Category: یورپ

  • برطانیہ میں فائرنگ،2 خواتین ہلاک

    برطانیہ میں فائرنگ،2 خواتین ہلاک

    لندن: برطانیہ کے شہر سوسیکس میں فائرنگ کے نتیجے میں دو خواتین ہلاک ہوگئی، پولیس واقع میں ملوث افراد کوڈھونڈنے میں ناکام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے شہر سوسکیس میں بیکس ہل روڈ پر واقع ایک رہائشی عمارت کے اندردو خواتین کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملنے پر سوسیکس پولیس نے جائے وقوع پر پہنچ کر لاشوں کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے بیھج دیا تھا۔

    سوسیکس پولیس نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ علاقہ مکین کی اطلاع پر جائے وقوع پر پہنچے تو 32 اور 53 سال کی دو خواتین گھر کے اندر مردہ حالت میں پائی گئی، جن کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ حادثے کے مقام پر ایک حاملہ خاتون سمیت دو خواتین اور بھی موجود تھی جنہیں حفاظت کے پیش نظر محفوظ جگہ پر منتقل کردیا گیا ہے۔

    سوسیکس پولیس کے مطابق واقع کے دو گھنٹے بعد ایک 35 سالہ شخص کو مرنے والی خواتین کے قتل کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے جس کے پاس سے برآمد ہونے والا اسلحہ تفتیشی افسران نے اپنے قبضے میں لے فورنسک ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا ہے۔

    پولیس کے ترجمان جیسن ٹنگلی کا کہنا تھا کہ ’32 اور 53 سالہ خواتین کو گولیاں مارکراتنی بے دردی سے قتل کرنا بہت المناک ہے، اور ہماری ہمدردی فائرنگ میں ہلاک ہونے والی متاثرہ خواتین کےاہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ ہے‘۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاحال پولیس حادثے میں ملوث افراد کی تلاش میں ناکام رہی ہے لیکن ہم عینی شاہدوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف پولیس کی مدد کریں‘۔

    پولیس افسران نے مزید بتایا کہ ’جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے وہ مقتول خواتین کو پہچانتا ہے‘۔

    علاقہ مکینوں نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی متعدد گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی اور ساتھ پولیس کا ہیلی کاپٹر بھی جائے حادثہ کی ہوائی نگرانی کے لیے موجود تھا، پولیس نے روڈ کو بند کر کے مقامی افراد کو تحقیقات مکمل ہونے تک اپنے گھروں میں رہنے کا مشورہ دیا۔


    برطانیہ میں گینگ کے ہاتھوں تشدد سے زخمی مسلمان طالبہ دم توڑگئی


     خیال رہے کہ برطانیہ میں پچلھے کچھ دنوں میں متعدد پُر تشدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اس کے علاوہ برطانوی شہر ناٹنگھم میں مسلمان خاتون طلبہ پر حملہ کیا تھا جس کے بعد گذشتہ روش طلبہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔

    یاد رہے کہ 10 مارچ کو بھی برطانوی شہر برامچ میں ایک شہری کو سر میں گولی مار کر شدید زخمی کیا گیا تھا۔

    اس کے علاوہ 7 مارچ کو لندن کے علاقے ٹویکن ہیم میں گھر سے خاتون کی تشدد زدہ لاش جبکہ شوہر اور بیٹا ساحل سمندر پر مردہ حالت میں پائے گے تھے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ دنوں 4 مارچ کو لندن میں ہی سابق روسی جاسوس اور اس کی بیٹی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد دونوں کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے چوتھی مدت کے لیےعہدے کا حلف اٹھالیا

    جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے چوتھی مدت کے لیےعہدے کا حلف اٹھالیا

    برلن : اینجیلا مرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی چانسلر منتخب ہوگئیں، انہوں نے چوتھی مدت کے لیے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن پارلیمان نے اینجیلا مرکل کو چوتھی مدت کے لیے ملک کی چانسلر منتخب کر لیا گیا ہے، انہوں نے انتخاب کے بعد اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔

    ایوان کے 709ارکان میں سے364 نے خفیہ بیلٹ کے ذریعے میرکل کے حق میں ووٹ دیا،309 نے ان کے خلاف ووٹ دیا اور9ارکان نے رائے شماری کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔

    میرکل نے جیت کے لیے درکار50فیصد ووٹوں سے9ووٹ زیادہ حاصل کیے جبکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے35ارکان نے ان کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔

    جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات میں چانسلر انجیلا مرکل کی جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین نے 32 فیصد ووٹ حاصل کرکے برتری حاصل کی تھی۔

    ایگزٹ پول کے مطابق دائیں بازو کی جماعت سوشل کریٹس 20 فیصد ووٹ حاصل کرکے انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہی۔

    یاد رہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے171روز کے بعد جرمن چانسلر کا انتخاب عمل میں آیا ہے، جرمنی کی جدید تاریخ میں عام انتخابات اور چانسلر کے انتخاب میں یہ طویل ترین عرصہ ہے۔


    مزید پڑھیں: اینجلا مرکل دنیا کی سوطاقتور ترین خواتین میں سرفہرست


      انجیلا مرکل سال 2005 میں پہلی مرتبہ چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ انہوں نے 2 مرتبہ حکومت بنانے کے لیے اپنی سب سے بڑی حریف سیاسی پارٹی ایس پی ڈی اور ایک مرتبہ لبرلزسے اتحاد کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ٹریفک پولیس کا خواتین ڈرائیورز کے لیے انوکھا تحفہ

    ٹریفک پولیس کا خواتین ڈرائیورز کے لیے انوکھا تحفہ

    عالمی یوم خواتین کو جہاں دنیا بھر میں مختلف انداز سے منایا گیا وہیں دنیا کے ایک حصے میں ٹریفک پولیس نے بھی اس دن کو خواتین ڈرائیورز کے لیے نہایت خاص بنا دیا اور ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔

    یورپی ملک لتھوینیا میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر سڑکوں پر آنے والی تمام خواتین ڈرائیورز کو ٹریفک پولیس کی جانب سے روک لیا گیا۔

    اور اس وقت خواتین کو خوشگوار حیرت ہوئی جب ٹریفک پولیس نے انہیں چالان دینے کے بجائے پھول تھما دیا اور عالمی یوم خواتین کی مبارکباد دی۔

    لتھوینیا کے مختلف شہروں میں ٹریفک پولیس کی جانب سے دیے جانے والے ان تحائف کو بے حد پذیرائی ملی جس نے کچھ خواتین کو حیرت زدہ اور کچھ کو نہایت خوش کردیا۔

    لتھوینیا میں یہ کام پہلی بار انجام نہیں دیا گیا۔ لتھوینیا کی ٹریفک پولیس گزشتہ کئی برسوں سے پھول پیش کر کے یوم خواتین کو خواتین ڈرائیورز کے نہایت یادگار اور خوشگوار بنا دیتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برلن میں انتہاپسندوں نےمسجد پرحملہ کرکےآگ لگادی

    برلن میں انتہاپسندوں نےمسجد پرحملہ کرکےآگ لگادی

    برلن:جرمنی کے دارلحکومت برلن میں اتوار کی صبح مشتعل افراد کی جانب سے مسجد پر حملہ کر کےآگ لگادی گئی‘ پولیس نے حملے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اتوار کی صبح برلن کے علاقے کوہلی وینسٹرابی میں انتہا پسندوں نے مسجد پر حملہ کرکے آگ لگادی تھی۔ برلن فائر بریگیڈ کے ترجمان کے مطابق آگ پر ایک گھنٹے بعد قابو پالیا تھا تاہم مسجد میں ہونے والی آتشزدگی سے اندر رکھا ہوا سامان جل کر راکھ ہوگیا ہے البتہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

    پولیس نے اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مسجد پر حملہ ’مولوٹف کوکٹیل‘نامی دستی بم کے ذریعے کیا گیا ہے۔ پراسٹیکیوٹر کے مطابق’متعدد مولوٹف کوکٹیل کو مسجد کے اندر کھڑکی کے ذریعے پھینکا گیا تھا‘جرمنی میں مساجد پر کیے جانے والے حملے اسلام دشمن عناصر اور نسل پرستوں کی کارروائی لگتی ہے۔

    اشٹوٹگارٹ پراسیکیوٹر اور مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ہفتے روز لاوفن حملے میں ملوث پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے حملہ کرکے مسجد کے پیش امام کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔

    جرمنی میں چند روز کے دوران مسجد پر ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے اس سے پہلے 8 مارچ کو جمعرات کی رات جرمن صوبے بادن ورٹمبرگ کے دارلحکومت اشٹوٹگارٹ کے علاقے لاوفن میں بھی مسجدپر حملہ کرکے آگ لگائی تھی۔ جس پر مسجد کے پیش امام نے اپنی مدد آپ کے تحت آگ قابو پایا تھا، البتہ تقریبا پانچ ہزار یوروکے سامان کا نقصان ہوا تھا۔

    جرمنی میں موجود ترک کمیونٹی کے سربراہ گوکے سوفاؤگلو کہتے ہیں کہ جرمنی میں تیس لاکھ نسلی ترک آباد ہیں اور مساجد پر حملہ’غیر انسانی جرم‘ہے اور ’دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے‘۔

    جرمنی کی وزارت داخلہ کے مطابق سال 2017 میں مسلمانوں اور مساجد و مسلم اداروں پر ایک ہزارحملے ہوئے ہیں جس میں 33 افراد زخمی ہوئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • روس کا آواز کی رفتار سے تیز میزائل کا کامیاب تجربہ

    روس کا آواز کی رفتار سے تیز میزائل کا کامیاب تجربہ

    ماسکو: روس نے آواز کی رفتار سے دس گناہ تیز ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربے کی ویڈیو اتوار کے روز میڈیا پر جاری کردی۔

    تفصیلات کےمطابق روس کی وزارت دفاع نے اتوار کے روز ملکی سطح پر بنائے گئے نئے ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربے کے کی ویڈیو جاری کردی ہے۔ روسی حکام کی جانب جاری کی گئی ویڈیو میں واضح طور پر کنزال نامی ہائپر سونک میزائل کو اپنے ہدف کو نشانہ بناتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ میزائل آواز کی رفتار سے بھی دس گناہ زیادہ تیزی سے سفر کرتے ہوئے اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے اور ’یہ ایک مثالی ہتھیار ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ کنزال میزائل کو آرمی ڈسٹرکٹ کے جنوبی حصّے میں تعینات کیا گیا ہے۔

    روس کے نائب وزیر اعظم ڈیمٹری روگوزِن کا سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ روس ایم آئی جی 31 طیارے کو جدید بنانے کے لیے کام کررہا ہے تاکہ کنزال میزائل کو لے جا سکے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ کنزال میزائل روس کی منصوبہ بندی کا حصّہ ہے اور یہ میزائل اپنے ہدف کو بخوبی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کنزال میزائل کے حوالے سے پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے کہ ’روس عنقریب نئے میزال کا تجربہ کرے گا جسے کسی بھی ملک کا ریڈار سسٹم ٹریک نہیں کرسکتا‘۔

    امریکی حکام نے روس کی جانب سے بنائے گئے آواز کی رفتار سے تیز کنزال میزائل کے تجربے پر کہنا تھا کہ’ روس نے نیا میزائل بنا کر ہتھیاروں کے معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • مسلمان اسکالر طارق رمضان فرانس میں عصمت دری کے الزام میں گرفتار

    مسلمان اسکالر طارق رمضان فرانس میں عصمت دری کے الزام میں گرفتار

    پیرس: فرانس میں سوئز نژاد مذہب اور فلسفے پر متعدد یونی ورسٹیوں میں تعلیم دینے والے پروفیسر طارق رمضان کے خلاف عصمت دری کا ایک اور مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز فرانس کی عدالت میں آکسفورڈ سمیت متعدد جامعات میں مذہب اور فلسفے کی تعلیم دینے والے مسلمان اسکالر طارق رمضان پر45 سالہ خاتون نے عصمت دری کا مقدمہ کروایا ہے،عدالتی ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے پروفیسر طارق رمضان کے خلاف اس سے پہلے بھی دو مقدمے درج ہوچکے ہیں۔

    پروفیسر طارق رمضان نے اپنے اوپر لگائے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے گذشتہ سال نومبر میں بریٹن یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے عہدے کو عارضی طور پر خیرباد کہہ دیا ہے۔ پروفیسر رمضان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ وہ عدالت میں ان دونوں خواتین کے خلاف مقدمہ درج کریں گے‘ جنہوں کے ان پر زیادتی کے جھوٹے الزامات عائد کیے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق متاثرہ خاتون نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ پروفیسر طارق رمضان 2013 سے 2014 کے دوران کئی مواقع پر پرتشدد جنسی حملے کرچکے ہیں۔ گذشتہ ماہ فرانس کی عدالت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ مسلم اسکالر رمضان کو گرفتار کرکے ان پر لگائے گئے عصت دری کے الزامات کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔

    عدالتی احکامات جاری ہونے کے بعد پولیس نے اس ہفتے کے اوائل میں مسلمان اسکالر طارق رمضان کو فرانس سے گرفتار کرکے مزید تفتیش کی غرض سے جیل منتقل کردیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ طارق رمضان مذہبی اسکالر حسن البنا کے نواسے ہیں۔ حسن البنا اسلام پسند رہنما اور مصر کی معروف مذہبی جماعت اخوان المسلمون کے بانی ہیں اور مسلمان نوجوانوں کے اندر کافی مقبول اور اہمیت کے حامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے فرانس میں مسلمان خواتین کے پردے کے حوالے سے لگائی گئی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

    ذرائع کے مطابق پروفیسر طارق رمضان کے خلاف 2016 میں ہینڈا یاری نامی خاتون نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا اس کے علاوہ 2009 میں بھی اس قسم کی ایک شکایت سامنے آئی تھی۔

    علاوہ ازیں چار سوئس خواتین نے بھی جنیوا میں دورانِ تعلیم پروفیسر طارق رمضان پر جنسی ہراسگی کا الزام عائد کیا تھا تاہم پروفیسر طارق رمضان نے ان تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کوششیں انہیں بدنام کرنے کی سازش اور اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہیں۔

    خیال رہے حسن البنا کے نواسے پروفیسر طارق رمضان کے والد سعید رمضان بھی ممتاز اسلامی اسکالر تھے جنہیں مصری صدر جمال عبدالناصر کے دور میں جلاوطن کردیا گیا تھا جس کے بعد یہ گھرانہ پہلے سعودی عرب اور پھر سوئٹزرلینڈ منتقل ہوا جہاں پروفیسر طارق رمضان کی پیدائش ہوئی۔

    پروفیسر طارق رمضان نے سوئٹزرلینڈ میں ہی گریجویشن کی اور پھر فلسفہ اور فرانسیسی ادب کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد عربی اور مطالعہ علوم اسلامی کی تعلیم جامعۃ الازہر سے حاصل کی اور درس و تدریس کو اپنا اوڑنا بچھونا بنایا، وہ عراق پر اتحادی فوجوں کے حملے کے سخت ناقد بھی تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • اٹلی میں انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے رسہ کشی

    اٹلی میں انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے رسہ کشی

    اٹلی: یورپ کی چوتھی بڑی معیشت انتخابات کے بعد اقتدار کے حصول کے لیے رسہ کشی جاری ہے ‘ کوئی بھی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے‘ اینٹی اسٹیبلشمنٹ فائیو اسٹار پارٹی نمایاں تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق جنوبی یورپ میں واقع ملک اٹلی میں اتوار کے روز ہونے والےانتخابات کے نتائج جاری کردیے گئے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ مخالف د وجماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت حکومت بنانے کی زیادہ حقدار ہے۔

    جاری کردہ نتائج کے مطابق عوام میں مقبول فائیو اسٹار موومنٹ ایک تہائی ووٹ لے کر سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے تاہم وہ بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری جانب اینٹی امیگرینٹ لیگ کا کہنا ہے

    کہ وہ سنٹر رائٹ الائنس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

    مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پیچیدہ صورتحال کے تحت حکومت کے تشکیل کے لیے ہونے والے مذاکرات اور اتحاد سازی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم میٹیو رینزی جو کہ سنٹر لیفٹ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ہے‘

    انہوں نے اپنی جماعت کی ناقص کارکردگی کے سبب استعفیٰ دیا تھا‘ ان کی جماعت 20 فیصد ووٹ بھی حاصل کرپائی۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کسی بھی ’نظام مخالف اتحاد‘ کا حصہ بننے کےبجائے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کرے گی۔ ان کی جماعت اور فار رائٹ لیگ نے ایوانِ زیریں میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اور لیگ کو ان پر تین فیصد سے برتری حاصل ہے۔

    اينٹی اسٹيبلشمنٹ اور نظام کی مخالفت کرنے والی ’فائيو اسٹار موومنٹ‘ کو ڈالے گئے ووٹوں ميں اضافہ ہوا ہے اور وہ سب سے بڑی انفرادی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ پارٹی کے حق ميں اکتيس فيصد ووٹ ڈالے گئے۔ مرکز سے بائيں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکمراناتحاد کو تئيس فيصد ووٹ مل سکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • گلوبل وارمنگ سے مطابقت کا انوکھا طریقہ

    گلوبل وارمنگ سے مطابقت کا انوکھا طریقہ

    دنیا بھر میں رونما ہوتے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ ایک اہم مسئلہ ہے جو انسانی بقا اور معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

    تاہم نیدر لینڈز کا شہر روٹر ڈیم اس مسئلے کے ساتھ انوکھے طریقے سے مطابقت کر رہا ہے۔

    نیدر لینڈز کا نصف سے زائد رقبہ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ صدیوں سے نیدر لینڈز میں نالے اور ندیاں بنائی جارہی ہیں تاکہ بارشوں میں آنے والا پانی ان میں چلا جائے اور شہر خشک رہ سکیں۔

    مزید پڑھیں: مشرق سے مغرب تک تباہ کن سیلاب اور طوفان

    لیکن اب کلائمٹ چینج کی وجہ سے یہ ملک مزید غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ انتظامیہ کو احساس ہے کہ بلند عمارتیں بنانے یا پانی کے آگے پشتے لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، چنانچہ انہوں نے اس مسئلے سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ مطابقت کرنے کا سوچا۔

    ایک منصوبے کے تحت اب روٹر ڈیم میں نئے سرے سے تعمیرات کی جارہی ہیں جس کے بعد شہر کے گیراج، پارک اور اسکوائرز پانی ذخیرہ کرنے کے مقامات بن گئے ہیں۔

    بارشوں کے موسم میں جب پانی سمندروں اور دریاؤں کے کناروں سے اچھل کر شہر کے اندر آجاتا ہے تب کشتیوں میں سفر کرنا یا تیراکی کا لباس پہن کر گھر سے نکلنا معمول کی بات بنتا جارہا ہے۔

    اس طریقہ کار سے نیدر لینڈز نے ایک بڑے مسئلے کو اپنے لیے ایک بہترین موقع میں بدل لیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • غریب ماؤں کی کوکھ کرائے پردستیاب

    غریب ماؤں کی کوکھ کرائے پردستیاب

    کیو: غربت کا شکار یورپی ملک یوکرائن تیزی سے ’کرائے کی ماؤں‘ کا مرکز بنتا جارہا ہے‘ امیر ممالک کے ایسے جوڑے جو خود کسی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں وہ یوکرائن کی نوجوان عورتوں کی کوکھ کو کرائے پرحاصل کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرائن میں سروگیسی (کرائے کی ماں ) کو قانونی حیثیت حاصل ہونے کے سبب بیشتر امیر ممالک کے باشندے اپنے لیے بچہ حاصل کرنے کے لیے یہاں کا رخ کررہے ہیں۔

    یوکرائن میں سینکڑوں ایسی عورتیں ہیں جو سروگیسی کی صنعت کا حصہ بن چکی ہیں۔ جب انڈیا، نیپال اور تھائی لینڈ میں سروگیسی کی صنعت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو لوگوں نے یوکرائن کا رخ کرلیا۔

    ایسی ہی ایک خاتون نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ سروگیسی (کرائے کی ماں) ) کے بارے میں انہیں معلومات ٹیلویژن کی خبروں کے ذریعے ہوئی۔ وہ ابھی سکینڈری سکول سے نکلی تھیں اور ہوٹل میں نوکری کرنے کا سوچ رہی تھیں جب انھیں سروگیسی کے بارے میں معلوم ہوا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ کسی ہوٹل کی نوکری میں انہیں زیادہ سے زیادہ 200 ڈالر تنخواہ مل سکتی تھی جبکہ وہ اپنی کوکھ کرائے پر دے کر 20ہزار ڈالر کما سکتی ہے۔

    مذکورہ خاتون کا خاندان غریب نہیں ہے۔ ان کی ماں ایک اکاونٹنٹ ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کی مدد کی ہے ۔لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ سروگیسی کی طرف اس لیے مائل ہوئیں کہ وہ زیادہ دولت چاہتی تھیں تاکہ گھر کی تزئین و آرائش کرسکیں، اور گاڑی بھی خرید سکیں۔

    خیال رہے کہ یوکرائن کے قانون کے مطابق صرف وہی عورت اپنی کوکھ کرائے پر دے سکتی ہے جس کی کم از کم اپنی ایک اولاد ہو۔ اس کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے ہ عورتیں بچے کی پیدائش پر جذباتی نہ ہو جائیں۔

    سڈنی میں قائم ایک خیراتی ادارے ’فیملیز تھرو سیروگیسی‘ سے تعلق رکھنے والے سیم ایورنگہیم کہتے ہیں کہ پچھلے دو برسوں میں یوکرائن میں سروگیسی کے واقعات میں ہزار فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یوکرائن میں قوانین خواتین کو سروگیسی کی اجازت دیتے ہیں۔

    کچھ کلینک تو قانونی طریقے سے سروگیسی کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ ایسے بھی ہیں جو سروگیسی سے متعلق قوانین کا خیال نہیں کرتے ہیں اور ایسی شکایت عام ہیں کہ اگر سروگریٹ ماں کا بچہ ضائع ہو جائے تو وہ اسے معاوضہ بھی نہیں دیتے۔

    یوکرین کی ممبر پارلیمنٹ اولگا بوگومولیٹس جو خود ایک ڈاکٹر ہیں، سمجھتی ہیں کہ یوکرائن کی عورتوں کا سروگیسی کی طرف مائل ہونے کی وجہ یہاں کی معاشی حالت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ملک کی خراب ہوتی ہوئی معیشت عورتوں کو اپنی کوکھ کو کرائے پر دینے پر مجبور کر رہی ہے۔اولگا بوگومولیٹس کہتی ہیں سروگیسی کی صنعت کی کوئی نگرانی نہیں ہو رہی ہے جس کی ماؤں اور رقم ادا کرنے والے والدین دونوں کو نقصان ہو رہا ہے۔

  • پیرس میں دریا بھپرگیا‘ متعدد علاقے زیرِ آب

    پیرس میں دریا بھپرگیا‘ متعدد علاقے زیرِ آب

    پیرس : فرانس کے درالحکومت پیرس سے گزرتا ہوا دریا آپے سے باہر ہوگیا ہے‘ ملحقہ علاقوں میں پانی کی سطح بلند ہونے سے وسیع پیمانے پر سیلاب کا خطرہ منڈلانے لگا ہے ‘ نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے ہیں اور شہریوں کووارننگ جاری کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خوشبؤں کے شہر پیرس سے گزرنےو الے دریائے سین میں ان دنوں موسلاد ھار بارشوں کے سبب طغیانی کی صورتِ حال ہے ‘ دریا آج کسی بھی وقت 5.95 میٹر( 17 فٹ ) اونچائی تک پہنچ جائے گا جس کے سبب مزید کئی علاقے زیرِ آب آجائیں گے۔

    سیلاب کے خطرے کے پیش نظر پیرس کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ پانی شہری علاقوں میں آجانے کے سبب ٹرین سروس مبھی متاثر ہورہی ہے جبکہ دریا سے ملحقہ لوور میوزیم اور ایفل ٹاور سمیت مشہور سیاحتی مقامات اکتیس جنوری تک بند کردئیے گئے ہیں۔

    پولیس ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ دریا ئے سین میں پانی کی سطح 6.2 میٹر (20 فٹ) تک بڑھنے کا امکان ہے۔ دریا کنارے آباد رہائشی آبادیاں خالی کرانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تک ریسکیو اہلکار ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرچکے ہیں۔

    یاد رہے کہ اسی دریا میں سال 2016 میں آنے والے سیلاب کے سبب میوزیم کو اپنے نوادرات منتقل کرنا پڑگئے تھے‘ جبکہ ہزاروں افراد کو اس سیلاب کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنا پڑے تھے۔‘

    اس موقع پر پیرس کے نائب میئر کولمبے بروسل نے امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ شہر نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے‘ لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ دو سال سے کم عرصے میں آنے والے سیلاب بتارہے ہیں کہ ہمیں بدلنا ہوگا اور شہر کو دریا کی مرضی سے تعمیر کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی محض ایک لفظ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔