Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • شیراز: حافظ و سعدی کا وہ شہر جس پر لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں

    شیراز: حافظ و سعدی کا وہ شہر جس پر لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں

    ترقی یافتہ قوموں کے بڑے بڑے ادیبوں اور فلاسفروں کے سفرنامے اور سوانح عمریاں ہی ایسی بیش بہا چیزیں سمجھی جاتی ہیں کہ جن کی روشنی گذشتہ اور آئندہ منزلوں پر پر چومک کا کام دیتی ہے اور جو آنے والی نسلوں کے سدھارنے کے لیے بہت کچھ مدد دیتی ہے۔

    اپنے بزرگوں کے وطن کی سیر کا کانٹا جس ذوق و شوق سے مولانا کے پہلو میں کھٹکتا تھا اکثر تحریروں میں لہو ہو ہو کر ٹپکا ہے مگر وقت کی مجبوری اور واقعات کی مصلحت ہندوستان کا دامن نہ چھوڑنے دیتی تھی۔ اگرچہ علمی و ادبی تحقیقات کے غنچے چٹکیاں لیے جاتے تھے۔ آخر وہ مبارک گھڑی آہی گئی اور مولانا نے بصد اشتیاق و آرزو ایران کے سفر کے لیے کمر کَسی۔ علمِِ تاریخ کے متوالے جانتے ہیں کہ جس طرح آج ہر ایک علم و فن ایجاد و اختراع کا منبع ولایتِ انگلینڈ ہے، اِسی طرح ایک زمانہ میں ایران سمجھا جاتا تھا۔ خاص کر ہمارے مشرقی علوم تو اِسی رستے بہہ کر ہم تک پہونچے تھے۔ ایسی حالت میں ہر علم دوست طبیعت کی یہی آرزو ہوتی تھی کہ ایک دفعہ ضرور ان آنکھوں کو ولایتِ ایران کی زیارت سے روشن کرے۔ سیاحتِ ایران کے بعد مولانا نے ہندوستان واپس آ کر سخندانِ فارس کو ترتیب دیا۔

    ہمارے بعد کے اردو بولنے والے کیا جانیں گے کہ آزاد نے کس طرح کا سفر کیا تھا اور اس میں ہمارے لیے کیا کچھ کیا تھا۔ میں نے ہر چند تلاش کیا مگر ان کے سفر کا کوئی روزنامچہ یا سفر نامہ ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہ ملا۔ فقط ایک پھٹا پرانا رفیق ہند اخبار کا پرچہ ہاتھ آیا ہے جس میں ایک لیکچر سفر ایران کے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ چند چھوٹے چھوٹے کاغذوں کا ایک گٹھا سا ملا جس میں نوٹ لکھے ہیں جن کا پڑھنا دشوار اور ترتیب دینا ناممکن تھا پھر بھی جس قدر ممکن ہوسکا موزوں کر کے روزنامچہ کے نام سے چھپوا دیا ہے۔

    اس طول و طویل سفر سے مولانا جولائی ١٨٨٦ء میں واپس تشریف لائے تھے۔

    یہ سطور طاہرؔ نبیرہ آزاد نے اس کتابچہ کے ابتدائیہ کے لیے لکھی تھیں جو انشا پرداز، ادیب شاعر اور صحافی مولانا محمد حسین آزاد کے ایران کی سیر کا کچھ کچھ احوال سناتا ہے۔ آگے سیرِ ایران کے دوران شیراز جیسے نامی گرامی اور مشہور شہر میں آزاد کے قیام اور ملاقاتوں کا حال آزاد کے قلم سے کچھ یوں ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔ اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیونکہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔ اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔ اُن میں نوجوان لڑکے صرف، نحو، بلاغت، فقہ، اصول کی کتابیں سامنے رکھے بے مدد کتاب کے مسائلِ کتابی پر بحث کرتے ہیں۔ علما کتب علمیہ کی تدریس سے پرانی ہڈیوں پر آبِ حیات چھڑکتے ہیں۔ یہ بات جاننے کے قابل ہے کہ وہاں ہندوستان کی طرح طلباء فقرہ بہ فقرہ نہیں پڑھتے۔ استاد کتاب سامنے رکھے بیٹھا ہے، طلبا اپنی کتاب کھولے خاموش بیٹھے ہیں۔ استاد کتاب کو دیکھتا ہے اور اُس کے مطالب کو نہایت توضیح اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتا جاتا ہے۔ طلبا سنتے جاتے ہیں۔ ‍‍جتنی جس کے دامن میں وسعت ہو پھل پھول بھر لے۔

    غرض شہر شیراز کا اب یہ حال ہے کہ وہ عالی شان اور سیدھا بازار اور بلند اور فراخ مسجد جو کریم خان ژند نے سو برس پہلے بنائی ہے۔ اگر وہاں سے اٹھا لیں تو اصل شیراز ایک معمولی قصبہ رہ جاتا ہے۔ چند سال ہوئے مشیر الملک نے بھی رفیع الشان مسجد اور کارواں سرائے سے پرانے شہر کو نیا کیا ہے۔

    نواب مرزا علی خان صدر ایک امیر خاندانی کی زندگانی شیراز کے لیے سرمایۂ آبا دانی ہے اور اُن کی مہمان نوازی اُس پاک مٹی کے لیے قدیمی قبالہ ہے۔ مجھے بھی دو دن مہمان رکھا۔ باوجود دستگاہِ امارت اور پیرانہ سالی کے، جب دیکھو گرد کتابیں چُنی ہیں۔ ایک دو مُلّا پاس بیٹھے ہیں۔ بیچ میں آپ مطالعہ میں مصروف ہیں۔ تصحیح کرتے ہیں۔ حواشی لکھتے ہیں۔ ایک خوشنویس کاتب ناقص کتابوں کی تکمیل کررہا ہے۔ مُصور نقَّاشی کررہا ہے۔ کھانے کا وقت ہوا، وہیں پہلو میں دسترخوان بچھا۔ اٹھے پہلے سجدہ شکرانہ بجا لائے۔ ایک روٹی کو اٹھا کر آنکوں سے لگایا۔ پھر سب کے ساتھ کھانا کھایا۔ یہ بھی گویا ایک فرض تھا کہ ادا کیا۔ پھر کتابوں کے حلقے میں جا بیٹھے۔

    اِن کے والد مرحوم کی تصنیفات سے بڑی بڑی ضخیم کتابیں ہیں۔ بعض ان میں سے میں نے بازار سے خریدیں۔ ان میں سے اِس رسالہ کا پیش کرنا واجب ہے جو کہ انہوں نے حرکتِ زمین کے اثبات میں لکھا تھا۔ نواب ممدوح نے خود اس کی نقل مجھے عنایت فرمائی ہے۔ آج سے چالیس برس پہلے ایشیائی تعلیم میں ایسے خیالات کا پیدا کرنا خاکِ پارس کی پاکیزگی کی دلیل ہے۔

    اسی سلسلے میں حکیمِ حاذق حاجی مرزا حسن کا ذکر بھی واجب ہے۔ انہوں نے ایک مفصل تاریخ شیراز کی لکھ کر پارس نامہ نام رکھا ہے اور ان کا علو خاندان مجھے کتابوں سے حد ثبوت کو پہنچا معلوم ہوا۔ ساتویں پشت میں خواجہ شاہ منصور اور چوتھی پشت میں سید علی خان بلاغت کی اولاد ہیں۔ سید علی خان کی تصنیفات شہرۂ آفاق ہیں۔ ان کی تفصیل اپنے سفرنامے کے لیے امانت رکھتا ہوں۔

    حکیم صاحب خبر سن کر نواب صدر کے ہاں آئے۔ باوجودیکہ میری روانگی میں ایک شب باقی تھی۔ شام ہو گئی تھی۔ بوندیں پڑ رہی تھیں۔ بااصرار اجازت لے کر اپنے گھر لے گئے۔ رات بھر اپنی کتاب سناتے رہے۔ مطالب پر مشورہ کرتے رہے۔ میری کتاب یاداشت نے بھی اُس کے اکثر مطالب سے سرمایہ حاصل کیا۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشراف سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔ اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی ترک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاع جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے ۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوشبو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔ ع

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیال شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسم کوہ برف لیے سر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔ شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا۔ مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد موجود تھیں۔ جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلٰی اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبز اور آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہل علم ہوتا اس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحب اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔ جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو۔ تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے۔ دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہانِ سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزر ی گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے۔ انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاقِ رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکر الہیٰ بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقاتوں کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرض مذہبی ہے۔

    غرض بارہ دن کے بعد اصفہان میں جا اترا۔

  • کم سے کم کرایہ!

    کم سے کم کرایہ!

    اس دنیا میں ہم اپنے بعض مشاہدات اور اچھے یا برے تجربات سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتے ہیں اور سبق حاصل کرتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں ہونے والے تجربات کا نچوڑ یا کوئی سبق آموز واقعہ بالخصوص نئی نسل کو سنانا چاہتے ہیں جس کا مقصد ان کی راہ نمائی کرنا اور انھیں جینے کا ہنر سکھانا ہو۔

    ہمارے ساتھ اکثر چھوٹے بڑے واقعات پیش آتے ہیں، لیکن ان میں‌ سے کچھ ہمارے ذہن پر نقش ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ دوسروں‌ کے لیے بظاہر غیر اہم اور معمولی بات ہوسکتی ہے، لیکن جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو شاید وہ اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اس سے بے حد متاثر ہوا ہو اور کسی وجہ سے وہ اس بات یا واقعہ کو فراموش نہ کرسکے۔ یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی یادوں میں محفوظ ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جسے معروف ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد نے ہم تک پہنچایا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    میں (اشفاق احمد) نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا (جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے؟

    اس نے کہا جناب، مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا۔ میں نے کہا کتنا؟

    کہنے لگا، آٹھ آنے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟

    کہنے لگا، جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی، اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹری پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی۔

  • اوّلین محبت کی تلاش…

    اوّلین محبت کی تلاش…

    اے حمید اپنی یادوں میں لکھتے ہیں، ”امرتسر میرا وطن ہے، میں وہاں پیدا ہوا تھا۔ لیکن میں جب بھی بھاگ کر کسی دوسرے ملک کے، شہروں میں جہاں جہاں بھی آوارہ گردی کرتا رہا لاہور کی یاد میرے دل کے ساتھ لگی رہی، امرتسر کا صرف کمپنی باغ اور وہ لڑکی یاد آتی جس سے مجھے بچپن ہی سے پیار ہو گیا تھا۔

    یہ اردو کے مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کا تذکرہ ہے اور اسے ہم تک سرمد صہبائی نے پہنچایا ہے جو ایک ادیب، ڈرامہ، فلم اور تھیٹر کے ہدایت کار ہیں۔ اے حمید اور کئی دوسرے مشاہیر سے سرمد صہبائی کی دوستی اور رفاقت رہی اور اس تحریر میں انھوں نے اے حمید کی یاد تازہ کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ستمبر کی ایک سہ پہر میرے دفتر کا دروازہ کھلتا ہے….

    حمید صاحب اندر داخل ہوتے ہیں اور کھڑے کھڑے کہتے ہیں۔ ’اٹھ یار سرمد اج میں تینوں اک چیز دکھانی اے، چل اٹھ!‘ (اٹھو یار سرمد، میں آج تمہیں ایک چیز دکھانی ہے)۔ میں ان کے ساتھ چل پڑتا ہوں، ایمپریس روڈ سے کچھ دور سڑک کے دائیں طرف ایک کچی گلی آتی ہے، ہم اس گلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر حمید صاحب ایک جگہ کھڑے ہوگئے ہیں، وہ بڑی محویت سے ایک بوسیدہ پرانے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں حمید صاحب کے قدم خود بخود اس کے سامنے کیوں رک گئے ہیں۔

    ’حمید صاحب؟‘ میں ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوں!

    ’یار سرمد اوہ ساہمنے تینوں باری نظر ارہی اے،‘ (یار سرمد وہ سامنے تمہیں کھڑکی نظر آ رہی ہے؟) وہ مجھے بغیر دیکھے کہتے ہیں جیسے اپنے آپ سے بات کر رہے ہوں۔ میں ایک چھوٹی سی پرانی کھڑکی دیکھتا ہوں جس پر بہت خوبصورت رنگین شیشے جڑے ہوئے ہیں۔ ’یار ایہہ باریاں پتہ نییں ہن کتھے چلی گیاں نیں۔ ‘ (یار یہ کھڑکیاں نہ جانے اب کہاں چلی گئی ہیں) وہ یک دم بہت اداس سے ہو گئے ہیں۔ پتہ نہیں اس کھڑکی کے پار کون رہتا ہے۔ مجھے منیر نیازی کی نظم یاد آتی ہے، لگتا ہے حمید صاحب نے یہ کھڑکی منیر نیازی کو بھی دکھائی ہوگی اور منیر صاحب نے شاید اسی کھڑکی کو دیکھ کر اے حمید سے کہا ہو گا۔

    اک اوجھل بے کلی رہنے دو
    اک رنگیں ان بنی دنیا پر
    اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو

    یہ اوجھل بے کلی اور رنگین ان بنی دنیا کا نظارہ ہے۔ حمید صاحب اس کھڑکی کو دیکھتے چلے جا رہے ہیں جیسے جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہے ہوں، شاید اس کھڑکی کے پیچھے وہی لڑکی کھڑی ہے جو ان کو انارکلی کے جھروکے سے جھانکتی تھی۔ شاید وہ اپنی اوّلین محبت کو تلاش کر رہے ہوں۔ اوّلین محبت کی سرشاری، جیسے دنیا ابھی ابھی پیدا ہوئی ہو، جیسے روز آفرینش حوا اور آدم نے پہلی بار ایک دوسرے کی طرف دیکھا ہو۔

  • جوانی کی لُٹیا

    جوانی کی لُٹیا

    اللہ بخشے حفیظ جالندھری صاحب کے کلام کو قومی ترانے کی صورت ڈیوٹی کے طور پر ہم روز لاکھوں لوگ گاتے ہیں۔

    یہ سمجھ میں آتا ہے یا نہیں آتا لیکن حب الوطنی کے تقاضے نبھاتے گاتے ہیں لیکن اگر ملکہ پکھراج اور اُن کے بعد طاہرہ سید ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ نہ گاتیں تو حفیظ صاحب بھی ادھورے رہتے۔ سیارہ ڈائجسٹ کے دفتر میں وہ اکثر مقبول جہانگیر کو ملنے آتے اور اکثر سموسے کھا رہے ہوتے۔ میں ہمیشہ مؤدب ہو کر ملتا اور ایک روز شومئی قسمت ملکہ پکھراج کی گائیکی کی تعریف کی تو حفیظ صاحب مشتعل ہو گئے۔ کہنے لگے ’اُس نے میرے کلام کا بیڑا غرق کردیا، میں نے اُسے گا کر بتایا تھا کہ اسے اس دھن میں گاؤ لیکن اُس نے اپنی من مانی کی، میری نہ مانی۔‘

    کچھ دیر بعد غصہ کم ہوا تو کہنے لگے، ’اب میں ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ گا کر بتاتا ہوں کہ اسے کیسے گانا چاہیے تھا۔ تب حفیظ صاحب نے منہ ٹیڑھا کر کے اپنا کلام گانا شروع کردیا اور بے شک ایک زمانے میں ہندوستان بھر کے مشاعروں میں اُن کے ترنم کی دھوم تھی لیکن اب اس بڑھاپے میں اُن کی آواز میں دراڑیں آگئی تھیں، نہ سُر پر قابو تھا اور نہ لَے پر کچھ اختیار تھا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ ملکہ پکھراج نے ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اپنی من مرضی سے گایا، اگر حفیظ صاحب کی لَے اختیار کرتیں تو جوانی کی لٹیا کب کی ڈوب چکی ہوتی۔

    (مستنصر حسین تارڑ کی تحریر سے اقتباس)

  • پاکستان میں اردو ادب کی دو تحریکیں

    پاکستان میں اردو ادب کی دو تحریکیں

    آزادی کے فوراً بعد ادب میں جو اوّلین تحریک رونما ہوئی اس نے ارض پاکستان کی نسبت سے زمین کے اور اسلامی نظریات کے حوالے سے، آسمان کے عناصر کی اہمیت کو تسلیم کیا اور نئے ادب کی تخلیق کے لیے اب دونوں کا امتزاج ضروری قرار دیا۔ چنانچہ اس تحریک نے ریاست سے وفا داری اور پاکستانی ادب کا سوال پیدا کیا۔ اس تحریک کے علمبردار حلقہ اربابِ ذوق کے ایک رکن محمد حسن عسکری تھے اور اس کی نظریاتی اساس کو ڈاکٹر صمد شاہین، ڈاکٹر جمیل جالبی، ممتاز شیریں، سجاد باقررضوی اور سلیم احمد نے اپنے مضامین سے تقویت پہنچائی۔

    پاکستانی ادب کی تحریک
    آزادی کے فوراً بعد ادب میں جو اولین تحریک رونما ہوئی اس نے ارض پاکستان کی نسبت سے زمین کے اور اسلامی نظریات کے حوالے سے، آسمان کے عناصر کی اہمیت کو تسلیم کیا اور نئے ادب کی تخلیق کے لیے اب دونوں کا امتزاج ضروری قرار دیا۔ چنانچہ اس تحریک نے ریاست سے وفا داری اور پاکستانی ادب کا سوال پیدا کیا۔ اس تحریک کے علمبردار حلقہ اربابِ ذوق کے ایک رکن محمد حسن عسکری تھے اور اس کی نظریاتی اساس کو ڈاکٹر صمد شاہین، ڈاکٹر جمیل جالبی، ممتاز شیریں، سجاد باقررضوی اور سلیم احمد نے اپنے مضامین سے تقویت پہنچائی۔

    پاکستانی ادب کی تحریک ادبی سطح پر قومیت کو ابھارنے والی ایک اہم تحریک تھی، اس تحریک نے زمین کو آسمان کے تابع قرار دے کر قومی سطح پر ادب پیدا کرنے کی طرح ڈالی۔ چنانچہ اس پر سب سے پہلے مخالفانہ حملہ ترقی پسند تحریک نے کیا اور اس کی نظریاتی اساس کو دلیل سے رد کرنے کے بجائے اس تحریک کے ادبا سے عدم تعاون کا منصوبہ بنا لیا۔ ہر چند اس قسم کا سیاسی عمل ادب کے ارتقا میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ تاہم المیہ یہ ہوا کہ اس تحریک نے اپنی نظریاتی بنیاد تو استوار کر لی، لیکن اس کی صداقت کو تخلیقی سطح پر ثابت کرنے کے لئے اچھے شاعروں اور افسانہ نگاروں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک معنوی اور تخلیقی طور پر زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ سکی اور ترقی پسند تحریک پر پابندی لگ جانے کے بعد جب اس کا ادبی حریف میدان سے ہٹ گیا تو تحریک دوبارہ حلقۂ ارباب ذوق میں فطری طور پر ضم ہو گئی۔ چنانچہ حلقے کی تحریک میں انتظار حسین، احمد مشتاق، سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی اور مظفر علی سید جیسے ادبا نے تہذیبی شعور کا جواز پیدا کیا، معنوی طور پر یہ متذکرہ تحریک کا ہی حصہ نظر آتا ہے۔

    ارضی ثقافتی تحریک
    پاکستانی ادب کی تحریک نے جن فکری مسائل کو ابھارا تھا ان کی نسبتاً بدلی ہوئی صورت ارضی ثقافتی تحریک میں رونما ہوئی۔ اس تحریک نے اقبال سے یہ نظریہ اکتساب کیا کہ ثقافت اور اس کا مظہر ادب، زمین اور آسمان کے رشتوں سے متشکل ہوتا ہے اور ترقی پسند تحریک سے اس حقیقت کو اخذ کیا کہ تخلیق میں زمین بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک کا امتیازی نکتہ یہ ہے کہ اس نے مذہب کو زمینی رشتوں کی تہذیب کا ایک مقدس انعام اور انسانی شعور کو لاشعور میں پھوٹنے والا چشمہ قرار دیا۔ چنانچہ اس تحریک نے ’’سماجی ہمہ اوست‘‘ مرتب کرنے کے بجائے فرد کو اجتماع کا ضروری جزو قرار دیا اور اس کی انفرادیت کا اثبات بھی کیا۔ ترقی پسند تحریک نے زمین کو اہمیت عطا کی تو اس کا مقصد زمین کے واسطے سے ایک مادی نظام کی تشکیل اور ایک ایسے غیر طبقاتی معاشرے کا فروغ تھا جو زمین سے ایک دودھ پیتے بچے کی طرح چمٹا ہوا ہو۔ ترقی پسند تحریک کا یہ مسلک اپنی ممکنات کے لحاظ سے محدود اور مزاج کے اعتبار سے خالصتاً مادی تھا۔ ارضی ثقافتی تحریک نے زمین کے وسیلے سے نہ صرف ثقافتی عناصر کو قبول کیا بلکہ اجتماعی لاشعور کو ایک ارضی رشتہ قرار دے کر ادب اور فکری تشکیل میں نسلی اور روحانی سرمائے کو بھی ناگزیر قرار دیا۔ چنانچہ ارضی ثقافتی تحریک نے جسم کے مادی وجود کے بجائے جسم کے روحانی ارتقا کو اہمیت دی اور یوں آسمانی اور زمینی عناصر کے متوازن امتزاج سے اب اور فن کی نئی اور متنوع صورتیں پیدا کرنے کی سعی کی۔

    ارضی ثقافتی تحریک کی نظریاتی اساس ڈاکٹر وزیر آغا کے تفکر کا نتیجہ ہے۔ ان کا اساسی مؤقف یہ ہے کہ ثقافت زمین اور آسمان کے تصادم سے جنم لیتی ہے۔ تاہم اس تصادم میں آسمان کا کردار ہنگامی اور اضطراری ہے…آسمانی عناصر کے بغیر زمین بالکل بانجھ ہو کررہ جاتی ہے۔

    پاکستان کی ثقافت اور ادب کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کا مؤقف ہے کہ اس کی تشکیل میں مذہب کے گہرے اثرات کے علاوہ پاکستا ن کی مٹی،ہوا،موسم اور اس کی تاریخ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی مٹی کی کہانی ہند اسلامی ثقافت کے دور سے بہت پہلے ان ایام میں پھیلی ہوئی ہے ، جب اس خطہ ارض پر وادی سندھ کی تہذیب نے جنم لیا تھا۔ پاکستان کی مٹی کی اس کہانی کا دوسرا پہلو داخلی ہے۔ یعنی اس نے قوم کی سائیکی میں ان تمام نسلی اثرات کو محفوظ رکھا ہے جو ہزاروں برس کے نسلی تصادم سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ ادب کی تنقید میں اساطیری عناصر اور Archetypal Images کی دریافت ناگزیر ہے۔ گویا ارضی ثقافتی تحریک نے انسانی کے پورے ماضی سے رشتہ استوار کیا اور اب ادب کی تخلیق کو انسانی سائیکی کا کرشمہ قرار دیا۔ ہند اسلامی ثقافت کی ابتدا اس سرزمین سے ہوئی اور باہر سے آنے والے اثرات نے اس سرزمین کے مزاج کا حصہ بنتے گئے توں توں ثقافت میں بھی نئی پرتیں پیدا ہوتی گئیں۔ اس لحاظ سے یہ تحریک پاکستانی ثقافت اور ادب کی گہرائی اور تنوع کی نشاندہی کرتی ہے۔

    پاکستان اور بھارت کی دو جنگوں نے اس تحریک کے ارضی اور روحانی تصور کو مزید تقویت دی۔ ان جنگوں کے بعد حب الوطنی اور ارض پاکستان سے روحانی وابستگی کا جذبہ شدت سے بیدار ہوا۔ اس کی صورت تو ’’سوہنی دھرتی‘‘ کے تصور میں ابھری اور دوسری صورت یہ ہوئی کہ شہروں اور قصبوں سے جذباتی وابستگی کا شدید ترین جذبہ پیدا ہو گیا۔ تیسرے شعرا نے نظریاتی تعصب سے بلند ہو کرارض وطن کی خوشبو کو جبلی سطح پر محسوس کیا اور اپنے گردوپیش کو شعری اظہار کے ساتھ منسلک کردیا۔ چنانچہ زمین کی خوشبو نہ صرف شاعری میں رچ بس گئی بلکہ یہ قاری کے مشام جان کو بھی معطر کرنے لگی۔

    ارضی ثقافتی تحریک نے صرف نظریاتی اساس ہی مرتب نہیں کی بلکہ اس کے نقوش کئی ادبا کی تخلیقات میں بھی جلوہ گر نظر آتے ہیں، تنقید میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ اس تحریک کی نظریاتی بوطیقا ہے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے اردو زبان کے فطری ارتقا میں زبانوں کی آمیزش کو ناگزیر قرار دے کر اس تحریک کے ثقافتی مزاج کو ہی ابھارا ہے۔ مشتاق قمر، جمیل آذر، ڈاکٹر غلام حسین اطہر اور سجاد نقوی کی تنقید میں آسمانی اور زمین عناصر کا امتزاج موجود ہے۔ شاعری میں وزیر آغا کی بیش تر علامتیں ارضی ثقافتی پس منظر کی حامل ہیں۔ اعجاز فاروقی کی شاعری کی جڑیں پاکستان کے گہرے ماضی میں اتری ہیں۔ فسانے میں اس تحریک کو غلام ثقلین نقوی، صادق حسین،رشید امجد اور مشتاق قمر نے تقویت دی۔ غلام ثقلین نقوی کے افسانوں میں وطن محض ایک خطہ زمین نہیں بلکہ سانس لیتا ہوا ایک زندہ کردار ہے جو اپنے تاثر کا اظہار بھی کرتا ہے۔ صادق حسین کے افسانے پاکستانی آرزوؤں، ولولوں اور تمناؤں کے جگمگاتے ہوئے مرقعے ہیں۔ مشتاق قمر نے ان کرداروں کو موضوع بنایا ہے جو ارض وطن کے لیے نقد جان پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ رشید امجد کے افسانوں میں شعور ماضی انسان کے مشترکہ نسلی سرمائے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور وہ انسانی سائیکی کی ان لکیروں کو تلاش کرتا ہے جن کے اولین نقوش ٹیکسلا میں متحجر ہیں لیکن جن کی زندہ صورت پاکستان کے گلی کوچوں میں رواں دواں ہے۔ پاکستانی افسانہ اور تنقید کی متذکرہ بالا تین اصناف کے علاوہ اس تحریک کا تخلیقی اظہار ایک نئی صنف ادب انشائیہ میں بھی ہوا ہے۔ انشائیہ نے ارضی مظاہر اور ثقافتی نقوش کو بار بار مس کیا اور لطافت اور شگفتگی کی فضا میں فرد کو زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا، مشتاق قمر، جمیل آذر،غلام جیلانی اصغر، سلیم آغا قزلباش، اور کامل القادری کے انشائیے درحقیقت پاکستانی عادات و رسوم کو ہی مسرت افزا انداز میں پیش کرتے ہیں۔

    (ڈاکٹر انور سدید کے مضمون سے چند پارے)

  • اے حمید کے رقص اور خواب کا قصّہ

    اے حمید کے رقص اور خواب کا قصّہ

    اے حمید صاحب اسلام آباد آئے تو میں شام کو انہیں اپنے ایک دوست کے گھر پارٹی میں لے گیا۔ میری ان سے کئی سالوں کے بعد ملاقات ہو رہی تھی اس لیے کہ جب سے میری ٹرانسفر پنڈی/ اسلام آباد کر دی گئی تھی میرا لاہور آنا جانا بہت کم ہو گیا تھا۔

    اس شام حمید صاحب اپنے کارڈرائے کے ہلکے براؤن سوٹ میں تھے، اور ان سے ایوننگ ان پیرس کی خوشبو آرہی تھی۔ پارٹی میرے ایک دوست کے گھر میں تھی۔ دروازے کے باہر سیڑھیوں پر دیے جل رہے تھے، اندر مدھم روشنیوں میں خوش لباس مہمان خوش گپیاں کر رہے تھے۔ بیک گراؤنڈ میں ہلکی سی جاز کی موسیقی چل رہی تھی۔ ایک طرف بار تھی جہاں ہر قسم کے ولایتی مشروبات رکھے تھے، میں نے حمید صاحب کو اپنے دوستوں سے ملایا اور انہیں ان کی پسند کا مشروب پیش کیا، کچھ دیر بعد رقص کی موسیقی شروع ہو گئی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس رومانٹک ماحول میں رقص کرنے لگے، ان میں کئی غیرملکی جوڑے بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی ایک جرمن خاتون دوست کو حمید صاحب سے ملوایا اور سے کہا تم حمید صاحب کے ساتھ رقص کرو۔ حمید صاحب بہت دیر تک شرماتے اور جھجکتے رہے لیکن پھر میرے اور خاتون کے اصرار پر اس کے ساتھ ڈانس فلور پر چلے گئے۔ میں انہیں رقص کرتے ہوئے دیکھتا رہا، وہ آنکھیں بند کیے موسیقی کی دھن پر ہلکے ہلکے جھوم رہے تھے جیسے کوئی بچہ نیند میں خواب دیکھ رہا ہو۔ جب وہ واپس آئے تو میں نے کہا ’حمید صاحب یہ کیا؟ صرف ایک ڈانس؟ آپ تو آج ساری رات رقص کریں اور جی بھر کر پیئیں اور پلائیں۔ سرگوشی میں کہنے لگے، ‘بس سرمد یار میرے لیے اینی خوبصورتی کافی اے ’ (بس سرمد یار میرے لیے اتنی خوبصورتی کافی ہے)۔

    مجھے یک دم ان سے اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی۔ میں جب دسویں جماعت میں پڑھتا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے بڑے بھائی جاوید کے گھر واہ کینٹ چلا جاتا تھا۔ واہ کینٹ ایک بہت خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا، آبادی کم تھی، آسمان بغیر کسی آلودگی کے نیلا دکھائی دیتا تھا اور رات کو ستارے پوری آب و تاب سے چمکتے تھے۔ ماحول بڑا رومانٹک تھا۔ بھائی جان کے گھرمیں بہت سی کتابیں تھیں، منٹو، بیدی، کرشن چندر اور اے حمید کی لکھی ہوئیں، میں ان سے سب سے تقریباً نا آشنا تھا۔ اس لیے کہ ہمارے اپنے گھر میں ان میں سے کسی کی بھی کوئی کتاب نہیں تھی۔ منٹو صاحب نے اپنی کتاب ’اوپر نیچے اور درمیان‘ بھائی جان کو تحفے میں دی تھی۔ اس پر منٹو صاحب نے لکھا تھا، ’پیارے جاوید میں تو نہ اوپر ہوں نہ نیچے اور نہ درمیان تم جہاں کہیں بھی ہو خوش رہو‘۔ میں نے ان ادیبوں کو پڑھنا شروع کر دیا، لیکن میرے لیے یہ سب ذرا زیادہ ہی بالغ تھے، سوائے اے حمید کے۔ میں ان کی کوئی بھی کتاب پڑھتا تو مجھ پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہونا شروع ہوجاتی، ایسی منظر نگاری، ایسا رومانس اور پھر میرے لڑکپن کا زمانہ۔ حمید صاحب کی تحریروں نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا۔ اسی زمانے میں جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ مری گیا تو مجھے ساتھ والے بنگلے میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو گیا، یہ میرا اوّلین عشق تھا۔ میں نے اسے جو پہلا خط لکھا اس میں اے حمید کے رومانوی افسانوں کی بازگشت تھی۔

    جب میں لاہور واپس آیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میری حمید صاحب سے ملاقات ہو جائے گی۔ جالی صاحب ایک مصور تھے جو ادبی کتابوں اور رسائل کے ٹائٹل بناتے تھے، انہوں نے اے حمید کی کچھ کتابوں کے بھی ٹائٹل بنائے تھے۔ میری ان سے جانے کب اور کیسے دوستی ہو گئی تھی۔ میں جب بھی انار کلی سے گزرتا ان کے دفتر ضرور جاتا۔ ایک دن دیکھا کہ ان کے دفتر میں حمید صاحب بیٹھے ہیں۔ مجھے ان دنوں اپنے پسندیدہ شاعروں ادیبوں سے آٹو گراف لینے کا شوق تھا چنانچہ میں نے حمید صاحب سے بھی اس کی فرمایش کی۔ انہوں نے میری آٹو گراف پر لکھا۔ ’جھونپڑیوں میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھنا بہتر ہے اس سے کہ آدمی محلوں میں رہے اور اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہ ہو۔‘ حمید صاحب اسلام آباد کی پارٹی میں اس رات شاید مجھے یہی کہنا چاہتے تھے کہ اگر وہ ساری رات رقص کرتے رہے اور پیتے پلاتے رہے تو ان کے پاس خواب دیکھنے کو باقی کچھ نہیں بچے گا۔

    (شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار سرمد صہبائی کی یادوں سے چند پارے)

  • "مجھ سے لاہور لکھوائیے!”

    "مجھ سے لاہور لکھوائیے!”

    جب کبھی کسی ادبی کانفرنس کے دوران کوئی خصوصی سیشن میرے لیے ترتیب دیا جاتا ہے تو وہاں کوئی نہ کوئی چاہنے والا بہر طور ایک سوال ضرور کرتا ہے کہ آپ کے بیشتر ناولوں بلکہ ڈرامہ سیریز میں شہر لاہور ایک کردار کی صورت بہر طور پس منظر میں موجود ہوتا ہے تو آخر یہ ایک ہی شہر کیوں؟

    اور میرا جواب بھی بہر طور ایک ہی ہوتا ہے کہ یہ میرا شہر ہے، میں اسے جانتا ہوں اور یہ مجھے جانتا ہے۔ یہ میرے بچپن کا گواہ ہے، جوانی کا جنون ہے اور اب بڑھاپے کا آخری سہارا ہے۔ میرے ناولوں کی لینڈ اسکیپ ہمیشہ پاکستان کی سرزمین کی تحریر تصویر ہوتی ہے۔ بے شک میں نے کوئٹہ، کراچی، وادئ سوات یا غیر ملکی شہروں میں بھی اپنے کرداروں کو آباد کیا ہے لیکن یہ لاہور ہے جو میرے بیانیے کو قوت دیتا ہے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے جب ایک بار مجھے علی گڑھ، لکھنؤ اور دلّی کے پس منظر میں تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ڈرامے تحریر کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے معذرت کر لی کہ میں ان شہروں کی بود و باش اور ثقافت اور روزمرہ کے رہن سہن کو کسی حد تک بیان تو کر جاؤں گا لیکن تحریر میں کچھ کمی رہ جائے گی کہ یہ میرے شہر نہیں ہیں، مجھ سے لاہور لکھوائیے۔

    اگرچہ میرے والد صاحب گجرات کے ایک گاؤں چناب کے کناروں پر آباد ایک چھوٹے سے پسماندہ گاؤں جو کالیاں سے رزق روزگار کی تلاش میں نکلے اور لاہور میں آن بسے۔ لیکن میری پیدائش لاہور میں ہوئی اور یوں یہ شہر میرا ہو گیا۔ اگر کوئی شخص میری حیات کے شب و روز سے آگاہی رکھتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ میں نے آج سے نصف صدی پیشتر لاہور کے لیے دنیا کے بڑے بڑے شہروں کی آسائش بھری زندگی اور شاید کچھ من پسند چہروں کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ لاہور کا جو یار ہے۔۔۔ وہ میرا محبوب یار ہے اور اُن میں سے ایک کامران لاشاری ہے جس نے نہ صرف اس شہر کی مال روڈ کی عمارتوں کو بحال کیا بلکہ کھنڈر ہونے سے بچا لیا، اگرچہ اُس نے لکشمی مینشن سے بوجوہ تغافل اختیار کیا جسے ٹریڈر مافیا کا اژدہا نگل گیا، اُسے ڈھا کر وہاں حکومت وقت کے بیوپاریوں نے پلازے تعمیر کر دیے۔

    میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ لاہور کا کیا حشر کر دیا گیا ہے البتہ ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے اورنج ٹرین کے منصوبے کے دوران لاہور کی تاریخی عمارتوں اور مندروں وغیرہ کی بربادی اور ملیا میٹی کے علاوہ شالیمار، جی پی او، چو برجی، لکشمی چوک اور کچھ گرجا گھروں کے چہروں کو، اُن کے منظروں کو بگاڑ دینے کے بارے میں ایک واضح فیصلہ سنایا تو اہل اقتدار نے اسے ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا اور کہا گیا کہ تاریخ کیا ہے، اسے پھر سے بنایا جا سکتا ہے اور جو لوگ لاہور بچاؤ کی تحریک میں شامل ہیں انہوں نے تو شاید لاہور دیکھا بھی نہیں ہوا۔ بصد ادب گزارش ہے کہ ان میں کامل خان ممتاز ایسا نابغۂ روزگار آرکیٹیکٹ شامل ہے جو لاہور کی ایک ایک اینٹ کو جانتا ہے۔ جس نے اپنے طرز تعمیر میں لاہور کی عمارتوں کے تاریخی چہرے شامل کیے۔ ان میں ڈاکٹر اعجاز انور ہے جس نے اسلامی طرز تعمیر میں ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے اور وہ ایسا مشہورِ عالم مصور ہے جس نے شہر لاہور کی تاریخی عمارتوں، حویلیوں، قدیم بازاروں، تہواروں اور جھروکوں کو مصور کیا ہے۔ وہ عمارتیں جو آپ نے کسی اورنج یا گلابی ٹرین کے لیے مسمار کر دی ہیں، اور ان میں بنگالی بلڈنگ اور جین مندر بھی شامل ہیں۔ اعجاز انور کی تصویروں میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر لوگ لاہور کو اعجاز انور کی واٹر کلر تصویروں کے حوالے سے پہچانتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ یہ لوگ لاہور کو نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ آپ کے دانشور حواری انہیں غداری کی سند دیتے ہیں، ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے غیر محب الوطن کہتے ہیں۔ حضور لاہور آپ کے لیے الیکشن جیتنے کی ایک شکار گاہ ہے، شہر نہیں۔ آپ نے تو لاہور کو کبھی اختیار نہیں کیا، آپ نے تو اپنے لیے ایک نیا جاتی امرا آباد کیا تو آپ باہر والے کیا جانیں کہ لاہور کیا ہے۔ کامران لاشاری کے ہاتھ اگرچہ سرکاری طور پر بندھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود میں اسے گنگا رام اور بھائی رام سنگھ کی طرح لاہور کا ایک محسن قرار دیتا ہوں۔ اندرون شہر کے گلی کوچوں اور حویلیوں کو جس طور اس نے بحال کیا ہے، مسجد وزیر خان اور شاہی حمام کی قدیم شانداری کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کیا ہے، میں اسے سلام کرتا ہوں۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، اور مقبول سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے ایک کالم سے اقتباس)

  • مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    اردو ادب میں منیر نیازی وہ خوش قسمت شاعر تھے جنھیں اُن کی زندگی میں بڑا شاعر تسلیم کیا گیا اور ان کی تعریف کی گئی۔

    ممتاز ادیب اور فکشن رائٹر انتظار حسین منیر نیازی کے فن و کمال کے معترف رہے اور منیر نیازی بھی اُن کی تحریروں کو سراہتے تھے۔ انتظار حسین نے کی شاعری اور شخصیت پر ایک مضمون لکھا تھا جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    دراصل میں اور منیر نیازی جنت میں ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت سے پہچانا ہے۔ چلتے پھرتے کسی موٹر پر ہماری مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے کہ اس کی بستی کے آدمیوں کے کیسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں کہ اپن بستی میں شام کیسے پڑتی ہے۔ اور مور کس رنگ سے بولتا تھا۔ منیر نے ہمیشہ اسی طرح سنایا اور سنا جیسے کہ وہ یہ داستان پہلی مرتبہ سن رہا ہے اور پہلی مرتبہ سن رہا ہے۔ ایک ملال کے ساتھ سناتا ہے اور ایک حیرت کے ساتھ سنتا ہے۔ ہم اپنی گمشدہ جنت اپنے دھیان میں بسائے پھرتے ہیں۔ اوروں کے تصور میں بھی اسے تو بسا تو رہنا چاہیے تھا۔ مگر لگتا یوں ہے کہ سب نے کسی نہ کسی رنگ سے اس کی تلافی کر لی ہے۔ یا ضعف حافظہ نے ان کی مدد کی ہے مگر ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ حافظے نے بی بی حوا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنت سے نکلنے کے بعد انہیں جنت کی ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انہوں نے جنت کو بہت یاد کیا اور بہت روئیں۔ جنت کی یاد بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ روئے ارض پر جتنے مہندی کے پیڑ ہیں وہ سب بی بی حوا کے آنسوؤں کا فیض ہیں۔

    مجھے مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان میں تھوڑی میری آنکھوں کی نمی بھی شامل ہے۔ جب منیر اپنے خانپور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک بستی پکارنے کو جی چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے باغوں اور جنگل کا ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی عالم میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں۔ ہماری بستی کا جنگل کچھ بہت گھنا نہیں تھا مگر میری یادوں نے اسے گھنا بنا دیا ہے۔ جب میں منیر نیازی کے شعر پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ جنگل اور زیادہ گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ سو اپنا جنگل بہت گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے، سو اب اپنا جنگل بہت گھنا اور بہت پھیلا ہوا ہے لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ لگتا ہے کہ اس سے آگے بھی کوئی جنگل ہے۔ اپنے جنگل میں چلتے چلتے میں اچانک کسی اور ہی جنگل میں جا نکلتا ہوں، زیادہ بڑے اور زیادہ پُر ہول جنگل میں۔ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے جیسے کہ میں عہدِ قدیم میں سانس لے رہا ہوں۔ شاید عہدِ قدیم بھی ہمارے بچپن کے منطقے کے آس پاس ہی واقع ہے یا منیر نیازی نے اپنے شعروں سے کوئی عجب سی پگڈنڈی بنا دی ہے کہ وہ خانپور سے چل کر میری بستی کو چھوتی ہوئی عہد قدیم میں جا نکلتی ہے۔ تو اب صورت یہ ہے کہ میں منیر کے شعر پڑھتے ہوئے اپنے بچپن کے راستے عہد قدیم میں جا نکلتا ہوں۔ بچپن کے اندیشے اور وسوسے عہد قدیم کے آدمی کے وسوسوں اور اندیشوں سے جا ملتے ہیں۔

    جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
    مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو

    مگر مجھے لگتا ہے کہ منیر نے خود مڑ کر دیکھ لیا ہے۔ وسوسے اور اندیشے عہد قدیم سے آج تک آتے آتے آدمی کے اندر اتر گئے ہیں۔ اب باہر سے ہم ہمت والے ہیں اندر سے خوف زدہ ہیں۔ پہلے ہم مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اب اندر دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ کیا اندر بھی کوئی جنگل ہے۔ جنگل اصل میں ہمارے پہلے باہر تھا، اب ہمارے اندر ہے۔ ہم تو جنگل سے نکل آئے اور بڑے بڑے شہر تعمیر کر کے اپنے چاروں طرف فصیلیں کھڑی کر لیں مگر جنگل ہماری بے خبری میں ہمارے اندر اتر گیا اور سات پردوں میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ اب وہ ہمارے اندر سو رہا ہے۔ منیر نیازی وہ شخص ہے جس کے اندر جنگل جاگ اٹھا ہے اور سنسنا رہا ہے۔ اس نے مڑ کر جو دیکھ لیا ہے اس کی شاعری کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم جنگل میں چل رہے ہیں اور پاتال میں اتر رہے ہیں، عجب عجب تصویریں ابھرتی ہیں۔

    دبی ہوئی ہے زیرِ زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
    بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے ہوئے تہ خانے میں
    ٭٭٭

    کرے گا تو بیمار مجھے یا
    بنے گا نامعلوم کا ڈر
    رہے گا دائم گہری تہ میں
    جیسے اندھیرے میں کوئی در

    پھر میرے تصور میں عجب عجب تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ میں اپنے پاتال میں اترنے لگتا ہوں۔ اگلی پچھلی کہانیاں اور بھولے بسرے قصے یاد آنے لگتے ہیں چمکتی دمکتی اشرفیوں سے بھری زمین دوز دیگیں راجہ باسٹھ راجہ باسٹھ کے محل کے سنہری برج جو زمین کے اندھیرے میں جگمگ جگمگ کرتے ہیں۔ میری نانی اماں بہت سنایا کرتی تھیں کہ زمیں میں دبی یہ دیگیں کس طرح اندر ہی اندر سفر کرتی ہیں اور پکارتی ہیں اور جب کسی کو یہ پکار سنائی دے جاتی ہے تو اس پر کیا بیتتی ہے۔ ان کی باتیں اسی پکار کو سننے کی خواہش کی غمازی بھی کرتی ہیں مگر وہ ڈرتی بھی رہتی ہیں کہ کہیں سچ مچ کسی سنسان اندھیری رات میں یہ پکار انہیں سنائی نہ دے جائے۔ سانپ ان دیگوں کی رکھوالی کرتا ہے۔ میری نانی اماں یہ بتاتی تھیں کہ سانپوں کا ایک راجہ ہے۔ اسے وہ راجہ باسٹھ کہتی تھیں۔ ہندو دیو مالا کے تذکروں میں اس کا نام راجہ بسو کا لکھا ہے اس کا محل سونے کا بنا ہوا ہے اور پاتال کے اندھیرے میں جگمگاتا ہے۔ میری نانی اماں سانپ کا نام شاذ و نادر ہی لیتی تھیں۔ اشاروں کنایوں سے اس کا ذکر کرتی تھیں۔ منیر نیازی بھی اس کا نام لینے سے ڈرتا ہے مگر اس کا ذکر بہت کرتا ہے۔ اتنا خوف اور اتنی کشش آخر کیوں؟

    نامعلوم کا خوف اور نامعلوم کے لیے کشش اس خوف اور کشش کی صورت میں منیر نیازی کی شاعری میں کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے آدم و حوا ابھی ابھی جنت سے نکل کر زمیں پر آئے ہیں۔ زمین ڈرا بھی رہی ہے اور اپنی طرف کھینچ بھی رہی ہے۔ پاتال بھی ایک بھید ہے اور وسعت بھی ایک بھید ہے۔ بھید بھری فضا کبھی اس حوالے سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی اس حوالے سے اور شعر کے ساتھ دیومالائی قصے اور پرانی کہانیاں لپٹی چلی آتی ہیں۔

    سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
    کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
    نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
    پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستا ہی نہ ہو

    منیر نیازی کے لیے زمین اپنے پاتال اور اپنے پھیلاؤ کے ساتھ دہشت و حیرت سے بھرا ایک تجربہ ہے۔ مگر پھر وہی سوال کہ آخر کیوں؟ کیا اس کا تعلق بھی جنت سے نکلنے سے ہے؟ کیا یہ ہجرت کا ثمر ہے؟ مہندی کے یہ پیڑ خود بخود تو نہیں اگ آئے، قدیم آدمی کے تجربے تو ہمارے آپ کے اندر اور دیو مالاؤں اور داستانوں کے اندر دبے پڑے ہیں۔ آخر کوئی واقعہ تو ہوا ہے کہ یہ تجربے پھر سے زندہ ہوئے ہیں اور ایک نئی معصومیت اختیار کر گئے۔

    ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک پوری نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے۔ اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں اس تجربے نے الگ الگ روپ دکھائے ہیں۔ منیر نیازی کے یہاں اس کے فیض سے ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا سا نقشہ پیش کرتا ہے۔ باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربے کے حوالے کے بغیر خالی ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے۔

    (انتظار حسین کی یہ تحریر امجد طفیل کی کتاب بعنوان منیر نیازی: شخصیت و فن میں شامل ہے)

  • بخاری صاحب کا دل…

    بخاری صاحب کا دل…

    بڑے لوگوں کا طرزِ فکر، کسی معاملہ میں ان کی سوچ اور ردعمل بھی عام آدمی یا اوسط درجے کے آدمی سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان کے کام بھی۔ اس تحریر میں غلام رسول مہر نے یہی بات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

    غلام رسول مہر اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز، ادیب اور شاعر تھے اور یہاں بطور مصنّف ان کے ممدوح‌ ہیں جہانِ علم و ادب کی مایہ ناز شخصیت ذوالفقار علی بخاری جن سے مصنّف نے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے، ان کے بارے میں اپنے خیالات کو نہایت خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ یہ مختصر تحریر علم و ادب کے شیدائیوں کو نہایت پُراثر اور دل پذیر معلوم ہوگی۔ مہر صاحب لکھتے ہیں:

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۲۱ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لاتعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِاقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہوچکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبدالقادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضمونوں کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سیدامتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہوسکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چارپانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔

    سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔ بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    ۱۹۲۲ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تادیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔
    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لاتعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساس ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظام زندگی کی پابند ہو۔ اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

  • ‘غالب انڈ گوئٹے’

    ‘غالب انڈ گوئٹے’

    مجھ سے روایت کیا کامریڈ باری علیگ نے اور انہوں نے سنا اپنے دوست مرزا کاظم سے اور مرزا کاظم نے سنائی آپ بیتی اور اب آپ مجھ سے سنیے ’’مرزا بیتی‘‘ میرے الفاظ میں اور اس کا ثواب پہنچائیے غالب اور گوئٹے کی ارواح کو اور دعا کیجیے میرے حق میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

    مرزا کاظم جن دنوں برلن میں تھے ان ایام کا ذکر ہے کہ مرزا صاحب کی ملاقات ایک پنجابی سکھ پریتم سنگھ سے ہوئی اور دونوں تین چار روز تک ایک قہوہ خانے میں ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ ایک روز سردار جی نے مرزا صاحب سے کہا کہ بھائی صاحب! بات یہ ہے کہ میں اٹلی جانا چاہتا ہوں اور میرے پاس پیسہ کوئی نہیں۔ اٹلی میں میرا مستقبل بہت شاندار ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کچھ روپیہ مجھے بطور قرض دے دیں یا کسی دوست سے دلادیں تو میں اٹلی پہنچ کر تھوڑے ہی عرصے میں قرض چکا دوں گا۔

    مرزا کاظم نے ایک لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہا، ’’قرض؟‘‘، ’’سردار صاحب یہاں پردیس میں کون ایسا ہندوستانی فارغ البال ہوسکتا ہے جو اپنے اللّے تللّوں کے علاوہ کسی دوست کو قرض دے سکے؟‘‘

    سردار جی، مجھے کوئی زیادہ روپیہ نہیں چاہیے صرف۔۔۔

    مرزا صاحب، (بات کاٹ کر) ’’اجی کم زیادہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بات یہ ہے کہ کسی سے ایسی درخواست کرنا ہی بے معنی چیز ہے۔‘‘

    سردار جی، (مایوسی کے لہجے میں) تو پھر کیا کیا جائے؟

    مرزا صاحب، کیا کیا جائے، بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

    سردار جی، (پر امید نگاہوں سے دیکھتے ہوئے) وہ کیا، وہ کیا؟

    مرزا صاحب، وہ یہ کہ ہندوستانیوں کی بجائے جرمنوں سے روپیہ حاصل کیا جائے، جو بہت آسان کام ہے۔

    سردار جی، وہ کیسے؟

    مرزا صاحب، میں کل بتاؤں گا۔ آپ اسی وقت یہاں تشریف لے آئیے۔ (سردار جی کی آنکھیں ان الفاظ کو سن کر چمک اٹھیں اور آپ مرزا صاحب کا ’’پیشگی‘‘ شکریہ ادا کر کے رخصت ہوئے۔ رات بھر سردار جی کو نیند نہ آئی اور دوسرے دن وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی قہوہ خانے میں پہنچ گئے اور بے صبری کے ساتھ مرزا کاظم کا انتظار کرنے لگے۔ آخر مرزا آئے اور قہوہ کی پیالی پیتے ہوئے یوں گویا ہوئے)،

    مرزا صاحب، دیکھئے سردار جی! مرزا غالب ہندوستان کے بہت بڑے شاعر تھے آپ جانتے ہوں گے؟

    سردار جی، وہی نہ جنہیں انڈین شکسپیئر کہتے ہیں؟

    مرزا صاحب، (مسکراتے ہوئے) نہیں نہیں۔ انڈین شکسپیئر تو آغاحشر کاشمیری مرحوم تھے جو مشہور ڈرامانویس تھے۔ غالب ان سے بہت پہلے عہدِ مغلیہ میں گزرے ہیں۔ آپ کا نام اسد اللہ خاں تھا اور وطن دہلی۔ آپ فارسی اور اُردو دونوں زبانوں کے بہت بڑے شاعر تھے۔ لیکن عمر تنگ دستی میں گزری، آپ کو شراب نوشی کا بہت شو ق تھا۔ اس لیے کبھی فارغ البالی نصیب نہ ہوئی۔

    سردار جی، بالکل میرے چچا ہرنام سنگھ کی طرح، ذیلدار تھا۔ دو سو بیگھہ زمین تھی۔ ضلع بھر میں عزت تھی لیکن شراب نے بیڑا غرق کردیا۔ آج اسے کوئی دس روپے ادھار نہیں دیتا۔

    مرزا صاحب، ہاں ہاں، بس غالب کی بھی یہی حالت تھی۔ لیکن تھا بڑا خود دار، مرتا مرگیا لیکن امراء کے سامنے نہ جھکا۔ اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ۔۔۔

    سردار سر تو ہلاتے جاتے تھے لیکن دل میں سوچتے تھے کہ بات تو جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی تھی۔ یہ مرزا صاحب غالب کا قصہ کیوں چھیڑ بیٹھے؟ آپ کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ مرزا کاظم نے ان کے دل کی بات کو بھانپ کر ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ خاموشی سے سنتے جائیے۔

    مرزا صاحب، غالب ایک فلاسفر شاعر تھے اور انہوں نے وہی زمانہ پایا جو جرمنی کے فلاسفر شاعر گوئٹے کو نصیب ہوا۔ گوئٹے بھی۔۔۔

    مرزا صاحب یہاں تک کہہ پائے تھے کہ سردار جی سے صبر نہ ہوسکا اور انہوں نے بات کاٹ کر اپنی بات شروع کر دی۔

    سردار جی، لیکن مرزا صاحب! جہنم میں جائیں غالب اور گوئٹے، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی ترکیب بتائیں گے۔

    مرزا صاحب، بالکل درست، اور میں وہی ترکیب تو بتا رہا ہوں۔ آپ ذرا سنتے جائیے۔ آپ ہندوستان کے بہت بڑے مؤرخ، شاعر اور ادیب ہیں۔

    سردار جی، میں اور شاعر؟

    مرزا صاحب، بس آپ چپ رہیے اور میری بات سنیے، آپ اتوار کے دن ’’ہومبرگ ہال‘‘ میں ایک تقریر کریں گے جس میں آپ غالب اور گوئٹے کی شاعری کا موازنہ فرمائیں گے۔

    سردار جی، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میں تو جرمن زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا اور نہ غالب اور گوئٹے کی شاعری سے واقف ہوں۔

    مرزا صاحب، آپ اردو زبان میں اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو پنجابی زبان میں تقریر فرمائیے۔ بات صرف یہ ہے کہ بولتے جائیے اور گوئٹے کی شاعری سے آپ واقف نہیں تو ان کا نام تو چنداں مشکل نہیں، ذرا کہیے تو۔

    سردار جی، غالب گوئٹے۔ غالب گوئٹے۔

    مرزا صاحب، بالکل ٹھیک! آپ پاس ہو گئے۔ صرف اتنی بات ہے کہ ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ انگریزی زبان میں جسے ہم اینڈ کہتے ہیں۔ جرمن میں اسے انڈ کہا جاتا ہے۔

    سردار جی، غالب انڈ گوئٹے۔۔۔ غالب انڈ گوئٹے۔

    مرزا صاحب، واہ وا۔ خوب! اب آپ ہندوستان کے بہت بڑے اسکالر ہیں۔ کل برلن کے اخبارات میں اعلان شائع ہوگا کہ ہندوستان کے مشہور اسکالر سردار پر یتم سنگھ اتوار کے دن بوقت شام ہومبرگ ہال میں ’’غالب اور گوئٹے‘‘ کے موضوع پر ایک زبردست تقریر کریں گے۔ داخلہ ٹکٹ کے ذریعہ ہوگا وغیرہ۔

    سردار جی، لیکن میں تقریر میں کہوں گا کیا۔

    مرزا صاحب، جو جی میں آئے کہتے جائیے۔ بس بولتے جائیے اور ہر تین چار جملوں کے بعد ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ کہتے رہیے۔

    اتوار کی شام آپہنچی۔ ہومبرگ ہال جرمن ’’اہل ذوق‘‘ سے کھچا کھچ بھر گیا۔ صدارت کی کرسی پر برلن کے ایک مشہور ماہر ادبیات جلوہ افروز تھے۔ ان کے ایک طرف سردار پریتم سنگھ اور دوسری طرف مرزا کاظم بیٹھے تھے۔ تقریر کا وقت آگیا اور سردار صاحب تقریر کرنے کے لیے اٹھے صاحب صدر نے اٹھ کر حاضرین سے پروفیسر پریتم سنگھ کا تعارف کرایا۔ جس پر ہال خیر مقدم کی تالیوں سے گونج اٹھا۔

    سردار صاحب نے اپنی تقریر شروع کی۔

    ’’صاحبان! مرزا اسد خاں غالب دہلی کے رہنے والے تھے، اردو فارسی دونوں زبان کے شاعر تھے۔ شراب بہت پیتے تھے اس لیے ان کی عمر تنگ دستی میں گزری۔ دہلی ہندوستان کا دارالسلطنت ہے۔ وہاں ایک گھنٹہ گھر بھی ہے۔ چاندنی چوک میں سودا بیچنے والوں کی صدائیں بہت پیاری ہوتی ہیں ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں۔ غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    مجمع نے پر زور تالیاں بجا کر آسمان سرپر اٹھا لیا اور جب تالیوں کی گونج ختم ہوئی تو سردار صاحب نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’دہلی سے تین سو میل کے فاصلے پر لاہور ہے۔ میں ضلع لاہور کا رہنے والا ہوں۔ ہمارا علاقہ بڑا زرخیز ہے۔ پچھلے سال بارشیں کم ہوئی تھیں۔ اس لیے فصلیں اچھی نہ ہوئیں، اس سال گورو مہاراج کی کرپا ہے۔ نہر میں بھی پانی خوب رہا اور بارشیں بھی اچھی ہوگئیں، امید ہے کہ گیہوں کی فصل اچھی رہے گی۔ لاہور کی بہت سی چیزیں دیکھنے لائق ہیں۔ مثلاً شاہی مسجد، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی، چڑیا گھر عجائب گھر غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    پھر تالیوں سے فضا گونج اٹھی اور صاحب صدر کے لبوں پر تبسم رقص کرنے لگا۔ آپ نے میز پر ہاتھ مار مار کر مقرر کی ’’جادو بیانی‘‘ کی داد دی۔ سردار صاحب نے اپنی حوصلہ افزائی ہوتی دیکھی تو ذرا زیادہ بلند آواز سے تقریر کرنے لگے۔ فرمایا،

    ’’غالب انڈ گوئٹے کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے شری دربار صاحب امرتسر کے درشن نہ کیے۔ حتیٰ کہ وہ ضلع گورداسپور بھی نہ جاسکے، ورنہ وہاں کا گڑ کھا کر انھیں نانی سپنے میں یاد آجاتی۔ ضلع امرت سرمیں ایک گائوں چمیاری ہے۔ وہاں کے خربوزے بہت مشہور ہیں، قصور کی میتھی بہت خوشبودار ہوتی ہے اور پھر غالب انڈ گوئٹے کے کیا ہی کہنے گویا انڈیا انڈ جرمنی!‘‘

    اس دفعہ سردار نے استاد کے بتائے ہوئے سبق ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ پر ’’انڈیا انڈ جرمنی‘‘ کا اضافہ کرکے کمال کر دکھایا اور ان الفاظ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ تالیوں سے ہال گونج اُٹھا۔ سردار صاحب نے تقریر جاری رکھی اور دو تین فقرے کہنے کے بعد فرمایا کہ،

    ’’صاحبان! اب غالب کے اشعار بھی سنیے!‘‘

    اس مقام پر مرزا کاظم نے اُٹھ کر حاضرین سے جرمن زبان میں کہا کہ پروفیسر پریتم سنگھ اب غالب کے چند اشعار سنائیں گے۔ سردار صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں یہ گانا شروع کردیا،

    اساں نِت دے
    نی اساں نِت دے شرابی رہنا نی ہرنام کورے نارے
    اودھ وِچ کندھ کرلئے

    مرزا کاظم کرسی سے اچھل پڑے، جس پر حاضرین نے تالیوں سے فضا میں گونج پیدا کردی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب نے ان اشعار کو بے حد پسند کیا ہے سردار صاحب پھر بولے!

    اسیں مرگئے۔
    نی اسیں مرگئے کمایاں کردے نی ہر نام کورے نارے
    اجے تیرے بند نہ ہے ہائے نی اسیں مرگئے

    اس دفعہ بھی حسب معمول کافی داد ملی۔ لیکن داد کی حد تو اس وقت ہوئی جب سردار صاحب نے غالب کی وہ ’’مثلث‘‘ سنائی جس کی ٹیپ کا مصرعہ یہ تھا،

    ’’موڑیں بابا ڈانگ والیا چھئی‘‘

    ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا اور سردار پریتم سنگھ مورخ، شاعر اور ماہر ادبیات کی تقریرختم ہوئی، اس کے بعد مرزا کاظم اٹھے اور انھوں نے نہایت فصیح جرمن زبان میں بیان کیا کہ پروفیسر نے جس قابلیت کے ساتھ غالب اور گوئٹے کا موازنہ کیا ہے شاید ہی آج تک کسی نے کیا ہو۔ کم از کم برلن میں تو آج تک ایسی تقریر نہ ہوئی ہوگی اور مجھے فخر ہے کہ میرے ملک نے پروفیسر صاحب جیسے آدمی پیدا کیے ہیں۔ میں اس پوری تقریر کا ترجمہ کر کے برلن کے اخبارات میں شائع کراؤں گا اور آپ دیکھیں گے کہ میرے وطن کے مایہ ناز ماہر ادبیات نے علم و فضل کے کیا کیا دریا بہائے ہیں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پروفیسر صاحب کے خیالات سننے کی تکلیف گوارا فرمائی۔

    اس کے بعد صاحب صدر اٹھے اور انھوں نے پروفیسر صاحب اور مرزا کا ظم کا شکریہ حاضرین کی طرف سے ادا کی اور جلسے کے اختتام کا اعلان کیا۔ پھر کیا تھا بڑے بڑے ادیب، شاعر، اخبار نویس اور رئیس سردار صاحب سے مصافحہ کرنے کو لپکے اور آپ کو بڑی مشکل سے ہال کے دروازے تک لے جایا گیا۔ اسی رات کو مرزا کاظم پروفیسر پریتم سنگھ کو ٹرین پر سوار کرانے کے لیے اسٹیشن تک لے گئے اور دونوں کی جیبیں نوٹوں سے پُر تھیں۔

    (اردو ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار حاجی لق لق کی ایک دل چسپ تحریر)