Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • مائیکل انجلو:‌ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا آرٹسٹ

    مائیکل انجلو:‌ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا آرٹسٹ

    مائیکل انجلو کو دنیا اطالوی مصور اور مجسمہ ساز کے طور پر پہچانتی ہے جس کے فن پارے بڑی بڑی آرٹ گیلریوں کی زینت ہیں۔ مائیکل انجلو کے فن اور شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں‌ اور ناقدین نے اس کے فن کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

    پروفیسر احمد عقیل روبی کو ہم بحیثیت قلم کار جہاں متعدد حیثیتوں میں جانتے ہیں، وہیں وہ ایک ایسے سوانح نگار اور مضمون نویس بھی تھے جس نے مشاہیرِ عالم پر کئی معلومات افزا مضامین رقم کیے اور ان کے حالاتِ‌ زندگی ترجمہ کرتے ہوئے نہایت اسے اپنے دل چسپ اور پُرلطف اسلوب میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔ مائیکل اینجلو کو دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مؤرخین نے اس کی تاریخِ وفات 18 فروری 1564ء لکھی ہے۔ آج اس مصور اور مجسمہ ساز کے یومِ‌ وفات کی مناسبت سے احمد عقیل روبی کی یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    پادری دوست نے ایک بار اس سے بڑے افسوس ناک لہجے میں کہا:’’کاش تم نے شادی کی ہوتی، تمہارے بھی دو چار بچے ہوتے۔‘‘

    اس نے پوچھا:’’ تو پھر کیا ہوتا؟‘‘

    ’’کم از کم آنے والی نسلوں تک تمہارا نام تو پہنچتا۔ تمہاری نسل تو پھلتی پھولتی۔‘‘

    ’’یہ دونوں چیزیں میرے فن میں موجود ہیں جو ہر پل مجھے سرگرمِ عمل رکھتی ہیں۔ میں جو فن چھوڑ کر جاؤں گا، یہی میرے بچّے ہیں۔ اگرچہ یہ فن اس قابل نہیں لیکن میں اسی حوالے سے آنے والی نسلوں میں زندہ رہوں گا۔‘‘

    اس نے اپنے فن کے بارے میں کم اندازہ لگایا۔ وہ اپنے اس عظیم فنی ورثے کے حوالے سے آج بھی زندہ ہے اور جب تک فنی باریکیوں کو سمجھنے والے زندہ ہیں وہ زندہ رہے گا۔ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا یہ شخص مائیکل اینجلو ہے جو 1475ء میں کیپرس (Caprese) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ اس قصبے کا مشیر تھا جسے پوڈیسٹا کہا جاتا تھا۔ مائیکل ابھی سات سال کا ہی تھا کہ اس کی ماں فوت ہوگئی۔ مائیکل اینجلو کو ایک سنگ تراش اور اس کی بیوی کے ساتھ رہنا پڑا جہاں اس کے باپ کی پتھر کی فیکٹری تھی۔ اس کے والد نے 13 سال کی عمر میں اسے پڑھنے کے لئے فلورنس بھیجا مگر اسے پڑھائی لکھائی سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس نے تحریر کے مقابلے میں ڈرائنگ، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کو اہمیت دی اور مصوری سے اسے بہتر تصور کیا۔

    مائیکل اینجلو کی نظر میں فطرت نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ بڑے بڑے اعلیٰ شاہکار پتھروں میں قید کر دیے ہیں، اس کے نزدیک مجسمہ ساز کا یہ کام ہے کہ وہ انہیں تراش کے پتھروں کی قید سے رہائی دلائے۔ اس کا خیال تھا کہ ہر پتھر میں ایک مجسمہ ہے۔ مجسمہ ساز غیر ضروری پتھر الگ کر کے نقش و نگار نمایاں کرتا ہے۔

    سقراط نے برسوں پہلے یہی بات کہی تھی کہ پتھر میں ایک شکل موجود ہوتی ہے۔ مجسمہ ساز اسے پتھر سے باہر نکالتا ہے۔ مائیکل اینجلو نے اسی بات کی تائید کی ہے۔ اردو کا ایک نامعلوم شاعر اس بات کو اپنے شعر میں کچھ یوں لکھتا ہے:

    جب کسی سنگ سے ٹھوکر کھائی
    نا تراشیدہ ضنم یاد آئے

    ( احمد عقیل روبی کی کتاب ’’علم و دانش کے معمار‘‘ سے اقتباس)

  • خواجہ احمد عباس:‌ لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک!

    خواجہ احمد عباس:‌ لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک!

    ہندوستانی افسانہ نگار، ادیب، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کو اردو ادب اور فلم کی دنیا میں‌ بے مثال شہرت اور نام و کام یابی ملی جن کی شخصیت، فن و کمال کا تذکرہ اپنے وقت کے بڑے بڑے اہلِ‌ قلم نے کیا ہے۔

    یہ خواجہ احمد عباس کے شخصی خاکے سے چند پارے ہیں جس کے مصنّف خود ہندوستان میں‌ ادبی اور فلمی دنیا کی معروف شخصیت رہے ہیں۔ یہ راجندر سنگھ بیدی ہیں جنھوں نے اپنے ممدوح کو ان الفاظ میں یاد کیا ہے:

    زندگی میں کم ہی آدمی آپ نے ایسے دیکھے ہوں گے جن کی شکل پیدایش سے لے کر آخر دم تک ایک ہی سی رہی ہو جس کی وجہ سے وہ بہت سے جرائم نہیں کر سکتے۔

    میں نے عباس صاحب کو ان کے بچپن میں تو نہیں دیکھا لیکن اپنے فزیالوجی کے محدود علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بھی عباس صاحب اپنے اس لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک ہوں گے۔ اور کچھ نہیں تو پچھلے پچیس برس سے تو میں ان کا منہ دیکھ رہا ہوں۔ جہاں ذہنی طور پر ان کا قد بڑھا ہے، جسمانی طور پر آپ وہی کے وہی ہیں۔ چہرے پر جس فہم و فراست کے نشان پہلے تھے، وہی اب بھی ہیں۔ ویسے ہی نگاہ اچٹ کر سامنے والے پہ پڑتی ہے۔ وہی مونچھوں کی ہلکی سی تحریر جس کے نیچے پتلے سے ہونٹ جو خفگی یا کھسیانے لمحوں میں کچھ اس طرح سے ہلتے ہیں کہ انہیں پھڑپھڑانا کہا جا سکتا ہے اور نہ بھینچنا۔ ان کی ہنسی بے ساختہ ہے مگر ریشمی، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ ایکا ایکی رک جاتے ہیں۔ معتبر آدمی کو زیادہ ہنسنا نہیں چاہیے! سَر پر کے بال پہلے ڈھائی تھے، اب دو رہ گئے ہیں۔ اس کے باوجود سکھوں کے خلاف نہیں۔ بلکہ کئی دفعہ میں نے انہیں کسی سکھ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پایا ہے۔

    لباس میں سادگی ہے اور استغنا کا فن بھی۔ ان کی عام نشست و برخاست کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ زندگی میں تاکید تکلفات پر نہیں، کچھ اور ضروری باتوں پر ہے، جس میں ادب، صحافت، فلم، سیاست اور دوسری بیسیوں قسم کی سماجی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں اگر انہیں اسرائیل اور متحدہ عرب جمہوریہ کے درمیان چننے کا حق دیا جائے تو وہ یقیناً عرب جمہوریہ کو چنیں گے۔ صدر جمال عبدالناصر کی پیروی کریں گے لیکن شکل ہمیشہ اسرائیل کے بین گورین سے ملے گی۔

    میں نے عباس صاحب کو پہلی بار لاہور میں دیکھا جہاں وہ اپنے صحافی دوست ساٹھے کے ساتھ کوئی فلم بنانے کے سلسلے میں آئے تھے۔ یہ دونوں دوست انڈین پیپلز تھیٹر کی تحریک کا حصہ تھے، جس کے ایک جلسے میں، میں عباس صاحب کو دیکھنے چلا گیا۔ ان دنوں لاہور کے لارنس باغ میں ایک نیا اوپن ایئر تھیٹر قائم ہوا تھا جہاں خوب ہی ہنگامہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کمبھ نہیں تو اردھ کمبھی ضرور ہے۔ چنانچہ عباس صاحب کو دیکھنے کے سلسلے میں مجھے خوب دھکے پڑے۔ خیر، دھکوں کی بات چھوڑیے، وہ تو زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم سب دھکے کھاتے ہیں۔ کبھی مل کر اور کبھی الگ الگ۔ ایک بار پہلے بھی جب لاہور کے بریڈ لا ہال میں مہا کوی ٹیگور کو دیکھنے گیا تھا تو اس سے بھی برا سلوک ہوا۔ بھگدڑ میں سیکڑوں پیروں کے نیچے دَلا گیا۔ جب بھی میں نے یہی سوچا تھا کہ کیا بڑے آدمی کو دیکھنے کے لیے خود چھوٹا ہونا ضروری ہے؟

    اس جلسے میں عباس صاحب ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ باقی کے فضول اور بے کار قسم کے مرد تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور عباس صاحب سب سے ملتے اور سب سے باتیں کرتے پھر رہے تھے، جسے صحافت کی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’اور وہ آزادانہ مہمانوں میں گھومتے اور ان سے ملتے جلتے رہے۔‘‘

    ایسا معلوم ہوتا تھا عباس صاحب کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتے۔ ایسا کریں گے تو ان کا اپنا دل ٹوٹ جائے گا۔ اس عمل میں انہیں کتنا ہی بولنا، کتنا ہی وقت ضائع کرنا پڑا۔ وہ اس بات کو بھول ہی گئے اور آج تک بالعموم بھولے ہوئے ہیں کہ جب تک وہ کسی کا دل نہیں توڑیں گے، بات کیسے بنے گی؟ (دل ’’بدست آور‘‘ کہ حج اکبر است!)

  • خواجہ دل محمد کی نظم اور ڈپٹی نذیر احمد کی چوگوشیہ ٹوپی

    خواجہ دل محمد کی نظم اور ڈپٹی نذیر احمد کی چوگوشیہ ٹوپی

    خواجہ دل محمد ایک شاعر، ریاضی دان، ماہرِ تعلیم اور مصنف تھے جنھوں نے ریاضی کی کتب تصنیف کرنے کے علاوہ شعر و ادب میں اپنی نظموں اور دوہا نگاری کے ساتھ مذہبی کتب کے منظوم تراجم سے پہچان بنائی۔ وہ فروری 1883ء میں پیدا ہوئے اور 1961ء میں بعارضۂ سرطان وفات پائی۔

    مولانا عبدالمجید سالک نے اپنی خودنوشت سوانح "سرگزشت” میں انجمنِ حمایتِ اسلام، لاہور کے ایک جلسے کا دل چسپ واقعہ بعنوان "خواجہ دل محمد اور ڈپٹی نذیر احمد” قلم بند کیا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    اس اجلاس میں ایک بہت دل چسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

    اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔ آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بری چیز نہیں۔ حسان بن ثابت حضرت رسولِ خدا کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے بیکار شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

    اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب درد ناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہٗ کے سامنے بھی نہیں اتری محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہو گا۔

    بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سنی۔”

  • رابعہ بلخی: ترک غلام بکتاش کی محبّت میں گرفتار شہزادی کا تذکرہ

    رابعہ بلخی: ترک غلام بکتاش کی محبّت میں گرفتار شہزادی کا تذکرہ

    رابعہ خضداری جو رابعہ بلخی کے نام سے بھی مشہور ہیں، انھیں پہلی تاجک فارسی گو شاعرہ کہا جاتا ہے۔ رابعہ کی شاعری کا شہرہ ان کی زندگی میں‌ ہی ہونے لگا تھا اور ہم عصر شعرا ان سے متاثر نظر آتے تھے لیکن رابعہ اپنی زندگی کے دردناک انجام کے بعد لوگوں کے لیے جرأت اور بہادری کی مثال بن گئیں۔

    رابعہ خضداری کو تاریخ میں‌ اسلامی دنیا میں‌ علم و فنون کے سنہرے دور کی پہلی خاتون شاعرہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو زین العرب کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ اس کا مطلب ہے ’عربوں کا حُسن۔‘ فارسی ادب میں‌ اوّلین شاعرہ کا امتیاز رکھنے والی رابعہ کا مزار بلخ میں ہے اور افغانستان میں کئی شفا خانے اور اسکول ان سے منسوب ہیں۔

    اس شاعرہ کے ابتدائی حالاتِ‌ زندگی بہت کم معلوم ہوسکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 940 میں اس وقت کے مشہور شہر بلخ میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ اس زمانے میں دولتِ‌ سامانیہ کا خوش حال شہر تھا۔ عرب نژاد رابعہ بلخی ادب اور فنون کے میدان میں تربیت یافتہ اور اعلیٰ‌ تعلیم سے بہرہ مند خاتون تھیں۔ وہ اپنے والد کی لاڈلی تھیں جن کا نام امیر کعب تھا اور وہ خراسان اور دیگر علاقوں‌ کے حاکم رہے۔ امیر کعب کی موت کے بعد حارث تخت نشیں ہوا۔ ایک روز رابعہ کی نظر اپنے بھائی کے ساتھ موجود ایک نوجوان پر پڑی اور وہ اس نوجوان کی خوب صورتی اور انداز سے بہت متاثر ہوئی۔ اس کا نام تاریخ میں بکتاش لکھا ہے جو ایک ترک سپاہی تھا۔ رابعہ نے کسی کنیز کے ہاتھوں بکتاش کو ایک محبت نامہ بھجوایا اور اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ان کی ملاقات ہوئی، مگر وہ بکتاش کی ایک حرکت پر اس سے نالاں ہوگئی۔ اس کے باوجود وہ اسے دل سے نہیں نکال سکی۔ اس کے بھائی کو کسی طرح رابعہ کی محبت کی خبر ہوگئی اور اس نے بکتاش کو قیدی بنا لیا۔ دوسری طرف یہ مشہور ہے کہ رابعہ کو شاہی حمام میں بند کروا دیا اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی کلائیاں کاٹ لے۔ کہتے ہیں کہ رابعہ نے دردناک انجام کی طرف بڑھتے ہوئے شاہی حمام کی دیواروں پر اپنے اشعار اپنے بہتے ہوئے خون سے لکھے۔ رابعہ کی فارسی زبان میں نظمیں بعد میں ہر محفل میں‌ سنی جانے لگیں اور خاص طور پر نوجوان انھیں مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد کرنے لگے۔

    معروف ادیب اور شاعرہ فہمیدہ ریاض لکھتی ہیں، رابعہ خضداری کا نہایت قلیل کلام دستیاب ہے۔ اس کی اہم تاریخی حیثیت ہے جو صرف زبان میں نہیں بلکہ اس خطے کے معاشرے میں فکر کے سفر کی دستاویز ہے۔ ان کی غزلیات پڑھنے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دسویں صدی عیسوی تک فارسی زبان کس حد تک صاف ستھری اور مہذب ہوچکی تھی۔ بلخ و خضدار کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والی یہ فارسی گو، عرب نژاد شہزادی، رابعہ بنت کعب، نمائندہ اعلٰی شعری اور تخلیقی صلاحیتوں کی حامل تھیں۔ مختصر بحروں کے اشعار میں موتی سے پرو دیے ہیں۔ ان اشعار سے ان کی نازک خیالی ، لطافتِ فکر اور زبان و محاورے کے نہایت تخلیقی اور حسین استعمال کی نشان دہی ہوتی ہے۔ فہمیدہ ریاض نے لکھا ہے کہ اس پر جب خیال کیجیے کہ ان پر کیسا ظلم وستم کیا گیا تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق ان کے محبوب ترک غلام بکتاش کو رابعہ کے بھائی حارث نے قتل کردیا تھا اور رابعہ کو ایسی کوٹھری میں قید کردیا تھا جس میں کوئی دروازہ یا کھڑکی نہ تھی۔ اس طریقے سے مجرم کو موت کے گھاٹ اتارنے کو ہی ’’دیوار میں چنوانا‘‘ کہا جاتا تھا جہاں بد نصیب سزا یافتہ انسان بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر بڑی مشکل سے جان دے دیتا تھا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ دسویں صدی عیسوی میں فارسی زبان کا ایک معیاری لہجہ متعین ہو چکا تھا۔ زندگی کے بے شمار روپ اور تجربے فارسی شاعری کا موضوع بن رہے تھے۔ مگر جس وقت رابعہ نے لکھنا شروع کیا تھا تو یہ اسلوب سورج کی طرح اُفق پر تنہا طلوع ہوا تھا۔ یہ دھیما دھیما سا، سرگوشیاں کرتا، گیلی لکڑی کی طرح سلگتا ہوا ایک عجیب چاک گریباں سا لہجہ ہے جس میں سمائے ہوئے سارے الفاظ ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔

    (رابعہ بلخی پر مضامین ماخوذ)

  • جیل میں مر جاؤ تو مکھی اور نکل جاؤ تو…

    جیل میں مر جاؤ تو مکھی اور نکل جاؤ تو…

    الہ آباد کا سینٹرل جیل نینی میں ہے، جہاں جانے کے لیے الہ آباد سے آگے جنی جنکشن پر اترنا ہوتا ہے۔

    ہم لوگ صبح کو وہاں پہنچ کر آٹھ بجے کے قریب سینٹرل جیل میں داخل ہوئے، علی گڑھ جیل کے کپڑے اتار لیے گئے اور کہا گیا کہ یہاں کے کپڑے کچھ دیر میں ملیں گے، اس وقت تک کالے کپڑے پہنو، جن کی کیفیت یہ تھی کہ ان سے زیادہ کثیف غلیظ اور بدبو دار کپڑوں کا تصور انسانی ذہن میں نہیں آسکتا، لیکن قہر درویش بر جانِ درویش وہی کپڑے پہننا پڑے۔ راقم حروف کی نگاہ دور بین نہیں ہے، اس لیے پڑھنے لکھے اوقات کو چھوڑ کر باقی ہر وقت عینک کی ضرورت رہتی ہے۔ چناں چہ علی گڑھ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بعد معائنہ عینک لگائے رہنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن الہ آباد والوں نے اس کو کسی طرح گوارا نہ کیا اور عینک کو داخل دفتر کر کے راقم کی بے دست و پائی کو ایک درجہ اور بڑھا دیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد جیلر صاحب نازل ہوئے اور میرے ساتھ کے تمام اخباروں اور کاغذوں کو اپنے سامنے جلوا کر خاکستر کر دیا اور دفتر میں حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ دفتر میں مجھ کو غضب آلود اور قہر بار نگاہوں سے دیکھ کر ارشاد ہوا کہ اگر یہاں ٹھیک طور سے نہ رہو گے، تو بیمار بنا کر اسپتال بھیجے جاؤ گے اور وہاں مار کر خاک کر دیے جاؤ گے۔ اس خطابِ پُرعتاب کا خاموشی کے سوا اور جواب ہی کیا ہو سکتا تھا۔ جیلر صاحب نے غالباً یہ تقریر محض دھمکانے کی نیت سے کی ہو گی، کیوں کہ بعد میں ان سے مجھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیدیوں کی نسبت جیل خانے میں یہ مشہور مثل بالکل صحیح ہے کہ ”مر جائیں تو مکھی اور نکل جائیں تو شیر!“ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قیدی جیل میں مر جائے، تو وہاں اس واقعے کی اہمیت ایک مکھی کے مر جانے سے زیادہ نہ سمجھی جائے گی، لیکن اگر کوئی قیدی وہاں سے نکل بھاگنے میں کام یاب ہو جائے، تو یہ واقعہ اس قدر اہم شمار کیا جائے گا کہ جتنا ایک شیر کا کٹہرے سے نکل جانا!

    ( ”مشاہدات زنداں“ از مولانا حسرت موہانی سے لیا گیا)

  • جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    لاہور کی شادمان کالونی سنٹرل جیل کو مسمار کر کے بنائی گئی۔ سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں بہت سے سیاسی اور دینی اکابرین شامل تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی بھی ان میں شامل تھے۔ اپنے زمانۂ اسیری میں مولانا کی سبطِ حسن سے جیل میں شناسائی ہوئی اور ان میں استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بن گیا۔

    مولانا مجاہد الحسینی نے نامور ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سید سبطِ حسن سے اپنے اسی تعلق کی یادوں کو قلم بند کیا جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سید سبطِ حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔ وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چارپائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چارپائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی تحریروں مطالعہ کیا تھا، روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے میں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔

    اس پر میں نے کہا:”دنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“…. مصرع سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر میں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران میں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔

    بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟….اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا: یہ کیا؟

    میں نے کہا، میری کمر میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چارپائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور میں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیاتِ قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران میں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا۔

  • جوتے کا ترجمہ…

    جوتے کا ترجمہ…

    لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان ہے۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ایک صاحب نے اس دکان کے شو کیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوب صورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوئے اور اس کے مالک سے پوچھنے لگے، اس جوتے کے کیا دام ہیں؟ دکان دار بولا مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا، یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے۔ وہ صاحب بولے "مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔”

    یہ صاحب ابنِ انشا تھے۔ ایک پر اسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت۔ "جوتے کا ترجمہ” تو محض ان کی "خوش طبعی” کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے۔ اور چینی نظمیں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ صحیفۂ کنفیوشش کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہدِ جدید کے منظومات بھی۔

    شخصیت کی اسی پر اسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا "گرو دیو” کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا اور اس کی کچھ نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے تھے۔ پو کے دوسرے عاشق ابنِ انشا تھے جنہوں نے پو کی پُراسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے "اندھا کنواں” کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ اس کتاب کے دیباچے میں انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پو کی تنقیدیں بھی خاصے کی چیز ہیں اور آیندہ وہ اس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ بھی کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے اس ارادے کی تکمیل نہ ہو سکی۔

    خود ابنِ انشا کی اپنی شاعری میں یہی پُراسراریت اور نرالی فضا ہے۔ ان کی نظمیں اگرچہ عصری آگہی کے اظہار میں اپنے عہد کے کسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں، مگر ان نظموں کی فضا اور ان کا تانا بانا اپنے عہد کے مروجہ اسالیب سے بالکل الگ ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام "چاند نگر” ہے جو ۱۹۵۵ء میں مکتبۂ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔

    ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: "گِرم کی پریوں کی کہانیوں میں ایک ضدی بونا سر ہلا کر کہتا ہے کہ انسانیت کا دھیلا بھر جوہر میرے نزدیک دنیا بھر کی دولت سے زیادہ گراں قدر ہے۔ میری کتنی ہی نظمیں اس دھیلا بھر انسانیت کے متعلق ہیں۔ ان میں بھوک کا جاں گداز درد بھی ہے اور جنگ کا مہیب خوف بھی۔ بھوک اور احتیاج سے رست گاری کی جدوجہد مارکس سے ہزاروں برس پہلے شروع ہوئی تھی اور اب بھی جاری ہے۔”

    واقعہ یہ ہے کہ ابن انشا ایک ترقی پسند شاعر تھے مگر ان کی ترقی پسندی تحریک، منشور اور پارٹی لائن والی ترقی پسندی سے مختلف تھی۔ جنگ اور امن کے موضوع پر اردو میں ترقی پسند شاعروں نے ہنگامی اور صحافتی انداز کی کیا کیا نظمیں نہیں لکھیں لیکن ان میں سے آج ہمارے حافظے میں کون سی نظم محفوظ رہ گئی ہے؟ مگر ابنِ انشا نے اس موضوع کو جو بظاہر وقتی اور ہنگامی ہے اپنے شاعرانہ خلوص اور فن کارانہ ایمان داری کے بدولت جاوداں کر دیا ہے۔ مضافات، امن کا آخری دن، افتاد، شنگھائی، کوریا کی خبریں، کوچے کی لڑائی وغیرہ نظمیں آج بھی شعریت سے بھرپور معلوم ہوتی ہیں۔

    ۱۹۵۵ء میں "چاند نگر” کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ ناصر کاظمی کی "برگ نے” اور راقم الحروف کا "کاغذی پیرہن” بھی اسی سال شائع ہوئے اور اس دور کے کئی نقادوں نے ان تینوں مجموعوں میں کچھ مشترک عناصر کی نشان دہی پر بطور خاص زور دیا۔ میں تو خیر کس شمار قطار میں تھا اور میرا مجموعہ دراصل میری ادھ کچری تخلیقات کا ایک البم تھا، لیکن نئے تنقیدی رویے کی بدولت مجھے بھی اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابنِ انشا)، دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور مزاح نگار ابنِ انشا کے فن و شخصیت پر بحیثیت دوست اور قلم کار یہ مضمون بھارت کے معروف شاعر اور نقّاد خلیل الرحمٰن اعظمی کے مکتوب کی صورت میں موجود ہے، جو ۱۹۷۸ء میں علی گڑھ میں اعظمی صاحب کے قلم سے نکلا تھا)

  • چرواہے اور تسبیح کے دانے

    چرواہے اور تسبیح کے دانے

    اردو ادب کی بے مثال اور لاجواب تحریروں اور حکمت و دانائی، فلسفہ و فکر کے موتیوں سے بھرے ہوئے مضامین میں انشائیہ نگاری کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اردو ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا کو دانش ور اور باکمال انشائیہ نگار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ انہی کا ایک خوب صورت انشائیہ ہے۔

    چرواہے کی چھڑی دراصل ہوا کا ایک جھونکا ہے اور ہوا کے جھونکے کو مٹھی میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اسے تو دیکھنا بھی ممکن نہیں۔

    البتہ جب وہ آپ کے بدن کو مَس کرتے ہوئے گزرتا ہے تو آپ اس کے وجود سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ وجود ہی سے نہیں آپ اس کی صفات سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہر جھونکا ایک پیغام بر ہے۔ وہ ایک جگہ کی خوشبو کو دوسری جگہ پہنچاتا ہے۔ یہی کام چرواہے کا بھی ہے۔ تمام لوگ گیت چرواہوں کے ہونٹوں پر لرزتے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بہت قدیم زمانے میں قبائل نے جو نقل مکانی کی، اس کے بارے میں تاریخی کوائف ناپید ہیں، البتہ جن راستوں سے یہ قبیلے گزرے اور جن خطوں میں چند روز ٹھہرے وہاں انہوں نے اپنے نقوش پا چھوڑ دیے جنہیں آج بھی ’’پڑھا‘‘ جا سکتا ہے۔ یہ نقوشِ پا وہ منورّ الفاظ ہی ہیں جو ان کے ہونٹوں سے ٹپکے اور پھر راستوں اور خطّوں میں بولی جانے والی زبانوں کے دامن پر کہیں نہ کہیں موتیوں کی طرح اٹک کر رہ گئے اور صدیوں تک اپنے بولنے والوں کے سفر کی داستان سناتے رہے… مگر لوک گیتوں کا قصّہ دوسری نوعیت کا ہے۔

    لوک گیت قبیلوں کے نہیں بلکہ چرواہوں کے نقوشِ پا ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ کسی خطّے کا چرواہا کہاں کہاں پہنچا کیونکہ وہ جہاں کہیں گیا اپنے ساتھ گیت کی لَے اور خوشبو اور تمازت بھی لے گیا۔ پھر وہ خود تو وقت کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکا اور مآلِ کار زمین کا رزق بن گیا مگر اس کا گیت ایک لالۂ خود رو کی طرح عہد بہ عہد اس خطّے کی زمین سے برآمد ہوتا اور خوشبو پھیلاتا رہا۔ بس یہی چروا ہے کا وصفِ خاص ہے کہ وہ جگہ جگہ گیتوں کے بیج بکھیرتا پھرتا ہے… بیج جو اس کے نقوشِ پا ہیں، جنہیں وقت کا بڑے سے بڑا سیلاب بھی نابود نہیں کر سکتا۔

    ویسے عجیب بات ہے کہ چرواہے کے مسلک کو آج تک پوری طرح سمجھا ہی نہیں گیا، مثلاً اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گلّے کا رکھوالا بھی ہے اور پولیس مین بھی! یعنی وہ اپنی چھڑی کی مدد سے ہر اُس زمینی یا آسمانی بلا پر ٹوٹ پڑتا ہے جو اس کے گلّے کو نظر بد سے دیکھتی ہے اور اسی چھڑی سے وہ گلّے سے بھٹکی ہوئی ہر بھیڑ کو راہِ راست پر لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ مگر کیا چرواہے کا مقصدِ حیات صرف یہی ہے؟…غالباً نہیں! وجہ یہ کہ جب چرواہا گلّے کو لے کر روانہ ہوتا ہے تو اُسے مجبوراً اِسے سیدھی لکیر پر چلانا پڑتا ہے تا کہ ریوڑ بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔ واپسی پر بھی اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی تمام بھیڑوں کو سمیٹ کر یک مُشت کر دے تا کہ وہ بغیر کسی حادثے کے اپنے گھر پہنچ جائیں۔ مگر یہ تو سفر کے بالکل عارضی سے مراحل ہیں۔ اصل اور دیرپا مرحلہ وہ ہے جب چرواہا اپنے گلّے کو کسی سر سبز و شاداب میدان، جھاڑیوں سے اٹے ہوئے صحرایا کسی پہاڑ کی ڈھلان پر لا کر آزاد کر دیتا ہے۔ جس طرح تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو منکے فرشِ خاک پر گرتے ہی لڑھکنے اور بکھرنے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح جب گڈریا اپنے ریوڑ کو آزاد کر تا ہے تو وہ دانہ دانہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔ معاً ہر بھیڑ کی ایک اپنی منفرد شخصیت وجود میں آ جاتی ہے۔ گلّے کے شکنجے سے آزاد ہوتے ہی ہر بھیڑ محسوس کرتی ہے کہ بے کنار آسمان اور لامحدود زمین کے عین درمیان وہ اب یکہ و تنہا کھڑی مرکزِ دو عالم بن گئی ہے۔ مگر بات محض بھیڑوں ہی کی نہیں۔

    خود چرواہے کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بدن کے حصار سے باہر آکر چاروں طرف بکھرنے لگا ہے، جیسے اس کے ہاتھ یکایک اتنے لمبے ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے جنبش کیے بغیر ہی درخت کی پھُننگ، پہاڑ کی چوٹی اور ابر پارے کی جھالر کو چھو سکتا ہے بلکہ پتھّروں، پودوں اور پرندوں حتیٰ کہ رنگوں اور روشنیوں سے بھی ہم کلام ہو سکتا ہے۔ کسان بے چارے کو تو زمین نے جکڑ رکھا ہے اور بنیے کو زر نے، مگر چرواہا ایک مردِ آزاد ہے، وہ اپنے گلّے کا بھی مطیع نہیں۔ وہ میدان یا پہاڑ کی ڈھلوان پر پہنچتے ہی اپنی مٹھی کھول دیتا ہے اور سارا گلاّ اس کی انگلیوں کی جھریوں سے دانہ دانہ ہو کر ہر طرف بکھر جاتا ہے، اس کے بعد وہ خود بھی بکھرنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خاک و افلاک پر ایک ردا سی بن کر چھا جاتا ہے، مگر چرواہا آخر چرواہا ہے، اس کا کام محض بکھرنا ہی نہیں سمٹنا بھی ہے۔

    چنانچہ شام ہوتے ہی وہ پہلے اپنی چھڑی کو جسم عطا کرتا ہے، پھر خود کو تنکا تنکا جمع کرتا ہے۔ مجتمع ہونے، بکھرنے اور دوبارہ جڑ جانے کا یہ عمل جس سے چرواہا ہر روز گزرتا ہے، پوری کائنات کے طرزِ عمل سے مشابہ ہے، مگر یہ دوسرا قِصّہ ہے۔ چرواہے کئی طرح کے ہیں۔ ایسے چرواہے بھی ہیں جو محض مزدوری کرتے ہیں۔ سارا دن مویشیوں کو ہانکنے کے بعد رات کو تھکے ہارے واپس آتے ہیں اور کھاٹ پر گرتے ہی بے سُدھ ہو جاتے ہیں۔ ایسے چرواہوں کو چرواہا کہنا بھی زیادتی ہے۔ پھر ایسے چرواہے بھی ہیں جو چناب کنار بھینسوں یا گائیوں کو چراتے پھرتے ہیں مگر یہ لوگ بھی چرواہے کم اور پریمی زیادہ ہیں۔ گائیوں بھینسوں سے ان کا سارا لگاؤ محض ایک بہانہ ہے۔ وہ دراصل ان کی وساطت سے زیادہ نازک اور خوبصورت گائیوں بھینسوں تک رسائی پانے کے آرزو مند ہوتے ہیں، چنانچہ جب عشق کے انتہائی مراحل میں ان کے گرد جو اپنوں یا خوشیوں کا حلقہ تنگ ہو جاتا ہے تو انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ ان کی اصل گائیں بھینسیں نجانے کب سے ان کی راہ تک رہی ہیں… میں اس قسم کے چرواہوں کا ذکر کر کے آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، میں تو صرف ان چرواہوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مویشیوں کے ریوڑ چراتے چراتے ایک روز انسانوں کے ریوڑ چرانے لگتے ہیں۔ تب ان کی چھڑی عصا میں بدل جاتی ہے۔ ہونٹوں پر اسمِ اعظم تھرکنے لگتا ہے۔ وہ انسانی ریوڑوں کو پہاڑ کی چوٹی پر لا کر یا صحرا کے سینے میں اتار کر یا دریا کے کناروں پر بکھیر کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ریوڑ اپنی کہنگی اور یبوست کو گندی اُون کی طرح اپنے جسموں سے اتار پھینکیں۔ پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایسا ہو گیا ہے تو وہ انہیں واپس ان کے گھروں تک لے آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خود تسبیح کے دانوں کی طرح پوری کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔

    یہ جو بساطِ فلک پر ہر رات کروڑوں ستارے سے چمکتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب اُسی تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانے ہیں؟

    (ممتاز ادیب، نقّاد، شاعر اور مشہور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے’’ چرواہے‘‘ سے اقتباس)

  • امین نواز کا تذکرہ جنھوں نے مینا ناز کے قلمی نام سے شہرت پائی

    امین نواز کا تذکرہ جنھوں نے مینا ناز کے قلمی نام سے شہرت پائی

    اردو دنیا میں جن ناول نگاروں نے قلمی نام اپنا کر اپنی کہانیوں کو شایع کروایا اور مقبول ہوئے، ان میں مینا ناز بھی شامل ہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ مینا ناز ہی نہیں کئی پاپولر ادب یا ڈائجسٹ کے لیے لکھنے والوں نے خود کو بطور خاتون رائٹر متعارف کروایا اور کئی دہائیوں پہلے نہ صرف شہرت اور مقبولیت حاصل کی بلکہ اپنی اصل شناخت چھپانے میں بھی کام یاب رہے۔ قارئین کی اکثریت لاعلم ہی رہی کہ ان کا پسندیدہ ناول نگار مرد ہے۔

    ڈاکٹر عبدالخلیل کشش کا ایک مضمون "ناول نگاری کے ارتقاء میں خواتین کا حصہ” کے عنوان سے بھارت میں دکن کے ایک روزنامہ میں شائع ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں، اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد، ناول نگاروں نے پروان چڑھایا ہے، وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی آب یاری کی ہے۔ گو کہ خواتین نے ناول نگاری کے میدان میں مردوں کے بہت بعد میں قدم رکھا ہے، پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کے تعاون کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس تحریر میں آگے انھوں نے چند خواتین ناول نگاروں کے نام لکھے ہیں، لیکن یہ فی الحقیقت خواتین نہیں تھیں۔ ان میں چند نام اُن مرد ناول نگاروں کے ہوسکتے ہیں جنھوں‌ نے اپنی شناخت چھپائی اور لیڈیز کمپارٹمنٹ میں سوار ہوکر اپنی منزل پر پہنچنے میں کام یاب ہوئے۔

    پچھلی صدی میں‌ تقسیمِ ہند کے بعد چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو یہاں ایک طرف تو ادبِ عالیہ میں تانیثیت کو ایک اہم ادبی نظریے کے طور پر دیکھا جارہا تھا جس کے سروکار میں مختلف معاشروں میں، ہر سطح پر خواتین کا تشخص اور گوناگوں مسائل تھے اور دوسری طرف پاپولر ادب لکھنے والوں نے عورتوں کو اپنے ناولوں کے بھنور میں ایسا پھنسایا کہ وہ انہی کو اپنے درد کا درماں سمجھ بیٹھیں۔

    ساٹھ کی دہائی میں جب خواتین رائٹرز کا بہت شہرہ ہو رہا تھا اور ان کے ناول بڑے شوق و انہماک سے پڑھے جاتے تھے، تو مینا ناز اور دیبا خانم نے بھی بڑا نام پایا۔ ان کے ناول ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ لیکن عام قارئین کی اکثریت اس بات سے لاعلم تھی کہ یہ دراصل مرد ناول نگار ہیں جنھوں نے بوجوہ اپنی شناخت چھپائی ہے۔ دیبا خانم تو تھے محی الدّین نواب جن کو کہانیوں کا دیوتا کہا جاسکتا ہے اور وہ ڈائجسٹ کی دنیا کے واقعی نواب تھے۔ مگر ہمارے ممدوح یہاں امین نواز ہیں جن کا شان دار قلمی سفر اور ذاتی زندگی کے دکھ اور المیے بھی آپ کی توجہ حاصل کر لیں گے۔ مینا ناز کے نام سے رومانوی، سماجی اور جذباتی ناول لکھنے والے امین نواز آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔

    پیشے کے اعتبار سے امین نواز درزی تھے۔ تعلیم ان کی واجبی تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں امین نواز نے بتایا تھا کہ وہ کم عمری میں نسیم حجازی کے ناول پڑھتے تھے اور انہی سے لکھنا سیکھا اور ناول نگاری کا شوق بھی ہوا۔ سلائی کا کام سیکھنے کے بعد وہ ایک دکان پر کام کرنے لگے۔ زنانہ کپڑے سیتے تھے اور شاید اسی پیشے نے ان کو خواتین کی فطرت، بعض عادات اور ان کے مختلف مسائل کو جاننے کا موقع فراہم کیا۔ خواتین کے جذبۂ حسد، رقابت، ان میں طوفانی محبت اور بے وفائی کو دیکھنے۔ 1963ء میں امین نواز کو اپنی شادی کے بعد ادبی مجلّوں اور رسائل کے مطالعہ کا موقع ملا۔ انھوں نے اس وقت رضیہ بٹ، بانو قدسیہ، دیبا خانم وغیرہم کی تحریریں بھی پڑھیں اور بڑے فکشن نگاروں اور ادیبوں کے ناول بھی۔ امین نواز نے پاپولر ادب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ 1963ء میں ان کا پہلا ناول ’’پربت‘‘ کا مسوّدہ تیار تھا اور اس کا موضوع پاکستانی عورت تھی۔ ناول کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو پبلشر نے مشورہ دیا کہ ان کو خاتون مصنّف کے طور پر یہ ناول شایع کروانا چاہیے۔ کیوں کہ پاکستانی عورتیں اس وقت جن مصنّفین کی کہانیوں کی گرفت میں ہیں، وہ سب خواتین ہیں اور ان کے درمیان شاید ایک مرد ناول نگار کو قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔

    ناول نگار امین نواز کو بچپن سے لوگ پیار سے ’’مینا‘‘ پکارتے تھے۔ انھوں نے یہی نام اپنا لیا اور پبلشر نے انھیں ’’مینا ناز‘‘ کے طور پر متعارف کروایا۔ لاہور کے اس رائٹر کا ناول پربت قلمی نام سے شائع ہوا تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ اس کے اگلے سال ہی میناز ناز کا ناول ’’طرزِ آشنائی‘‘ اور دیگر چار ناول شائع ہوئے۔ اب امین نواز نے درزی کا کام ترک کر کے لکھنے کو مستقل پیشہ بنا لیا۔ وہ دن رات کہانیاں تخلیق کرتے اور کرداروں میں گم رہتے۔ 1965ء میں مینا ناز کو کراچی سے پبلشرز نے پیشکش کی تو وہ ان کے ساتھ جڑ گئے مگر کئی ناول تحریر کرنے کے بعد لاہور لوٹ گئے۔ وہاں ذوالقرنین چیمبرز گنپت روڈ پر اپنا آفس بنایا اور بک پیلس کے نام سے اپنا ادارہ قائم کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ پبلشرز انھیں کم معاوضہ دے رہے ہیں اور خوب منافع کمانے کے باوجود ان کا حق نہیں دینا چاہتے۔ ادارہ قائم کرکے انھوں نے ہر ماہ دو نئے ناول شائع کرنا شروع کیے۔ آٹھ سو سے زائد ناول اسی ادارے سے شائع ہوئے اور مینا ناز عورتوں کی کہانیوں کو اردگرد بکھرے ہوئے کرداروں کے ساتھ پیش کرتے رہے۔ کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان ناولوں کا لکھنے والا ایک مرد ہے۔ مینا ناز نے اپنی شخصیت کو کبھی بے نقاب نہیں کیا۔ وہ کاروبار اور منافع کو اہمیت دیتے رہے۔ 80ء کی دہائی تک ان کا کاروبار خوب چمکا اور ناول خوب خوب فروخت ہوئے۔ مگر بعد میں حالات بدلتے چلے گئے اور مینا ناز نے 2005ء میں اشاعتی ادارے کو ختم کر دیا۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کی ناگہانی موت کے بعد نہایت شکستہ تھے۔ کچھ عرصہ تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے لیکن یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکا۔

    امین نواز المعروف مینا ناز کے مقبول ناولوں میں سپنے میرے اپنے، پیاس، دو سکھیاں، روگی، طلاق، ہرے کانچ کی چوڑیاں، یہ گلیاں یہ چوبارے، درد آئے گا دبے پاؤں، بازار اور کئی کہانیاں شامل ہیں۔

  • جب مولانا عبد السلام نیازی نے دہریے اور ایک حاجی کی خبر لی!

    جب مولانا عبد السلام نیازی نے دہریے اور ایک حاجی کی خبر لی!

    مولانا عبد السلام نیازی اپنے وقت کے ایک بڑے مفکر و عالم، محقق، اور بزرگ شخصیت گزرے ہیں۔ مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی، خواجہ حَسن نظامی، بابا غوث محمد یوسف شاہ تاجی اور جوش ملیح آبادی جیسی علمی، مذہبی و ادبی شخصیات نے ان سے استفادہ کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، جواہر لعل نہرو، میر عثمان آف حیدر آباد دکن اور سر مسعود جیسے اکابر شرف یابی کے متمنی رہتے مگر کسی کو درخورِ اعتنا نہ گردانتے۔

    دنیا جہاں کے علوم گھوٹ پی رکھے تھے۔ متروک، غیر متروک زبانوں کے عالمِ بے بدل، حکمت، دین، تصوف، فقہ، ریاضی، ہیئت، تقویم، تنویم، موسیقی، راگ داری، نجوم، علم الانسان، علم الاجسام، علم البیان، معقول و منقول، علم الانساب، عروض و معروض ایسا کون سا علم تھا جہاں وہ حرفِ آخر نہ تھے۔

    جوش صاحب تو مولانا نیازی کے منظور نظر رہے ہیں۔ جوش صاحب خود بھی مولانا کے بہت نیازمند ہوا کرتے تھے۔ مگر جب وہ الحاد کی باتیں کرنے لگتے تو مولانا کا ناریل چٹخ جاتا، کہتے کہ ’’جوش تمہارا دماغ شیطان کی کھڈی ہے۔‘‘

    ایک مرتبہ ایک صاحب نے باقاعدہ اپنی دہریت کا اعلان کر دیا۔ اب مولانا نیازی کا ناریل بڑے زور سے چٹخا۔ بولے ’’دہریہ آدمی یوں نہیں بن جاتا۔ اس کو بہت عالم فاضل ہونا چاہیے، تم کو نہ فلسفہ سے مس ہے، نہ منطق سے آشنا ہو۔ جاہلِ مطلق ہو، تم کیسے دہریے بن جاؤ گے۔ یہاں سے سدھاریے۔

    لوگوں کو معلوم تھا کہ مولانا کا ناریل جب چٹختا ہے تو دو تین بار سدھاریے کہتے ہیں اور پھر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ تو قبل اس کے کہ یہ مرحلہ آئے وہ صاحب سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    خواجہ حسن نظامی نے ایک مرتبہ ان سے فرمائش کی کہ تصوف پر کتاب لکھیے۔ انھوں نے یہ پیش کش قبول کی اور دل لگا کر تصوف پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ خواجہ صاحب کو کتاب بہت پسند آئی مگر چھپنے کے سلسلہ میں شرط یہ پیش کی کہ کتاب میرے نام سے چھپے گی۔ بس مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ انھوں نے مسوّدہ لے کر چاک کیا اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ پھر بولے، خواجہ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اب تم ہمیں چائے پلواؤ۔

    خلیق انجم اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ ایک صاحب حج سے واپس آنے کے بعد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا کو بتانے والوں نے بتایا تھا کہ ان صاحب کی دو کنواری بیٹیاں گھر بیٹھی ہیں۔ یہ قرض لے کر حج پر گئے اور حج کے بعد بھی وہاں خاص وقت گزارا۔ اب واپس آئے ہیں۔ مولانا اس پر ناخوش تھے کہ گھر میں دو جوان بیٹیاں شادی کی منتظر ہوں اور باپ اس فرض کو فراموش کر کے قرض لے کر حج پر چلا جائے۔ یہ غیر شرعی عمل ہے۔

    مولانا نے ان صاحب سے کہا کہ آپ قرض لے کر حج پر گئے جب کہ آپ کی دو بیٹیاں شادی کی منتظر بیٹھی ہیں اور پھر حج کے بعد بھی وہاں اپنے قیام کو اتنا طول دیا۔

    ان صاحب نے جواب دیا، حضرت جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ روشنی سے کنارہ کر کے اندھیرے کی طرف کیسے جائے۔

    بس پھر کیا تھا۔ مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ ’’بولے، سالے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں۔ تو قرض لے کر اس روشنی میں گیا تھا۔ چل نکل یہاں سے۔ بس وہ صاحب فوراً ہی رفو چکر ہو گئے۔

    (معروف ادیب، ناول نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی ایک تحریر سے اقتباسات)