Category: سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق تازہ ترین خبریں اور معلومات

SCIENCE AND TECHNOLOGY NEWS IN URDU

  • حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں نصب یہ نظام گلیشیئرز کے پگھلنے کی صورت میں سیلابوں سے قبل از وقت آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریباً 5000 گلیشیئرز موجود ہیں اور یہ 15 ہزار اسکوئر کلومیٹر کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم سائنسدانوں کے مطابق درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    gl-3

    محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق صرف پچھلے عشرے میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں 23 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ پوری دنیا کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔

    گذشتہ ماہ وفاقی حکومت نے مشاہداتی نظام (مانیٹرنگ سسٹم) کو وسعت دینے کے لیے 892.5 ملین روپے کی منظوری دی تھی۔

    اس 4 سالہ منصوبے کے ذریعہ وہاں کے درجہ حرارت، نمی، بارشوں کے موسم میں تبدیلی اور ہوا کی رفتار کے بارے میں زیادہ درست معلومات حاصل کی جاسکیں گی تاکہ گلیشیئرز کے پگھلنے کی اصل رفتار، اس کے نقصانات اور اس کے بچاؤ کے اقدامات کیے جاسکیں۔

    گلیشیئرز پگھلنے کا سب سے بڑا خطرہ سطح سمندر میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ اضافہ سیلاب کی شکل میں کنارے بسی ہوئی آبادیوں، دیہاتوں اور قصبوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    gl-6

    اس مشاہداتی نظام کے ذریعہ سیلاب سے 60 سے 90 منٹ قبل اس سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے اور یوں کنارے بسی آبادی کو محفوظ مقامات تک پہنچنے کا وقت مل سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی ایک وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا بھی تھا۔ اس سیلاب نے ملک کے ایک تہائی رقبہ اور 1.4 کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا جبکہ اس کے باعث 1600 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں سیلاب سے قبل از وقت آگاہی کے لیے ایس ایم ایس سروس اور دیگر کئی وارننگ سسٹم کی تشکیل کے لیے 16.6 بلین روپے کا منصوبہ بھی وفاقی حکومت کو بھجوایا ہے جو منظوری کا منتظر ہے۔

    اس سے قبل ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں خاصا اضافہ ہوگیا۔

    gl-2

    ماہرین کے مطابق عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے جو مضر اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں ان میں گلیشیئرز کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی کی مدت میں اضافہ اور صحرائی علاقوں میں وسعت (ڈیزرٹیفکیشن) شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کے موسم کے دورانیہ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ برف باری کے موسم کے دورانیہ میں کمی ہورہی ہے۔ اس دورانیہ میں کمی کی وجہ سے گلیشیئرز پر برف رک نہیں پارہی اور یوں دنیا بھر کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

  • نظامِ شمسی کے قریب ترین رہائش کے قابل سیارہ دریافت

    نظامِ شمسی کے قریب ترین رہائش کے قابل سیارہ دریافت

    مذہبی ماخذوں کےمطابق انسان آسمانوں سے زمیں پراتارا گیا اور تہذیب کی ابتدا سے انسان ان آسمانوں میں لوٹ جانے کے لیے کوشاں ہے‘ ہزاروں سال قدیم انسانوں کی یہ خواہش بالاخر آج کے جدید دور میں ممکن نظر آرہی ہے۔ خلائی سائنسدانوں نے زمین سےقریب ترین سیارہ ڈھونڈنکالا جس پر حیات کی ارتقا کے آثار موجود ہیں۔

    سی این این میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’ پروگزیما بی‘ نامی یہ سیارہ خلا میں اپنے محل و وقو ع کے اعتبار سے مستقبل میں ہمارا نیا گھر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ سیا رہ اپنے نظامِ شمسی میں ایسے مقام پر ایستادہ ہے کہ جہاں سطح پر پانی کی موجودگی کے امکانا ت موجود ہیں اور اگر ایسا ہے تو یہ ہمارے نظام ِ شمسی سے باہر یہ قریب ترین سیارہ ثابت ہوگا۔

    proxima

    پروگیزیما بی نامی یہ سیارہ الفا سینچری نامی نظام ِ شمسی میں واقع ہے جو کہ ہمارے سورج سے قریب ترین ایک اور نظام ہے جس کے اپنے مدار اور سیارے ہیں اور یہ محض 4.2 نوری سال کے واقعے پرواقع ہے واضح رہے کہ خلاؤں میں یہ فاصلہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ اس سے قبل رہائش کے قابل ’ٹریپسٹ ‘ نامی بوناسیارہ ہماری زمین سے 40 نوری سال کے فاصلے پر تھا۔

    اگرچاند اچانک دھماکے سے پھٹ جائے تو؟*

    زمین جیسا سیارہ دریافت*

    محققین کے سربراہ گوئیلیم کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ سیارہ ہمارا قریب ترین رہائش کے قابل پڑوسی ثابت ہوگا کیونکہ یہ جس نظامِ شمسی میں واقع ہے وہ ہمارے سورج سے سب سے نزدیک ہے اور باقی تمام نظام ہائے شمسی دور ہیں۔

    p-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سیارہ اپنے سور ج سے انتہائی قریب ہے یعنی کہ جتنا فاصلہ زمین اور سورج میں ہے‘ پروگزیما بی محض اس کے پانچ فیصد فاصلے پر ہے لیکن کیونکہ الفاسینچری ہمارے سورج کی نسبت انتہائی کم گرم ہے لہذا ماہرین کا ماننا ہےکہ اگر اس سیارے پر آب وہوا موجو د ہوئی تواس کا درجہ حرارت 31 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوگا جو کہ پانی کی موجودگی کے لیے انتہائی موضوع ہے لیکن اگروہاں آب و ہوا کا نظام نہ ہوا تو درجہ حرارت منفی 30 سے چالیس سینٹی گریڈ بھی ہوسکتا ہے۔

    proxima-2

    سائنسدان اس نظامِ شمسی پر گزشتہ سولہ سال سے نظررکھے ہوئے ہیں تاہم ابھی اس کے بارے میں بہت کچھ جاننا باقی ہے جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ نظام اپنی حیات کے عروج پر ہے یا اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کر کے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔

  • گوگل کا پاکستانی جامعات کا دورہ کرنے کا اعلان

    گوگل کا پاکستانی جامعات کا دورہ کرنے کا اعلان

    اسلام آباد: انٹرنیٹ کی دنیا کے سرکردہ سرچ انجن گوگل کمپنی نے پاکستان آنے اور پاکستانی یونیورسٹیوں کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    گوگل کی جانب سے جاری کیے جانے والے شیڈول کے مطابق گوگل کے نمائندگان پر مشتمل ٹیم 30 اگست سے 9 ستمبر تک پاکستانی جامعات کا دورہ کرے گی۔

    گوگل کی ٹیم کراچی، لاہور، اسلام آباد، گجرات اور خیبر پختونخوا کے شہر توپی کی بڑی جامعات کا دورہ کرے گی۔

    گوگل میں خامی کی نشاندہی کرنے والا پاکستانی آئی ٹی ماہر *

    شیڈول کے مطابق کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنس، لاہور میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنس، یونیورسٹی آف پنجاب، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز، گجرات میں یونیورسٹی آف گجرات، اور توپی کا غلام اسحٰق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی گوگل کی ٹیم کی میزبانی کریں گے۔

    اس دورہ کا مقصد پاکستانی طلبا کو گوگل کی جدید مصنوعات سے آگاہی دینا، اور باصلاحیت طلبا کو نئے مواقع فراہم کرنا ہے۔

    گوگل کے ساتھ منعقد کیے جانے والے مباحثوں میں شرکت کے لیے اس فارم کو پر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

  • انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کا عالمی دن

    انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کا عالمی دن

    آج انٹرنیٹ کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے مرکزی سسٹم ورلڈ وائیڈ ویب (ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو) کو تشکیل دیے 25 برس ہوگئے۔ آج کا دن ’انٹرونٹ ڈے‘ کہلاتا ہے جو انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کا نام ہے۔

    آج سے 25 سال قبل یورپیئن ریسرچ آرگنائزیشن ’سرن‘ میں ایک برطانوی سائنسدان برنرز لی نے ورلڈ وائیڈ ویب کا نظام تشکیل دیا۔ اس کو قائم کرنے کا مقصد دنیا بھر میں ایک خود کار طریقہ سے معلومات کا تبادلہ کرنا تھا۔

    www-2
    ورلڈ وائیڈ ویب کے بانی برنرز لی

    اس سے قبل 1960 کی دہائی میں انٹرنیٹ کا ایک اور ابتدائی نظام تشکیل دیا جا چکا تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں ناسا کے تحقیقاتی پروجیکٹس پر سوویت یونین کی جانب سے حملہ کا خدشہ تھا۔ یہ حملہ ’ارپننٹ‘ نامی ایک نیٹ ورک سے کیے جانے کا امکان تھا جس کے ذریعہ کمپیوٹرز ایک دوسرے سے بات کرسکتے تھے۔

    سنہ 1970 میں اس کا توڑ کرنے کے لیے ایک سائنسدان ونٹن سرف نے کام کرنا شروع کیا۔ ونٹن نے تمام کمپیوٹرز اور نیٹ ورکس کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ’ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول‘ نامی نظام تشکیل دیا جسے ٹی سی پی کہا جاتا ہے۔

    انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال انسانی صحت کے لیے خطرناک *

    غریب اور امیر بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال میں فرق *

    جیتا جاگتا انٹرنیٹ *

    سرف کے اس نظام نے دنیا کو ایک دوسرے سے جوڑ کر انٹرنیٹ کی نئی جہت ایجاد کی۔ 1980 تک سائنسدان ایک سے دوسرے کمپیوٹر میں فائلیں اور ڈیٹا بھیجنے کے لیے اسی نظام کا استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ برنرز لی نے موجودہ انٹرنیٹ کی ابتدائی شکل متعارف کروائی جس نے بہت جلد پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کرلی۔

    یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لفظ انٹرنیٹ سب سے پہلے کس نے استعمال کیا۔ دراصل یہ ’انٹر نیٹ ورکنگ‘ کا مختصر کردہ نام تھا جو ونٹن سرف نے 1974 میں استعمال کیا تھا۔ لفظ ’انٹرونٹ‘ انٹرنیٹ اور آسٹرونٹ سے بنایا گیا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایسا شخص جس نے انٹرنیٹ کو تسخیر کرلیا ہو یعنی اسے انٹرنیٹ استعمال کرنے میں پوری مہارت حاصل ہو۔

  • زمین جیسا سیارہ دریافت

    زمین جیسا سیارہ دریافت

    کائنات میں لاکھوں سیارہ اور ستارے موجود ہیں لیکن ماہرین نے ایک ہو بہو زمین جیسا سیارہ دریافت کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’اب تک کوئی بھی سیارہ زمین سے اس قدر مماثلت کا حامل نہیں دیکھا گیا، جیسا یہ ہے۔

    کائنات میں زمین جیسا دریافت ہونے والا سیارہ اپنے ستارے سے ٹھیک اسی فاصلے پر گردش کر رہا ہے، جیسا زمین کا سورج سے ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فاصلے پر کسی سیارے کو وہ درجہ حرارت میسر آ جاتا ہے، جس پر پانی مائع حالت میں ہو سکتا ہے۔ اس لیے ممکنہ طور پر انسانی زندگی کے قابل ہے۔

    planet
    اس سیارے کا نام اب تک رکھا نہیں گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’اب تک کوئی بھی سیارہ زمین سے اس قدر مماثلت کا حامل نہیں دیکھا گیا، مگر کہا جا رہا ہے کہ اس پر پانی موجود ہو سکتا ہے۔ جو کسی مقام پر زندگی کی نمو کے لیے انتہائی ضروری شرط ہے۔

    اس سے قبل بھی زمین جیسا سیارہ کیپلر 452 بی دریافت ہو چکا ہے ۔ اس کا اپنے ستارے سے فاصلہ تقریباً اتنا ہی ہے جتنا کہ زمین کا سورج سے۔ یہی فاصلہ سطح پر درجہ حرارت پانی کی موجودگی اور زندگی کے لیے موزوں ہے۔یہ سیارہ زمین سے ساٹھ فیصد بڑا ہے۔

    اس سیارے پر کشش ثقل زمین سے دوگناہے اور زمین سے اس کا فاصلہ 14 سو نوری سالوں کا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل قریب میں تو انسان کی اس سیارے تک پہنچ ممکن دکھائی نہیں دیتی

    سائنسدانوں کو اس سے قبل بھی زمین جتنے بڑے سیارے ملے، جو اپنے ستارے کے گرد گھوم رہے تھے لیکن یہ ستارے سورج کی نسبت سرد اور حجم میں چھوٹے تھے۔

  • گلوبل وارمنگ سے جنگلات میں آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ

    گلوبل وارمنگ سے جنگلات میں آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ

    نیویارک: اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں خشک سالی کی صورتحال جنگلات میں آتشزدگی کے خدشات کو بڑھا رہی ہے جو آگے چل کر عالمی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے قدرتی آفات سے بچاؤ کے اقدامات کے ادارے یو این آئی ایس ڈی آر کے سربراہ رابرٹ گلاسر نے کہا کہ گذشتہ برس تاریخ کا ایک گرم ترین سال رہا اور رواں برس بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ان 2 برسوں میں جگلات میں آگ لگنے کے کئی واقعات دیکھے گئے جو دن گزرنے کے ساتھ مستقل اور تباہ کن ہوتے گئے۔

    wildfire-2

    انہوں نے واضح کیا کہ اس کی وجہ شہروں کا بے تحاشہ پھیلنا اور اس کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی، اور جنگلات کا عدم تحفظ ہے۔ جنگلات میں لگنے والی آگ کے باعث قریبی شہروں اور آبادیوں کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    کیلیفورنیا: جنگل میں لگنے والی آگ بے قابو *

     کینیڈا کے جنگل میں آتشزدگی *

    جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ *

    واضح رہے کہ رواں برس کینیڈا، اسپین، پرتگال، فرانس اور امریکا کے کئی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آچکے ہیں جس سے ایک طرف تو بے شمار گھر تباہ ہوئے، دوسری طرف آگ بجھاتے ہوئے کئی فائر فائٹرز بھی ہلاک یا شدید زخمی ہوگئے۔

    wildfire-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات میں آتشزدگی سے آکسیجن فراہم کرنے والا ذریعہ (درختوں) کا بے تحاشہ نقصان ہوتا ہے جو وہاں کے ایکو سسٹم، کاربن کو ذخیرہ کرنے کے ذرائع اور پانی کو محفوط کرنے کے ذرائع کو تباہ کردیتے ہیں جبکہ ان کے باعث مٹی کے کٹاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں یا کلائمٹ چینج کے اثرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق ان آتشزدگیوں کے باعث عالمی معیشتوں کو سالانہ 146 سے 191 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

  • ناروے میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد

    ناروے میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد

    اوسلو: ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    یہ فیصلہ عالمی حدت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پورے ملک میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے بلکہ حکومت درختوں سے بنائی جانے والی مصنوعات پر پابندی پر بھی غور کر رہی ہے۔

    norway-2
    برازیل کے شمالی حصہ میں پارہ نامی علاقہ ۔ کبھی اس پورے رقبہ پر جنگلات تھے

    نارویئن پارلیمنٹ نے پابندی کے بل کے مسودے میں شامل اس شق کی بھی منظوری دی جس کے تحت ناروے ان غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ جنگلات کی کٹائی میں مصروف ہیں۔

    یہ اقدام اس معاہدے کی ایک کڑی ہے جو ناروے نے 2014 میں نیویارک میں ہونے والے کلائمٹ سمٹ میں کیا تھا جس میں ناروے، جرمنی اور برطانیہ نے ایک مشترکہ معاہدے کے تحت قومی سطح پر جنگلات کی کٹائی میں کمی کرنے کا عزم کیا۔

    مزید پڑھیں: میکسیکن اداکار کی ماحولیاتی آگاہی کے لیے درخت سے شادی

    ناروے نے اس پابندی کو اپنی قومی پالیسی کا بھی حصہ بنالیا ہے جس کے تحت درختوں سے بنائی جانے والی مصنوعات کی جگہ متبادل مصنوعات اور ان کی صںعتوں کو فروغ دینے پر کام کیا جائے گا۔

    ناروے اس سے قبل بھی کئی ماحول دوست اقدامات اٹھا چکا ہے۔ ان اقدامات کی بدولت ناروے میں پچھلے 7 سالوں میں جنگلات کی کٹائی میں 75 فیصد کمی آچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    ناروے جنگلات کو بچانے کے لیے لائبیریا اور انڈونیشیا کو بھی امداد دے چکا ہے۔ 2008 میں ناروے نے برازیل کو 1 بلین ڈالر امداد دی جس کے تحت اب برازیل ایمیزون کے جنگلات کو تباہی سے بچانے کے لیے کام کرہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

  • گوگل‘ فائرفاکس میں خامی کی نشاندہی کرنے والے پاکستانی آئی ٹی ماہرسے گفتگو

    گوگل‘ فائرفاکس میں خامی کی نشاندہی کرنے والے پاکستانی آئی ٹی ماہرسے گفتگو

    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، پاکستان کےاخلاقی ہیکر رافع بلوچ نے دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ بڑاؤزر گوگل اور فائرفاکس میں خامی کی نشاندہی کرکے ساری دنیا کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیا ۔

    رافع بلوچ ایک آئی ٹی پروفیشنل ہیں اور کئی بین الاقوامی اخباروں اور جریدوں میں ان کا اینڈرائیڈ کے حوالے سےان کے ریسرچ پیپر شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا شمار دنیا کے ٹاپ فائیو اخلاقی ہیکرز میں ہوتا ہے جو کہ انٹر نیٹ کی دنیا کو محفوظ بنانے کا عزم لیے کوشاں ہیں۔

    ناصرف یہ بلکہ رافع وہ پہلے پاکستانی سیکیورٹی ریسرچر ہیں جنہیں گوگل‘ فیس بک‘ پے پال ‘ ایپل ‘ مائیکروسافٹ سمیت متعدد انٹرنیٹ آرگنائزیشن کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے۔

    رافع پے پال میں ایک بے ضابتگی تلاش کرنے پر مذکورہ کمپنی سے دس ہزار امریکی ڈالر کا انعام بھی حاصل کرچکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ اخلاقی ہیکنگ کے موضوع پر 2014میں شائع ہونے والی ایک اہم کتاب کے مصنف بھی ہیں۔

    hack-post-3

    علاوہ ازیں رافع بلوچ دنیا کی سب سے بڑی انٹرنیٹ سیکیورٹی کنفرنس’بلیک ہیٹ ایشیا‘ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے واحد پاکستانی ہیں۔

    گزشتہ دنوں دنیا کے سب سے بڑے براؤزر گوگل اور فائرفاکس میں ایک انتہائی اہم بگ کی نشاندہی کرنے پر وہ خبروں کی زینت بنے تھے جس کے بعد ہم نے ان کے انٹرویو کا اہتمام کیا کہ ہمارے ناظرین پاکستان کا سر فخرسے بلند کرنے والے پاکستانی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں۔

    تعلیم سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں رافع نے بتایا کہ’’ وہ ایک کمپیوٹر سائنس گرایجویٹ ہیں‘‘۔

    ان کی جانب سے شناخت کیے گئے بگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہناتھا کہ’’ یہ بگ 70 فیصد سے زائد موبائل براؤزرز میں پایا جارہاہے اوروہاں سے آنے والے ٹریفک پر اثر انداز ہورہا ہے‘‘۔

    رافع کے مطابق ’’یہ بگ انٹرنیٹ صارف کے ایڈرس بار تک رسائی حاصل کرتا ہےاور صارف کا مطلوبہ ڈومین نیم اسے دکھاتے ہوئے اسے ہیکر کی مطلوبہ ویب سائٹ پر لے آتا ہے ‘‘۔

    انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یوں سمجھیں کہ اگر آپ گوگل ڈاٹ کام پر جانا چاہتے ہیں تو یہ بگ آپ کو کسی جعلی گوگل پیج پر لے جائے گا اور صارف کو اس کی خبر بھی نہیں ہوگی‘‘۔

     


    رافع بلوچ کی جانب سے اس بگ کی دریافت پر پے پال‘ گوگل اور فائرفاکس

     نےان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انعامی رقم سے بھی نوازا ہے


     

    پاکستان نوجوانو ں کی صلاحیتوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں کہا کہ’’پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے ، ضروت صرف اس امر کی ہے کہ حکومتِ پاکستان نوجوانوں کے لیے مواقع پید اکرے، تو ہمارے نوجوان کمال کرسکتے ہیں‘‘۔

    hack-post-2

    پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری کو وسعت دینے کے لیے حکومت کی ذمہ داریوں سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ حکوت کو چاہیے کہ پرائمری سے لے کر بیچلرز کی سطح تک کمپیوٹر اور آئی ٹی کے نصاب کو دوبارہ سے مرتب کیا جائے اور اسے عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ ہمارے ادارے بین الاقوامی معیار کے پروفیشنل پیدا کرسکیں، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت آئی ٹی سے متعلق فنڈز کی شروعات کرے‘‘۔


    سائبر کرائم بل سے متعلق رافع بلوچ کی رائے


    رافع سمجھتے ہیں کہ سائبر کرائم بل کی صورت ہم نے صرف مرض کی علامتوں کا علاج کرنے کی کوشش کی ہے اصل مرض پر کوئی توجہ نہیں دی، انہوں نے کہا کہ ’’ سائبر کرائم اس لیے ہوتے ہیں کہ عوام میں سائبرسیکیورٹی سےمتعلق آگاہی کا فقدان ہے ۔ حکومت نے اس سنگین مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ مغرب سائبر سیکیورٹی سے متعلق آگاہی کے لیے بھاری انویسٹمنٹ کرتا ہے، حال ہی میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے سائبر آگاہی مہم کے لیے 19 ارب ڈالر کی منظوری دی ہے‘‘۔

    رافع کے مطابق’ ’سائبر کرائم بل میں کئی جھول ہیں ۔ بل میں سائبر دہشت گردی کی بات کی گئی ہے لیکن سائبر دہشت گردی کیا ہوتی ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی، حالانکہ سائبر کرائم اور سائبر دہشت گردی میں زمین آسمان کافرق ہے۔ بل میں ڈیٹا کی چوری سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی اور سب سے بڑھ کر اخلاقی ہیکروں کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا گیا‘‘۔

  • سال 2017 رواں برس کے مقابلہ میں سرد ہونے کا امکان

    سال 2017 رواں برس کے مقابلہ میں سرد ہونے کا امکان

    واشنگٹن: ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ 2016 کی شدید گرمی کے بعد 2017 نسبتاً ایک سرد سال ہوگا۔

    رواں برس جولائی کے مہینے کو گرم ترین مہینہ قرار دیا جاچکا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2016 کا سال 2014 اور 2015 سے بھی زیادہ گرم ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ ایل نینو اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ال نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    رواں سال ایل نینو کا سال ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    برطانیہ کی ایسٹ اینجلا یونیورسٹی کے کلائمٹ ریسرچ یونٹ کے پروفیسر کے مطابق امکان ہے کہ آنے والا سال رواں سال کے مقابلہ میں کچھ سرد ہوگا۔

    تاہم ماہرین کے مطابق اگلے سال ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    واضح رہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے دنیا کو کلائمٹ چینج سے مطابقت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • ماہرینِ فلکیات نے سپرنووا کے پھٹنے کی تصویربنالی

    ماہرینِ فلکیات نے سپرنووا کے پھٹنے کی تصویربنالی

    کسی بھی ستارے کے بارے میں یہ معلوم کرنا انتہائی مشکل ہے کہ وہ کب پھٹ کر سپر نووا بن جائے گا – چنانچہ اسے خوش قسمتی ہی سمجھنا چاہیے کہ ماہرین ایک ستارے کے پھٹنے کے عمل کی مسلسل تصویریں بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    یہ یوں ممکن ہوا کہ ماہرین ڈارک میٹر پر ریسرچ کے لیے آسمان کے ایک حصے کا سالوں سے مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اور مختلف کہکشاؤں اور ستاروں کی وقفے وقفے سے تصویریں بنا رہے ہیں۔

    جب ماہرین نے یہ دیکھا کہ ہم سے بیس ہزار نوری سال دور ایک سپر نووا پھٹا ہے تو انہوں نے یہ خوش گوار انکشاف کیا کہ یہ سپر نووا اس حصے میں پھٹا ہے جس کی وہ مسلسل تصویریں بنا رہے تھے۔

    پہیے سے سفرشروع کرنے والا انسان ستاروں سے آگے نکل گیا*

    چینی سائنسدانوں نے اصلی سے زیادہ طاقتور’نقلی‘ سورج تیارکرلیا*

    یہ ستارہ ہم سے بیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور اس پر طویل عرصے سے نظر رکھی جارہی تھی لہذا خلائی سائنسدان مئی 2009 میں ہونے والے اس دھماکے سے پہلے اور بعد پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی عکس بندی میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    star
    سپرنوا پھٹنے سے پہلے اور بعد کے مناظر

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ سپر نووا اس لیے پھٹا کہ ہمارے سورج جتنے قطر کا ایک مردہ ستارہ ایک زندہ ستارے کے اس قدر قریب آگیا تھا کہ وہ اس کی گیس خود میں جذب کرنے لگا یہاں تک کہ دھماکہ ہوگیا۔

    چنانچہ سائنس دانوں نے پرانی تصویروں کو ڈھونڈ نکالا اور ان کے تجزیے سے اس ستارے کی شناخت کر لی جو بالاخر سپر نووا بن کر پھٹ گیا- یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کہ سپر نووا کے پھٹنے سے پہلے اور بعد کی تصاویر دستیاب ہیں – امید ہے کہ اس ڈیٹا سے فزکس کے ماہرین کو اپنے نظریات کو پرکھنے میں مدد ملے گی۔