Author: ضیاء الحق

  • قبائلی علاقہ جات امن کی شاہراہ پرگامزن

    قبائلی علاقہ جات امن کی شاہراہ پرگامزن

    امریکہ میں ہونے والی 9/11 دہشت گردی کی بدترین واردات کے بعد اتحادی افواج نے افغانستان میں قائم طالبان حکومت اوروہاں موجود القاعدہ کے کنٹرول کا خاتمہ تو ممکن ہوا لکین وہاں پہلے سے موجود بد امنی کی لہرمیں بھی اضافہ ہوا جس پرقابو پانے کی غرض سے جہاں ڈیڑھ لاکھ اتحادی افواج کو تعینات کرناپڑا۔ انتظامی معاملات کو سنبھالنے کے لیے حامد کرزئی کی سربراہی میں حکومت بھی قائم کی گئی لکین حالات میں بگاڑ بڑھتا رہا جس کے بدترین اثرات پاک افغان سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبرپخونخواہ بھی شورش کی شکل میں مرتب ہوئے۔

    یہ بات ایک حقیقت ہے قبائلی علاقے چترال سے وزیرستان تک بیرونی عوامل کے تناظر میں پیدا کی جانے والے بد امنی سے قبل پرامن تصور کئے جاتے تھے لیکن حالات کی ستم ضریفی کہ یہاں کے پندرہ لاکھ سے زائد باشندوں کو نہ صرف اپنے علاقے چھوڑنے پڑے بلکہ جان و مال کی بے پناہ قربانیاں دیں۔

    گزشتہ پندرہ سالوں میں ملک بھر میں چالیس سے پچاس ہزار افراد جن میں خواتین، بچے، بوڑھے اور جواں شامل ہیں، اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔ ایک طرف عام شہیریوں کی قربانیاں ہیں تو وہی سول قانون نافذ کرنے والے ادارے اورپاکستان آرمی نے بھی 2001 سے شروع ہونے والے آپریشن المیزان سے موجودہ ضربِ عضب کے دوران دس ہزارافراد نے جان کی قربانیاں دیں جن میں فوج کے 4188افسر و جوان شامل ہیں، جبکہ 14840زخمی ہوئے۔

    یہ ان افراد کی قربانیاں ہیں کہ قبائلی علاقہ اور خیبر پختونخواہ جو انتہا پسندوں کی آماجگاہ بن گیا تھا اب اس کے 99.2 فی صد علاقہ جو 100927سکوئر کلومیٹر بنتا ہے دوبارہ محفوظ بناکرنہ صرف دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کردیے گئے ہیں بلکہ ان کو پاک افغان سرحد سے باہر دھکیلتے ہوئے ان کی واپسی کو روکنے کی غرض سے سرحد پرافغانستان کی 145 چیک پوسٹوں کے مقابلے میں دس ہزار فٹ بلندی پر 535چیک پوسٹیں قائم کردی گئی ہیں جہاں ابتدائی چار سے پانچ سال آرمی تعینات ہوگی اور پھرفرنٹئیر کور جس کی یونٹوں کو 10 سے 79تک بڑھایا جارہا ہے، وہاں مستقل تعینات کیا جانے کا منصوبہ زیرغور ہے۔

    چند روز ہونے والی ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اعشاریہ آٹھ فیصد علاقہ جو 814 اسکوئرکلومیٹربنتا ہے یہاں حکومتی عمل داری تو کمزورہے لیکن دہشت گرد بھی وہاں موجود نہیں، ان میں خیبرایجنسی کا پاک افغان سرحد پرواقعہ علاقہ راجگال اورشمالی وزیرستان کا لواڑہ منڈی شامل ہے۔

    بریفنگ میں جب ضرب عضب کی کامیابیوں اور اس کے اختتام کے حوالے سے پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ ضرب عضب میں آرمی کی براہ راست کاروائیاں تو ختم ہوگئی ہے اور اب کسی باقاعدہ آپریشن کی ضرورت بھی باقی نہ رہی البتہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر سرچ اپریشن شروع کئے گئے ہیں جن کی تعداد 3580بتائی گئی ہے اور گرفتاریاں 9209 ہیں لیکن ان میں کوئی اہم دہشت گرد شامل نہیں ہے۔

    تاہم دہشت گردوں کی ہلاکت اورزخمی ہونے کے حوالےسے بتایا گیا کہ ضرب عضب آپریشن میں خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق 2820 دہشت گرد ہلاک، 943زخمی،1095 گرفتار اور 1237نے اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کیا ہے اور اس دوران کثیر تعداد میں اسلحہ و بارود دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے برآمد کیا گیا ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں یہ بھی معلوم ہوا کہ سوات، مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں، پشاور، چارسدہ و مردان میں دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کے ذریعے کبھی نہ کبھی کاروائی کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں لیکن ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور بارودی مواد بھی برآمد کیا جارہا ہے جس کے باعث دہشت گردی کے کئی واقعات کو قبل از وقت روکا بھی گیا ہے۔

  • پاک افغان طورخم بارڈرپرآمدورفت سفری دستاویز کے ساتھ مشروط

    پاک افغان طورخم بارڈرپرآمدورفت سفری دستاویز کے ساتھ مشروط

    پشاور: آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کے افغانستان فرار اور آرمی پبلک اسکول پشاور و باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ کے تناظر میں قبائیلی علاقوں سے متصل پاک افغان سرحد کو سیل کرنے اور مرحلہ وار منظم سرحد بنانے کی غرض سے پہلے مرحلے میں یکم جون سے پاک افغان سرحد طورخم باڈرکو آمدورفت کے لئے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات کے ساتھ مشروط کیا جارہا ہے ۔

    ذرائع کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے باعث پاک فوج نے قبائلی علاقوں کو انتہاپسندوں سے پاک کرنے کا مشکل کام تو مکمل کر لیا ہے لکین دہشت گرد پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیبابیوں کو مشکوک بنانے کی غرض سے پاک افغان سرحد خصوصا طورخم کے راستے بغیر دستاویز کے دیگر عام افغانوں کی آڑ میں داخل ہونا شروع کردیا تھا جس کے ثبوت باقاعدہ افغان حکومت کو حوالے کئے گئے لیکن افغان حکومت کی جانب سے کاروائی نہ ہونے پر حکومت پاکستان نے اپنی سرحد کو محفوظ بنانے اور پاکستان میں افغانستان کے راستے داخلے کو منظم بنانے کی غرض سے پہلے مرحلے پر طورخم کے مقام پر بھاڑ لگانا شروع کی اور جب ڈھائی کلومیٹر کے ایریا میں باڑھ لگ گئی تو افغان حکومت نے اس کو متازعہ بنانا شروع کردیا جسکے نتیجے میں چار دن تک سرحد بند رہی ۔

    بالاخر مذاکرات کے بعد جہاں سرحد کو کھولا گیا وہی باڑھ کو سرحد کے چار کلومیٹر کی رینج میں مکمل کر لیا گیا ہے اور اب طورخم سرحد سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر شہید موڑ کے علاقے میں امیگریشن آفس قائم کردیا گیا ہے جہاں سے پاکستان میں داخلے کے لئے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویز ضروری ہوں گے بصورت دیگر واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔

    ذرائع کا بتانا ہےکہ خیبر ایجنسی کا شنواری قبیلہ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف مقامی قبائلی معاہدے کے مطابق اپنے علاقوں تک راہداری کے حقوق حاصل کرسکے گے، زرائع کے مطابق طورخم سرحد کا ماڈل قبائلی علاقوں سے متصل دیگر سات پاکستان کے داخلی راستوں پر مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا، ان راستوں میں ارندوں، غلام خان، ناوا پاس، کلاچی ، گرسال شامل ہیں ۔

  • تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی پارٹی پالیسی کے برخلاف ذاتی تشہیر میں مشغول

    تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی پارٹی پالیسی کے برخلاف ذاتی تشہیر میں مشغول

    خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے منتخب نمائندوں نے پارٹی پالیسی کے برخلاف اپنی ذاتی تشہیر کی غرض سے تعمیراتی کاموں پر تختیاں لگانا شروع کردی ہیں جبکہ ایک وزیر ضیاء اللہ آفریدی تو پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود ترقیاتی کاموں کا افتتاح کرواکے اپنے نام کی تختی لگوا رہے ہیں۔

    انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے ایک پالیسی بیان میں واضح کیا تھا کہ ان کے ممبران پارلیمینٹ حکومتی فنڈز سے بننے والی گلی ،محلے ، سڑک اور سرکاری عمارتوں پر اپنے ناموں کی تختیاں نہیں بنوائے گے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعمیرات حکومت کے خزانے سے نکلنے والے پیسے پر ہوتی ہے جس میں عام عوام کے ٹیکس کی رقوم بھی شامل ہوتی ہے۔

    اپنی پارٹی کی پالیسی کو بلائے طاق رکھتے ہوئے خبیر پختونخواہ میں چھوٹے بڑے تعمیراتی کاموں کو اپنے ناموں سے منسوب کرنا شروع کیا ہوا ہے۔

    PTI-post-2

    اس حوالے سے جب عام شہریوں کا ردعمل جانا تو پشاورمیں کاروبار کرنے والے احسان اللہ خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل مختلف دعوے کیے تھے جن میں سے اکثر معاملات پرعمل درآمد کافی سست روی کا شکار رہا ہے جس میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ان کی حکومت میں آنے کے ڈھائی سال بعد منعقد ہوئے۔ اسپتالوں میں کوئی خاطرخواہ کام نہیں ہورہا ہے اس لئے تحریک انصاف کے ممبرانِ اسمبلی سمجھتے ہیں یہ تختیاں لگاکر اپنے عوام میں اپنے وجود کو زندہ رکھیں۔

    جمیل احمد جو نجی ادارے میں ڈرائیور ہیں ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے ایک وزیر ضیاء اللہ افریدی کرپشن کے الزامات میں جیل کاٹ رہے ہیں لیکن اس کے حلقے میں جو ترقیاتی کام ہوتا ہے اس کے نام کی تختی لگ جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کسی علاقے میں کسی جماعت کے ممبر اسمبلی کی تختی لگتی ہے تو مخالف جماعت جب حکومت میں آتی ہے تو اس علاقے کا نظر انداز کردیتی ہے۔

    PTI-post-4

    عبدالرؤف نامی ایک اورشہری کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کی خام خیالی ہے کہ وہ سرکاری فنڈز سے ہونے والے ترقیاتی کاموں پرتختیاں لگاکر ہمدردی اور سپورٹ حاصل کریں گے، اگر ایسا ہوتا تو متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی الیکشن نہ ہارتی۔

    ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقہ دیر کے علاقے خال میں ترقیاتی منصوبوں پر اپنی اپی تختی لگانے کے معاملے پر دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے مابین تصادم کے نتیجہ میں سات افراد کے زخمی ہونے کا افسوسناک واقعہ پیش آچکا ہے۔

    PTI

    تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات شوکت یوسف زئی نے اس حوالے سے اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کی یہ واضح پالیسی تھی کہ ترقیاتی کام مقامی حکومتوں کے ذریعے ہوں گے اور ان ترقیاتی کاموں پر کسی شخص کی تحتی نہیں لگے گی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ بات کو یقینی بنانے میں تھوڑا وقت لگے گا کیونکہ ہمارا سیاسی کلچر ابھی تبدیل نہیں ہوا ہے اورساتھ ہی ساتھ کچھ سیاسی مجبوریاں بھی ہوتی ہے۔

    PTI-post-3

    ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی کوشش ہے کہ بلدیاتی نمائندے اپنا بھرپور کام شروع کریں لیکن ابھی ان کو ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد مل رہا ہے جبکہ 70فیصد ترقایتی کام صوبائی حکومت کے زریعے ہورہے ہیں۔

    شوکت یوسف زئی کے مطابق تحریک انصاف حکومت اس فنڈ کے تناسب کو 50فیصد تک لے کرجارہی ہے اوراس کے بعد زیادہ ترفنڈز بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ ہوں گے۔ ان کے خیال میں جب ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے پاس فنڈز نہیں ہوں گے تو وہ ترقیاتی کام کی بجائے قانون سازی پر توجہ دیں گے اور پھرگلی، محلوں میں ان کی تختیاں بھی نظر نہیں آئیں گی۔

  • ایک کتاب، ایک قلم اورایک استاد مل کر دنیا کو بدل سکتے ہیں

    ایک کتاب، ایک قلم اورایک استاد مل کر دنیا کو بدل سکتے ہیں

    ’’ہمارا علاقہ بسا اوقات بمباری کی زد میں ہوتا جس کے باعث ہم گھروں سے باہر نہیں نکلتے اور جب بڑوں کے ساتھ مارکیٹ جاتے تو مسلح افراد اور مسمار عمارتیں‘‘ ۔ یہ ان الفاظ کا ترجمہ ہے جو نو سالہ سلمان نے جنوبی وزیرستان کے علاقہ شکئی میں ایک سال قبل تعمیر ہونے والے آرمی پبلک اسکول میں ہمسے بات چیت کرتے ہوئے کہیں۔

    army-post-2

    شکئی جنوبی وزیرستان کے محسود قبائیل کا علاقہ ہے اور یہاں ہم موجود تھے آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے کے توسط سے۔ سلمان چار سال کا تھا جب 2009میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کرکے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگیا تھا۔ جنوبی وزیرستان قبائلی علاقوں میں پہلا علاقہ تھا جہاں باضابطہ کالعدم تحریک طالبان نے اپنی سرگرمیاں شروع کی تھی اور یہی طالبان رہنما مولوی نیک محمد وزیر کے ساتھ ایک امن معاہدہ ہوا تھا لکین 2004میں ڈروں حملے کے نتیجے میں نیک محمد کی ہلاکت کے بعد جب بیت اللہ محسود طالبان کی کی کمان سنبھالی تو محسود ایریا شورش کی زد میں آگیا اور یہاں دہشت گردی کے مختلف واقعات دیکھنے کو ملے اور آخر کار پاک فوج کو یہاں 2009میں آپریشن راہ نجات شروع کرنا پڑا جس کے باعث سلماں کے خاندان کو دیگر افراد کے ساتھ علاقہ خالی کرنا پڑا اور اپریشن کے آختتام پر 2014-15میں ان افراد کی واپسی کا عمل شروع ہوا۔

    سلمان جب واپس ایا تو اس کا علاقہ ویران تھا اور ہر طرف تباہی کے آثار نمایاں تھا لکین پھر یہاں ترقیاتی کاموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور جنوبی وزیرستان کی چار تحصیلوں سراروغہ، سرواکئی، تیارزہ اور لدھا میں سکول، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت ، مارکیٹس اور تحصیل عمارتوں پر مشتمل 285سکیمیں تین ارب اسی کڑور روپے کی لاگت سے مکمل ہورہے ہیں۔

    اس علاقے میں شورش سے قبل جدید تعلیمی اداروں کی کمی تھی لکین اب یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے آرمی پبلک سکول، ڈگری کالجز اور ووکیشنل ٹریننگ انسٹیوٹ بن چکے ہیں۔ سلمان کو بھی آرمی پبلک سکول میں داخلہ مل چکا اور یہاں اس نے پینٹ شرٹ پہن کر تعلیم شروع کردی ہے، اس کا کہنا ہے کہ علاقہ پہلے سے بہت بہتر ہوچکاہے یہاں پہلے ایسے سکول موجود نہیں تھے۔

    سلمان نے دورانِ گفتگو اس عزم کا اظہار کیا کہ میں بڑا ہوکرایف سولہ کا پائلٹ بنوں گا۔

    army-post-3

    سلمان کے ساتھ کھڑے فرید اللہ جو یہاں استاد کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے بتایا ہمارے سکول میں محسود،شکئی اور طیارزہ کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں،یہاں میٹرک تک تعلیم دی جاتی ہے ،ہم نے یہ سکول ایک خیمے میں شروع کیا تھا شروع میں بہت مشکلات تھیں پانچ ماہ تک بچوں کو خیمے میں پڑھاتے رہے ہیں بعد میں ایک نئی بلڈنگ بنا کردے دی گئی۔ ان کہنا تھا کہ بچے سکول آنے میں اور پڑھنے میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک کتاب، ایک قلم اورایک استاد مل کر دنیا کو بدل سکتے ہیں ۔

    army-post-4

    انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے سکول میں طلباء کی تعداد تین سو ہے جو بڑھ رہی ہے۔ ابھی ہم سکول کی عمارت میں سہولیات کا جائزہ لے رہے تھے تو بتایا گیا کہ ساتھ لڑکیوں کا سکول ہے اور جب ہم وہاں پہنچے تو ہماری ملاقات ملائکہ وزیر سے ہوئی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اسلام اباد کے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں بحیثیت ٹیچر تعینات تھی لیکن اپنے علاقے میں بچیوں کو پڑھانے کا شوق انہیں یہاں کھینچ لیا ۔ ان کا کہنا تھا ’’آرمی کے ساتھ کام کرنا فخر کی بات ہے،وزیرستان میں خواتین کی تعلیم میں پہلے جو مشکلات پیش آئی ہیں ہم نہیں چاہتے کہ اب ان بچوں کو بھی وہی مشکلات پیش آئیں، تعلیم نسواں کے لئے پاک فوج نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے ہمیں شروع میں بہت زیادہ مشکلات تھیں گھر گھر جا کر والدین کو راضی کرنا پڑا کہ بچیوں کو تعلیم دلوائیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور والدین خود اپنی بچیوں کا سکول چھوڑنے اور لینے آتے ہیں‘‘۔

    army-post-1

  • وادی شوال – پاک فوج کا محیر العقل کارنامہ

    وادی شوال – پاک فوج کا محیر العقل کارنامہ

    پشاور: قبائلی علاقوں میں انتہا پسندی جب عروج پر تھی اور ہر طرف سے اس علاقے کے مستقبل کے حوالے سے صدائیں اٹھ رہی تھیں اور اس دوران پشاور میں آرمی پبلک سکول میں بربریت کی انتہا کو چھونے والے واقعہ کے تناظر میں ریاست اور عوام نے یک آواز ہو کر اس کینسر کا خاتمے کی ٹھان لی تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سیاسی قیادت کے اعتماد سے ہر قسم کے خوف، وسوسوں اور خطرات کو پس پشت رکھتے ہوئے دہشت گردوں پر آخری وار کرنے کے لئے جون 2015میں شمالی وزیرستان میں ضرب عضب اپریشن شروع کردیا اور ایجنسی کی دشوار گزار اور مشکل وادی شوال سے فروری 2016 تک ملک میں دہشت کے زریعے اپنی حمکرانی قائم کرنے والوں کے مضبوط ٹھکانوں پر قبضہ کرکے اورانہیں سرحد پار دھکلیتے ہوئے اس فوجی کاروائی کے پہلے مرحلے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہی بے گھر ہونے والوں کی واپسی کا عمل شروع کردیا ہے۔

    کہنے کو تو یہ باتیں آسان لگتی ہیں لیکن پاک آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کی دعوت پرجب جنوبی و شمالی وزیرستان اور خصوصاً حال ہی میں دہشت گردوں کی آخری آماجگاہ وادی شوال سے انکے خاتمے کے بعد دورہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ پاک فوج نے وہ کام کر دکھایا جو ماضی میں دنیا کی بہترین افواج خصوصاً انگریز اپنی حکمرانی کے ایام میں ایسی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ پشاور سے جب بذریعہ ایم آئی ون سیون ہیلی کاپٹر شمالی وزیرستان کے لئے صفر شروع کیا تو یہاں درجہ حرارت44 سینٹی گریڈ تھا اور نو ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے جب دو گھنٹوں کی مسافت طے کرکے شوال پہنے تو وہاں درجہ حرات 17سینٹی گریڈتھا ۔ ہرطرف نظر آنے والے سبزے، گھنے جنگل اور چلغوزے کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے باغات نے سفر کی تھکاوٹ کو سیکنڈوں میں ختم کردیا۔

    9

    شوال شمالی وزیرستان کی حدود میں واقع ہے اور اس کی سرحد ایک طرف جنوبی وزیرستان تو دوسری طرف افغانستان کے صوبے خوست اور پکتیا سے ملی ہوئی ہے۔ جس ہیلی کاپٹرمیں ہم سوار تھے اس نے ہیلی لینڈنگ مکی گھڑ میں کی جو شمالی اور جنوبی وزیرستان کا سرحدی علاقہ ہے اور یہاں سے پاک افغان سرحد پندرہ کلومیٹر ہے۔ یہاں پہاڑی چوٹی پر بریگیڈئیر شبیر نے ہمارا اسقبال کیا اور بریفنگ روم کی طرف لے کرگئے جہاں انہوں نے بتایا کہ مکی گھڑ کی چوٹی پر جب وہ قبضہ کررہے تھے تو اس دوران شدید جھڑپ ہوئی تھی جس میں پانچ دہشت گرد مارے گئے تھے اور یہاں انکی اعلیٰ قیادت رہائش پذیر تھی۔

    5

    8

    انہوں نے بتایا کہ اس چوٹی پر قبضہ سے شوال پر پاک فوج کا کنٹرول مستحکم ہوا ۔ اپنی بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ شوال میں ملکی اورغیر ملکی دہشت گردوں کی اہم قیادت قیام پذیر تھی جن کی حفاظت اعلیٰ تربیت یافتہ کمانڈوز کررہے تھے ۔ انہوں نے اپنے بریفنگ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ شوال آپریشن میں پاک فوج کے کپتان سمیت چھ اہلکار شہید ہوئے اور 26زخمی جبکہ دہشت گردوں کے سو سے ایک سو بیس افراد ہلاک اور 60زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں کی تعداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے متضاد دعوے کئے جارہے ہیں جس کے تحت 1200سے ڈھائی ہزار کی تعداد بتائی جاتی ہے جن میں 50سے100غیر ملکی تھے ۔

    ایک ذرائع نے بتایا کہ ان غیر ملکیوں میں ازبک، چیچن،عرب اور افغان جنگجو شام تھے جبکہ کالعدم طالبان کے دو اہم گروپ شہریار اور سجنا کے جنگجو اس پورے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ بریگیڈئیر شبیرکا کہنا تھا کہ شوال سے منسلک پاک افغان سرحد کی لمبائی سو کلومیٹر اور یہاں زیرو لائن یعنی بفر زون پر بڑی تعداد میں فوجی چوکیاں قائم کی گئی ہیں تاکہ اگر کوئی انفرادی طور پر بھی دراندازی کی کوشش کرے تھے تو اس کو ناکام بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شوال کا رقبہ 312 اسکوائر کلومیٹر ہے جو اب مکمل طور پر محفوظ بنا لیا گیا ہے۔

    6

    شوال آپریشن کی کامیابی میں آرمی کے ساتھ ساتھ پاک فضائیہ کا بھی اہم کردار تھا اور جیٹ طیاروں کے صحیح نشانے پر بمباری بھی دہشت گردوں کے بھاگنے کی وجہ بنی ہے اوردفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کاروائیوں کے بعد اب دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے ۔ تاہم اس بات کو محسوس کیا جارہاہے کہ دہشت گرد سرحد پار افغانستان میں بیٹھ کر جو کاروائیاں کروارہے ہیں اور دہشت گردی کے منصوبے بنارہے ہیں وہ خطرے کی علامت ہے اور اس کے لئے دونوں ملکوں کی قیادت کی جانب سے مضبوط لائحہ عمل اوربہتر بارڈر مینیجمنٹ ضروری ہے۔

    4

    مکی گھڑ سے ہم بذریعہ ہیلی ڈبر میامی پہنچے جو شوال کا قدرے میدانی علاقہ ہے یہاں حیرت انگیز انکشافات دیکھنے کو ملے۔ اس علاقے میں کچی مٹی کے گھر ہیں اوران گھروں میں دہشت گردوں نے سرنگوں کی شکل میں محفوظ ٹھکانے قائم کئے ہوئے تھے ۔ ایسی ہی ایک کچے گھر میں ہمیں ایک سرنگ دکھائی گئی جو تین سو میٹر لمبی اور پندرہ سے پینتیس فٹ گہری تھی جس میں واش روم،رہائش کے لئے غاراور کنواں تھا۔ یہ سرنگ ڈرون حملوں سے بچاوٗ کے لئے بھی بنائی گئی تھی اور بتایا جاتا ہے کہ یہاں غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق القائدہ اور طالبان کے اہم رہنما روپوش رہے ہیں

    3

    2

    یہی پر فوجی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی امریکن ہموی جیپ، امریکن سٹینگر میزائل اور دیگر اسلحہ بھی دکھایا گیا جو دہشت گردوں کے زیر استعمال تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمیں معلوم ہوا کہ خودکش حملے کے لئے جیکٹس، بارودی سرنگ اور بم بھی تیار ہوتے تھے۔ اس علاقے کے دورے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مقامی ابادی دہشت گردوں کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوئی تھی اور وہ خوف کے باعث ان کے سامنے بے بس تھے۔

    1

    یاد رہے کہ شوال ایک خوبصورت اور حسین وادی ہے اوراگر یہاں حالات معمول پر ہوں تو موسمِ گرما یہ علاقہ ایک اہم تفریحی مقام کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔

  • دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کرتا شہرپشاوراوراس کے صحافی

    دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کرتا شہرپشاوراوراس کے صحافی

    ہماری گاڑی دھماکے کی زد میں آگئی ہے اور اسٹاف سے رابطہ نہیں ہورہا ہے۔ یہ وہ الفاظ تھے جو مجھے اسانٹمنٹ اڈیٹر وقار احمد نے موبائل پر بتائے ۔ اس وقت میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر سے چیک اپ کرانے کلینک میں داخل ہورہا تھا۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ پشاور کے مضافاتی علاقہ متھرا میں ہماری ٹیم پولیس موبائل پر ریموٹ کنٹرول بم حملے کی  کوریج کے لئے گئی ہوئی تھی اور جونہی جائے وقوع پر پہنچ کر ابتدائی فوٹیج اے آروائے نیوز کے فیڈ روم میں ریکارڈ کرارہی تھی کہ دوسرا دھماکہ ہوا ہے ۔ یہ فون بند ہوتے ہی مجھے ڈاکٹر اور بچہ بھولے ہوئے تھے کیونکہ اسٹیشن ہیڈ ہونے کے باعث میری توجہ اپنے ساتھیوں کی طرف چلی گئی اور اس دوران میں نے موقع پر موجود ڈی ایس این جی انجنئیر سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ دھماکہ ان سے دس قدم کے فاصلے پر ہوا ہے لیکن وہ محفوظ ہیں۔

    A3

    دھماکے میں آج چینل کا ڈرائیور شہزاد زخمی ہوا ہے اور چینل 24 اور  ایکسپریس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ اس فون کے بعد اطمینان ہوا کہ ساتھی بچ گئے ہیں اور اس کے بعد میں بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا ۔ امریکہ میں گیارہ ستمبر کے دہشت گردی کے واقعے کے بعد افغانستان پر حملہ اور اس کے تناظر میں کالعدم تنظیموں پر 2004سے شروع ہونے والے ڈروں حملوں کے ردعمل میں دہشت گردی کے واقعات کی  کوریج کے دوران پشاور اور قبائیلی علاقوں کے چالیس کے قریب میڈیا ورکر اپنی جان گنوا چکے ہیں اور یہی وجہ ہے پاکستان صحافیوں کے لئے غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ میڈیا جس کو خطرات کا سامنا ہے اور آپریشن ضرب عضب،( جسے دہشت گردوں کے مکمل خاتے کا آپریش قرار دیا جارہا ہے ) کی باعث خطرات اور دھمکیاں بھی بڑھ گئی لیکن فیلڈ پر موجود میڈیا ورکر غیر محفوظ نظر آتے ہیں حالانکہ ایک خطیر رقم بیرونی امداد سے ان کی ٹریننگ پر بھی  خرچ ہورہی ہے اور اب تو حکومتی سطح پر میڈیا سیکیورٹی کے لئے کمیٹی بھی بن چکی ہے ۔

    A2

    متھرا میں ہونے والے واقعہ جس میں 19افراد زخمی ہوئے اور ایک جاں بحق ۔ ان میں زیادہ تر پولیس اہلکار ہیں جبکہ ایک میڈیا ورکر شامل تھا۔ اس واقع میں میڈیا کے ٹارگٹ ہونے کے حوالے سے جب میں اپنے ساتھیوں کی رائے لی تو آج چینل کی بیوروچیف پشاور فرزانہ علی کا کہنا تھا کہ اس میں پولیس کی غفلت ، عدم توجہی اور میڈیا کارکنوں کی لاپرواہی کارفرما ہے ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ پر بم ڈسپوزل ٹیم لیٹ پہنچی اور کرائم سین پر کوئی رکاوٹ نہیں تھی اس لئے ان کی ٹیم کوریج کی غرض سے آگے بڑھی تو دوسرا دھماکہ ہوگیا جس میں ان کی ڈی ایس این جی وین کے ڈرائیور کو معمولی زخم آئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو بھی آرمی کی طرح ایسے واقعات کی صورت میں میڈیا کے لئے ایک حدود کا تعین کرنا چاہیے۔ جبکہ میڈیا کو اپنی سطح پر متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینا چاہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ میڈیا ہاوسز نے اپنے ورکروں کو ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ دی تھی لیکن پھر وہ واپس منگوالی حالانکہ پشاور میڈیا خطرات کے حوالےسے خطرناک شہر ہے کیونکہ قبائلی علاقہ اور افغان سرحد اس سے متصل ہے ۔

    A1

    چینل 24کے بیورچیف فخر کاکاخیل کا کہنا تھا کہ دھماکے میں انکی گاڑی بری طرح متاثر ہوئی ہے لیکن خوش قسمتی سے گاڑی خالی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھی دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے ٹراما سے گزر رہے ہیں اور ابھی تک ان کو اپنی حفاظت کی سوچ ہی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ میں میڈیا ورکروں اور گاڑیوں کو ساتھ ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اک دوسرے سے فاصلہ رکھنا چاہے تاکہ اگر میڈیا پر حملہ ہو تو بڑے نقصان سے بچا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ورکروں پر بریکنگ کی دھن سوار ہوتی ہے کیونکہ ڈیسک پیچھا سے دباو ڈال رہا ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی حفاظت کو بھول جاتے ہیں ۔ میڈیا کی کوریج کے جنون کاا س بات سے بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ پشاور میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کی کوریج کے دوران وہ ایک ایسی گاڑی کے قریب چلے گئے جس میں دس کلو وزنی بم پڑا ہوا تھا وہ تو بم ڈسپوذل سکواڈ کا عملہ وہاں پہنچ گیا اور انہوں نے میڈیا کو دور کیا۔

    A5

    متھرا واقعہ کی کوریج کرنے والے اے ار وائے نیوز کی کیمرہ میں ارشد خان نے بتا یا کہ جب دوسرا دھماکہ ہوا تو اس سے قبل وہ پہلے دھماکے کی کوریج کررہے تھے اور جونہی دھماکہ ہوا وہ گر پڑا لیکن جلدہی دوبارہ کیمرہ اٹھایا اور پہلے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور پھر فوٹیج بنانا شروع کردی ۔ ان کا کہنا تھات کہ خطرات تو ہیں جب ایسے واقعے کی کوریج کے لیے جاتے ہیں تو اپنے خطرے کوبھولے ہوتے ہیں ۔


    ان کا کہنا تھاکہ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے نے لائف اور ہیلتھ انشورنس کرائے ہوئے ہے جبکہ اکثر اداروں میں یہ سہولت نہیں 


    شہزاد محمود اے آروائے نیوز رپورٹر کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد میڈیا، ریسکیو اور پولیس مل کر ایک دوسرے کو ریسکیو کررہے تھے ۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے ادارے نے بلٹ پروف جیکٹ فراہم کی

    ہوئی ہے اور اس کا استعمال کرنا چاہے ۔ ان کا کہنا تھا چونکہ رپورٹر اور کیمرہ مین کو خبر کی تلاش کی غرض سےادھر ادھربھاگنا پڑتا ہے اس لئے بلٹ پروف اور ہیلمٹ وزنی ہونے کے باعث پہنے سے اجتناب کرتے ہیں ۔ انہوں نے جرنلسٹ سیفٹی ٹریننگ حاصل کی ہے لیکن وہ کہتے ہیں ایسا واقعات میں ان کی نظر خبر اور فوٹیج پر ہوتی ہے ۔

    A4

    یہ واقعہ اور اس قسم کے دیگر بیشتر واقعات اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ ادارتی اور تنظیمی سطح پر ٹریننگ کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ محسوس کرسکیں کہ خبر کا حصول تو ضروری ہے لیکن ان کی جان بھی ضروری کیونکہ زندہ شخص ہی واقعات کو بیان کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کی دور سے کوریج کرنے چاہئے جیسا کہ حالیہ دنوں میں فرانس میں دیکھنے کو ملی۔

  • سپیرا ڈیم ایک بار پھر خیبر ایجنسی کو زندگی دے گا

    سپیرا ڈیم ایک بار پھر خیبر ایجنسی کو زندگی دے گا

    پشاور: آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں جہاں ایک جانب مقامی آبادی ایک بار پھر اپنےگھروںکولوٹ رہی ہے وہیں اقتصادی معاملات پر بھی توجہ دی جارہی ہے جن میں سپیرا ڈیم کی تعمیر نو بھی شامل ہے جو کہ رمضان تک ایک بار پھر پانی کی سپلائی شروع کردے گا۔

    انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دہشت گردی نے پورے ملک بشمول خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں کو اقتصادی اور سماجی ترقی پر کاری ضرب لگائی اور اسکی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کے دور میں جہاں عام زندگی یرغمال ہوئی تھی وہیں قدرتی و آبی وسائل پر قبضے کے نتیجے نے اس شعبے کو بھی بری طرح متاثر کیا ۔

    spira-post-1

    خیبر ایجنسی کے سر سبز پہاڑوں کے درمیاں واقع سپیرا ڈیم بھی پانی کی فراہمی کا ایک ایسا منصوبہ ہے جو کہ 1970سے 2005تک افغانستان کی سر حد سے منسلک خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ کو سیراب کرنے اور میٹھے پانی کے حصول کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔

    تاہم 2005 میں جب وہاں کالعدم تنظیموں نے اپنے نیٹ ورک کو پھیلانا اور بندوق کے زور پر قبضہ کرنا شروع کیا تو حکومتی عمل داری کمزور ہوتے ہی وہاں پہلے مرحلے میں کاروبار بند ہوئے اور پھر لوگوں کی نقل مکانی کے ساتھ ہی ان علاقوں میں دستیاب تمام وسائل بھی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہوگئے ۔

    سپیرا ڈیم پانچ سال تک بند رہا اور اس کے باعث اس ڈیم سے نکلنے والی پانی کی نہریں مٹی بھرجانے کے سبب بند ہوگئیں جس کا براہ راست اثر مقامی فصلوں کی تباہی اورمیٹھے پانی کی عدم دستیابی کی صورت پڑا۔ جب حکومت ِ پاکستان اور فوج نے ٹھان لی کہ اب دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری ہے تو اس بے حال علاقے میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جس کے ثمرات جہاں دیگر قبائلی علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں پر مرتب ہوئے ، وہی خیبر ایجنسی میں بھی زندگی معمول پر آناشروع ہوگئی ہے ۔

    آپریشن کے بعد بحالی کے مرحلے میں باڑہ بازار کھلنا شروع ہو گیا ہے اور نقل مکانی کرنے والے افراد پانچ سال بعد واپس لوٹ آئے ہیں۔ مقامی آبادی کے واپس آتے پانی کی فراہمی سمیت ان تمام منصوبوں کو بھی شروع کیا جارہاہے جو مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرسکیں۔

    spira-post-2

    سپیرا ڈیم سے پانی کی نکاسی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت دس کروڑ روپے خرچ کررہی ہے جس میں سپیرا ڈیم کی بحالی کے ساڑھے تین کروڑر وپے شامل ہیں لیکن ایک سال سے زائد مدت بعد بھی اس ڈیم کی مکمل بحالی ابھی ہونا باقی ہے ۔

    پولٹیکل ایجنٹ خیبر ایجنسی کے مطابق اس ڈیم سے پانی کی نکاسی سے 44,970ایکڑ زمین سیراب ہوگی اور پشاور تک کے علاقے کو میٹھا پانی دستیاب ہوگا ۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی سے آنے والا سیلابی پانی جب یہاں سے گزرے گا تو یہ ڈیم اس پانی کوبھی ذخیرہ کرسکے گا ۔

    سپیرا ڈیم کی بحالی کے لئےنہروں کی صفائی میں مزدورں کی ایک بڑی تعداد مصروفِ عمل ہے جس میں سے چار اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں ۔

    مقامی انتظامیہ کو امید ہے کہ رمضان سے قبل اس ڈیم کی مکمل بحالی ہوجائے گی اور جب یہ زمین آباد ہوگی تو ترقی اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے ۔

    مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم ان کے لئے سیاحت کا بھی ایک ذریعہ ہے کیونکہ جب گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگ اس ڈیم کے ٹھندے پانی میں نہانے کی غرض سے بڑی تعداد یہاں اکٹھے ہوتے ہیں جو ایک میلے کا منظر پیش کرتا ہے ۔

  • پی کے آٹھ: کس کی جیت کس کی ہار

    پی کے آٹھ: کس کی جیت کس کی ہار

    خیبر پختونخواہ اسمبلی کی پشاور کی دیہی علاقے کی نشست پی کے آٹھ پر انتخابی معرکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ارباب وسیم حیات کی غیر متوقع جیت کے غیر سرکاری اعلان سے اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ نشست مسلم لیگ ن کے ممبرصوبائی اسمبلی ارباب اکبر حیات کی اچانک فوتگی کے باعث خالی ہوئی تھی اوراس نشست پر جتینے والے ارباب وسیم ، ارباب اکبر حیات مرحوم کے بھائی ہیں۔

    پشاور کی گیارہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں یہ واحد تھی جو 2013کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 13528 ووٹ کے ساتھ جیتی تھی جبکہ 10458ووت کے ساتھ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان دوسری،9335ووٹ کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف تیسری اور 8324ووت کے ساتھ پیپلز پارٹی چھوتے نمبر پرتھی اور اس مرتبہ ضمنی انتخاباب میں مسلم لیگ ن نے 11781ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ 10789لے کر پیپلز پارٹی دوسرے، 9347ووٹ کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف تیسرے اور 9308ووٹون کے ساتھ جمعیت علماٗ اسلام چوتھی پوزیشن حاصل کی ۔

    یہ تقابلی جائزہ اس لئے ضروری تھا کہ قارئین اس حلقے کی حالیہ انتخابی تاریخ سے آگاہ ہوسکے لیکن ان سب سے ہٹ کر یہ الیکشن ایک ایسے وقت ہورہا تھا جب ملک میں پانامہ پیپرز کا چرچہ جاری ہے اور وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے منظر عام پر آنے پر اپوزیشن جماعتوں نے شاہی خاندان کے خلاف ایک مہم شروع کی ہوئی ہے جس میں وزیراعظم سے ایک مطالبہ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے ان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیات تک الگ ہوجائے ۔

    یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نے بھر پور کوشش کی وہ یہ نشست جیت کر ثابت کرسکے کہ عوام کی اکثریت اپوزیشن خصوصا تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی حکومت مخالف مہم پر کان نہں دھر رہے ۔ مسلم لیگ نے اپنی سیٹ پر جیت کو یقینی بنانے کی غرض سے اپنے اہم رہنما جن میں کچھ اعلیٰ منصب پر فائز تھے ان کو ذمہ داری سونپی ہوئی تھی ۔ اسکی ایک جھلک ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افیسر کے وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کی پی کے آٹھ میں انتخابات سے قبل سرگرمیوں کے نوٹس سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ ان پر اعتراض تھا کہ انہوں نے حلقے کے لئے بجلی کے منصوبوں اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 22گھنٹوں سے کم کرواکے چھ گھنٹے کروائے تھے ۔ اور جب الیکشن کے نتیجہ کا اعلان کیا جارہاتھا تو میڈیا کے نمائندوں کو ووٹوں کی تفصیلات گورنر ہاوس کے ترجمان کی جانب سے جاری کئے گئے ۔ کیونکہ گورنر ہاؤس میں موجود گورنر انجنئیر اقبال ظفر جھگڑا جو کہ مسلم لیگ نواز کے مرکزی جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں ۔ اس وقت زمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں ۔

    وفاقی حکومت کے لئے اس الیکشن کی جیت اس لئے بھی ضروری تھی کیونکہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور عمران خان اپنے جلسوں میں پنجاب اور وفاقی حکومت پر مختلف نوعیت کے الزام لگاکر یہ ثابت کرتے ہیں کہ دونوں حکومتوں عوام کا اعتماد کھو چکی ہے لیکن جب تحریک انصاف یہ الیکشن ہار جاتی ہے تو اسکے خلاف مسلم لیگ ن کو بھر پور مہم کا موقع مل جائے گا اور وہ ہی ہوا ۔جوہی الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور دیگر ہنماؤں نے دل بھر کر اپنی بھڑاس نکالنا شروع کردی ۔

    دوسری طرف تحریک انصاف جو پہلے ہی خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور کے ضنمی انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے ہاتھوں قومی اسمبلی کی نشست پر ہار کا کڑوا گھونٹ پی چکی تھی اس نشسست پر کامیابی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے چاہتی تھی جس کے لئے عمران خان نے اس حلقے میں انتخابات سے تین روز قبل جلسہ بھی کیا ، جس کا ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افیسر نے نوٹس بھی لیا اور بنوں میں بھی بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ لیکن یہ تمام کوششیں کامیاب نہ ہوسکی ۔ گوکہ تحریک انصاف کے اس حلقے میں ووٹ بنک پر اثر تو نہیں پڑا لیکن عمران خان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کا بغور جائزہ لے کیونکہ وہ جب بنوں میں عوام سے اپنی حکومت کی کارکردگی کی بابت سوال کررہے تھے تو وہاں ان کو تسلی بخش جواب نہ مل سکا جس کو انہوں نے خود بھی محسوس کیا ۔

    ان انتخابات میں حیران کن صورتحال اس وقت بھی دیکھنے کو ملی کہ جب پیپلز پارٹی کا امیدوار حلقے کے 98 میں 92نشستوں پر نشستوں پر برتری حاصل کئے ہوئے تھا اور جب رزلٹ سامنے آیا تو مسلم لیگ کا امیدوار کامیاب قرار پایا ۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا ٹویٹ بھی قابل غور ہے جس میں انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اپوزیشن کے احتجاج کے پس منظر میں انکی پارٹی کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت کس حد تک اس کامیابی کو اپنے خلاف مہم کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے ۔

  • بارڈر پر باڑ لگانے پر کشیدگی کے باعث پاک افغان سرحدگزشتہ دو روز سے بند

    بارڈر پر باڑ لگانے پر کشیدگی کے باعث پاک افغان سرحدگزشتہ دو روز سے بند

    لندی کوتل: طورخم سرحد پر بارڈر پر باڑ لگانے پر کشیدگی کے باعث پاک افغان سرحد گزشتہ دو روز سے بند ہے جسکے باعث ہزاروں کی تعداد میں مسافروں اور عام لوگوں کے ساتھ تجاری مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کی نقل و حرکت بند ہوگئی۔

    پاک افغان سرحد کی اچانک بندش اس وقت ہوئی پاک افغان بارڈر طورخم پر پاکستانے علاقے میں حکام حفاظتی باڑ لگانا شروع کی جسکو افغان حکام نے روک لیا ار اس دوراں عینی شاہدین کے مطابق دونوں جانب سے تلخ کلامی بھی دیکھنے کو ملی، اس واقع کے بعد سرحد کو بند کردیا گیا ۔

    3

    بارڈر کی بندش سے سرحد کی دونوں جانب ٹرالروں اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور ہر قسم کی آمد ورفت بند کردی گئی ہے جبکہ پاکستان آنے والے افراد دوردراز کا پہاڑی علاقہ استعمال کرکے داخل ہو رہے ہیں اب تک کے ہونے والے حکام کے مذکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔

    پاکستانی حکام نے موقف اختیار کیا ہے کہ افغان حکام تعمیر ہونے والی باڑ کی اجازت دیں تو سرحد کھول دی جائے گی جس کیلئے افغان حکام نے مہلت طلب کی جبکہ اب تک افغان حکام کی جانب سے باڑ کی تعمیر کے سلسلے میں مثبت جواب نہیں ملا جس کی وجہ سے پاک افغان بارڈر دو دن سے بند پڑا ہوا ہے۔

    1

    یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ پاکستان کی جانب سے طورخم سرحد کے زریعے دہشت گر د عناصر کی نقل و حرکت کے شوائد کئی بار افغان حکام کو پیش کئے گئے ہیں اور باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے تحقیقات کے حوالے سے افغان حکام کا اگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ دہشت گرد طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہوکر چارسدہ پہنچے تھے ۔

    2

    اس واقعے کے بعد پاکستان حکام نے نہ صرف طورخم سرحد کی نگرانی سخت کردی تھی بلکہ بغیر ویزہ داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی، زرائع کے مطابق پاک افغان سرحد کی بندش کا معاملہ اعلیٰ سطح پر زیربحث ہے اور امید کی جارہی ہے کہ بارڈر پر بھاڑ لگانے کا ایشو خوش اسلوبی سے حل کرلیا جائے گا۔

    4

    یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ افغان حکام پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت سرحد کو بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کرتے اور انکا موقٖف ہے کہ سرحد پر امدوورفت پر پابندی نہیں ہونی چاہیے ۔

  • خیبرپختونخواہ کے سرکاری اسکولوں میں بائیومیٹرک منصوبہ عملی اقدامات کا منتظر

    خیبرپختونخواہ کے سرکاری اسکولوں میں بائیومیٹرک منصوبہ عملی اقدامات کا منتظر

    پشاور: خیبرپختونخواہ حکومت کی جانب سے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کی غرض سے گزشتہ سال بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب کا اعلان کیا گیا تھا لیکن تاحال یہ اعلان شرمندہ تعبیر ہونا باقی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری کی بڑھتی ہوئی شکایات کے تناظر بائیومیٹرک سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    حکومت کی جانب سے مارچ 2015میں اعلان کیا تھا کہ بائیومیٹرک سسٹم سرکاری سکولوں میں نصب کیا جائے گا اوراس سلسلے کے پہلے مرحلے میں محکمہ تعلیم کے دفاتراور دوسرے مرحلے میں پشاور کے 35 سکولوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔

    peshawar-post-1

    اس حوالے سے بجٹ تخمینہ 270ملین روپے لگایا گیا تھا۔ محکمہ تعلیم کے زرائع کے مطابق بائیو میٹرک سسٹم کو سکول کی بجائے پہلے مرحلے میں محکمہ تعلیم کے 72دفاتر میں تنصیب کردیا گیا ہے جبکہ جن 35سکولوں کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں نیا تعلیمی سال شروع ہونے کے باوجود یہ نظام متعارف نہیں کیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے پشاورکے سکولوں کے بجٹ کا تخمینہ 55لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔

    محکمہ تعلیم کے اعدادوشمار کے مطابق پشاور میں مجموعی طور پر1385سکول ہیں جن میں پرائمری، مڈل، ہائی اور ہایئر سکنڈری شامل ہیں اور ان میں اساتذہ کی تعداد 9427ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں سکولوں کی تعداد 28000اور اساتذہ کی تعداد 168000ہے۔

    peshawar-post-2

    اس سے قبل خیبر پختوخواہ حکومت نے اپریل 2014میں انڈیپینڈنٹ مانیٹیرنگ یونٹ بھی برطانیہ حکومت کی 500ملین روپے کی امداد سے تین سال کی مدت کے لئے قائم کیا تھا اور اس کا مقصد جہاں سرکاری سکولوں میں بچوں کے داخلے اور نکلنے کے اعدادو شمار رکھنا تھا وہی اساتذہ کی حاضری اور بچوں کے پڑھانے کے معیار کی جانچ کرنا بھی تھا۔

    یہاں اس بات کو حوالہ دینا بھی ضروری ہے کہ پشاور یونیورسٹی نے ایک ماہ قبل بائیومیٹرک نظام کو عملی جامہ پہنادیا ہے اور یونیورسٹی ذرائع کے مطابق ابتدائی طورپران کے پاس 800اسٹاف ممبرکا ڈیٹا ریکارڈ ہوگیا ہے جبکہ اس کو دیگر فیکلٹیز تک بڑھایا جارہا ہے۔

    ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس سسٹم کے نفاز سے پونیورسٹی میں بروقت حاضری یقینی ہو رہی ہے اور جب یہ مکمل طور پر لاگو ہوجائے گا تو اس کو سٹاف کی تنخواہ سے بھی ملایا جائے گا اور جو سٹاف ممبر لیٹ ائے گا اس کی تنخواہ کاٹی جائے گی۔