Category: یورپ

  • یورپ کی بلند ترین رولر کوسٹر

    یورپ کی بلند ترین رولر کوسٹر

    بلند و بالا رولر کوسٹرز میں بیٹھنا ایک نہایت دلچسپ اور سنسنی خیز لمحہ ہوتا ہے اور رولر کوسٹر جتنی زیادہ بلند ہوگی لوگ اتنا ہی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    اسپین میں بھی مہم جوئی اور تھرل کے شوقین افراد کے لیے یورپ کی سب سے بلند اور تیز ترین رولر کوسٹر کا افتتاح کردیا گیا۔

    spain-2

    spain-3

    ہسپانوی صوبے تروگونا میں واقع مشہور پارک فراری لینڈ میں نصب اس رولر کوسٹر کی اونچائی 366 فٹ ہے جبکہ یہ 112 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی۔

    spain-4

    رولر کوسٹر کے افتتاح سے قبل اس کے ایک ایک پرزے کا نہایت تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے تاکہ اس میں سواری کرنے والوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔

    اس میں بیٹھنے والوں کو ایسا لگے گا جیسے وہ فراری گاڑی کی ریس میں موجود ہیں اور اس سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

    spain-5

    اس رولر کوسٹر نے برطانیہ کی بلیک پول رولر کوسٹر کا ریکارڈ توڑد یا ہے جس کی اونچائی صرف 100 فٹ تھی۔

    یاد رہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ تیز رفتار رولر کوسٹر ابو ظہبی کے فراری ورلڈ پارک میں ہے جس کی رفتار 149 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔

    مزید پڑھیں: رولر کوسٹر کے ذریعہ سفر کرتا کھانا کھائیں


     

  • یورپی عدالت نےملازمین کےحجاب پہننے پر پابندی عائد کردی

    یورپی عدالت نےملازمین کےحجاب پہننے پر پابندی عائد کردی

    بیلجیئم : یورپ کی اعلی ترین عدالت نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ملازمین کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی جسے امتیازی سلوک نہیں سمجھا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپین کورٹ آف جسٹس نے اپنے فیصلے میں اسلامی حجاب سمیت دیگر مذہبی، سیاسی اور فلسفہ و نظریات کی ترجمانی کرنے والے یا علامتی لباس و حجاب وغیرہ زیب تن کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔


    *لندن: مسلمان خاتون کا حجاب اتارنے اور سڑک پر گھسیٹنے کی کوشش


    عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ ہدایت بھی جاری کی ہے کہ اس طرح کی کوئی بھی پابندی تمام ملازمین کے مکمل طور پرغیر جانب دارانہ لباس پہننے کی پالیسی پرمبنی ہونی چاہیے۔


    *امریکہ: مسلمان طالبہ پر تین افراد کا حملہ، حجاب اتارنے کی کوشش


    واضح رہے کہ اس مقدمے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب بیلجیئم میں واقع ایک معروف کمپنی نے اپنے صارف کی شکایت پر ایک خاتون ریسیپشنسٹ کے حجاب پہننے پر ملازمت سے فارغ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھے کہ کمپنی کے صار فین کو حجاب پہنی ملازمین سے الجھن اور پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔


    *ٹرمپ کے حامی کا باحجاب مسلم ایئر ہوسٹس پر تشدد


    خاتون ریسپشنسٹ نے عدالت سے رجوع کیا جس پر یہ مقدمہ بیلجیئم کی عدالت نے یورپین کورٹ آف جسٹس میں بھیج دیا تھا جہاں آج اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔


    *برطانوی وزیراعظم نےحجاب پہننے کی حمایت کردی


    واضح رہے کہ آج کل حقوقِ اظہارِ رائے اور حقوقِ نسواں کے علم بردار ممالک میں بنیاد پرستی اور انتہا پرستی کی آڑ میں اسلامی تشخص حجاب کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کئی ممالک کی درس گاہوں اور دفاتر میں حجاب پہننے کی پابندی پہلے ہی لگائی جا چکی ہے۔

  • یورپ کےمختلف شہروں میں یورپی یونین کے حق میں مظاہرے

    یورپ کےمختلف شہروں میں یورپی یونین کے حق میں مظاہرے

    فرینکفرٹ: جرمنی کےشہرفرینکفرٹ میں یورپی یونین کےحق میں مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ہالینڈاور فرانس کے عوام انتخابات میں یورپی یونین کو متحدکرنے والوں کوکامیاب بنایاجائے۔

    تفصیلات کےمطابق گزشتہ روز یورپ کے چالیس سےز ائد شہروں میں یورپی یونین کے حق میں مظاہرے ہوئےجس میں مظاہرین نےہالینڈ کے عوام سے اپیل کی کہ وہ بدھ کو ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ دائیں بازو کے خلاف استعمال کریں جو نیدر لینڈ کی یورپی یونین کےساتھ رہنےکےحق میں نہیں ہیں۔

    یورپی یونین کے حق میں کیے جانے والےمظاہرےمیں شامل ہزاروں مظاہرین کا کہنا تھا کہ متحدہ یورپ ہی پیوٹن اور ڈونڈٹرمپ کا جواب ہے۔

    دوسری جانب ہفتے کے روز یورپی یونین میں شرکت کے خواہاں ملک ترکی کے وزیر خارجہ کو راٹر ڈیم میں مظاہرے سے خطاب نہیں کرنےدیاگیاجبکہ خاتون وزیرفاطمہ بتول سایان کایا کوملک بدر کردیاگیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ہالینڈ کی حکومت ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاویش اوغلو کی پرواز کو بھی راٹرڈیم میں اترنے کی اجازت دینے سےمنع کر چکی تھی۔

    یاد رہےکہ ترک وزیر کی ملک بدری پر ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس ناقابلِ قبول رویےکاسخت ترین طریقےسے جواب دے گا۔

    واضح رہےکہ ہالینڈ کے دو ترک وزرا کو ملک میں تقاریر کرنے سے روکنے کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ہالینڈ کو خبردار کیا ہے کہ اسے تعلقات خراب کرنے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

  • برلن حملے کے بعد کینیڈا‘یورپ  میں سیکیورٹی ہائی الرٹ

    برلن حملے کے بعد کینیڈا‘یورپ میں سیکیورٹی ہائی الرٹ

    ٹورنٹو: برلن حملے کے بعد کینیڈا سمیت یورپ بھر میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانیہ ‘ کینیڈااور یورپی ممالک میں سیکیورٹی الرٹ کردی گئی ہے ، کینیڈا میں کرسمس بازاروں کے داخلی مقامات پر حفاظتی اقدامات سخت کردئیے گئے اور بازاروں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی اور لوگوں کی تلاشی لی جارہی ہے۔

    دوسری جانب لندن پولیس نے خبردار کیا ہے کہ دہشتگرد کرسمس اور نئے سال پر لندن میں برلن طرز کا حملہ کرسکتے ہیں جبکہ میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ دہشتگرد حملے کے لیے بڑی گاڑی سمیت مختلف حربے استعمال کرسکتے ہیں۔

    پولیس نے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت جاری کردی جبکہ فرانس،اٹلی ،چیک ریبلک ،ڈنمارک میں مختلف مقامات پر بھی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے جبکہ برطانوی شہریوں سے کہا گیا ہے وہ عوامی مقامات میں قائم کسمس مارکٹس جانے سے اجتناب کریں۔


    مزید پڑھیں : برلن :کرسمس بازار میں ٹرک نےشہریوں کو کچل دیا، 12افرادہلاک


    یاد رہے گذشتہ روز جرمن دارلحکومت برلن میں ٹرک لوگوں پر چڑھا دیا تھا، جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک اور اڑتالیس زخمی ہوئے تھے، برلن میں ٹرک سے لوگوں کو کچلنے والا ملزم تاحال مفرور ہے۔

    جرمن پولیس نے وارننگ جاری کر دی ہے، مفرور ملزم مزید حملے کر سکتا ہے۔

  • برطانوی وزیر اعظم یورپی یونین کے اجلاس میں سخت شرمندگی کا شکار

    برطانوی وزیر اعظم یورپی یونین کے اجلاس میں سخت شرمندگی کا شکار

    اگر آپ کسی ایسی محفل میں چلے جائیں جہاں کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو تو وہاں کسی سے گفتگو نہ ہوسکنا اور تنہا رہنا ایک متوقع صورتحال ہے، لیکن اگر کوئی شخصیت کسی ملک کی وزیر اعظم ہو اور اس کے ساتھ یہی صورتحال پیش آئے تو کیا ہوگا؟

    یقیناً یہ ایک بہت ہی شرمندہ کرنے والی صورتحال ہوگی اور اس کا سامنا کرنے والا نہایت ہی خفت کا شکار ہوگا۔ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے کو بھی ایسی ہی کچھ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

    حال ہی میں ہونے والے یورپی یونین کے اجلاس میں تھریسا مے کی ایسی ہی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ تنہا کھڑی نظر آرہی ہیں۔ ان کے آس پاس موجود عالمی لیڈرز آپس میں مل رہے ہیں اور گفتگو کر رہے ہیں تاہم برطانوی وزیر اعظم کی طرف کوئی دیکھ بھی نہیں رہا۔

    وہ منتظر رہیں اور پلٹ پلٹ کر دیکھتی رہیں کہ کوئی ان کی طرف آ کر ان سے ملے اور گفتگو کرے مگر اجلاس میں مکمل طور پر انہیں نظر انداز کیا گیا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کو اس رویے کا سامنا دراصل اس لیے کرنا پڑا کیونکہ اب برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے۔ یہ یورپی یونین کے رہنماؤں کی جانب سے برطانیہ سے ایک سرد مہری کا اظہار تھا جس نے اجلاس میں تھریسا مے کی پوزیشن کو نہایت نازک بنا دیا۔

  • ہزاروں مسلمان سپاہی یورپ میں‘ حملے کی تیاری؟

    ہزاروں مسلمان سپاہی یورپ میں‘ حملے کی تیاری؟

    ہنگری کے ایک انٹیلی جنس تجزیہ نگار نے خبردار کیا ہے کہ ’ہزاروں مسلمان سپاہی ‘ یورپ میں داخل ہوچکے ہیں اور حملے کی تیاری کررہے ہیں۔

    یہ انکشاف ہنگیرین انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائیریکٹر آپریشن لیزلو فولڈی نے ایک ٹی وی شو میں دیے چشم کشا انٹرویو میں کیا۔

    فولڈی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ آور روایتی قسم کی دہشت گردی کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں بلکہ ان کا مقصد یورپ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا ‘ یہاں سیاسی جماعتیں تشکیل دینا اور ان کے ذریعے براعظم میں شرعی نظام نافذ کرانا ہے۔

    migrants

    ان کا کہنا تھا کہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے اور اس کا سبب مہاجرین کے لئے سرحدیں کھلی رکھنے کی پالیسی ہے ‘ انہوں نے کہا کہ یورپ میں مہاجرین کی آمد سے پیدا ہونے والے بحران سے بڑا مسئلہ ان مہاجرین کی شناخت کا ہے‘ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ لاکھوں افراد کون ہیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج سے دو ڈھائی سال قبل یہ کہنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا کہ مہاجرین کے ساتھ دہشت گرد بھی آسکتےہیں لیکن ایسا ہوا۔

    قیامت سے متعلق 7مشہور ترین پیش گوئیاں

    خواتین‘ حجاب کھینچے جانے پرکیا کریں؟

     ٖفولڈی نے ایک ٹی وی شو کا نام نہ لیتے ہوئےکہا کہ’’ اس شو کے رپورٹر کے خیال میں یہ ایک احمقانہ خیال ہے کہ دہشت گرد مہاجرت کی مشکلات جھیل کر کشتیوں کے ذریعے یورپ آئیں گے جب کہ وہ جہازوں کے ذریعے آسکتے ہیں‘‘۔ ایسا ہرگز نہیں ہزاروں کی تعداد میں سپاہی آچکے ہیں۔

    migrants-2

    ان کے مطابق ان سپاہیوں کے دو مقاصد ہیں‘ ایک تو کثیر تعداد میں یورپ میں جگہ بنانا اور دوسرا مقامی مسلمان آبادی تک با آسانی رسائی حاصل کرنا۔

    انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ یہ افراد تیل کی دولت سے مالا مال ان ممالک میں کیوں نہیں جاتے جو کہ ان کے پڑوس میں واقع ہیں ‘ اس کے بجائے اتنی مشقت برداشت کرکے یورپ تک پہنچ رہے ہیں۔

    migransdts2

    ان کا کہناتھا کہ مہاجرین میں 50 فیصد سے زائد افراد مقامی ثقافت کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہنا چاہتے اور یہی افراد مستقبل کی ممکنہ مسلمان آرمی کے سپاہی ثابت ہوں گے۔



  • داعش کے ظلم کا شکار عراقی خواتین کے لیے یورپ کا اعلیٰ ترین اعزاز

    داعش کے ظلم کا شکار عراقی خواتین کے لیے یورپ کا اعلیٰ ترین اعزاز

    اسٹارسبرگ: داعش کی قید سے رہائی پانے والی دو یزیدی خواتین کو یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف پرائز سے نوازا جارہا ہے۔

    سخاروف انعام برائے آزادی اظہار ایک روسی سائنسدان آندرے سخاروف کی یاد میں دیا جانے والا انعام ہے۔ اس کا آغاز دسمبر 1988 میں یورپی پارلیمنٹ نے ان افراد کے لیے کیا جنہوں نے آزادی اظہار، انسانی حقوق کی بالادستی اور تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا اور نتیجہ میں انہیں حکمران طبقوں یا حکومت کی جانب سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    مزید پڑھیں: افغان خواتین کی غیر قانونی قید ۔ غیر انسانی مظالم کی دردناک داستان

    رواں برس یہ ایوارڈ دو یزیدی خواتین نادیہ مراد طحہٰ اور لامیا حاجی بشر کو دیا جائے گا۔ یہ دونوں خواتین داعش کی ظالمانہ قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئیں جس کے بعد اب یہ عراق کے اقلیتی مذہب یزید کو بچانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

    اس انعام کے لیے ترکی کے ایک جلا وطن صحافی کان دندار اور کریمیا میں اقلیتی طبقے کے حقوق کے لیے سرگرداں سماجی کارکن مصطفیٰ جمیلاو کو بھی نامزد کیا گیا تاہم انعام کی حقدار یہ دونوں خواتین قرار پائیں۔

    گزشتہ برس یہ انعام سعودی بلاگر رائف بداوی کو دیا گیا تھا۔ بداوی نے سنہ 2008 میں سعودی عرب میں ’لبرل سعودی نیٹ ورک‘ کے نام سے ایک آن لائن فورم تشکیل دیا تھا جس کا مقصد سعودی عرب میں مذہبی اور سیاسی معاملات پر بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

    saudi

    بداوی کی اس کوشش کو توہین مذہب کا نام دیا گیا اور اس کی پاداش میں اسے دس سال قید اور ایک ہزار کوڑے مارے جانے کی سزا سنائی گئی۔

    نادیہ مراد طحہٰ کون ہیں؟

    عراق کے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نادیہ کی زندگی اس وقت ایک بھیانک خواب بن گئی جب 2014 میں داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر عراقی شہر سنجار کے قریب واقع ان کے اکثریتی علاقہ پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔

    داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجؤں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    اغوا ہونے والی خواتین میں ایک نادیہ بھی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعش کے جنگجؤں نے ان کے ساتھ کئی بار اجتماعی زیادتی کی جبکہ انہیں کئی بار ایک سے دوسرے گروہ کے ہاتھوں بیچا اور خریدا گیا۔

    وہ کہتی ہیں، ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں۔

    نادیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہو کر اپنی کہانی سنا چکی ہیں جس نے وہاں موجود تمام افراد کو رونے پر مجبور کردیا۔

    nadia-2

    وہ ایک عرصے سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے، داعش کی قید میں موجود خواتین کو آزاد کروایا جائے اور داعش کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے جس میں انہیں شکست ہو، اور اس کے بعد داعشی جنگجؤں کو جنگی مجرم قرار دے انہیں عالمی عدالت میں پیش کیا جائے۔

    گزشتہ ماہ نادیہ کو اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی مقرر کیا گیا ہے جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کریں گی۔

    nadia-2

    دوسری جانب لندن کی مشہور وکیل برائے انسانی حقوق اور ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی نے عالمی عدالت برائے جرائم میں داعش کے یزیدی خواتین پر مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    نادیہ مراد کی جانب سے دائر کیے جانے والے اس کیس کے بعد اب یہ دونوں خواتین اس مہم پر ہیں کہ عالمی طاقتوں کو داعش کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے پر زور دیا جائے۔

    nadia-3

    واضح رہے کہ داعش کی قید میں موجود خواتین اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین المیہ کی مثال ہیں۔ یہ خواتین داعش کے لیے جنسی غلام یعنی سیکس سلیوز کی حیثیت رکھتی ہیں جن کا مقصد داعش جنگجؤں کی نسل میں اضافہ کرنا ہے۔

    جو خواتین اپنے جنسی استحصال سے انکار کردیتی ہیں، انہیں داعش کی جانب سے بدترین اور بھیانک سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے ایک سزا زندہ جلایا جانا بھی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے 7 ہزار خواتین کو اغوا کرکے غلام بنایا ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عراق کے یزیدی قبیلے سے ہے۔ مختلف ممالک سے کچھ خواتین اپنی مرضی سے داعش میں شمولیت اختیار کرنے آئی ہیں تاہم داعش کی جانب سے غیر انسانی سلوک کے باعث اب یہ بھی اس قید سے رہائی چاہتی ہیں۔

  • دو یورپی ممالک کو ملانے والا سمندر میں حیران کن پل

    دو یورپی ممالک کو ملانے والا سمندر میں حیران کن پل

    دنیا میں دو ممالک کو تقسیم کرنے کے لیے کوئی سرحد بنائی جاتی ہے۔ یہ سرحد عموماً خاردار تاروں اور دیواروں کی ہوتی ہے لیکن دنیا کے کئی امن پسند ممالک اپنی سرحدیں قدرتی رکھتے ہیں۔

    یہ سرحدیں پہاڑ، دریا، جنگلات وغیرہ کی شکل میں ہوتی ہیں۔ بعض دفع سرحدوں پر کوئی ایسی چیز تعمیر کی جاتی ہے جودیکھنے والوں کو حیران کردیتی ہے۔

    ایسا ہی ایک نمونہ تعمیر سوئیڈن اور ڈنمارک کے درمیان واقع ہے۔ سوئیڈن اور ڈنمارک کے درمیاں بھی پانی کی قدرتی سرحد واقع ہے۔ یہ بحر اوقیانوس کا حصہ ہے جسے آبنائے اورسنڈ کہا جاتا ہے۔

    bridge-2

    اس حصہ میں ایک وسیع و عریض پل تعمیر کیا گیا ہے جو دونوں ممالک کو سڑک اور ریلوے لائن کے ذریعہ ملاتا ہے۔

    bridge-6

    پل پر 4 لینز والی ہائی وے اور ریلوے لائن موجود ہے۔

    bridge-7

    ایک طویل اور وسیع و عریض ہائی وے آخر میں ایک مصنوعی جزیرے پر غائب ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد یہاں سے ایک زیر زمین سرنگ شروع ہوتی ہے۔

    bridge-3

    bridge-4

    انوکھے انداز میں تعمیر کیے گئے اس پل کے نیچے سے بحری جہاز بھی باآسانی گزر سکتے ہیں۔

    bridge-5

    یہ پل 1936 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

  • یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں یورپ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی جس کے بعد دنیا نے عام مسلمانوں اور شدت پسندوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا۔

    ان حملوں کے بعد یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگیا اور وہاں برسوں سے رہنے والے مسلمانوں کو اپنے آس پاس کے افراد کی جانب سے نفرت انگیز یا تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض واقعات میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

    تاہم اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو تمام مسلمانوں کو اس سے منسلک کرنا غلط سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے اور چند لوگوں کے مفادات کی خاطر کیے جانے والے قتل و غارت کی ذمہ داری پوری دنیا میں آباد مسلمانوں پر ڈالنا دانش مندانہ اقدام نہیں۔

    یورپ میں جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا وہیں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب غیر مسلم افراد ہی مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے اور انہیں اپنے لوگوں کے نفرت آمیز رویوں سے بچایا۔

    مزید پڑھیں: پوپ فرانسس کی مسلمان خواتین کے حجاب کی حمایت

    ایسا ہی ایک قدم پیرس سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ میرل نے اٹھایا اور اس نے لوگوں کے لیے ایک رہنما کتابچہ تیار کیا کہ اگر وہ کسی شخص کو کسی مسلمان خاتون کو ہراساں کرتے دیکھیں تو انہیں کیا کرنا چاہیئے۔

    اس رہنما کتابچے کی تیاری کا خیال انہیں اپنے آس پاس بڑھتے اسلامو فوبیا کو دیکھ کر آیا۔ وہ کہتی ہیں، ’یورپ میں حملوں کے بعد میں نے دیکھا کہ بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مسلمان خواتین کا سفر کرنا محال ہوگیا۔ انہیں مسافروں کی گھورتی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ بعض مسافر ان سے بحث بھی کرتے اور انہیں برا بھلا کہتے‘۔

    وہ کہتی ہیں کہ اس ساری صورتحال سے کم از کم چند غیر مسلم افراد ایسے ضرور تھے جو الجھن کا شکار ہوتے اور وہ اس مسلمان کی مدد کرنا چاہتے لیکن وہ خود کو بے بس پاتے۔

    انہوں نے سوچا کہ وہ ان چند اچھے افراد کو شعور دے سکیں کہ ایسی صورتحال میں انہیں کیا کرنا چاہیئے۔ یہی سوچ ان کے اس رہنما کتابچے کی تخلیق کا سبب بنی۔

    اس کتابچے میں انہوں نے 4 طریقے بتائے۔

    :ابتدائی قدم

    سب سے پہلے اگر آپ کسی مسلمان خاتون کو دیکھیں اور اس کے آس پاس کوئی ایسا شخص دیکھیں جو غلط ارادے سے اس کی طرف بڑھ رہا ہو، وہ اسے ہراساں کرنا چاہتا ہو، تو آپ اس خاتون کے ساتھ بیٹھ جائیں اور ان سے گفتگو شروع کردیں۔

    :گفتگو کا موضوع

    گفتگو کا موضوع مذہبی نہ ہو۔ یہ کوئی بھی عام سا موضوع ہوسکتا ہے جیسے موسم، فلم یا سیاسی حالات پر گفتگو۔

    :لاتعلقی ظاہر کریں

    اپنے آپ کو لاتعلق ظاہر کریں۔ نہ ہی اس خاتون کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ نے اس کے لیے کوئی خطرہ محسوس کیا ہے۔ نہ ہی ممکنہ حملہ آور کو احساس ہونے دیں کہ آپ نے اسے دیکھ لیا ہے اور اس کے عزائم سے واقف ہوگئے ہیں۔

    :بحفاظت پہنچنے میں مدد دیں

    گفتگو کو جاری رکھیں یہاں تک حملہ آور وہاں سے چلا جائے۔ اس کے بعد مسلمان خاتون کو بحفاظت وہاں تک پہنچنے میں مدد دیں جہاں وہ جانا چاہتی ہیں۔

    islamophobia-2

    میرل دو مزید چیزوں کی وضاحت کرتی ہیں، ’ایسی صورتحال میں لازمی طور پر 2 کام کریں۔ پہلا ممکنہ حملہ آور کو بالکل نظر انداز کریں۔ اس سے کسی بھی قسم کی گفتگو یا آئی کانٹیکٹ نہ رکھیں‘۔ ’دوسرا ممکنہ حملے کا نشانہ بننے والی خاتون کی خواہش کا احترام کریں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ چلے جائیں تو حملہ آور کے وہاں سے جانے کے بعد آپ بھی وہ جگہ چھوڑ دیں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ اس کے ساتھ رہیں تو سفر کے اختتام تک اس کے ساتھ رہیں‘۔

    میرل کا کہنا ہے، ’اگر آج آپ کسی اجنبی مسلمان کی مدد کریں گی اور اسے مشکل سے بچائیں گی، تو کبھی کسی دوسرے مقام پر کوئی اور اجنبی مسلمان آپ کے کسی پیارے کو بھی کسی مشکل سے بچا سکتا ہے‘۔

  • یورپی یونین نازک دورسےگزرررہی ہے،انجیلامرکل

    یورپی یونین نازک دورسےگزرررہی ہے،انجیلامرکل

    براتیسلوا: جرمن چانسلر انجیلامرکل کاکہناہےکہ یورپی یونین نازک دور سے گزررہی ہےاورلوگوں کااعتماد دوبارہ حاصل کرنےکےلیے سیکورٹی،دفاعی اورمعاشی معاملات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے

    تفصیلات کےمطابق سلوواکیا کے دارالحکومت براتیسلوا میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بعد اتحاد کی علامت کے طور پر مشترکہ پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔

    اجلاس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اس موقع پر کہا کہ پناہ گزینوں کا بحران ایک کلیدی معاملہ ہے۔

    صدر اولاند نے کہا ہم نے کسی چیز سے نظریں نہیں چرائیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں پناہ گزینوں کے معاملے سے مشترکہ طور پر نمٹنا ہو گا،اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی پناہ حاصل کرنے کے حق کا پاس بھی رکھنا ہوگا۔

    مزید پڑھیں:جرمن چانسلرتارکینِ وطن کی حمایت میں اپنے شہریوں کے خلاف صف آراء

    پناہ گزینوں کے بڑی تعداد میں یورپ پہنچنے کے معاملے پر سخت اختلافات ہیں اور سلوواکیا، ہنگری، چیک رپبلک اور پولینڈ نے یورپی یونین کی جانب سے پناہ گزینوں کے لیے مختص کوٹا قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

    واضح رہے کہ چانسلر مرکل نے کہا’ہم نے پناہ گزینوں کے مسئلے پر ٹھوس گفتگو کی ہمیں مفاہمت سے معاملہ سلجھانا ہوگا۔