہ یا جاں بحق ہوگئے تھے ۔ جس سے بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ سیلاب کی توقع نہیں تھی اور وہ بھی اتنا شدید جسکی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے ۔ سب کچھ آناً فاناً ہوااور ہر طرف ایک افراتفری کا عالم تھا۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اپنے آپ اور پیاروں کو بچائے ۔ مقامی افراد کے مطابق چونکہ یہ سب کچھ اچانک ہوا اس لئے امدادی ادارے موجود نہیں تھے اور امدادی سرگرمیاں بھی سیلاب کے کچھ گھنٹوں بعد شروع ہوئیں ۔ چونکہ رات گہری ہوگئی تھی تو ہم نے کوریج کو روکا اور صبح کا انتظار کرنے لگے اور نزدیک درگاہ شلبانڈی شریف تھی تو وہاں قیام کیا وہاں ہماری بہترین مہان نوازی کی گئی ۔

    پیر بابا بازار کا سیلاب کے دوسرے دن صبح کا منظر

    سیلاب کے دوسرے دن صبح ہم ڈگر سے متصل دیہات گئے جہاں ہم نے سیلاب سے منہدم اور بہہ جانے رابطہ پل دیکھے اور جب پیر بابا پہنچے تو سڑک سے کیچڑ ہٹانے کے لئے ضلعی انتظامیہ کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں لیکن بڑی تعداد میں عوام پیدل ، موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر جائے وقوعہ کی طرف رواں دواں تھے ان میں اجتماعی نمازہ جنازہ میں شرکت کرنیوالے ،رضاکار ، سرکاری حکومتی ،منتخب ممبران پارلیمنٹ ، سیاسی شخصیات میڈیا سے وابستہ افراد اور عام شہری شامل تھے ۔ کچھ تو ایسے تھے جو تماش بین تھے جس کے باعث روڈ پر جہاں صفائی کا کام جاری تھا گاڑیوں کی آمد سے بلاک ہورہا تھا اور امدادی کاموں اور ایمبولینس کی آمدورفت میں خلل پڑ رہا تھا ۔پیر بابا بازار ہر قدم پر ایک نئی کہانی تھی راستے دریا برد ہوچکے تھے ہم کیچڑ اور سیلابی پانی سے پیدل گزر کر کوریج کررہے تھے اور اس دوران ایک پرائیویٹ سکول پہنچے جہاں اساتذہ نے جب اچانک سیلاب آیا تو مختلف کلاس روم میں موجود پرائمری تا مڈل کے ڈھائی سو بچوں کو بچایا ۔ اسکی ہم نے کوریج کی جو اے آر وائے نیوز پر ایکسلوسیو چلی ہے

    قدر نگر اور بیشنوئی کا منظر

    پیر بابا سے آگے ہم قدر نگر اور بیشنوئی گئے جہاں سب زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا جو اے آر وائے نیوز نے مختلف زاویوں سے کور کیا اور اپنے ناظرین کو بھی اس سے آگاہ کیا، یہ سر سبز جاذب نظر پہاڑی علاقے ہیں اور الم کا پہاڑی علاقہ بھی اس کے قریب ہے جہاں اکثر سیکیورٹی فورسز کلئیرنس آپریشن بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تو پورے کے پورے گاوں زمین بوس ہوچکے تھے ، رابطہ پل ٹوٹ چکے تھے لیکن حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے عارضی راستہ بنایا۔ یہاں نقصان کی وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ پہاڑوں پر شراٹے دار بارش کا پانی گرا تو اس نے پہاڑوں کی نرم زمین کو چیرنا شروع کیا تو اس میں سے مٹی ،ریت بھی آبادی کی طرف بہنا شروع ہوگئی جسکی وجہ سے بڑے دیو ہیکل پتھر وہ بھی تیزی سے نیچے لڑکھتے ہوئے آبادی پر گرنا شروع ہوگئے اور چونکہ سر سبز ہونے کے باوجود یہاں درختوں کی انتہائی محدود تعداد تھی تو پانی ریت پتھر اور مٹی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔ اس علاقے کی آبادی کا رہن سہن کا اپنا طریقہ ہے ۔ چونکہ یہاں وسائل کم ہوتے ہیں گزر بسر مقامی کھیتی باڑی ،جنگل سے لکڑی کاٹ کر اسکا ایندھن کے طور پر استعمال ہے اور گھر کشادہ اور منزل بہ منزل ہوتے ہیں تو ایک ایک گھر میں پچیس تا تیس افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تیز سیلابی پانی جو اپنے ساتھ پانی ،بجری، ریت اور پتھر لایا وہ اس آبادی سے ٹکرایا تو جہاں بڑی تعداد میں مکانات زمین بوس ہوئے اور ملبہ کا ڈھیر بن گئے وہیں ان میں موجود آبادی کی بھی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور پھر ہر گھر کی اپنی کہانی تھی ۔ ان میں کچھ تو ایسے بھی تھے جنکے خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا اور وہ ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے اور کچھ کو سیلابی پانی بہا کر لے گیا پھر ان میں سے جن کی لاشیں ملیں وہ اکثر مسخ شدہ تھیں کہ شناخت بھی مشکل تھی اور جب امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تو وہ سست تھیں کیونکہ حکام کا بتانا تھا کہ وہ ملبے کو فورا ًبھاری مشینری سے ہٹانے سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی زندہ ہو تو بھاری مشین سے اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم جب یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی زندہ نہیں بچا تو پھر بھاری مشین استعمال کی گئی ۔

    عوام کے تاثرات

    ان علاقوں میں جن افراد سے ملاقات ہوئی ان کا ایک لفظ تھا کہ بس قدرتی آفت تھی تاہم زیادہ تر امدادی کاموں سے خوش تھے اور کچھ کی یہ شکایت تھی کہ رضاکار ،خیراتی ادارے و امدادی ادارے بڑی تعداد میں ان علاقوں کی طرف جارہے ہیں جہاں تباہی زیادہ ہوئی ہے اور کم تباہی والوں کو امداد کے حوالے سے کم توجہ مل رہی ہے حالانکہ نقصان انکا بھی ہوا ہے ۔وہ اپنے برباد گھروں کے دوباری اباد کاری پر پریشان نظر ارہے تھے کیونکہ انکی جمع پونجی سب سیلاب کی نظر ہوچکی تھی ۔کچھ ایسے بھی ملے جنکی بچیوں کی شادی ہونے تھی تو زیور اور دیگر سامان بھی نہیں رہا ۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ایک طرف اتنی زیادہ خوراک تھی کہ ضائع ہورہی تھی اور دوسری طرف لوگ خوراک کے لئے بھاگ رہے ہوتے تھے ۔ جب کبھی ایسی صورتحال ہوتی تو تماش بین بھی بڑی تعداد میں پہنچ جاتے ہیں جسکی وجہ سے روڈ بلاک ہو جاتے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔ اس واقعے کو سات روز ہوچکے ہیں لیکن اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھی ملبہ ہٹایا جارہا ہے ۔ آخری موصولہ اطلاع کے مطابق صوبہ بھر میں 393 افراد جاں بحق، 423 مکان اور 50 سکول مکمل تباہ، 1288 گھر اور 216 سکول جزوی تباہ ہوئے ہیں۔

    خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ریسکیو کاررائیوں کے بعد اب متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے کام کا آغاز ہوچکا ہے اور متاثرہ افراد کو امدادی چیکس بھی حوالے کر دیے گئے ہیں۔

    اس المناک سانحے اور قدرتی آفت کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کرنیوالے سٹاف کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے دن رات ایک کرکے ناظرین تک اصل حقائق پہنچائے میں بطور بیوروچیف خیبرپختونخوا تمام سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن میں رپورٹرز ظفر اقبال، شازیہ نثار، نواب شیر،عدنان طارق،مدیہہ سنبل نمائندہ بونیر سید شوکت علی، نمائندہ بونیر ریاض خان، نمائندہ سوات شہزادعالم و کامران ، نمائندہ شانگلہ سرفراز خان، نمائندہ باجوڑ ظفر اللہ بنوری، نمائندہ مانسہرہ طاہر شہزاد، نمائندہ اپردیر جمیل روغانی، نمائندہ لوئر دیر حنیف اللہ، نمائندہ بٹگرام نورالحق ہاشمی، کیمرہ مین ، ارشد خان، حیات خان، ارسلان جنید، واحد خان۔ عدیل اور محمد شکیل، ڈی ایس این جی انجینئرز طائفل نوید ۔روح اللہ ،لئیق علی شاہ، شکور، سجاد۔ ڈرائیورز محمد رؤف، عرفان، عظمت ۔آصف اور ہیلپر ہارون شامل ہیں۔

  • خراب موسم:خیبرپختونخوا حکومت کا سرکاری ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا

    خراب موسم:خیبرپختونخوا حکومت کا سرکاری ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا

    پشاور: خیبرپختونخوا حکومت کا سرکاری ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا، ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت کا سرکاری ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا، چیف سیکریٹری کے پی شہاب علی شاہ نے بتائا کہ ہیلی کاپٹر مہمند کے علاقے میں ریسکیو آپریشن میں مصروف تھا،جب خراب موسم کے باعث اس کا رابطہ منقطع ہو گیا۔

    چیف سیکریٹری کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہیلی کاپٹر کی تلاش کے لیے فوری اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں اور متعلقہ ادارے اس کی لوکیشن معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہا تھا اور حادثے کے وقت علاقے میں شدید موسمی صورتحال تھی۔

    اس حوالے سے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے کہا کہ باجوڑ،سلارزئی میں امدادی سامان لے جانیوالےہیلی کاپٹر ایم آئی17سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے ، خراب موسم کی وجہ سے مہمند کے فضائی حدود میں ہیلی کاپٹر سےرابطہ منقطع ہوا ،علی امین گنڈاپور

    ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر سے رابطہ قائم کرنے کے لئے تمام تر کوششیں کی جارہی ہیں اور علاقے میں فوری طور پر ٹیمیں بھیجنے کی ہدایات دی گئی ہیں تاہم کے پی حکومت کادوسراہیلی کاپٹر بونیر میں ریسکیو کاروائیوں میں مصروف ہے،علی امین گنڈاپ

    یاد رہے وزیراعلیٰ نے امدادی سرگرمیوں کے لئےہیلی کاپٹر مختص کیا تھا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے، دوائیں اور دیگر ضروری سامان بھی پہنچایاجا رہا ہے۔

    وزیراعلیٰ کی ہدایت پر متاثرہ اضلاع میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں، وہ خود امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

    پی ڈی ایم اے، ریسکیو ودیگر متعلقہ ادارے امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں تاہم ناخوشگوار واقعے پرپی ڈی ایم اے کنٹرول روم 1700 پر اطلاع دی جا سکتی ہے۔

  • ایبٹ آباد میں رولر کوسٹر کا مزا دیتی چیئر لفٹ (ویڈیو رپورٹ)

    ایبٹ آباد میں رولر کوسٹر کا مزا دیتی چیئر لفٹ (ویڈیو رپورٹ)

    قدرتی مناظر سے بھرپور شہر ایبٹ آباد جو اپنی خوبصورتی اور گیٹ وے ٹو شاہراہ ریشم کی وجہ سے مشہور ہے اب اس کی نئی پہچان بن گئی ہے۔

    ایبٹ آباد کا شمار پاکستان کے خوبصورت شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ اپنی خوبصورتی کے ساتھ گیٹ وے ٹو گلیات، بابوسر ٹاپ، گلگت بلتستان اور شاہراہ ریشم کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور نہ صرف ملک بھر بلکہ دنیا بھر سے سیاح اس خوبصورت شہر کی سیاحت کے لیے آتے ہیں۔

    تاہم اب ایبٹ آباد کے نواں شہر میں اس کی ایک اور شناخت بن گئی ہے اور وہ ہے چیئر لفٹ۔ یہ ہے تو چیئر لفٹ لیکن اپنے اونچے نیچے راستوں کی وجہ سے رولر کوسٹر کا مزا دیتی ہے۔

    جب سیاح اس چئیر لفٹ بیٹھتے ہیں تو ایبٹ اباد کی خوبصورتی اپ کو صحیح معنوں میں نظر اتی ہے کیوں کہ یہ چئیر لفٹ پہاڑوں کے بیچ سے گزرتی ہے۔ اسلئے پہاڑوں میں جھرنے اور جھیل کی خوبصورتی بھی دیکھنے کو ملتی یے۔

    چیئر لفٹ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کبھی اوپر کی طرف جاتی تو کبھی نیچے کی طرف اترتی ہے، جو اسے رولر کوسٹر بناتی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اسکی رفتار تیز نہیں۔

    سیاحوں کا بھی کہنا ہے کہ چیئر لفٹ کا سفر پرسکون اور ایڈونچر سے بھرپور ہے۔ جس میں بیٹھ کر انسان قدرتی نظاروں میں کھو جاتا ہے۔ دھند اور بادلوں کے درمیان سفر کا مزا ہی الگ ہوتا ہے۔

     

  • پی ٹی آئی قیادت ناراض امیدواروں کو منانے میں ناکام ہوگئی

    پی ٹی آئی قیادت ناراض امیدواروں کو منانے میں ناکام ہوگئی

    پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت ناراض امیدواروں کو منانے میں ناکام ہوگئی۔

    سینیٹ انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی امیدواروں میں اختلافات ختم نہ ہوسکے، وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ناراض سینیٹ امیدواروں سے مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہوگیا۔

    وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم نے مذاکرات میں شرکت کی، ناراض امیدواروں میں عرفان سلیم، عائشہ بانو، ارشاد حسین، وقاص اورکزئی شامل تھے۔

    متبادل سینیٹ امیدوار عرفان سلیم نے کہا کہ مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہوا ہے، فیصلہ اب کور کمیٹی کرے گی۔

    عرفان سلیم کا کہنا ہے کہ کور کمیٹی کے فیصلے پر ہم اپنا مؤقف دیں گے۔

    پی ٹی آئی تنظیمی عہدیداروں نے پارٹی قیادت سے سینیٹ الیکشن میں پشاور سے عرفان سلیم کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیا اور مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں صوبائی اسمبلی، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور ایم پی ایز کے گھروں کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی دی۔

    پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی تنظیمی عہدیداروں نے کہا تھا کہ عرفان سلیم کو ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ نظریے کے خلاف ہے، پارٹی کے دیرینہ کارکنان احتجاج میں شریک ہیں، عرفان سلیم کے کاغذات واپس نہیں لیں گے، وہ سینیٹ الیکشن کے امیدوار ہیں اور رہیں گے۔

    تنظیمی عہدیداروں نے کہا تھا کہ امید ہے پارٹی کی قیادت ہمارے جائز مطالبات کو مانے گی، ہمارا مطالبہ نہ مانا گیا تو وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر احتجاج کریں گے، ہم اپنی پارٹی کے خلاف ریڈ زون میں بھی چلے جائیں گے، مطالبہ نہ مانا گیا سینیٹ الیکشن کے دن اسمبلی کا گھیراؤ کریں گے، کسی ایم پی اے کو اسمبلی کے اندر نہیں جانے دیں گے، ووٹ ڈالنے والوں کے گھروں کا گھیراؤ کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں حقیقی کارکنوں کی حلق تلفی کی گئی ہے، یہ ہماری نظریات کی جنگ ہے جو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے شروع کی لیکن ختم ہم کریں گے۔

  • سانحہ سوات کی انکوائری رپورٹ پیش، کون ذمہ دار قرار؟

    سانحہ سوات کی انکوائری رپورٹ پیش، کون ذمہ دار قرار؟

    سانحہ سوات میں سیلابی ریلے میں 17 افراد کے بہہ جانے والے المناک حادثے سے متعلق انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ کے پی کو پیش کر دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سانحہ سوات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پراونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ مکمل کر کے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کو پیش کر دی گئی۔ 63 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے خامیوں کی نشاندہی اور کوتاہیاں دور کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

    اس رپورٹ میں فرائض سے غلفت کے مرتکب سرکاری اہلکاروں اور افسران کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی سفارش کی گئی ہے جب کہ وزیراعلیٰ کے پی نے کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی منظوری دیتے ہوئے متعلق محکموں کو غفلت کے مرتکب اہلکاروں اور افسران کے خلاف تادیبی کارروائیاں کرنے کی ہدایت کی۔

    ان متعلقہ محکموں میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بلدیات اور ریسکیو 1122 شامل ہے۔ یہ ادارے 60 روز میں قانونی تقاضے پورے کر کے تادیبی کارروائیاں کریں گے اور 30 روز میں رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات، ریور سیفٹی اور بلڈنگ ریگولیشن کے لیے جامع ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔

    انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے چیف سیکریٹری کی سربراہی میں اوورسائٹ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق پیشرفت پر ماہانہ رپورٹ وزیر اعلی سیکرٹریٹ بھیجےگی۔

    اس کے علاوہ یہ کمیٹی ریور سیفٹی ماڈیولز کو اگلے مون سون کنٹینجنسی پلان کا حصہ بنانے کے ساتھ ریسکیو 1122 کی استعداد بڑھانے کے لیے منصوبے پر تیز رفتار عملدرآمد یقینی بنائے گی جب کہ محکمہ اطلاعات، ریلیف اور سیاحت کی جانب سے اس حوالے سے صوبہ بھر میں آگہی مہم چلائی جائے گی۔

    دریں اثنا وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں ریور ریسکیو پلان منظور کرتے ہوئے مستقبل کے لیے 66 ملین روپے سے 36 پری فیب ریسکیو اسٹیشنز، 739 ملین روپے سے ریسکیو آلات کی خریداری، 608 ملین روپے سے 70 کمپیکٹ ریسکیو اسٹیشنز اور 200 ملین روپے سے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔

    سانحہ سوات انکوائری رپورٹ کے خدوخال:

    سانحہ سوات پر پراونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ میں پی ڈی ایم اے اور ضلع انتظامیہ کی ایڈوائزری پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے کے ساتھ محکمہ پولیس، ریونیو، آبپاشی، ریسکیو، سیاحت اور دیگر متعلقہ محکموں میں رابطوں کے فقدان کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    اس رپورٹ میں سیاحوں کو خطرات سے آگاہ کرنے میں ہوٹل مالکان کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ کرنے کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ حادثہ کے بعد ریسکیو 1122 کے ریساپنس میں تاخیر کا انکشاف کیا اور بتایا کہ اس کے پاس تربیت یافتہ عملہ اور آلات میسر نہیں۔

    اس رپورٹ میں سیاحتی مقامات پر دریا کے کنارے خطرات کی کوئی نشاندہی اور درجہ بندی کی عدم موجودگی، مون سون میں عوام کے تحفظ کے لیے جامع ایس او پیز نہ ہونے، آبی گزرگاہوں پر تعمیرات میں قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں، دفعہ 144 کے نفاذ پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کے فقدان کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دریائی سرگرمیوں کی موثر نگرانی کے لیے صوبائی قانون کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

    سانحہ کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے اقدامات کو بھی انکوائری رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 26 جون کو دریائے سوات میں تفریح کے لیے آئی ہوئی ڈسکہ اور مردان سے تعلق رکھنے والی دو فیملیز کے 17 افراد اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔

    ان میں سے چار افراد کو بچا لیا گیا۔ 12 لاشیں نکال لی گئیں جب کہ بچے عبداللہ کی لاش نہ مل سکی۔

    اس سانحہ کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے دریاؤں کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا اور اب تک 127 غیر قانونی عمارتیں سیل، تجاوزات کے زمرے میں آنے والے ہوٹلز مسمار کر دی گئی ہیں۔

    دوسری جانب مذکورہ سانحہ پر گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کی جانب سے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

  • شمالی علاقہ جات کیلئے ڈرونز خریدنے کا فیصلہ

    شمالی علاقہ جات کیلئے ڈرونز خریدنے کا فیصلہ

    پشاور: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے احکامات پر شمالی علاقہ جات کیلئے ڈرونز خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ترجمان وزیراعلیٰ کے مطابق شمالی علاقہ جات کیلئے ڈرونز خریدنے کی سمری پیش کر دی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر سیاحتی و دریاؤں والے علاقوں کیلئے 30 ڈرونز خریدے جائیں گے جن میں 10 بڑے اور 20 چھوٹے ڈرونز ہوں گے۔

    ایمرجنسی میں 4 بڑے ڈرونز خریدے جائیں گے۔

    بڑےڈرونز لائف جیکٹس، رسی اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل میں استعمال ہوں  گے جب کہ چھوٹے ڈرونز مختلف ریسکیو آپریشن کی نگرانی اور امدادی کاموں میں استعمال ہوں گے۔

    ریسکیو 1122 کو 2 ہزار لائف جیکٹس بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔

    خیبرپختونخوا حکومت نے سیلابی صورتحال میں ریسکیو کیلئے ڈرون حاصل کر لیا۔

    پی ڈی ایم اے کے مطابق ڈرون سے لائف جیکٹس، رسیاں، دیگر سامان متاثرہ علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔ چیف سیکرٹری کےپی شہاب علی شاہ کو ڈرون مشق کا مظاہرہ دکھایا گیا۔

    چیف سیکرٹری نے کہا کہ ریسپانس پلان کا ازسرنو جائزہ لیا ہے ہنگامی صورتحال میں رسپانس ٹائم بہتر بنانے کے اقدامات جاری ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو اہلکاروں کی آپریشنل صلاحیت بڑھانے کیلئے بھی کام جاری ہے لوکل کمیونٹی کو ایمرجنسی ریسپانس کےلیے تربیت دی جائے گی۔

    چیف سیکرٹری نے سیاحتی مقامات پر ہوٹلوں کو حفاظتی سامان کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کر دیا۔

  • بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور کو اہم ٹاسک دے دیا

    بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور کو اہم ٹاسک دے دیا

    پشاور: اڈیالہ جیل میں قید بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو اہم ٹاسک سونپ دیا۔

    ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی سیاسی و حکومتی قیادت میں اختلافات ہیں، عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو اعظم سواتی اور اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی کے درمیان معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کا ٹاسک دے دیا۔

    یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کے پیٹرن ان چیف بانی پی ٹی آئی ہیں، طلال چوہدری

    ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ صدر پی ٹی آئی کے پی جنید اکبر نے شوکت یوسفزئی سے ملاقات کے دوران انہیں دیگر قائدین سے مل کر گروپ بندی ختم کرنے کی ہدایت کی جبکہ وہ علی امین گنڈاپور اور جنید اکبر میں ملاقات کیلیے راہ بھی ہموار کریں گے۔

    شوکت یوسفزئی نے جنید اکبر سے ملاقات کی تصدیق کی جس میں پارٹی امور پر بات کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کیلیے سنجیدہ اقدامات کر دیے، نہیں چاہتے اختلافات سے سیاسی جدوجہد اور مستقبل کے اتحاد پر منفی اثرات پڑیں۔

    چند روز قبل خبر سامنے آئی تھی کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیلیے علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر سیف کو ٹاسک دیا ہے۔

    تاہم ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا کسی کو بھی نیا ٹاسک نہیں دیا، میڈیا بغیر تصدیق خبریں نشر کرنے سے گریز کرے۔

    بیرسٹر سیف نے کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میں حکومتی امور، افغانستان اور دہشتگردی کے واقعات پر تبادلہ خیال ہوا، انہوں نے وزیر اعلیٰ کے پی کو حکومتی امور اور مجھے باقی معاملات پر ہدایات دیں۔

    انہوں نے واضح کیا تھا کہ عمران خان کا مؤقف ہے اپنی رہائی اور ذاتی فائدے کیلیے کسی سے بات نہیں کریں گے، ملکی معاشی ترقی اور سیاسی استحکام بانی پی ٹی آئی کیلیے سب سے مقدم ہے۔

    ’عمران خان نے کہا ہے کہ سیاسی استحکام کیلیے پی ٹی آئی کو تسلیم کرنا ہوگا اور دیوار سے لگانے کی کوشش بند کرنا ہوگی، پی ٹی آئی ایک حقیقت ہے اور اسے تسلیم کرنا ہوگا۔‘

  • بانی پی ٹی آئی سے بیرسٹرسیف اور علی امین گنڈا پور کی ملاقات، بڑا ٹاسک دے دیا

    بانی پی ٹی آئی سے بیرسٹرسیف اور علی امین گنڈا پور کی ملاقات، بڑا ٹاسک دے دیا

    لاہور : بانی پی ٹی آئی سے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے اڈیالہ جیل میں اہم ملاقات کی جس میں موجودہ سیاسی حالات اور پارٹی کے اندرونی معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی سے بیرسٹرسیف اورعلی امین گنڈاپور نےاڈیالہ جیل میں طویل ملاقات کی جس کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے تک تھا۔

    اس حوالے سے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ ملاقات کا محوراسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات تھا، ذرائع کا کہنا ہےکہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر سیف اس سلسلے میں بانی کو قائل کرنے میں کامیاب رہے۔

    ،ذرائع کے مطابق بانی نے علی امین گنڈاپور کی پیشکش پر نیم رضامندی ظاہر کی علی امین گنڈا پور  نے صوبائی معاملات پر بھی ان کو بریفنگ دی۔

    ملاقات میں رہنماؤں کے درمیان قیادت پر سوشل میڈیا پر جاری تنقید بھی زیر بحث آئی، ملاقات میں اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی پر نظرثانی پر بات ہوئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی نے علی امین اور بیرسٹر سیف کو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا ٹاسک دے دیا ہے تاہم  ،اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات میں پیشرفت تک خفیہ رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں علی امین گنڈا پور بانی سے ایک اور ملاقات کریں گے۔

    اس کے علاوہ ملاقات میں پارٹی کے اندرونی معاملات اور حکومتی امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی، اسپیکر کے پی اسمبلی بابر سلیم اور اعظم سواتی کے درمیان تنازع پر بھی گفتگو کی گئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بابر سلیم کی اسپیکر شپ ختم ہونے کا خطرہ ٹل گیا، بانی نے علی امین کو بابر سلیم اور اعظم سواتی کا تنازع حل کرنے کی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور نے ان کو تمام سیاسی اور پارٹی معاملات سے آگاہ کرکے اعتماد میں لیا۔

    بانی پی ٹی آئی نے دہشت گردی کے خلاف وزیراعلیٰ کی پالیسی اور ان کے مؤقف کی تائید کی بانی پی ٹی آئی نے کے پی حکومت سے متعلق علی امین کو تمام اختیارات دے دیئے، بانی پی ٹی آئی نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنانے کی بھی ہدایت کی۔

  • نوشہرہ : دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خودکش دھماکا ، مولانا حامد الحق سمیت 3 افراد شہید، 10 زخمی

    نوشہرہ : دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خودکش دھماکا ، مولانا حامد الحق سمیت 3 افراد شہید، 10 زخمی

    نوشہرہ : حقانیہ مدرسہ اکوڑہ خٹک میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں مولانا حامد الحق سمیت 3 افراد شہید اور 10 زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق نوشہرہ میں حقانیہ مدرسہ اکوڑہ خٹک میں دھماکا ہوا ، جس میں مولانا حامد الحق سمیت 3 افراد شہید ہوگئے جبکہ 10 زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

    سنٹرل پولیس آفس نے بتایا کہ دھماکا نمازجمعہ کے بعد مدرسے کے اندر ہوا تاہم دھماکے کی نوعیت کا پتہ لگایا جارہا ہے۔

    پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے پہنچ گئے ہیں جبکہ 6 ایمبولینسز اور میڈیکل ٹیمیں بھی پہنچ گئیں ہیں ، زخمیوں کو مقامی اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔

    نوشہرہ کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ

    پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ نوشہرہ کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

    ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ کوڑہ خٹک دھماکا کے بعد ایل آر ایچ میں ایمرجنسی کو الرٹ کر دیا گیا ہے ، ایل آر ایچ انتظامیہ اور طبی عملہ زخمیوں کے علاج کیلئے تیار ہے۔

    حقانیہ مدرسہ اکوڑہ خٹک میں دھماکا خودکش تھا

    ڈی پی او عبدالرشید نے بتایا کہ حقانیہ مدرسہ اکوڑہ خٹک میں دھماکا خودکش تھا، تاہم شواہد اکٹھے کئے جارہے ہیں۔

    دھماکے میں جے یو آئی (س )کے سربراہ کو نشانہ بنایا۔

    آئی جی کے پی نے بتایا کہ دھماکے میں جے یو آئی (س )کے سربراہ کو نشانہ بنایا جبکہ پولیس حکام نے کہا کہ مسجد میں نماز جمعہ کے وقت 23 پولیس اہلکار تعینات تھے، مولانا حامد الحق کی سیکیورٹی پر6پولیس اہلکار تعینات تھے تاہم علاقےمیں سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔

    پشاور،مردان ،نوشہرہ سمیت دیگرشہروں کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ

    مشیرصحت احتشام علی نے بتایا کہ پشاور،مردان ،نوشہرہ سمیت دیگرشہروں کےاسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی اور ڈی جی ہیلتھ اورسیکرٹری آفس سمیت تمام مراکز صحت کو الرٹ کردیا ہے ، زخمیوں کو ہر طرح کی طبی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔

    اکوڑہ خٹک دھماکے پر گورنر خیبرپختونخوا کا اعلیٰ حکام سے رابطہ، رپورٹ طلب

    اکوڑہ خٹک دھماکے پر گورنر خیبرپختونخوا نے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرکے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    گورنر فیصل کنڈی نے مولانا حامد الحق حقانی اور دیگر افراد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک دھماکہ اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کی سازش ہے، صوبائی حکومت کی نااہلی اورملی بھگت کاخمیازہ نہ جانےکب تک صوبہ بھگتے گا۔

    وزیراعظم شہبازشریف کی دارالعلوم حقانیہ میں دھماکے کی شدید مذمت

    وزیراعظم شہبازشریف نے دارالعلوم حقانیہ میں دھماکے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی اور مولانا حامد الحق سمیت دیگر زخمیوں کی صحت یابی کیلئے دعا کی۔

    شہباز شریف نے زخمیوں کوہرممکن طبی امداد فراہم کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بزدلانہ اور مذموم کارروائیاں دہشت گردی کیخلاف عزم کوپست نہیں کر سکتیں، ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے پُر عزم ہیں۔

    صدرآصف زرداری کی دارالعلوم حقانیہ میں خود کش حملے کی مذمت

    صدرآصف زرداری نے بھی دارالعلوم حقانیہ میں خود کش حملے میں نمازیوں کونشانہ بنانے کے مکروہ فعل کی مذمت کرتے ہوئے حملے میں قیمتی جانی نقصان پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

    صدر آصف زرداری نے کہا کہ نمازیوں کونشانہ بنانا مذموم اور گھناؤنا عمل ہے، دہشت گرد ملک وقوم اورانسانیت کے دشمن ہیں۔

  • خیبرپختونخوا کابینہ نے کرم میں ایمرجنسی لگانے کا اعلان کر دیا

    خیبرپختونخوا کابینہ نے کرم میں ایمرجنسی لگانے کا اعلان کر دیا

    پشاور: خیبرپختونخوا کابینہ نے کرم میں ایمرجنسی لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی زیر صدارت کے پی کی صوبائی کابینہ نے انسداد منی لانڈرنگ و انسداد مالی دہشت گردی کے نفاذ کی منظوری دے دی۔

    اجلاس سے خطاب میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا تیراہ اور جانی خیل میں آپریشن کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، کسی بھی گروپ کو بھاری ہتھیار رکھنے کی اجازت دینے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

    انھوں نے کہا لوگ امن چاہتے ہیں مگر کچھ عناصر فرقہ ورانہ منافرت سے حالات خراب کر رہے ہیں، اور مسئلے کو دوسرا رنگ دینے کے لیے غلط بیانیہ بنا رہے ہیں، علاقے میں غیر قانونی بھاری ہتھیاروں کی بھر مار ہے، اتنے بھاری ہتھیار رکھنے اور مورچے بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

    علی امین نے کہا صوبائی حکومت مذاکرات اور جرگوں سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہی ہے، لوگوں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اپنی عمل داری پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔

    اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ فریقین میں معاہدے کے بعد ہی سڑک کھولی جائے گی، فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کیا جائے گا۔ یکم فروری تک تمام غیر قانونی ہتھیارجمع کرانے ہوں گے، مذکورہ تاریخ تک تمام مورچوں کو بھی مسمار کر دیا جائے گا۔ پاراچنار روڈ کو محفوظ بنانے کے لیے اسپیشل پولیس فورس قائم کی جائے گی، جس کے لیے 399 اہلکار بھرتی کیے جائیں گے، پہلے عارضی اور بعد میں مستقل پوسٹیں قائم کی جائیں گی۔

    ذرائع کے مطابق کے پی کابینہ نے اجلاس میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے نیشنل کمیشن فار مینارٹی کی منظوری دے دی ہے، گردے، جگر کے ٹرانسپلانٹ، کرک میں جوان مراکز کے قیام کی بھی منظوری دی گئی، صوبے کی جامعات کے لیے گرانٹ، اکیڈمک سرچ کیمٹی کے ممبران کی تعیناتی کی منظوری سمیت کابینہ نے ڈی آئی خان میں گرلز کیڈٹ کالج کے قیام کی منظوری بھی دے دی۔

    کرسمس پر چرچوں کے لیے گرانٹ

    وزیر اعلیٰ نے کرسمس پر صوبے بھر کے چرچز کے لیے 4 کروڑ روپے خصوصی گرانٹ کا اعلان کیا، جس کے مطابق کرسمس پر صوبے میں 80 چرچز کو فی چرچ 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے، وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے ہدایت کی کہ یہ رقم فوری طور پر چرچز کو جاری کی جائے، صوبائی حکومت مسیحی برادری کی خوشیوں میں برابر کی شریک ہے۔