Category: بجٹ

  • آئی ایم ایف نے پاکستان کی دفاعی ترجیحات تسلیم کرلیں، ذرائع

    آئی ایم ایف نے پاکستان کی دفاعی ترجیحات تسلیم کرلیں، ذرائع

    اسلام آباد : پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بجٹ مذاکرات میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے نے پاکستان کی دفاعی ترجیحات تسلیم کرلیں۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف سے ہونے والے بجٹ مذاکرات میں حکومت پاکستان کا مؤقف تھا کہ پاکستان دفاعی ضروریات کو مؤخر نہیں کرسکتا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف دفاعی بجٹ میں ضروری اضافے پر رضامند ہوگیا، اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس ریلیف پر بھی پیش رفت سامنے آئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کم کرنے پر آمادہ ہوگیا ، تنخواہ دار طبقے کے تمام سلیب پر انکم ٹیکس کی شرح کم ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق انکم ٹیکس ایکٹ کی شق 129 میں رعایت انکم ٹیکس میں کمی سے متعلق ہے، آئی ایم ایف ٹیکس فری آمدن کی سالانہ حد 6 لاکھ سے بڑھانے پر بھی آمادہ ہے۔

    ماہانہ 50 ہزار کے بجائے 83ہزار روپے تنخواہ ٹیکس فری ہوسکتی ہے، ماہانہ ایک لاکھ تنخواہ پر انکم ٹیکس 5 سے کم ہوکر 2.5 فیصد ہوسکتاہے۔

    ایک لاکھ 83 ہزار روپے تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح 15 سےکم ہوکر 12.5فیصد ہوسکتی ہے، ماہانہ2لاکھ 67ہزار روپے تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح 25سےکم ہوکر 22.5فیصد ہوسکتی ہے۔

    ماہانہ3لاکھ 33ہزار روپے تک کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح30فیصد کے بجائے27.5فیصد ہوسکتی ہے، ماہانہ3لاکھ 33ہزار روپے سے زائد تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5کم ہوکر 32.5فیصد ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : کیش پر خریدنے والوں کو پٹرول مہنگا، ڈیبٹ کارڈ پر سستا دیا جائے،آئی ایم ایف کا مطالبہ

    قبل ازیں اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ساتھ ہونے والے بجٹ مذکرات میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ حکام نے کہا ہے کہ کیش پر پٹرول اور ڈیزل 2 روپے مہنگا جبکہ ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ پر پٹرول اور ڈیزل 2 روپے سستا دیا جائے، کیش خریداری پر سیلز ٹیکس 18 کے بجائے 20 فیصد کیا جائے۔

    آئی ایم ایف نے کہا کہ کیش اور غیر دستاویزی معیشت کی حوصلہ شکنی کی جائے، ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ پر شاپنگ میں سیلز ٹیکس 2 فیصد کم کیا جائے۔

  • چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ چیونٹیوں نے ایک ویران گھر کے کھنڈر میں اپنا گھروندا بنالیا۔ وہ ایک مدّت سے یہاں رہ رہی تھیں۔ ایک روز چند تند، سرخی مائل بھڑیں بھی وہاں آپہنچیں اور اُنھوں نے اسی ویران گھر کی دیوار میں اپنا چھتّا بنالیا۔ چیونٹیاں اور بھڑیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی تھیں اور امن چین سے زندگی گزار رہی تھیں۔

    چیونٹیاں تعداد میں بہت تھیں۔ یوں اُس ڈھنڈار میں باپ، مائیں، ان کے بچے بچیّاں، نواسے، نواسیاں، پوتے پوتیاں اور پَر نواسے، ایک وسیع اور تہ در تہ گھر میں زندگی بسر کررہے تھے اور جیسا کہ ان کا ہے، وہ گرمیوں کے دنوں میں باغوں، صحراؤں اور کونوں کھدروں میں پھیل جاتیں اور صبح سے رات تک دانہ دنکا اکٹھا کرتیں، اپنے ذخیرے کو بھرتی جاتیں اور سردیوں کے دنوں میں مزے سے زندگی گزارتیں۔

    ایک دن بزرگ بِھڑ دیوار پر بیٹھی اِدھر اُدھر نگاہ کررہی تھی۔ کیا دیکھتی ہے کہ ایک چیونٹی خشک تُوت کو دانتوں میں تھامے، اسے اپنے گھروندے تک لے جانا چاہتی ہے، مگر چونکہ کم زور ہے، نیچے آرہی ہے۔ اب وہ دانے کو اپنے دانتوں میں دابے دیوار کی بلندی کی جانب کھینچ رہی تھی۔ ابھی وہ آدھے رستے تک بھی نہ پہنچ پائی تھی کہ خشک تُوت اس کے منہ سے پھر گر گیا۔

    چند بار ایسا ہی ہوا کہ بیچاری چیونٹی اسے زمین سے اُٹھاتی، آدھی راہ طے کرتی اور وہ زمین پر آ رہتا۔ آخرِ کار ایک بار وہ دانے کو دیوار کے آخر تک لے جانے میں کام یاب ہوگئی۔ اب اس نے دانہ لبِ بام رکھا اور اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی۔ تھکن سے چُور اس نے لمبا سانس لیا اور بولی: ہائے افسوس، میرے مولا، میں تو تھکن سے نڈھال ہوگئی!

    بزرگ بِھڑ جو چیونٹی کے صبر اور حوصلے پر حیران تھی، اپنی جگہ سے اُڑی اور چیونٹی کے پاس آبیٹھی اور کہنے لگی: معاف کرنا، یہ تو تمھیں یقیناً معلوم ہوگا کہ ہم، ہم ہمسائے ہیں اور اسی دیوار کے ایک سوراخ میں رہتے ہیں۔

    چیونٹی بولی، ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، آپ کا شکریہ۔ اصل میں ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جُتا ہوا ہے۔ بھڑ بولی: بے شک زندگی ہے تو یہ سب کُچھ ہے، مگر یہ کیا کام ہوا کہ تم چیونٹیاں کرتی رہتی ہو؟

    ”کون سا کام“؟ چیونٹی بولی: آخر ہم کیا کام کرتی رہتی ہیں کہ تمھیں عجیب لگا“ بِھڑ بولی: بالکل بیکار، تمھارا کام یہی تو ہے کہ سارا سال یہاں وہاں سے کھانے کے لیے دانے اکٹھا کرتی ہو اور بڑی دقّت سے انھیں کھینچ کھانچ کر اپنے گھروندے میں لے جاتی ہو اور وہاں ذخیرہ کرلیتی ہو۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ننھے سے پیٹ کے لیے تم کس قدر حرص اور لالچ سے کام لیتی ہو!

    چیونٹی بولی: مجھے نہیں معلوم تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ کیا اس کام کے سوا، جو ہم کرتی ہیں، کوئی اور کام بھی ہے؟ ہم گرمیوں کے پورے موسم میں کام میں جُتی رہتی ہیں اور سردیوں کے دنوں میں اپنے گھر میں نیند لیتی ہیں اور اپنے جمع شدہ غلّے کو کام میں لاتی ہیں۔ ایسے میں تمھارا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟

    بِھڑ نے کہا: ہم کبھی دانے کھینچنے اور انھیں ذخیرہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم گرمیوں کے موسم میں بہترین خوراک کھاتے ہیں اور اس قدر کھاتے ہیں کہ سارے موسمِ سرما میں سیر رہتے ہیں اور سوئے رہتے ہیں، حتّٰی کہ دوبارہ گرمیوں کا موسم آ جاتا ہے!

    چیونٹی بولی: بہت خوب، تمھارا اپنا رنگ ہے، ہمارا اپنا ڈھنگ۔ سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا۔ ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ اور راہ و رسم ہے۔

    تم لوگ تکلیف نہیں اُٹھاتے، لوگوں کا مال کھاتے ہو اور لوگ تمھارے ہاتھوں تنگ ہیں۔ ہر کوئی تمھیں برا بھلا کہتا ہے، لیکن ہمارا رزق حلال ہے، صحراؤں میں گرے پڑے دانے، گری پڑی شکر اور حیوانوں اور پرندوں کی بچی کھُچی خوراک۔ ہمیں لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر نے بھی ہماری تعریف میں شعر کہا ہے:

    دانہ کش چیونٹی کو مَت سَتا مرے بھائی
    وہ بھی جان رکھتی ہے اور جان ہے پیاری

    اس کے برعکس تمھیں لوگ برے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

    کوئی یہ بھِڑ سے کہے جاکے اے ہمہ آزار!
    جو شہد دے نہیں سکتی تو ڈنک بھی مت مار

    بِھڑ کہنے لگی: ایسی باتیں کم زور لوگ کیا کرتے ہیں۔ تم لوگ اپنا دل یہ سوچ کر خوش کرتے ہو کہ چیونٹیاں ہو اور بے آزار ہو اور شاعر نے تمھاری تعریف کی ہے، لیکن تم نے اِس زندگی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔

    تم نے قصّاب کی دکان کا گوشت کبھی نہیں کھایا اور انگور کی بیلوں سے لٹکے انگوروں کے رس کا مزہ کبھی نہیں چکھا۔ ایک دن تمھاری زندگی اختتام کو پہنچ جائے گی اور تم مرجاؤ گی، زندگی کا لطف اٹھائے بغیر! لیکن جب ہم مریں گے تو دھوکا کھائے ہوئے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے۔

    ہم نے دنیا کے عیش بھی کیے ہیں اور اپنے ڈنک سے لوگوں سے انتقام بھی لیا ہے۔ ہمارے ایک دن کی قدر و قیمت تمھاری عمر کے ایک برس سے بڑھ کر ہے۔ میں تو چاہتی ہوں کہ کوئی ستّر سالہ بدبخت شاعر ہماری تعریف نہ کرے۔

    چیونٹی نے تعجب سے کہا: اچھا تو تم لوگ قصّاب کی دکان کا گوشت بھی کھاتے ہو؟

    بھڑ نے کہا: ارے واہ! اگر تمھیں نہیں معلوم تو میرے ساتھ آؤ تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ ہم کیا کیا کارنامے کرتے ہیں۔

    چیونٹی نے کہا: تمھیں معلوم ہے میں تمھارے ساتھ پرواز نہیں کرسکتی۔ اگر سچ کہتی ہو تو مجھے اپنے ساتھ اڑا لے چلو تاکہ میں دیکھوں اور یاد رکھوں۔

    مغرور بِھڑ، چیونٹی کو اپنے کارناموں سے آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے چیونٹی کو اپنے دانتوں سے پکڑا اور قصاب کی دکان پر لاکر زمین پر بٹھا دیا اور کہا: یہیں رہ اور دیکھ۔ پھر وہ اڑی اور بھیڑ کی دُم پر آ بیٹھی جسے قصّاب نے ذبح کرکے لوہے کے حلقے کے ساتھ لٹکا رکھا تھا۔

    جونہی قصّاب گوشت لینے کے لیے اٹھا، بِھڑ خوف زدہ ہوکر اوپر کو اُڑی۔ قصّاب بھڑوں کی روز روز کی مصیبت سے تنگ آچکا تھا۔ اس نے اپنا بُغدہ اٹھایا اور بھیڑ کے جسم پر کچھ اس طرح مارا کہ کئی بِھڑیں ضرب کھا کر مر گئیں اور کئی نیم جان ہوکر زمین پر گرگئیں۔ چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ بھی انہی میں تھی۔

    چیونٹی جو اُس وقت ایک طرف دیکھ رہی تھی، آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور اپنی ہمسایہ بھِڑ کا کھوج لگالیا۔ پھر اس سے کہنے لگی: مجھے بڑا دکھ ہے۔ ہم چیونٹیاں اس طرح کی زندگی جس میں ہر لمحہ خطرہ جان ہو، پسند نہیں کرتیں جب تک کہ کوئی بڑا مقصد ہمارے سامنے نہ ہو۔ تب تک ہمسایہ بھڑ مرچکی تھی اور جواب دینے سے قاصر!

    چیونٹی مردہ بِھڑ کا پاؤں منہ میں تھام اسے کھینچ کھانچ اپنے گھر میں لے آئی اور اسی دیوار پر چڑھ کر اوپر لے گئی۔ پھر اُسے خشک توت کے ساتھ رکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کی اور کہا: آؤ اس بِھڑ کے بدن کو تکّہ تکّہ کریں۔ اس کے اندر موجود زہر کہیں دور پھینک دیں اور اس کا گوشت ذخیرہ کرلیں، موسمِ سرما میں کام آئے گا۔

    (صدیوں پرانی سبق آموز کہانی جسے ڈاکٹر تحسین فراقی نے فارسی زبان سے اردو میں ڈھالا ہے)

  • ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 701 ارب، فاٹا کو وفاق 73 ارب دے گا، کراچی کے لئے 34 ارب مختص

    ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 701 ارب، فاٹا کو وفاق 73 ارب دے گا، کراچی کے لئے 34 ارب مختص

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی خسرو بختیار نے کہا ہے کہ ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 701 ارب روپے ہے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایک خصوصی پریس کانفرنس میں کیا. وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے کہا کہ اس سال فاٹا کو وفاق 73  ارب روپے دے گا.

    خسرو بختیار نے کہا کہ بلوچستان میں 76 ارب روپےکے پراجیکٹس لےکر آرہے ہیں، کے پی میں 48 ارب روپے کے پراجیکٹس لگیں گے.شہر کراچی کے لئے 45 پراجیکٹس ہیں، جن کے لیے 34 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں.

    وزیرمنصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ 8 ارب روپے کے نئے منصوبے اسلام آباد کے لئے ہیں، اس وقت بجلی کے شعبے میں ٹرانسمیشن کاچیلنج ہے، بجلی کی مد میں 80 ارب روپے مختص کئے ہیں.

    مزید پڑھیں: بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ایگری کلچرکے لئے گزشتہ سال 1 ارب رکھے گئے تھے، اس سال 12 ارب مختص کیے گئے ہیں، جب کہ گرین کلین منصوبے کے لئے 9.5 ارب روپے رکھے ہیں.

    خیال رہے کہ 11 جون 2019 کو پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تھا، بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے رکھا گیا، ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے، جب کہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560ارب روپے تھا۔

  • دس سال سے صرف باتیں ہو رہی ہیں، عمل نہیں ہورہا: سندھ کے بجٹ پر اپوزیشن کا رد عمل

    دس سال سے صرف باتیں ہو رہی ہیں، عمل نہیں ہورہا: سندھ کے بجٹ پر اپوزیشن کا رد عمل

    کراچی: سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی طرف سے بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تین ماہ کے بجٹ میں دس سال کا حساب مانگے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ بجٹ پر رد عمل دیتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری نے کہا کہ دس سال سے باتیں کی جا رہی ہیں لیکن عمل نہیں ہورہا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے صوبے کولوٹا ہے، وزیراعلیٰ سڑکیں بنا کرمیئر کا کام کر رہے ہیں،جو لوگ نیب کے چکرلگا رہے ہیں کیا انہوں نے کام کیا ہے؟

    ایم کیو ایم کے سینئر رہنما خواجہ اظہار الحسن نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس بجٹ میں دس سال کا حساب مانگنا ہے، جب کہ حکومت تین ماہ کا بجٹ دے رہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا ہم کو پکا یقین ہے کہ اگلی حکومت پی پی کی نہیں ہوگی،دعا ہےسندھ کے لوگوں کی جان اس الیکشن میں چھوٹ جائے، اچھل اچھل کر قربانیاں جتا کر پورا صوبہ نہیں لوٹا جاسکتا۔

    تحریک انصاف کے ایم پی اے خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ حکومت نے چار مہینے کا بجٹ دیا ہے کوئی نئی اسکیم نہیں دی، کیا کسی پرانی اسکیم سے سندھ کے عوام کو فائدہ ملا ہے۔

    “ظالمو جواب دو، لوٹ مار کا حساب دو”: اپوزیشن نے پیپلزپارٹی کا بجٹ مسترد کر دیا

    ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں عوام کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے، ہمارا مقصد پیپلزپارٹی سے سندھ میں چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

    واضح رہے کہ آج صوبائی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے 11 کھرب 44 ارب 44 کروڑ 48 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا، جس پر اپوزیشن نے خوب شور شرابا کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی: خورشید شاہ

    حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی: خورشید شاہ

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر  خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی، حکومت کو 4 ماہ سے زیادہ کا بجٹ نہیں دینا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ کسی پارٹی سے ورکر نکل جائے تو افسوس ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔

    انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کی نا اہلی سے خوش نہیں ہوں، نواز شریف سے بار بار اس قانون کے خاتمے کا کہا لیکن انہوں نے تعاون نہیں کیا۔ ’ججز کو بھی سیاسی معاملات کو سیاسی رکھنا چاہیئے۔ بہتر ہوتا خواجہ آصف کا معاملہ پارلیمنٹ بھیج دیا جاتا‘۔

    خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست پارلیمانی ہونی چاہیئے۔ خواجہ آصف کی نااہلی قانونی نقطہ نظر سے ہوئی ہے۔ نااہلی پارلیمانی نظام کے تحت ٹھیک نہیں۔

    انہوں نے آج پیش کیے جانے والے بجٹ کے حوالے سے کہا کہ حکومت کو 4 ماہ سے زیادہ کا بجٹ نہیں دینا چاہیئے۔ حکومت سال کا بجٹ پیش کر کے نئی روایت ڈال رہی ہے۔ ’حکومت نے 5 سال غریبوں کو ریلیف نہیں دیا اب کیا دے گی‘۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں نئی سرمایہ کاری نہیں آئی۔ حکومت نے قرضوں کا بوجھ بڑھا دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مسلم لیگ ن کی حکومت اپنا چھٹا اور آخری بجٹ آج پیش کرے گی

    مسلم لیگ ن کی حکومت اپنا چھٹا اور آخری بجٹ آج پیش کرے گی

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کی حکومت آج اپنا آخری اور چھٹا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، بجٹ کا حجم 56 کھرب جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4435 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دو سو سے زائد اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کیے جانے کا بھی امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پہلی جمہوری حکومت اپنی مدت کے دوران چھٹا بجٹ آج پیش کرے گی، مفتاع اسماعیل بجٹ پیش کریں گے، بجٹ کا حجم56کھرب مختص کیےجانےکاامکان ہے جبکہ آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی بجٹ کا حجم ایک ہزار تیس ارب روپے رکھا گیا ہے۔

    بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے معاشی ترقی کا ہدف چھ اعشاریہ دوفیصد تک بڑھانے، زرعی ترقی کا ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

    مہنگائی چھ فیصد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ درآمدات کیلئے ساڑھے تیرپین ارب ڈالر اور برآمدات کو بڑھا کر ستائیس ارب تیس کروڑ تک لایا جائے گا۔

    بجٹ خسارہ 2029 ارب روپے مقرر کیے جانے اور آئندہ مالی سال کے دوران 2300 ارب روپے کے قرضے لئے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔

    آئندہ بجٹ میں عوام کیلئے بڑا ریلیف متوقع ہے، ٹیکس ریفامز کے بعد انکم ٹیکس چھوٹ سے سو ارب روپے اور دوسو سے زائد درآمدی اشیا پر ریگیولیٹری ڈیوٹی خاتمے کا بھی امکان ہے، ان میں اے سی، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹر، ایل سی ڈی، ٹی وی سمیت الیکٹرانکس کی مصنوعات شامل ہیں جبکہ گاڑیوں کے اسپئیر پارٹس پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کیےجانےکا اعلان متوقع ہے۔

    سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ جبکہ کم از کم پینشن بڑھا کر بارہ ہزار کرنے کی تجویز ہے۔

    عام انتخابات کیلئے بجٹ میں گیارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    آئندہ مالی سال کےترقیاتی بجٹ سے متعلق تجاویز


    آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں وفاقی بجٹ 930 اور  نجی شعبے کا 100 ارب  ، انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے 575 ارب روپے ، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے 400 ارب ، ہائی ویزاورموٹر وے کی تعمیرو مرمت پر310 ارب ، آب پاشی کے نظام کے لیے 65 ارب روپے اور ریلوے پر39 ارب اورتوانائی پر 80 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    گوادرپروجیکٹس اور ایئرپورٹس کی ترقی کے لیے 10 ارب ، فزیکل پلاننگ کے لیے 30 ارب روپے، کیڈٹ کالج خاران کے لیے 56 کروڑ روپے، سوئی اور اوچ میں سڑک کی تعمیر کے لیے 30 کروڑ روپے، لہری سانگلہ سڑک کے لیے54 کروڑ روپے اور حیدرآباد پیکج کےتحت سیوریج کےلیے23 کروڑکا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    ہاربر کی سہولتوں سے متعلق گوادر کےلیے6 کروڑ ،گوادرڈویلپمنٹ اتھارٹی کےلیے10 ارب، گوادر میں پانی کے ٹریٹمنٹ کے لیے87 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز  دی گئی ہے۔

    ملتان میں کینسراسپتال بہتر بنانے کے لیے 34 کروڑ ، لیاری ایکسپریس وے متاثرین کے لیے 46 کروڑ اور کارپوریشن، این ایچ اے ، واپڈا، پاور ڈویژن کے لیے 266 ارب  روپے بجٹ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    وفاق کے خصوصی پروگرامز نئے بجٹ سےباہر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ نئے میں دیرپا ترقی کے اہداف کیلئے اور وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے بھی خاطر خواہ رقم مختص کرنے کی تجویزنہیں۔

    انرجی فار آل پروگرام میں وفاق کی جانب سے رقم مختص کرنےکی تجویزنہیں جبکہ پینے کےصاف پانی پروگرام سے متعلق بھی بجٹ میں تجویزنہیں۔


     خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • وفاقی بجٹ رضیہ بٹ کا ناول ہے، شیخ رشید

    وفاقی بجٹ رضیہ بٹ کا ناول ہے، شیخ رشید

    اسلام آباد: سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد نے وفاقی بجٹ 2017-18 کو رضیہ بٹ کا ناول قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج عوام دشمن بجٹ پیش کیا گیا۔

    شیخ رشید نے وفاقی بجٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مزدوروں کی کم سے کم تنخواہ 25 ہزار ہونی چاہیے آج پیش کیا جانے والا بجٹ ناول کے سوا کچھ نہیں۔

    سربراہ عوامی مسلم لیگ نے کہا کہ 14 یا 15 ہزار میں پورا گھر چلانا ناممکن ہے اگر وزیر خزانہ اتنے ماہر معاشیات ہیں تو 15 ہزار روپے میں ایک گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔


    پڑھیں : ’’ وفاقی بجٹ 2017-18 پیش کردیا گیا‘‘


    انہوں نے کہا کہ یہ اشرافیہ کا بجٹ ہے اور اشرافیہ کے لیے ہے غریب عوام کے لیے کبھی بجٹ میں کچھ نہیں ہوتا اس بجٹ میں بھی غریبوں کے لیے کچھ خاص نہیں۔

    شیخ رشید نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے والے کسانوں پرشیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی میں چھرا گھونپا گیا اور کسانوں کے ساتھ ظلم کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ بجٹ سے اور تو کچھ نہیں ہوگا بس غریب کا بچہ مزید غریب ہو جائے گا اور امیر کا بچہ امیر رہے گا اس بجٹ میں عوام کے لیے کوئی خوش خبری نہیں۔

  • بجٹ 17-2018 ’امیروں کے بچوں کو امیر غریب کو غریب رہنا ہے‘

    بجٹ 17-2018 ’امیروں کے بچوں کو امیر غریب کو غریب رہنا ہے‘

    کراچی : مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور حکومت کا آخری بجٹ 2017-2018 پیش کردیا جہاں اس موقع پر اسمبلی میں بجٹ تقریر سے قبل اسمبلی میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں ملی وہیں سوشل میڈیا پر بھی حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان دلچسپ مگر طنز سے بھرے تبصروں کا تبادلہ دیکھا جاتا رہا۔

    آئیے سوشل میڈیا پر بجٹ 2017-2018 پر کیے جانے والے دلچسپ تبصروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے اور تھکا دینے والے وعدے وعیدوں سے تھکے زہنوں کو کچھ ریلیف ملے بھلے بجٹ میں کچھ ریلیف ملا ہو کہ نہ ہو۔

    https://twitter.com/RaheelNama/status/868113724820926464

    شعری ذوق رکھنے والے لوگوں  نے بجٹ پر معروف اشعاروں کے ذریعے ایسا تبصرہ کیا کہ لبوں پر بے ساخستہ ہنسی آگئی۔

    https://twitter.com/LewaneSays/status/868113919323275265

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ کو بنایا گیا اور اس حوالے سے لوگوں کا کہنا تھا کہ کوئی حکومتی وزیر 15000 میں پورا مہینہ گزارنے کا عملی مظاہرہ تو کر کے دکھائے۔

    کچھ لوگوں نے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرنے کے لیے تصاویر کا سہارا لیا جس میں بجٹ کے بڑے حصے سے حکومت کے پیٹ کو بھرتا دکھایا گیا جب کہ عوام کے حصے میں بہ مشکل دوچار ہی بوند آتی ہیں۔

    https://twitter.com/anoistics/status/868075481819750401

    گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافے کو مسترد کرتے ہوئے ایک صارف نے طنزیہ ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین سے جلسہ گاہ کو بھرنے والے تنخواہ نہیں بڑھاتے۔

    کارٹونسٹ بھی اس مہم میں پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے مختلف طنزیہ انداز کے کارٹونز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کردیے، ایسے کارٹونز سوشل میڈیا کی زینت بنے رہے جس میں حکومتی پالیسیوں اور دعووں کو کا مذاق بنایا گیا۔

    https://twitter.com/AwaisRaza459/status/868082046979252224

    کسی کا کہنا تھا کہ بجٹ ایسے پیش کیا گیا ہے کہ لوگ اسحاق ڈار کے لیڈر پر چلنے والا مقدمہ پاناما کیس بھول جائیں گے اور دال روٹی کی فکر میں لگ جائیں گے۔

    سبسڈی کے ذریعے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے پرایک پیروڈی شعر ملاحظہ کریں

    بجٹ 2017-2018 کا سیشن کیسا رہا اور اندورن خانہ کیا مناظر تھے فیس بک پر ایک صارف نے ایسا نقشہ کھینچا جسے دیکھ کر آپ بھی محظوظ ہوں گے۔

  • بجٹ سیشن کے لیے اپوزیشن کی جارحانہ حکمت عملی تیار

    بجٹ سیشن کے لیے اپوزیشن کی جارحانہ حکمت عملی تیار

    اسلام آباد : قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی زیر صدارت اپوزیشن کے پری بجٹ اجلاس میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق آج بجٹ سیشن کے لیے اپوزیشن نے حکمت عملی طے کرلی ہے جس کے تحت وزیرخزانہ کی تقریر کے فوری بعد بجٹ پر تقریر کی اجزت مانگی جائے گی اور حکومتی انکار پر سخت ردعمل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے.

    اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بجٹ تجاویز کے حوالے سے تقریرکی اجازت طلب کرتے ہوئے موقف اختیار کریں گے کہ بجٹ دستاویز اب سیکرٹ نہیں رہیں کیوں کہ اعداد وشمار پہلے ہی میڈیا پر آچکے ہیں ایسے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ابھی سے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا جائے.


    بجٹ کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟


    اپوزیشن پارٹی کی حکمت عملی کے تحت اگر قائد حزب اختلاف کو بجٹ پر بولنے کی اجازت نہیں دی گئی تو اراکین سخت احتجاج کریں گے اور حکومت کی پالیسی کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے.

    دوسری جانب بجٹ سے قبل وفاقی کابینہ اور حکومتی اراکین کے علیحدہ علیحدہ اجلاس میں بجٹ سیشن بہ خیر خوبی انجام دینے پر حکمت عملی دی گئی اور اپوزیشن کی جانب سے متوقع احتجاج پر کاؤنٹر حکمت عملی بھی طے کی گئی ہے.


    بجٹ 18-2017: مختلف عوامی مطالبات سامنے آگئے


    خیال رہے یہ موجودہ حکومت کا آخری بجٹ ہے اور پچھلے بجٹس کے مقابلے میں اس بجٹ کےموقع پر حکومت اور اپوزیشن میں روایتی تناؤ اور کشیدگی زیادہ ہے جس کی وجہ سے ممکن ہے یہ بجٹ سیشن دیگر بجٹ سیشن کے نسبت گرما گرم ہوگا.

  • بجٹ کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟

    بجٹ کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟

    بجٹ وہ مالی منصوبہ بندی ہے جسے حکومت ٹیکس کی مد میں حاصل رقوم اور حکومتی اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سال کے لیے مرتب کرتی ہے۔

    پاکستان میں حکومتی بجٹ وفاقی وزیر خزانہ ہر سال جون میں پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہیں جس پر اراکین اسمبلی بھی تجاویز پیش کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے اسمبلی سے منظور کرایا جاتا ہے۔


    بجٹ تین طرح کے ہوتے ہیں


    1-یونین بجٹ

    وہ بجٹ جو پورے ملک کے لیے ہو اور وفاقی یا مرکزی حکومت اسے پیش کرے یونین بجٹ کہلاتا ہے تاہم ایسے ممالک میں صوبائی بجٹ نہیں ہوتے۔

    2-ریاستی یا صوبائی بجٹ

    کئی ممالک مختلف ریاستوں پر مشتمل ہوتے ہیں ایسے ممالک میں ہر ریاست اپنا علیحدہ بجٹ پیش کرنے کا حق رکھتی ہے ایسے بجٹ کو ریاستی بجٹ کہا جاتا ہے۔

    3-پروجیکٹ اور ضمنی بجٹ

    اس قسم کے بجٹ کسی خاص پروجیکٹ یا منصوبے کے لیے بنائے جاتے ہیں اس میں اندورنی سے زیادہ بیرونی ذارئع آمدن پر انحصار کیا جاتا ہے


    بجٹ کے بنیادی عناصر


    بجٹ کے بنیادی عناصر محصولات اور حکومتی اخراجات ہیں اور انہی دونوں کے اعداد و شمار کو مد نظررکھ کربجٹ ترتیب دیا جاتا ہے لہذا بے حد ضروری ہے کہ محصولات اور اخراجات کے درست اعداد و شمار دستیاب ہوں۔

    حکومت اپنے اخراجات اور ترقیاتی منصوبے محصولات اور زرمبادلہ سے حاصل رقم سے پورا کرتی ہے اور اگر محصولات اور حکومتی آمدنی اخراجات سے کم ہوں تو کارِ مملکت چلانے کے لیے قرضہ لیا جاتا ہے

    ٹیکس ، زر مبادلہ اور دیگر ذرائع آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم سے حکومتی اخراجات اور ترقیاتی پروجیکٹس مکمل کیے جاتے ہیں اس لیے ان دونوں عناصر کی بنیاد پر بجٹ کی تین اقسام سامنے آتی ہیں


    بجٹ کی اقسام


    متوازن بجٹ

    اگر محصولات سے حاصل رقوم اور اخراجات برابر ہوں تو ایسے بجٹ کو متوازن کہا جاتا ہے یعنی جتنی رقم ریاست کو ٹیکسوں کی صورت میں ملی اتنی ہی اخراجات اور دیگر میں خرچ ہوجاتی ہیں اورملک کو چلانے کے لیے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔

    خسارے کا بجٹ

    اگرریاست اپنی آمدنی سے اخراجات مکمل نہ کر پائے تو ایسے میں پیش کیا گیا بجٹ خسارے کا بجٹ کہلاتا ہے جس میں ملک کے معمولات چلانے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے یا ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی ہے اور یا پھرغیرترقیاتی بجٹ پرقابو پایا جاتا ہے۔

    سرپلس بجٹ

    ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب حکومت کی آمدنی اخراجات سے زیادہ ہو جائے تو ایسی نادر ونایاب صورت حال میں پیش کیے گئے بجٹ کو سرپلس بجٹ کہا جاتا ہے تاہم ایسی صورت حال خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔


    حکومتی آمدن کے ذرائع


    حکومت کی آمدنی کاسب سے بڑا ذریعہ ٹیکس ہے جس کے لیے حکومت اپنی عوام کو مختلف سہولیات فراہم کرتی ہیں اور اس پر ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے جب کہ زرمبادلہ بھی ریونیو میں اپنا حصہ ڈالتا ہے

    ٹیکس کی اقسام

    حکومت اپنا ریونیو بڑھانے کے لیے مختلف قسم کے ٹیکس لاگو کرتی ہے جو کہ درج ذیل ہیں

    کیپیٹل ٹیکس

    یہ ٹیکس عمومی طور پر سرمایہ پر لگایا جاتا ہے جیسے اسٹاک ایکسچینج، بانڈز، قیمتی و نادر اشیاء کی خرید و فروخت اور بلاواسطہ پراپرٹی پر بھی عائد ہوتا ہے.

    کارپوریٹ ٹیکس

    یہ ٹیکس کسی فرد پر نہیں بلکہ کسی کمپنی، گروپ یا ادارے پر عائد کیا جاتا ہے جو کمپنی کے مجموعی منافع پر عائد ہوتا ہے

    آمدنی ٹیکس

    یہ ٹیکس کسی فرد کی سالانہ آمدنی پر عائد کیا جاتا ہے جو عمومی طور پر تنخواہ دار طبقے یا چھوٹے کاروباری حضرات سے لیا جاتا ہے اور اس ٹیکس کا نفاذ مخصوص آمدنی پر ہوتا ہے اس سے کم آمدنی رکھنے والے مستثنیٰ ہوتے ہیں

    ٹیرف ٹیکس

    یہ بھی ٹیکس ہی کی ایک صورت ہے جو بین الاقوامی تجارت کرنے والوں سے لیا جاتا ہے تاہم اسے ٹیرف کا نام دیا جاتا ہے جو کہ حکومتی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے

    جنرل سیلز ٹیکس

    روزمرہ زندگی کے استعمال میں آنے والی اشیاء پر جنرل ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تاہم کمپنیاں یہ ٹیکس صارف سے وصول کرتے ہیں جس کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے

    ٹول ٹیکس

    یہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے استعمال ہونے والی قومی شاہراہ پر وصول کیا جاتا ہے عام شہریوں کی بہ نسبت تجاری اشیاء لے جانے والے ذرائع نقل وحمل پر زیادہ ٹیکس عائد ہوتا ہے

    سرچارج

    کبھی کبھی حکومت کسی چیز میں پہلے سے عائد دیگر ٹیکس کے باوجود ایک نیا ٹیکس بھی شامل کر دیتی ہے اسے سرچارج ٹیکس کہا جاتا ہے یہ عمومی طور پر اس صورت میں لگایا جاتا ہے جب حکومت کو شدید خسارے کا سامنا ہو

    ویلیو ایڈٹ ٹیکس

    پر تعیش اشیاء یا خدمات پر لگائے جانے والا ٹیکس ویلیو ایڈ ٹیکس کہلاتا ہے یعنی اضافہ شدہ مالیت پر مبنی محصول جو اس مقصد سے لگایا جاتا ہے کہ اس کا بار بالآخر صارفین کو برداشت کرنا پڑے۔


    بجٹ بناتے ہوئے ان چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے


    یقینی طور پرپہلی ترجیح درست اعداد و شمار کی دستیابی ہے جس کے ایک علیحدہ ادارہ شماریات قائم ہے جو حکومت کی معاونت کرتا ہے جب کہ نادرا کے ریکارڈ سے بھی مدد لی جاتی ہے تاکہ درست تخمینہ لگایا جا سکے۔

    افراط زر (Inflation) زری معاشیات کی اہم اصطلاح ہے۔ تعریف کے مطابق کسی معیشت میں موجود اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہتے ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے تاہم ہر معیشت میں کم و بیش افراط زر کی موجودگی قدرتی امر ہے۔ یہ اوسطاً 5 سے 6 فیصد سالانہ رہتا ہے تاہم دیوالیہ معیشتوں میں افراط زر ہزار فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے اسے معقول حدود میں رکھنا مرکزی بینک کا بنیادی وظیفہ ہے۔

    جی ڈی پی

    جی ڈی پی دراصل گروس ڈومیسٹک پراڈکٹس کا مخفف ہے جس سے ملک میں تیار کردہ اشیاء اور خدمات کے عوض ایک معین مدت میں حاصل ہونے والی آمدنی کا پتا لگایا جاتا ہے جو کہ پاکستان میں نہایت کم ہے جس کے باعث پاکستان کا نمبر 140 واں ہے

    سبسڈی

    کئی ادارے اور شعبے زبوں حالی کا شکار ہوتے ہیں جنہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت کچھ امدادی رقم مختص کرتی ہے اسے سبسڈی کہا جاتا ہے

    سرکلر ڈیٹ

    رقم یا خدمات ایک سائیکل کے ذریعے ایک شعبے سے دوسرے شعبے یا ایک صارف سے دوسرے صارف تک پہنچتی ہے یہ گردشی رقم یا خدمات سائیکل کو پورا کرتے ہوئے اپنے پہلے مقام یعنی حکومت تک نہ پہنچ پائے تو اسے سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضے کہا جاتا ہے یہ وہ رقم ہوتی ہے جو نظام کا حصہ تو ہوتی ہے لیکن حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہوتی


    بجٹ 2017-18


    کل اگلے مالی سال کے لیے بجٹ پیش کیا جا رہا ہے جو اس حکومت کا آخری بجٹ ہوگا جس کے باعث عوام کا گمان ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی شرح میں کمی ، مہنگائی پر قابو پانے اور تنخواہوں میں اضافہ کرے گی تاکہ بھوک پیاس اور بجلی کو ترستی عوام کو کچھ ریلیف مل سکے