Author: ضیاء الحق

  • فاٹا میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کل سے ہوگا

    فاٹا میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کل سے ہوگا

    باجوڑ : فاٹا میں تین روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز کل 23 نومبر سے ہوگا جس کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کرلیے گئے ہیں جب کہ محسود بیلٹ میں آئی ڈی پیز کے لیے مہم کا آغاز 28 نومبر سے ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق فاٹا (فیڈرل ایڈمنسٹریٹو ٹرائبل ایریاز) میں 23 نومبر سے 25 نومبر تک تین روزہ انسداد پولیو مہم پولیٹیکل ایجنٹس، کمشنرز، نیم فوجی اور فوجی دستوں کی سرپرستی اور فراہم کردہ سیکیورٹی میں جاری رہے گی جس کے بعد پولیو کے قطرے پینے سے رہ جانے والے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے اور ان کی سرویلنس کا کام جاری رکھا جاۓ گاـ

    ذرائع کے مطابق انسداد پولیو مہم میں فاٹا کے 5 سال سے کم عمر کے 10 لاکھ 22 ہزار 665 بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے جائیں گے جس کے لیے 4146 ٹیمیں پولیو کے قطرے پلوانے کا کام سرانجام دیں گی، جن میں 3753 موبائل، 292 فکسڈ اور 101 ٹرانزٹ ٹیمیں شامل ہیںـ

    دوسری جانب فاٹا کو دہشت گردوں سے صاف کرنے کے لیے آپریشن ضربِ عضب کے دوران جنوبی وزیرستان ایجنسی کے محسود بیلٹ میں عارضی طور پر بے گھر ہونے والے جو افراد واپس آگئے ہیں ان کے لیے علیحدہ سے انسداد پولیو مہم 28 نومبر 2016 سےشروع کی جائےگی۔

    کوآرڈی نیٹر ایمرجنسی آپریشن سینٹر فاٹا نے کہا ہے کے”رہ جانے والے بچوں پر توجہ دی جائے گی، کیوں کہ ہر بچے کو ہر بار پولیو قطرے پلوانے سے ہی فاٹا اور پاکستان سے پولیو کے خاتمے کا حصول ممکن ہے”۔

    انہوں نے مزید کہا کہ "مجھے یقین ہےکہ پولیٹیکل انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، قومی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سےانسداد پولیو مہم اپنے اہداف کوحاصل کرنےمیں کامیاب ہو گی”۔

    کوآرڈی نیٹر ایمرجنسی آپریشن سینٹرفاٹا کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان ایجنسی واپس آنے والے بےگھر خاندانوں (آئی ڈی پیز) کے بچوں کو پولیو کےقطرے پلوانے پرخصوصی توجہ دی جائےگی۔

    یاد رہے کہ رواں سال فاٹا سے اب تک صرف دو پولیو کیسز جنوبی وزیرستان ایجنسی سے رپورٹ ہوئے ہیں اور دونوں پولیو کیسز ضرب عضب آپریشن کے نتیجے میں عارضی طور پر بے گھر افراد اور خاندان (ٹی ڈی پیز) کی حالیہ دنوں میں افغانستان سے واپسی کے موقع پر سامنے آئے تھے۔

    رواں سال پاکستان میں کُل پولیو کیسز کی تعداد 18 رہی جو 13 اضلاع سے سامنے آئے (2015 میں پولیو کیسز کی تعداد 49 تھی جو 22 اضلاع سے سامنے آئے)۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں پولیو پروگرام قومی ترجیحات کا حصہ ہے اور اس سال پولیو پروگرام اعلی سطح کی کارکردگی کے ذریعے اپنے ہدف کے حصول کے قریب ہے یہی وجہ ہے پولیوپروگرام سال 2016 کے آخر تک پولیو وائرس کے پھیلاو کو روکنے کی بھر پور کوشش ہو رہی ہیں۔

  • خبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کی نمائندگی کیلئے اہم حکومتی اقدامات

    خبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کی نمائندگی کیلئے اہم حکومتی اقدامات

    پشاور: نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں قبائلی علاقوں میں اصلاحات متعارف کرانے کی غرض سے 2016 میں وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی نے سفارشات مرتب کی ہیں اس کے تحت قبائلی علاقوں کو اگلے پانچ برس میں خیبر پختونخوا کا حصہ بننا ہے اور اگر ایسا ہوا تو 2023 کے عام انتخابات کے نتیجے میں فاٹا کی خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی ہوسکتی ہے۔

    اس عمل پر جہاں ایک طرف چند قبائلی حلقے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں وہی خیبر پختونخوا حکومت کی خواہش ہے کہ فاٹا کو 2018 کے عام انتخابات سے قبل خیبر پختونخوا میں ضم کرکے اسمبلی کی نشستوں کا ازسرنو تعین کرکے نمائندگی دی جائے۔

    فاٹا کے عوام کو فیصلے کا اختیار دیا جائے،فوجی حلقے 

    اس حوالے سے فوجی حلقوں کا مؤقف ہے کہ پہلے بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں اور اس کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ فوج نے قبائلی علاقوں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے متعدد آپریشن کیے اور 2014 میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کے بڑے حصے سے دہشت گردوں کا صفایا کرکے اب وہاں آباد کاری اور ترقیاتی عمل کا آغاز کیا ہوا ہے لہٰذا ان کی جانب سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ قبائل کو ان کے مستقبل کے حوالے سے منقسم کرنے کی بجائے متحد رکھا جائے تاکہ وہ یکسوئی سے فیصلہ کرسکیں۔

    حکومتی کمیٹی نے منظورنظرافراد سے ملاقات کی، قبائلی عمائدین کا شکوہ 

    سرتاج عزیز کمیٹی کے حوالے سے اکثر قبائلی عمائدین کا دعویٰ ہے کہ کمیٹی نے ان لوگوں سے ملاقات کی جو قبائلی علاقوں میں کام کرنے والی انتظامیہ کے منظور نظر تھے اور انہوں نے عام لوگوں سے ملاقات نہیں کی، اس تاثر کو کمیٹی درست نہیں مانتی۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات تو مرتب کی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے اجلاس تاحال جاری ہیں اور اس حوالے سے بدھ کے روز بھی ایک اجلاس گورنر ہاؤس پشاور میں منعقد ہوا جس کی صدارت گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا نے کی۔

    اجلاس میں اہم تجاویز دی گئیں 

    اجلاس کے شرکاء میں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک ،وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ( لیفٹننٹ جنرل) ریٹائرڈ ناصرجنجوعہ، سینئروزراء خیبرپختونخوا عنایت اللہ، اورسکندرخان شیرپاؤ، مشیر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا مشتاق غنی، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا امجد علی خان، سیکرٹری سیفران ارباب شہزاد، آئی جی پولیس خیبرپختونخوا ناصردرانی، اے سی ایس فاٹا فدا وزیر کے علاوہ متعلقہ دیگر حکام شامل تھے۔

    قبائلی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کی تجویز

    اس موقع پر سرتاج عزیز نے اجلاس کے دوران فاٹا میں اصلاحات کے چیدہ چیدہ امور پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سفارشات میں فاٹا میں لینڈ ریفارمز کرنا اور ایف سی آر کے قانون کی جگہ Trible Areas Rewaj Act نافذ کرنا بھی کی سفارشات میں شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح ہائی کورٹ کے ماتحت عدلیہ کا نظام رائج کرنا اور قبائلی علاقوں میں پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

    ایف سی کا ایک اسپیشل ونگ بنانے کا فیصلہ

    اجلاس کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے افغانستان سے ملحقہ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ایف سی کا ایک اسپیشل ونگ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ فاٹا میں ترقیاتی عمل کو تیز کرنے اوروہاں انفراسٹرکچر خصوصاً سڑکیں اوراسکولوں اور کالجوں وغیر ہ کی تعمیر و ترقی کیلئے بھی 10 سالہ منصوبے پرعمل کیا جائے گا جس کیلئے فنڈ وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔

    فاٹا کو انتخابات سے قبل کے پی کے کا حصہ بنادیا جائے، وزیراعلیٰ

    اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے تجویز دی کہ فاٹا کو 2023 کے بجائے 2018 کے عام انتخابات سے قبل خیبر پختونخوا کا حصہ بنا یا جائے اور صوبائی اسمبلی میں ان کی نشستوں کا تعین کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی قبائلی ایجنسیوں کو بھی صوبے کے ضلعی یونٹس میں ضم کیا جائے۔

    فاٹا کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں لایا جائے، پرویز خٹک

    وزیراعلیٰ کی یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ فاٹا کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں لایا جائے اور 1973 کے آئین کو مکمل طور پر لاگو کیا جائے۔ ان کا مؤقف تھا کہ فاٹا کو صوبے میں ضم کے کا مقصد وہاں حکومتی اخیتار قائم کرکے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔

  • بابوسر ٹاپ ۔ پاکستان کا حسین ترین پہاڑی مقام

    بابوسر ٹاپ ۔ پاکستان کا حسین ترین پہاڑی مقام

    عیدالفطرکی چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں اور ہم نےطے کیا ہوا تھا کہ ٹھنڈے سیاحتی مرکزکی سیر کے لئے چھٹیوں کے بعد نکلیں گے کیونکہ ہمیں علم تھا کہ رمضان المبارک کے اختتام اورعید الفطر کی شروعات کے ساتھ ہی ملکی سیاح بڑی تعداد میں گرمی کی شدت سے کچھ دنوں کے لئے بچنے کی غرض سے پہاڑی علاقوں پر جب پہنچیں گے تو جہاں ٹریفک بدانتظامی کی باعث ایک گھنٹہ کا سفرپانچ گھنٹوں میں طے ہوگا وہی مہنگائی کا جن بھی بے قابو ہوگا۔ عید کے ایک ہفتے بعد جب ہم نے طے کیا کہ اس مرتبہ وادی ناران کی طرف جایا جائے تو ہمارے خیر خواہ زارا عالم اور ظہور درانی نے مشورہ دیا کہ ناران بازار میں ہوٹل میں قیام کی بجائے بازار سے تقریبا پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بٹا کنڈی کے مقام پر موجود گیسٹ ہاوس میں قیام ہونا چاہیے اوراس کے لئے انہوں نے بکنگ کا بھی بندوبست کرلیا تھا اورواقعی ہم جب بٹا کنڈی پہنچے تو پرسکون ہونے کے علاوہ یہ مقام انتہائی پر فضا بھی تھا۔ ایک جانب دریائے کنہارکا منظر، اس میں گرتا آبشاراورساتھ ہی بے پناہ خوبصورتی کی حامل لالہ زاروادی۔

    یہ خبربھی پڑھیں: سیف الملوک – جہاں پریاں اترتی ہیں

    POST 8
    بابو سرٹاپ کی تفصیلات پر مبنی بورڈ
    POST 7
    بابوسر ٹاپ کی جانب جانے والا راستہ

    یہاں ہم نے رہائش اختیار کی اورصبح سطح سمندر سے 16384فٹ بلندی پرواقع بابو سر ٹاپ کے لئے روانہ ہوگئے۔ ہمارے پاس تو ذاتی جیپ تھی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ جو افراد مقامی جیپ استعمال کرتے ہیں تو ان کوناران سے بابو سر ٹاپ کے 75 کلومیٹر فاصلے کے دو اطراف کے لیے آٹھ سے دس ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بہرحال ہم بٹا کنڈی سے صبح آٹھ بجے روانہ ہوئے۔ بیشتر راستہ پختہ، ایک طرف قراقرم کا پہاڑی سلسلہ اوردوسری جانب دریائے کنہار کے دلکش مناظر، سرسبز آلو اورمٹر کے کھیت اوران میں بہتے جھرنے ایک لمحے کے لئے بھی تھکاوٹ کا احساس پیدا نہیں کرتے۔

    POST 10
    بابوسرٹاپ کے راستے میں مشینری برف ہٹاتے ہوئے

     

    POST 14
    بابوسرٹاپ پر پولیس کی جانب سے نصب بورڈ

    وادی ناران سطح سمندر سے تقریبا 8500 فٹ بلند اور بابوسرٹاپ کی بلندی جیسا کہ پہلا تحریر کیا جاچکا ہے16384 ہے تو بلندی کی طرف جاتے ہوئے ہرموڑ پر خوبصورت نطارے جہاں آپکی توجہ بٹنے نہیں دیتی وہی راستے میں سطح سمندر سے 11200 فٹ بلند لولوسرجھیل کی سحرانگیزی اورجادوئی کشش آپ کو اپنی جانب کھینچنے لگتی ہے۔

    POST 4
    لولو سرجھیل کے خصوصی مناظر

    چونکہ ہم بابو سر ٹاپ کی طرف رواں دواں ہیں اس لیے اس جھیل کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لئے علحیدہ مضمون تحریرکرنے کا ارادہ ہے۔ تقریبا دو گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد جب خیبر پختونخواہ کی سرحد کو عبورکرکے گلگت بلتستان میں داخل ہوئی توبابوسر ٹاپ کے دلفریب مناظر ایک عجیب اور خوشگوار سماں پیش کرتے آپ کو خوش امدید کہہ رہے ہوتے ہیں اوریہی وہ لمحہ ہے جب بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ واقعی قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان میں بابو سر ٹاپ کو قدرت نے اپنے تمام ترحسن ودولت سے نوازا ہے، یہاں پرجولائی کے مہینے میں بھی پہاڑوں پرسفید برف ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جیساکہ کوئی پریوں کے دیس میں آنکلاہو۔

    اس پہاڑی چوٹی کو کراس کرنے کے بعد چلاس اورگلگت کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے بابو سرٹاپ پرجہاں کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور ملک کے دیگر شہروں کے افراد اپنی فیملی کے ساتھ نظر آتے ہیں، وہیں ہماری ملاقات اسٹریلیا سے آئے ہوئے دو موٹر سائیکل سواروں سے ہوئی گوکہ وہاں بے شمار ملکی موٹرسائیکلسٹ بھی پہنچے ہوئے تھے۔

    POST 3
    اے آروائی نیوز کے بیورو چیف ضیا الحق ، سیاحوں سے گفتگو کرتے ہوئے

    آسٹریلوی موٹر سائیکلسٹ نے بتایا کہ وہ اسلام اباد سے براستہ گلگت یہاں پہنچے ہیں اوریہی سے واپس جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس علاقے کی خوبصورتی سے بے پناہ متاثرہوئے ہیں۔ بابوسرٹاپ پرپانی کی شدید قلت محسوس کی گئی جبکہ یہاں سیاحوں کے لئے کوئی خاص انتظام بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہاں مقامی انتطامیہ کے ایک اہلکار سے بھی ملاقات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ بابو سرٹاپ کا راستہ مئی سے اکتوبرتک کھلا رہتا ہے، کیونکہ سردی میں شدید برف باری کا باعث یہ راستہ اکثر بند ہوجاتا ہے اوراگرکھل بھی جائے تو پھسلن کے باعث ٹریفک کا چلنا محال ہوتا ہے۔

    POST 5
    سیاحوں کی بڑی تعداد بابوسر ٹاپ پر
    POST 13
    کراچی سے تعلق رکھنے والی سیاح

    انہوں نے سیاحوں سے اپیل کی وہ یہاں آنے کے لئے ہر لحاط سے بہترگا ڑی کا انتخاب کریں کیونکہ اگر یہاں گاڑی خراب ہوجائے تو مکینک کی سہولت موجود نہیں ہے ۔ یہیں موجود کراچی کے ایک رہائشی جمشید احمد نے اس خطہ زمیں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کے جغرافیہ، موسم اور قدرتی حسن پرفخر کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا ملک ایسے خطے میں موجود ہے جہاں اگرکوئی جہاز کا خرچہ اٹھا سکتا ہے تو کراچی سے بابو سر ٹاپ براستہ اسلام اباد ائیر پورٹ آٹھ گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے اورلاہور سے براستہ سڑک یہاں تقریبا بارہ گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے اگرراستہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ بابوسرٹاپ پرمقا می افراد نے ڈھابہ ہوٹل قائم کیے ہوئے ہیں جن ٕمیں چائے ، آلو پکوڑہ، سیخ تکہ اورسافٹ ڈرنکس ملتے ہیں۔

    POST 12
    دریا کے خوبصورت مناظر
    POST 1
    لولو سرجھیل کا ایک حسین منظر

    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کوایک دورمیں سیاحت کے میدان میں اہم ترین مقام حاصل تھا لیکن دہشت گردی کی لہر نے اس پوزیشن کو بھی متاثر کیا لیکن اب ضرب عضب اپریشن کے بعد حالات بہتر ہورہے ہیں تو مقامی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان علاقوں میں سیاحوں کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے چاہے تاکہ جہاں متوسط طبقہ اس حسن کا نظارہ کرسکے وہی غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہو، جس سے مقامی روزگار میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک کو زرمبادلہ بھی میسر آئے گا اورسیاحت کو فروغ دینے سے ملک کا امیج بھی بہترہوگا۔

  • سیف الملوک – جہاں پریاں اترتی ہیں

    سیف الملوک – جہاں پریاں اترتی ہیں

    پاکستان میں جوں ہی گرم موسم کی شروعات ہوتی ہے تو ملکی وغیرملکی سیاح نسبتاً سرد موسم کی حامل پہاڑی علاقوں میں پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس دوران جب تعلیمی اداروں اورسرکاری دفاترمیں چھٹیاں ہوتی ہے تو یہ علاقےعام شہری علاقوں کا منظرپیس کرنے لگتے ہیں جہاں بھیڑاورگاڑیوں کی لمبی قطاریں معمول بن جاتا ہے۔

    ویسے تو پاکستان کا ہرعلاقہ اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن ابھی ذکرکرتے ہیں خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقے میں واقع وادی ناران سے آٹھ کلومیٹرکے فاصلے پرحسین وجمیل خوبصورتیوں سے مالا مال نیلگوں پانی کی سرزمین جھیل سیف الملوک کا جو سطح سمندرسے تقریبا 10500 فٹ پرواقع ہے۔

    POST 14

    جھیل تک پنچنے کے لئے وادی ناران سے گوکہ فاصلہ کم ہے لیکن اس کے لئے مقامی جیپ کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کے لئے اپ کو دو اطراف کے چارسے پانچ ہزارروپےادا کرنے پڑتے ہیں۔

    ہم نے بھی اپنا سفر ناران سے شروع کیا اورحیرانگی بھی ہورہی تھی کہ اتنے کم فاصلے کے لئے اتنی زیادہ رقم ادا کرنے پڑ رہی ہے لیکن جب سفر شروع ہوا تو پتہ چلا کہ جہاں یہ پہاڑی راستہ پر پیچ ہے وہی حد درجہ کا کچا بھی اور جیب کو پتھروں پرسے گزرنا پڑتا ہے۔

    ہم جس جیپ میں سوار تھے اس کے ڈرائیور کا نام رضوان تھا اور اس سے جب دریافت کیا گیا کہ راستہ پختہ کیوں نہیں کیا جارہا ہے تو اس نے دو اہم انکشافات کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہاں کے مقامی آبادی کے لئے موسم گرما کے پانچ ماہ کمائی کے ہوتے ہیں اور اس دوران جہاں ہوٹل آباد ہوتے ہیں، وہی مقامی ٹرانسپورٹر کچے راستے پر من مانے کرایہ حاصل کرتے ہیں اور راستوں کو پکا بھی نہیں ہونے دیتے کیونکہ پھر سیاح اپنی گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں گے جس سے ان کے روزگار کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    POST 10

    رضوان نے یہ بھی بتایا کہ اس روٹ پرسو سے زائد جیپیں چلتی ہے، سڑک کے پختہ ہونے کے حوالے سے اس کا دعویٰ تھا کہ کاغذوں میں یہ سڑک بن چکی ہے۔ ڈرائیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ہم 45 منٹ میں جھیل پہنچے اورچونکہ راستہ تنگ ہے اوراس دوران کسی جگہ لینڈسلائنڈنگ ہوجائے، گاڑی خراب ہو جائے، یا کوئی اوورٹیک کرے تو پھر وقت کی کوئی قید نہیں اورآپ کو گھنٹوں انتظاربھی کرنا پڑسکتا ہے۔

    جھیل تک جاتے ہوئے راستے میں گلیشئیر کے اوپر سے گزرنا پڑتا ہے جس کے لئے ماہر ڈرائیور کی ضرورت پڑتی ہے۔

    POST 3

    یہ تما م دشواریاں اور خطرات تو ایک حقیقت ہیں لیکن جب جیپ جھیل سیف الملوک پہنچتی ہے تو اس کے خوپصورت اور دلکش مناظر تمام تھکن ختم کردیتے ہیں، جونہی آپ جھیل کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں اوربڑی تعداد میں مختلف ماڈلز کی جیپیں کھڑی نظرآتی ہے اورجھیل کا نیلا پانی اوراس سے نکلنے والا آبشار آواز دل، دماغ اورآنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنتا ہے۔

    POST 7

    ایک جانب تو مقامی آبادی جھیل کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لئے سیاحوں کے پھیلائے ہوئے گند صاف کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، وہیں ان میں سے کچھ اس حسین جھیل سے منسوب پری بدیع الجمال اورشہزادہ سیف الملوک کی محبت کی رومانوی داستانیں سناتے نظرآتے ہیں۔

    پیالہ نماسیف الملوک جھیل اپنے حسن و جمال کے سبب دنیا بھرمیں اپنی مثال آپ ہے، اس کی لمبائی تقریبا 1420 فٹ اور چوڑائی 450فٹ کے قریب ہے جھیل کے سامنے 17390 فٹ بلندی کا حامل ملکہ پربت نامی عظیم پہاڑ سارا سال برف کا لبادہ اوڑھے، اپنی خوبصورتی اورجوبن کے حسین نظارے لیے قائم ہے۔

    POST 15

    ہمیں یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ جھیل کا رنگ موسم کے ساتھ بدلتا رہتا ہے صاف موسم میں جھیل کے پانی کا رنگ نیلا، بادل ہوں تو سبز اورگہرے بادل ہو تو گہرا سبز پوجاتا ہے، یہاں جن ملکی اورغیر ملکی سیاحوں سے ملاقات ہوئی تو ہرکوئی اپنے انداز میں تعریف کرتے ہوائے ملا، جبکہ جھیل کے گرد گھوڑ سواری کرتے بچے جوان ہر منظرکی سیلفی لیتے اور فوٹو گرافی کرتے نظرآئے۔

    POST 13

    یہ تمام مناظردیکھنے کے بعد یقیناً یہ بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ جھیل کی خوبصورتی کو دیکھنے کی تمنا ہرسیاح کو ہر مشکل اور دشواری سے بیگانہ کردیتی ہے، لیکن یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت کی جانب سے جھیل کی خوبصورتی میں اضافے اورسیاحوں کی سہولت کے لئے کوئی مناسب انتظام یا منصوبہ بندی نظرنہیں آئی۔

  • دارالعلوم حقانیہ کی امداد کیوں کی گئی؟

    دارالعلوم حقانیہ کی امداد کیوں کی گئی؟

    پشاور : خیبر پختونخواہ کے سالانہ بجٹ برائے سال 2016-17 میں دارالعلوم حقانیہ کو ایک مدرسہ کی حیثیت سے تیس کروڑپشا روپے کے فنڈز مختص ہونے پر تنازعہ کھڑے ہونے پر محسوس ہورہا تھا کہ تحریک انصاف شاہد دباو میں اتے ہوئے اپنا فیصلہ پر نظرثانی پر مجبور ہوجائے لیکن عمران خان کی مدرسوں میں اصلاحات لانے کی سوچ کو اگے بڑھاتے ہوئے خیبر پختونخواہ حکومت کے اعلیٰ سطحی وفد نے جمعہ کے روز دارالعلوم حقانیہ کے دورے کرکے جہاں مدرسہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کا مظاہرہ کیا وہی یہ اعلان بھی کیا کہ مدرسہ میں قائم ہائیر سکینڈری سکول کو ڈگری کالج کا درجہ دیا جائے گا۔

    مدرسہ کو مخصوص فنڈز مختص ہونے پرناقدین دو حوالوں کو اعتراض کی بنیاد بنا رہے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ چونکہ تحریک انصاف پہلے سے ہی طالبان کے لئے ہمدردی کا گوشہ رکھتی ہے اس لئے اپنی پالیسی کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے ایسا کیا اوراب جبکہ پیپلزپارٹی سے مل کر پانامہ سکینڈل کے حوالے سے تحریک بھی چلانے والی ہے تو اس فنڈ پربلاول بھٹو کے اعتراض کو بھی خاطر میں نہیں لائی اور دوسری رائے میں تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان کی مخالفت میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو نوازدیا۔

    گوکہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں مددسوں میں زیرتعلیم بائس لاکھ بچوں کا قومی دھارے میں لانے کے لئے 100دینی مدارس کو پرائمری سکول کا درجہ دینے کے علاوہ 366ملین روپے کے اٹھارہ منصوبوں پرکام ہورہا ہے۔ جمعہ کے روز جب صوبائی وزراء شاہ فرمان اورمحمد عاطف خان نے دارلعلوم القرآن حقانیہ اکوڑا خٹک کا دورہ کیا تو انہوں نے جہاں مولانا سمیع الحق اوردیگرافراد سے ملاقات کی، وہیں ادارے کے مختلف حصوں کا تفصیلی دورہ کیا۔

    اس موقع پرصوبائی وزراء نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے میں پہلی مرتبہ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ علوم کے درس وتدریس کویقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دارلعلوم حقانیہ پاکستان کاایک بڑا تعلیمی مرکز ہے اوراس میں موجود ہائرسیکنڈری سکول1936 میں قائم ہوا جو کہ مردان بورڈ سے منسلک ہے۔

    انہوں نے مزید کہاکہ اس تاریخی درس گاہ نے بڑے بڑے نام ور علماء، اساتذہ کرام اورسیاسی رہنما پیدا کئے ہیں جن میں اے این پی کے بزرگ سیاستدان اجمل خٹک بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس درس گاہ کوماضی کی حکومتوں میں نظرانداز رکھا گیا جبکہ گزشتہ حکومت کے دور میں مردان میں مدارس پرایک ارب 37 کروڑ روپے تقسیم کئے گئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ نہ ان مدارس کو قومی دھارے میں لایا گیااورنہ ہی ان میں جدید علوم سے متعلق اصلاحاتی اقدامات اٹھائے گئے۔ صوبائی وزراء نے کہاکہ دارالعلوم کے ہائرسیکنڈر سکول جس میں ایک ہزارطلبہ زیرِتعلیم ہیں، کو ڈگری کالج کا درجہ دیاجائے گا۔

    صوبائی وزیرشاہ فرمان اور وزیر تعلیم محمد عاطف خان نے کہا کہ مذکورہ دینی ادارے کی انتظامیہ کا پولیو کے تدارک میں صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون قابل قدر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دینی ادارے میں انگلش، ریاضی ،سائنس، کمپیوٹر سائنس اوردیگر تحقیقی علوم سے طلبہ کو روشناس کرایا جائے گا جبکہ نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو سکالرشپ اوراساتذہ کی تربیت کے لئے انہیں جامعہ اظہر بھیجنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

    دوسری جانب مولانا سمیع الحق نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے مدرسے کو اس سے قبل بے نظیر بھٹو شہید کے دورحکومت میں بھی فنڈ مل چکے ہیں۔

  • خیبر پختونخواہ میں پرائیوٹ اسکول کے بجائے سرکاری اسکول والدین کی پہلی ترجیح بن گئے

    خیبر پختونخواہ میں پرائیوٹ اسکول کے بجائے سرکاری اسکول والدین کی پہلی ترجیح بن گئے

    پشاور: حال ہی میں کیے گئے سروے کے مطابق خیبرپختونخواہ میں سرکاری اسکولوں کے بڑھتے ہوئے معیار کے باعث والدین اپنے بچوں کوپرائیوٹ اسکولوں سے اُٹھوا کر سرکاری اسکول میں داخل کروارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے تعلیمی میدان میں کیے جانے والے انقلابی اقدامات کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں،خیبر پختونخواہ کے سرکاری اسکول والدین کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے پرائیوٹ اسکولوں کے بجائے سرکاری اسکولوں کا رخ کرنے لگے ہیں۔

    اس سلسلے میں محکمہ پرائمری سکینڈری اسکول ایجوکیشن نے بین الاقوامی انعام یافتہ ادارے ایڈم اسمتھ انٹرنیشنل کے ذریعے سروے کروایا ہے،سروے میں حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2015 سے مارچ 2016 کے دوران 34 ہزار بچوں کا پرائیوٹ اسکولوں سے نکلوا کر سرکاری اسکولوں میں داخلہ کروا گیا ہے۔

    سروے کے مطابق خیبر پختونخواہ کے 66 فی صد والدین نے رضارارانہ طور پراپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرائیوٹ اسکولوں کے بجائے سرکاری اسکولوں کو پہلی ترجیح کے طور پر چنا ہے،اور اسکی وجہ تعلیمی معیار میں اضافہ بتایا ہے۔

    بین الاقوامی طور پر مانے جانے والے مستند اور بااعتبار ادارے ایڈم اسمتھ انٹرنیشنل کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق ایک سال کے دوران اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں سے اُٹھا کر سرکاری اسکول میں داخلہ کروانے والدین میں سے 96 فی صد والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوسرے بچوں کو بھی سرکاری اسکولوں میں داخل کروائیں گے۔

    حالیہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تعلیم کا معیار نہ صرف بلند ہوا ہے بلکہ اس نے پرائیوٹ اسکولوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے،اور اب خیبر پختونخواہ کے بچے معیاری تعلیم سستے سرکاری اسکولوں میں حاصل کر سکیں گے۔

  • سرحد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کے خلاف کرپشن کا ریفرنس دائر

    سرحد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کے خلاف کرپشن کا ریفرنس دائر

    پشاور: خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن نے سرحد ڈویلپمنٹ اتھارٹی خیبرپختونخواہ کے چیئرمین ساجد جدون کے غیر قانونی اثاثہ جات کے خلاف پانچ کروڑ روپے سے زائد کاریفرنس احتساب عدالت میں دائرکردیاہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا احتساب کمیشن کو باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ ساجد جدون نے کروڑوں روپے کے غیر قانونی اثاثہ جات بنارکھے ہیں جو کہ ان کے قانونی ذرائع آمدن کے دائرہ میں نہیں آتے بلکہ یہ اثاثہ جات غیر قانونی آمدن سے بنائے گئے ہیں۔

    خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن نے اس سلسلے میں باقاعدہ انکوائری شروع کی جوکہ بعدازاں تفتیش میں منتقل ہوگئی ہے۔

    دوران تفتیش احتساب کمیشن نے ساجدجدون کے غیرقانونی اثاثہ جات کاسراغ لگایا جن میں اسلام آباد، راولپنڈی اورپشاور میں کروڑ روپے مالیت کے پلاٹس اوربینک بیلنس شامل ہیں۔

    خیبرپختونخوا احتساب کمیشن نے اس سلسلے میں باقاعدہ ثبوت اکھٹے کئے اور ان ٹھوس شواہد کی بناپر گذشتہ روز سپیشل پراسیکوٹر سید فاروق شاہ کی وساطت سے ملزم ساجد جدون کے خلاف غیر قانونی اثاثہ جات بنانے کاریفرنس احتساب عدالت کے ایڈمنسٹریٹیو جج حیات علی شاہ کی عدالت میں دائر کردیا۔

    عدالت نے ریفرنس وصول کرکے ابتدائی بحث کے لئے تاریخ مقررکرلی ہے۔

  • خیبرپختونخواہ کے ضلع بونیرمیں بھی گیس کے ذخائرکے شواہد

    خیبرپختونخواہ کے ضلع بونیرمیں بھی گیس کے ذخائرکے شواہد

    بونیر: کوہاٹ اورکرک کے بعد ضلع بونیرمیں گیس نکل آئی اورمذکورہ ضلع میں بھی گیس کے ذخائر کی موجودگی کے قوی امکانات ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخواہ کے وزیر زکوٰۃ حاجی حبیب الرحمن کے حلقہ پی کے ۔ 78 گاؤں مٹوانی ضلع بونیر میں پانی کے حصول کے لئے ٹیوب ویل کی کھدائی کے دوران کنویں میں سے گیس کاشعلہ بلند ہوا اور مقامی لوگوں کو اپنی موجودگی کااحساس دلایاجس سے مقامی لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔

    دریں اثناء صوبائی وزیر حاجی حبیب الرحمن نے اہلیان علاقہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ گیس کے ذخائر کی دریافت کے ضمن میں حکومتی اور ذاتی سطح پر محکمہ آئل اینڈ گیس سے فوری رابطہ کریں گےتاکہ گیس کے ذخائر کاحجم اوراس کے معیارکا تعین کیا جاسکے۔

    یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ ضلع بونیر صوبہ خیبرپختونخوا کا تیسرا ضلع ہے جہاں آئل اورگیس کے ذخائر موجود ہیں اورضرورت اس بات کی ہے کہ مذکورہ اضلاع میں مزید ریسرچ اورسروے کے ساتھ ساتھ دیگر پہاڑی اور ریتلے علاقوں کا بھی سروے کیاجائے تاکہ پاکستان بالعموم اورصوبہ خیبرپختونخوا میں بالخصوص گیس جوکہ تحفہ خداوندی ہے، سے مستفید ہوسکیں۔

  • قبائلی علاقوں کے عوام گھرواپسی پرمشکلات کا شکار

    قبائلی علاقوں کے عوام گھرواپسی پرمشکلات کا شکار

    پشاور: قبائلی علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے افراد کی واپسی اور بحالی کے لئے دسمبر 2016کو حتمی قرار دیا جاریا ہے لیکن دعووں کے برعکس اس تمام عمل کو مکمل کرنے کی غرض سے فنڈزکی فراہمی کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 67.3ارب کی مطلوبہ رقم میں سے اب تک صرف 13.6ارب روپے جاری کئے گئے ہیں جبکہ 53.7ارب روپے کی رقم ابھی ریلیز ہونی باقی ہے۔

    قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن اور وہاں سے ان کے خاتمے کے بعد جب نقل مکانی کرنے والے افراد کی واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو یہ اعلان بھی سامنے آیا تھا کہ نادرا کی تصدیق کے ساتھ اپنے علاقے کو واپس جانے والے کو دس ہزارروپے سفری اخراجات اورپچیس ہزارضروری گھریلو ضروریات کے لئے دیے جائیں گے اورگھر مکمل تباہ ہونے کی صورت میں چارلاکھ اورجزوی تباہ ہونے والے گھرکے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزارروپے دیے جائیں گے۔

    اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقی کی رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں شورش کے باعث ایک لاکھ پانچ ہزارسات سو چوالیس گھر تباہ ہوئے ہیں جن میں تقریبا ستر ہزار مکمل اورتقریبا چالیس ہزارجزوی طورپرہے ان میں سب زیادہ گھروں کی تباہی جنوبی و شمالی وزیرستان میں ریکارڈ کی گئی جن کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔

    اس رپورٹ کے مطابق گھروں کی بحالی کی مد میں بتیس ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک گھروں کی بحالی کی مد میں صرف پانچ ارب جاری کئے ہیں جبکہ ساٹھ فیصد اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں اورآرمی چیف کی ہدایت کی روشنی میں باقی چالیس فیصد کا اگلے چھ ماہ دسمبر 2016تک واپس کرنا ہے۔

    ذرائع کا کہناہے کہ وفاقی حکومت کو اس حوالے سے بارباریاد دہانی بھی کرائی جارہی ہے کہ گھروں کی بحالی کی مد میں بقایا ستائیس ارب روپے کی رقم بھی جلد فراہم کرے کیونکہ قبائل شہری علاقوں میں مشکل اورتکلیف دہ زندگی گزار کر جب واپسی میں اپنے تباہ حال گھر دیکھتے ہیں تو نہ صرف ان کی تکلیف میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ حکومت کے خلاف نفرت بھی پیدا ہورہی ہے۔

    یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں میں بیس لاکھ سے زائد افراد قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کے لئے مجبورہوئے جن میں سترفیصد خواتین اوربچے شامل ہیں۔

    ذرائع نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہارکیا کہ وفاقی حکومت نے عارضی طورپرنقل مکانی کرنے والے کی واپسی کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کے باعث تباہ ہونے والے انفراسٹرکچرکی بحالی و تعمیر نو کے لئے بھی تیس ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور اس حوالے سے رقم کی فراہمی کے طریقہ کار کے مطابق یہ رقم 2014 سے2017 تک تین مرحلے میں مکمل جاری ہونی تھے اور2014 سے2016تک دو مرحلے گزرنے والے ہیں جس میں چودہ ارب روپے جاری ہونے چاہیے تھے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اب تک صرف پانچ ارب روپے جاری ہوئے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ یواین ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں شورش کے باعث پانچ ہزارسکول، ڈھائی ہزارہسپتال، ایک ہزارپانی فراہمی کی سکیم، ڈھائی ہزاربرقی منصوبوں، چھ ہزارپانچ سو کلومیٹرروڈ، دو ہزارچھ سو آبپاشی، دوہزارچارسو ایریگیشن، سترہ سو لائیو سٹاک اورتقریبا چھ ہزارگورننس کے منصوبوں کی تعمیرنو ہونی ہے۔

    قبائلی علاقوں کے عوام نے ملک کی بقا اورپرامن پاکستان کے لئے قربانیاں دیں اوراپنی روایات سے ہٹ کرگھر بارچھوڑکرنقل مکانی کے مشکل ترین دن دیکھے اوراب جب ان کی واپسی ہورہی ہے تو ان کا بہترحالات اور عزت و احترام کے ساتھ اپنے علاقہ بھیجنا اوران کا خیال رکھنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے اوریہی وجہ ہے کہ ان تمام معاملات کو سنجیدگی سے اٹھایا جارہا ہے۔

  • قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفرپرپہنچ گئی

    قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفرپرپہنچ گئی

    پشاور: قبائلی علاقے میں پولیو کے قطرے پالنے سے انکار اور پولیو کیسز کی شرح میں حیرت انگیز کمی آئی ہے اور انتظامیہ کی جانب سے کوششیں جاری ہیں کہ سال2016 کے اختتام تک قبائلی علاقہ پولیو کی لعنت سے پاک ہوجائے۔

    تین دہائیوں سے افراتفری، تشدد اورعدم استحکام کے حالات سے گزرنے کے بعد اب جب نیا قبائلی علاقہ، نئی ترقی، سوچ اوربہترسہولیات کے ساتھ منظرعام پرنمودارہونے کو ہے تو جہاں 2014 میں 179 پولیو کیسیز رپورٹ ہونے سے دنیا میں سب سے زیادہ پولیو کیسیز رپورٹ ہونے والا علاقہ مئی 2016 تک صفر کیس تک پہنچ چکا ہے۔

    01

    قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کے خاتمے کی تصدیق ایمرجنسی آپریشن سنٹر قبائلی علاقہ جات کے میڈیا آفیسر عقیل احمد نے اے ار وائے نیوز (ویب) سے گفتگو کرتے ہوئے کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’’جہاں پولیو کیسزصفر تک پہنچا ہے وہیں قبائل میں پولیو سے بچاؤ اورقطرے پلانے کے حوالے سے سوچ میں بھی تبدیلی آرہی ہے، 2014میں بیشتر قبائلی علاقوں تک رسائی نہ ہونے کے سبب پولیو قطرے پلانے سے انکار اوررسائی نہ ہونے کے کیسزز کی تعداد 33،0618 یعنی 31 فیصد تھی جو اب مئی 2016میں کم ہوکر ایک فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے‘‘۔

    07

    انہوں نے بتایا کہ ’’مئی 2016 میں قبائلی علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کا ٹارگٹ 96،5675 تھا جن میں صرف 247 انکاراور 3725عدم رسائی کے کیسز سامنے آئے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے سروکئی، سراروغا اورلدھا کو بھی پولیو ٹیموں کے لئے کھول دیا گیا ہے جس سے عدم رسائی کے کیسوں میں مزید کمی اور قطرے پلانے کی شرح میں اضافہ ہوگا‘‘۔

    عقیل احمد کے مطابق جہاں ان کے لئے یہ بات باعث اطمینان ہے تو وہیں وہ بہت حد تک محتاط بھی ہوگئے ہیں کیونکہ قبائلی علاقوں کی سرحد جہاں ایک طرف افغانستان سے تو دوسری طرف خیبرپختونخواہ سے متصل ہے جہاں پولیو کیسزابھی بھی رپورٹ ہورہے ہیں اورقبائلی علاقہ دونوں میں رابطے کا ذریعہ ہے اور یہی سے بچوں کا گزرہوتا ہے لہذا پاک افغان سرحد، قبائلی علاقہ اورخیبرپختونخواہ سرحد پربچوں کو قطرے پلانے کا بندوبست کیا گیا ہے اوراس کی مانیٹرنگ بھی کی جارہی ہے۔

    PIC 01

    ایک رپورٹ کے مطابق 2016میں افغانستان میں پانچ اورخیبر پختونخواہ میں چھ کیسیز سامنے آئے ہیں جبکہ پاکستان کے دیگرعلاقوں میں بلوچستان میں ایک، سندھ میں چارجبکہ پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر میں کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ اس طرح پاکستان اس سال مئی تک کل گیارہ کیسزسامنے آئے ہیں۔

    قبائلی علاقوں کی طرح خیبر پختونخواہ میں بھی 2014میں پولیو کیسز کی تعداد 68 تھی جو 2016میں گھٹ کچھ تک آگئی ہے۔

    خیبرپختوںخواہ کے لئے پولیو ایمرجنسی اپریشن سنٹر سے منسلک اکبرخان کاکہنا ہے کہ ’’مئی 2016میں 55لاکھ بچوں کو پولیو قطرے پلانے کا ٹارگٹ تھا لیکن 56لاکھ کو یہ قطرے پلائے گئے کیونکہ گرمیوں کے باعث خیبر پختونخواہ کے پہاڑی اور سیاحتی علاقوں کو آنے والے بچوں کو بھی یہ قطرے پلائے گئے اور ان کا اندراج کیا گیا ہے‘‘۔

    05

    ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواہ میں انکاراورعدم رسائی کے 5096کے کیسیز سامنے آئے ہیں جبکہ پولیو کییسیز کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بنوں میں تین اور پشاور، نوشہرہ اور ہنگو میں ایک ایک کیس سامنے آیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے جو کوشش ہورہی ہے اس میں یہ تعداد ثابت کرتی ہے کہ نتائج حوصلہ افزا ہیں اوروہ اپنے اہداف حاصل کرتے ہوئے 2016 میں پولیو کیس زیرو تک لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    10

    سیکرٹری لاء اینڈ آرڈر برائے قبائلی علاقہ جات شکیل قادر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’قبائلی علاقوں میں شمالی و جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے بعد حالات میں بہتری آئی ہے اور قبائلی علاقوں میں استحکام اور ترقی کا نیا دور شروع ہوچکا ہے، حکومتی عمل داری قائم ہوچکی ہے اور نقل مکانی کرنے والے واپس آرہے ہیں اور ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عام قبائل کو مذہب اورکلچرکے تناظر میں پولیو قطروں کی افادیت سے آگاہ کیا گیا ہے اورطالبان دورمیں جو پروپیگنڈہ کیا گیا تھا وہ دور کر کے ان کو پولیو قطرے پلانے پررضامند کیا گیا۔ قبائل نے پولیو کے قطروں کی افادیت کو قبول کیا اور یہی وجہ ہے پولیو قطرے پلانے سے انکارکی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے‘‘۔ شکیل قادر نے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ جلد پاکستان کاقبائلی علاقہ پولیو جیسے موذی مرض سے پاک ہوگا۔