مدین: مشتعل ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے مبینہ ملزم کے قتل کا مقدمہ درج

مدین

سوات : مدین میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے مبینہ ملزم کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے مبینہ ملزم کے قتل کے بعد فضا کشیدہ رہی۔

پولیس نے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے مبینہ ملزم کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ ہجوم کے خلاف تھانے پر حملہ کرنے، توڑپھوڑ، جلاؤگھیراؤ اور دہشت گردی کی دفعات کےتحت دو مقدمے درج کئے گئے۔

درج ہونے والے ایف آئی آر میں جلاؤ گھیراؤ کرنے والے 2000 مظاہرہن کے خلاف مقدمہ درج کیا اور اس کو سیل کردیا گیا ہے، شواہد مکمل ہونے پر ان افراد کے خلاف کارrوائی کی جائے گی۔

مدین سانحہ کے تیسرے روز بھی پولیس تحقیقات کررہی ہے تاہم اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

ڈی آئی جی ملاکنڈ محمد علی خان گنڈاپور کے مطابق علاقوں میں حالات کنٹرول میں ہے اور پولیس اپنا کام کر رہی ہے اور واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔

دوسری جانب سیاحتی علاقوں سے سیاحوں کی واپسی جاری ہے اور سیاحتی علاقے سنسان پڑ گئے ہیں، پولیس نے مظاہرین کی نشاہدہی کیلیے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی ہے جو جدید خطوط پر تفتیش کر رہی ہے۔

یاد رہے سوات میں مبینہ توہین مذہب پر پولیس نےسیاح کو گرفتار کیا تھا، جس کےبعدمشتعل افراد نے تھانے کو آگ لگادی اور گرفتارسیاح کو باہرنکال کرجلا دیا تھا۔

علمائے کرام نے سوات واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی شخص ایسا کرتا ہے یا توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو ریاست، ادارے اور عدلیہ کس لیے ہیں؟

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹرراغب حسین نعیمی نے کہا اسلام کسی کوبھی خود سزا دینے کاقطعاًاجازت نہیں دیتا، مذہب کی توہین کاالزام ثابت ہوتاہےتوسزاکابھی باقاعدہ طریقہ کارموجود ہے۔

مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، جن کی روک تھام ضروری ہے جبکہ علامہ سجاد تنولی نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینےکی اجازت آئین دیتاہے اور نہ ہی شریعت، بہت دلسوز واقعہ ہے۔