Category: سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی

سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق تازہ ترین خبریں اور معلومات

SCIENCE AND TECHNOLOGY NEWS IN URDU

  • کیا دنیا میں کہیں سونے کے پہاڑواقعی پائے جاتے ہیں؟

    کیا دنیا میں کہیں سونے کے پہاڑواقعی پائے جاتے ہیں؟

    جب کبھی بھی بلوچستان کے معدنی وسائل کے متعلق بات آئے تو یہ بات سننے میں آتی ہے کی بلوچستان میں سونے کے پہاڑ پائے جاتے ہیں جو کہ درحقیقت ایک مضحکہ خیز بات ہے- آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سونا قدرتی ماحول میں دراصل کس شکل میں پاپا جاتا ہے۔

    دراصل سونا ایک نایاب عنصر ہے جو کہ مختلف آتشی اور متغیر چٹانوں کے علاوہ ان علاقوں کے آس پاس پائے جانے والے دریاؤں اور نالوں کی ریت میں بھی پاپا جاتا ہے- سونا زیادہ تر دوسری منرلز کے ساتھ انتہائی چھوٹے زرات کی شکل میں ملتا ہے- قدرتی ماحول میں سونا چھوٹے چھوٹے خالص Gold Nuggets کی شکل میں بھی ملتا ہے جن کا وزن چند سو گرام تک ہو سکتا ہے لیکن یہ عموماً چند گرام تک ہی محدود ہوتا ہے- یہ Gold Nuggets زیادہ تر دریائی ریتوں میں ملتے ہیں اور ان کو ڈھونڈنا اتنا آسان کام نہیں کیونکہ یہ اتنے عام نہیں ہیں۔

    قدرتی ماحول میں ملنے والا زیادہ تر سونا دوسری منرلز کے ساتھ ملتا ہے لیکن یہ سونا بہت ہی کم مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ یہ کتنی کم مقدار میں پایا جاتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے تصور کریں کہ اگر ہم اس منرل (جس کے اندر سونا پایا جاتا ہے) کے دس لاکھ زرات لیں تو اس میں سےصرف دس یا بیس زرات سونے کے ہوں گے- دنیا میں اس طرح کے سب سے بڑے High grade ذخائر ریڈ لیک مائن اونٹاریو کینیڈا میں پائے جاتے ہیں جہاں 1000 کلو گرام منرل کے ساتھ 57گرام سونا ملتا ہے- اس طرح کے سونے کو پراسس کر ے نکالا جاتا ہے لیکن یہ کام بہت مشکل اور مہنگا ہے۔

    پتھروں میں سونا بہت ہی خاص کیسرز میں نظر آتا ہےعموماُ اس کو ننگی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا اور اس کی موجودگی کوصرف اور صرف مختلف آلات اور ٹیسٹوں کے زرہعے ہی پرکھا جاتا ہے۔

    سونے کے پہاڑ والی بات کے غلط ہونے اندازہ اس پات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جو چیز خود ننگی آنکھ سے نظر نہ آئے بھلاوہ پہاڈ کیسے بنائے گی- البتہ انٹرنیٹ پہ لوگ لوہے کی ایک منرل پائیرائیٹ کی تصاویرلگا کر اسے سونا بتاتے ہیں جو کہ دیکھنے میں عام آدمی کو واقعی سونا لگتا ہے۔ یہ قدرتی ماحول میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے اور ہاں اس کے پہاڑ بھی ملتے ہیں۔

    اگر بلوچستان میں سونے کی بات کی جائے تواکثر رکوڈک کا زکر آتا ہے جو کہ واقعی تانبے اور سونے کے بہت پڑے زخائر ہیں- لیکن لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ بلوچستان میں موجود  تانبے کی بیلٹ میں رکو ڈک جیسے 14 اور زخائر بھی موجود ہیں۔

  • لندن سے نیویارک کا سفر ڈھائی گھنٹےمیں طے کرنے والا طیارہ

    لندن سے نیویارک کا سفر ڈھائی گھنٹےمیں طے کرنے والا طیارہ

    لندن : عام جہاز سے لندن سے نیویارک کا سفرسات گھنٹے میں طے ہوتا ہے،مگر اسکر وینیلز نامی ڈیزائنر ایسے طیارے کی تیاری کررہے ہیں جو 2300میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر طے کرے گا.

    تفصیلات کے مطابق ایسے سپر سانک طیارے پر کام ہورہا ہے جو اتنا طویل سفر بہت جلد طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا یعنی کراچی سے لندن کا طویل سفر بھی تین گھنٹوں میں ممکن ہوسکے گا.

    آسکر وینیلز نامی ڈیزائنر فلیش فیلکن نامی طیارے کی تیاری پر کام کررہے ہیں،جس کی حد رفتار 2301 میل فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے.

    اس طیارے کی ناک اور پر ایسے ڈیزائن کیے گئے ہیں جو ہوا کے بہاﺅ پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ شاک ویوز کو بھی عبور کرسکتا ہے.

    یہ طیارہ ٹو ڈیک پر مشتمل ہوگا اور اس میں ایک وقت میں ڈھائی سو مسافر سفر کرسکیں گے،اور ہاں اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر کی طرح عمودی انداز سے ٹیک آف اور اتر سکے گا.

    PLANE POST 1

    واضح رہے کہ اس طیارے کی تیاری میں فیوژن ری ایکٹر کو استعمال کیا جائے گا تاکہ دوران پرواز ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسیں خارج نہ کرے،یعنی یہ ماحول دوست طیارہ ہوگا جو روایتی فضائی سفر کا متبادل ثابت ہوگا.

  • اسلام آباد : فور جی کے بعد فائیو جی ٹیکنالوجی آئندہ سالوں میں متعارف کی جائےگی،اسمائیل شاہ

    اسلام آباد : فور جی کے بعد فائیو جی ٹیکنالوجی آئندہ سالوں میں متعارف کی جائےگی،اسمائیل شاہ

    اسلام آباد: پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اسماعیل شاہ نے کہا ہے کہ صارفین کو آئندہ چند برسوں میں فائیوجی ٹیکنالوجی دستیاب ہوگی،دنیا بھر کی ٹیلی کام اتھارٹیز کو جدید ٹیکنالوجیز کے باعث بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کے اشتراک سے عالمی ٹیلی کام کانفرنس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی اے چیئرمین نے کہا کہ ٹیلی کام میں پوری دنیا جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہے جس سے دنیا بھر کی ٹیلی کام اتھارٹیز کو بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے.

    ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دنیا میں ابھی فائیو جی ٹیکنالوجی کمرشل بنیادوں پر متعارف نہیں ہوئی،بعض ممالک نے آزمائشی طور پر فائیو جی کے حوالے سے تجربات شروع کیے ہیں،پاکستان میں آئندہ برسوں میں فائیو جی کی بروقت فراہمی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں.

    ڈاکٹر اسماعیل شاہ نے کہا کہ آئی ٹی اور ٹیلی کام کا استعمال بینکنگ،صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے،پاکستان خطے میں انٹرنیٹ کے استعمال اور فروغ کے حوالے سے دیگر ممالک سے بہت آگے نکل چکا ہے.

  • ایسا آفس جہاں پھل اور سبزیاں اگتی ہیں

    ایسا آفس جہاں پھل اور سبزیاں اگتی ہیں

    کیا آپ نے کبھی دفتر میں پھلوں اور سبزیوں کو اگتے دیکھا ہے؟ شاید یہ تصور بہت عجیب سا ہے لیکن جاپان میں یہ ایک حقیقت ہے۔

    دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے شہر ٹوکیو میں ایک کمپنی نے اپنے 43000 فٹ اسکوائر دفتر میں زراعت شروع کردی اور مختلف قسم کے پھل اور سبزیاں اگالیں۔

    t5

    t4

    کمپنی نے یہ قدم ’گرو یور اون فوڈ‘ یعنی اپنی غذا خود اگاؤ کے اصول کے تحت اٹھایا ہے۔ واضح رہے کہ پورے جاپان میں قابل زراعت زمین کا رقبہ صرف 12 فیصد ہے۔

    اس دفتر میں چاولوں سمیت 200 قسم کی پھل اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔

    t3

    t2

    یہ زراعت زیادہ تر عمودی انداز میں کی گئی ہے یعنی سبزیوں اور پھلوں کو دیوار پر اگایا گیا ہے۔ یہ جدید انداز کی ایک زراعت ہے جس میں دیوار میں زمین جیسی معدنیات فراہم کرکے زراعت کی جاسکتی ہے۔

    کمپنی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کے پیش نظر ملازمین کو صحت مند ماحول فراہم کرنا بھی ہے۔ یہ سبزیاں اور پھل نہ صرف خود ملازمین اگاتے ہیں بلکہ تیار ہونے کے بعد انہیں استعمال بھی کرتے ہیں۔

    t1

    اگر آپ اس دفتر میں داخل ہوں گے تو آپ کو مطلوبہ شخص سے ملنے کے لیے ’ٹماٹو گیسٹ روم‘ میں انتظار کرنا پڑے گا جہاں چھت اور دیواروں پر آپ کو ٹماٹر لگے دکھائی دیں گے۔ مختلف ملازمین کے کام کی جگہ کو الگ کرنے کے لیے دیواروں کے بجائے مختلف درخت لگائے گئے ہیں جبکہ استقبالیہ پر باقاعدہ ایک بڑے رقبہ پر چاولوں کی کاشت بھی کی گئی ہے۔

    عمارت کے باہر بھی عمودی انداز میں زراعت کی گئی ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ سردیوں میں عمارت کو گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رکھتا ہے لہٰذا یہ دفتر توانائی کی بچت بھی کرتا ہے۔

    اس دفتر میں کام کرنے والے ملازمین اس ماحول کو نہایت پسند کرتے ہیں اور وہ ایسے دفتر میں کام کرنے کو اپنی زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ قرار دیتے ہیں۔

  • موبائل گیم ’’پوکیمون گو‘‘ نے انٹرنیٹ پر دھوم مچادی

    موبائل گیم ’’پوکیمون گو‘‘ نے انٹرنیٹ پر دھوم مچادی

    نیویارک: حال ہی میں ریلیز ہونے والے نئے موبائل گیم ’’پوکیمون گو‘‘ نے آتے ہی نیا ریکارڈ اپنے نام کرتے ہوئے تمام سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان سے تعلق رکھنے والی کمپنی نائنٹی ڈو لمیٹیڈ کی جانب سے ریلیز کیے جانے والے اس گیم نے انٹرنیٹ پر آتے ہی صارفین کو اس قدر متاثر کیا کہ ٹوئیٹر اور انسٹا گرام جیسی ویب سائٹس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے صرف 7 روز کے اندر امریکا میں اس کے صارفین کی تعداد 65 ملین تک جا پہنچی ہے۔

    A virtual map of Bryant Park is displayed on the screen as a man plays the augmented reality mobile game "Pokemon Go" by Nintendo in New York City

    یہ گیم تاحال صرف دو ممالک میں باقاعدہ طور پر ریلیز کیا گیا ہے باجود اس کےرئیلٹی گیم موبائل کی یہ اپیلیکشن بقیہ دیگر موبائل کی  بڑی ایپس جن میں ٹوئیٹر ، انسٹا گرام قابل ذکر ہیں کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہوگئی ہے، گیم کے صارفین اس پر روزانہ 43 منٹ 22 سیکنڈ کا وقت گزارتے ہیں ،واٹس  ایپ، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ سمیت کسی بھی موبائل ایپ کا صارف روزانہ اتنا وقت کسی ایپ کو نہیں دیتا۔

    لینزیو پیزا بار نیویارک کے مطابق 75 فیصد سے زائد صارفین جو ان کے پاس آتے ہیں کھیلتے نظر آئے ہیں، جبکہ نیوریارک پوسٹ کی رپورٹ کےمطابق اسٹور مینجر نے اپنے ہوٹل پر پوکیمون کے کئی کردار آویزاں کردیئے ہیں جس کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد یہاں آنے کو ترجیح دیتی ہے۔

    اس گیم میں 20 سالہ کارٹون کو اپنی منزل تک پہنچنے کےلیے کئی دشوار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، جسے انتہائی دلچسپ طریقے سے تیار کیا گیا ہے، گیم کے ریلیز ہوتے ہی صارفین کی بڑی تعداد کے استعمال اور انسٹال کرنے کے باعث کمپنی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،ابتدائی طور پر یہ گیم اینڈرائڈ اور آئی او ایس کے لیے دستیاب ہے تاہم پاکستان میں دلچسپی رکھنے والے اینڈرائڈ صارفین کسی اے پی کے ڈاؤن لوڈ سائٹ سے اے پی فائل کی شکل میں انسٹال کرسکتے ہیں مگر اس سے موبائل میں وائرس آنے کا خدشہ ہے۔

     

  • شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    اسلام آباد: وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    وزارت برائے کلائمٹ چینج کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد سلیم شیخ کے مطابق عالمی حدت میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) کے جو مضر اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں ان میں گلیشیئرز کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی کی مدت میں اضافہ اور صحرائی علاقوں میں وسعت (ڈیزرٹیفکیشن) شامل ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    انہوں نے بتایا کہ رواں برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہوا۔ ’یہ بہت واضح ہے کہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں‘۔

    g2

    شمالی علاقوں میں ہنزہ، گوپس، اسکردو، گلمت اور بگروٹ کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب سردیوں میں بھی گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ ایسا ان کی زندگی میں پہلی بار ہورہا ہے اور انہوں نے پہلے کبھی اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔

    ایک مقامی شخص کے مطابق پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن اب یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے قطب شمالی میں پیانو کی پرفارمنس

    محمد سلیم نے یہ بھی بتایا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کے موسم کے دورانیہ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ برفباری کے موسم کے دورانیہ میں کمی ہورہی ہے۔ اس دورانیہ میں کمی کی وجہ سے گلیشیئرز پر برف رک نہیں پارہی۔

    g3

    محمد سلیم کے مطابق ’ان دونوں موسموں میں تبدیلی شدید سیلاب کا بھی باعث بن رہی ہے جس کی وجہ سے ان ترقی پذیر علاقوں کو بے تحاشہ مالی نقصانات کا سامنا ہے‘۔

    اس سے قبل پاکستانی سائنسدانوں نے ایک تحقیق کی تھی جس کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے واقع قراقرم پہاڑی سلسلہ کے گلیشیئرز مستحکم ہیں اور ان کی برف میں اضافہ ہورہا ہے تاہم سائنسی بنیاد پر کیے جانے والے مشاہدوں سے پتہ چلا کہ درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشیئرز کی بڑی تعداد تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    واضح رہے کہ گذشتہ برس کلائمٹ چینج کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پیرس میں ایک تاریخ ساز معاہدے پر دستخط کیے جاچکے ہیں۔ اس معاہدے کو پیرس کلائمٹ ڈیل کا نام دیا گیا ہے۔

    g5

    اس کے تحت 195 ممالک نے عہد کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی کے باعث عالمی درجہ حرات میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ ہو۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔

  • مصنوعی روشنیوں کے باعث برطانیہ کے موسم میں تبدیلی

    مصنوعی روشنیوں کے باعث برطانیہ کے موسم میں تبدیلی

    لندن: ماہرین نے کہا ہے کہ برطانیہ میں مصنوعی روشنیوں کے باعث موسمیاتی پیٹرن میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے باعث موسم بہار کی آمد میں ایک ہفتہ کم ہوگیا ہے اور اس کا اثر پودوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

    جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق رات میں روشن کی جانے والی مصنوعی لائٹس موسمی مزاج اور پودوں پر بھی اثر انداز ہورہی ہیں۔

    واضح رہے کہ مصنوعی روشنیوں کے اس سیلاب کو اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں۔

    lights-1

    اس سے قبل روشنی کی آلودگی اور جانوروں کے طرز زندگی میں تبدیلی کے درمیان تعلق دیکھا جاچکا ہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہے کہ پودوں پر بھی اس کا اثر سامنے آرہا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسم بہار اب اپنے وقت سے ایک ہفتہ قبل آئے گا۔ بہار سے قبل کا سیزن جسے ’بڈ برسٹ‘ کہا جاتا ہے اور جس میں پھولوں اور پتوں کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوتی ہیں بھی جلدی آئے گی۔ اس سے ان جانداروں اور کیڑوں مکوڑوں پر بھی اثر پڑے گا جو درختوں کے قریب رہتے ہیں۔

    محقیقن کا ارادہ ہے کہ مصنوعی روشنیوں کے تمام جانداروں سے تعلق پر اب مزید تحقیق کی جائے گی۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر ڈاکٹر کیٹ لیوتھ وائٹ کے مطابق، ’اس کا تعلق اربنائزیشن سے بھی ہے۔ اربنائزیشن دیہاتوں اور ترقی پذیر شہروں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کا نام ہے۔ شہروں کی آبادی سے اضافہ میں مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے‘۔

    lights-3

    اس سے قبل ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

  • شمسی توانائی سے چلنے والا ہوائی جہاز دنیا کا چکرمکمل کرنے کے قریب

    شمسی توانائی سے چلنے والا ہوائی جہاز دنیا کا چکرمکمل کرنے کے قریب

    قاہرہ : شمسی توانائی سے چلنے والا ہوائی جہاز سولر امپلس ٹو دنیا کا چکر مکمل کرنے کے قریب ہے، اسپین سے مصر کے شہر قاہرہ کے بعد ابو ظہبی میں سفر ختم کرے گا۔

    POST 3

    شمسی توانائی سے چلنے والا جہاز امپلس ٹو اپنے سولہویں مرحلے کے سفر میں اسپین کے شہر سویل سے مصر روانہ ہوگیا ہے، اپنی اس پرواز کے دوران یہ ہوائی جہاز بحیرہ روم کو عبور کرے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ سولر ایمپلس ٹو 50 گھنٹے اور 30 منٹ میں مصری دارالحکومت پہنچ جائے گا۔

    POST 5

    اسپین سے قاہرہ پہنچنے کے بعد سولر امپلس ٹو کو دنیا کے گرد چکر لگانے کے مشن کا آخری سفر کرنا ہوگا جو ابو ظہبی تک ہے جہاں سے سولر امپلس ٹو نے دو ہزار پندرہ میں اپنے اِس مشن کا آغاز کیا تھا۔

    پوری دنیا کے گرد چکر لگانے کے مشن میں دو پائلٹوں نے باری باری پرواز کی، آندرے بوشبرگ سولر امپلس ٹو کو قاہرہ لے جائیں گے جبکہ برٹرینڈ پیکارڈ اُسے آخری منزل تک پہنچائیں۔

     

    POST 2

    POST 4

    اس سے قبل یہ طیارہ امریکی شہر نیویارک سے روانہ ہوا تھا اور بحرِ اوقیانوس عبور کرنے کے بعد سپین کے شہر سیوائل پہنچا تھا۔

    POST 1

    سولر امپلس نے اپنا سفر گذشتہ سال مارچ میں ابوظہبی سے ہی شروع کیا تھا تاہم بیٹریوں میں خرابی کی وجہ سے اسے کافی مدت ورکشاپ میں گزارنا پڑی تھی۔

  • واشنگٹن : نظام شمسی سے دورتین سورج والا سیارہ دریافت

    واشنگٹن : نظام شمسی سے دورتین سورج والا سیارہ دریافت

    واشنگٹن : ماہرین فلکیات نے ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کے نظام میں ایک یا دو نہیں بلکہ تین سورج یا ستارے ہیں،جسے ایچ ڈی 131399 اے بی کا نام دیا گیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے ایک سیارہ دریافت کیا ہے کہ جسے ایچ ڈی 131399Ab نام دیا گیا ہے،یہ سیارہ زمین سے 320 نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ہے اور اندازہ ہے کہ اس کی تشکیل سولہ ملین سال پہلے ہوئی تھی.

    تین ستاروں کا یہ نظام دوچھوٹے اور ایک بڑے ستارے پر مشتمل ہے جن میں سے دوچھوٹے ستارے ڈمبل چلانے کی طرح ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہیں.

    یہ دونوں چھوٹے ستارے 300 آسٹرنومیکل یونٹس کے فاصلے سے بڑے ستارے کے گرد گھومتے ہیں،ایک آسٹرونومیکل یونٹ زمین اور سورج کے درمیان فاصلے جتنا ہوتا ہے.

    اس انوکھے سیارے کو امریکا کی ایریزونا یونیورسٹی کے ماہرین نے چلی میں نصب یورپین سدرن آبزرویٹری کی ایک خلائی دوربین کی مدد سے دریافت کیا اور ان کا کہنا ہے کہ یہاں روزانہ تین بار سورج طلوع اور غروب ہوتا ہوگا۔

    اس سیارے کا ایک دن زمین کے 550 دنوں کے برابر ہوگا اور اس کے آدھے حصے میں تین ستاروں کو باآسانی دیکھا جاسکتا ہوگا،اس سیارے کا درجہ حرارت 580 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور زندگی کی موجودگی کا کوئی امکان نہیں.

  • کلائمٹ چینج کی بدولت خطرناک امراض کی پہلے سے پیشگوئی ممکن

    کلائمٹ چینج کی بدولت خطرناک امراض کی پہلے سے پیشگوئی ممکن

    لندن: سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس کی مدد سے وہ موسم میں تغیر یا کلائمٹ چینج کو مدنظر رکھتے ہوئے خطرناک وبائی امراض کی پہلے سے پیشگوئی کر سکتے ہیں۔

    ان امراض میں ایبولا اور زیکا وائرس جیسے امراض شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ماڈل بیماریوں کے پھوٹنے سے قبل انہیں سمجھنے، اور حکومتوں کو ان کے مطابق طبی پالیسیاں بنانے میں مدد دے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بیماریاں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ چمگاڈر خاص طور پر ایسی جاندار ہیں جو کئی چھوت کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ایبولا وائرس کی علامات اور بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر *

    واضح رہے کہ ایبولا اور زیکا وائرس جیسے جان لیوا امراض بھی جانوروں سے انسانوں میں پھیلے۔

    سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے مغربی افریقہ کے ان حصوں کا انتخاب کیا جہاں 1967 سے 2012 کے دوران ’لاسا بخار‘ پھیلا تھا۔ ماہرین نے اس جگہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں، فصلوں کی پیدوار میں تبدیلی، درجہ حرارت اور بارشوں کے سائیکل کا مطالعہ کیا۔

    کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر *

    ماہرین نے اس بخار کا سبب بننے والے چوہوں اور ان کے جسمانی ساخت پر اثر انداز ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی مطالعہ کیا۔

    اس تحقیق میں مستقبل میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیوں، آبادی، اور زمین کے استعمال میں تبدیلی کے بارے میں معلومات کو بھی شامل کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے تحقیق میں ان عوامل کو بھی شامل رکھا جن کے باعث انسان جانوروں سے رابطے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم *

    ماڈل کے ابتدائی نتائج کے مابق ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاسا بخار 2070 تک شدت اختیار کرلے گا اور اس کے متاثرین کی تعداد دو گنا بڑھ جائے گی۔