Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    کوثر نیازی پاکستان کے نامی گرامی سیاست داں تھے جن کا دور بطور مشیر اور وزیر کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز اور متنازع بھی رہا، لیکن وہ صرف سیاست کے میدان میں متحرک نہیں رہے بلکہ ایک عالمِ دین، ادیب و شاعر اور عوام میں ایک زبردست مقرر کے طور بھی پہچانے گئے۔ پاکستان کے مقبول ترین شاعر احمد فراز اس دور میں آمریت کے خلاف اپنی مزاحمتی شاعری کی وجہ سے حکومتوں کے معتوب تھے۔ ان کی مولانا کوثر نیازی سے نہیں‌ بنتی تھی۔

    اس زمانے میں سرکاری اداروں اور حکومتی مالی امداد سے مختلف ادبی تنظمیوں کے پلیٹ فارم مشاعروں کا انعقاد کرتے تھے یہ ایک ایسے ہی مشاعرے کا دل چسپ احوال ہے جس میں کوثر نیازی اور احمد فراز نے اپنا کلام سنایا تھا۔ یہ معروف انشا پرداز اور ادیب منشا یاد کی کتاب ’’حسبِ منشا‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    گردیزی صاحب چیئرمین سی ڈی اے اور میں ان کا پی آر اوتھا۔ سی ڈی اے ہر سال یوم آزادی کے سلسلے میں ایک کل پاکستان مشاعرہ منعقد کرتا تھا جس میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور حبیب جالب کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا اور فراز تو ویسے بھی ان دنوں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لندن میں مقیم تھے۔ تاہم مجھے ان شعرا کی کمی بہت محسوس ہوتی لیکن یہ ایک سرکاری ادارہ تھا، اس لیے ہم حکومتی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تھے۔

    اس مشاعرے میں ان تینوں کے سوا دوسرے شہروں سے تقریباً سبھی اہم شعرا جیسے حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، احسان دانش، ظہور نظر، قتیل شفائی، منیر نیازی، وزیر آغا، پروین شاکر، خاطر غزنوی، دلاور فگار، شریف کنجاہی، شہزاد احمد، ظفر اقبال، عارف عبدالمتین، عاصی کرنالی، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، اسلم انصاری، نوشابہ نرگس، مظفر وارثی، ریاض مجید، ارشد ملتانی، محسن احسان، جوگی جہلمی، جانباز جتوئی، حمایت علی شاعر، چانگ شی شوئن (انتخاب عالم)، نصیر ترابی اور بعض دیگر شعرا شامل ہوتے رہے۔ لیکن فیض، فراز اور حبیب جالب کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن یہ دور اور جنرل ضیاء الحق کے گزر جانے کے بعد جب سی ڈی اے کا مشاعرہ منعقد ہوا اور احمد فراز شہر میں موجود تھے تو میں نے انہیں مشاعرے میں شرکت کے لیے فون کیا۔

    انہوں نے صدر اور مہمانِ خصوصی وغیرہ کے بارے میں استفسار کیا تو میں نے بتایا کہ سید ضمیر جعفری صدارت کریں گے اور مولانا کوثر نیازی مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ اس پر فراز صاحب نے مشاعرے میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔میں نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانے۔ میں نے اپنے افسران کو بتا دیا کہ فراز نہیں مان رہے۔ لیکن مولانا اسلام آباد سے سینیٹر تھے اور سی ڈی اے کے کچھ مالی مفادات ان سے وابستہ تھے اس لیے انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

    ادھر احمد فراز کے بغیر مشاعرے کا کچھ لطف نہ آتا۔ ان دنوں ناصر زیدی، احمد فراز کے بہت قریب تھے اور یوں بھی وہ مشاعروں کے انتظامات اور رابطوں کے ماہر تصور کئے جاتے تھے۔ میں نے ان سے سفارش کرائی مگر فراز پھر بھی نہ مانے۔ جب میں نے بہت مجبور کیا تو اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ مولانا کے ساتھ اسٹیج پر نہیں بیٹھیں گے۔ ان کو پڑھوانے کا الگ انتظام کیا جائے۔ میں نے ان کی یہ شرط مان لی اور وہ آگئے۔ یہ مشاعرہ مقامی ہوٹل کے سوئمنگ پول کے کنارے ہو رہا تھا۔ میں خود انتظامی امور میں مصروف تھا اس لیے میں نے پروین شاکر سے نظامت کے لیے کہا۔ مگر وہ دیر سے آئیں اور میں نے ایک ایک کر کے شعرا کو اسٹیج پر بلایا اور مشاعرہ شروع کرا دیا۔ احمد فراز حسبِ وعدہ سامعین میں بیٹھ گئے۔ میں نے اشاروں سے ان کی منت سماجت کی کہ وہ اسٹیج پر آجائیں مگر وہ نہ مانے۔

    تھوڑی دیر میں پروین شاکر آگئیں تو میں نے نظامت ان کے حوالے کی اور ان سے کہا کہ وہ فراز صاحب سے کہیں کہ اسٹیج پر آجائیں کیوں کہ لوگ انہیں اسٹیج پر نہ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے بلکہ چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ پروین نے بھی انہیں اشاروں سے اسٹیج پر آنے کے لیے اصرار کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس کی بات نہیں ٹالیں گے مگر احمد فراز اپنی ضد پر قائم رہے۔ پھر جب ان کی باری آئی تو روسٹرم اسٹیج سے نیچے لایا گیا اور انہوں نے ’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں…‘‘ والی غزل پہلی بار اس مشاعرے میں سنائی جو بعد میں بہت مشہور ہوئی۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا صاحب اس پر داد دیتے اور سر ہلاتے رہے لیکن جب مولانا صاحب کے پڑھنے کی باری آئی تو احمد فراز سگریٹ سلگا کر منہ سے دھواں نکالتے ہوئے مشاعرے سے اٹھ کر چلے گئے اور ان کے پڑھ لینے کے بعد اسی طرح منہ سے دھواں نکالتے کہیں سے نمودار ہو گئے۔

  • ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    یہ احمد شاہ بخاری کا تذکرہ ہے جنھیں اردو ادب میں پطرس بخاری کے نام سے پہچان اور مقبولیت ملی۔ وہ بطور مزاح نگار نام ور ہوئے اور ادیب، نقاد، معلّم، ماہرِ نشریات اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی خود کو منوایا۔ پطرس کی پیشہ ورانہ قابلیت، ان کی ذہانت اور دور اندیشی کے ساتھ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ایک تحریر ہم یہاں نقل کررہے ہیں جو اپنے وقت کی ایک مدبر و دانش ور شخصیت ہیمر شولڈ کے قلم سے نکلی۔ ڈیگ ہیمر شولڈ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بنے تو وہاں ان کی ملاقات احمد بخاری المعروف پطرس بخاری سے ہوئی۔ ہیمر شولڈ احمد شاہ سے بہت متاثر ہوئے جس کا اظہار اپنی تحریر میں کیا ہے۔

    احمد شاہ بخاری اقوامِ متحدہ میں ان دنوں پاکستان کے نمائندے کے طور پر موجود تھے اور اقوامِ متحدہ میں انھیں اہم ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں‌۔ تعریف و توصیف پر مبنی ہیمر شولڈ کی یہ تحریر ۲۵ جون ۱۹۵۹ء کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    احمد بخاری سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے کوئی زیادہ مدت نہیں گزری تھی۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رئیس تھے اور اپنی حاضر جوابی اور شگفتہ بیانی کی بدولت عظیم شہرت کے مالک تھے۔

    اس کے علاوہ وہ اپنے ملک کے بدرجہ غایت مؤثر اور با وقار ترجمان ہونے کے اعتبار سے بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہماری پہلی گفتگو نے ان جذبات و احساسات میں کسی قدر اضافہ ضرور کیا۔ لیکن یہ اضافہ ان کی اس خیالی تصویر سے چنداں مختلف نہ تھا جس کے لیے وہ باہر کی دنیا میں معروف تھے۔

    مجھے یاد ہے کہ کس طرح اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے عالمی مسائل سے زیادہ انگریزی زبان کے ماورائی شعراء کے بارے میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا تھا۔

    کم و بیش ایک سال کے بعد جب مجھے اس ادارے کے لیے عالم اسلام کے ایک اعلیٰ نمائندے کی جستجو ہوئی تو قدرتی طور پر میرا ذہن بخاری کی طرف متوجہ ہوا اور مجھے یہ معلوم کر کے مزید مسرت ہوئی کہ وہ ہمارے عملے میں شرکت کے لیے رضامند ہیں۔ یوں پہلے پہل ان کی خود سپردگی کسی قدر اچنبے کی بات تھی۔

    جنوری ۱۹۵۵ء میں وہ میرے ہمراہ پیکنگ گئے جہاں مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہوا بازوں کی ایک جماعت کو رہا کرانے کے لیے بات چیت کرنی تھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ بڑے ہوش مند اور زیرک مشیر تھے لیکن اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ جس بات پر انہیں زیادہ تسکین حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ انہیں مشرقی ایشیا کی تہذیب سے رابطہ پیدا کرنے کا اولین موقع ہاتھ آیا تھا۔ یہ تہذیب مغربی ایشیا کی ثقافت کے متوازی اوصاف رکھتی تھی کہ جس رنگ میں وہ خود رنگے ہوئے تھے۔

    اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے دوروں میں مجھے چند موقعوں پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ان ہی سفروں کے دوران، میں نے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر یہ محسوس کیا کہ ان کی شخصیت پر ان کے عہد شباب کے تجربوں اور خاص کر ان کی خاندانی روایات کی کتنی گہری چھاپ ہے۔ ان کے تمام رفقاء اور احباب جانتے ہیں کہ ان کی قدرتی گرم جوشی اور سادگی میں حیا داری کس قدر رچی بسی ہوئی تھی۔ ان مرکب اوصاف کے پیچھے ان کے عمیق شریفانہ اطوار کارفرما تھے۔ دراصل وہ ایک احساس فخر بھی رکھتے تھے۔ جس کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دو موقعوں پر کیا۔ ان میں سے ایک ان طنزیہ الفاظ سے بھی مترشح ہے کہ "میری پرورش و تربیت اونٹ کے کوہان پر ہوئی۔”

    میں نے اس جگہ روایات کے اس پس منظر پر خاص زور دیا ہے جس سے انہیں واقعی دل بستگی تھی۔ دوسرے اصحاب بلاشبہ ان کی علمی فضلیت اور مغربی اقدار پر ان کی بصیرت کا ذکر کریں گے۔ فی الواقع انہیں انگریزی زبان اور اپنے علاقے کی زبانوں پر زبردست قدرت حاصل تھی اور وہ غیر معمولی طور پر مغربی ادب کے بھی بلند پایہ نقاد تھے۔

    قدرتی طور پر میرے لیے لازم ہے کہ احمد بخاری کے اوصاف و کمال کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے اسے چند لفظوں میں سمیٹ کر یہ بیان کروں کہ ان کی یہ خصوصیات ایک سیاسی سفیر کی حیثیت میں کس طرح ظاہر ہوتیں اور اپنا اثر ڈالتی تھیں۔ یہ کام میں جیقس برزون (Jacques Barzun) کی تازہ تصنیف دی ہاؤس آف انٹی لیکٹ کا ایک اقتباس پیش کر کے بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں "حکمت عملی (سفارت) کا تقاضہ ہے کہ دوسرے کے افکار و اذہان سے آگاہی حاصل ہو، یہ انشاء پرداز کا بھی ایک امتیازی وصف ہے مگر اس سے دوسرے درجے پر کہ وہ دوسروں کے دلائل کا جواب کس ہوش مندی اور واضح استدلال کے ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ‘حاضر دماغ’ سفیر اور ایک ‘پریشان خیال’ سفیر اصلاح میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔”

    احمد بخاری حقیقت میں ان اوصاف پر پورے اترنے والے سفیر تھے جو مندرجہ بالا اقتباس میں بیان کئے گئے ہیں۔

  • احمد فراز: وہ مجموعۂ قواعدِ سرکار کے خوگر نہ تھے

    احمد فراز: وہ مجموعۂ قواعدِ سرکار کے خوگر نہ تھے

    کوثر نیازی ایک سیاست داں، مشیر اور وزیر کے طور پر خاصے سرگرم رہے بلکہ ان کا یہ سفر کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز اور متنازع بھی رہا، لیکن وہ ایک عالمِ دین، ادیب و شاعر کے علاوہ عوامی حلقوں میں ایک زبردست مقرر کے طور پر بھی پہچانے جاتے تھے۔ دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز تھے۔ وہ پاکستان کے مقبول ترین رومانوی اور مزاحمتی شاعر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر آمریت، غیر جمہوری رویوں، ناانصافی اور قدامت پرستی کے خلاف بھی متحرک تھے اور اسی لیے حکومتوں کے معتوب بھی ٹھیرے۔ ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے میں فراز کی احتجاجی شاعری بہت مقبول ہوئی۔ ان کی مولانا کوثر نیازی سے کبھی نہیں بنی۔

    ادھر مولانا کوثر نیازی جب اطلاعات و نشریات کا مشیر اور بعد ازاں وزیر بنے تو انھیں بائیں بازو اور روشن خیال اہلِ قلم کی جانب سے تنقید اور سخت مخالفت بھی سہنا پڑی۔ پیشِ‌ نظر قصّہ اسی دور کا ہے جب مولانا اور فراز اپنی فکر اور نظریات کی بنا پر آمنے سامنے تھے۔اس حوالے سے معروف ادیب، نقاد اور صحافی فتح محمد ملک کی تحریر سے یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے۔

    اُس زمانے میں احمد فراز مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک ذیلی ادارے پاکستان نیشنل سینٹرز کے ہیڈ کوارٹرز میں کام کر رہے تھے اور مولانا کوثر نیازی اُن کے وزیر تھے۔ احمد فراز چونکہ مولانا کے افکار و کردار کو سخت ناپسند کرتے تھے اِس لیے اُنہیں ایک پرِ کاہ کی سی اہمیت دینے پربھی آمادہ نہ تھے۔ وہ انہیں شاعر ماننے سے انکاری تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مولانا کوثر نیازی کے مجموعۂ کلام کا پیش لفظ لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ بات یہ ہے کہ احمد فراز نے عمر بھر اپنی شرائط پر کام کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب موریشیش میں منعقد ہونے والے ایک ادبی سیمینار میں پاکستان سے ایک شاعر اور ایک ادبی نقاد کی شرکت کا فیصلہ ہوا تو احمد فراز اور مجھے نام زد کیا گیا۔ یہ نام زدگی اُس وقت کے وزیرِ تعلیم سیّد مصطفی شاہ کو جزوی طور پر پسند نہ آئی۔ اُنہوں نے تجویز کیا کہ فراز کے ساتھ کوئی سندھی ادیب موریشیش بھیجا جائے۔ اُس زمانے میں فراز اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے چیئر مین تھے اور یوں سیّد مصطفی شاہ کے ماتحت تصور کیے جاتے تھے۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے فراز سے کہا کہ شاہ صاحب کی بات مان لی جائے۔ اِس پہ فراز کا پارہ مزید تیز ہو گیا۔ اُس نے لکھ بھیجا کہ یا ہم دونوں جائیں گے یا پھر ہم میں سے کوئی بھی نہیں جائے گا۔ مصطفی شاہ صاحب مرحوم بڑی فراخ دلی کے ساتھ ہنس دیے:’جاؤ بھائی جاؤ دونوں جاؤ‘۔ جب وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ تھے تب بھی وزیرِ تعلیم کو یہی گلہ رہتا تھا کہ فراز میرے ڈسپلن میں نہیں رہتے، مجھ سے بالا بالا اوپر نوٹ لکھ بھیجتے ہیں اور اُوپر سے ہی مجھے احکامات بھجوا دیتے ہیں۔

    جب احمد فراز پاکستان نیشنل سینٹرز میں کام کر رہے تھے، تب ایک بار مولانا کوثر نیازی نے اُنھیں اسلام آباد سے قلات تبدیل کر دیا تھا جس پر اُنھوں نے عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹایا تھا۔ ہمارے وزرائے کرام بھی عجب معصوم مخلوق ہیں۔ نہیں جانتے کہ سچے شاعر اور دانشور کی شرائطِ کار شاعری متعین کرتی ہے نہ کہ ایسٹا کوڈ (مجموعۂ قواعدِ سرکار) مگر افسوس کہ یار لوگ قواعدِ سرکار کے نت نئے دام بچھانے سے کبھی باز نہ آئے۔

  • ٹرک، خالص افیون اور دو پاکستانی شخصیات

    ٹرک، خالص افیون اور دو پاکستانی شخصیات

    میں نے ہوش سنبھالا تو جس حکمران کا نام کانوں میں پڑا تھا وہ ایوب خان تھے۔ تب خیبر پختونخوا کا نام صوبۂ سرحد تھا۔ ایوب خان اس صوبے کے ضلع ہزارہ کے شہر ہری پور کے گاؤں ریحانہ کے رہنے والے تھے۔ شاید یہی سبب رہا ہوگا کہ اس صوبے سے آنے والے ٹرالروں، ٹینکروں اور ٹرکوں پر ایوب خان کی تصویر بنی ہوتی۔

    ہمارا شہر مال بردار گاڑیوں کی ایسی قدیم گزر گاہ پر واقع تھا جن کی ایک طرف اگر منزل صوبہ سرحد، شمالی علاقہ جات حتٰی کہ افغانستان کے علاقے ہوتے تو دوسری طرف انہیں ڈھلیاں اور تلہ گنگ کے راستے اندرون ملک اور کراچی بندرگاہ تک جانا ہوتا۔ ان ٹرکوں اور ٹرالوں کے عقبی ڈھانچے پر مصوروں نے جس شخصیت کی سب سے زیادہ تصویریں بنائی ہوں گی وہ ایوب خان تھے۔

    ٹرک آرٹ کے ان شوخ رنگ شاہ پاروں میں ایوب خان کو ہمیشہ فوجی وردی میں دکھایا جاتا تھا۔ سر پر فوجی ٹوپی، ہاتھ میں چھڑی، سینے اور کندھوں پر بہت سارے تمغے اور رینک کے نشان۔

    اس سب نے اس تصویر والی شخصیت کا رعب بڑھا دیا تھا۔ ہمارے علاقے میں فوجیوں کو ویسے بھی بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اوریہاں ہر گاؤں، ہر قصبے اور ہر شہر سے لوگ فوج کا حصہ بنتے رہتے تھے۔ ایوب خان کے ساتھ گاہے گاہے ایک اور تصویر بھی نظر آ جاتی تھی۔

    اس تصویر والی شخصیت کا رُعب الگ طرح کا تھا۔ یہ تصویرتاؤ دی ہوئی مونچھوں اور نخوت اچھالتے چہرے والے گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان کی ہوتی تھی۔ کبھی سیاہ، کبھی سفید شیروانی، زر تار کلاہ پر مکلف طرّے دار ابرق لگی سفید دستار جس کا ایک لڑ گردن سے پشت کی سمت جاتا ہوا نظر آتا تھا۔ یہ سب اتنے قرینے سے ٹرک آرٹ کے مصوروں نے تصاویر کا حصہ بنایا ہوتا تھا کہ اُن سے جاگیردارانہ کروفر جھلک دینے لگتا تھا۔ انہی دو شخصیات کے تصویریں ہمیں حجام کی دکانوں اور ہوٹلوں کے علاوہ اس دکان پر بھی نظر آجاتی تھیں جہاں خالص افیون بکتی تھی۔ ان تصویروں کا نشہ بھی اُن دنوں خالص افیون کا سا تھا۔

    (حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس)

  • دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں؟

    دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں؟

    پرانے زمانے میں جب انسان جنگی دور میں تھا تو غصہ ایک اندھا جذبہ ہوا کرتا تھا۔

    ہوتا یوں تھا کہ اگر آپ پر کسی نے پتھر پھینکا اور پھر بھاگ گیا اس پر آپ کو غصہ آجاتا۔۔۔ آپ اپنا تیر کمان اٹھا لیتے اور گھر سے نکل جاتے۔ باہر کوئی بھی چلتا پھرتا نظر آتا، چاہے وہ انسان ہو یا پرندہ یا پڑوسی کی بھینس، آپ اس پر تیر چلا دیتے اور پھر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے بعد جھونپڑے میں داخل ہو کر آرام سے اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے۔ اس زمانے میں بدلے یا انتقام کا سوال نہ تھا۔ صرف دل ٹھنڈا کرنے کی بات تھی۔ اس کے بعد انسان آہستہ آہستہ مہذب ہوتا گیا اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ غصّہ نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ غصّہ دلانے والے کو سزا دی جائے۔

    آج کی صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم پھر سے جنگلی دور میں جا داخل ہوئے ہیں جب بھی ہم غصّے میں آتے ہیں تو جوش میں باہر نکلتے ہیں۔ سڑک پر چلتی بسوں کو روک کر انہیں آگ لگا دیتے ہیں، چلتی گاڑیوں پر پتھر پھینکتے ہیں، چار ایک نعرے لگاتے ہیں، منہ سے جھاگ نکالتے ہیں۔ اور یوں دل ٹھنڈا کرنے کے بعد اپنے کارنامے پر نازاں خوشی خوشی گھر لوٹتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں؟

    بھئی، غصّہ تو آنی جانی چیز ہے لیکن اسے قائم کر لینا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ سیانوں کا کہنا ہے "غصہ پہاڑ کی برفیلی چوٹی کی طرح ہے۔ آپ چوٹی پر جاسکتے ہیں، وہاں قیام نہیں کرسکتے۔”

    (اقتباس رام دین از ممتاز مفتی)

  • اے حمید: جن کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی

    اے حمید: جن کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی

    منیر نیازی اور اے حمید میں بہت سی باتیں ایک ہی رنگ میں تھیِں۔ دونوں خوبرو، خوش لباس اور دونوں حسن و جمال کے عاشق اور دونوں کو خوشبو پسند۔ منیر صاحب شاعر تھے اور حمید صاحب نثر میں شاعری کرتے تھے۔

    میں نے منیر صاحب کو بھی اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ بس اتنی خوب صورتی کافی ہے۔ لفظ ’کافی‘ میں ایک تشنگی ہے، یہی ایک ادھوری جگہ ہے جہاں ہمارے خواب جنم لیتے ہیں۔ انسان سے اگر اس کا تخیل چھین لیا جائے تو اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہیں رہتا، اور یہ خواب ہی ہیں جو ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔ ہم پر امکانات کا در وا کرتے ہیں اور ہمیں ایک ان دیکھی دنیا کا نظارہ کرواتے ہیں اور اسی لیے حمید صاحب کو محلوں سے زیادہ ان کے خواب عزیز تھے۔ انہوں نے دنیا کی بدصورتی میں زندگی بسر کرنے کے لیے ایک خوب صورت جواز پیدا کیا تھا، محبت، فطرت اور انسانیت دوستی کا خواب، وہ ’خوابوں کے صورت گر‘ تھے۔ سفاک حقیقت کے درمیان تاریکی میں جہاں کہیں انہیں کسی کرن کی جھلک دکھائی دیتی تو وہ اس سے ایک روشن صبح کے پر بنا لیتے۔ ان کی تحریروں میں قدیم شاعروں، دیوی دیوتاؤں رشیوں اور دشت نوردوں کے نوحے ان کی نغمہ گری اور ان کے خوابوں کی تاثیر ہم پر ایک سحر طاری کرتی ہیں۔

    ان کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی۔ بہت سالوں بعد میں جب میں نے ٹی وی پر اسکرپٹ پروڈیوسر کی ملازمت شروع کی تو تقریباً روز ہی میری حمید صاحب سے ملاقات رہتی۔ ان کے ساتھ ہمیشہ ان کا قریبی دوست نواز ہوتا جو پنجابی کا بڑا اعلی لکھاری تھا۔ ’شام رنگی کڑٰی‘ اس کی کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ میرے کالج کا دوست اور ٹی وی پروڈیوسر نصیر ملکی بھی زیادہ وقت میرے ہی کمرے میں رہتا۔ اس کی بھی ان سے بہت گہری دوستی تھی۔ حمید صاحب ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھتے تھے، اس لیے ان کا ہفتے میں تین چار مرتبہ ریڈیو اور ٹی وی کا چکر لگتا رہتا۔ حمید صاحب آتے تو اکثر ان کے ہاتھ میں کوئی پھول ہوتا اور آنکھیں کسی غائب کے نظارے سے مست رہتی۔ گم صم اور رومانٹک۔ اُن کو چائے سے بہت محبت تھی۔ کہتے تھے، ’سرمد یار چاء وچ وی جان ہوندی اے۔‘ چائے آتی تو وہ کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ ان کے لیے چائے دانی ٹی کوزی میں ایک ڈھکی چھپی محبوبہ تھی۔ چائے دم پر آنے تک وہ بھی چپ چاپ کوئی دم پڑھتے رہتے۔ پھر آہستہ سے ٹی کوزی اُتاری جاتی جیسے کوئی اپنی محبوبہ کو بے حجاب کر رہا ہو۔ چائے حمید صاحب کو اور حمید صاحب چائے کو اپنی خوشبو سے سیڈوس کرتے یعنی رجھاتے رہتے۔ حمید صاحب کے ہاتھ نہایت لاڈ سے چائے دانی کو اپنی آغوش میں تھام کر اُسے پیالی میں عریاں کرتے، آہستہ بہت آہستہ۔ چائے بھی جھک کر کہتی اور ذرا آہستہ!

    جیسے وہ اپنی چائے ہلکی ہلکی چسکیاں لے کر پیتے، ویسے ہی وہ اپنی کہانی بیان کرتے ٹھہر ٹھہر کر۔ وہ کسی تجربے یا واقعے کو ہلکے شرابی کی طرح غٹاغٹ نہ پی جاتے بلکہ اہلِ ظرف کی طرح دیر تک شیشے میں تندیٔ صہبا کا ارغوانی دیدار کرتے اور پھر مزے لے لے کر پیتے۔

    (پاکستان کے معروف فکشن رائٹر، ڈرامہ اور سفرنامہ نویس اے حمید سے متعلق سرمد صہبائی کی یادوں سے ایک جھلک، سرمد صہبائی شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں)

  • بے ادب اور منہ پھٹ آدمی!

    بے ادب اور منہ پھٹ آدمی!

    اردو زبان کے نام ور اہلِ قلم اور مشہور شخصیات کی آپ بیتیوں یا خود نوشت سوانح عمریوں‌ کا مطالعہ ہمیں بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا بھی موقع دیتا ہے۔ ان شخصیات کی زندگی کے مختلف ادوار، ان کے کام اور کارناموں کے علاوہ کئی ایسے واقعات بھی ان آپ بیتیوں‌ میں پڑھنے کو ملتے ہیں جو ہماری توجہ اور دل چسپی کا باعث بنتے ہیں‌۔

    احسان دانش کو شاعرِ مزدو کہا جاتا ہے۔ وہ مشہور شاعر ہی نہیں‌، زبان و بیان کے ماہر بھی تھے۔ انھوں‌ نے ساری زندگی مشکل حالات سے لڑتے ہوئے گزاری۔ انھوں نے مڈل تک تعلیم حاصل کی اور مزدوری کرنے نکل گئے۔ چھوٹے موٹے کئی کام کیے، کہیں چپڑاسی لگے، کبھی مالی بنے اور کہیں وزن ڈھو کر روزی روٹی کا انتظام کیا۔ احسان دانش نے اردو شاعری میں‌ بہت نام و مرتبہ پایا۔ ان کی آپ بیتی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی جس میں‌ انھوں نے شاعرِ‌ مشرق سے اپنی پہلی ملاقات کا حال رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    مولانا تاج وَر نجیب آبادی، علامہ اقبال کے مداحوں میں سے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ ”پنجاب کی سرزمین نے یہ بہت تناور انسان پیدا کیا ہے، لیکن یہاں کے عوام کے دماغ ابھی اونگھ رہے ہیں۔“

    ایک دن میں نے عرض کیا، ”مولانا زندگی میں جس قدر اقبال کی شہرت ہے یہاں اور کس کو یہ رتبہ ملا ہے؟“

    مولانا تنک مزاج تو تھے ہی، بگڑ گئے جیسے ان کی خاموشی کے پھوڑے کو چھیڑ دیا ہو۔ بولے، ”ابے الّو! تجھے کیا خبر کہ علامہ اقبال کس مقام کے انسان ہیں، یہاں ایسی شخصیتوں کے جوہر تو مرنے کے بعد کھلا کرتے ہیں، کیوں کہ مردہ قومیں مردوں کو پوجتی ہیں اور زندہ قومیں زندہ لوگوں کے جوہر کو سراہتی ہیں۔“

    میں نے مولانا سے کئی بار کہا، ”مولانا! مجھے علامہ اقبال کو دکھا دیں، آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔“ مولانا نے کہا ”ہرگز نہیں، میں تجھے اپنے ساتھ ہرگز نہیں لے جا سکتا کسی اور کے ساتھ بھیج دوں گا، دیکھ آنا۔“

    میں نے کہا، ”مولانا میں تو آپ ہی کے ساتھ جاؤں گا آپ سے زیادہ یہاں میرا ہم درد کون ہو سکتا ہے؟“

    مولانا بولے، ”تُو بڑا بے ادب اور منہ پھٹ آدمی ہے، تجھے ساتھ لے جا کر میں کیا اپنی توہین کراؤں؟“

    میں نے نہایت لجاجت سے کہا، ”مولانا! میں وعدہ کرتا ہوں، جب تک وہاں سے واپس آئیں گے اس وقت تک میں ہونٹ سیے رکھوں گا، ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالوں گا۔“ مولانا سن کر خاموش ہوگئے۔

    ایک دن مولانا نے مجھے گھر سے بلوایا اور کہا، ”ذرا کپڑے ڈھنگ کے پہن آ…“ میں نے پوچھا ”کیا گورنر صاحب کے یہاں جانا ہے؟“

    مولانا: ”ابے جاہل! علامہ اقبال کے یہاں جانا ہے، جس کے لیے تو روز میرے سر رہتا ہے۔“

    میں: ”مولانا انہیں میرے کپڑوں سے کیا غرض، وہ تو آپ کو دیکھیں گے۔ آپ اپنے مقام کا لباس پہن لیں، میں تو آپ کے خادم کی حیثیت سے آپ کے ساتھ جاؤں گا اور میرے پاس کپڑے ہیں بھی کہاں۔ دو جوڑے ابھی دھو کر سوکھنے کے لیے ڈال کے آیا ہوں، وہ بھی کئی جگہ سے گونتھ رکھے ہیں۔“

    مولانا: ”اچھا چل یوں ہی چل، لیکن جب تک وہاں رہے زبان سی لینا۔“

    میں: ”جیسا حکم ہو، میری کیا مجال ہے کہ سرتابی کروں۔“ اس کے باوجود مولانا تمام راستے مجھے تلقین کرتے گئے کہ ”وہاں زبان کھولنا گستاخی ہے، گستاخی۔“

    جب مولانا، علامہ کی کوٹھی کے دروازے پر پہنچے تو پھر مجھے خاموش رہنے کی تاکید کی اور میں تیوری پر بل ڈال کر خاموش ہوگیا۔

    مولانا نے جھلا کے کہا ”کچھ منہ سے تو پھوٹ، سن رہا ہے کہ نہیں؟“

    میں: ”آپ ہی نے تو کہا ہے کہ خاموش رہنا۔ میں تو بڑی دیر سے خاموشی پر عمل پیرا ہوں۔“
    مولانا مسکراتے ہوئے علامہ کے یہاں ایک نیم روشن کمرے میں پہنچ گئے۔ مولانا تاج وَر اور علامہ تو باتیں کرتے رہے اور میں ان دونوں بزرگوں کو ایک پجاری کی طرح دیکھتا رہا۔ جب چلنے لگے تو علامہ نے مولانا سے میرے متعلق دریافت کیا۔ مولانا نے فرمایا، ”غریب مزدور آدمی ہے، نجانے شعر و شاعری کا روگ کہاں سے لگا لیا اور میرے یہاں آنے جانے لگا، عرصے سے آپ کو دیکھنے کا متمنی تھا۔“ علامہ نے میرا نام دریافت کیا میں نے شرماتے ہوئے لہجے میں کہا، ”احسان…“

    علامہ نے فرمایا ”نام تو مزدوروں والا نہیں، اچھا! خدا اسمِ بامسمیٰ کرے۔“

    مولانا جب سڑک پر آئے تو کہنے لگے، ”احسان، تو نے بڑے آدمی کو دیکھا ہے۔“

    میں نے عرض کیا، ”حضور! میں بلاشبہ آپ کا ممنون ہوں۔“

    مولانا: ”میں نے تجھے اسی لیے خاموش رہنے کو کہا تھا کہ تُو بات نہ کرنا جانتا ہے نہ سننا، بھلا مجھے تیری ممنونیت سے کیا فائدہ؟“

    میں نے کہا، ”مولانا شکریہ کوئی جرم تو نہیں۔“

    مولانا نے کہا، ”چپکا چپکا چل بات نہ بڑھا، میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ تو خوش نصیب ہے کہ علامہ سے مل بھی لیا اور دعا بھی لے لی۔“

  • ’نوری جام تماچی‘: عجز و نیاز کا استعارہ

    ’نوری جام تماچی‘: عجز و نیاز کا استعارہ

    شاہ عبداللطیف بھٹائی بنیادی طور پر صوفی شاعر ہیں اور شیخ ایاز کے الفاظ میں تصوف پرست ہیں۔ صوفی شاعر ذات سے کائنات تک ہر شے میں اپنے محبوبِ حقیقی کو موجود پاتا ہے۔

    عشق کے اِن مدارج کو لکھنے کے لیے شاہ نے اُن کرداروں کی تمثیل گری کی ہے جو عشقیہ داستانوں میں لازوال قرار پائے ہیں۔ اُن کے اوصاف اور راہِ شوق میں جھیلی گئی کٹھنائیوں کو رہنما بنا کر اُنھوں نے عشقِ حقیقی کے مقامات کو اُجاگر کیا ہے۔ یہی تمثیل گری شاہ کی شاعری کا بنیادی اور باکمال وصف ہے۔ ان کے ذریعے شاہ نے سچے عاشق کے ظاہر و باطن دونوں کو آشکار کیا ہے۔ ان داستانوں میں نوری جام تماچی کی داستان جو ’’سُر کاموڈ‘‘ میں منظوم کی گئی ہے۔ عشق کے سچے جذبے کی وسعت و سادگیِ بیان میں دیگر داستانوں سے قدرے مختلف اور مختصر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ راہِ عشق پر چلنے والے مادّی و دنیاوی دولت اور رکھ رکھاؤ سے مرعوب نہیں ہوتے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو ہر طرح کی طبقاتی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے، اس میں ظاہری حسن کی علامت پسِ پشت رہ جاتی ہے اور وہ خوبیاں جو باطن میں ہوتی ہیں، سامنے آجاتی ہیں۔ نوری جو کینجھر جھیل کے کنارے بسنے والے مچھیروں کی لڑکی ہے، اُسے سُمّہ خاندان کا مشہور حاکم جام تماچی نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ اُس سے باقاعدہ بیاہ رچاتا ہے۔ نوری محل کی رانی بننے کے باوجود اپنے لوگوں اور اپنی سادگی سے بے نیاز نہیں ہوتی اور جب دوسری رانیاں بن سنور کر اپنی چھب دکھاتی ہیں تو نوری اپنے اُسی مچھیرن والے انداز میں سامنے آتی ہے جس میں اُسے پہلی بار جام تماچی نے دیکھا تھا۔ اس طرح وہ سادگی اور عجز کا ایسا استعارہ بن جاتی ہے، جس کی بے نیازی اُس کے طالب کو پسند آتی ہے۔

    پوری داستان بڑی سادگی سے بیان کی گئی ہے جس میں ملّاحوں کے غریبانہ ماحول اور بود و باش کے ساتھ اُن کی پیشہ ورانہ سختیاں اور اُن پر محصول کی ادائیگی کا بوجھ بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ ایسے ماحول سے راج محل میں آنے والی نوری اپنے لوگوں اور اپنی اصل سے جدا نہیں ہوتی۔ نوری ایک واسطہ بن جاتی ہے، تماچی اور اُن غریب ملّاحوں کے بیچ، جن کو کم تر سمجھا جاتا تھا اور اس لیے بھی دُور رکھا جاتا تھا کہ اُن میں مچھلیوں کی بُو بسی ہوتی تھی اور کیچڑ سے آلودہ ہوتے تھے۔ مگر اُنھی کی بیٹی اپنی ظاہری اور باطنی دونوں حسن کی وجہ سے جام تماچی کی ایسی منظورِ نظر رانی بن جاتی ہے جسے دیگر رانیاں اپنے بناؤ سنگھار اور جاہ و حشم کے باوجود کم تر نہیں کرسکتیں۔ واضح رہے کہ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور دیگر تمام تر تعصبات میں غربت قدیم ترین تعصب ہے جس نے طبقاتی نظام کو مستحکم کیا اور امرا و حاکم کو تسلط کا اختیار دیا۔

    نوری جام تماچی بظاہر ایک ایسی ہی داستان ہے جس میں راجا مچھیرن پر عاشق ہو کر اُس کے پورے طبقے پر مہربان ہو جاتا ہے مگر اس کے پس منظر میں شاہ کا وہی شعری رویہ ہے جس میں عام آدمی خصوصاً عورت کو سماج میں کم زور پیش نہیں کیا، بلکہ اُن کو انسانیت کے وقار کے ساتھ لکھا گیا ہے جہاں انسان طبقاتی تفریق سے بالاتر ہے۔

    جیساکہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ شاہ لطیف کی شاعری عاشقوں کی تعریف و توصیف سے معمور ہے۔ شاہ نے محبت کرنے والوں سے عشق کیا ہے اور عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی کا آغاز جانا ہے۔ ’’سُر کاموڈ‘‘ اس کی بڑی مثال ہے جسے اِن اشعار میں محسوس کیا جاسکتا ہے:

    تماچی جام اور تیری حضوری
    یہ کیا اعجاز ہے اے چشمِ نوری
    رہی باقی نہ کوئی حدِّ فاصل
    مٹا دی عشق نے ہر ایک دُوری

    شاہ لطیف کی شاعری میں عام انسانوں کی زندگی کے تجربات اور وہ جذبات جو عموماً پہلے نہیں لکھے گئے، عمیق مشاہدے کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ ’’سُر کاموڈ‘‘ میں ملّاحوں اور مچھیروں کی تصویرکشی دیکھیے:

    فقط یہ مچھلیاں ہیں ان کی دولت
    غریب و ناتواں ہیں یہ مچھیرے
    مگر یہ فخر بھی کیا کم ہے ان کو
    کہ اب ہیں حاشیہ بردار تیرے
    ——
    یہ اُن کے جال اور یہ کشتیاں ہیں
    یہ اُن کے ٹوکرے اور مچھلیاں ہیں
    سحر کو تیرے در کی پیشیاں ہیں
    پھر اُس کے بعد ماہی گیریاں ہیں
    خدا جانے ’تماچی جام‘ پیارے
    تجھے اب ہم سے کیوں دلچسپیاں ہیں
    ——
    یہ اُن کی ’کھاریاں‘ اور ’چھاج‘ توبہ
    کہ بدبو مچھلیوں کی جن سے آئے
    پڑے رہتے ہیں اس پانی میں وہ بھی
    سگِ آبی جہاں غوطے لگائے
    جو رہتے ہیں ہمیشہ ’باندھیوں‘ پر
    تعجب ہے اُنھیں دل میں بسائے
    نہ صورت اُن کی اچھی ہے نہ سیرت
    نہ جانے کیوں وہ اُن کے ناز اٹھائے

    شاہ لطیف کی داستانوں میں عورت کو اُن کے اوصاف کی بِنا پر فوقیت دی گئی ہے۔ شاہ نے عورت کو اُس کے پورے وقار اور انسانی روپ میں لکھا ہے۔ عورت جسے عام رویوں میں جذبات، احساسات فکر و شعور سے عاری ایسی مخلوق سمجھا جاتا رہا ہے جسے سماج کے بندھے بندھائے اُصول کے مطابق میکانکی زندگی گزارنی ہے۔ شاہ نے اُس عورت کو مکمل انسان کے روپ میں اُس کے جذبوں اور عملی جدوجہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ سسّی ہو کہ سوہنی، نوری ہے کہ لِیلا، شاہ کی شاعری میں دوسرے شعرا کی طرح اُس کے جسم کا بیان نہیں ہوا ہے۔ اُنھوں نے اُس کے جذبات، احساسات، ذہانت، ہمت اور سچائی کی متاثر کن تصویر کشی کی ہے۔ اُن کی داستانوں میں ہیرو مرد نہیں، عورتیں ہیں۔ ان عورتوں کے اوصاف کے بیان میں شاہ لطیف نے کہیں اُن کے جذبے کی گہرائیوں کو، کہیں اُن کی وفا و جرأت کو، کہیں سچائی کو تو کہیں قناعت کو اُجاگر کیا ہے۔ عشق میں راسخ ہونا ان خواتین کرداروں کا بنیادی وصف ہے۔ شاہ کے دل میں عاشق کی قدر و منزلت ہے کہ اُس کی محبت ظاہر کی درجہ بندیوں سے ماورا ہوتی ہے اور اُس کے دل کی شفافیت باطن تک رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ ’’سُرکاموڈ‘‘ میں نوری ایک ایسا ہی کردار ہے جو اپنے اوصاف و کردار میں خود شناس اور مستحکم ہے۔ ’نوری جام تماچی‘ کے بیان میں جام تماچی کی وفا کی وجہ نوری کی سادگی اور بے نیازی ہے جس سے وہ دولت اور رتبہ پانے کے باوجود کنارہ کشی اختیار نہیں کرتی اور اپنے ان اوصاف کی بنا پر وہ دیگر رانیوں پر برتری حاصل کرلیتی ہے۔
    شاہ لطیف کی شاعری کی اک نمایاں خوبی منظر نگاری ہے جس میں اُن کے باریک بیں مشاہدے اور اعلیٰ جمالیات دونوں کی واضح جھلک ہوتی ہے۔

    (پاکستان کی نامور شاعرہ، محقق، نقاد اور ادیبہ ڈاکٹر فاطمہ حسن کے مضمون سے اقتباسات)

  • میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہو گا۔

    یہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جنھوں نے موزونی طبع کی وجہ سے یا اپنا دل بہلانے کی خاطر یا دوسروں سے تحسین سننے کے لیے شعر کہے ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمہ تن شعر میں ڈوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے اپنے کلام سے اردو کی فصاحت کو چمکایا اور زبان کو زندہ رکھا۔

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    یہ شعر کس قدر سادہ ہے، اس سے زیادہ آسان، عام اور معمولی الفاظ اور کیا ہوں گے لیکن اندازِ بیان درد سے لبریز ہے اور لفظ لفظ سے حسرت و یاس ٹپکتی ہے۔ اردو کیا مشکل سے کسی زبان میں اس پائے کا اور ایسا درد انگیز شعر ملے گا۔ ایک دوسری بات اس شعر میں قابلِ غور یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو غل نہ کرنے اور آہستہ بولنے کی ہدایت کر رہا ہے، وہ بھی بیمار کے پاس بیٹھا ہے، اور اس پر لازم ہے کہ یہ بات آہستہ سے کہے۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ لفظ ایسے چھوٹے، دھیمے اور سلیس ہوں کہ دھیمی آواز میں ادا ہو سکیں۔ اب اس شعر کو دیکھیے کہ لفظ تو کیا ایک حرف بھی ایسا نہیں جو کرخت ہو یا ہونٹوں کے ذرا سے اشارے سے بھی ادا نہ ہو سکتا ہو۔

    جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
    تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

    اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں، مگر شعر کس قدر پُر درد ہے، دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیز بنا دیا ہے۔ یہ سلاست اور یہ اندازِ بیان اور اس میں یہ درد میرؔ صاحب کا حصہ ہے، ان اشعار کے سامنے صنائع و بدائع، تکلف و مضمون آفرینی، فارسی، عربی ترکیبیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔

    (مقدمۂ انتخابِ میر از مولوی عبدالحق سے اقتباس)

  • کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    شاعرِ مشرق، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے اشعار کی تفسیر و تشریح میں اکثر ہم لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ اگر بات علمی مباحث تک ہو تو بھی ٹھیک ہے، مگر جب ان غلط تشریحات کا اطلاق عملی زندگی میں ہونے لگے تو ہمارے لیے پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

    کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی شعر کا مطلب تو صحیح نکالتے ہیں لیکن اس کے انطباق میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ مثلاً اس شعر ہی کو لیجیے؎

    نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تُو شاہیں ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں میں

    اب جسے دیکھو علامہ اقبال کے اس شعر کو راہ نما بنا کر منہ اٹھائے پہاڑوں کی طرف چل دیتا ہے۔ حالاں کہ پہاڑوں کی طرف رختِ سفر باندھنے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ شاعرِ مشرق نے کن پہاڑوں میں سکونت اختیار کرنے کی ”ہدایت“ کی ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ کا اشارہ تورا بورا کے کوہ ساروں کی طرف تھا اور ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ”عقابی حرکتیں“ کرنے والوں کے لیے یہ پہاڑ ہی محفوظ پناہ گاہ بن سکتے ہیں۔ رہے بلوچستان وغیرہ کے پہاڑ تو بھیا! ان ”پہاڑوں“ کا کوئی بھروسا نہیں۔ آپ ان میں جاکے بیٹھیں تو یہ آپ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ نے اپنے شعر میں واضح طور پر تورا بورا کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ ہمارے خیال میں انھوں نے افغانستان کی مناسبت سے ”پٹھانوں کی چٹانوں میں“ لکھا ہوگا، جو ”پٹھانوں“ سے بگڑ کر ”پہاڑوں“ ہوگیا۔ اور پھر اسے ”پہاڑوں“ ہی تسلیم کرلیا گیا کیوں کہ پٹھان بگڑ جائے تو ”بڑے بڑوں“ کو اسے ”پہاڑ“ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

    ہم یہاں کلام اقبال کے حوالے سے کچھ اور غلط فہمیوں کی نشان دہی بھی کیے دیتے ہیں۔

    کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
    مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

    شمشیر بہ دست کافر سے بے تیغ مومن کا رانوں پر ہاتھ مار کر ”کبڈی کبڈی“ کہتے ہوئے بِِھڑ جانا، نری خود کشی ہوگی اور بھلا اقبال مسلمانوں کو خودکشی کا مشورہ کیوں دینے لگے؟ ان کے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ غنیم کو شکست دینے کے لیے تلوار پر بھروسا کرنا تو کافروں کا وتیرہ ہے۔ ”مومن سپاہی“ تو بس قلم اٹھاتا ہے اور کاغذ پر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا ہے۔ اور جب کم از کم ڈیڑھ دو سیر کاغذ دشمن کے خون میں نہا کر سفید سے سرخ اور سرخ سے سیاہ ہوجاتا ہے تو مومن سپاہی اسے ”خود نوشت“ کی صورت میں شایع کر دیتا ہے۔

    اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
    جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

    اس شعر کے مصرعِ ثانی کو صدر ایوب خان نے اپنی ”مبینہ خود نوشت“ کے اردو ترجمے کا عنوان بنایا تھا۔ اس عنوان نے کتاب کی فروخت پر بڑا بُرا اثر ڈالا۔ اکثر لوگوں نے اس کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی سمجھا کہ یہ وہ ”رزق“ ہے جو پرواز میں کوتاہی لاتا ہے اور پھر ”اس رزق سے موت اچھی“ کہہ کر کتاب خریدنے کا ارادہ ترک کردیا۔ نتیجتاً بنیادی جمہوریت، ون یونٹ اور کنوینشنل لیگ کی طرح ایوب خان کی کتاب بھی رزق خاک ہوئی۔
    ہمارے خیال میں امریکی امداد، بھارتی اجناس اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے معاملے میں اس شعر کو حوالہ بنانا مصلحت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ لہٰذا اسے علامہ کا پرندوں کو مشورہ سمجھ لینے ہی میں عافیت ہے۔

    مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
    خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

    غریبوں نے اپنے ممدوح کا یہ شعر پڑھ کر نام پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ اب نام ور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ؎ پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ اور بے چارے غریب تو اپنے کپڑے بنانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ چناں چہ انھوں نے نام وری کے لیے نورِ نظر اور لختِ جگر کی پیداوار دھڑادھڑ شروع کر دی اور ہر بچے کے نام سے اپنا نام جوڑ کر سمجھے کہ نام پیدا کرلیا۔ ہمارے محلّے دار ’ببّن میاں‘ نے کثرت اولاد کی خواہش کو ”یقین محکم“ بنا اور ”محبت فاتحِ بیگم“ کا نعرہ لگا کر جو ”عمل پیہم“ شروع کیا تو ان کے گھر میں بچوں کی بھیڑ لگ گئی۔ موصوف، شبو ببن، نبو ببن، کلو ببن سمیت ایک درجن پسران و دختران کی ولدیت کا اعزاز رکھنے کی وجہ سے اس خیال میں غلطاں ہیں کہ انھوں نے دنیا میں ”ببّنوں“ کی تعداد بڑھا کر اپنا نام زندہ جاوید کر لیا ہے۔

    ببن میاں جیسے حالات اور خیالات کے حامل خواتین و حضرات کو ہمارا مشورہ ہے کہ نام پیدا کرنے کے چکر میں نہ پڑیں اور خودی بیچ کر گھر چلائیں، کیوں کہ ہم جس سرمایہ داری نظام میں زندہ ہیں اس میں افراد واقوام خودی کا سودا کیے بغیر نام نہیں صرف مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

    گیا دورِ سرمایہ داری گیا
    تماشا دکھا کر مداری گیا

    علامہ کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ ”مداری“ بس کچھ دور گیا تھا اور اشتراکیت سے کہہ گیا تھا ”بی بی! تم اپنا پتلی تماشا دکھاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔“ اشتراکی پتلی باز کا تماشا ابھی جاری ہی تھا کہ مداری اپنے سرکس کے ساتھ واپس آگیا۔ اب کے اس کا تماشا ایسا دل چسپ تھا کہ تماش بیں مبہوت ہوکر دیکھا کیے۔ مداری نے بندر کے بہ جائے سفید ریچھ اور کاغذی شیروں کو نچایا۔ مجاہدین سے موت کے گولے اور موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلوائی اور جوکروں سے خود ان کی بَھد اڑوائی۔ اتنے بڑے اور ایسے دل چسپ سرکس کے سامنے بے چارے پتلی باز کی کیا چلتی۔ چار و ناچار وہ خود بھی سرکس میں ملازم ہوگیا۔ ایسے میں کٹھ پتلیاں بے آسرا ہوگئیں، اب ان کی حالت یہ ہے کہ جو بھی ڈور پکڑ لے اس کی انگلیوں پر ناچنے لگتی ہیں۔

    خیر علامہ اقبال کو تو کچھ آثار دیکھ کر سرمایہ داری کے رخصت ہوجانے کی غلط فہمی ہوئی تھی۔ بہتر یہی ہے کہ دور حاضر میں کوئی، علامہ اقبال کی غلط فہمی کو جواز بنا کر، ”گیا دور سرمایہ داری گیا“ کا راگ نہ الاپے اور اگر الاپے تو ہم سے یہ شکایت نہ کرے کہ………..مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں ترے شہر کے لوگ۔

    ترے سوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
    لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

    عہدِ حاضر کے جوانوں کو اس شعر سے نصیحت پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ، ایک تو اس شعر میں سوفوں اور قالینوں کا ذکر کیا گیا ہے، اور مقامی طور پر تیار کردہ یہ اشیاء افرنگی و ایرانی سوفوں اور قالینوں کی ٹکر کی ہیں۔ اس شعر میں ”میڈ ان چائنا“ اشیاء، امریکی مصنوعات، جاپانی و جرمن گاڑیوں، سوئس گھڑیوں، فرانسیسی خوشبوعات اور بھارتی پیاز وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔ لہٰذا یہ اشیا بلاتکلف اور علامہ اقبال کے لہو رونے کے خدشے سے بے نیاز ہوکر خریدی جاسکتی ہیں۔

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
    اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

    یہ شعر آپ کو حکم رانوں کی تقاریر، علما کے وعظ و خطبوں اور سرکاری و نجی عمارات کی دیواروں پر آویزاں کلامِ اقبال میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ پس، سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ”حکم“ منسوخ ہو چکا ہے۔ ویسے بھی اس شعر کی پیروی کرنے والا دہقان خود بھوکا مر جائے گا۔ کیوں کہ اسے روزی سے محروم رکھنے والے ”چوہدری صاحب“ کے گودام میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ خوشہ ہائے گندم جل گئے تو وہ اس نقصان کے نام پر حکومت سے سہولتیں اور بینک سے قرضہ لے کر اپنے دھن میں اضافہ کریں گے اور کھیت بیچ کر کارخانہ لگا لیں گے۔ رہی جلی ہوئی گندم تو وہ حکومت کے توسط سے کسی بھی ملک برآمد کردی جائے گی۔ گندم کے جلنے سے اس کی پیداوار کو جو نقصان ہوگا وہ امریکا سے ایف 16 طیاروں کے منسوخ شدہ سودے کے عوض گندم لے کر پورا کر لیا جائے گا۔ سو میاں دہقان! جس کھیت سے تم کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کو اپنا لہو پلاتے رہو۔

    کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
    مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
    یہ شعر نائٹ شفٹ کے اخبار نویسوں، رات گئے تک کام کرنے والوں اور دن چڑھے سو کر اٹھنے والے ہم جیسے ”کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے“ کے مصداق خواتین و حضرات کے لیے نہیں۔ علاوہ ازیں فلیٹوں کے مکین، باوجود کوشش اس شعر کی پیروی سے قاصر رہیں گے۔ زمین، فلک اور فضا کے نام پر وہ فرش، چھت اور کھڑکی کے باہر پھیلا دھواں دیکھ کر صرف ”حجتِ شرعی“ پوری کر پائیں گے۔ رہا ابھرتے سورج کا نظارہ تو اس مقصد کے لیے فرائی انڈے کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس شعر کے ذریعے حضرت علامہ نے مسلمانوں کو تڑکے تڑکے، پو پھٹنے سے پہلے اٹھنے کی تلقین کی ہے۔ اور کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس شعر میں جہاں بینی و سیر بینی کی تاکید کی جارہی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کہہ رہے ہیں،

    ”ارے بے وقوف! اتنے سویرے کیوں اٹھ گیا۔ خوابیدہ نظروں سے گھڑی کیا تک رہا ہے۔ اب اگر اٹھ ہی گیا ہے تو؎ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ…. کہیں کوئی کام کرتا نظر آرہا ہے۔ ابھی تو سورج ابھر ہی رہا ہے اور تجھے اٹھنے کی پڑگئی۔ چَل! منہ ڈھک کے سوجا۔“

    (ادیب، شاعر اور معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی کتاب "کہے بغیر” سے ایک شگفتہ پارہ)