بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد سرکاری بینک کے ملازمین نے تمام ڈپٹی گورنروں سے جبری استعفے لے لیے ہیں۔
بنگلہ دیش میں مطلق العنان حکمرانی کی مثال حسینہ واجد کے 16 سالہ اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک میں ان کے حمایتیوں کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے جن میں سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات افراد بھی ہیں جو نہ صرف بنگلہ عوام بلکہ ان اداروں کے ملازمین کے لیے ناپسندیدہ ہو چکے ہیں۔
ڈھاکا ٹریبیون کے مطابق بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کے تعینات کردہ افسران سے ناپسندیدگی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ان سے استعفے دے کر گھر جانے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے ملازمین نے چاروں ڈپٹی گورنرز سے استعفے لے لیے ہیں اور اس کا آغاز ڈپٹی گورنر قاضی سید الرحمان کے استعفے سے ہوا ہے۔
ملازمین کے دباؤ پر پہلے ڈپٹی گورنر قاضی سید الرحمان نے استعفیٰ دیا جس کے بعد مشتعل ہجوم نے دیگر ڈپٹی گورنروں نورون نہار، محمد خورشید عالم، محمد حبیب الرحمان سے خالی کاغذوں پر دستخط لے لیے ہیں۔
مظاہرین نے بینک کے مشیر ابو فرح ناصر اور بنگلہ دیش فنانشل انٹیلی جنس یونٹ کے سربراہ مسعود بسواس سے بھی استعفا مانگ لیا ہے۔
دوسری جانب سرکاری بینک کے افسران اور ملازمین نے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذاکر حسین چوہدری کو بینک کا ذمے دار افسر نامزد کرتے ہوئے صرف انہی کے احکامات ماننے کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد سے مرکزی بینک کے صدر عبدالرؤف تاحال بینک واپس نہیں آئے ہیں۔
ادھر اطلاعات کے مطابق احتجاج کرنے والے طلبہ نے چیف جسٹس سمیت تمام فاشسٹ ججوں سے بھی آج دوپہر تک مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/sheikh-hasina-wazed-last-moments-before-escaping-bangladesh/