سپریم کورٹ کی جانب سے زیادہ تر سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کو ختم کرنے پر رضامندی کے ایک دن بعد پیر کو بنگلا دیش کے دارالحکومت میں سڑکوں پر حالات پرسکون دکھائی دیے۔
رائٹرز کے مطابق بنگلا دیش میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملازمتوں کا کوٹہ ختم کرنے کے بعد احتجاجی مظاہرے تھم گئے ہیں۔ حکومت کے کوٹہ فیصلے پر طلباء کی قیادت والے کارکن مشتعل ہو گئے تھے اور مہلک مظاہروں کا باعث بنے تھے۔
اتوار کو مظاہرین کی جانب سے بنگلا دیش کی حکومت کو نئے مطالبات کے سلسلے کو پورا کرنے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت دیا ہے جس میں تشدد کے لیے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جانب سے عوامی معافی، اور بدامنی کے دوران متاثر ہونے والے انٹرنیٹ کنکشن کی بحالی شامل ہے۔
پیر کے روز، زیادہ تر شہروں میں کرفیو کی پابندی نظر آئی اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ رکُ ہوا نظر آیا۔ حکام نے بتایا کہ پیر کو ملک بھر میں تشدد یا مظاہروں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
بنگلادیش میں ایک ہفتے سے جاری ملک گیر احتجاج میں مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں اموات کی تعداد ایک سو اکیاون ہوگئی ہے جب کہ سیکڑوں زخمی ہیں۔ اسپتالوں کی معلومات کے مطابق تشدد میں کم از کم 147 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق گزشتہ دو دنوں میں اعلان کردہ عام تعطیل کو منگل تک بڑھا دیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’ایک یا دو دن میں صورتحال معمول پر آجائے گی۔
ماہرین نے اس بدامنی کا ذمہ دار نجی شعبے میں ملازمتوں کے جمود میں اضافے اور نوجوانوں کی بے روزگاری کی بلند شرح کو قرار دیا ہے جس نے سرکاری ملازمتوں کو، ان کی اجرتوں میں باقاعدہ اضافے اور دیگر مراعات کے ساتھ، زیادہ پرکشش بنا دیا ہے۔