Author: ضیاء الحق

  • وزیر اعلیٰ کے پی کا سرکاری اہلکار بن کر گھومنے والے مسلح افراد کی گرفتاری کا حکم

    وزیر اعلیٰ کے پی کا سرکاری اہلکار بن کر گھومنے والے مسلح افراد کی گرفتاری کا حکم

    پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے صوبے میں سرکاری اہلکار بن کر گھومنے والے مسلح افراد کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔

    وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کچھ مسلح لوگ سرکاری اور غیر سرکاری معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، ایپکس کمیٹی اجلاس میں واضح کہا تھا کہ کچھ مسلح لوگ سرکاری اہلکار بن کر گھوم رہے ہیں۔

    علی امین گنڈاپور نے کہا کہ صوبائی حکومت، پولیس اور عوام کو مسلح لوگوں پر تحفظات ہیں، پولیس کو حکم دیا ہے ایسے مسلح عناصر کو فوری گرفتار کرے۔

    انہوں نے کہا کہ پولیس کو حکم ہے ایکشن لے اور مسلح لوگوں کے ٹھکانے خالی کروائے، عوام سے میری اپیل ہے کہ وہ بھی ایسے عناصر کی نشاندہی کریں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج، پولیس اور عوام نے قربانیاں دی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بنوں معاملے پر مشران، پارٹی ذمہ داران اور دیگر تمام لوگوں کا مشکور ہوں، انتظامیہ کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کیا گیا۔

    علی امین گنڈاپور نے کہا کہ آج علاقے کے مشران نے معاملے پر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو کل مجھ سے مل کر معاملے پر بات کرے گی۔

    وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم عوامی لوگ ہیں اور عوام کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں، ہم نے ہمیشہ عوام کا ساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے، عوام کے تحفظات کو دور کریں گے اور ان کی توقعات پر پورا اتریں گے۔

  • طالبعلموں کو لانے کیلئے کے پی حکومت کی مفت ایئر سروس کرغزستان روانہ نہ ہوسکی

    طالبعلموں کو لانے کیلئے کے پی حکومت کی مفت ایئر سروس کرغزستان روانہ نہ ہوسکی

    پشاور : طالبعلموں کولانےکیلئےکےپی حکومت کی مفت ایئرسروس کرغزستان روانہ نہ ہوسکی ،جہازروانہ نہ ہونےکی وجہ کرغزسی اے اے سے کلیئرنس بتائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوکل پرسن و وزیراعلیٰ تعلیم کے پی میناخان کی جانب سے کہا گیا کہ طالبعلموں کو لانے کیلئے کے پی حکومت کی مفت ایئر سروس کرغزستان روانہ نہ ہوسکی، نجی ایئر لائن کمپنی اور سی اے اے کو ادائیگی کیلئے ڈی جی پی ڈی ایم اے کو فنڈزجاری ہوچکے ہیں۔

    میناخان کا کہنا تھا کہ 3 سوطالبعلموں نے بشکیک ایئرپورٹ سے آج صبح پشاور پہنچنا تھا لیکن طالبعلموں کو لانے کیلئے طیارے نے لاہورایئر پورٹ سے روانہ ہونا تھا۔

    وزیراعلیٰ تعلیم کے پی نے مزید کہا کہ جہازروانہ نہ ہونے کی وجہ کرغز سی اے اے سے کلیئرنس بتائی جارہی ہے تاہم نئےشیڈول کے مطابق جہاز آج صبح 10 بجے روانہ ہونےکی امید ہے۔

    یاد رہے خیبرپختونخوا حکومت نے پاکستانی طلبہ کی واپسی کیلئے چھے کروڑ روپے جاری کئے تھے، مشیرخزانہ مزمل اسلم نے کہا تھا کہ رقم دو جہازوں کیلئے جاری کی گئی ہے، مزید افراد کی رجسٹریشن کے بعد مزید رقم جاری کی جائے گی۔

    خیال رہے بشکک سے پاکستانی طلبہ کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ روز دو پروازوں کے ذریعہ تین سوسےزائد طالب علم بشکک سے لاہور اور اسلام آباد پہنچے،غیر ملکی ایئرلائن کی پروازوں کےذریعہ ایک سواسی مسافر لاہور اور ایک سو اناسی اسلام آباد پہنچے، بشکک سے اب تک چھ سو سےزائد طالب علم پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں۔

    کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ابھی بھی ہزاروں طلبہ ہیں، واپس آنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک حالات مکمل طور پر بہتر نہیں ہوئے۔

  • سیشن جج شاکر اللہ کیسے بازیاب ہوئے؟ آئی جی کے پی نے بتا دیا

    سیشن جج شاکر اللہ کیسے بازیاب ہوئے؟ آئی جی کے پی نے بتا دیا

    پشاور: آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات نے کہا ہے کہ سیشن جج شاکر اللہ کی بازیابی سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی سے ممکن ہوئی۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے انسپکٹرل جنرل اختر حیات نے بتایا کہ سیشن جج شاکر اللہ کے اغوا کے فوراً بعد کلاچی، ٹانک سمیت متعدد علاقوں میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔

    آئی جی کا کہنا تھا کہ سیشن جج کی منتقلی روکنے کے لیے مشتبہ علاقوں میں سیکیورٹی حصار قائم کر دیا گیا تھا، اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کارروائیوں کے دوران درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔

    ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاکراللہ مروت بازیاب

    آئی جی اختر حیات کے مطابق سیشن جج شاکراللہ محفوظ اور خیریت سے ہیں، اور ڈیرہ پولیس کی حفاظت میں ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/session-judge-shakirullah-marwat-video-message/

  • فیض آباد دھرنا، شہباز شریف نے کمیشن کو سوالات کے کیا جواب دیے؟ انکوائری رپورٹ اے آر وائی نیوز پر

    فیض آباد دھرنا، شہباز شریف نے کمیشن کو سوالات کے کیا جواب دیے؟ انکوائری رپورٹ اے آر وائی نیوز پر

    فیض آباد دھرنا کمیشن کی انکوائری رپورٹ اے آر وائی نیوز کو موصول ہو گئی ہے جس میں کمیشن کی جانب سے شہباز شریف سے 10 سوالات پوچھے گئے۔

    فیض آباد دھرنا کمیشن کی انکوائری رپورٹ اے آر وائی نیوز کو موصول ہو گئی ہے۔ 167 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کمیشن نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 10 سوالات پوچھے تھے جن کے انہوں نے جوابات بھی دیے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق کمیشن نے سوال کی اکہ آئی بی رپورٹ کے مطابق نفرت پر مبنی بیانات دیے گئے تو آپ نے کیا کارروائی کی؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ اس وقت پنجاب حکومت نے وزیر قانون کی سربراہی میں کابینہ سب کمیٹی بنائی تھی، اس کمیٹی میں اہم وزرا، چیف سیکریٹری، آئی جی، ہوم سیکرٹری کے علاوہ آئی ایس آئی، آئی بی، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی کے افسران شامل تھے۔ اس کمیٹی کا باقاعدہ اجلاس ہوتا تھا جس سے مجھے باخبر رکھا جاتا تھا۔

    کمیشن کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے نواز شریف کے خلاف نفرت  اور دھمکیوں سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹ سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

    شہباز شریف سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آئی بی رپورٹ کے مطابق ٹی ایل پی کی سرگرمیاں خلاف قانون تھیں۔ الیکشن کمیشن ایسی جماعت پر پابندی عائد کرسکتا ہے، تو اس حوالے سے آپ نے وفاق کو سفارش کی تھی؟

    ن لیگ کے صدر نے کہا کہ ایسی رپورٹ کا علم نہیں اور کسی بھی جماعت پر پابندی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔ رپورٹ کےمطابق ٹی ایل پی، ٹی وائی ایل آر اے کی قیادت کی جانب سے سوشل میڈیا پر دھمکایا جاتا تھا۔

    کمیشن نے سوال کیا تھا کہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کیوں کارروائی نہیں کی گئی؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ سوشل میڈیا پر دھمکیوں سے نمٹنے کیلیے پی ٹی اے اور پیمرا ہیں وہ اسکو دیکھتے ہیں جب کہ خطرات سے متعلق رپورٹ پر ایس او پی کے تحت سیکیورٹی دی جاتی ہے۔

    کیا آپ نے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کو اسلام آباد انتظامیہ سے تعاون نہ کرنے کاحکم دیا؟ کمیشن کے اس سوال پر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ انہوں نے ڈی سی، کمشنر، سی پی او، آرپی او کو اسلام آباد انتظامیہ سے تعاون کے احکامات دیے تھے۔

    شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم سیکریٹری نے بتایا طاقت کا استعمال دھرنے کے آغاز میں ہی ممکن تھا؟ 18 دن بعد دھرنا ہٹانا ممکن نہیں تھا، کیا یہ بیان راولپنڈی، اسلام آباد انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں؟

    شہباز شریف کا موقف تھا کہ سیکریٹری نے جو بیان دیا وہ ان کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔ پنجاب حکومت پر ذمے داریاں نہ نبھانے کا الزام غلط ہے۔

    کمیشن نے پوچھا کہ کیا پنجاب حکومت نے دھرنے سے طاقت کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا تھا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ حکومت دھرنے سے پُر امن طریقے سے نمٹنا چاہتی تھی۔

    فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے یہ بھی سوال پوچھا کہ کیا تحریک لبیک کے رہنماؤں پر کیسز ختم کر دیے گئے ہیں؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ وفاق اور دھرناعمائدین میں معاہدے کے تحت عمائدین کیخلاف کیسز ختم کیے گئے۔

    کمیشن نے کہا کہ آپ نے بطور وزیراعلیٰ سپریم کورٹ  فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے کیا کیا؟ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب حکومت 31 مئی 2018 تک رہی جبکہ کیس کا فیصلہ 6 فروری 2019 کو سنایا گیا۔

    واضح رہے کہ فیض آباد دھرنا 2017 میں اس وقت دیا گیا تھا جب کہ ملک میں ن لیگ کی حکومت تھی اور نواز شریف کی معزولی کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے۔

    اس معاملے پر سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن طویل انکوائری کے بعد گزشتہ دنوں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کلین چٹ دے چکا ہے۔

    پی ٹی آئی کا فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ

    دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

  • فیض آباد دھرنا : انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو کلین چٹ دے دی

    فیض آباد دھرنا : انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو کلین چٹ دے دی

    پشاور : فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کلین چٹ مل گئی۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ149 صفحات پر مشتمل ہے، فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قائم کیا گیا تھا، انکوائری کمیشن نے فیض آباد دھرنے سے جڑے محرکات کا بغور جائزہ لے کر سفارشات تیار کیں۔

    اسلام آباد پولیس، وزارت داخلہ، حکومت پنجاب،ای ایس ای،آئی بی کےکردارپرروشنی ڈالی گئی، رپورٹ میں اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد سے جڑے معاملات پر بھی تفصیل درج ہے۔

    رپورٹ کے مطابق فیض حمید نے بطور میجر جنرل ڈی جی (سی) آئی ایس آئی معاہدے پر دستخط کرنا تھے، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف نے فیض حمید کو معاہدے کی باقاعدہ اجازت دی تھی۔

    فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیض حمید کے دستخط پر وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر اعظم شاہد خاقان نے بھی اتفاق کیا تھا۔

    Faizabad

    نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے

    کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دی گئی سفارشات میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پرعمل درآمد یقینی بنانے پر زور دیا ہے، کمیشن کی سفارشات میں پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کمزوریوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

    حالات سے سبق سیکھنا ہوگا

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا،حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے، پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دی۔

    جڑواں شہروں کی پولیس میں رابطے کی فقدان کی وجہ سے متعدد ہلاکتیں اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے، وفاقی حکومت نے مظاہرین کی قیادت تک رسائی کے لیے آئی ایس آئی کی خدمات حاصل کیں،25نومبر2017کو ایجنسی تعاون سے معاہدہ ہوا جس پر مظاہرین منتشر ہوگئے۔

    سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں

    رپورٹ کے مطابق دھرنے کے دوران فوجی افسروں، نواز شریف اور وزراء کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں، سوشل میڈیا پروپیگنڈے کیخلاف حکومت نے ایکشن لینے میں کوتاہی برتی،
    فیض آباد دھرنے کے دوران شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔

    مداخلت سے ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے

    کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کی ملکی قیادت نے کسی ادارے یا اہلکار کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا، سویلین معاملے میں فوج یا ایجنسی مداخلت سے ادارے کی ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے، فوج کو تنقید سے بچنے کے لیے عوامی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔

    ریاست قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہ کرے

    عوامی معاملات کی ہینڈلنگ آئی بی اور سول ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے، حکومت پنجاب غافل اور کمزور رہی جس کے باعث خون خرابہ ہوا، عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کیلئے امن کو اسٹریٹجک مقصد بنانا ہوگا، ریاست آئین پرستی، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہ کرے۔

    پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے

    کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ اسلام آباد تعیناتی سے قبل پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے، امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے دیگر شعبوں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے، پُرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے زیرو ٹالرینس پالیسی لازمی ہے۔

     

  • گورنرہاؤس خیبرپختونخوا میں شادی کا فوٹوشوٹ، سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل

    گورنرہاؤس خیبرپختونخوا میں شادی کا فوٹوشوٹ، سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل

    صوبہ خیبرپختونخوا میں شادی کے فوٹو شوٹ کے لیے گورنر ہاؤس کو کرائے پر دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق گورنرہاؤس خیبرپختونخوا میں شادی کی فوٹو شوٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ ویڈیو میں نوبیاہتا جوڑا گورنر ہاؤس کے سبزہ زار میں فوٹ شوٹ کروا رہا ہے۔

    ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ گورنر ہاؤس میں شادی کے فوٹوشوٹ کیلئے 30 ہزا روپے میں بکنگ کی گئی۔

    اس حوالے سے ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ شہری بکنگ کرنے پر گورنر ہاؤس کے مخصوص حصےمیں فوٹوشوٹ کرتے ہیں۔

  • پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان میں جھڑپ، دیربالا میدان جنگ بن گیا

    پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان میں جھڑپ، دیربالا میدان جنگ بن گیا

    خیبرپختونخوا کا مقام دیربالا پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کی جھڑپ کے باعث میدان جنگ بن گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق دیربالا میں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان میں جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں گولیاں لگنے سے ایک پی ٹی آئی کارکن اور پولیس اہلکار زخمی ہوگیا۔

    زخمیوں کو دیر اسپتال منتقل کردیا گیا، ہنگامے کے باوجود پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن جاری رہا۔

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ضلع میں دفعہ ایک سوچوالیس نافذ ہے، ہرقسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔

    انتظامیہ کے مطابق داخلی اورخارجی راستوں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، کسی جلسے اور ریلی کی اجازت نہیں ہے۔

    دوسری جانب زخمی ہونے والے پی ٹی آئی کارکن نے بتایا پولیس نے سیدھی فائرنگ کی اسے تین گولیاں لگیں، پولیس کو فائرنگ کی اجازت کس نے دی تھی۔

  • نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان انتقال کرگئے

    نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان انتقال کرگئے

    پشاور : نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان انتقال کرگئے، انھیں گزشتہ رات طبیعت خراب ہونےپرنجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا،جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوااعظم خان انتقال کرگئے، اعظم خان کوگزشتہ رات معدے مین انفکیشن کے باعث طبیعت خراب ہونے پر نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔

    اسپتال کی انتظامیہ کے مطابق نگراں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا کو گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے پر اسپتال لایا گیا تھا۔

    خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ نمازجنازہ آج سہ پہرساڑھے3بجے چارسدہ میں ادا کی جائے گی، محمداعظم خان کی میت پشاور کے نجی اسپتال میں موجود ہے، کچھ دیربعدمیت کوآبائی علاقے پڑانگ چارسدہ منتقل کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں خیبر پختونخوا کی حکومت کے خاتمے کے بعد گورنر خیبرپختونخوا نے اعظم خان کو کے پی کا نگران وزیر اعلٰی تعینات کیا گیا تھا۔

    محمد اعظم خان نے رواں سال جنوری میں بطور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا حلف اٹھایا تھا، ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے اعظم خان نے سابق بیوروکریٹ اور خیبرپختونخوا میں چیف سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    لنکنز ان لندن سے فارغ التحصیل بیرسٹراعظم خان اس سے قبل دوہزار اٹھارہ میں نگراں وزیراعظم ناصر الملک کی کابینہ میں کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ اور وزیرداخلہ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

    اعظم خان اکتوبر دوہزار سات سے اپریل دوہزار آٹھ تک وزیراعلیٰ شمس الملک کی نگراں کابینہ میں وزیرداخلہ، منصوبہ بندی اور ترقیات رہے۔

    نگراں حکومتوں کا حصہ رہنے سے قبل وہ ستمبر انیس سو نوے سے جولائی انیس سو ترانوے تک چیف سیکریٹری رہے اور پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔

  • کےپی میں نگران کابینہ کے 20 وزرا مستعفی

    کےپی میں نگران کابینہ کے 20 وزرا مستعفی

    الیکشن کمیشن کی ہدایت پر کےپی میں نگران کابینہ کے20وزرا مستعفی ہو گئی۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 20 وزرا نے استعفے نگران وزیراعلیٰ کےپی کو بھجوا دیے ہیں۔

    مستعفی ارکان میں مسعود شاہ، عبد الحلیم قصوریہ، ارشاد قیصر، محمدعلی شاہ، ہدایت اللہ، سلمیٰ بیگم، ریاض انور، پیر ہارون شاہ، شیراز اکرم، ملک مہر الہی، حامد شاہ، بخت نواز، حاجی غفران، فضل الٰہی، تاج محمد ، حمایت اللہ، ظفر محمود اور رحمت سلام خٹک شامل ہیں۔

    ان وزرا کی سیاسی وابستگی سامنے آنے پر الیکشن کمیشن نے استعفےکی ہدایت کی تھی۔

  • خیبر : تھانہ علی مسجد کی حدود میں خود کش دھماکا، ایس ایچ او شہید

    خیبر : تھانہ علی مسجد کی حدود میں خود کش دھماکا، ایس ایچ او شہید

    پشاور : خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کے تھانہ علی مسجد کی حدود میں خودکش دھماکا ہوا ہے۔

    تھانہ علی مسجد کے ایس ایچ او گل ولی کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی شہید ہوگئے۔

    اب تک کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق واقعے کے فوری بعد سیکیورٹی فورسز ےے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا، ایک مشتبہ شخص کو تلاش کیا جارہا ہے، واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو ابتدائی طبی امداد کیلیے مقامی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکا خود کش تھا، خود کش حملہ آور نے نو تعمیر شدہ مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی اور جب پولیس نے اس کی تلاشی لینا شروع کی تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جبکہ دھماکے کی جگہ سے ایک مشکوک شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔

    دھماکے کے نتیجے میں مسجد کی زیر تعمیر عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا جبکہ اس کے ملبے تلے دبے سے متعدد افراد زخمی ہوگئے جنہیں بمشکل نکال کر اسپتال روانہ کیا گیا۔

    خودکش دھماکا

    پولیس کا کہنا ہے کہ مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے دو افراد تھے جس میں سے ایک نے خود کو اڑا لیا جبکہ دوسرے شخص کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں واقعے کی مزید تحقیقات مختلف زاویوں سے کی جارہی ہے۔

    سی سی پی او اشفاق انور نے میڈیا کو بتایا کہ شہید ہونے والے ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی نے مشکوک شخص کو روکا تو وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے بھاگا، حملہ آور نے مسجد کے اندر گھس کرخود کو دھماکے سے اڑا لیا اور اس کے تعاقب میں آنے والے ایڈیشنل ایس ایچ او نے شہید ہوگئے۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز پشاور عدنان طارق کے مطابق گزشتہ جمعرات کے روز بھی تحصیل کے دفتر میں دو خود کش بمباروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے تتیجے میں 3 جوان شہید ہوئے تھے۔