Category: سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق تازہ ترین خبریں اور معلومات

SCIENCE AND TECHNOLOGY NEWS IN URDU

  • دل کی دھڑکنیں سنانے والی انگوٹھی

    دل کی دھڑکنیں سنانے والی انگوٹھی

    گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی جہاں ہر شعبہ میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے وہیں محبت کرنے والے اور قریبی عزیز و اقارب بھی اس کے ثمرات سے محروم نہیں۔

    حال ہی میں ایک ایسی انگوٹھی تیار کی گئی ہے جسے پہننے کے بعد آپ کے کسی عزیز کے دل کی دھڑکن آپ کو اپنی انگلیوں پر محسوس ہوگی۔

    ring-2

    یہ انگوٹھی ان چاہنے والے افراد کے لیے ایک نعمت ہے جو کسی مجبوری کے باعث الگ الگ شہروں یا ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ انگوٹھی دو افراد کو ہر وقت ایک دوسرے سے باخبر رکھے گی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ہوں۔

    اسے تیار کرنے والی کمپنی ’دا ٹچ‘ نے اسے ایچ بی رنگ کا نام دیا ہے۔

    انگوٹھی پر عکسی تصاویر کھینچنے کی تکنیک ۔ رنگ فوٹوگرافی *

    اس انگوٹھی کے اندر دل کی دھڑکن کو جانچنے کا سینسر اور بیٹری لگائی گئی ہے اور اوپر سے اسے سنہرے رنگ کی خوبصورت تہہ سے ڈھانپا گیا ہے تاکہ یہ پہننے میں بھدی نہ لگے۔

    یہ اسمارٹ فون کی ایک ایپ کے ذریعہ دوسرے شخص کے فون سے منسلک ہوگی اور اسی کے ذریعہ کام کرے گی۔ پہننے والا جب چاہے اپنے عزیز کی دل کی دھڑکن اپنی انگلیوں پر محسوس کرسکے گا۔ انگوٹھی کو ایکٹیویٹ کرنے کے لیے اسے ہلکا سا تھپکنا ہوگا۔

    ring-3

    کسی ناگہانی، ایمرجنسی یا غیر متوقع صورتحال میں دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے کی صورت میں بھی میلوں دور بیٹھے شخص کو فوراً اس کا پتہ چل جائے گا۔

    انگوٹھی جلد ہی مارکیٹ میں پیش کردی جائے گی۔

  • کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    واشنگٹن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے باعث آنے والی قدرتی آفات مستقبل قریب میں مختلف ممالک میں مسلح تصادم کو فروغ دے سکتی ہیں اور پہلے سے جاری تصادموں میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی جانب سے کی گئی۔ ماہرین نے اس کے لیے دنیا بھر میں جاری جنگ زدہ علاقوں کی صورتحال، ان کی وجوہات، اور مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگوں / تنازعوں کی وجوہات کا جائزہ لیا۔

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟ *

    تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں جاری خانہ جنگیوں میں سے ایک تہائی کی بنیادی وجہ وہاں ہونے والے موسمی تغیرات اور ان کے باعث ہونے والی ہجرتیں ہیں۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ شدید گرمی کی لہریں (ہیٹ ویو)، سیلاب اور طوفان مستقبل میں جنگوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ امکان ان مقامات پر زیادہ ہے جہاں آبادی زیادہ اور کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث امریکی فوجی اڈے خطرے کی زد میں *

    کلائمٹ چینج پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق کلائمٹ چینج قدرتی آفات جیسے زلزلہ، سیلاب، طوفان اور قحط یا خشک سالی کی وجہ بن رہا ہے۔ ان آفات کے باعث بہتر طرز زندگی کے حامل پورے پورے شہر اجڑ سکتے ہیں ا ور ان میں رہنے والے افراد بھوک، پیاس، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں سے محرومی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    نتیجتاً وہ شدت پسند رویوں کا شکار ہو کر شدت پسندی، مسلح لڑائیوں، جرائم اور دہشت گردی کی جانب متوجہ ہوں گے۔

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ *

    تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ شدت پسندی اور مسلح تصادم افریقہ اور جنوبی ایشیا کو خاص طور پر متاثر کریں گے۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے ہونے والے مختلف مسائل کے باعث جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    اس تحقیق میں پانی کی کمی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا جس کے باعث پانی کے حصول کے لیے تینوں ممالک آپس میں برسر پیکار ہوسکتے ہیں۔

  • گوگل کی جانب سے نیا آپریٹنگ سسٹم متعارف کرایا جارہا ہے

    گوگل کی جانب سے نیا آپریٹنگ سسٹم متعارف کرایا جارہا ہے

    گوگل کی جانب سے مقابلے کا رحجان اور صارفین کو نت نئی سہولیات پہنچانے کے لیے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ پروگرام بنانے میں مصروف ہے میک کے مقابلے میں ونڈوز اور پھر اینڈارئیڈ کے مقابل میں آئی او ایس تخلیق کرنے والے ادارے نے اور آپریٹنگ سسٹم فوشیاء متعارف کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے تا ہم ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ گوگل کا یہ سسٹم مارکیٹ میں کس کے مقابل لایا جا رہا ہے۔

    گوگل کے مطابق فوشیاء ایک آپریٹنگ سسٹم ہے جو جدید موبائل فونز،کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ کے لیے بنایا گیا ہے، گوگل پہلے ہی اینڈرائیڈ اور ونڈوز او ایس پہلے ہی موجود ہے،فوشیاء کے آنے کے بعد گوگل فیملی مکمل ہو جائے گی اور اسے دوسری کسی کمپنی کے سافٹ ویئر کی ضرورت نہیں رہے گی۔

    سب ہی جانتے ہیں کہ ایک نئے سسٹم کو پہلے سے موجود بڑی مارکیٹ میں متعارف کرانا مشکل اور کٹھن مرحلہ ہوتا ہے لیکن گوگل پہلے ہی اینڈرا ئیڈ کے ساتھ آپریٹنگ سسٹم متعارف کرنے میں کامیاب رہی ہے لہذا امید کی جا سکتی ہے نیا سسٹم فوشیاء بھی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا لے گا۔

    ماہرین کے خیال میں گوگل اس میدان میں دیگر کمپنیوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا لیکن جیسا بتایا جاچکا ہے کہ یہ کمپیوٹر اور موبائل میں بھی استعمال ہوسکتا ہے تو یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ گوگل کی جانب سےفوشیاء کو اینڈرائیڈ اور کروم آپریٹنگ سسٹم کے متبادل کے طور پر بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔

    گوگل کی جانب سے اوپن سورس آپریٹنگ سسٹم فویشا جدید ترین موبائل فونز ، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز پر کام کرسکتا ہے جب کہ گوگل کی ڈارٹ پروگرامنگ لینگویج اس کا دل ہے اور اس حوالے سے کوڈ شیئرنگ ویب سائٹ میں ایک پیج بھی منظر عام پر آیا ہے۔

    گو کہ گوگل کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ آخر اس آپریٹنگ سسٹم کو کس مقصد کے لیے تیار کیا جارہا ہے تاہم ماہرین کے خیال میں یہ ایسی مصنوعات کے لیے تیار کیا جارہا ہے جس میں اینڈرائیڈ اور لینکس کا استعمال مثالی نہیں۔

    ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز،اینڈرائیڈ،میک او ایس اور آئی او ایس سے خوش ہوں لیکن ہر چیز میں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ نئے اور جدید سسٹم سے مراد زیادہ محفوظ، مزید میموری،نئے تجربہ،لمبی بیٹری،اور بآسانی ضبط تحریر لانے والے فونٹ اور ایپس سمیت کئی نئی فیچرز شامل ہوں گے جس سے آپریٹنگ سسٹم دیدہ زیب ہی نہیں استعمال کے لیے آسان بھی ہو جائے گی۔

  • مزار قائد اب شمسی بجلی سے روشن ہوگا

    مزار قائد اب شمسی بجلی سے روشن ہوگا

    کراچی: بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    یہ فیصلہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات اور قومی ورثے کی میٹنگ میں کیا گیا۔ میٹنگ میں سینیٹر نہال ہاشمی، عبدالکریم خواجہ اور اشوک کمار شریک تھے۔

    میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے بتایا کہ 7 ستمبر کو اس حوالے سے ایک عوامی اجلاس منعقد کیا جائے گا جس میں اس معاملے سمیت مزار قائد کی مزید سجاوٹ کے بارے میں بھی گفتگو کی جائے گی۔

    tomb-2

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس منصوبے کے تمام اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی اور یہ مزار پر آنے والے افراد سے ٹیکس کی شکل میں نہیں وصول کیے جائیں گے۔

    مزار قائد کے انتظامی بورڈ کے سربراہ محمد عارف نے بتایا کہ کام کے آغاز سے قبل کمیٹی کے ارکان کو ایک تفصیلی بریفنگ دی جائے گی تاکہ تعمیرات میں کسی قسم کی فنی خرابی سے بچا جاسکے۔

    کمیٹی کے ارکان نے میٹنگ کے بعد مزار قائد کا دورہ بھی کیا اور فاتحہ خوانی کے ساتھ چادر چڑھائی۔

  • دنیا کے خاموش ترین مقام پر وقت گزارنا کیسا ہوگا؟

    دنیا کے خاموش ترین مقام پر وقت گزارنا کیسا ہوگا؟

    کیا آپ نے کبھی کسی ایسی جگہ کا دورہ کیا ہے جہاں بالکل خاموشی ہو اور کوئی آواز نہ ہو؟

    شاید آپ میں سے بہت سے افراد کسی جنگل کے اندر، پہاڑ تلے، یا سنسان سڑک پر گزاری گئی شام کے بارے میں سوچیں کہ وہ شام آپ کی زندگی کی خاموش ترین شام اور خاموش ترین مقام تھا۔

    آپ کو اس جگہ پر جا کر کیا محسوس ہوا؟

    یقیناً آپ کا جواب ہوگا کہ وہ شام ایک بہترین شام تھی۔ اس سے آپ کے دماغ اور اعصاب کو سکون ملا اور آپ نے اپنی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ محسوس کیا۔

    خاموشی کے فوائد *

    لیکن درحقیقت ایسا اس لیے ہوا کیونکہ وہ جگہ خاموش ترین جگہ تھی ہی نہیں۔

    اسے دیکھیئے۔

    room-1

    یہ دنیا کا مصدقہ خاموش ترین مقام ہے اور سائنسی مقصد کے لیے اسے مائیکرو سافٹ کمپنی نے ڈیزائن کیا ہے۔

    امریکی ریاست منیسوٹا میں واقع یہ کمرہ اس قدر خاموش ہے کہ یہاں داخل ہو کر آپ اپنے دل کی دھڑکن، سانس اور پیٹ کے اندر کھانے کے ہضم ہونے کی آوازیں تک سن سکتے ہیں۔

    اس کمرے کی دیواروں کو تین فٹ موٹے ساؤنڈ پروف فائبر گلاس، اسٹیل اور پتھر سے بنایا گیا ہے اور یہ باہر سے آنے والی 99.99 آوازیں اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔

    اس کمرے کو ’ان ایکوئک‘ یعنی بے گونج یا بے آواز کمرے کا نام دیا گیا ہے۔

    شور شرابہ کے نقصانات *

    اس کمرے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے جاننا ضروری ہے کہ ایک انسان صفر ڈیسیبل تک دھیمی آواز سن سکتا ہے۔ ڈیسیبل کسی شے کی طبعی موجودگی کو ناپنے کا کم ترین پیمانہ ہے۔ اس کمرے میں موجود (یا غیر موجود) آواز کی پیمائش منفی 9.4 ڈیسیبل ہے یعنی انسانی کان کے ہلکی ترین آواز سننے کی صلاحیت سے بھی کم۔

    لیکن اس کمرے میں جا کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟

    اس بات کو جانچنے کے لیے مائیکرو سافٹ کے ایک انجینئر گوپال پرپدی نے اس کمرے کے اندر کچھ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔

    جب ہم کسی خاموش مقام پر جاتے ہیں تب بھی ہمارا کان فطرت کی کئی آوازیں سن رہا ہوتا ہے، دور پانی بہنے کی آواز، ہوا کی آواز، پرندوں کی چہچہاہٹ، آپ کے قدموں کی آواز۔ لیکن یہ کمرہ ان تمام آوازوں سے پاک ہے۔

    گوپال پرپدی کے مطابق جب وہ اس کمرے میں داخل ہوئے اور دروازہ بند ہوا، تو پس منظر کی تمام آوازیں یکدم غائب ہوگئیں اور گہرا سکوت طاری ہوگیا۔

    room-2

    چند سیکنڈز بعد ہی انہوں نے اپنا دماغ سن ہوتا محسوس کیا اور اس کے بعد انہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی غار میں سفر کر رہے ہوں۔ ساتھ ہی انہیں خدشہ محسوس ہوا کہ ان کا جسم بے جان ہوگیا ہے اور وہ حرکت نہیں کرسکتے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر وہ مزید کچھ دیر اس کمرے میں ٹہرتے تو انہیں ڈر تھا کہ شاید ان کا دماغی توازن ٹھیک نہ رہ پاتا۔

    یقیناً آپ ایسا نہیں چاہیں گے لہٰذا اپنے ارد گرد موجود آوازوں کی قدر کیجیئے۔

  • سائبر کرائم بل: خواتین کو بلیک میل کرنے والا ملزم قانون کی حراست میں

    سائبر کرائم بل: خواتین کو بلیک میل کرنے والا ملزم قانون کی حراست میں

    پشاور: خواتین کوفیس بک پر بلیک میک کرنے والا نوسرباز سائبر کرائم بل کے تحت نوشہرہ سے گرفتار کرلیا گیا، ملز م کے خلاف بلیک میلنگ کے مختلف مقدمات درج ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نوشہرہ پولیس نے رسال پور کے علاقے میں کاروائی کرتے ہوئے بلیک میلنگ میں ملوث مبینہ ملزم کو گرفتار کیا ہے۔

    Peshawar

    پولیس کے مطابق مبینہ ملز م کا تعلق پشاور کے علاقے سفید ڈھیری سے ہے اور اسکے خلاف مختلف تھانوں میں بلیک میلنگ کے نو مقدمات درج ہیں۔

    سائبر کرائم بل پرصحافی برادری/سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا اظہارتشویش*

    سائبر کرائم بل سینیٹ میں متفقہ طور پر منظور*

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف خواتین نے شکایت درج کرائی ہے کہ ملزم ان کے جعلی فیس بک اکاؤنٹس بناتا تھا اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی دھمکیاں دیا کرتاتھا۔ پو لیس نے ملزم کے خلاف سائبرکرائم بل کے تحت کاروائی کرتے ہوئے اسے حراست میں لیا ہے۔

  • گوگل/ فیس بک کی جانب سے پاکستانیوں کوجشن آزادی کی مبارک باد

    گوگل/ فیس بک کی جانب سے پاکستانیوں کوجشن آزادی کی مبارک باد

    دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے اپنا آج کا ڈوڈل پاکستان کے یومِ آزادی کی مناسبت سے پاکستان میں موجود دنیا کی سب سے قدیم ثقافت سے منسوب کردیا ہے، جبکہ فیس بک نے بھی اپنے صارفین کو جشنِ آزادی کی مبارک باد دی ہے۔

    گوگل ڈوڈل ‘ بین الاقوامی سرچ انجن کے آن سکرین لوگو کا نام ہے جسے وہ اکثر اہم دنیاوی معاملات کی مناسبت سے تبدیل کردیا کرتا ہے۔

    اس مرتبہ گوگل نے اپنے ڈوڈل امیج میں پاکستان میں موجود دنیا کی قدیم ترین وادی مہران کی تہذیب کو اجاگر کیا ہے، ڈوڈل امیج میں موہن جو ڈارو سے ملنے والے آثارِ قدیمہ کو اجاگر کیا گیا ہے جن میں موہن جو ڈارو کا مہا پجاری، ڈانسنگ گرل اور وہاں سے نکلنے وال دیگر نوادرات کو دکھایا گیا ہے۔

    Google

    وادی مہران کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیب کے طورپر کیاجاتا ہے اور اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے، موہن جو ڈارو اس تہذ یب کا مرکز تھا، اس کی دریافت 1920 میں ہوئی تھی اور ماہرین آثارقدیمہ تاحال اس کی زبان پڑھنے سے قاصر ہیں۔

    دریں اثنا دنیا کی سب سے بڑی سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک نے بھی پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر پاکستان میں موجود اپنے صارفین کو جشن آزادی کی مبارک باد دی ہے۔

    facebook1پڑھیں :  گوگل کا عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت

    فیس بک نے مبارک باد کے پیغام میں کہا ہے کہ وہ تمام افراد جنہوں نے پاکستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، ہم انہیں یاد کرتے ہیں اور ان کی خدمات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے جشن آزادی منانے والوں کو مبارک باد دیتے ہیں۔

    گوگل نے ڈوڈل استاد نصرت فتح علی خان کے نام کردیا*

    اس سے قبل گوگل پاکستان کے مایہ ناز قوال استاد نصرت فتح علی خان کی سالگرہ پر بھی اپنا گوگل ڈوڈل تبدیل کیا تھا۔

  • پاکستانی عوام کی تکلیفوں کا مداوا کرنے کے لیے موبائل ایپ ’مرہم‘ آگئی

    پاکستانی عوام کی تکلیفوں کا مداوا کرنے کے لیے موبائل ایپ ’مرہم‘ آگئی

    کراچی: انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں پاکستانی نوجوانوں نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو کہ ہر پاکستانی کے زخموں کا مرہم بن رہا ہے۔

    پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کئی مریض آگاہی اور ڈاکٹروں تک رسائی نہ ہونے کے سبب بعض ایسی بیماریوں میں بھی زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں جن کاعلاج اگر بروقت کر لیا جائے تووہ اس قدرسنگین نہیں ہوتیں۔ گلی کوچوں میں بیٹھے عطائی ڈاکٹر بھی معاشرے کی تکلیف بڑھانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے میں پیش پیش ہیں۔

    شہریوں کے انہی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستانی نوجوانوں کے ایک گروہ نے ’مرہم‘ کے نام سے ایک مفت آن لائن کمیونٹی اور موبائل ایپ تشکیل دی ہے جہاں ملک بھر کے قابل اور نامور ڈاکٹر نہ صرف مریضوں کی رہنمائی کے لیے مفت مشورے فراہم کرتے ہیں بلکہ موبائل فون کے ذریعے ڈاکٹروں سے اپائنٹمنٹ بھی لیا جاسکتا ہے۔

    یہی نہیں بلکہ اگر مریض کسی بیماری کے سلسلے میں ماہر ڈاکٹر کی تلاش میں سرگرداں ہیں تو مرہم کی موبائل ایپ کے ذریعےمحض بیماری کے نام سے ہی آپ اپنے قریبی علاقے میں اس مخصوص مرض کے ماہر کو تلاش کرسکتے ہیں اور ان کا اپائنٹمنٹ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

    مرہم اس کام کے لیے کسی قسم کے کوئی چارجز نہیں لیتی، یہ ایپ اینڈرائیڈ اور آئی فون دونوں کے لیے موجود ہے اور مرہم کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔

    مرہم کا آغاز ایک فیس بک پیج کے ذریعے ہوا جسے ملک کے طول و عرض میں موجود ڈاکٹروں نے بے پناہ سراہا جس کے بعد مرہم اب ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان رابطے کی پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن کمیونٹی کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔

    dddd

    ابتدا میں مرہم کی ٹیم کو نامساعد حالات اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب یہ کمیونٹی دکھی انسانیت کے غموں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، آپ بھی اپنے دوستوں کو مرہم ڈاؤن لوڈ کرنے کا مشورہ دیں کہ آپ کا ایک مشورہ کسی کی زندگی میں صحت کی بہاریں لا سکتا ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کراچی: 2015 کا سال کراچی کے لیے ایک ’انوکھا‘ سال تھا۔ اس سال جب رمضان شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی قیامت خیز گرمی شروع ہوگئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 1 ہزار سے زائد جانیں لے لیں۔ اس قدر شدید گرمی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک بالکل نئی بات تھی چنانچہ اسے سمجھنے اور اس سے بچاؤ کے اقدامات اٹھانے میں وقت لگا اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

    شہر میں ہنگامی بنیادوں پر سرکاری و نجی اسپتالوں میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے اور 3 دن بعد جب ہیٹ ویو ختم ہوئی تو یہ اپنے ساتھ 1700 جانیں لے چکی تھیں۔

    گرمی کی اس شدید لہر نے تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو اب ہر سال کراچی کے موسم کا حصہ ہوں گی اور یہ لہر ایک بار نہیں بلکہ بار بار آئیں گی۔ اس وارننگ نے سب کو اور پریشان کردیا۔

    بہرحال 2016 کے آغاز سے ہی ہیٹ ویو کے خلاف مؤثر اقدامات شروع کردیے گئے اور بڑے پیمانے پر آگہی مہمات چلائی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رواں برس اب تک آنے والی ہیٹ ویو میں صرف 3 افراد ہلاک ہوئے۔

    ہیٹ ویو کیا ہے؟

    کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے، جو ایک صنعتی حب بن چکا ہے اور درختوں کی کٹائی روز بروز جاری ہے، اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ ہیٹ ویو کیا ہے؟

    ہیٹ ویو موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے باعث پیدا ہونے والا ایک عمل ہے۔ کسی مقام کے ایک اوسط درجہ حرارت میں 5 سے 6 ڈگری اضافہ ہوجائے، ساتھ ہی ہوا بند ہوجائے، اور یہ عمل مستقل 3 سے 5 دن جاری رہے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔ اس کا پیمانہ ہر مقام کے لیے مختلف ہے۔

    مثال کے طور پر نیدرلینڈز میں واقع ڈی بلٹ علاقہ کا اوسط درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اگر اس کا درجہ حرارت بڑھ کر 30 ہوجائے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاسکتا ہے۔

    کراچی کا جون (گرمی) کے مہینے میں اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن گذشتہ برس یہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا جس نے شہر کو تپتے دوزخ میں تبدیل کردیا۔

    عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ؟

    اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی صنعتی ترقی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مسائل کا بھی آغاز ہوگیا جس میں سے ایک آبادی کا دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنا تھا۔ اس سے شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، رہائش و دیگر سہولیات کے لیے تعمیرات شروع ہوئیں جس کے لیے درختوں، جنگلوں کو کاٹا گیا اور پارکس کی جگہ ختم کی گئی، شہر کے انفراسٹرکچر پر منفی اثر پڑا اور شور، فضا کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

    ان صنعتوں سے جن گیسوں کا اخراج شروع ہوا اس نے شہر کی فضا کو آلودہ کیا، انسانوں کی صحت پر منفی اثر ڈالا، جنگلی حیات کو نقصان پہنچایا، اور مجموعی طور پر شہروں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

    ان گیسوں نے اوزون کی تہہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اوزون آسمان کے نیچے وہ تہہ ہے جو سورج کی روشنی کو براہ راست زمین پر آنے سے روکتی ہے۔ اس تہہ کی خرابی سے بھی سورج کی روشنی زمین پر زیادہ آنے لگی اور یوں گرمی میں اضافہ ہوگیا۔

    کراچی اس حوالے سے دہرے خطرات کا شکار ہے۔ ایک جانب میٹرو پولیٹن شہر ہونے کے باعث عمارتوں کا جنگل ویسے ہی اس شہر کی سانس بند کیے ہوئے ہے، دوسری جانب چونکہ یہ ساحلی شہر ہے، اور گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے، تو کراچی کو ایک بڑے سونامی کا بھی خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافے کے باعث کراچی کے کئی ساحلی گاؤں اپنی زمین کھو چکے ہیں جبکہ کچھ دیہاتوں کا اگلے چند سالوں میں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا امکان ہے۔

    گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    کراچی ہیٹ ویو سے کیسے نمٹا گیا؟

    تاہم یہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ بھی شہروں کی نفسیات تبدیل کردے گا اور انہیں اپنے ترقیاتی منصوبے اس اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانے ہوں گے۔

    یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ 2015 میں کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو پر کس طرح قابو پایا گیا۔

    سال 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کے بعد ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ لہر اگلے سال، اور ہر سال آئے گی اور کراچی کے شہریوں کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ چنانچہ 2016 کے آغاز سے ہی تمام متعلقہ ادارے الرٹ تھے اور شروع سال سے ہی اس پر کام ہو رہا تھا۔

    گرمیوں کے آغاز سے ہی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کردی گئی جس میں لوگوں کو ہیٹ ویو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر، اس کا شکار ہونے کی صورت میں اس کی علامات اور اس کے بعد جان بچانے کے اقدامات اٹھانے کے بارے میں بتایا گیا۔

    ان آگاہی پیغامات میں لوگوں کو دن کے اوقات میں گھر سے باہر نکلنے، دھوپ کے چشمے اور ہیٹ استعمال کرنے، پانی زیادہ پینے، زیادہ مشقت کا کام نہ کرنے کا کہا گیا جبکہ ہیٹ ویو کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں قریبی ہیٹ ریلیف سینٹرز کے بارے میں بتایا گیا۔

    محکمہ موسمیات کو الرٹ رکھا گیا جس کے باعث ہیٹ ویو شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی عوام کو آگاہ کردیا گیا۔

    حکومت کی جانب سے ڈیزاسٹر ریلیف مینجمنٹ کے تحت سرکاری اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کیے گئے۔ گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے باعث اسکول اور کالجوں میں بھی یہ سینٹرز قائم کیے گئے۔

    مختلف تنظیموں کی جنب سے شہر بھر میں واٹر اسپاٹس قائم کردیے گئے جہاں سے ہیٹ ویو کے دنوں میں شہروں کو مفت پانی کی بوتلیں فراہم کی گئیں۔

    مختلف سرکاری و غیر سرکاری ایمبولینس سروسز بھی الرٹ رہیں جس کے تحت تمام علاقوں کے مرکزی مقامات پر تیار ایمبولینس کھڑی رہیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں فوری مدد کو پہنچا جاسکے۔

    ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات کی وجہ چونکہ درختوں اور سایہ دار جگہوں کی عدم فراہمی تھی لہٰذا کمشنر کراچی کی جانب سے کسی بھی مقام پر درخت کٹنے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا گیا اور اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن 1299 قائم کی گئی جس پر درخت کٹنے کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔

    چونکہ عوام خود بھی ہیٹ ویو کی تباہ کاری سے خوف زدہ تھی چنانچہ رواں برس تمام احتیاطی تدابیر اٹھائی گئیں اور یوں 2015 کی 1700 اموات کے مقابلے اس سال ہیٹ ویو سے صرف 3 اموات ہوئیں۔

    یہاں کراچی کے جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا ذکر ضروری ہے جن کے مطابق ’کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کے باعث اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوا بنانے کی ضرورت نہیں۔ خوف مت پھیلائیں، آگہی پھیلائیں کہ لوگوں کو کیسے بچنا ہے‘۔

    مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماحولیاتی شعبہ میں دو اصلاحات استعمال کی جاتی ہیں، مٹی گیشن یعنی کمی کرنا اور ایڈاپٹیشن یعنی مطابقت پیدا کرنا۔

    کلائمٹ چینج ایک نیم قدرتی عمل ہے چنانچہ اسے روکنا یا اس میں کمی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس سے مطابقت پیدا کرنی ازحد ضروی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کی ہیٹ ویو پر اٹھائے جانے والے تمام اقدامات عارضی ہیں اور کسی خاص موقع پر انہیں اپنا کر زندگیاں تو بچائی جا سکتی ہیں تاہم مستقل بنیادوں پر گلوبل وارمنگ سے مطابقت کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے شہر کو ایک طویل المعیاد اور پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں ماحولیاتی خطرات کو سرفہرست رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    موسم کی شدت سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ماہرین کچھ تجاویز اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

    شہر بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔ کراچی میں شجر کاری تو کی جارہی ہے مگر بدقسمتی سے لگائے جانے والے درخت کونو کارپس کے ہیں۔ کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ یہ کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ کونو کارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ نیم کے درخت لگائے جائیں جو شہر کے درجہ حرارت کو معتدل رکھیں گے۔

    پرانی نہروں اور ندیوں کا احیا کیا جائے۔ یہاں کراچی کی ایک مشہور نہر ’نہر خیام‘ کا تذکرہ ضروری ہے جو حکومت اور عوام کی غفلت کے باعث گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہی حال لیاری ندی کا ہے جبکہ کراچی کی ایک بڑی ملیر ندی میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی خارج کیا جاتا ہے۔

    ہیٹ ریلیف سینٹرز کو سال بھر فعال رکھا جائے اور بڑے پیمانے پر ڈاکٹرز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے۔

    محکمہ موسمیات کو تمام جدید ٹیکنالوجیز سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ بر وقت موسم کی شدت سے خبرادر کر سکیں۔

    حکومتی اداروں جیسے کے الیکٹرک اور مقامی واٹر بورڈ کے سیاسی استعمال سے گریز کیا جائے اور ان کی استعداد بڑھائی جائے تاکہ گرمی کے دنوں میں یہ عوام کو بجلی اور پانی فراہم کر سکیں۔

    سایہ دار جگہیں قائم کی جائیں۔ اس کی ایک مثال بھارت کے شہر ناگپور میں دیکھی گئی جہاں سگنلز پر سبز ترپال تان دیے گئے۔ یوں یہ سنگلز سایہ فراہم کرنے والے مقامت بن گئے۔ اس تدبیر سے ٹریفک قوانین کی عملداری میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔

    ماہرین گرمی سے بچاؤ کی ایک تجویز گرین روف ٹاپ بھی دیتے ہیں۔ یہ طریقہ اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے۔ اس کے ذریعہ گھروں کی چھتوں پر سبز گھاس، درخت اور پھول پودے لگائے جاسکتے ہیں جس سے گھر قدرتی طور پر ٹھنڈے رہیں گے اور پنکھوں اور اے سی کا استعمال بھی کم ہوگا۔

    ایک اور طریقہ ورٹیکل یا عمودی گارڈننگ کا بھی ہے۔ اس کے ذریعہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دیواروں میں بیلیں اور سبزہ اگایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی گھروں اور دفتروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ اگلے چند سال میں دنیا کے لیے امن و امان اور دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں فطرت میں تبدیلی دنیا میں غربت، بے روزگاری، شدت پسندی اور جنگوں کو فروغ دے سکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے مطابقت پیدا کی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔

  • ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گوبل وارمنگ جہاں انسانوں کے لیے خطرہ ہیں وہیں جنگلی حیات کو بھی اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ جنگلی حیات کی کئی نسلوں کو ان عوامل کے باعث معدومی کا خدشہ ہے، تاہم امریکا میں ایک معدومی کے خطرے کا شکار لومڑی خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔

    اس بات کا اعلان امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے کیا۔ حکام کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی اس قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

    مزید پڑھیں: معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    حکام کے مطابق یہ بحالی امریکا کے ’خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت کے ایکٹ‘ کی 43 سالہ تاریخ کا پہلا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنی تیزی سے کوئی اور ممالیہ جانور خود کو خطرے کی زد سے باہر نہیں نکال پایا۔

    واضح رہے یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    یاد رہے کہ ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔