Category: یورپ

  • یورپی عدالت میں حماس ،القسام کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کالعدم

    یورپی عدالت میں حماس ،القسام کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کالعدم

    لکسمبرگ:یورپی یونین کی لکسمبرگ میں قائم ایک عدالت نے اسلامی تحریک مزاحمت حماس اور جماعت کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کے مندوب خالد الشولی نے ایک بیان میں بتایا کہ لکسمبرگ کی ایک ابتدائی عدالت میں حماس کے حق میں فیصلہ صادر کیا گیا ہے،4 ستمبر کو عدالت میں حماس سے متعلق کیس کی اعلانیہ سماعت کے موقع پر عدالت نے کہا کہ حماس اور اس کے عسکری ونگ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا نامناسب ہے۔

    عدالت یورپی یونین کے اس اقدام اور جماعت کو دہشت گرد قرار دینے کے تمام صدارتی اور حکومتی احکامات کو کالعدم قرار دیتی ہے۔

    خیال رہے کہ یورپی عدالت نے 2018ءکے کیس نمبر 475، 1084، ایگزیکٹو آرڈر نمبر 468 اور 1071 کو بنیاد بنا کر حماس اور القسام بریگیڈ کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے نکالنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نئے فیصلے کا 17 دسمبر 2014ءکے اس فیصلے کے ساتھ تعلق نہیں جس میں یورپی عدالت کی طرف سے حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے اقدام کی توثیق کی تھی۔

    حماس کی طرف سے یورپی یونین میں شامل ممالک کی طرف سے جماعت کو دہشت گرد قرار دینے کے اقدام کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا تھا۔

  • پیوٹن نے 9/11 سے دو دن قبل بش کو حملے کی اطلاع دی تھی، سابق سی آئی اے عہدیدار

    پیوٹن نے 9/11 سے دو دن قبل بش کو حملے کی اطلاع دی تھی، سابق سی آئی اے عہدیدار

    واشنگٹن:امریکی سی آئی اے کے ایک سابق عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں سے صرف دو دن قبل ہی روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو فون کرکے ممکنہ حملے کی اطلاع دی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سی آئی اے کے سابق اینالسٹ جارج بیبی کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی، کتاب میں انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر پیوٹن نے صدر بش کو حملوں سے دو دن قبل فون کیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ روسی انٹیلی جنس نے دہشت گردوں کے ایسے منصوبے کا پتہ لگایا ہے اور بات چیت ٹریس کی ہے

    صدر پیوٹن کی اطلاع کے مطابق منصوبے کی منصوبہ بندی طویل عرصہ سے افغانستان میں ہو رہی ہے اور اس منصوبے پر بس عمل ہونے ہی والا ہے۔

    سی آئی اے کے سابق عہدیدار کی جانب سے اپنی کتاب میں کیا جانے والا یہ انکشاف ظاہر کرتا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ءسے کے حملوں سے قبل واشنگٹن کو مسلسل خبردار کیا جاتا رہا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ماسکو کی طرف سے انٹیلی جنس اور انتباہ دیے جانے کی اطلاعات پہلے بھی سامنے آتی رہی تھیں اور سینئر روسی انٹیلی جنس افسران نے اِن حملوں کے فوراً بعد تبصرہ بھی کیا تھا لیکن جارج بیبی کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان اس معاملے پر محدود تبادلہ نہیں ہوا تھا، اور بش کو روسی صدر پیوٹن نے بذاتِ خود خبردار کیا تھا۔

    اس کے علاوہ، امریکا کو برطانوی جاسوسوں نے بھی مسلسل خبردار کیا تھا کہ امریکا پر کوئی بڑا حملہ ہونے والا ہے اور اس کا ذکر خود ایف بی آئی اور سی آئی اے والے بھی کر چکے ہیں تاہم یہ بات اب بھی ایک راز ہے کہ وائٹ ہاﺅس نے ان وارننگز پر دھیان دیا تھا اور اپنے شہریوں کو بچانے کیلئے اقدامات کیے تھے یا نہیں۔

    وائٹ ہاﺅس کا دماغ سمجھے جانے والے کچھ عہدیداروں کے سوچنے کے انداز کے حوالے سے کچھ اشارے اُس وقت کی قومی سلامتی کی مشیر اور بعد میں وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کی کتاب اور یادداشتوں میں نظر آتے ہیں۔

    اپنی کتاب ”ہائر آنر“ میں کونڈولیزا رائس نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے پیوٹن سے ملنے والی ابتدائی وارننگ کو نظر انداز کیا کہ عرب فنڈنگ سے انتہا پسند کوئی ایسا کام کرنے والے ہیں جو بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

    کونڈولیزا رائس نے لکھا تھا کہ ہم نے یہ وارننگ اسلئے نظر انداز کی کیونکہ ہم یہ سمجھے کہ روس اسلئے یہ باتیں کر رہا ہے کیونکہ پاکستان نے سوویت یونین کیخلاف افغان مجاہدین کی حمایت کی تھی۔

  • جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد پر 600 سے زائد حملے

    جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد پر 600 سے زائد حملے

    برلن : جرمنی میں رواں برس کی پہلی ششماہی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد پر چھ سو سے زائد حملے کیے گئے۔ نسل پرستوں کی جانب سے نفرت کی بنیاد پر کیے گئے ان حملوں سے بچوں سمیت ایک سو دو افراد زخمی ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق 2009 کے پہلے چھ ماہ کے دوران پولیس نے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد پر ہونے والے چھ سو نو مقدمات درج کیے ہیں، جرمنی کی وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اعداد و شمار اس سوال کے جواب میں پیش کیے گئے ہیں، جو بائیں بازو کی جماعت دی لنِکے کے پارلیمانی گروپ کی جانب سے کیا گیا تھا۔

    ان حملوں میں غیرملکیوں کو زبانی کلامی بے عزت کرنا، انہیں ڈرانا دھمکانا، جسمانی نقصان اور آگ لگانے جیسے حملے شامل ہیں۔

    جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ساٹھ حملے ان پناہ گزینوں پر کیے گئے، جو کمیپوں میں موجود تھے جبکہ بیالیس حملوں میں ان تنظیموں یا پھر رضاکاروں کو نشانہ بنایا گیا، جو مہاجرین کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    ان حملوں میں ایک سو دو افراد زخمی ہوئے اور ان میں سات بچے بھی شامل تھے، جرمن حکام نے ان تمام حملوں کو دائیں بازو کے کارکنوں کی طرف سے سیاسی بنیادوں پر کیے گئے جرائم قرار دیا ہے۔

    اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے ہر چوتھا حملہ برانڈن برگ ریاست کے ان علاقوں میں کیا گیا، جو دارالحکومت برلن کے مضافات میں واقع ہیں۔

    پولیس کے مطابق اس ریاست میں مہاجرین کے خلاف مجموعی طور پر ایک سو ساٹھ حملے درج کیے گئے، اسی طرح جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ میں باسٹھ، لوئیر سیکسنی میں اٹھاون اور سیکسنی میں چھپن حملوں کی شکایات درج کروائی گئیں۔

    جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت کی خاتون ترجمان اولا جیلپکے کا پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جرمنی میں مہاجرین کو روزانہ کی بنیادوں پر دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھاکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔

    اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم میں تین اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مہاجرین کا موضوع حالیہ چند برسوں سے جرمن سیاست پر چھایا ہوا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق چند برس پہلے چانسلر انگیلا میرکل نے لاکھوں مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھول دیے تھے، جس کے بعد سے انتہائی دائیں بازو اور نسل پرستوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

  • یورپین پارلیمنٹ کے سامنے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے مظاہرہ

    یورپین پارلیمنٹ کے سامنے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے مظاہرہ

    برسلز: اوورسیز پاکستانیز کرسچئین الائینس (اوپی سی اے) کے زیر اہتمام مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے یورپین پارلیمنٹ کے سامنے ایک مظاہرہ کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں نیدرلینڈ، جرمنی، بیلجئیم اور دیگر ممالک سے آنے والے خواتین و حضرات نے شرکت کی۔

    اس موقع پر کرسچئین الائینس کے چیئرمین اعجاز میتھیو ذوالفقار، سیکٹری جنرل عارف سردار، بیلجئیم کے کو آرڈینیٹر لطیف بھٹی اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے مسیحی روحانی پیشوا پوپ فرانسس، اقوامتحدہ، یورپین یونین، کامن ویلتھ ممالک اور او آئی سی سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔

    ان خطابات کے دوران مقررین نے مسئلہ کشمیر کے سیاسی اور اخلاقی پہلووں اور اس دوران وہاں بھارتی آرمی کے مظالم پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

    کشمیریوں میں بھارت کیخلاف لاوا پک رہا ہے، جوکسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، امریکی اخبار

    انہوں نے کہا کہ جنگیں اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکیں، اس لیے ضروری ہے کہ دنیا اسے باہمی مسئلہ قرار دیکر نظر انداز نہ کرے اور مذاکرات نہ کرنے والے پر دباﺅ ڈالے۔

    اس موقع پر یورپین پارلیمنٹ کے ممبر شفق محمد اور چیئرمین کشمیر کونسل ای یو علی رضا سید بھی مظاہرے میں اظہار یکجہتی کے لیے پہنچے۔

    واضح رہے کہ اس مظاہرے کے آغاز کے فوراً بعد ہی تیز بارش شروع ہوگئی لیکن مظاہرین ڈٹے رہے اور مظاہرے کو جاری رکھا۔

  • چھٹیاں گزارنے کے لیے آپ کس ملک کا انتخاب کرنا چاہیں‌ گے؟

    چھٹیاں گزارنے کے لیے آپ کس ملک کا انتخاب کرنا چاہیں‌ گے؟

    چھٹیاں گزارنے کے لیے زیادہ تر ملکوں کے شہری اہل خانہ کے ہمراہ دوسرے ممالک میں جانا پسند کرتے ہیں تاکہ اس لمحے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یادگار بنایا جائے اور اس طرح بچے بھی خوش ہوجاتے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چھٹیاں گزارنے کے لیے بہترین ممالک کی فہرست میں یورپی ملک اسپین پہلے نمبر پر آگیا ہے، اسپین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، تفریح کے لیے اسپین وہ ملک جہاں امن و امان دیگر ممالک سے بہتر ہے۔

    ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں یورپی ملک فرانس، اٹلی اور امریکا بھی شامل ہیں۔

    ٹریول اور ٹورازم کے لیے ورلڈ اکنامک فورم نے 140 خوبصورت جگہوں کی درجہ بندی مرتب کی گئی جس میں اسپین پہلے نمبر آیا ہے۔

    ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا بھر کے تمام ملک میں فلائٹ کی موجودگی، روپے کی قدر، اور سفری حفاظت کو مدنظر رکھا گیا ہے، اسپین نے مسلسل تیسری بار پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

    ورلڈ اکنامک فورم کے انڈیکس کے مطابق جن شعبوں کو اجاگر کیا گیا ہے ان ممالک کا قدرتی اور ثقافتی وسائل بھی دیکھا گیا ہے۔

    فہرست میں اسپین پہلے، فرانس دوسرے، جرمنی تیسرے، جاپان چوتھے، امریکا پانچویں، برطانیہ چھٹے، آسٹریلیا ساتویں، اٹلی آٹھویں، کینیڈا نویں اور سوئٹزرلینڈ دسویں نمبر پر موجود ہیں۔

    دوسری جانب ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے امن و امان کے لحاظ سے خراب ممالک کی فہرست بھی شائع کی گئی ہے جن میں یمن خانہ جنگی کی وجہ سے پہلے نمبر پر موجود ہے۔

    واضح رہے کہ یمن میں سعودی اتحادی فورسز اور حوثی باغیوں کی جنگ جاری ہے جس کے نتیجے میں متعدد حوثی باغی ہلاک ہوچکے ہیں اور باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر متعدد بار حملے بھی کیے جاچکے ہیں جنہیں عرب اتحاد کی جانب سے ناکام بنادیا جاتا ہے۔

  • ایردوآن روسی صدر پوتین کے ہاتھ میں کھلونا بن چکے ہیں،امریکی جریدہ

    ایردوآن روسی صدر پوتین کے ہاتھ میں کھلونا بن چکے ہیں،امریکی جریدہ

    واشنگٹن/انقرہ: امریکی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوآن اپنی مرضی سے واشنگٹن میں چالیں چل رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین کو دونوں ایک دوسرے کا قریبی دوست ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے مفادات کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں تاہم اس باب میں روسی صدر کافی چالاک واقع ہوئے اور وہ ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کو بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔

    امریکی جریدے نے لکھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان اپنی مرضی سے واشنگٹن میں چالیں چل رہے ہیں دھوکہ دہی اور دھمکیوں اور پھر دھمکیوں اور دھوکہ دہی کے امتزاج کے ذرائع اردوآن نے امریکا کو شمالی شام میں ایک ایسے معاہدے پر راضی ہونے پر قائل کیا ہے جس سے ترکی کی شام میں چڑھائی کو روکنے میں مدد ملے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کردوں کی رائے کچھ بھی ہو، ان کے عزم اور قربانی کو بین الاقوامی مفاد عامہ سمجھا جانا چاہئے کیونکہ انہوں نے جدید دنیا کے مشہور خطرناک عسکریت پسند گروپوں میں سے ایک(داعش) کو روکا اور اسے ختم کردیا ہے۔

    اس کے برعکس ، ترکوں نے کبھی بھی اس کوشش میں حصہ نہیں لیاتاہم اگر اردوآن نے واشنگٹن سے ہیرا پھیری کی تو روسی صدر ولادی میر پوتین نے بدلے میں ان سے بالکل ایسی ہی چالیں چلیں۔

    اردوآن نے ابھی ماسکو کا دورہ مکمل کیا ہے ، جہاں پوتین نے سمجھدارترک رہ نما کو انتہائی متاثر کن روسی فوجی سازوسامان کی پیش کش کی ہے، جس میں ‘ایس یو 35 اورایس یو 57 لڑاکا طیارے شامل ہیں۔

    روس کے ان جنگی طیاروں کو نئی جنریشن کے امریکی ایف 35 کا ہم عصر اور برابر کے لڑاکا طیارے کہا جاتا ہے۔

  • جرمن عوام کا سب سے بڑا خوف مہاجرین سے پیدا بحرانی صورت حال قرار

    جرمن عوام کا سب سے بڑا خوف مہاجرین سے پیدا بحرانی صورت حال قرار

    برلن : سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2004 کے بعد عالمی اقتصادی بدحالی، دہشت گردی اور ٹرمپ بھی جرمن شہریوں میں خوف کا باعث ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق رواں برس جرمن عوام کا سب سے بڑا خوف مہاجرین سے پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال قراردیاگیا ہے جبکہ مہاجرین کے بحران کے بعد پہلی مرتبہ جرمن عوام میں اس صورت حال نے خوف کی کیفیت پیدا کی ہے۔

    جرمن عوام میں سیاسی اور عالمی امور کے تناظر میں پیدا ہونے والے خوف میں انتالیس فیصد کی کمی ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی خدشات خیال کیے گئے ہیں۔

    عام جرمن لوگوں میں پائے جانے والے خوف میں 2004 کے بعد شروع ہونے والی عالمی اقتصادی بدحالی، دہشت گردی اور امریکا میں منصبِ صدارت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بھی شمار کیے جاتے رہے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق رواں برس کے دوران جرمن عوام کو لاحق مختلف خوف کی نشاندہی ایک سروے رپورٹ میں کی گئی ،سیاسی بے یقینی کے دور میں جرمن شہریوں کے ذہن 2019 کے دوران جنم لینے والے مختلف واقعات سے متاثر ہیں،جرمن زبان میں خوف کے لیے آنگسٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

    ایک نئے سروے کے نتائج سے واضح ہوا کہ جرمن شہریوں کے ذہنوں میں 2019 کے دوران عالمی بے چینی کے باوجود بعض مختلف خدشات، جنہیں خوف قرار دیا جا سکتا ہے،نے جنم لیا ہے۔

    جرمن عوام میں سالانہ بنیاد پر خوف کے بارے میں سروے رپورٹ آر پلس وی نامی انشورنس کمپنی مکمل کرواتی ہے۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی ہے، یہ کمپنی سن 1992 سے یہ سالانہ سروے رپورٹ مرتب کرانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

    آر پلس وی کی رپورٹ کے مطابق جرمن عوام میں سیاسی اور عالمی امور کے تناظر میں پیدا ہونے والے خوف میں انتالیس فیصد کی کمی ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی خدشات خیال کیے گئے ہیں۔

    رواں برس جرمن عوام کا سب سے بڑا خوف مہاجرین سے پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال ہے، مہاجرین کے بحران کے بعد پہلی مرتبہ جرمن عوام میں اس صورت حال نے خوف کی کیفیت پیدا کی ہے۔

    مہاجرین کے خوف کو سب سے اہم قرار دینے والے جرمن شہریوں کا تناسب چھپن فیصد ہے اور اس کی وجہ مہاجرین کے حوالے سے ہونے والے ناپسندیدہ تجربات ہیں،ماہر نفسیات آلرش واگنر کے مطابق اس خوف کے پیدا ہونے کی وجہ جرمن ذرائع ابلاغ میں مسلسل اس معاملے کو زیر بحث لانا بھی ہو سکتا ہے۔

    اس سروے رپورٹ کے مطابق سابقہ مشرقی جرمنی والے علاقوں میں بمقابلہ سابقہ مغربی جرمنی والے علاقوں کے خوف کی شرح دس فیصد زیادہ ہے، اس میں ایک وجہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ کی بڑھتی مقبولیت بھی خیال کی گئی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جرمنی کے مشرقی حصے میں کم آمدنی بھی ایک بڑا خوف ہے اور ماہرین سماجیات کے مطابق غیر ملکیوں کو روزگار کی دستیابی بھی خوف کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔اسی طرح جرمن عوام میں کینسر اور عوارض قلب سے بھی خوف پایا جاتا ہے۔

    ان دونوں امراض کو جرمنی میں سب سے بڑا کِلر سمجھا جاتا ہے اسی طرح کاروں کے حادثات کا بھی خوف سامنے آیا ہے،عام جرمن لوگوں میں پائے جانے والے خوف میں 2004 کے بعد شروع ہونے والی عالمی اقتصادی بدحالی، دہشت گردی اور امریکا میں منصبِ صدارت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بھی شمار کیے جاتے رہے ہیں۔

  • ترکی میں سابق سوڈانی عہدیدار پر لاکھوں یورو کی منی لانڈرنگ کا الزام

    ترکی میں سابق سوڈانی عہدیدار پر لاکھوں یورو کی منی لانڈرنگ کا الزام

    خرطوم :سوڈان کی اسلامی فقہ اکیڈمی کے سابق سربراہ اور نیشنل کانگریس پارٹی کے رہنما عصام احمد البشیر پرترکی میں 6 لاکھ 80ہزار یورو کی رقم کی منی لانڈرنگ کے الزام میں عائد کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سوڈان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے متعلق فنانسنگ پراسیکیوشن نے معزول حکومت کے رہنما عمر البشیر کے قریبی ساتھی عصام البشیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں، ان پر بیرون ملک سفر پرپابندی کےساتھ ان کے اندرون ملک تمام اثاثے منجمد کردئیے گئے ۔

    البشیرپرالزام ہے کہ انہوں نے ایک ترک بنک کے ذریعے چھ لاکھ 80 ہزار یورو کی رقم غیرقانونی طورپر بیرون ملک منتقل کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے خلاف سابقہ انسداد بدعنوانی سپریم کمیٹی عصام البشیر کے بیرون ملک اکاؤنٹ سے رقوم کی منتقلی کا شبہ ظاہر کیا گیاجس کے بعد یہ کیس منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے نمٹنے کے معاملے کے لیے قائم کردہ پراسیکیوٹر احمد سلیمان العوض کے سپرد کردیا ۔

    ذرائع نے بتایا کہ استغاثہ نے اس شبے کی تفتیش کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذکورہ شخص نے خرطوم کے ایک مشہور بینک میں اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ترکی کے ایک بینک میں ھ لاکھ 80 ہزار یورو کی رقم بینک ٹرانزیکشن کی۔

  • یورپ سے بغیر ڈیل انخلا روکنے کا بل منظور، برطانوی وزیراعظم کا انتخابات کا مطالبہ بھی مسترد

    یورپ سے بغیر ڈیل انخلا روکنے کا بل منظور، برطانوی وزیراعظم کا انتخابات کا مطالبہ بھی مسترد

    لندن: برطانوی دارالعوام میں یورپ سے بغیرڈیل انخلا روکنے کا بل منظور کرلیا گیا، اور برطانوی وزیراعظم بروس جانسن کا انتخابات کا مطالبہ بھی مسترد ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں یورپ سے بغیر ڈیل انخلا روکنے کا بل منظور ہوگیا، اراکین کے حق رائے دہی کے مطابق دو سوننانوے کے مقابلے میں تین سو ستائیس ووٹوں سے نو ڈیل بریگزٹ روکنے کابل منظور کیا گیا۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بورس جانسن کے پندرہ اکتوبر کو انتخابات کے مطالبہ کو بھی پارلیمنٹ نے مسترد کردیا۔

    جنرل الیکشنز کیے لیے بورس جانسن کو دوتہائی ممبران کی حمایت درکار تھی، جو انہیں نہ مل سکی، برطانوی وزیراعظم نے پندرہ اکتوبر کو نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔

    برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے گذشتہ روز کہا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ کا بل بریگزیٹ مذاکرات پر اثر ڈالے گا اور مزید دوری ، زیادہ تاخیر اور الجھن پیدا کرے گا۔

    برطانیہ کے بریگزٹ وزیرکا یورپی یونین پرعدم تعاون کا الزام

    یا درہے کہ تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    اس وقت ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور وہ بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے جس کے سبب انہوں نے عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔

  • کشمیری رہنما کی بیلجیم کے وزیر خارجہ سے ملاقات، بھارتی جارحیت سے آگاہ کیا

    کشمیری رہنما کی بیلجیم کے وزیر خارجہ سے ملاقات، بھارتی جارحیت سے آگاہ کیا

    برسلز: کشمیر کونسل یورپی یونین کے چیئرمین علی رضا سید نے بیلجیم کے وزیر خارجہ مسٹر دیدیئر ریندرس سے برسلز میں ملاقات کے دوران انہیں مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتحال سے آگاہ کیا۔

    کشمیر میڈیا سروس کے مطابق علی رضا سید نے مسٹر دیدیئر ریندرس سے یہ ملاقات ایسے وقت میں کی جب دو دن قبل ہی یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے اپنے ایک اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ظالمانہ رویئے پر بھارت پر سخت تنقید کرتے ہوئے وہاں فافذ کرفیو ختم کرنے اور کشمیریوں کے شہری حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    علی رضا سید نے بلجیئم کے وزیرخارجہ کو بتایا کہ بھارت کی طرف سے گزشتہ ایک ماہ سے مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ جاری ہے۔ بے گناہ کشمیری مسلسل کرفیو کا سامنا کررہے ہیں اور علاقے میں غذائی اشیا اور ادویات کی قلت پیدا ہورہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مواصلاتی رابطہ نہ ہونے کے باعث مقبوضہ وادی ایک ماہ سے بیرونی دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔

    کشمیرصرف بھارت یا پاکستان کا ذاتی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے، برطانوی وزیرخارجہ

    چیئرمین کشمیرکونسل یورپی یونین نے کہا کہ عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتیں آگے آئیں اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کریں۔

    بیلجیئم کے وزیر خارجہ مسٹرعلی رضا سید کی بات توجہ سے سنی اور کہا کہ وہ کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

    انہوں نے اقوام متحدہ کے ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے نیوریاک جانے والے ہیں جہاں کشمیر کی صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔