Author: ضیاء الحق

  • عمران خان نے پشاور میں قیام کرنے کی وجہ بتا دی

    عمران خان نے پشاور میں قیام کرنے کی وجہ بتا دی

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا ٹیم سے ملاقات میں پشاور قیام کی وجہ بتا دی ہے۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ حکومت بنی گالہ سیل کر کے مجھے نظر بند کرنا چاہتی ہے، حکومت کسی بھی طرح ہماری تحریک کو ناکام کرنا چاہتی ہے، مجھے نظر بند کرتے دیتے تو میری غیر موجودگی میں لانگ مارچ میں عوام کا حوصلہ کم پڑ سکتا تھا۔

    عمران خان نے کہا کہ آزادی مارچ میں خود میدان میں نہ ہوتا تو کارکنوں کا جوش کم ہوتا، 2014 کی غلطیوں کو دہرا نہیں سکتا تھا، ڈی چوک پہنچ جاتا تو خونی تصادم کا خطرہ بڑھ جاتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ مارچ ختم کرنے کا مقصد فورسز اور کارکنوں میں تصادم سے بچنا تھا، ہماری سیاسی تحریک پُر امن ہے، حکومت پر تشدد بنانا چاہتی ہے۔

    سابق وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم تشدد کی جانب آئیں لیکن ہمیں اس سے بچنا ہے، سپریم کورٹ فیصلے کے بعد قوم کو جلد نئی حکمت عملی سے آگاہ کروں گا۔

    عمران خان نے مزید کہا کہ کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ پُر امن رہیں۔

  • عمران خان  پشاور میں فوراہ چوک صدر بازار پہنچ گئے، شاندار استقبال

    عمران خان پشاور میں فوراہ چوک صدر بازار پہنچ گئے، شاندار استقبال

    پشاور: سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پشاور پہنچ گئے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پشاور میں فوارہ چوک صدر بازار پہنچے جہاں عوام کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

    اس موقع پر عمران خان کے ہمراہ وزیراعلیٰ کے پی محمود خان، مرادسعید ، پرویزخٹک، شہبازگل بھی موجود تھے۔

    عمران خان اور پی ٹی آئی رہنما عوام میں گھل مل گئے اور بازار میں موجود عوام نے عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ سیلیفاں بنوائیں۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بغیر پروٹوکول صدر بازار کا دورہ کیا۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا ‘لانگ مارچ’ ناکام بنانے کا منصوبہ ، تحریک انصاف نے بڑا اعلان کردیا

    واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کیخلاف اقدامات خوف کی علامت ہے، آزادی مارچ ہر صورت اسلام آباد پہنچے گا، یہ فاشسٹ حکومت ہے اپنا شوق پورا کرلے۔

    رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر25مئی کو پوراپاکستان اسلام آبادپہنچے گا، فوری انتخابات سیاسی اورمعاشی استحکام کیلئے ضروری ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے، اس حکومت کے اقدامات سے ان کی بوکھلاہٹ نظرآرہی ہے، یہ حکومت ملک میں امن نہیں چاہتی اور ملک کو خانہ جنگی کی طرف لیکر جارہی ہیں۔

  • پی ڈی ایم  اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

    پی ڈی ایم اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

    پشاور: وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے متعلق پی ڈی ایم کی گذشتہ روز بڑی بیٹھک ہوئی، جس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔

    ذرائع کے مطابق اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف عدم اعتماد کی تحریک کیلئے اصرار کرتے رہے اور تحریک کی کامیابی کیلئے شہباز شریف سے کردار ادا کرنے کا بھی کہتے رہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران نواز شریف مسلسل شہباز شریف کو عدم اعتماد کے حوالے سے احکامات جاری کرتے رہے تاہم آخری وقت تک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے کوئی ٹھوس بات نہ ہوسکی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے قائدین نواز شریف کی عدم اعتماد کی تجویز پر پریشان نظرآئے اور انہوں نے عدم اعتماد کے طریقہ کار پر حیرانی کا اظہار کیا، نواز شریف نے وقت آنے پر عدم اعتماد کا طریقہ کار واضح کرنے کی یقین دہانی کرائی، جس پر اتحادی پریشان رہے کہ عدم اعتماد حکومت پر کوئی نیا دباؤ لانےکی کوشش تو نہیں؟۔

    ذرائع نے بتایا کہ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئی حکومت کو 3 سے 4 ماہ کے اندر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے عمل کو ختم کرنے کا ٹاسک دینے پر اتفاق کیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان

    واضح رہے کہ لاہور: پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے گذشتہ روز حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔

    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک پوائنٹ پر رہتا ہوں اور آخر تک لڑتا ہوں، دو محاذوں پر جنگ لڑنا سیاسی طور پر درست نہیں ہے، مشترکات کے لیے بڑا دل رکھنا ہوتا ہے، حالات کا انتظار بھی کرنا پڑتا ہے، سیاسی لوگ ہیں اتفاق رائے اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھیں گے۔

    دوسری جانب شہباز شریف نے کہا کہ عوامی کی خواہشات سامنے رکھ کرعمران خان کیخلاف کوشش کریں گے، عوام دیکھ رہے ہیں کون بڑھےگا اور ظالم حکمرانوں سے جان چھڑائے گا۔

  • تحریک انصاف نے اے این پی کی بڑی وکٹ گرادی

    تحریک انصاف نے اے این پی کی بڑی وکٹ گرادی

    پشاور: بلور خاندان کے سیاسی وارث غضنفر بلور نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بلور خاندان کے سیاسی وارث غضنفر بلور تحریک انصاف میں شامل ہوگئے، وزیراعلیٰ کے پی محمود خان سے ملاقات میں غضنفر بلور نے عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، اس موقع پر تیمور سلیم جھگڑا اور کامران بنگش بھی موجود تھے۔

    غضنفر بلور اے این پی کے رہنما الیاس بلور کے صاحبزادے ہیں، وہ اے این پی رہنما بشیر بلور اور غلام بلور کے بھتیجے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ غضنفر بلور پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز کے سرکردہ رہنما بھی ہیں، وہ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رہ چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ 5 دہائیوں کی وابستگی میں بلور خاندان کے اہم فرد نے پہلی مرتبہ اے این پی چھوڑی ہے۔

    دوسری جانب اے این پی ذرائع کا کہنا ہے کہ غضنفر بلور غیرسیاسی شخصیت ہیں، وہ سیاست میں غیرفعال ہیں ان کے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔

    یاد رہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل اے این پی رہنما غضنفر بلور نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔

  • زعفران کی کاشت کا بڑا منصوبہ شروع

    زعفران کی کاشت کا بڑا منصوبہ شروع

    چترال: زیتون کے بعد خیبر پختون خوا میں زعفران کی کاشت کا منصوبہ بھی شروع ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ زراعت کا کہنا ہے کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں 9 لاکھ ایکڑ زمین پر زعفران کی کاشت سے 1 ہزار ارب آمدن ہو سکتی ہے، جب کہ چترال زعفران کی کاشت کی انتہائی استعداد رکھتی ہے۔

    پہاڑوں، چشموں، سرسبز علاقوں، معدنیات اور مہمان نوازی میں مقبول پاکستان کی جنت نظیر وادی چترال کسی تعارف کی محتاج نہیں، ایک طرف اگر مشہور مقامات میں تیریچ میر، چترال میوزیم، شاہی مسجد، شاہی قلعہ، گرم چشمہ، وادئ ایون، شندور پولو گراؤنڈ، وادئ کالاش، کوہِ غازی اور گولین شامل ہیں، تو دوسری جانب چترال وادی کی سرسبز زمین اپنے اندر دنیا کے خزانے سموئے بیٹھی ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان کے وژن کے مطابق خیبر پختون خوا حکومت نے ایک ارب روپے مالیت کے منصوبے کے تحت صوبے میں زیتون کے درخت چترال سے ڈیرہ غازی خان تک لگانے کا اعلان کیا تھا، جس سے صوبے کو اربوں روپے کے محاصل میسر آئیں گے۔

    اس اقدام کو آگے بڑھاتے ہوئے گورنر خیبر پختون خواہ شاہ فرمان نے حالیہ دورۂ چترال پر زعفران کی کاشت کے منصوبے کا افتتاح کیا، جس سے چترال سمیت صوبے بھر میں 9 لاکھ ایکڑ زمین پر زعفران کی کاشت سے، 1 ہزار ارب آمدن ہو سکتی ہے۔

    گورنر نے دروش میں مقامی سطح پر کاشت زعفران کی فصل کا معائنہ بھی کیا اور کہا کہ چترال موسمیاتی اعتبار سے زعفران کی کاشت کے لیے جنت سے کم نہیں، زعفران سب سے قیمتی فصل ہے جو اللہ کی طرف سے ہمارے لیے تحفہ ہے۔

    گورنر نے مزید کہا کہ چترال میں زعفران کی پیداوار انتہائی آسان ہے، صرف مؤثر آگاہی کی ضرورت ہے، جس سے چترال کے عوام کی ترقی و خوش حالی وابستہ ہے۔

    گورنر نے کہا کہ چترال کے عوام اور کاروباری حضرات کو زعفران کے تخم سے لے کر پیداوار کو عالمی مارکیٹ تک لے جانے میں حکومت تعاون کرے گی۔

    محکمۂ زراعت کے مطابق زعفران کے گٹھے (بلب) وافر مقدار میں دستیاب ہیں، جس سے وافر مقدار میں کاشت کر کے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

    زعفران کی کاشت پہاڑی علاقوں میں 14 اگست سے لے کر اور میدانی علاقوں میں 30 ستمبر کے بعد شروع ہوتی ہے، صوبے کے دیگر اضلاع سوات، دیر، اورکزئی، باجوڑ، کرم اور خیبر بھی زعفران کی کاشت کی انتہائی استعداد رکھتے ہیں۔

  • خیبرپختون خواہ، ویکسین نہ لگوانے پر متعدد شہری گرفتار

    خیبرپختون خواہ، ویکسین نہ لگوانے پر متعدد شہری گرفتار

    پشاور: خیبرپختون خواہ میں کرونا ویکسین نہ لگوانے والے  اور ایس او پیز کی کی خلاف ورزی پر درجنوں شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کرونا سے بچاؤ اور اس کے سدباب کے لے خیبرپختون خواہ کے مختلف اضلاع میں این سی اوسی احکامات پر عمل درآمد کے لیے مقامی انتظامیہ نے ایکشن کیا۔

    ضلعی انتظامیہ نے پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مردان، سوات،  ایبٹ آباداورڈی آئی خان میں ایس او پیز اور ویکسی نیشن عمل درآمد کے حوالے سے اقدامات کیے۔

    انتظامیہ نے حساس اضلاع میں میگامارکیٹس، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، بازاروں،دکانوں کا جائزہ لیا اور ایس او پیز کی خلاف ورزی پر متعدد شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ انتظامیہ نے درجنوں شہریوں پر جرمانے بھی عائد کیے۔

    علاوہ ازیں چار سدہ، پشاور، کوہاٹ کے بس اڈوں اور بازاروں میں موجود عوام کے کرونا ویکسی نیشن سرٹیفیکٹ چیک کیے گیے۔

    چارسدہ میں ویکسین نہ لگوانےوالے10دکانداروں کو گرفتار، نوشہرہ میں کرونا ویکسی نیشن نہ کرانے پر 2 شادی ہالز، 2ریسٹورنٹس کو سیل اور مردان میں خلاف ورزی پر5افرادگرفتار کیا گیا جبکہ 18دکانوں اور ایک ہوٹل کو سیل کر کے مالکان پر جرمانے عائد کیے گئے۔

  • کابل سمیت تین شہروں میں بم حملہ، متعدد افراد ہلاک

    کابل سمیت تین شہروں میں بم حملہ، متعدد افراد ہلاک

    کابل : افغانستان کے تین شہر زور دار دھماکوں سے لرز اٹھے، بم دھماکوں کے باعث 21 شہری لقمہ اجل بنے۔

    افغان خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان کے دارالحکومت کابل سمیت تین شہریوں میں خوفناک دھماکے ہوئے ہیں۔

    افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ افغان شہر ننگرہاد میں چار دھماکے ہوئے جس میں طالبان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جب کہ کابل میں بھی دو آئی ای ڈی دھماکے ہوئے جس سے متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں 21 افغان شہری ہلاک جبکہ متعدد شہریوں کے زخمی ہوئے ہیں۔

    خیال رہے کہ افغانستان میں 29 اگست کو امریکا کے ڈرون حملوں میں بھی تین بچوں سمیت 12 شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

  • طالبان حکومت نے لڑکےاور لڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم  پر پابندی لگادی

    طالبان حکومت نے لڑکےاور لڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم پر پابندی لگادی

    کابل: طالبان نے افغانستان میں مخلوط تعلیمی نظام پر پابندی عائد کردی ہے۔

    کابل میں اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں افغان وزیرتعلیم عبدالباقی حقانی نے کہا کہ طالبان حکومت نے لڑکےاورلڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم پرپابندی لگادی ہے، افغانستان میں اسلامی نظام کےعلاوہ کوئی نظام نہیں چل سکتا۔

    عبدالباقی حقانی نے کہا کہ مخلوط تعلیم کےخاتمےکےلیےمختلف جامعات سے بات ہوئی، کوئی ادارہ فوری الگ الگ عمارت تعمیر کرسکتاہےتوکرے،اگرمجبوری ہوتو درمیان میں پردے کا بندو بست کریں، یا پھر لڑکوں اورلڑکیوں کی تعلیم کےاوقات الگ الگ رکھے۔

    افغان وزیر تعلیم کا مزید کہنا تھا کہ طالبان ایک جانب تو اسلامی، قومی اور ہماری تاریخی اقداروروایات کے مطابق ایک معقول اسلامی نصاب وضع کرنا چاہتے ہیں اوردوسری جانب ایسا نصاب بھی چاہتے ہیں کہ اس سے دوسرے ممالک کا مقابلہ کیا جاسکے۔

  • خواتین کو شرعی قوانین کے ساتھ عہدے دیں گے، ذبیح اللہ مجاہد

    خواتین کو شرعی قوانین کے ساتھ عہدے دیں گے، ذبیح اللہ مجاہد

    کابل : ترجمان امارات اسلامیہ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ سرکاری دفاترفعال ہوگئے ہیں، خواتین کو شرعی قوانین کے احترام کے ساتھ انتظامی عہدے دیں گے۔

    کابل میں اے آر وائی نیوز کے نمائندے ضیاء الحق سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان کی نئی حکومت سے متعلق اہم تفصیلات بیان کیں۔

    انہوں نے کہا کہ ملک میں تمام سرکاری دفاتر فعال ہوگئے اور متعلقہ افسران نے جانا شروع کردیا ہے اس کے علاوہ تمام وزراء بھی اپنے دفاتر میں بیٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ یہ عبوری حکومت ہے اور ابھی آغاز ہے, افغانستان مشکل صورتحال سے دوچار ہے لہٰذا ہماری پوری کوشش ہوگی دنیا ہمیں تسلیم کرلے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم خواتین کو شرعی قوانین کے احترام کے ساتھ حکومتی عہدے دیں گے، خواتین حکومت کا حصہ بن سکتی ہیں لیکن یہ دوسرا مرحلہ ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ وزرات خارجہ فعال ہوگئی ہے، ہم دنیا سے تعلقات رکھیں گے، امریکا سمیت دیگر ممالک ہمیں تسلیم کریں اس پرکام کررہے ہیں، اگر کسی ملک کو ہم سے تشویش ہے تو اسے سیاسی طور پر حل کریں گے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان حکومت کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، پاکستان نے ہمارے لیے امداد بھیجی اس پر پاکستان کے شکرگزار ہیں۔

  • افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    کابل شہر خصوصاً اور افغانستان مجموعی طور پر افراتفری، انتشار، عدم تحفّظ، اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار نظر آرہا ہے جس کی وجہ طالبان کا برق رفتاری کے ساتھ صوبائی دارالحکومتوں کے بعد دارالخلافہ پر قبضہ ہے جب کہ دوسری طرف افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی جو قوم کو یہ یقین دلاتے رہے کہ طالبان اقتدار پر قابض نہیں ہوں گے، وہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ دوسری طرف کسی بھی ملک کے استحکام کی ضمانت سمجھے جانے والی قوّت اس کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو مسلح طالبان کے سامنے نہیں‌ ٹھہر سکے اور گویا ڈھیر ہوگئے۔

    افغانستان میں فوج کی پسپائی اور وجوہات
    تقریباً دو ماہ قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بہت پر اعتماد انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں جن کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے، کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف تعداد میں لگ بھگ ستّر ہزار طالبان کی پیش قدمی کو روک کر ان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیں گے بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور حکومت کا دفاع بھی کریں گے۔ ان کا دعویٰ‌ تھا کہ امریکہ کے پندرہ ہزار کے قریب ٹرینروں نے انھیں تربیت دے کر جدید اسلحہ سے لیس کیا ہے جب کہ امریکہ کے ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کی رپورٹ کے مطابق افغان ارمی پر گزشتہ بیس سال میں 80 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے ہیں، لیکن صورتِ حال دنیا کے سامنے ہے۔ جونہی امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا مکمل ہوا افغانستان کی فوج اور دیگر اداروں کے اہلکار تتر بتر ہوگئے اور وہ اسلحہ جو ان کو طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے ملا تھا، اسی اسلحہ سمیت طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق افغان آرمی کی پسپائی کی بڑی وجہ لسانی، قومیت اور قبائل کی بنیاد پر تقسیم، بڑھتی ہوئی کرپشن، افسروں اور ماتحت میں عدم اعتماد اور بدترین بد انتظامی ہے اور اس کے علاوہ افغان فوج کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ امریکہ ان کو یوں چھوڑ کر ملک سے نکل جائے گا جس کا طالبان نے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں زیر کرلیا۔

    افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا فرار اور اس کے اثرات
    ڈاکٹر اشرف غنی جو افغانستان کے 2014 کے متنازع انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے اس سے قبل ورلڈ بنک سے منسلک رہے اور ایک کتاب انگریزی زبان میں بھی تحریر کرچکے ہیں جس کا عنوان تھا، ناکام ریاستوں کی تعمیرِ نو (ری کنسٹرکشن آف فیلڈ اسٹیٹ) لیکن جب ان کو خود ایک تباہ حال افغانستان دیا گیا تو سیاسی، قبائلی، لسانی اور قومیتی تقسیم کو بڑھاوا ملا اور یہی وجہ کہ امریکہ کو بار بار ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کے مابین تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑتی جب کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے قریبی حلقوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو بیرونِ ملک مقیم تھے اور ان کو ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر ان کی معاونت کے لیے آئے تھے جس کے باعث ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے اتحادی افغان قیادت عدم اعتماد کا شکار رہے جس کے اثرات اس وقت سامنے ائے جب امریکہ نے افغان حکومت کی بجائے طالبان سے مذاکرات کر کے دوحا معاہدہ قلمبند کیا اور پھر اپنی واپسی کے اعلان پر عملدرامد شروع کردیا۔

    تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ اشرف غنی کی اپنی حکومت پر رٹ کمزور تھی اس لیے طالبان نے جب امسال مئی میں پیش قدمی شروع کی تو ان کو سخت مزاحمت کا سامنا پیش نہیں ایا اور طالبان نے مختصر وقت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور اشرف غنی کو اپنے کابینہ کے ساتھیوں کو چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور یہی وہ لمحہ تھا جب افغان قوم صدمے میں چلی گئی اور وہ طالبان جن کے بارے میں ان کو یقین تھا کہ افغان ارمی ان کو شکست دے دی گی لیکن اب وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ طالبان کو ایک سیاسی طاقت پر قبول کریں بلکہ اگر ان کی حکومت پر بنتی ہے اس کو تسلیم کرنے کو بھی تیار ہیں۔

    طالبان کا کابل پر قبضہ اور زمینی حقائق
    پندرہ اگست سے قبل کابل میں حالات معمول پر تھے۔ افغان پولیس تھانوں میں موجود تھی، بازار دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ لڑکیاں اسکول جارہی تھیں اور خواتین اپنے روزمرہ کی سرگرمیوں میں مشغول تھیں لیکن جونہی طالبان کابل گیٹ پر قریب پہنچے تو ایک افراتفری پھیل گئی اور اس افراتفری کو روکنے کے لیے طالبان نے اعلان کیا وہ جنگ کی بجائے پرامن طریقے سے دارالحکومت میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پھر یہی ہوا کہ جونہی ڈاکٹر اشرف غنی ایوان صدر کو چھوڑ کر روانہ ہوئے تو طالبان نے صدارتی محل پر بغیر کسی مزاحمت کے کنٹرول سنبھالا تو افغان عوام میں جنگ کا خوف تو ختم ہوا لیکن اس دوران افغان پولیس اور افغان ارمی منظر نامے سے اچانک غائب ہوگئی اور شہر میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بے پناہ قیمتی گاڑیاں کو چھینا گیا جب کہ ڈکیتی کی وارداتیں بھی سامنے ائیں اور یہی وجہ تھی کہ کابل کے بازاروں اور دفاتر کو بند کردیا گیا جب کہ مقامی ابادی گھروں میں محصور ہوگئی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق طالبان نے سرکاری گاڑیاں قبضہ میں لے کر گشت شروع کردی ہے اور ان کو یقین ہے کہ طالبان حالات پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔

    کابل ایئر پورٹ پر دھاوا
    جب کابل پر طالبان نے قبضہ حاصل کرلیا تو افغانستان سے فرار ہونے والا پہلا شخص افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی تھا اور یہی وجہ تھی کہ ملک میں افراتفری کی فضا پیدا ہوگئی اور اس دوران مقامی افراد کے مطابق جب یہ افواہ پھیلا ئی گئی کہ امریکہ اور کینیڈا سے جہاز کابل پر اترے ہیں اور جو افغان پاسپورٹ رکھتا ہے اس کو بغیر ویزے کے لے جائیں گے تو کابل میں موجود افغان عوام نے ایئر پورٹ پر دھاوا بول دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ کے وہ فوجی جو افغانستان میں افغان عوام کے دفاع کے لیے ائے تھے اور جب وہ ان کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جانے لگے تو اپنے فوجی جہاز کو اڑانے پر افغانوں پر فائرنگ کرنی پڑی جس کے نتیجے پانچ افراد جاں بحق ہوگئے۔

    طالبان کا قبضہ اور مسقبل کے حالات
    افغان طالبان نے اپنی بیس سالہ جدو جہد کا ثمر افغانستان پر قبضہ کرکے حاصل تو کر لیا ہے لیکن اب ان کی بڑی ازمائش افغان قوم کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کا بڑا مسئلہ بدامنی، خراب معیشت، کرپشن اور سیاسی کشیدگی ہے اور اگر طالبان نے ان مسائل پر دیگر افغان قیادت کے ساتھ مل کر ان کو حل کرلیا تو افغانستان استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں دہشت گرد تنظیموں کو بھی افغانستان کی زمین استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور خواتین کے حوالے سے تحفظات ختم ہوں گے لیکن اگر طالبان نے اقتدار کو اپنے تک محدود رکھا تو سیاسی و عسکری کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور وہ نقل مکانی جو اب کابل تک محدود ہے ہمسایہ ملکوں تک پھیل سکتی ہے۔