Category: یورپ

  • ترکی:عدالت نے 13صحافیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزا سنادی

    ترکی:عدالت نے 13صحافیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزا سنادی

    انقرہ : ترکی کی عدالت عالیہ نے دہشت گرد گروہوں سے رابط اور سنہ 2016 میں باغیوں کی حمایت کرنے کے الزام میں 13 صحافیوں کو سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا.

    تفصیلات کے مطابق ترکی کی اعلیٰ عدالیہ نے گذشتہ روز صدر رجب طیب اردوگان کی حکومت کے خلاف مؤقف اختیار کرنے والے تیرہ صحافیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزا سنا دی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ترکی کی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد دنیا بھر میں آزادی صحافت کے حوالے سے غضے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    عدالت سے سزا پانے والے تمام صحافیوں کا تعلق ترکی کے مقامی اخبار سے تھا جنہوں نےترکی کی موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد میں سے تین صحافیوں کو عدالت نے بری کردیا ہے، جبکہ سزا یافتہ صحافی فی الحال آزاد ہیں اور وہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

    ترک میڈیا کا کہنا تھا کہ مذکورہ صحافیوں کو سیکیورٹی اداروں نے سنہ 2016 میں رجب طیب اردوگان کی حکومت کے خلاف ناکام ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

    ترکی کے حکومتی عہدے داران نے ترکی کے مقامی اخبار کے عملے پر کردستان ورکر پارٹی، انتہائی بائیں بازو کی جماعت پیپلز لبریشن پارٹی فرنٹ، فتح اللہ گولن سمیت دیگر دہشت گرد ملوث گروپ کی حمایت الزام عائد کیا ہے۔

     

    واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کو انقرہ میں بغاوت کرنے والے گروپ کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے، گولن خود ساختہ جلاوطنی کے بعد سے امریکا میں ہی مقیم ہیں۔

    ترک حکام نے امریکی حکومت کو درخواست دی تھی کہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے لیکن امریکا نے گولن کو ترکی بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔

    طیب اردوگان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد 50 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ باغیوں کی حمایت کرنے اور تحریک میں حصّہ لینے کے شبے میں ڈیڑھ لاکھ شہریوں کو نوکریوں سے برطرف اور معطل کردیا گیا تھا۔

    ترک حکومت کی جانب سے برطرف اور معطل کیے جانے والے افراد میں صحافی، پولیس اور فوجی اہلکار و افسران سمیت بڑی تعداد میں اساتید شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سزا پانے والے صحافیوں میں ترکی کے معروف مبصرین جن میں مقامی اخبار کے ایڈیٹر انچیف مراد سابونچو، مشہور کارٹون نگار موسیٰ کارٹ اور نامور کالم نویس قادری گرسیل شامل ہیں۔

    ترک عدالت نے بغاوت میں شامل ہونے کے شبے میں اخبار کے مالک آکِن اتالے کو بھی سات سال قید کی سزا سنائی ہے، جبکہ آکِن 500 پہلے ہی جیل میں گزار چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ ترکی مذکورہ اخبار نے سنہ 1924 میں صحافی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کی تھیں، ترک میڈیا میں سرکاری مداخلت کے باوجود مذکورہ اخبار نے آزادنہ مؤقف اپنایا جو صدر طیب اردوگان کو ناپسند تھا۔۔

    ترکی عالیٰ عدلیہ کا فیصلہ آنے کے قبل اخبار نے پہلے صفحے پر لکھا تھا کہ ’بس بہت ہوگیا ظلم‘ اور عدالتی فیصلے کے بعد اخبار نے اپنی ویب سایٹ لکھا کہ ہپر ’تمہیں تاریخ میں بدترین شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

    یاد رہے کہ صدر طیب اردوگان نے آزادی صحافت پرحملے کرنے کا الزام عائد ہے، گذشتہ ماہ بھی 25 صحافیوں کو فتح اللہ گولن سے رابط کے جرم میں جیل بھیجا گیا ہے۔

    گذشتہ روز عدالتی فیصلے کو دنیا بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی ترکی کی حکومت پر میڈیا پر دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔

    صحافیوں کے حقوق کی تنظیم کمیٹی برائے تحفظ صحافی (سی پی جے) نے بھی عدالتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے سزا یافتہ صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

    سی پی جے کی ترجمان نینا اوگنیا نوا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ترک حکومت صحافیوں اور دہشت گردوں میں برابری کرنا چھوڑ دے، اور گرفتار کیے گئے تمام صحافیوں کو رہا کرکے نوکریوں پر بحال کرے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • ترکی میں داخل ہونے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

    ترکی میں داخل ہونے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

    انقرہ: رواں برس کے دوران ترکی میں داخل ہونے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔

    ترک وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ چار مہینوں کے دوران ترکی آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 30 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئے لو کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین بھی ترکی آئے ہیں لیکن ان میں افغان مہاجرین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

    ترک وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رواں برس کے پہلے چار ماہ میں ترکی آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد 29 ہزار 8 سو 99 رہی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔

    سلیمان نے کہا ہے کہ 2017ء میں ترکی آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد 45 ہزار کے لگ بھگ تھی لیکن رواں برس اس میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ ان میں سے زیادہ تر افغان مہاجرین غیر قانونی طریقے سے ترکی میں داخل ہوئے ہیں۔

    ترک وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ انقرہ حکومت کی کوشش ہے کہ غیر قانونی مہاجرین کو وطن آنے سے روکا جائے، جس کی خاطر سرحدوں پر سیکیورٹی بڑھائی جارہی ہے، سیکیورٹی اہلکاروں نے مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا ہے۔

    ترکی نے ہمسایہ ملک ایران کی سرحد پر ایک دیوار کی تعمیر شروع کردی ہے، حکام کے مطابق زیادہ تر افغان مہاجرین اسی سرحدی راستے کا استعمال کرتے ہوئے ترکی آتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسامہ بن لادن کا گارڈ جرمنی میں رہایش پذیر ہے:جرمن حکومت کا انکشاف

    اسامہ بن لادن کا گارڈ جرمنی میں رہایش پذیر ہے:جرمن حکومت کا انکشاف

    برلن : جرمنی کی مذہبی جماعتوں کے مطالبے پر حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ القاعدہ کا دہشت گرد اور سنہ 2000 میں اسامہ بن لادن کی سیکیورٹی پر مامور شخص گذشتہ کئی برس سے جرمنی میں رہائش پذیر ہے.

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی کی علاقائی حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ مبینہ دہشت گرد اور سنہ 2000  میں القاعدہ کے بانی اور سربراہ اسامہ بن لادن کی سیکیورٹی پر مامور شخص گذشتہ کئی برس سے جرمنی میں رہائش پذیرہے۔

    سیکیورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ تیونس سے تعلق رکھنے والا یہ شخص سنہ 1997 سے جرمنی میں مقیم ہے، حکومت کی جانب سے مذکورہ شخص کو ماہانہ بنیادوں پر ویلفیئر کی مد میں 1168یورو دیئے جاتے ہیں۔

    اسامہ بن لادن کے محافظ کے حوالے سے شائع ہونے والی اطلاعات علاقائی حکومت نے اس وقت شائع کیں، جب دائیں بازو کی جماعت کی جانب سے سمیع اے نامی شخص کی معلومات کا مطالبہ کیا گیا۔

    جرمنی کے خبر رساں اداروں نے مذکورہ شخص کو لاحق خطرات کے باعث مکمل نام شائع نہیں کیا ہے۔

    پولیس نے سنہ 2005 میں سمیع کو القاعدہ سے تعلق کے شبے  میں گرفتار کرکے دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، عدالت میں عینی شاہد نے گواہی دی تھی کہ مذکورہ شخص سنہ 2000 میں کئی مہینے تک اسامہ بن لادن کے باڈی گارڈ کے طور افغانستان میں گزارچکا ہے۔ تاہم سمیع اے نے مذکورہ گواہ کے بیان کی تردید کی تھی، لیکن جج نے گواہی پر یقین کیا تھا۔

     

    جرمن پولیس نے سنہ 2006 میں دوبارہ سمیع اے کو القاعدہ سے تعلق کے شبے میں گرفتار کرکے تفتیش کی تھی، البتہ ان پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔

    مذکورہ شخص سنہ 2005 سے اپنی جرمن نژاد اہلیہ اور چار بچوں کے ہمراہ جرمنی کے مغربی شہر بوچم منتقل ہوگیا تھا۔

    سمیع اے نے سنہ 2007 میں حکومت کو سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی لیکن جرمن حکومت نے مذکورہ شخص کو جرمنی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے درخواست مسترد کردی تھی۔

    جس کے بعد سے سمیع اے کو القاعدہ سے مبینہ تعلق کے شک میں روزانہ کی بنیاد پر پولیس اسٹیشن میں حاضری لگانی پڑتی ہے۔

    سمیع اے نے القاعدہ یا دیگر جہادی تنظیموں کے رابطے کو مسترد کیا ہے، جس کے بعد جرمنی کی حکومت نے مذکورہ شخص کو تشدد کے خدشات کے پیش نظر تیونس منتقل کرنے سے انکار کردیا ہے۔

    جرمنی کی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یورپ کنونشین کے مطابق انسانوں پر تشدد کرنے پر پابندی ہے، اس لیے مشتبہ افراد کو تیونس اور عرب ممالک میں منتقل نہیں کیا، کیوں کہ شمالی افریقہ میں ان پر تشدد کے خطرات ہیں۔

    اسامہ بن لادن عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے بانی اور سابق سربراہ ہیں، جنہیں امریکی افواج نے سنہ 2001 میں پاکستان میں خفیہ آپریشن کے دوران ہلاک کیا تھا۔

    خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 میں امریکا کے ٹریڈ ٹاورز پر حملہ کرنے والے 3 خودکش حملہ آور، حملے سے قبل ہیمبرگ میں القاعدہ کے سیل سے منسلک تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • یورپ کا خوبصورت ترین شہر

    یورپ کا خوبصورت ترین شہر

    جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ کا شمار یورپ کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اسے ’سو میناروں کا شہر‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    دریائے ولتوا کے کنارے اس شہر کی آبادی 12 لاکھ ہے۔ سنہ 1992 سے پراگ کا تاریخی مرکز یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔

    4

    گنیز ورلڈ ریکارڈز کے مطابق پراگ میں موجود قلعہ دنیا کا سب سے وسیع قدیم قلعہ ہے۔

    3

    1

    pr-4

    اس کا اولڈ ٹاؤن اسکوائر ایک مشہور جگہ ہے جہاں پر تعمیر کی گئی رنگ برنگی عمارتیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

    Pr-1

    pr-2

    یہاں نوکدار میناروں والے کلیسا ہیں جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور دنیا بھر کے سیاح یہاں عبادت اور تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔

    5

    6


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پیرس حملوں کے ملزم کو پولیس پر فائرنگ کے الزام میں بیس سال قید

    پیرس حملوں کے ملزم کو پولیس پر فائرنگ کے الزام میں بیس سال قید

    برسلز: پیرس حملوں کے ملزم عبد السلام اور ان کے ایک ساتھی کو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کی عدالت نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کے الزام میں بیس سال قید کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق 2015 میں پیرس کے دہشت گردانہ حملوں کے واحد زندہ مشتبہ ملزم فرانسیسی شہری صالح عبد السلام کو ان کی غیر موجودگی میں دہشت گردانہ محرکات کے تحت اقدام قتل کے ایک علیحدہ مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے۔

    عبد السلام کے خلاف پیرس حملوں کے الزامات کے تحت مقدمے کی سماعت تاحال شروع نہیں ہوئی ہے تاہم برسلز میں ایک الگ مقدمے میں انھیں قصور وار قرار دیتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ جب وہ پولیس اہل کاروں پر فائرنگ کر رہا تھا تو اس کی سوچ دہشت گردانہ ہی تھی، خیال رہے اس کیس کی پہلی سماعت میں عبدالسلام نے عدالت پر مسلمانوں کے خلاف تعصب برتنے کا الزام لگایا تھا۔

    واضح رہے کہ مارچ 2016 میں عبدالسلام اور ان کے ساتھی تیونس کے شہری سفیان عیاری پر بیلجیم پولیس کی طرف سے ایک چھاپے کے دوران فائرنگ کرنے کا الزام تھا، عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ ’ملزمان کی بنیاد پرستانہ سوچ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔‘

    پیرس حملے کے مرکزی ملزم کا شرمناک بیان

    خیال رہے کہ 13 نومبر 2015 کو پیرس میں ایک ہی دن میں چھ مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں میں ایک سو تیس افراد مارے گئے تھے، ان حملوں کو فرانس میں جنگ عظیم کے بعد کیے جانے والے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملے تصور کیا جاتا ہے۔ اس مقدمے میں عبدالسلام کو بیلجیم سے ملک بدر کرکے فرانس کے حوالے کیا گیا تھا جہاں وہ تاحال قید میں ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • عرب مہاجرین کی یہود دشمنی ملک کا امن تباہ کردے گی، اینجیلا مرکل

    عرب مہاجرین کی یہود دشمنی ملک کا امن تباہ کردے گی، اینجیلا مرکل

    برلن : جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے یہودی مخالف اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی میں مقیم عرب پناہ گرینوں یہودی دشمنی ملک کا امن تباہ کردے گی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کی چانسلر اینجیلا مرکل نے جرمنی میں پناہ گرین مہاجرین کی جانب سے یہودیت مخالف اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’عرب ملکوں سے آئے ہوئے مہاجرین کی یہودی دشمنی جرمنی کے کے لیے نئی مشکل کی صورت میں سامنے آئی ہے۔‘

    جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ جرمنی میں بڑھتی ہوئی یہودیوں کی مخالفت کی روک تھام کے لیے حکومت نے ایک کمشنر تعینات کردیا ہے۔ ’حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ یہودیوں کی عبادگاہیں، اسکول، نرسری سب کے لیے سیکیورٹی گارڈز رکھنا ضروری ہوگیا ہے‘۔

    اینجیلا مرکل کا کہا ہے کہ ماضی پیش آنے والے ہولوکاسٹ کے واقعے کے تناظر میں جرمنی اسرائیل کی سیکیورٹی اور سلامتی کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔ البتہ جرمن سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعے کا حل صرف اور صرف دو ریاستی نظریہ ہے، یروشلم کا مسئلہ بھی دو ریاستی نظریئے کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔

    جرمن چانسلر کا یہ مؤقف گذشتہ دنوں برلن میں ایک عربی شخص کی جانب سے دوجوانوں پر تشدد کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ایک عرب نے کِپّہ(یہودی ٹوپی) پہنے ہوئے نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

    جرمنی کے خبر رساں اداروں کے مطابق نوجوانوں پر حملہ کرنے والا عرب شامی پناہ گزین تھا جو مہاجرین کیمپ میں رہائش پذیر تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جرمنی: آندریا ناہلیس ایس ڈی پی کی پہلی خاتون سربراہ منتخب

    جرمنی: آندریا ناہلیس ایس ڈی پی کی پہلی خاتون سربراہ منتخب

    برلن : جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی 155 سالہ طویل تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون آندریا ناہلیس کو پارٹی کی چیئر پرسن منتخب کرلیا.

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک کے پارٹی انتخابات کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئی.جس میں حکومت میں شامل ایس ڈی پی کے 6 سو ارکان اور 45 بورڈ ممبران نے شرکت کرکے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا.

    جرمنی کے خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پارٹی صدر کی ووٹنگ کے دوران 66.3 فیصدر ممبران نے آندریا ناہلیس کو ووٹ دے کے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا نیا سربراہ منتخب کیا. ماہرین سیاسیات 47 سالہ آندریا ناہلیس کے انتخاب کو پارٹی کے مستقبل کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں.

    خیال رہے کہ گذشتہ برس ستمبر میں جرمنی کے پارلیمانی انتخابات میں ایس ڈی پی کی عوامی مقبولیت میں واضح کمی واقع ہوئی تھی. جس کے نےنتیجے میں پارٹی سربراہ مارٹن شلش نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا.

    ناقدین کے مطابق پارٹی کی پارلیمانی انتخابات میں مایوس کن کارگردی اور عوام میں کم ہوتی مقبولیت کے پیش نظر نئی سربراہ ناہلیس کو اپنی سیاسی جماعت کی بنیادوں کو دوبارہ سے مضبوط کرکے زیادہ محنت کرنا ہوگی.

    سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین گذشتہ سال الیکشن میں قدامت پسند جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے حق میں نہیں تھے. ناہلیس کو پارٹی اراکین کو متحد کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی.

    سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی نئی سربراہ آندریا ناہلیس کا پارٹی انتخابات میں کامیابی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی جماعت میں اصلاحات کی جاسکتی ہیں، جرمنی کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کو ایس ڈی پی ضرورت ہے، حکومت اور ایس ڈی پی دو نہیں بلکہ ایک ہی جماعت ہے.

    یاد رہے کہ مذکورہ پارٹی 23 مئی سنہ 1863 میں جرمنی کے شہر لائپسک میں مزدوروں کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کے دوران وجود میں آئی تھی.

    واضح رہے کہ ولی برانٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے پہلے جرمن چانسلر تھے، جو تقریبآ پارٹی بننے کے 100 برس بعد چانسلر منتخب ہوئے تھے. 150 برس میں اب تک ایس ڈی پی سے تعلق رکھنے والے تین افراد جرمنی کی قیادت کرچکے ہیں.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوبیل کمیٹی میں جنسی اسکینڈل کے باعث بحران شدید تر ہوگیا، سویڈش بادشاہ کی مداخلت

    نوبیل کمیٹی میں جنسی اسکینڈل کے باعث بحران شدید تر ہوگیا، سویڈش بادشاہ کی مداخلت

    سویڈن: بین الاقوامی نوبیل کمیٹی کے ایک اور رکن نے استعفیٰ دے دیا ہے جس کے بعد جنسی اسکینڈل کے باعث پیدا ہونے والا بحران شدید تر ہوگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی جو سویڈش اکیڈمی کہلائی جاتی ہے، میں جنسی ہراسگی کے باعث استعفیٰ دینے والے اراکین کی تعداد چھ ہوگئی ہے۔

    کمیٹی کے معاملات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب کمیٹی کی پہلی مستقل خاتون سیکریٹری سارا ڈینئس کو کمیٹی سے وابستہ مشہور فوٹوگرافر جین کلاڈ ارنالٹ کے خلاف جنسی ہراسگی کے الزامات پر عہدے سے برطرف کیا گیا۔

    خبر کے مطابق سارا ڈینئس کے جانے سے کمیٹی کی اٹھارہ سیٹوں میں سے سات سیٹیں خالی ہوچکی ہیں جس کے باعث کمیٹی اب کسی خالی سیٹ پر کسی اور رکن کی تقرری نہیں کرسکتی کیوں کہ ضابطے کے مطابق بارہ ارکان کا کورم پورا ہونا ضروری ہے۔ کورم پورا کرنے کے لیے سویڈن کے بادشاہ نے مداخلت کرتے ہوئے ضابطوں میں تبدیلی کرنے کا حکم دے دیا تاکہ کمیٹی کا کام جاری رہ سکے۔

    نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    قبل ازیں سویڈش اکیڈمی نے جنسی ہراسگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی کی اٹھارہ خواتین ارکان کو فرانسیسی باشندے جین ارنالٹ نے بلیک لسٹ کرنےکی دھمکی دے کر جنسی طور پر ہراساں کیا۔ واضح رہے کہ الزامات کا یہ کیس 1996 سے 2017 کے درمیان طویل عرصے پر مشتمل ہے۔

    کمیٹی نے اس بات کی بھی تصدیق کردی ہے کہ نوبیل انعام کے لیے منتخب ہونے والے ادیبوں کے نام بھی تواتر کے ساتھ وقت سے قبل منکشف ہوتے رہے ہیں، ان الزامات نے ادب میں نوبیل انعام کی ساکھ کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔

    واضح رہے کہ ارنالٹ سویڈش اکیڈمی کی ایک رکن کیٹرینا فراسٹنسن کے شوہر ہیں، جس کی وجہ سے کمیٹی میں انھیں بہت زیادہ عمل دخل حاصل تھا، خواتین ارکان کا مطالبہ تھا کہ فراسٹنسن سے استعفیٰ لیا جائے جو اکیڈمی ضابطہ اخلاق کے باعث ممکن نہیں تھا جس پر احتجاج کرتے ہوئے خواتین ارکان نے استعفے دیے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مودی کی جرمن چانسلر سے ملاقات، تجارتی تعاون میں‌اضافہ متوقع

    مودی کی جرمن چانسلر سے ملاقات، تجارتی تعاون میں‌اضافہ متوقع

    برلن : بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دورہ جرمنی کے موقع پرانجیلا مرکل سے بھی ملاقات کی، ملاقات کے دوران دونوں سربراہوں نے بھارت اور جرمنی کے مابین آزاد تجارتی امور پر بات چیت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ روز دورہ جرمنی کے موقع پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے برلن میں ملاقات کی ہے، جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفان سائبرٹ نے کہا ہے کہ ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے سربراہوں کی تجارتی امور پر بات چیت ہوئی۔

    ترجمان جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت اور جرمنی کے اقتصادی مفادات مشترکہ ہیں اس لیے جرمنی ہمیشہ بھارت کا خوش دلی سے استقبال کرتا ہے.

    ماہرین اقتصادیات کی جانب سے خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ مودی اور انجیلا میرکل کی ملاقات دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور تجارت کے حوالے سے بہت اہم ہے۔

    بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پیغام دیا ہے کہ ’بھارتی وزیر اعظم کے دورہ جرمنی سے یہ بات ثابت ہے کہ دونوں ممالک اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کے حق میں متحد ہیں‘۔

    جرمنی کے صنعتی اداروں کے مالکان انجیلا میرکل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ تجارتی رابط میں مزید بہتری لائیں اور نئی دہلی حکومت سے آزاد تجارتی معاہدے پر مذاکرات کریں۔

    واضح رہے کہ بھارت اور جرمنی گذشتہ دس برس سے آزاد تجارتی معاہدوں پر مذاکرات کرنے میں مصروف ہیں تاہم اس حوالے سے کسی بھی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہے ہیں۔

    جرمنی کی متعدد کمپنیاں بھارت کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہی ہیں، جنہیں مودی حکومت سے ممکنہ طور پر تجارتی محصولات میں اضافے کا خدشہ ہے، محصولات میں اضافے کے پیش نظر کمپنیوں نے جرمن چانسلر سے مطالبہ کیا ہے کہ ’وہ بھارت کے ساتھ نئی تجارتی پالیسیاں ترتیب دیں تاکہ جرمن کمپنیوں کو تحفظ فراہم ہوسکے‘۔

    جرمنی کے خبر رساں اداروں کے مطابق اگر بھارت کی جانب سے تجارتی محصولات میں اضافے سے دونوں ملکوں کے مابین تجارت بالخصوص جرمنی کی کار بنانے والی کمپنیاں بہت متاثر ہوں گی۔

    بھارتی وازارت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ جرمنی یورپ میں بھارت کا اہم تجارتی ساتھی ہے، سنہ 2016 میں جرمنی اور بھارت کے درمیان 21.44 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی۔

    یاد رہے کہ گذشہ ماہ جرمنی کے صدر فرانک والٹر اسٹین مائر نے اپنے دورہ بھارت کے دوران کہا تھا کہ جرمنی نے ہندوستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکا کے غلام کا ایوارڈ نہیں چاہیئے، شام کا فرانس کو کرارا جواب

    امریکا کے غلام کا ایوارڈ نہیں چاہیئے، شام کا فرانس کو کرارا جواب

    دمشق : شامی حکومت نے فرانس کی جانب سے صدر بشار الااسد کو دیا گیا اعلیٰ ترین ایوارڈ لوٹاتے ہوئے کہا ہے کہ’بشارالااسد کے لیے امریکا کے غلام اور حامی ممالک کے ایوارڈ سجانا اعزاز کی بات نہیں‘.

    تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام نے صدر بشار الااسد کو فرانس کی جانب سے دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ فرانس کو واپس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایسے کسی ملک کا تحفہ یا انعام نہیں رکھوں گا جو امریکا کا غلام ہو‘۔

    شام نے ایوارڈ لوٹانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب کچھ روز قبل فرانسیسی صدر نے اعلان کیا تھا کہ بشار الاسد سے ایوارڈ واپس لینے کے لیے ’انضباطی کارروائی‘ جاری ہے۔

    شامی صدر بشار الاسد نے شام میں موجود رومانیہ کے سفارت خانے کے ذریعے ایوارڈ فرانس کو واپس کیا ہے۔

    شام کے صدر بشار الاسد کو فرانس کا اعلیٰ ترین ایواڈ سنہ 2001 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اقتدار سنبھالنے پر سابق فرانسیسی صدر جیکس شراک کی جانب سے دیا گیا تھا۔

    شام کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ ’شامی وزارت خارجہ نے فرانس کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد کو دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ جمہوریہ فرانس کو واپس کردیا ہے‘۔


    فرانس کا شامی صدر کو بڑے سِول اعزاز سے محروم کرنے کا فیصلہ


    دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ شامی صدر کے لیے امریکا کے غلام ممالک اور حامیوں کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی ایوارڈ سجاکر رکھنا اعزاز کی بات نہیں ہے، کیوں کہ امریکا پوری دنیا میں دہشت گردی کا معاونت کار اور موجد ہے‘۔

    واضح رہے کہ فرانس کی جانب سے ہر سال فرانس کے لیے خدمات انجام دینے والے، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور آزادی صحافت کے لیے کوششیں کرنے والے 3000 افراد کو اعلیٰ ترین ایوارڈ لیجئین ڈی اونر دیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں فرانس نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر دوما میں مبینہ کیمیائی بم حملوں کے رد عمل میں شام کی تنصیبات کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں