Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • سیاست داں سیاحت سے ’اجازت‘ تک!

    سیاست داں سیاحت سے ’اجازت‘ تک!

    سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں۔ اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے اور اگر کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آجاتا ہے، تو سرکاری خرچے پر اپنے اہل وعیال، دوست احباب اور خوشامدیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا لائسنس حاصل کر لیتا ہے۔

    سیاست داں کو وفاداری بدلنے کے لیے اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا کابینہ کی ایک نشست کی ترغیب کافی ہے۔ اب تو سیاسی وفاداری کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ جس پارٹی نے کسی سیاست داں کو خریدا ہے، وہ اسی کا ہو رہے، لیکن وہ تو دھڑلے سے کہتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی، آخری یا مستقل نہیں ہوتی۔ چناں چہ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے سیاست کا میدان ”اسٹاک ایکسچینج“ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سودوں میں تیزی آجاتی ہے۔ انگریزی میں اس طرح بک جانے والے سیاست داں کو Turncoat کہا جاتا ہے، جب کہ اردو میں وہ اپنی لڑھکتی خصلت کے باعث ”لوٹا“ کہلاتا ہے۔ جس پارٹی سے وہ قطع تعلق کرتا ہے، وہ اسے ”گندا انڈا“ قرار دیتی ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس کی ایسی آؤ بھگت ہوتی ہے کہ وہ خود کو بھگت کبیر سمجھنے لگتا ہے۔ آپ ایسے کسی سیاست داں کے جس کو سابقہ ریکارڈ کی بنا پر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں، تو وہ علامہ اقبال کی سند لے آتا ہے:

    جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
    اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

    سیاست داں کا ہر قدم ہر قول، ہر کام قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے ”یوٹرنز“ قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں، سب پر قوم کے بہترین مفاد کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بھی قوم کے بہترین مفاد میں کرتا ہے۔ وہ قوم کے بہترین مفاد میں کوئی ادارہ بناتا ہے اور پھر قوم کے بہترین مفاد میں اسے بند کر دیتا ہے۔ یہی حال قانون سازی کا ہے۔ بے چارہ قانون خود پکار اٹھتا ہے کہ ’میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا۔‘ عوام کی بے لوث خدمت اس کا اولین و آخرین نصب العین ہوتا ہے۔ سیاست داں اس وقت تک خدمت کرتا رہتا ہے، جب تک دَھر نہیں لیا جاتا اور جب دَھر لیا جاتا ہے، تو پولیس وین میں بیٹھ کر پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلیوں سے ”وی“ (V) کا نشان بنانا نہیں بھولتا، جس سے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ڈٹے رہو جیت بالآخر بدعنوانی کی ہوگی۔ جیل جاتے ہی وہ بیمار پڑ جاتا ہے اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسپتال کے اسپیشل وارڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی ضمانت ہو گئی، تو ٹھیک ورنہ میڈیکل بورڈ فوراً اس کی مرضی کے ملک میں علاج کی سفارش کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہوا نو دو گیارہ ہو جاتا ہے کہ؎
    اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
    پھر ملیں گے اگر خدا لایا

    (طنز و مزاح‌ پر مبنی یہ تحریر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی "تصنیف کتنے آدمی تھے؟” سے چنا گیا)

  • ایک مشہور شعر اور سودا کی شاعر سے متعلق پیش گوئی

    ایک مشہور شعر اور سودا کی شاعر سے متعلق پیش گوئی

    اردو کے کئی بڑے اور معروف شعرا کا کلام یا وہ اشعار جنھیں‌ ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا، کسی تذکرہ نویس کی غلطی، یا ناقص معلومات کے سبب کسی دوسرے شاعر کے نام سے مشہور ہوگئے اور یہ اشعار آج بھی زباں زدِ‌ عام ہیں، مگر اصل شاعر کا نام کسی کو معلوم نہیں بلکہ یہ ایک بحث ہے اور اس پر بھی مصنّفین اور ادبی محققین نے بہت کچھ لکھا ہے۔

    یہاں‌ ہم آپ کو مولانا محمد حسین آزاد جیسے صاحبِ طرز ادیب کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں مرزا رفیع سودا سے متعلق رقم ایک واقعہ سنارہے ہیں جو ایسے ہی ایک شعر اور شاعر کے تذکرے پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ’’ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کی بارہ تیرہ سال کی عمر تھی، اس نے غزل پڑھی، مطلع تھا۔

    دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
    اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

    گرمی کلام پر سودا بھی چونک پڑے۔ پوچھا۔ یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا حضرت، یہ صاحبزادہ ہے، انہوں نے بھی بہت تعریف کی، بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ لڑکے! جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت کچھ دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا۔‘‘

    بعض ناقدین نے اس سارے قصے کو آزاد کا طبع زاد افسانہ کہا ہے۔ ان کے بقول یہ شعر اس لڑکے کا ہے ہی نہیں بلکہ یہ پنڈت مہتاب رائے تاباں دہلوی کے شعر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ تاباں، میر درد کے ہم عصر تھے۔ بعض تذکرہ نویس تاباں، بعض تائب اور بعض تاب لکھتے ہیں۔ مختار الدین احمد، تائب کو درست کہتے ہیں۔ ایک کتاب ’’آثار شعرائے ہنوز‘‘ مطبوعہ 1886ء میں تاباں اور تاب کو الگ الگ شاعر کہا گیا ہے۔ دونوں کو برہمن لکھا ہے۔ تاب کشمیری الاصل تھے اور ان کا نام مہتاب رائے تھا۔ تاباں کے متعلق جن سے یہ شعر حقیقتاً منسوب ہے، لکھا ہے۔ ’’پنڈت مہتاب رائے بارہ برس کے تھے کہ انہوں نے میر درد کے مشاعرے میں آکر غزل پڑھی۔ مطلع یہ ہے:

    ’’شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے… الخ‘‘

  • ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشۂ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعۂ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔

    اب شاعری ہمارے لیے ذریعۂ عزت ہے مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی اور میں سوچتا ہوں کہ خازن تو لوگ غالب کے زمانے میں بھی بنتے ہوں گے اور اس پر خوش ہوتے ہوں گے۔ عہدوں اور مراتب اور ہاتھی اور بگھی کی سواری کی فکریں اوروں کو بھی تھیں اور خود غالب کو بھی ستاتی تھیں۔ اسی قسم کی فکریں سر سیّد اور اکبر کے زمانے میں بھی آدمی کی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں گی۔ لیکن کبھی عقائد کے اثر و رسوخ نے اور کبھی قومی تحریکوں نے ہمارے معاشرہ میں ایسی پنچائتی فکریں پیدا کر دیں کہ نجی فکریں محض نجی بن کر رہ گئیں۔ وہ معاشرہ پر حاوی نہیں ہو پائیں۔

    پچھلے سو برس سے ہمیں بڑی فکر یہ چلی آتی تھی کہ ہم نے صدیوں کے فکر و عمل سے جو سچائیاں دریافت کی ہیں اور جو، اب ہماری زندگی ہیں، ان سچائیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے فکر کے یہ معنی ہیں کہ لوگ اپنی نجی ضرورتوں کے ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر کسی اجتماعی ضرورت میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس یقین کی بدولت وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر کسی اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کو ایمان کہا جاتا ہے اور ٹی ایس ایلیٹ کا یہ کہنا ہے کہ جو قوم ایمان سے محروم ہے وہ اچھی نثر پیدا نہیں کرسکتی مگر اس میں نثر کی کیا تخصیص ہے۔ ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کرسکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثر نگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک موثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے۔ جب اصل الاصول ذاتی منفعت ہو تو دولت کمانے کے آسان نسخوں کے لیے دوڑ دھوپ روحانی جد وجہد کا سا رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ عام لوگ موٹر کار کی چابی کی آرزو میں صابون کی ٹکیاں خریدتے ہیں اور معمے حل کرتے ہیں اور اہلِ قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کے لیے یا ادبیوں کی بہبود کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں مگر ادب، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیرِ آسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کیے جاتے ہیں۔

    ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کے لیے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔

    جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں اور شہادت اسلامی روایت میں ایک بنیادی اور مطلق قدر کا مرتبہ رکھتی ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو جو شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے وہ گویا شہادت پیش کرتا ہے۔

    لفظ خود ایک شہادت ہے۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا اس نے تخلیق کی تھی پھر یہ تخلیق فعل و عمل میں شیر و شکر ہوگئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں۔ ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے اس کا اس تخلیقی عمل کی تلاش پر بھی ایمان رہتا ہے۔ یعنی ادب بنفسہ اس کے لیے ایک قدر کا، ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے میر و غالب اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔

    بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے اور ان اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔ صُمً بُکم عُمی فہم لایرجعون۔ یہ لوگ کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں، موٹر کار اور غیر ملکی وظیفوں کی باتیں کرتے ہیں، ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔

    (ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی تحریر سے اقتباس)

  • ’’کیا اُدھر باغ بھی ہے؟‘‘

    ’’کیا اُدھر باغ بھی ہے؟‘‘

    محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں ایک دوست سے کہا کہ مجھے خبر نہیں کہ اس میں کوئی پائیں باغ بھی ہے۔

    واقعہ نہایت مشہور ہے لیکن اسے محمد حسین آزاد کے گل و گلزار الفاظ میں سنا جائے تو لطف اور ہی کچھ ہوگا، ’’میر(میر تقی میر) صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا۔ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں۔ کئی برس گزر گئے، اسی طرح بند پڑی رہیں، کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔

    ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا، ’’ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے؟‘‘ میر صاحب بولے، ’’کیا ادھر باغ بھی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اِس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اُس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپ ہو رہے۔

    کیا محویت ہے! کئی برس گزر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر، ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔ خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے، آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘

    اس بیان کے داخلی تضادات کو دیکھتے ہوئے شاید ہی کسی کو اس بات میں کوئی شک ہو کہ یہ واقعہ محض سنی سنائی گپ پر مشتمل ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے جن دو تذکروں پر کثرت سے بھروسا کیا ہے، ان میں یہ واقعہ مذکور نہیں۔ میری مراد قدرت اللہ قاسم کے ’’مجموعۂ نعز‘‘ اور سعادت خاں ناصر کے ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ سے ہے۔ لیکن ’’آب حیات‘‘ کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے اور آج تک میر کے بارے میں عام تصور یہی ہے کہ وہ مردم بیزار نہیں تو دنیا بیزار ضرور تھے۔

    دنیا اور علائق دنیا سے انھیں کچھ علاقہ نہ تھا، اپنے کلبۂ احزاں میں پڑے رہنا، دلِ شکستہ کے اوراق کی تدوین کرنا اور اپنی غزلوں کے ’’پھٹے پرانے مسودے‘‘ مجمتمع کرتے رہنا گویا ان کا وظیفۂ حیات تھا۔ اگر مولانا محمد حسین آزاد کا بیان کردہ واقعہ فرضی ہے تو اغلب ہے کہ اس کی بنیاد میر کے حسبِ ذیل شعر پر قائم کی گئی ہوگی۔ دیوانِ پنجم میں میر کہتے ہیں:

    سرو لب جو لالہ و گل نسرین و سمن ہیں شگوفہ ہے
    دیکھو جدھر اک باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا باغ

    (عظیم شاعر میر تقی میر کے فن و شخصیت پر معروف ادیب، نقّاد اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریر سے اقتباس)

  • کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    وطنِ عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جال و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومت وقت اور برسر اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحت قلب اور روحت روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔ مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔ شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔

    حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • آگرے والا عبدالکریم اور ملکہ وکٹوریہ

    آگرے والا عبدالکریم اور ملکہ وکٹوریہ

    بہت پیارے شوہر البرٹ اور بے حد عزیز ملازم جان براؤن کے مرنے کے بعد جب ملکہ وکٹوریہ کی زندگی پر ہو کا عالم طاری تھا، ایسے میں آگرے سے ایک چوبیس برس کا خوب رو نوجوان آیا اور خدمت کرتے کرتے ملکہ کے دل میں البرٹ اور براؤن جیسی چاہت جگا دی۔

    یہ آگرہ جیل میں ایک دیسی ڈاکٹر کا بیٹا عبدالکریم تھا، جو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پڑھتا ہوا اور قرآن حفظ کرتا ہوا ہندوستان سے آیا اور ملکہ نے اس سے کہا کہ ہندوستانی بول کر دکھاؤ۔ وہی لفظ ملکہ نے دُہرائے اور خود اپنی آواز سن کر اتنی خوش ہوئیں کہ اگلے ہی لمحے عبدالکریم، منشی عبدالکریم ہوگئے۔ ہر چند کہ ملکہ کی بینائی ان کا ساتھ چھوڑ رہی تھی لیکن جب منشی نے ہاتھ پکڑ کر ان سے اردو لکھوائی تو جھروکوں سے جھانکنے والوں نے ایسے افسانے تراشے کہ لگتا تھا شاہی محل میں کوئی انسان نہیں بھوت پریت چلا آیا ہے۔

    ادھر ملکہ نے اپنی آنکھوں کے جھرکوں سے ہندوستان کے ایسے سہانے خواب دیکھنے شروع کیے کہ جن میں کہیں پگڑیاں باندھے توانا مرد تھے تو کہیں ساڑھیوں میں لپٹی لپٹائی شرمیلی عورتیں۔ کہیں مسجدوں سے بلند ہوتی اذان تھی اورکہیں چنگھاڑتے ہاتھیوں کا شور۔ حالت یہ ہوئی کہ ملکہ نے اپنے درو دیوار ہندوستان سے آئی ہوئی سوغاتوں اور اپنا تن بدن مہاراجوں کے بھیجے ہوئے زیورات سے سجالیا۔

    اس دوران آگرے کا وہ نوجوان برطانیہ کا جینٹل مین بن گیا اور محل اور دربار کی اونچی نشستوں پر بیٹھنے اور شاہی سواریوں میں سفر کرتے کرتے وہ تمام لوگوں کے آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگا جن کی آنکھوں کی رنگت اس کی آنکھوں کی رنگت سے جدا تھی۔
    وہ تو تین تین دن انتظار کرتے تھے اور ملکہ سے ملاقات کی سعادت نصیب نہیں ہوتی تھی اور یہ کہ گھنٹوں ملکہ کے خلوت خانے میں راز و نیاز کیا کرتا تھا اور کبھی اپنا منصب بڑھانے کی فرمائشیں کیا کرتا تھا اور کبھی ترچھی نظروں سے دیکھنے والوں کی شکایتوں کے طومار باندھا کرتا تھا اور اگلی ہی صبح ان کے نام ملکہ کا خط آتا تھا کہ خبردار۔

    البرٹ اب تک ملکہ کے دل و دماغ میں سمایا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں پڑے ہوئے لاکٹ میں اب بھی البرٹ کی چھوٹی سی تصویر تھی۔ ملکہ جب کوئی خوش نما منظر دیکھتی اس تصویر کو بلند کر کے اسے بھی دکھاتی۔ ملکہ کی چاہت کے انداز سب سے جدا تھے اسی لئے کوئی نہ انہیں سمجھ پایا نہ ان کی محبت کو اور ایک مرحلے پر ملکہ کو پاگل دئیے جانے کے منصوبے باندھے جانے لگے۔

    اپنے چہیتے منشی کی خاطر ملکہ نہ جانے کس کس سے لڑی، کس کس کا منہ نوچا، کتنی ہی بار آٹھ آٹھ آنسو روئی اور کتنی ہی بار اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھا کہ بخار اترا کہ نہیں۔ محل کی زندگی سپاٹ ہو چلی تھی۔ بس کبھی کبھار ملازمائیں گاتیں اور ملکہ بیٹھی مسکراتیں پھر سو انگ رچائے جانے لگے۔ اسٹیج سجنے لگے اور سارا شاہی خاندان اور تمام ملازم اداکاری کرنے لگے، جہاں کہیں رنگ دار اور داڑھی والے اداکاروں کی ضرورت ہوتی۔ ہندوستانی ملازم یہ فرض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے۔ منشی عبدالکریم بھی سوانگ رچاتے اور ملکہ دل ہی دل میں داد دیا کرتیں۔ جس کو بھی موقع ملتا وہ ملکہ کے کان میں یہ بات ضرور پھونکتا کہ منشی اسٹیج ہی کا نہیں سچ مچ کا بہروپیا ہے۔ آپ کو خبر نہیں کہ آپ نے آستین میں کیا سانپ پال رکھا ہے۔کچھ تو ملکہ کی سماعت میں ثقل آ چلا تھا۔ کچھ انہوں نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دینے کاگر سیکھ لیا تھا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔

    منشی پر الزام لگا کہ وہ ہندوستان کے شورش پسندوں سے جا ملا ہے وہ مسلم لیگ بنا رہا ہے، اس کے دوست تاج برطانیہ کے راز کابل کے دربار کو بھیج رہے ہیں۔ وہ سوزاک اور جریان جیسے مرض میں میں مبتلا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ 1897ء میں ملکہ نے اپنے مشیروں کی بات پر دھیان دینا شروع کیا۔ مؤرخوں کو خبر بھی نہیں کہ اس سن میں ملکہ منشی کو لکھ رہی تھیں کہ میں نے اپنے وصیت نامے میں تمہاری فلاح کا بڑا خیال رکھا ہے کس کو پتا تھا کہ ملکہ اتنی عمر پائیں گی۔ ولی عہد شہزادے خود بوڑھے ہوئے جا رہے تھے اور ملکہ تھیں کہ جیے جارہی تھیں۔ مئی1897ء میں ان کی عمر کی 78 ویں سال گرہ ہوئی تو بولیں کہ میں کافی جی لی لیکن دعا کرتی ہوں کہ اپنے ملک اور اپنے پیاروں کی خاطر مجھے تھوڑی سی مہلت اور مل جائے۔

    وہ خوب ملی۔ ان کے ذاتی طبیب اور منشی عبدالکریم کے ذاتی دشمن ڈاکٹر ریڈ کے سپرد یہ کام تھا کہ ملکہ کی سانس اور نبض پر نگاہ رکھیں۔ انہیں اور ساڑھے تین سال اور انتظار کرنا پڑا تب کہیں 17 جنوری 1901ء کی صبح انہوں نے دیکھا کہ ملکہ کے چہرے پر فالج کا اثر ہے۔ ولی عہد شہزادہ اس انتظار میں ساٹھ برس کا ہوگیا تھا کہ ملکہ کی آنکھ بند ہو تو اس کے چاہنے والوں کے مجسمے پھوڑے اور کاغذ نذر آتش کرے۔ ملکہ پر غشی کا عالم طاری، صاف ظاہر تھا کہ یہ وقت رخصت ہے لیکن یہ بھی ظاہر تھا کہ وہ ابھی جانے کو تیار نہیں۔ پہلی بار کسی نے ان کے جذبات کا خیال کیا اور منشی عبدالکریم ان کے کمرے میں لائے گئے۔ وہ آنکھیں موندے لیٹی تھیں اور زندگی کے ٹمٹماتے دئیے سے لڑے جا رہی تھیں۔ منشی نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آنسوؤں کے سیلاب کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔ ہو نہ ہو وہ زیرِ لب کچھ ضرور پڑھ رہے ہوں گے۔

    (رضا علی عابدی کی کتاب ”ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم“ سے انتخاب)

  • "چچی سیدانی تھیں….”

    "چچی سیدانی تھیں….”

    خاکہ نگاری اردو میں‌ ایک مقبول صنف رہی ہے۔ زیادہ تر اہلِ قلم نے ان شخصیات کے خاکے لکھے ہیں جو فنونِ لطیفہ کے کسی خاص شعبہ میں نام ور ہوئے یا کسی خاص میدان میں اپنے کام کی وجہ سے مشہور تھے۔ کئی بڑے خاکہ نگاروں نے اردو زبان میں تازگی و توانائی، دل کشی و شگفتگی اور ادبی روایت و معیار کو برقرار رکھتے ہوئے مشاہیر اور معروف لوگوں‌ کے شان دار خاکے لکھے ہیں۔

    آج بھی اردو کے رسائل و جرائد میں بھی یہ شخصی خاکے اور تذکرے شائع ہورہے ہیں اور انھیں دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ لیکن کسی عام آدمی، یا معمولی کام کرنے والے انسان کی شخصیت اور اس کے کام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اردو میں مولوی عبد الحق نے بلاشبہ لازوال خاکہ اپنے مالی نام دیو کا لکھا تھا۔ اسی طرح رشید احمد صدیقی جیسے ادیب کا خاکہ بعنوان کندن بہت مشہور ہوا۔ پیشِ نظر اقتباس ڈاکٹر اسلم پرویز کے شخصی خاکے اور تذکرے پر مبنی کتاب سے لیا گیا ہے اور یہ بھی ایک عام عورت کے بارے میں ہے۔ یہ خاتون ڈاکٹر اسلم پرویز کی چچی ہیں جن کی عادات اور زندگی کے بعض واقعات کو مصنّف نے دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اسلم پرویز کا یہ خاکہ بلاشبہ ایک عام اور بیوہ عورت کو جو کہ اپنا درست نام بتانے پر بھی قدرت نہیں رکھتی تھی اسے حیاتِ جاوداں عطا کرتا ہے۔

    اسلم پرویز نے چچی کی زندگی کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ قاری کے سامنے چلتی پھرتی اور بات چیت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ چچی کی پسند اور ناپسند، مجبوری و ناچاری میں کروفر کے ساتھ زندگی گزارنے کی جو جھلک اس خاکے میں دکھائی دیتی ہے وہ مصنّف کا کمال ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کے مطابق فصیح اردو میں چچی کا نام تو محمد النّسا تھا لیکن جب وہ اپنا تعارف خود کراتیں تو اپنا نام ٹھہراؤ کے ساتھ ممد نساں اور روانی میں ممن نساں بتاتی تھیں۔ چچی کا تعارف خود اسلم صاحب کی زبان سے ملاحظہ کیجیے:

    ’’چچی نے لگ بھگ اسّی برس کی زندگی پائی۔ زندگی کی آدھی صدی انھوں نے ۱۹۴۷ کے پہلے کی دلّی میں گزاری اور آدھی سے کچھ کم ۴۷ کے بعد کی دلّی میں۔ چچی ان لوگوں میں سے تھیں جو اپنے زمانے کے علاوہ کسی اور زمانے میں نہ تو جینا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی جی سکتے ہیں۔ اس لیے چچی نے بھی ۴۷ کے بعد اپنی زندگی کے پینتیس چالیس سال پرانی دلّی کے ان ہی محلوں میں گزار دیے جہاں وقت بالکل اسی طرح ٹھہرا ہوا ہے جس طرح سیلاب گزر جانے کے بعد سیلاب کا پانی آس پاس کے گڑھوں میں ٹھہرا رہ جاتا ہے۔ لیکن ۴۷ کے بعد تو چچی بس ایک ہی بار فصیل کے باہر آئیں اور وہ بھی تب جب ہم انھیں دلّی دروازے کے باہر پہنچانے گئے تھے۔”

    ڈاکٹر محمد اسلم پرویز لکھتے ہیں، چچی ہمارے گھر میں کتنے ہی مختصر دورے پر کیوں نہ آئیں لیکن چاق و چوبند پریس رپورٹر کی طرح وہ جلدی جلدی اپنی تمام تفتیش مکمل کر لیا کرتی تھیں۔

    یہ خاکہ بعنوان چچی ہندوستانی معاشرے کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جس میں زندگی کے تمام رنگ شامل ہیں۔ اپنا دکھ خواہ کیسا ہو مگر چچی کسی دوسرے کو رنج و الم میں نہیں دیکھ سکتیں۔ غریبی کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا مگر زمانے سے آنکھ ملا کر جینا بھی انھوں نے سیکھ لیا تھا۔ روزمرہ کی زندگی اور بیمار، آرام کے بہت سے معاملات کبھی اعتقاد کے ضعف سے تو کبھی خوش اعتقادی سے حل کر لیتیں۔ بزرگوں سے انھیں کوئی بیر نہ تھا مگر قبروں کے جلالی پہلوؤ ں کی نشان دہی بھی خوب کرتی تھیں۔ فصیل بند علاقے کے جن جن گھرو ں میں ان کا آنا جانا تھا وہاں ایک ملازم سے کہیں زیادہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتیں اورپورے محلے کے لیے ان کی حیثیت چلتی پھرتی خبر رساں ایجنسی کی طرح تھی۔

    اس شخصی خاکے میں‌ اسلم پرویز مزید لکھتے ہیں: چچی نے بیوہ اور بے سہارا ہونے کے بعد اپنے تمام تر دقیانوسی پن کے باوجود حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھ لیا تھا۔ وہ سیدانی تھیں اور اس زمانے کی سیدانی جب شادی بیاہ کے معاملوں میں لڑکی دیتے ہوئے اس بات کا بہت خیال رکھا جاتا تھا، لیکن جب چچی نے اپنی لڑکیوں‌ کی شادیاں کیں تو ان کے سامنے ایک ہی بات تھی اور وہ یہ کہ رانڈ ماں کی جوان بچیاں‌ جتنی جلدی ہوسکے اپنے گھر کی ہو جائیں اچھا ہے۔ انھوں نے سید زادوں کے انتظار میں اپنی لڑکیوں کو چھاتی پر نہیں‌ بٹھائے رکھا۔ میں نہیں‌ کہہ سکتا کہ ان کے چاروں دامادوں میں سے کوئی سید زادہ ہے کہ نہیں۔

  • گم شدہ کی تلاش

    گم شدہ کی تلاش

    یہ اشتہار میں اپنے گم شدہ بھائی چنتا منی کے متعلق دے رہا ہوں۔ موصوف ایک مرتبہ پہلے بھی گم ہوگئے تھے، لیکن اس وقت میں نے اشتہار نہیں دیا تھا۔

    کیونکہ میرا خیال تھا کہ موصوف خود دار آدمی ہے، اس لیے اس نے ضرور کنوئیں میں چھلانگ لگا دی ہوگی۔ لیکن چھٹے دن وہ میلی چکٹ پتلون کے ساتھ گھر لوٹ آیا اور بقول ہمارے چچا کے ’’آخر تو ہمارا ہی خون تھا، کیوں نہ لوٹتا، خون نے جوش مارا ہوگا۔‘‘

    ہمیشہ اجلی پتلون پہننے والا کب تک گھر سے باہر رہ سکتا تھا۔ خودی چاہے کتنی ہی بلند ہو جائے پتلون کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مگر اس بار مجھے یقین ہے کہ موصوف لوٹ کر نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ گھر سے دو سو روپے اٹھا کر لے گیا ہے۔ اس لیے اب اس کی رگوں میں ہمارا خون جوش نہیں مارے گا۔ اشتہار دینے کی ایک اور وجہ والدہ محترمہ ہیں، جو موصوف کو ابھی تک ’’نادان لڑکا‘‘ گردان رہی ہیں۔ میں نے لاکھ کہا کہ مادر مہربان! چنتا منی اب بیس برس کا ہوچکا ہے نادان نہیں رہا۔ وہ چہرے مہرے سے ہی گدھا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے کافی کائیاں ہوچکا ہے۔ مگر والدہ محترمہ جس نے اس گدھے کو جنم دیا، اپنی تخلیق پر زیادہ مستند رائے رکھتی ہیں، اس نے مجھے طعنہ دیا، ’’دراصل تم چھوٹے بھائی کی غیرحاضری میں ساری آبائی جائیداد کو تنہا ہڑپ کرنا چاہتے ہو۔‘‘

    ہماری آبائی جائیداد دو کمروں والا ایک مکان ہے جو ہم نے کرائے پر لے رکھا ہے یا پھر والد محترم کے قبضہ میں ایک بہی کھاتا ہے جس میں درج ہے کہ ہمارے خاندان کے پاس ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ہے جس پر آج کل ایک دریا بہہ رہا ہے۔ والد محترم گزشتہ گیارہ برس سے اس دریا کے سوکھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

    اگرچہ والدہ محترمہ کے طعنہ کی بنیادیں دریا برد ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی ایک فرماں بردار فرزند کے طور پر میں یہ اشتہار دینے پر مجبور ہوا ہوں۔

    برادر عزیز چنتا منی کی تصویر مجھے نہیں مل سکی ورنہ اس اشتہار کے ساتھ ضرور چھپواتا۔ دراصل اس کے جتنے فوٹو تھے وہ اس نے اپنی وقتاً فوقتاً قسم کی محبوباؤں میں بانٹ دیے تھے۔ پوچھنے پر چنتا منی کی ہر محبوبہ نے جواب دیا کہ اس کے پاس چنتا منی کی فوٹو تھی، وہ اس نے رسوائی کے خوف سے ضائع کر دی ہے۔ ایک محبوبہ تو اتنی صاف گو نکلی کہ اس نے تنک کر جواب دیا، ’’میں نے شادی ہوتے ہی چنتا منی کی وہ فوٹو لوٹا دی تھی اور آج کل بٹوے میں اپنے خاوند کا فوٹو رکھتی ہوں۔‘‘

    چنانچہ فوٹو دستیاب نہ ہونے کے باعث مجبوراً میں اپنا ہی فوٹو اس اشتہار کے ساتھ شائع کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود گم شدہ میرے بھائی کو سمجھا جائے، مجھے نہیں۔

    والد اور والدہ محترمہ دونوں کی متفقہ رائے ہے کہ چنتا منی کی ناک تم سے ملتی ہے، اس لیے پہچاننے میں آسانی رہے گی۔ ہمارے نانا مرحوم کی ناک بھی تم دونوں نواسوں سے ملتی تھی اور وہ بھی گھر سے بھاگ گئے تھے (عجیب ناک ہے، نانا کے وقت سے کٹ رہی ہے) بہرکیف فوٹو میں میری ناک حاضر ہے۔ ناک کے علاوہ میرے جتنے اعضا ہیں وہ میرے ذاتی ہیں۔ برادر عزیز چنتا منی کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

    برادر موصوف چنتا منی کے باقی ناک نقشہ کے متعلق پوزیشن یہ ہے کہ اس کا رنگ بچپن میں دودھ کی طرح گورا تھا (ان دنوں وہ صرف ماں کا دودھ پیا کرتا تھا) لڑکپن میں وہ دودھیا رنگ گندمی ہوتا گیا، کیونکہ اس نے گندم کھانا شروع کردی تھی۔ جوان ہوتے ہی رنگ کا میلان سیاہی کی طرف ہوگیا، نہ جانے جوانی میں چوری چھپے اس نے کیا کھانا شروع کردیا تھا۔ البتہ جب والد محترم اسے ہیبت ناک قسم کی گالیاں اور بھبکیاں دیا کرتے تو لمحہ بھر کے لیے اس کا رنگ پیلا بھی پڑ جاتا تھا۔ گویا چنتا منی بڑا رنگا رنگ آدمی تھا (خدا اسے ہر رنگ میں خوش رکھے۔)

    آنکھیں بڑی بڑی مگر گونگی قسم کی، جیسے کوئی حسینہ بغیر بیاہ کے بیوہ ہو گئی ہو۔ کئی بار میں نے اسے مشورہ دیا، ’’ارے پگلے! ان پر کالا چشمہ لگالے، بات بن جائے گی۔‘‘ مگر وہ نہیں مانا۔ ایک بار میں نے اپنی بیوی کی آنکھ بچا کر اپنا چشمہ اسے دے بھی دیا مگر وہ اس نے ایک دوست کو دے دیا۔ دوست نوازی میں تو وہ بے مثال تھا۔

    والد محترم اسے دوست نوازی پر ہمیشہ چھڑی سے پیٹا کرتے تھے اور اس پٹائی کو وہ کمال صبر و شکر سے سہ لیتا تھا۔ صبر و شکر میں بھی بے مثال تھا۔ والد محترم نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی شریف اور صابر لڑکا پیدا کیا ہے اور وہ چنتا منی ہے۔ بزرگوں کے سامنے چوں تک نہیں کرتا۔ آہ اس کے بھاگنے کے بعد اب ان بزرگوار کی چھڑی کسی کام نہیں آرہی۔

    چنتا منی کی پیشانی پر ایک داغ ہے۔ ایک بار وہ چھت پر کھڑا ایک لڑکی کو گھور رہا تھا۔ لڑکی مذکورہ نے جواباً ایک اینٹ دے ماری۔ اگرچہ چنتا منی نے اس خشت محبت کا ذکر کسی سے نہیں کیا مگر بعد میں اس ناشائستہ لڑکی نے اپنی سہیلیوں سے ذکر کردیا تو بات پھیل گئی اور اس ڈاکٹر تک بھی جاپہنچی جس نے علاج کا بل ایک دم یہ کہہ کر بڑھا دیا کہ اینٹ کا زخم زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

    چنتا منی کے جسم کے باقی حصے صحیح سلامت ہیں۔ وہ ایک مضبوط الجثہ نوجوان ہے۔ غلہ کی بوری اٹھا کر تین میل تک چل سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وقت بھی کسی غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کر رہا ہو اور منڈی کے بیوپاری اسے نہایت قلیل اجرت دے رہے ہوں۔ کیونکہ چنتا منی کو بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا۔ اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ سوائے خاموش رہنے کے۔ سوائے ستم سہنے کے۔ مگر میں بیوپاریوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس ستم پسندی کا زیادہ استحصال نہ کریں، ورنہ وہ ان کے ہاں سے بھی بھاگ جائے گا۔ کیونکہ بھاگنے کے لیے اس کے پاس پاؤں موجود ہیں۔ چنتا منی کی زبان کام نہیں کرتی، پاؤں کام کرتے ہیں۔

    چنتا منی کیوں بھاگا؟ اس کے متعلق مؤرخین کی آراء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ والد محترم یعنی ابوالچنتا منی کا خیال ہے کہ لڑکا شادی کا خواہش مند تھا مگر اسے دور دور تک شادی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مگر عم الچنتا منی یعنی چچا جان اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ چنتا سرے سے شادی سسٹم کے ہی خلاف تھا اور برہم چریہ میں یقین رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک ذمہ دارانہ سوجھ بوجھ کا مالک تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی دو بہنیں ابھی تک کنواری بیٹھی ہیں۔ یعنی برہم چریہ کے لیے اس کے پاس ٹھوس وجہ موجود تھی۔۔۔ تیسرے مؤرخ ام الچنتا منی یعنی والدہ محترمہ کی رائے چچا جان سے کسی حد تک ملتی ہے، صرف اس ترمیم کے ساتھ کہ بہو (یعنی میری زوجہ) نے ہی اسے یہاں سے فرار ہونے میں مدد دی ہے۔

    خود بہو بھی اس قسم کی ایک الگ رائے رکھتی ہے۔ یعنی جو ساس کہے اس کے الٹ۔

    قارئین! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ چنتا منی کی خاطر مجھے اپنے کنبہ کی اندرونی حالت ظاہر کرنا پڑی اور باعزت کنبے کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ لیکن پورا پس منظر دیے بغیر چنتا منی کی تلاش ناممکن ہے، بہرکیف مؤرخین کے ان شدید اختلافات کی موجودگی میں وثوق سے کہنا ناممکن ہے کہ چنتامنی کیوں بھاگا؟ بیکاری، بیزاری، کنوارپن، کند ذہنی، پٹائی، ڈیموکریسی، صنعتی ارتقا، برہم چریہ، قربانی، بے وقوفی۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک وجہ بھی ہوسکتی ہے یا ساری وجہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ شاید چنتا منی ان تمام وجہوں کو اپنے ذہن میں پالتا رہا، پالتا رہا اور اس دن یہ تمام وجہیں منزل مقصود کو پہنچ گئیں جب اچانک دو سو رپے اس کے ہاتھ لگ گئے۔

    یہ دو سورپے میرے ایک دوست کی امانت تھے اور اب اس نے مجھ پر مقدمہ کر رکھا ہے۔

    عزیز چنتا منی کی تلاش میں ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ڈھونڈا، جیل خانے چھانے، جوئے خانوں میں گئے، فلم کمپنیوں سے پوچھا۔ میری ماں درختوں سے پوچھتی پھری۔ والد محترم نے مختلف ریل گاڑیوں پر سفر کیا لیکن چنتا منی جیسے ایک خدا تھا کہ کہیں نہیں ملا۔

    (ممتاز اردو ادیب اور معروف مزاح نگار فکر تونسوی کی ایک شگفتہ تحریر)

  • بی آر چوپڑا: منفرد فلم ساز، ایک باکمال ہدایت کار

    بی آر چوپڑا: منفرد فلم ساز، ایک باکمال ہدایت کار

    بلدیو راج چوپڑا کو بھارتی فلمی صنعت کا ایک ستون مانا جاتا ہے۔ بلدیو راج جنھیں عام طور پر بی آر چوپڑا پکارا جاتا ہے، ایسے فلم ساز تھے جس نے عام روش سے ہٹ کر فلمیں بنائیں اور فلم بینوں‌ کو اپنی فلموں سے متاثر کیا۔ بی آر چوپڑا 5 نومبر 2008ء کو چل بسے تھے۔

    94 سال زندہ رہنے والے بی آر چوپڑا 1914ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا بچپن اور جوانی لاہور میں‌ گزری۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بی آر چوپڑا بھارت چلے گئے اور دہلی میں‌ قیام کیا، مگر پھر ممبئی منتقل ہوگئے۔

    یہ بھی پڑھیے:
    جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!

    بی آر چوپڑا کو انگریزی زبان و ادب کے ساتھ شروع ہی سے اردو ادب سے بھی لگاؤ رہا۔ وقت کے ساتھ فنونِ لطیفہ میں ان کی دل چسپی بڑھتی گئی۔ فلم بینی کا شوق ہوگیا اور اس قدر بڑھا کہ فلم سازی کی تکنیک، اور کہانی وغیرہ کے بارے میں اپنے علم اور بنیادی معلومات کے حصول کے بعد انھوں نے فلموں پر تبصرے کرنا شروع کردیے۔ اس دور کے انگریزی ماہ نامے میں ان کے فلمی تبصرے شایع ہونے لگے اور یہی آغاز فلم انڈسٹری میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کے کیریئر کی بنیاد بنا۔ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم نے انھیں جو تخلیقی شعور دیا تھا، اسی نے بی آر چوپڑا کو فلموں کا تنقیدی جائزہ لینے پر آمادہ کرلیا۔ وہ اس میدان میں کام یاب ہوئے۔ اس دور کی فلموں اور ان کے اسکرپٹ کی کم زوریوں اور خامیوں پر تبصروں نے بی آر چوپڑا کو بطور فلمی نقّاد مشہور کردیا۔ ان کی یہ قابلیت اور تنقیدی بصیرت ممبئی اُس وقت خود اُن کے کام آئی جب بی آر چوپڑا نے خود فلم سازی اور ہدایت کاری کا آغاز کیا۔

    1955ء میں انھوں نے بی آر فلمز کے نام سے باقاعدہ فلم کمپنی قائم کر لی۔ اس سے قبل وہ دو فلمیں بنا چکے تھے۔ بی آر چوپڑا تخلیقی انفرادیت کے قائل تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کیا۔ اسی روایت شکنی اور انفرادیت نے انھیں باکمال فلم ساز بنایا۔ بی آر چوپڑا نے فلم انڈسٹری کے تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی۔ فلمیں بنانا، ہدایت کاری، فلمی کہانیاں لکھنا اور اداکاری بھی کی۔ 1949ء میں بی آر چوپڑا نے ’کروٹ‘ سے فلم سازی کا آغاز کیا تھا جو فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ 1951ء میں ان کی بطور ہدایت کار فلم ’افسانہ‘ سامنے آئی اور یہ ان کی پہلی کام یاب فلم بھی تھی۔ بی آر فلمز کے بینر تلے ان کی پہلی فلم ’نیا دور‘ تھی۔ فلم بینوں نے اسے بہت سراہا اور اس فلم نے کام یابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں سماجی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنیں جن میں‌ لوگوں کے لیے کوئی پیغام ہوتا تھا۔ بی آر چوپڑا نے ’باغبان اور بابل‘ جیسی فلموں کی کہانی بھی لکھی۔ ان کی فلم ’نیا دور‘ کا موضوع اس وقت کی فلموں کی روش سے بالکل مختلف تھا اور یہ تھا نئے مشینی دور میں مزدور اور مالک کا رشتہ۔ بی آر چوپڑا فلم ’گھر‘ میں بطور اداکار بھی جلوہ گر ہوئے۔ ان کی ہدایت کاری اور پروڈکشن میں کئی کام یاب فلمیں بنی ہیں جن میں ’نکاح‘، ’انصاف کا ترازو‘، ’پتی پتنی اور وہ‘، ’ہمراز‘، ’گمراہ‘، ’سادھنا‘ اور ’قانون‘ شامل ہیں۔

    بھارت کے اس معروف فلم ساز اور ہدایت کار کے دل سے لاہور اور یہاں‌ جیون کے سہانے دنوں کی یاد کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں ’ہم لوگ پہلے گوالمنڈی میں رہا کرتے تھے، لیکن 1930ء میں میرے والد کو جو کہ سرکاری ملازم تھے چوبرجی کے علاقے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوگیا، جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تو انھی دنوں والد صاحب کا تبادلہ امرتسر ہوگیا۔ میں کچھ عرصہ لاہور ہی میں مقیم رہا کیوں کہ میں آئی سی ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ بعد میں جب مجھے فلموں میں دل چسپی پیدا ہوئی تو میں نے ماہ نامہ سِنے ہیرلڈ کے لیے مضامین اور فلمی تبصرے لکھنے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میرا قیام تو والدین کے ساتھ امرتسر ہی میں تھا لیکن فلمی رسالے میں حاضری دینے کے لیے مجھے ہر روز لاہور آنا پڑتا تھا۔ رسالے کا دفتر مکلیوڈ روڈ پر تھا، چنانچہ کچھ عرصے بعد میں نے بھی اس کے قریب ہی یعنی نسبت روڈ پر رہائش اختیار کر لی۔ فلمی رسالے میں نوکری کا سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا، جب اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور مجھے انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑنا پڑا۔‘

    بی آر چوپڑا کو فلم نگری میں اور بھارتی حکومت کی جانب سے کئی سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔ 1998ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کرنے والے بی آر چوپڑا کو اس سے قبل فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • سائیکل یا ن م راشد کی نظم؟

    سائیکل یا ن م راشد کی نظم؟

    ن م راشد کبھی اپنے دور کے دیگر شعرا کی طرح مقبول عام نہیں رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا جو امتزاج ہے وہ فکری اور جذباتی رجحانات کے تصادم، ردّعمل اور ہم آہنگی کا اک مسلسل عمل ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے خاص استعداد کے ساتھ دماغ سوزی کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ اردو کی جدید نظم ہیئت کے اظہار کے نئے زاویوں اور زبان و بیان کے تجربات میں ہمیشہ راشد کی مرہون منت رہے گی۔

    راشد صاحب کی اردو، فارسی، انگریزی اور دوسری کئی زبانوں کے کلاسیکی و جدید ادب پر گہری نظر تھی۔ شاید اسی باعث ان کے تخیل کا افق بہت وسیع اور ان کے کلام میں تفکر کا عنصر غالب رہا۔ بڑے بڑے نام اور علمی و ادبی شخصیات ن م راشد سے مرعوب تو تھے ہی، لیکن ان کی شاعری اور فکر کو تنقید کا نشانہ پر بھی رکھا اور اکثر ن م راشد کے افکار اور ان کی شاعری کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔ اس ضمن یہ دل چسپ واقعہ ادبی تذکروں پر مبنی کتب میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک روز منٹو صاحب (سعادت حسن منٹو) بڑی تیزی سے ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے کہ وہاں برآمدے میں مڈگارڈوں کے بغیر ایک سائیکل دیکھ کر لمحہ بھر کے لئے رک گئے، اور پھر دوسرے ہی لمحے ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمکیلی سی لہر دوڑ گئی اور وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے۔ "راشد صاحب، راشد صاحب، ذرا جلدی سے باہر تشریف لائیے۔” شور سن کر ن۔ م۔ راشد کے علاوہ کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو اسٹیشن کے دوسرے کارکن بھی ان کے گرد جمع ہوئے۔

    "راشد صاحب، آپ دیکھ رہے ہیں اسے، منٹو نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل! خدا کی قسم سائیکل نہیں، بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔