Category: سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق تازہ ترین خبریں اور معلومات

SCIENCE AND TECHNOLOGY NEWS IN URDU

  • برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    لندن: برطانیہ میں سپر مارکیٹس میں استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز پر حکومت کی جانب سے قیمت وصول کی جانے لگی جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔

    یہ اقدام ماحول کو پلاسٹک سے درپیش خطرات اور اس کے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ برس اکتوبر میں اٹھایا گیا۔ ایک پلاسٹک بیگ کی قیمت 5 پاؤنڈ رکھی گئی تھی اور یہ قانون تجرباتی طور پر لندن کی 7 بڑی سپر مارکیٹوں پر نافذ کیا گیا۔

    p3

    اس سے قبل ان سپر مارکیٹس نے اپنے گاہکوں کے استعمال کے لیے 7 بلین کے قریب پلاسٹک بیگز بنوائے لیکن اس اقدام کے صرف 6 ماہ بعد ان سپر اسٹورز نے صرف 5 ملین بیگز ہی منگوائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیمت کی وصولی کے باعث گاہکوں نے شاپنگ بیگ لینا چھوڑ دیا۔

    یہ اعداد و شمار برطانیہ کے شعبہ برائے ماحولیات، غذا اور دیہی امور ڈیفرا کی جانب سے جاری کیے گئے۔

    صرف 6 ماہ قبل اٹھایا جانے والا یہ قدم صرف سپر مارکیٹس کے لیے تھا۔ چھوٹی دکانیں اس سے مستشنیٰ تھیں۔

    برطانیہ کے وزیر ماحولیات تھریس کوفے نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 6 بلین کی کمی ایک خوش آئند بات ہے۔ اس سے ہماری سمندری حیات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی کم ہوگا، جبکہ ہمیں ایک صاف ستھرا ماحول میسر ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک مثال ہے کہ ایک چھوٹے سے قدم سے آپ کتنی بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں۔

    اس سے قبل برطانیہ میں پلاسٹک بیگز کے استعمال کی شرح 140 فی شخص ماہانہ تھی، جبکہ اس کی کل مقدار 61000 ٹن تھی۔ ایک ہفتہ میں ان 7 سپر اسٹورز سے 3 ملین پلاسٹک بیگز گاہکوں کو دیے جاتے تھے۔

    p4

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    ساحلوں پر پھینکی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    p1

    کچھ سمندری حیات پلاسٹک کو کھا بھی لیتی ہیں جس سے فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ماہرین پلاسٹک بیگ کے متبادل کے طور پر کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہیں جو کافی عرصہ تک استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جسے اگر ہزاروں سال بھی زمین میں دفن رکھا جائے تب بھی یہ کبھی زمین کا حصہ نہیں بنتی۔ یہ ہمیشہ جوں کی توں حالت میں رہتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔

  • بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    جنیوا: عالمی اقتصادی فورم ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات والے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں وسطی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے ہر روز 18 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ یہ شرح 6.5 ملین ہے اور یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور سڑک پر ہونے والے حادثات کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

    pollution-2

    فضائی آلودگی صنعتوں اور ٹریفک کے دھویں، سگریٹ نوشی اور کھانا پکانے کا دھویں کے باعث پیدا ہوتی ہے اور یہ انسانی صحت کو لاحق چوتھا بڑا جان لیوا خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی سے ایشیا اور افریقہ میں قبل از وقت اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا اور یورپ میں اس شرح میں کمی آئی ہے۔

    فضائی آلودگی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے مگر چند ممالک میں یہ بلند ترین سطح پر ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے ان 10 ممالک کی فہرست جاری کی ہے جہاں آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔

    فہرست میں جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کی اموات کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

    pollution-3

    شمالی کوریا 235 افراد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ شمالی کوریا کی فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ایندھن کی ضروریات کے لیے کوئلے کا استعمال ہے۔ 2012 میں شمالی کورین کوئلے کی صنعت نے 65 ملین ٹن کاربن کا اخراج کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    بوسنیا ہرزگووینیا 224 افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ یہاں آلودگی کی بڑی وجہ ٹریفک کا دھواں ہے۔

    بلغاریہ 175 افراد کے ساتھ چوتھے، البانیہ 172 افراد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت چین میں فضائی آلودگی کے باعث 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اور فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی کی وجہ ہے۔

    pollution-1

    ساتویں نمبر پر افریقی ملک سیرالیون 143 اموات کے ساتھ ہے۔ یہاں گھروں کے اندر جلایا جانے والا ایندھن فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔

    یوکرین 140 افراد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ یوکرین میں گرمیوں کے موسم میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں جس کے باعث فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ

    رومانیہ 139 افراد کے ساتھ نویں جبکہ سربیا 138 اموات کے ساتھ دسویں نمبر پر موجود ہے۔

    فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ صنعتوں سے نکلنے والا کاربن کا اخراج ہے جس کے سدباب کے لیے رواں سال کے آغاز میں ایک معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کیے گئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق 195 ممالک نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتوں سے خارج ہونے والا کاربن عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرچکا ہے اور یوں کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کے خلاف کی جانے والی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔

  • شمسی توانائی سے چلنے والے طیارے نے دنیا کا چکر مکمل کرلیا

    شمسی توانائی سے چلنے والے طیارے نے دنیا کا چکر مکمل کرلیا

    ابو ظہبی: شمسی توانائی سے چلنے والا طیارہ سولر امپلس ٹو دنیا کے گرد چکر مکمل کر کے ابوظہبی پہنچ گیا، طیارے نے دنیا کے گرد 42 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا۔

    SOLAR POST 1

    تفصیلات کے مطابق شمسی توانائی سے چلنے والا طیارہ سولر امپلس ٹو دنیا کا چکر مکمل کر کے ابو ظہبی پہنچ گیا، ابو ظہبی پہنچنے پر طیارے کا شاندار استقبال کیا گیا۔ طیارے نے دنیا کے گرد 42 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا۔

    SOLAR POST 5

    طیارہ آخری مرحلے میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 2 روز قبل روانہ ہوا تھا۔

    طیارے نے انیس ماہ میں دنیا کے گرد بیالیس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ کامیابی سے طے کیا، بوئنگ سیون فور سیون جتنے پروں کی لمبائی والا طیارہ رات کے وقت چار بیٹریز سے سفر کرتارہا، اسے تیار کرنے والے ماہرین نے اسے ماحول دوست قرار دیا ہے۔

    SOLAR POST 3

    سولر امپلس اب تک 30 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے شمسی توانائی کی مدد سے دنیا کا چکر لگانے والا پہلا طیارہ بن گیا ہے۔

    قاہرہ سے ابوظہبی کی پرواز اس کے سفر کا 17واں اور آخری مرحلہ تھا، جس کے دوران اس نے بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس کو عبور کیا ہے جبکہ اپنے سولہویں مرحلے کے سفر میں اسپین کے شہر سویل سے مصر روانہ ہوا تھا، اپنی اس پرواز کے دوران جہاز نے بحیرہ روم عبور کیا۔

    SOLAR POST 2

    SOLAR POST 6

    پوری دنیا کے گرد چکر لگانے کے مشن میں دو پائلٹوں نے باری باری پرواز کی، آندرے بوشبرگ سولر امپلس ٹو کو قاہرہ لے گئے جبکہ برٹرینڈ پیکارڈ نے ایسے آخری منزل تک پہنچایا۔

    اس میں سے سب سے طویل سفر جاپان کے شہر نگویا سے امریکہ میں ہوائی کے درمیان کا تھا۔ یہ سفر 118 گھنٹوں میں مکمل ہوا تھا۔

    یاد رہے کہ سولر امپلس نے اپنا سفر گذشتہ سال مارچ میں ابوظہبی سے ہی شروع کیا تھا تاہم بیٹریوں میں خرابی کی وجہ سے اسے کافی مدت ورکشاپ میں گزارنا پڑی تھی۔

  • مچھلیاں انسانی چہروں کو شناخت کرسکتی ہیں

    مچھلیاں انسانی چہروں کو شناخت کرسکتی ہیں

    میلبرن: حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ مچھلیوں کی ایک قسم انسانی چہروں میں امتیاز کرسکتی ہے۔ یہ خصوصیت ان کے دماغ میں چہروں کو پہچاننے والے حصہ کیوریکل نیوکورٹکس کی عدم موجودگی کے باوجود پائی جاتی ہے۔

    یہ تحقیق لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی کی جانب سے مشترکہ طور پر کی گئی۔ اس سے قبل یہ تصور کیا جاتا تھا کہ انسانوں کو پہچاننے کی خاصیت جسمانی طور پر ترقی یافتہ جاندار جیسے بندروں میں ہی ہوتی ہے۔

    fish-3

    یہ تحقیق آرچر فش پر کی گئی جو آسٹریلیا اور جنوب مشرقی ایشیائی پانیوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ مچھلی کیڑوں کا شکار کرنے کے لیے منہ سے پانی کی تیز دھار ہدف پر پھینکتی ہے۔

    لیبارٹری میں کیے جانے والے ٹیسٹ میں اس مچھلی کو دو افراد کی تصاویر دکھائی گئیں اور تربیت دی گئی کہ وہ ان میں سے کسی ایک پر پانی کی دھار پھینکیں۔

    مچھلی نے ہر بار اجنبی چہرے کو اپنا نشانہ بنایا۔ شناسا چہرے میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں جیسے چہرے کی ساخت یا بالوں کے رنگ میں تبدیلی، تاہم ان سب کے باوجود مچھلی نے اسے پہچان لیا۔

    اسی قسم کے ایک اور تجربہ میں پکاسو ٹریگر فش نے سفید اشیا سے بھری میز پر ایک سیاہ جسم کو شناخت کرلیا۔

    fish-2
    پکاسو ٹریگر فش

    ماہرین نے بتایا کہ یہ مچھلیاں اپنے مسکن کو ان کی رنگت اور ساخت سے پہچانتی ہیں لیکن کورل ریف کی بلیچنگ (مونگے کی چٹانوں کی رنگت کھو جانے) کے باعث ان کے رہنے کی جگہیں بھی اپنی رنگت کھو رہی ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ اس عمل کے بعد بھی آیا یہ مچھلیاں اپنے گھروں کو پہچان سکیں گی یا نہیں۔

    سائنسدانوں نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ مچھلیوں کے دماغ کی بناوٹ نہایت سادہ ہوتی ہے اور وہ زیادہ افعال سر انجام نہیں دے سکتا۔ اس کے باوجود وہ انسانی چہروں کو شناخت کر سکتی ہیں۔


     

  • گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

    واضح رہے کہ حال ہی میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔

    حال ہی میں ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک پیشن گوئی میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔

    birds

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے، کچھ ناکام ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی نسل معدوم ہونے لگے گی۔

    انہوں نے واضح کیا کہ اگر درجہ حرارت میں اضافے کا رجحان ایسے ہی جاری رہا تو 2050 تک دنیا سے ایک چوتھائی جنگلی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    wildlife-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث جہاں دنیا کو قدرتی آفات میں اضافے کا خطرہ لاحق ہے وہیں جانور بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    اس سے قبل کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث 1999 میں سینٹرل امریکا کا آخری سنہری مینڈک بھی مرچکا ہے جسے کلائمٹ چینج کے باعث پہلی معدومیت قرار دی گئی ہے۔

    polar-bear

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث قطب شمالی کی برف بھی پگھل رہی ہے جس سے برفانی ریچھوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث کئی امریکی ریاستوں میں پائے جانے والے پرندے وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ وہ پرندے تھے جو ان ریاستوں کی پہچان تھے مگر اب وہ یہاں نہیں ہیں۔

  • واشنگٹن : پائریسی کی ویب سائٹ کا مالک گرفتار

    واشنگٹن : پائریسی کی ویب سائٹ کا مالک گرفتار

    واشنگٹن : امریکی حکام نے دنیا کی سب سے بڑی آن لائن پائریسی کی ویب سائٹ چلانے کے الزام میں یوکرینی شخص پر فرد جرم عائد کر دی.

    تفصیلات کے مطابق یوکرینی شہری آڑٹم ویلن فائل شیئرنگ ویب سائٹ کسکاس ٹورینٹ کے مالک ہیں اور اُن پر منی لانڈنگ اور کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کا الزام ہے کہ انہوں نےگذشتہ آٹھ برسوں میں ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی موسیقی اور فلم کو آن لائن غیر قانونی طریقے سے جاری کیا ہے.

    امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کسکاس ٹورینٹ دنیا کی 28 زبانوں میں مواد فراہم کرتا ہے اور اسے کی مجموعی مالیت پانچ کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے زائد ہے.

    امریکہ کی اٹارنی زیکری فردون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’اتنے بڑے پیمانے پر کاپی رائٹس کی خلاف ورزی ہے،انسان،کوئی فنکار،یا کاروباری شخص جس کا گزر بسر اُس کی تخلیقی ایجادات پر ہوتا ہو،انہوں نے کہا کہ ’ویلن مبینہ طور پر انٹرنیٹ کے استعمال سے ان آرٹسٹوں کو نقصان پہنچاتے تھا.

    کیٹ ٹورینٹ خود اپنے سرور پر غیر قانونی مواد نہیں رکھتا لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے وہ لنک فراہم کرتا ہے جس سے صارف بغیر اجازت کے خود ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں.

    امریکہ کے محکمہ انصاف ان دنوں انٹرنیٹ پر فائل شیئر کرنے والے مقدمات پر غور کر رہا ہے،ایسی ہی ایک ویب سائٹ ’میگا اپ لوڈ‘ کے بنی کم ڈاٹکام کے بانی کو بھی امریکہ منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.

    امریکی حکام کا کا کہنا ہے کہ میگا ڈاٹ کام کی وجہ سے کمپنیوں کو 50 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے.

    واضح رہے کہ ایک ویب مانیٹرنگ فرم کے مطابق کسکاس ٹورینٹ کی ایک ڈومین کا شمار دنیا کی 70 مقبول ترین ویب سائٹس میں ہوتا ہے.

  • گھروں کو سینما بنانے والے وی سی آر کا دور اختتام پزیر

    گھروں کو سینما بنانے والے وی سی آر کا دور اختتام پزیر

    ٹوکیو:صارفین کو گھر پر سینما کا ماحول فراہم کرنے والا وی سی آر کا دور اختتام پزیر ہوگیا وی سی آر بنانے والی آخری کمپنی نے بھی مزید وی سی آر نہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔

    گھروں میں فلمیں دیکھے کے لیے استعمال اور صارفین کو تفریح فراہم کرنے والی پہلی چیز وی سی آر تھی لیکن وی سی آر بنانے والی آخری جاپانی کمپنی نے بھی گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ اب مزید وی سی آر مینوفیکچرر نہیں کرے گی، اس سے کئی سال قبل تمام کمپنوں نے وی سی آر بنانا بند کردیا تھا۔

    VCR-post-2

     

    امریکی نیوز چینل کے مطابق جاپان کی فونائی الیکٹرک کمپنی نے رواں ماہ کے آخر تک فروخت میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید وی سی آر نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، کمپنی کے مطابق گزشتہ برس شمالی امریکہ میں وی سی آر ڈیلرز نے 750000 یونٹ فروخت کئے تھے، یہ کمپنی سن 1983 سے وی سی آر بنا رہی تھی۔

     

    VCR-post-3

    ستر اور اسی کی دہائی میں الیکٹرانک میڈیا کی جدید ایجاد وی سی آر نے فلم بینوں میں جلد ہی مقبولیت پائی، اس کے باعث فلم بین اپنی پسند مرضی، سہولت اور وقت کے لحاظ سے فلم دیکھنے کی سستی سہولت حاصل کر پائے تھے،بلکہ اس سے ایک قدم بڑھتے ہوئے عام شائقین اپنی خاندانی تقریبات کی فلم بندی کے بعد محفوظ کروالیا کرتے تھے اور ان یادگار لمحات سے بار بار اور کئی سالوں بعد بھی ماضی کے لمحات سے لطف و اندوز ہوا کرتے تھے۔

    VCR-post-1

    تا ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس صنعت میں بھی جدت آئی اور نوے کی دہائی میں سی ڈی اور ڈی وی ڈی کے آمد کے بعد وی سی آر کی مانگ میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی تھی ، بریف کیس نما دکھائی دینے والے وی سی آر کے مقبولیت میں کمی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ جدید دور میں صارفین آسانی اور جگہ کم گھیرنے کے باعث ڈی وی ڈی ، بلیو رے اور براہ راست ویڈیو اسٹریمنگ کو ترجیح دیتے ہیں،جس سے یہ صنعت روبہ زوال ہونا شروع ہو گئی۔

  • سرائیوو: ’پوکےمون تلاش کرنے والے بارودی سرنگوں سے محتاط رہیں‘

    سرائیوو: ’پوکےمون تلاش کرنے والے بارودی سرنگوں سے محتاط رہیں‘

    سرائیوو : بوسنیا کی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ مقبول موبائل فون گیم پوکےمون گو کھیلتے ہوئے ان علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے جہاں جنگ کے دوران بارودی سرنگیں بچھائی گئیں تھیں.

    تفصیلات کے مطابق بوسنیا میں 1990 کی دہائی کے دوران بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو نکالنے والے فلاحی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ گیم کھیلتے ہوئے کئی افراد خطرناک علاقوں میں گئے ہیں.

    بوسنیا میں 1995 میں جنگ ختم ہونے کے بعد سے بارودی سرنگوں کے حادثے میں کم سے کم چھ سو افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اب تک مختلف علاقوں سےایک لاکھ بیس ہزار بارودی سرنگیں نکالی گئی ہیں.

    یاد رہےاس گیم میں سمارٹ فون کا استعمال کرتے ہوئے حقیقی دنیا میں چھپے ایک کردار کو دریافت کرنا ہوتا ہے،جیسے جسیے سمارٹ فون گیم پوکےمون گو مقبول ہو رہی ہے ویسے ہی ویسے مختلف حادثات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے.

    لینڈ مائینگ کے خلاف سرگرم فلاحی تنظیم نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’ہمیں کچھ ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ بوسنیا میں پوکےمون گو ایپ استعمال کرنے والے پوکےمون کی تلاش میں ایسے علاقوں میں گئے جہاں بارودی سرنگوں کا خطرہ ہے۔‘

    انہوں نے’عوام پر زور دیا ہے کہ خطرناک علاقوں میں لگے سائن بورڈ کا خیال رکھیں اور انجان علاقوں میں مت جائیں۔‘

    واضح رہےکہ اس سے قبل امریکہ میں دو ایسے لڑکوں کو چور سمجھ کر ان پر فائرنگ کی گئی تھی جو رات کو گیم کے کردار کو ڈھونڈ رہے تھے.

  • گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے 2030 تک کم از کم 2 کھرب پاؤنڈز کے نقصان کا اندیشہ ہے۔

    یہ رپورٹ اقوام متحدہ، اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی میں اضافے کی وجہ سے کھلی فضا میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا جس کے باعث دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثر پڑے گا۔

    lanour-new

    رپورٹ کے مطابق مشرقی ایشیائی ممالک میں خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافے کے بعد سالانہ اوقات کار میں 20 فیصد تک کمی ہوجائے گی۔

    جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 43 ممالک جن میں زیادہ تر ایشیائی ممالک ہیں، کو اپنی کل مجموعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہوگا۔

    ان 14 سالوں میں چین اور بھارت کو سالانہ تقریباً 340 بلین پاؤنڈز جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کو 188 بلین اور تھائی لینڈ کو 113 بلین پاؤنڈز کا نقصان اٹھانا ہوگا۔

    کلائمٹ چینج کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ *

    رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر ٹورڈ کیلسٹورم کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہماری روزمرہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہوگا۔ ’جتنی زیادہ گرمی ہوگی، ہمارے کام کرنے کی رفتار اتنی ہی کم ہوجائے گی۔ کئی ممالک میں صرف چند روز کے لیے ہیٹ ویو آئی اور اس سے ان ممالک کی معیشتوں کو اربوں کا نقصان پہنچا‘۔

    global-warming

    تاہم دیگر ماہرین کی طرح انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اگر ہم ہنگامی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کریں تو ہم اس نقصان میں کسی حد تک کمی کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر وہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے مطمئن نہیں۔ ’یہ اقدامات ابھی بھی کم ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اب سے 40 سال بعد اس کے لیے اقدامات کریں گے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں‘۔

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج اور اس کے باعث ہونے والی گلوبل وارمنگ کو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اس وقت دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

    گلوبل وارمنگ: شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کرچکا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔