پشاور: سنہ 2005 کے زلزلے سے متاثر ہونے والا گاؤں آج بھی پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے ، مکین روزانہ اٹھارہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پانی لاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق زلزلے کے سبب بٹ گرام کےمختلف دیہاتوں میں پانی کی سطح نیچے ہوگئی تھی ، جن میں کولائی، چینام، چلونی ، شابورا اور سانگوڑے شامل ہیں، کل ملا کر دوسو سے زائد گھر قلتِآب کا شکار ہیں۔
کولائی نامی گاؤں کا باشندہ عبدالفراض، دیگر گاوں والوں سمیت پانی کی تلاش کے لیے روزانہ 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دور دراز علاقوں سے پینے کا پانی گدھوں اور خچروں پر لاد کر شام کو واپس لوٹتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عوامی نمائندوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے منہ موڑ لیا ہے اور قلت آب کے سبب گاؤں کا مستقبل تاریک تر ہوتا جا رہا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ گاؤں والوں نے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے چندہ بھی کیا لیکن غریب گاؤں والے اتنی رقم اکھٹی نہ کرسکے کہ جدید مشینری خرید لی جاتی۔اس سلسلے میں کولائی کے پانی سے محروم عوام نے روڈ بند کر کے احتجاج بھی کیا تھا۔
مظاہرین نے بینرز اٹھائے ایم این اے، ایم پی اے اور لوکل گورنمنٹ سے پانی کی فراہمی کا مطالبہ کیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان سے اس معاملے کا ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہےاور جلد از جلد گاوں میں سرکاری واٹر سپلائی اسکیمیں شروع کا مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش اور تباہ کن زلزلہ 8 اکتوبر 2005 کو آیا تھا جب آزاد کشمیر، اسلام آباد،بٹ گرام، ایبٹ آباد اورخیبر پختونخواہ کے بالائی علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدت7.6 اور 7.8کے درمیان رہی تھی اورمتاثرہ علاقوں میں سے بہت سے علاقوں کے عوام آج بھی زلزلے کے بعد پیدا ہونےو الے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ بہت سے علاقوں میں بحالی کا عمل بھی تاحال مکمل نہیں ہوسکا ہے۔