عظیم پریم راگی گزرے وقتوں میں قوّالی کا ایک بڑا نام رہا ہے۔ انھیں ’’پریم راگی‘‘ کا لقب خواجہ حسن نظامی نے عطا کیا تھا جو ایک انشا پرداز اور ادیب ہی نہیں خانقاہی سلسلے کی ایک شخصیت تھے۔ عظیم صاحب قوّال اسی وقت سے ’’عظیم پریم راگی‘‘ مشہور ہوئے۔ شاعر بھی تھے اور کئی زبانوں پر عبور بھی حاصل تھا۔ تقسیمِ ہند سے پہلے اُن کی قوّالیاں ہر خاص و عام میں مقبول تھیں اور ان کی محافل میں مشاہیر بھی شرکت کرتے تھے۔
معروف ادیب اور مترجم رشید بٹ کے ایک مضمون سے ہم عظیم پریم راگی اور استاد فیاض خاں کا ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔
ہمیں عظیم پریم راگی کا نام درگاہ اجمیر شریف میں یوں جَڑا مِلتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ عظیم پریم راگی عارفانہ کلام خود ہی کہتے، دوسرے صوفی شعرا کے کلام میں جوڑتے اور پھر ساز و آواز کے ساتھ خواجہ کی نذر کر دیتے۔ ہوتے ہوتے یہ کلام سارے ہی خواجگانِ برِّصغیر کی درگاہوں اور مزاروں سے ہوتا ہوا اُن کی روحوں تک جا پہنچا۔ اجمیر شریف بنیادی طور پر پہاڑی علاقہ ہے جہاں بلا تخصیص، مسلمان درویشوں اور ہندو سادھوؤں نے، درگاہِ خواجہ اجمیر کے آس پاس ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عظیم پریم راگی جب بھی دربارِ خواجہ اجمیر میں چوکی بھرتے، وہ درویش اور سادھو انہیں سننے کے لیے جوق در جوق چلے آتے تھے۔
عظیم پریم راگی چوں کہ خود بھی شاعری کرتے تھے لہٰذا، کبھی کبھی دل چسپ صورتِ حال بھی پیدا ہو جاتی تھی۔ ایک بار استاد فیاض خان اور عظیم پریم راگی ریاست جونا گڑھ گئے ہوئے تھے۔ دونوں میں سینئر، جونیئر ہونے کے باوجود گاڑھی چھنتی تھی۔ ریاست کے دیوان (وزیرِاعظم) کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے دونوں کو اپنے ہاں مدعو کرلیا۔ تقریبِ موسیقی کا آغاز ہوا تو استاد فیاض خان نے موقع محل کی مناسبت سے اپنا پسندیدہ راگ درباری چھیڑ دیا۔ کچھ وقت گزرا تھا کہ شاہی خانوادے کے رکن ایک مہمان کسمسانے لگے اور پھر اُنہوں نے غزل کی فرمائش کر دی۔ اِس پر استاد فیاض خان بھنّا گئے۔ راگ روک کے سامان سمیٹا، اُٹھے اور عظیم پریم راگی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے۔
’’مجھے تو معاف ہی رکھو۔ میں جا رہا ہوں، غزل وزل سننا ہو تو یہ بیٹھا ہے۔ اِس کو شعر و شاعری کا شوق ہے اور گاتا بھی ہے۔‘‘