Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے، اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سُروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہوں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم احمد شجاع صاحب کے فرزندِ نیک اختر مسٹر انور کمال پاشا ہیں۔

    انور کمال پاشا کی شخصیت منفرد ہے۔ گو انور پاشا کی آنکھوں کا بھیڑیا پن نہیں تو ان میں ایک ہلکی سی چمک ضرور ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ دوسروں پر چھا جانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جسمانی قوّت تو خیر ان میں اسی قدر ہوگی جتنی میرے جسمِ ناتواں میں ہے مگر وہ میری طرح دھونس جما کر اس کمی کو پورا کر ہی لیتے ہیں۔ فلمی دنیا میں دراصل بلند بانگ دعوے ہی بااثر ثابت ہوتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے ’’پدرم سلطان بود‘‘ لیکن اس کے برعکس انور کمال پاشا ہمیشہ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ میرا باپ سلطان نہیں گڈریا تھا، سلطان تو میں ہوں۔

    اس میں شعبدہ بازی کے جراثیم موجود ہیں۔ جس طرح مداری اپنے منہ سے فٹ بال کی جسامت کے بڑے بڑے گولے نکالتا ہے اسی طرح وہ بھی کوئی اس قسم کا اسٹنٹ کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے اور یہ حیرت اس لیے کہ وہ چالاک نہیں، عیار نہیں، دغا باز نہیں لیکن پھر بھی جب لوگ اس کے منہ سے فٹ بال جتنے گولے باہر نکلتے دیکھتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے اس کی ساحری سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

    ہو سکتا ہے، بعد میں وہ اپنی حماقت پر افسوس کریں کہ یہ تو محض فریبِ نظر تھا، یا گولے نکالنے میں کوئی خاص ترکیب استعمال کی گئی مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ انور کمال پاشا اس دوران میں کوئی اور شعبدہ ایجاد کر لیتا ہے۔ اس وقت اپنا دوسرا فلم بنانے کے لیے سرمایہ داروں سے، بہت ممکن ہے یہ کہہ رہا ہو کہ میں اب کے ایسا فلم بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں جو ہالی ووڈ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس میں کوئی ایکٹر ہو گا نہ ایکٹریس۔ صرف کٹھ پتلیاں ہوں گی جو بولیں گی۔ گانا گائیں گی اور ناچیں گی بھی۔ اور کلائمکس اس کا یہ ہوگا کہ وہ گوشت پوست کی بن جائیں گی۔

    انور کمال پاشا پڑھا لکھا ہے۔ ایم اے ہے۔ انگریزی ادب سے اسے کافی شغف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنے فلموں کی کہانی اسی سے مستعار لیتا ہے اور حسبِ ضرورت یا حسبِ لیاقت اردو زبان میں ڈھال دیتا ہے۔ اس کے فلموں کے کردار ہمیشہ ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ اس کے والد محترم جناب حکیم احمد شجاع صاحب کسی زمانے میں اچھے خاصے ڈرامہ نگار تھے۔ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ’’باپ کا گناہ‘‘ بہت مشہور ہے۔

    انور کمال پاشا بہرحال بڑی دل چسپ شخصیت کا مالک ہے۔ وہ اتنا بولتا، اتنا بولتا ہے کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی نہیں بول سکتا۔ اصل میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اپنی آواز خود سننا چاہتا ہے اور دل ہی دل میں داد دیتا ہے کہ انور کمال پاشا تُو نے آج کمال کر دیا۔ تیرے مقابلے میں اور کوئی اتنا زبردست مقرر نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ نفسیات کے متعلق کچھ جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض انسانوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہ ریکارڈ بن جائیں اور اسے گرامو فون کی سوئی تلے رکھ کر ہر وقت سنتے رہیں۔ انور کمال پاشا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

    اس کے پاس اپنی گفتگوؤں کے کئی ریکارڈ ہیں جو اپنی زبان کی سوئی کے نیچے رکھ کر بجانا شروع کر دیتا ہے اور جب سارے ریکارڈ بج چکتے ہیں تو وہ ریڈیو کے فرمائشی پروگرام سننے والے بچوں کے مانند خوش ہو کر محفل سے چلا جاتا ہے۔

    اس نے اب تک مندرجہ ذیل فلم بنائے ہیں جن میں سے کچھ کامیاب رہے اور کچھ ناکام۔

    ’دو آنسو‘، ’دلبر‘، ’غلام‘، ’گھبرو‘، ’گمنام‘۔ اگر آپ نے یہ فلم دیکھے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں کتنے فلموں میں دریا آتا ہے جس میں کہانیوں کے کردار گرے ہیں لیکن وہ موت کا قائل نہیں۔ وہ ان کو دریا میں گراتا ضرور ہے مگر بعد میں بتاتا ہے کہ وہ ڈوبا نہیں تھا یعنی مر نہیں گیا تھا، کسی نہ کسی ذریعے سے ( انور کمال پاشا کے اپنے دماغ کی عجیب و غریب تخلیق ہوتا ہے) زندہ رہا تھا۔

    معلوم نہیں، میں کہاں تک صحیح ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انور کمال پاشا کی زندگی بھی شاید ڈوب ڈوب کر زندہ رہنے سے دوچار رہی ہے۔

    اس نے اپنی زندگی میں کئی ندیاں پار کی ہیں۔ ایک تو وہ تھی جو سہرے جلوے کی بیاہی ہوئی تھی۔ اس کو پار کرنے میں تو خیر اس کو کوئی دقّت محسوس نہ ہوئی ہوگی مگر جب اس کے سامنے وہ ندی جس کا نام شمیم تھا، بمبئی سے بہتی ہوئی لاہور آئی تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ماہر تیراک کے مانند اسے بھی پار کر گیا۔ اس کو بہت دیر سے فلم بینی کا شوق تھا۔ بعد میں یہ شوق اس دھن میں تبدیل ہوگیا کہ وہ ایک فلم بنائے۔ جب شمیم سے اس کی راہ و رسم ہوئی تو اس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور لاؤڈ اسپیکر بن کر ہر طرف گونجنے لگا کہ ’’آؤ میں فلم بنانا چاہتا ہوں۔ ہے کوئی سخی ایسا جو مجھے سرمایہ دے۔‘‘

    اس کی مسلسل صدا پر آخر کار اسے سرمایہ مل گیا۔ شمیم بمبئی میں ایک ایسی ندی تھی جس کا پانی بہت صاف ستھرا تھا۔ اس میں کئی غواص تیر چکے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پانی پتھر کی طرح ٹھہر گیا اس لیے کہ تیراکوں کے لیے وہ دل چسپی کا سامان نہ رہی۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے وطن لاہور میں واپس آنا پڑا۔ خیر اس قصے کو چھوڑیے۔ یہ کوئی اصول اور لگا بندھا قاعدہ تو نہیں لیکن عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ فلم ڈائریکٹر، عورت کے ذریعے ہی سے آگے بڑھتے ہیں اور پیچھے بھی اس کی وجہ سے ہٹتے ہیں اور ایسے ہٹتے ہیں یا ہٹائے جاتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

    پاشا نے تھوڑی دیر کے بعد شمیم سے شادی کر لی جو اپنا تنگ ماتھا، چوڑا کرنے کے لیے قریب قریب ہر روز اپنے بال موچنے سے نوچتی رہتی تھی۔ پاشا نے اس کی خوشنودی کی خاطر ضرور مصنوعی طور پر اپنے سارے پر و بال نوچ کے اس کے سامنے پلیٹ میں ڈال کر رکھ دیے ہوں گے۔ میں اب لمبے مضمون کو مختصر کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں انور کمال پاشا کی طرح طوالت پسند ہونا نہیں چاہتا۔ وہ بہت دل چسپ شخصیت کا مالک ہے اور اس شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ہٹ دھرم بھی ہے اور تلون مزاج بھی، بکواسی بھی اور بعض اوقات سنجیدہ مزاج بھی۔

    میں آپ کو اختتامی طور پر ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں آج سے کچھ عرصہ پہلے شاہ نور اسٹوڈیو میں تھا، جہاں انور کمال پاشا اپنے فلم ’’گمنام‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں اپنے کمرے کے باہر کرسی پر بیٹھا ٹائپ رائٹر میزپر رکھے کچھ سوچ رہا تھا کہ پاشا اپنی کار سے اترا اور میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھ سے کہا:

    ’’منٹو صاحب! میں ایک سخت الجھن میں گرفتار ہوں۔‘‘

    میں نے اپنے خیالات جھٹک کر پوچھا، ’’کیا الجھن ہے آپ کو؟‘‘

    اس نے کہا، ’’یہ فلم جو میں بنا رہا ہوں، اس میں ایک مقام پر اٹک گیا ہوں، آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں، ممکن ہے آپ مشکل کشائی کرسکیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’میں حاضر ہوں فرمائیے! آپ کہاں اٹکے ہوئے ہیں؟‘‘ اس نے مجھے اپنے فلم کی کہانی سنانا شروع کردی۔ دو سین تفصیل سے اس انداز میں سنائے جیسے پولیس جیپ میں بیٹھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے راہ چلتے لوگوں کو ہدایت کررہی ہے کہ انہیں بائیں ہاتھ چلنا چاہیے۔ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ الٹے ہاتھ چلا ہوں اس لیے میں نے پاشا سے کہا، ’’آپ کو ساری کہانی سنانے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کس گڑھے میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ پاشا نے حیرت آمیز لہجے میں مجھ سے پوچھا،’’آپ کیسے سمجھ گئے؟‘‘ میں نے اس کوسمجھا دیا اور اس کی مشکل کا حل بھی بتا دیا۔ جب اس نے میری تجویز سنی تو اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلنا شروع کر دیا اور اس کے بعد کہا،’’ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    میں ذرا چڑ سا گیا، ’’حضرت! اس سے بہتر حل آپ کو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا۔ مصیبت یہ ہے کہ میں فوری طور پر سوچنے کا عادی ہوں۔ اگر میں نے یہی حل آپ کو دس بارہ روز کے بعد پیش کیا ہوتا تو آپ نے کہا ہوتا سبحان اللہ۔ مگر اب کہ میں نے چند منٹوں میں آپ کی مشکل حل کر دی ہے تو آپ کہتے ہیں ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو شاید اس مشورے کی قیمت معلوم نہیں۔‘‘ پاشا نے فوراً اپنے پروڈکشن منیجر کو بلایا۔ اس سے چیک بک لی اور اس پر کچھ لکھا۔ چیک پھاڑ کر بڑے خلوص سے مجھے دیا، ’’آپ یہ قبول فرمائیں۔‘‘ اس کے اصرار پر میں نے یہ چیک لے لیا جو پانچ سو روپے کا تھا۔ یہ میری زیادتی تھی۔ اگر میں آسودہ حال ہوتا تو یقیناً میں نے یہ چیک پھاڑ دیا ہوتا لیکن انسان بھی کتنا ذلیل ہے یا اس کے حالات زندگی کتنے افسوس ناک ہیں کہ وہ گراوٹ پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔!

    (فلم انڈسٹری کے بے مثل ہدایت کار، اور فلم ساز انور کمال پاشا کے شخصی خاکے سے اقتباسات جس کے مصنّف سعادت حسن منٹو ہیں اور یہ خاکہ مصنّف کی 1955ء میں شائع ہونے والی کتاب میں شامل ہے)

  • حمید اختر جنھیں لاہور میں ایک چائے والے کی تلاش تھی

    حمید اختر جنھیں لاہور میں ایک چائے والے کی تلاش تھی

    یہ حمید اختر کا تذکرہ ہے جو ایک صحافی، اور ادیب تھے اور ترقی پسند تحریک سے دیرینہ وابستگی رکھتے تھے۔ حمید اختر قیام پاکستان کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اسی پاداش میں دو سال جیل میں گزارے۔ حمید اختر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے گہرے دوست تھے اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ ہیرو بننے کے لیے بمبئی پہنچے تھے۔

    یہ پارہ حمید اختر کی زندگی کے اہم اور دل چسپ واقعات پر مبنی ہے۔ یہ لاہور شہر میں قیام کی روداد ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    1944-45 ء کے دوران پاؤں کی گردش حمید اختر اور ساحر کو کچھ عرصہ کے لیے لاہور بھی لے آئی۔ اس دور کے متعلق کئی واقعات جڑے ہوئے ہیں، جو حمید اختر نے اپنے مختلف کالموں میں بیان کیے ہیں۔ حمید اختر اور ساحر سے پہلے، میٹرک کرنے کے بعد ان کے دوست شیر محمد قیصر (ابن ِانشا ) 1942میں لاہور آچکے تھے۔ اس بارے میں حمید اختر لکھتے ہیں:’’میٹرک میں نمایاں کامیابی اور وظیفہ حاصل کرنے کے باوجود انہوں (ابن ِ انشا) نے مرحوم حمید نظامی کو، جن سے ان کی خط و کتابت تھی، لکھا کہ گھریلو حالات کی وجہ سے، وہ وظیفے کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کی بجائے ملازمت کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ مرحوم حمید نظامی نے انہیں تعلیم جاری رکھنے، اسلامیہ کالج میں داخلہ دلانے اور کچھ مالی وسائل مہیا کرنے کے وعدہ پر لاہور آنے کے لیے مجبور کیا، جہاں پہنچ کر وہ اسلامیہ کالج میں داخل ہوگئے اور بیڈن روڈ کے ایک مکان کی اوپر کی منزل میں واقع اخبار کے دفتر میں مقیم ہوئے۔ ہم اپنے پرانے دوست کے نئے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پہلی بار لاہور پہنچے اور تلاش کرتے کرتے بیڈن روڈ پر واقع اخبار کے دفتر میں پہنچے تو ہم نے ابنِ انشا مرحوم اور حمید نظامی مرحوم دونوں کو ایک ہفتہ وار اخبار کے فولڈ کیے ہوئے پرچے کے ڈھیر پر ٹکٹ چسپاں کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔‘‘

    حمید اختر کو پہلی ہی بار لاہور بھا گیا، جو مستقبل میں ہمیشہ کے لیے ان کا شہر بننے والا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ابن ِانشا ملازمت کی غرض سے انبالہ چلے گئے اور حمید اختر کے پاؤں کی گردش جاری رہی۔ وہ دوبارہ اس وقت لاہور آئے جب گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے نکالے جانے کے بعد ساحر بغرضِ تعلیم لاہور آگئے۔ انہیں ملنے حمید اختر ہر ہفتے لاہور آجاتے۔ یوں روشنیوں کے اس شہر سے ان کی پہچان اور محبت بڑھتی گئی۔ ان دِنوں کے لاہور کے بارے میں حمید اختر بیان کرتے ہیں :’’1944-45 میں اسے (ساحر کو) ادب ِ لطیف کی ادارت مل گئی۔ ہم چونکہ بیکار پھر رہے تھے اس لیے اس زمانے میں ہم نے تقریباً چھ ماہ اس شہر میں مستقل قیام کیا۔ ان دِنوں لاہور شہر کتنا خوبصورت اور دل لبھانے والا تھا، آج اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ آبادی تین لاکھ کے قریب تھی۔ شہر کی بڑی اور اہم سڑکوں پر روزانہ چھڑکاؤ کیا جاتا تھا۔ ڈاک دن میں دو بار تقسیم ہوتی تھی۔ شامیں اتنی بھرپور اور ثقافتی پروگراموں کی اس قدر کثرت ہوتی تھی کہ شام گزارنے کا فیصلہ مشکل ہوجاتا۔ کہیں کنسرٹ ہے تو کہیں موسیقی کی محفل برپا ہے۔ اوپن ایئر تھیئٹر میں اس وقت بھی ڈرامے اسٹیج ہوتے تھے۔ دہلی دروازے کے باہر عظیم الشان سیاسی جلسوں کا زور رہتا۔ اس کے علاوہ دن بھر ہوٹلوں اور ادبی پرچوں کے دفاتر میں جو محفلیں برپا ہوتیں ان کا ایک اپنا ہی انداز تھا۔ انار کلی میں نگینہ بیکری میں باری علیگ‘ گوپال مِتل‘ میاں طفیل محمد اور بہت سے دوسرے سیاسی اور ادبی لوگ بحث میں مصروف نظر آتے۔ کافی ہاؤس میں بھی رونقیں لگی رہتیں۔ یہ ہماری جوانی کا زمانہ تھا جس میں انسان زمین پر قدم رکھتے ہوئے بھی آسمان کی طرف محوِ پرواز رہتا ہے۔ ہم ان دِنوں شب بیداری اور خالص آوارہ گردی کے جنون میں مبتلا تھے۔

    مجھے یاد ہے ایک رات‘ نصف شب کے بعد ہم چائے کی تلاش میں دہلی دروازے کے باہر اس چائے والے کو رات بھر ڈھونڈتے رہے جس کے بارے میں سنا تھا کہ اس کے چائے کے دیگچے میں احمد شاہ ابدالی کے وقت سے لے کر آج تک پانی ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ ہم نے اسے ڈھونڈا اور پھر اکثر راتیں اس چائے خانے کے تھڑے پر گزاریں۔ شورش کاشمیری ان دِنوں چار پانچ برس کی قید کے بعد رہا ہو کر نیا نیا لاہور آیا تھا۔ اس سے ملاقاتیں بھی رہیں جو بڑی پکی دوستی میں بدل گئیں۔ اس کے توسط سے مولانا عطا اللہ شاہ بخاری جیسے عظیم اور بڑے لوگوں کی صحبتیں بھی میّسرآئیں۔ خود شورش بھی اپنی ذات میں کسی انجمن سے کم نہیں تھا‘‘۔ دہلی دروازے کا وہ چائے خانہ دہلی دروازے کے سامنے واقع ایک عمارت کے‘ جس کی بالائی منزل پر ’مجلس ِ احرار‘ اور’ مجلس اصلاح چار سو بیساں‘ کے بڑے بڑے بورڈ برابر برابر آویزاں تھے، حمید اختر کا محبوب چائے خانہ بن گیا۔ جہاں انہوں نے ساحر کے ساتھ مستقبل کے کتنے ہی خواب دیکھے اور مستقبل کے کتنے ہی منصوبے بنائے۔

    (کتاب: ’’سوانح عمری: حمید اختر‘‘ سے انتخاب)

  • پاکستان اور سالانہ جاپانی فلمی میلہ

    پاکستان اور سالانہ جاپانی فلمی میلہ

    پاکستان میں غیر ملکی سفارت خانوں، قونصل خانوں اور ثقافتی مراکز میں خاص طور پر اُن فلموں کی نمائش کی جاتی ہے جو کسی ملک کی ثقافت کا مظہر ہوتی ہیں۔ بالخصوص کراچی میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ (جرمنی) آلائنس فرانسز(فرانس) اور جاپان معلوماتی و ثقافتی مرکز (جاپان) اور دیگر کئی ممالک اس کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ جاپانی قونصل خانے کی طرف سے کراچی میں بالخصوص کئی برسوں سے جاپانی فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    رواں برس بھی ستمبر سے لے کر اکتوبر تک جاپانی فلمی میلے کا انعقاد کیا گیا اور اس کے تحت متعدد جاپانی فلمیں دکھائی گئیں۔ اس ثقافتی سرگرمی کا مفصل احوال پیشِ خدمت ہے جس میں وہ قارئین ضرور دل چسپی لیں گے جو فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں اور دنیا کی ثقافتوں کو سمجھنے اور جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔

    پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم سے اشتراک

    پاکستان میں، بالخصوص کراچی میں تین تنظیمیں جن کا تعلق جاپان سے ہے بہت فعال ہیں، جن میں پاکستان جاپان بزنس فورم، پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن، سندھ اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم شامل ہیں۔ مذکورہ فلمی میلے میں مؤخرالذّکر دو ثقافتی تنظیموں کا تعاون قونصل خانہ جاپان، کراچی کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رواں برس کے اس فلمی میلے میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا تعاون بھی شامل رہا، جب کہ پاکستان میں اس فلمی میلے میں جاپانی فلمیں دکھانے کے حقوق جاپان فاؤنڈیشن نے خریدے اور پاکستانی فلم بینوں نے کوئی ٹکٹ یا کسی قسم کی فیس کی ادائیگی کے بغیر یہ فلمیں دیکھیں۔ فلم بینوں میں بڑی تعداد نوجوان نسل کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ جاپانی تنظیموں کے اراکین بھی بڑی تعداد میں اس میلے میں شریک ہوئے۔ اس فلمی میلے میں پیش کی جانے والی فلموں کو ناظرین نے بہت پسند کیا اور جاپانی سینما میں پاکستانیوں کی یہ دل چسپی ان دونوں ممالک کے درمیان ایک خاص سماجی اور گہرے ثقافتی تعلق کی غمازی کرتی ہے۔

    تین فلمیں اور تین کہانیاں

    اس فلمی میلے میں تین جاپانی فلمیں پیش کی گئیں جن کے نام بالترتیب انگریزی میں کچھ یوں ہیں۔

    1۔ بریو فادر۔ آن لائن چودہویں اوور اسٹوری آف فائنل فینٹیسی (2019)
    2۔ راؤنڈ ٹرپ ہارٹ (2015)
    3۔ پرنسز اریتی (2001)

    ان فلموں میں سے اوّل الذّکر فلم ” بریو فادر۔ آن لائن چودہویں اوور اسٹوری آف فائنل فینٹیسی "جاپان فاؤنڈیشن، پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن، سندھ اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اشتراک سے قونصل خانہ جاپان، کراچی کے فلم بینوں اور تنظیموں کے ممبران کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم کو شائقین نے بے حد پسند کیا۔ اس موقع پر جاپانی قونصل جنرل جناب ہتوری ماسارو اور پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کی صدر محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر جناب احمد شاہ نے حاضرین سے خطاب بھی کیا، جس میں دونوں ممالک کے مابین برادرانہ اور ثقافتی روابط برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

    اس فلم کی کہانی کا مرکزی خیال ایک باپ بیٹے کے تعلق کے گرد گھومتا ہے۔ یہ دونوں آپس میں کم بات کرتے ہیں جب کہ باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹے کو خیال سوجھتا ہے کہ باپ کو تنہائی اور فراغت سے بچانے کے لیے ویڈیو گیم کھیلنا سکھائے جو جاپان میں بے حد مقبول ہے۔ اس ویڈیو گیم کو کھیلتے کھیلتے باپ بیٹے میں جذباتی فاصلہ کم ہونے لگتا ہے، روزمرہ کی زندگی کے معاملات اور الجھنوں کو اس گیم کے ذریعے دونوں باپ بیٹے سلجھانا شروع کر دیتے ہیں، جس سے ان کی زندگی پر بھی خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ اسی فلم کو کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی دکھایا گیا، جہاں طلبا نے اسے بے حد پسند کیا۔ اس فلم اسکریننگ کے موقع پر جاپان کے ڈپٹی قونصل جنرل جناب ناکاگاوایا سوشی نے اساتذہ و طلبا سے خطاب بھی کیا۔

    دوسری فلم ” راؤنڈ ٹرپ ہارٹ” جاپان کی ایک لڑکی کو ٹرین میں اشیائے خور و نوش فروخت کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس کام کے دوران اس کا واسطہ اکثر ایسے گاہکوں سے بھی پڑتا ہے، جو دل پھینک یا رومانوی مزاج کے حامل ہوتے ہیں جب کہ یہ لڑکی، جس کا نام ہاچیکو ہے، رومان پرور جذبات پوری طرح آشنا نہیں ہوتی اور اس کی زندگی میں یہ کھڑکی کبھی نہیں کھلی ہوتی۔ پھر اچانک یہ در اس کے لیے وا ہوتا ہے، جس میں یہ اپنی زندگی کی محرومیوں اور خوشیوں کا عکس دیکھتی ہے۔ اس ہلکی پھلکی کہانی پر مبنی فلم کو حاضرین نے بے حد پسند کیا۔ یہ فلم قونصل خانہ جاپان، کراچی کی طرف سے پاکستان جاپان لٹریچر فورم اور جاپانی زبان کے طلبا کے لیے دکھائی گئی جس کو سب نے بہت سراہا۔ اس موقع پر جاپانی قونصل جنرل ہتوری ماسارو اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم کے بانی خرم سہیل نے حاضرین سے خطاب کیا۔ جاپانی ڈپٹی قونصل جنرل ناکاگاواسا یوشی سمیت متعدد جاپانی سفارت کاروں، اس ادبی فورم کے ممبران اور جاپانی زبان سیکھنے والے طلبا کی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی جنہوں نے اس فلم کو سراہا۔ اس موقع پر میڈیا سے بھی گفتگو کی گئی۔ اس فلم اسکریننگ کے موقع پر خصوصی مہمان کے طور پر پاکستان سینسر بورڈ، سندھ کے چیئرمین اور معروف اداکار خالد بن شاہین مدعو تھے، لیکن ایونٹ میں ان کی آمد میں تاخیر پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے عین موقع پر شرکت سے معذوری ظاہر کر دی جب کہ وہاں غیر ملکی سفارت کار اور کئی مہمان بھی موجود تھے اور یہ ایک افسوس ناک بات تھی۔ ایسے مواقع پر ہمیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ ملکی وقار اور عزّت کی بات ہوتی ہے۔

    اس سلسلے کی تیسری اور آخری فلم ایک جاپانی اینیمیٹیڈ فلم تھی، جس کا نام پرنسز اریتی تھا۔اس فلم کی کہانی بہت رومانوی اور داستان کے طرز پر ہے، جس کے مطابق یہ شہزادی اپنے والد کی طرف سے قلعے کے مینار میں قید ہے، جہاں سے وہ شہزادی سارا دن کھڑکی سے باہر کی دنیا کو دیکھتے ہوئے گزارتی ہے۔ کبھی کبھی وہ چپکے سے باہر بھی نکل جاتی ہے۔ اس سے شادی کے خواہش مندوں کو اس کا دل جیتنے کے لیے جادو کے خزانے کی تلاش میں ایک مشکل اور انوکھی مہم پر بھیجا جاتا ہے۔ ساری کہانی اسی تلاش کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ فلم مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جامشورو کے طلبا نے دیکھی اور سب نے اسے بہت پسند کیا۔ اس موقع پر کراچی میں جاپانی قونصل خانے کی طرف سے سیاسی و ثقافتی اتاشی جناب کینگوہوری نے خطاب کیا۔

    حرفِ آخر

    یہ جاپانی فلمی میلہ پچھلے کئی برس سے جاری ہے جس میں پاکستانی فلم بین شرکت کرتے ہیں۔ کراچی میں منعقدہ فلمی میلوں میں کئی نامور شخصیات بھی شریک ہوتی ہیں۔ کراچی میں فلم اسکرنینگ کی ایک ویڈیو رپورٹ ان قارئین کے شوق کو بڑھا سکتی ہے جو کبھی اس فلمی میلے میں نہیں گئے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اگلے سال وہ بھی پاکستان میں جاپانی فلمیں دیکھنے والوں میں شامل ہوں گے۔ یہ فلمیں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔

  • جب منٹو کو یہ احساس ہوا کہ نور جہاں اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی!

    جب منٹو کو یہ احساس ہوا کہ نور جہاں اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی!

    نور جہاں کو میں نے صرف پردے پر دیکھا تھا۔ میں اس کی شکل و صورت اور اداکاری کا نہیں، اس کی آواز کا شیدائی تھا۔ وہ کم عمر تھی۔ اس لیے مجھے حیرت تھی کہ وہ کیونکر اتنے دل فریب طریقے سے گا سکتی ہے۔

    ان دنوں دو آدمیوں کا دور دورہ تھا۔ مرحوم سہگل کا اور نور جہاں کا۔ یوں تو ان دنوں خورشید چھائی ہوئی تھی، شمشاد کے بھی چرچے تھے مگر نور جہاں کی آواز میں سب کی آواز دب گئی۔ ثریا بعد کی پیداوار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سہگل اور ثریا اکٹھے فلم میں پیش ہوئے لیکن نور جہاں اور وہ دونوں الگ الگ رہے۔ معلوم نہیں، پروڈیوسروں کے دماغ میں ان دونوں کو یکجا کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا یا کسی اور وجہ سے پروڈیوسر ان کو ایک فلم میں کاسٹ نہ کرسکے۔ بہرحال مجھے اس کا افسوس ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اگر وہ دونوں آمنے سامنے ہوتے تو موسیقی کی دنیا میں نہایت خوشگوار انقلاب برپا ہوتا۔

    نور جہاں سے میری پہلی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی۔۔۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ میں کئی برس تک بمبئی کی فلمی دنیا میں گزار کر چند وجوہ کی بنا پر دل برداشتہ ہوکر دہلی چلا گیا۔ وہاں پر میں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی۔ مگر یہاں سے بھی دل اچاٹ ہوگیا۔ بمبئی سے’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر نذیرلدھیانوی کے متعدد خطوط آئے کہ تم واپس چلے آؤ۔ ’خاندان‘ کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی یہاں آئے ہوئے ہیں اور میرے ہی پاس ٹھہرے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ تم ان کے لئے ایک کہانی لکھو۔

    میں دہلی چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کرپس مشن فیل ہو چکا تھا۔ میں غالباً ۷ اگست ۱۹۴۷ء کو بمبئی پہنچا۔ شوکت سے میری پہلی ملاقات ۱۷ اڈلفی چیمبرز کلیئر روڈ پر ہوئی۔ جو دفتر بھی تھا اور رہائشی مکان بھی۔ بڑا بانکا چھیلا نوجوان تھا۔ گورا رنگ، گالوں پر سرخی، مہین مہین جون گلبرٹ اسٹائل کی مونچھیں، گھنگھریالے بال، لمبا قد، بہت خوش پوش، بے داغ پتلون، شکنوں سے بے نیاز کوٹ ٹائی کی گرہ نہایت عمدہ، چال میں لٹک، ہم پہلی ملاقات میں ہی خوب گھل مل گئے۔ میں نے اس کو بہت مخلص انسان پایا۔ میں دہلی سے اپنے ساتھ اپنے پسندیدہ سگریٹ یعنی کریون اے کا کافی اسٹاک لے کر آیا تھا۔ جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس لیے بمبئی میں یہ سگریٹ قریب قریب نایاب تھے۔ شوکت نے میرے پاس بیس پچیس ڈبے اور پچاس کے قریب ڈبیاں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔

    ہم دونوں کا قیام وہیں 17 اڈلفی چیمبرز میں تھا۔ دو کمرے تھے جہازی سائز کے۔ ایک میں دفتر تھا، دوسرے میں رہائشی معاملہ۔ مگر رات کو ہم دفتر میں سوتے تھے۔ مرزا مشرف وغیرہ آجاتے تھے، وہ ہماری چارپائیاں بچھا دیتے تھے۔ جب تک شوکت وہاں رہا، بڑے ہنگامے رہے، کریون اے کے سگریٹ اور ناسک کی ہرن مارکہ وسکی جو بڑی واہیات تھی۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ شوکت’’خاندان‘‘ کے بعد گو بہت بڑا ڈائریکٹر بن گیا تھا۔ مگر لاہور سے بمبئی پہنچنے اور وہاں کچھ دیر رہنے کے دوران میں وہ سب کچھ خرچ ہو چکا تھا جو اس نے لاہور میں فلم کی ہنگامی اور اخراجات سے پر زندگی گزارنے کے بعد پس انداز کیا تھا۔ اور میرے پاس تو صرف چند سوتھے جو کہ ہرن مارکہ وسکی میں غرق ہوگئے۔

    بہرحال کسی نہ کسی حیلے گزر ہوتا رہا۔ وہ وقت بہت نازک تھا۔ میں سات اگست کو وہاں پہنچا اور ۹ اگست کی صبح کو جب میں نے کہیں ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی تو لائن ’’ڈیڈ‘‘ یعنی مردہ تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کانگریسی لیڈروں کی گرفتاریاں چونکہ عمل میں آرہی تھیں، اس لیے احتیاطاً ٹیلی فون کا سارا سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا۔

    گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور ابوالکلام آزاد وغیرہ سب گرفتار کر لیے گئے، اور کسی نامعلوم جگہ منتقل کر دیے گئے۔ شہر کی فضا بالکل ایسی تھی جیسے بھری بندوق۔ باہر نکلنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ کئی دن تک ہم ہرن مارکہ شراب پی کر اپنا وقت کاٹتے رہے۔ اس دوران فلم انڈسٹری میں بھی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ حالات چونکہ غیر یقینی تھے اس لیے کسی نئے فلم کی تیاری کون کرتا۔ چنانچہ جن لوگوں سے شوکت کی بات چیت ہورہی تھی، ایک غیر معینہ عرصے کے لئے کھٹائی میں پڑ گئی اور ہم نذیر لدھیانوی کے ہاں پکے ہوئے بدمزے کھانے کھا کر لمبی تان کر سوتے رہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے تھے اور ہم کہانیوں کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے تھے۔

    اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ نور جہاں بھی بمبئی میں ہے لیکن ٹھہریے! میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا۔ میرا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ اصل میں مجھے یہ آٹھ اگست ہی کو معلوم ہوگیا تھا جب کہ میری ملاقات ابھی شوکت سے نہیں ہوئی تھی۔

    مجھے ماہم جا کر اپنے چند رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ایک ریڈیو آرٹسٹ ثمینہ کا پتہ لینا تھا۔ (بعد میں کرشن چندر سے جس کے مراسم رہے۔) اس لڑکی کو میں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بمبئی بھیجا تھا کیونکہ اس کو فلم میں کام کرنے کا شوق تھا۔ میں نے اسے پرتھوی راج اور برج موہن کے نام تعارفی خط لکھ کر دے دیے تھے اور اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آیا وہ فلمی دنیا میں داخل ہو چکی ہے یا نہیں۔۔۔! لڑکی ذہین تھی، کردار اس کا بہت اچھا تھا، مکالمے بہت روانی کے ساتھ ادا کرتی تھی، شکل و صورت کی بھی خاصی تھی۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوگئی ہوگی۔

    مجھے پتہ چلا کہ وہ شیوا جی پارک میں کہیں رہتی ہے۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے کہ ثمینہ خاتون کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ میں نظامی صاحب کے ہاں روانہ ہوگیا جو قریب ہی کیڈل روڈ پر رہتے تھے۔ مجھے ان کا ایڈریس معلوم تھا کہ وہ اکثر مجھے خط لکھتے رہتے تھے۔ یہ وہی نظامی ہیں جنہوں نے ممتاز شانتی کو تربیت دی۔ جن کے پاس ولی صاحب برسوں پڑے رہے اور آخر میں ممتاز شانتی کو نظامی صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت ہی لے اڑے۔ یہ وہی نظامی صاحب ہیں جن کی بیوی گیتا نظامی کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی اور جس نے نظامی صاحب کو لات مار کر پے در پے کئی شادیاں کیں۔ عدالتوں میں جس کے کئی مقدمے چلے اور جو اب ایک نئی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ڈانس پارٹی بنا کر شہر بہ شہر پاکستان کا پرچار کر رہے ہیں۔ نظامی صاحب سے میری ملاقاتیں صرف خطوط تک ہی محدود تھیں اور وہ بھی بڑے رسمی تھے۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ ان کے فلیٹ پر دیکھا۔ میں اگر اس ملاقات کو بیان کروں تو میرا خیال ہے، دس پندرہ صفحے اس کی نذر ہو جائیں گے، اس لیے میں اختصار سے کام لوں گا۔ نظامی صاحب جو کہ دھوتی اور بنیان پہنے تھے، مجھے بڑے تپاک سے ملے۔ انہوں نے میرے آنے کا مقصد پوچھا جو میں نے عرض کر دیا۔ آپ نے کہا، ’’ثمینہ خاتون ابھی آپ کے قدموں میں حاضر ہو جائے گی۔‘‘

    ان کا ایک مریل قسم کا ہندو منیجر تھا۔ اس کو آپ نے حکم دیا کہ منٹو صاحب کے لئے فوراً ثمینہ خاتون کو حاضر کرو۔ یہ حکم دینے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ وہ میرے لیے ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً زبانی طور پر میرے لیے ایک عمدہ فلیٹ، بہترین فرنیچر اور ایک عدد کار کا بندوبست کردیا۔

    ظاہر ہے کہ میں بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے مناسب اور موزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جس کی ان کو بالکل ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ وہ میرے افسانوں کے گرویدہ تھے۔ قارئین سے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نظامی صاحب زبانی جمع خرچ کے بادشاہ ہیں۔

    ممتاز شانتی کو سیدھے راستے پر لگانے اور اس کو صالح تربیت دینے کے متعلق باتیں ہورہی تھیں تو نظامی صاحب نے نور جہاں کا ذکر کیا اور مجھے بتایا کہ ان دنوں وہ بھی ان کے زیر سایہ ہے اور ممتاز کی طرح تربیت حاصل کررہی ہے۔ آپ نے کہا: ’’منٹو صاحب! اگر یہ لڑکی زیادہ دیر لاہور میں رہتی تو اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا، میں نے اسے یہاں اپنے پاس بلا لیا ہے اور سمجھایا ہے کہ دیکھو بیٹا! صرف فلم اسٹار بننے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی سہارا بھی ہونا چاہئے۔ اوّل تو شروع میں عشق لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ادھر ادھر دونوں طرف سے خوب کماؤ۔ جب بینک میں تمہارا کافی روپیہ جمع ہو جائے تو کسی ایسے شریف آدمی سے شادی کر لو جو ساری عمر تمہارا غلام بن کے رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے منٹو صاحب! آپ تو بڑے دانا ہیں۔‘‘

    میری ساری دانائی تو نظامی صاحب کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی نیچے فٹ پاتھ پر بھاگ گئی تھی۔ میں کیا جواب دیتا؟ بس کہہ دیا کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ مصلحت کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے آواز دے کر نور جہاں کو بلایا مگر اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور چند لمحات کے بعد نور جہاں کی آواز کسی کمرے سے آئی، ’’ابھی آتی ہوں، کمال صاحب کا فون آیا ہے۔‘‘

    نظامی صاحب زیرِ لب مسکرائے۔ یہ کمال صاحب، حیدر امروہی تھے۔۔۔ ’’پکار کے شہرت یافتہ‘‘ نظامی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’میں عرض کررہا تھا کہ سہارا ہونا چاہیے تو نور جہاں کے لئے کمال امروہی سے بہتر سہارا اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن میں اس سے صاف صاف کہہ چکا ہوں کہ شادی وادی کا معاملہ غلط ہے، بس اپنا الو سیدھا کیے جاؤ۔ کمال کما سکتا ہے۔ اس کی آدھی کمائی اگر نور جہاں کو مل جایا کرے تو کیا ہرج ہے۔ اصل میں منٹو صاحب ان ایکٹرسوں کو روپیہ کمانے کے گر آنے چاہئیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ گرو جو موجود ہیں۔‘‘ نظامی خوش ہوگیا اور اس نے مجھے فوراً ایک فسٹ کلاس لیمن اسکواش پلایا۔

    بس یہاں۔۔۔ نظامی صاحب کے فلیٹ میں، جہاں نور جہاں کی سائنٹیفک طریقے پر تربیت ہورہی تھی، اس کو وہ تمام چلتر خالص نظامی صاحب کی نگرانی میں سکھائے جارہے تھے، میری نور جہاں سے سرسری سی ملاقات ہوئی اور میرا رد عمل یہ تھا کہ یہ لڑکی اپنی جوانی کی منزلیں بڑی سرعت سے طے کررہی ہے اور جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ہنسی تجارتی رنگ اختیار کر رہی ہے اور جو موٹاپے کی طرف مائل ہے، اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی۔

    (ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس جو انھوں نے اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں پر لکھا ہے)

  • جوزف کونریڈ کے سو سال اور "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے”

    جوزف کونریڈ کے سو سال اور "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے”

    بڑے ادیب کی تخلیق کئی عشروں کا احاطہ کرتی ہے، وہ صدیوں پر پھیل جاتی ہے اور ادیب کے گزر جانے کے بعد بھی برسوں پڑھی جاتی ہے۔ اس پر تنقیدی مباحث جاری رہتے ہیں اور ادبی دنیا میں اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

    جوزف کونریڈ (Joseph Conrad) بھی ایسا ہی ایک ادیب تھا، جس کا عالمی ادب میں خوب چرچا ہوا، اس کا اندازہ ان تقاریب سے لگایا جاسکتا ہے جو اس ادیب کی وفات کے سو برس مکمل ہونے پر اس کی یاد میں منعقد کی جارہی ہیں۔

    گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی میں بھی ایسی ہی ایک تقریب "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے” کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی، جس میں اس باکمال ادیب کے فن و اسلوب کا ذکر چھڑا، تو کئی نئے سوالات اور ان کے جواب سامنے آئے جن سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اس تقریب کا احوال جاننے سے پہلے جوزف کونریڈ کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    جوزف کونریڈ کون تھا؟

    جوزف کونریڈ ایک پولش نژاد برطانوی ادیب تھا، جسے اپنے موضوعات، منفرد انداز بیان کے ساتھ انسانی فطرت اور اس کی نفسیات کو بیان کرنے کے لیے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جوزف کونریڈ نے 1857ء میں آنکھ کھولی، اور اس کی زندگی کا یہ سفر 1924 میں تمام ہوا۔ کونریڈ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بحری سفر میں گزارا، اور اس کے تجربات کونریڈ کی تحریروں میں بھی جھلکتے ہیں۔ اس کے مشہور ناولوں میں ہارٹ آف ڈارکنس، لارڈ جم، اور نوسٹرو مو شامل ہیں۔

    یہ ناولز وجودیت، نوآبادیاتی نظام اور اخلاقی گراوٹ جیسے موضوعات کو کمال مہارت سے منظر کرتے ہیں۔ ہارٹ آف ڈارکنس(Heart of Darkness) کونریڈ کا سب سے مقبول ناول ہے، جسے یورپی سامراجیت پر ایک گہری تنقید تصور کیا جاتا ہے، جو انسانی فطرت کے تاریک پہلو اور افریقا میں نوآبادیاتی دور کے مظالم کو بیان کرتا ہے۔ گو بعد میں چنوا اچیبے سمیت مختلف ناقدین نے جوزف کونریڈ پر تعصب برتنے اور نوآبادیاتی نظام کی شبیہہ سازی کا الزام بھی لگایا۔ جوزف کونریڈ کے اس مشہورِ زمانہ ناول، ہارٹ آف ڈراکنس کا ترجمہ اردو کے ممتاز ادیب اور مترجم، سلیم الرحمان صاحب نے قلبِ ظلمات کے نام سے کیا۔

    تذکرہ رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا:

    رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے ایک ادبی تنظیم ہے، جس میں شامل ارکان کی اکثریت قلم قیبلے سے ہے۔ اس کی ہفتہ وار نشستیں آرٹس کونسل کی جوش ملیح آبادی لائبریری میں منعقد ہوتی ہیں، جہاں کراچی کے ادبا کی بڑی تعداد باقاعدگی سے شرکت کرتی ہے، ساتھ ہی اس کی فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے دیگر شہروں میں بسنے والے بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس کی روحِ رواں معروف شاعر، مترجم، نقاد اور انگریزی ادب کی استاد ڈاکٹر تنویر انجم ہیں۔ گزشتہ دو برس میں اس کے نوے اجلاس ہوچکے ہیں، جن میں ادب، سماج، سیاست، اور فلم سمیت فنون لطیفہ کی تمام اصناف زیر بحث آئیں۔

    جوزف کونریڈ اور کیفے کے ۸۹ اجلاس کی جھلکیاں:

    ماہ ستمبر کی بارہ تاریخ کو رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے نے "جوزف کونریڈ کے سو سال” کے عنوان سے آرٹس کونسل میں ایک تقریب سجائی، جس کی صدارت دنیائے صحافت و ادب کی ممتاز شخصیت، غازی صلاح الدین نے کی۔

    اس تقریب میں ڈاکٹر تنویر انجم، سید کاشف رضا، ماخام خٹک، بشام خالد اور وشال خالد نے جوزف کونریڈ کے فن کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا۔ سید طلحہ علی نے اس کی نظامت کی۔

    اپنے صدارتی خطے میں غازی صلاح الدین نے کہا کہ جوزف کونریڈ کا مطالعہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے، وہ ایک اہم ادیب تھا، جس نے نیا طرز اسلوب اختیار کیا اور نوآبادیاتی نظام کے سقم عیاں کیے۔

    مقررین میں حشام خالد نے جوزف کونریڈ کے ناول "لارڈ جم”، جب کہ ماخام خٹک اور وشال خالد نے ہارٹ آف دی ڈارک نیس کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا۔ سید کاشف رضا نے جوزف کونریڈ کے ناولز یوتھ اور Typhoon کے فنی محاسن پرروشنی ڈالی۔

    اس موقع پر شرکا نے بھی مقررین سے سوالات کیے۔ یہ مکالمہ ڈھائی گھنٹے جاری رہا، جس میں اس ممتاز قلم کار پر سیر حاصل بحث ہوئی۔

    حرفِ آخر:

    قارئین، آج کے دور میں جوزف کونریڈ کو پڑھنا اس لیے بھی اہم ہے کہ اُن کے موضوعات طاقت، شناخت، اور عالمی استحصال جیسے موجودہ مسائل سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نثر قارئین کو عصری مسائل پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی دعوت دیتی ہے، ساتھ ہی ہمیں یہ خبر بھی دیتی ہے کہ نوآبادیاتی دور کے انگریز ادیب بھی ایک حد تک اپنے سانچے سے باہر جاسکتے تھے، چاہے وہ کتنے ہی باغی کیوں نہ ہوں۔

  • ہماری فلمیں!

    ہماری فلمیں!

    فلم ہر دور میں ایک ایسا میڈیم رہا ہے جس نے ہر طبقۂ عوام کو یکساں‌ متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر رومانوی فلمیں ایک زمانہ میں بہت دیکھی جاتی تھیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کئی دہائیوں پہلے جو فلمیں بنا کرتی تھیں ان میں محبّت کے راستے میں ایک ولن کو رکاوٹ اور ظالم سماج کو حائل ضرور دکھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی رنگین اور اکثر سنگین موڑ فلموں‌ میں آتے تھے، جو فلم کی کام یابی کی ضمانت تو ہوتے تھے، لیکن ان کے کردار عام زندگی سے اتنے مختلف ہوتے تھے یا کہانی میں واقعات کو اس قدر غیر فطری انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ فلم بین بعد میں ان پر ہنستے ہی تھے۔

    اردو زبان کے بڑے بڑے ادیبوں، خاص طور پر مزاح نگاروں نے ایسی ہی فلمی کہانیوں‌ پر مزاحیہ تحریریں سپردِ قلم کی ہیں‌۔ یہاں ہم اردو زبان کے مقبول ترین طنز و مزاح نگار شفیق الرحمان کے ایک ایسے ہی مزاحیہ مضمون سے چند پارے پیش کررہے ہیں جو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردیں‌ گے۔ ملاحظہ کجیے:

    ہماری فلموں سے مراد وہ فلمیں ہیں جو ملکی ہیں۔ جن میں ہماری روزانہ زندگی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں، جن میں ہماری برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب کی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر، وکیل، تھانیدار، یہ سب ہماری فلموں کی جان ہیں۔ جس فلم میں ایک آپریشن، ایک عدالت کا سین اور ایک گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی اسے بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں۔ لیکن فلموں کا ڈاکٹر آل راؤنڈ ہوتا ہے۔ یعنی ہاتھ میں نشتر، گلے میں ربڑ کی نلکی، سر پر ہیڈ مرر اور دیوار پر بینائی ٹسٹ کرنے کے حروف۔ پتہ نہیں یہ سب چیزیں ایک ہی شخص ایک ہی کمرے میں کیونکر استعمال کر سکتا ہے اور ڈاکٹر کا محبوب فقرہ یہ ہے، ’’حالت نازک ہے، دماغی صدمہ پہنچا ہے۔ اگر ایسا ہی صدمہ دوبارہ پہنچایا جا سکے تو یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے یا ہو جائیں گی۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دماغ کا آپریشن کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ ایسا آپریشن جو بڑے بڑے تجربہ کار سرجن نہیں کرسکتے۔

    ایک خطرے سے ہم آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر فلم میں کوئی ایسا سین آجائے جہاں فضا میں سکون ہو۔ ایکٹر بولتے بولتے دفعتاً خاموش ہوجائیں۔ کوئی خوش خبری سنا دے یا بہت بری خبر لے آئے۔ دو پرندے (ہمارے پرانے دوست) بیٹھے ہیں۔ سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو اور ہوا چل رہی ہو، تو سمجھ لیجیے کہ ضرور کوئی نہ کوئی گائے گا۔ کسی نہ کسی ایکٹر کو بیٹھے بٹھائے دورہ اٹھے گا اور دیکھتے دیکھتے وہ آپے سے باہر ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کی کوئی طاقت اسے گانے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اور کچھ نہیں تو فوراً وہی ہمارا دیرینہ رفیق ایک سادھو گاتا ہوا سامنے سے گزر جائے گا۔

    اور یہ لاٹری کی علت بھی سچ مچ سمجھ میں نہیں آئی۔ فلم میں جہاں کہیں ہیرو لاٹری کا ٹکٹ لے لے، بس فوراً سمجھ لیجیے کہ یہ تین چار لاکھ یوں وصول کر لے گا۔ یہ یک طرفہ کارروائی ہمیں بالکل پسند نہیں۔ یا تو یوں ہو کہ فلم کے تمام ایکٹروں کو لاٹری کے ٹکٹ خریدتے دکھایا جائے۔ پھر کسی ایک کے نام انعام نکل آئے تو کوئی بات بھی ہوئی۔ لیکن جو سب سے غریب ہوتا ہے، اسے کوئی مجبور کر کے ایک ٹکٹ دلوا دیتا ہے۔ یک لخت وہ امیر ہو جاتا ہے اور بیوی بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر بمبئی یا لاہور بھاگ جاتا ہے۔ وہاں سارا روپیہ خرچ کر کے پاگل یا کانا ہوکر واپس آجاتا ہے۔ آتے ہی اس کی بیوی فوراً اسے معاف کر دیتی ہے۔ ایک ڈاکٹر آپریشن کر کے اس کا دماغ یا آنکھیں درست کر دیتا ہے اور جہاں سے یہ قصہ شروع ہوا تھا وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

    اور زمینداروں کے متعلق لگاتار فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ زمیندار ایک نہایت رومانوی ہستی ہے جس کا کام صبح سے شام تک شعر و شاعری اور محبت کرنا ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں۔ چرواہے بیلوں اور بھینسوں کے پاس بیٹھ کر محبوب کی یاد میں بانسری بجاتے ہیں۔ ہر ہل چلانے والا ایک زبردست گویا ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے گاتا ہی رہتا ہے۔ ہر زمیندار کے لڑکے کا فرض ہے کہ وہ ضرور کسی سے محبت کرے اور زمیندار کا فرض ہے کہ وہ پہلے تو رسماً خفگی ظاہر کرے، پھر شادی پر رضامند ہو جائے۔

  • ”زباں فہمی“ عشق کی کارستانی

    ”زباں فہمی“ عشق کی کارستانی

    تحریر: محمد عثمان جامعی

    سہیل احمد صدیقی سے میرا تعلق سولہ سترہ سال پر محیط ہے، اس دوران میں نے جب بھی ان کو دیکھا تو یہ خیال آیا اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔ اردو، انگریزی، سندھی پر مکمل دسترس، فرنچ سے گہری شناسائی، فارسی اور عربی کے لسانی رموز سے واقف۔ تخلیق سے تحقیق تک علم وادب کے ہر میدان میں گام زن، تحریر ہی نہیں تقریر کے فن میں بھی طاق، مگر ان ساری صلاحیتوں اور اہلیتوں کے باوجود کبھی روزگار کے مسائل سے جھوجھتے، کبھی معاشی تنگی سے پریشان۔ لیکن زندگی کے جھمیلے ہوں، شکستوں کی تکان ہو، دل شکن بے قدری ہو یا پھن اٹھائے اور ڈنک مارتے رویے، کوئی رکاوٹ علم کے سفر میں ان کے آڑے نہ آسکی، مشکلات کی کوئی آندھی ان کی ہمت کا پرچم سرنگوں نہ کرسکی اور برف زاروں کی خنکی سمیٹی سرد مہری اور بے اعتنائی کا چلن ان کے سینے میں دہکتی لگن کی اگن بجھانے میں ناکام رہا۔

    دراصل یہ ان کا عشق ہے جو انھیں حالات کی زہرناکیوں سے بچائے اور اپنے رستے پر لگائے رکھتا ہے، ان کا عشق انھیں صحرا کی ریت میں گُم ہونے دیتا ہے نہ تیشہ دے کر کسی کوہسار کی طرف بھیجتا ہے، وہ تو ان سے اور بھی بڑی مشقت لے رہا ہے، طبیعتوں اور مزاجوں کی ریگ میں زبان کے پھول کھلانے اور پتھریلے دماغوں میں برگِ گُل سے بھی نازک لفظوں سے زبان کی آبیاری کی کَڑی مشقت، جو انھیں تھکاتی ہے نہ اکتاہٹ کا شکار کرتی ہے۔ یہ اردو کا عشق ہے، جس نے انھیں مار رکھا ہے، اور ”زباں فہمی“ کا سلسلہ اس عشق کا اظہار بھی ہے، مظہر بھی اور داستان بھی۔

    کتاب کا سرورق

    ’زباں فہمی“ کے زیرعنوان شایع ہونے والی تحریریں اردو کی بے وقعتی، بے قدری، اس سے تعصب کا ایک ایسا تقاضا تھیں جسے سہیل احمد صدیقی جیسا کوئی ذی علم اور زبان کے ہر رنگ اور سارے تیوروں سے واقف قلم کار ہی نبھا سکتا تھا، جنھوں نے صحافتی مضمون نگاری سے ادبی نثرپاروں تک اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اسکرپٹ لکھنے سے اشتہار نویسی تک زبان کے پھیکے، تیکھے، میٹھے، مرچیلے اور نکمین سارے ذائقے چکھے بھی ہیں اور چکھائے بھی ہیں۔

    سہیل احمد صدیقی

    یوں کہہ لیں کہ انھوں نے اردو نگری کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ پیا ہی نہیں، مشکیزوں میں بھر بھر کر ساتھ لائے بھی ہیں اور اب اس پانی سے لفظوں کے آلودہ چہرے دھو کر ان کا اصل رنگ روپ سامنے لانے میں مصروف ہیں۔ ہمیں گمان نہیں یقین ہے کہ انھوں نے گھاٹ گھاٹ پھرتے ہوئے پنگھٹوں پر بھی اوک سے پانی پیا ہوگا، اس کے بغیر زباں دانی اور شاعری کا سفر کہاں مکمل ہوتا ہے، اور یہ ان دونوں راہوں کے مسافر ہیں۔ زبان کی ہر ادا سے شناسائی کے ساتھ اردو کے آب رواں میں اپنے اپنے رنگ گھول کر اسے رنگا رنگ کرنے والی زبانوں میں سے کسی پر عبور اور کسی سے اچھی خاصی یاد اللہ کے باعث سہیل احمد صدیقی کسی ماہر کھوجی کی طرح لفظوں کے نقش پا پر اُلٹے قدموں چلتے ہوئے اس کا ٹھور ٹھکانا ڈھونڈ نکالتے ہیں اور تجربہ کار صرّاف کے مانند محاوروں اور شعروں میں اصل اور کھوٹ کی کھوج لگا لیتے ہیں۔

    یہ تحقیقی کاوشیں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر ”زباں فہمی“ کے خالق کی اصل خدمت اردو میں بگاڑ کی یلغار کا مقابلہ اور اسے انگریزی کی مسلسل پیش قدمی سے بچانے کے لیے جدوجہد ہے۔ یہ کام جتنا ناگزیر ہے، اتنا ہی کٹھن بھی، ایسا دشوار کہ اچھے اچھوں نے یہ بھاری صرف پتھر چوم کر چھوڑ دیا، کوئی اسے کارِ عبث سمجھتا ہے تو کوئی دیوار سے سر ٹکرانا قرار دیتا ہے۔ مگر سہیل احمد صدیقی اس جنگ کے باہمّت سالاروں شکیل عادل زادہ، احفاظ الرحمٰن اور اطہر ہاشمی کی روش اپنائے ہوئے مسلسل برسرِ پیکار ہیں۔ ذرا تصور تو کیجیے ان کی ہمّت اور حوصلے کا، یہ ایک ایسے معاشرے میں زبان کے خد و خال بگڑنے سے بچانے اور مسخ ہوجانے والے نقوش کی بحالی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، جس معاشرے میں غلط اردو بولنا قابلِ فخر ہے، جہاں والدین بڑی شان سے بتاتے ہیں کہ ان کے بچے کی اردو خراب ہے، جہاں شادی کے دعوت نامے سے گھر کی دیوار پر لگی نام کی تختی تک ہر جگہ اردو میں عبارت لکھنا باعثِ شرم سمجھا جاتا ہے، اس بدقسمت زبان کے الفاظ قبروں کے کتبوں ہی پر نظر آتے اور یہ بتاتے ہیں کہ یہ قوم، یہ سماج اب اردو کو گورستان میں دیکھنے کا متمنی ہے۔

    سہیل احمد صدیقی ایک ایسی قوم میں زبان کی اصلاح کا بِیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، زبان کا بیڑا غرق ہونا جس کے لیے ذرا برابر اہمیت نہیں رکھتا، وہ ایک ایسے ملک میں حرف و معنی کے احترام کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں جس کے ٹی وی چینل، اخبارات اور ویب سائٹس روز کسی لفظ کسی محاورے کی عزت پامال کردیتے ہیں، وہ ایسے سماج میں صحیح اردو بولنے اور لکھنے کے لیے سرگرم ہیں جس کا ایک شاعر اور زبان کا مجتہد جون ایلیا اپنے بیٹے کے لیے فکرمند ہوکر کہتا ہے نجانے تم کتنی کم غلط اردو لکھی ہوگی۔ میرے ممدوح اس دیس میں اشعار میں سہواً تبدیلیوں اور شعروں کی غلط نسبت کو درست کرنے کے لیے جگر سوزی کر رہے ہیں، جس دیس کے ایک نہایت اعلی منصب دار، اتنے اعلٰی کے باقی اہل جاہ و منصب بس ان کے آلۂ کار، ایک تقریر میں فتنوں کا سر کچلنے کی دھن میں کسی اور کے شعر علامہ اقبال کے سر منڈھ دیتے ہیں، جس پر اقبال نے اپنی لحد میں تڑپ کر کہا ہوگا، ”تقریر جو ایسی ہو تو تقریر بھی فتنہ۔“ وہ اس زبان کی محبت کا فرض چکا رہے ہیں جس کے طفیل شہرت اور دولت کمانے والے کچھ اہلِ قلم کے دل بھی اس کی نفرت سے یوں بھرے ہیں کہ بغض کی یہ غلاظت جب ہونٹوں سے بہتی ہے تو یہ غلیظ ”بہاﺅ“ دیکھ کر ان کی شخصیت کا سارا تاثر ”راکھ“ ہوجاتا ہے۔ ایسے ماحول اور حالات میں یہ زبان کا فہم بانٹنے کے لیے کمربستہ ہیں تو یہ ان کے عشق ہی کی کارستانی ہے۔

    زباں فہمی کا سلسلہ زبان کی اصلاح اور اردو شناسی کا ذریعہ تو ہے ہی یہ سہیل احمد صدیقی کی پوری کی پوری شخصیت کا منی ایچرز پر مشتمل تصویر خانہ بھی ہے۔ اس میں ان کی شخصیت کے پہلو، افکار، ان کی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی کے اتار چڑھاﺅ، ان کے علمی سروکار اور معلومات کی وسعت کی جھلکیاں جا بہ جا جلوے دکھاتی ہیں۔ جب یہ کسی لفظ کی اصل کا سراغ لانے نکلتے ہیں تو ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہم مذہب، تاریخ، ثقافت جغرافیے کے کتنے ہی حقائق سے گزرتے ہیں۔ کبھی لفظوں کا یہ تعاقب قاری کو نباتات کی دنیا میں لے جاتا ہے، کبھی رنگوں کی نیرنگی اس کے سامنے ہوتی ہے، کہیں تاریخ کا کوئی ورق کھل جاتا ہے، کہیں کسی مذہبی کتاب کا صفحہ الٹ جاتا ہے، پھل، سبزیاں، پکوان، شہر، شخصیات، صحافت کون سا موضوع ہے جس کے بارے میں مضامین کسی انکشاف کا دریچہ نہیں کھولتے۔ اپنے مطالعے اور معلومات سے ہمیں حیران کرتے سہیل احمد صدیقی کے بارے میں جب پتا چلتا ہے کہ زندگی کی آزمائشوں میں پڑنے سے پہلے وہ ذہنی آزمائش کے مقابلوں کے فاتح رہے ہیں، تو ساتھ ہی یہ عقدہ بھی کھل جاتا ہے کہ کیریئر اور دولت کے پیچھے بھاگتے نوجوانوں کے بیچ دھیرج سے علم کی راہوں پر چلتے لڑکے کو یہ چسکا کیسے پڑا۔

    زباں فہمی کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم اردو کے بھید بھاﺅ اور اس کے دیگر زبانوں سے رشتے ناتوں پر صاحبِ کتاب کی گہری نظر سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ان کے اسلوب کی رنگارنگی سے بھی لطف اٹھاتے ہیں، جو کبھی محققانہ بردباری اور بھاری پن لیے ہوتا ہے تو کہیں صحافتی ڈھنگ اختیار کرلیتا ہے، کہیں ان کے قلم سے نکلی سطور مؤرخ کے ڈھب پر بال کی کھال اتارنے پر تل جاتی ہیں تو کہیں ہمیں ایک مزاح نگار کی سی شگفتگی اور ہلکے پھلکے انداز سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور جب جب وہ اپنی جیون کہانی کا کوئی ٹکڑا تحریر میں جماتے ہیں تو لفظوں میں کسی قصہ گو کی فن کاری بول اٹھتی ہے۔ یہ سارے بدلاﺅ اور سبھاﺅ موضوعات کے تابع اور ان کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ بہ طور قلم کار وہ اکہری شخصیت کے مالک نہیں بلکہ موضوع کے مطابق زبان کو برتنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سہیل احمد صدیقی اور ان کے قدردانوں اور ان سے پیار کرنے والوں کو زباں فہمی (نقش اوّل) کی اشاعت پر مبارک باد دیتے ہوئے میں آرزومند اور دعا گو ہوں کہ سہیل صاحب زباں فہمی کی یہ قلمی اور علمی تحریک جاری رکھیں اور کتابوں کی صورت ان کی تحریریں نقش در نقش اردو کے علمی و ادبی ورثے کا حصہ بنتے رہیں۔

  • اگلے وقتوں کی روایات!

    اگلے وقتوں کی روایات!

    اگلے وقتوں سے روایت یہ چلی آرہی تھی۔ عید کی نماز بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں آسمان تلے پڑھی جائے۔ اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان آباد چلے آتے تھے اور چلے آتے ہیں بستی سے باہر عید گاہ تعمیر کی جاتی تھی۔

    یہ کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لمبی دیوار جس میں پیش امام کے لیے محراب بنی ہوتی تھی۔ دیوار کے دونوں کناروں پر دو بلند مینار، بیچ میں ایک گنبد۔

    مگر عید کی صبح یہی سادہ سی دو میناروں والی دیوار نمازیوں کا مرجع بن جاتی تھی۔ عہدِ مغلیہ میں دلّی تک کا نقشہ یہ تھا کہ جمعتہ الوداع کی نماز بہت دھوم سے شاہ جہانی مسجد میں ہوتی تھی۔ آس پاس کی بستیوں سے بھی نمازی کھنچ کر وہاں پہنچتے تھے۔ مگر عید کی صبح اور تو اور بادشاہ سلامت بھی اپنے جدّ کی تعمیر کی ہوئی بڑی مسجد سے کنی کاٹ کر عید گاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ پھر توپ بھی وہیں دغتی تھی۔

    ہاں عید گاہ کے نمازیوں میں سب سے پُرجوش نمازی کم سن صاحب زادگان ہوتے تھے۔ جو نئے بھڑکیلے کپڑے پہن کر ’سلمہ ستارے‘ کے کام سے لیس مخملی ٹوپی سر پر سجا کر اور بڑوں کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے۔ نماز بڑے خضوع و خشوع سے پڑھتے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر باہر سجے ہوئے عید بازار یا عید میلہ میں گھس جاتے اور رنگ رنگ کے کھلونے خرید کر خوش خوش گھر واپس آتے۔ پھر گلی گلی ان کے لائے ہوئے غبارے اڑتے نظر آتے اور بانس کی تیلیوں سے بنی ہوئی پھٹ پھٹ گاڑیوں کے شور سے گلیاں گونجتی نظر آتیں۔

    ارے ہاں گھروں کے اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی تو سن لیجیے۔ لو منہارن کو تو ہم بھولے ہی جا رہے تھے۔ ہم کیا اسے تو زمانے نے فراموش کر دیا۔ ورنہ 29 رمضان کے دن سے لے کر چاند رات تک اسی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ رنگ رنگ کی چوڑیوں کی گٹھری کمر پر لادے گھر گھر کا پھیرا لگاتی۔ لڑکیاں بالیاں کنتی خوش ہو کر اس کا استقبال کرتیں اور اپنی گوری گوری کلائیاں اس کے سامنے پھیلا دیتیں۔ کتنی چوڑیاں کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے چکنا چور ہو جاتیں۔ بہرحال کلائیوں پر چڑھی چوڑیاں جلد ہی کھن کھن کرنے لگتیں۔

    اور ہاں ہتھیلیوں، پوروں اور انگلیوں پر گھلی منہدی کا لیپ، عید کی صبح کو یہ منہدی اپنی بہار دکھائے گی۔ یہ سارا کاروبار گزرے زمانے میں گھروں کے اندر ہوتا تھا۔ اب بازاروں میں ہوتا ہے۔ اور ہاں سویّوں کا کاروبار بھی تو بھلے دنوں میں گھروں کے اندر ہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو لکڑی کی بنی گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ان کے پیندے میں ایک چھلنی پیوست ہوتی تھی۔ بچے بڑے اس پر سوار ہوتے تھے تب وہ پچکتی تھی اور پیندی والی چھلنی سے سویاں نکلنی شروع ہوتی تھیں۔ ان لمبی لمبی سوئیوں کو دھوپ میں رکھے جھاڑ جھنکاڑ پر پھیلا دیا جاتا تھا۔ سکھا کر انہیں بارود میں پھونا جاتا تھا۔ پھر ابلتے دودھ میں انھیں بار بار ابالا دے کر شیر تیار کیا جاتا تھا۔ گھوڑی گئی تو ہتھے والی مشین آگئی۔ مگر اب ہم بازار سے سویاں خریدتے ہیں۔

    اور ہاں عید کا چاند۔ ارے یارو، نئے لوگوں کے تعقل سے مرعوب ہو کر تم ہلالِ عید کی دید سے کیوں بیزار ہو گئے ہو۔ یہ عید کا فیض ہے کہ چاند ہمارے لیے آج بھی زندہ جیتی جاگتی مخلوق ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب نے تو اسے سائنس کا کفن پہنا کر مردہ بنا دیا ہے۔ ویسے جب سے رویت ہلال کا فریضہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ تب سے ہم بھی چاند کی دید سے محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ 29 کی شام کو بچے بڑے چھتوں پر چڑھ کر آسمان پر اسے کس شوق سے ڈھونڈتے تھے۔ ہلال کی ایک جھلک کس طرح ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کرتی تھی، سلام عید سے پہلے چاند رات کا سلام اپنی بہار دکھاتا تھا۔

    (انتظار حسین کے کالم ’عید گاہ گم منہارن غائب‘ سے ماخوذ)

  • نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    سعادت حسن منٹو جیسے بڑے قلم کار نے کئی سال قبل اپنے وقت کی ایک بڑی گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں پر یہ مضمون لکھا تھا۔ اس میں منٹو نے نور جہاں کے فن اور ان کی شخصیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ دل چسپ باتیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً‌ وہ بتاتے ہیں کہ گلوکارہ اپنی آواز کے بگڑنے اور گلے کے خراب ہونے کا خیال کیے بغیر کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں کرتی تھیں۔

    منٹو نے ملکۂ ترنّم نور جہاں کے بارے میں لکھا: میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ ’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔

    سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔

    نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔

    نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپد گاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خداداد چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔

    میں یہاں آپ کے لیے ایک دل چسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پر واضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

    شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہے لیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘

    یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صدا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔

  • اندو رانی اور سروجنی کی کہانی جنھیں مقروض باپ نے فلم میں کام کرنے کی اجازت دی

    اندو رانی اور سروجنی کی کہانی جنھیں مقروض باپ نے فلم میں کام کرنے کی اجازت دی

    متحدہ ہندوستان میں پہلی بولتی فلم بنانے والے اردشیر ایرانی تھے اور اس کی فلم کا نام تھا عالم آراء۔ یہ مارچ 1931 کی بات ہے اور پھر بمبئی، کلکتہ اور لاہور کے فلمی مراکز میں بولتی فلمیں بنانے کا گویا ایک مقابلہ شروع ہوگیا۔ اس دور میں کئی نئے چہرے بھی پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے اور کام یابیاں سمیٹیں۔ ان میں دو بہنیں اندو رانی اور سروجنی بھی شامل تھیں۔

    اُس دور میں انگریزی کلچر سے متأثر گھرانوں‌ کو چھوڑ کر اکثریت خواہ مسلمان ہوں، ہندو یا سکھ اور عیسائی فلم میں‌ کام کرنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ عشرت جہاں اور اس کی بڑی بہن روشن جہاں‌ اسی ہندوستانی معاشرے کا حصّہ تھیں جس میں‌ لڑکوں‌ کا بھی فلمی دنیا میں قدم رکھنا آسان نہیں تھا، اور ان حالات میں عام اور روایتی گھرانوں کی لڑکیاں تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ لیکن ان کی والدہ منور جہاں ایک ایسے گھرانے کی عورت تھیں جہاں انھیں لڑکی ہونے کے باوجود تعلیم بھی دلوائی گئی اور انھوں نے ملازمت بھی کی۔ اس کے باوجود ان کی بیٹیوں کا فلم میں کام کرنا اتنا آسان نہیں‌ تھا۔ یہ اُس وقت ہوا جب والد شیخ امام الدّین کو مالی مشکلات نے گھیر لیا اور وہ مقروض ہوگئے۔ تب وہ اپنی بیٹیوں کو فلم میں کام دلوانے کی غرض سے خود پُونا لے گئے۔

    شیخ صاحب کی سات اولادیں تھیں۔ وہ دہلی کے ایک متوسط گھرانے کے فرد تھے جس میں‌ عشرت جہاں نے 1922ء میں‌ آنکھ کھولی۔ روشن جہاں اس سے بڑی تھی۔ ان دونوں کی والدہ منوّر جہاں ہندوستان کے مشہور حاذق طبیب اور علمی شخصیت حکیم اجمل خان کے اسکول کی اوّلین طالبات میں سے ایک تھیں۔ وہ ایک معالج کی حیثیت سے دو شاہی ریاستوں میں کام کرکے اپنے کنبے کی کفالت کرتی رہیں۔ جب کہ شیخ امام الدّین کو جوا کھیلنے کا شوق منہگا پڑ گیا۔ وہ مقروض ہوگئے تھے۔

    ایک روز انھیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی روشن جہاں نے ایک فلم اسٹوڈیو‌ سے خط کتابت کی ہے اور انھیں مثبت جواب ملا ہے۔ ان کی بیٹی روشن جہاں نے فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سرسوتی فلم اسٹوڈیو کو اپنے مکتوب کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھیجی تھی۔ وہاں سے انھیں 300 روپے ماہانہ کی نوکری کی پیشکش کی گئی۔ والد نے پہلے تو اپنی بیٹی کو اس جرأت پر خوب مارا اور بڑی درگت بنائی۔ مگر پھر خیال آیا کہ بیٹیوں کی کمائی سے وہ قرض سے نجات پاسکتے ہیں۔

    وہ عشرت جہاں اور روشن جہاں کے ساتھ پونا پہنچ گئے جہاں فلم ساز ایسے خوب صورت چہروں کی تلاش میں رہتے تھے جو اردو یا ہندی روانی سے بول سکتے تھے۔ ان بہنوں کو دادا صاحب ٹورن کی کمپنی بنام سرسوتی سینیٹون میں کام مل گیا اور عشرت جہاں کو اندو رانی جب کہ اس کی بہن روشن جہاں کو سروجنی کے نام سے بڑے پردے پر متعارف کروایا گیا۔ ان کو حسبِ وعدہ ماہانہ 300 روپے تنخواہ ملنے لگی۔ والد نے کمپنی سے تین ماہ کی پیشگی رقم لی اور دہلی لوٹ گئے۔ اندو رانی اور سروجنی کو اس نئے شہر میں ان کی نانی کا سہارے چھوڑا گیا تھا۔ پونا میں قیام کے دوران ان بہنوں کے ایک فلمی اداکار وسنت راؤ پہلوان کے ساتھ اچھے مراسم ہو گئے۔ وہ اسے ’’چاچا جی‘‘ کہتی تھیں۔

    بطور اداکارہ اندو رانی نے پونا میں‌ رہتے ہوئے سب سے پہلے ساوتری نامی مراٹھی فلم میں ایک چھوٹی بہن کا معمولی کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے یہ مراٹھی فلم فلاپ ہوگئی اور دادا صاحب تورنے کا اسٹوڈیو بند ہوگیا۔ اب ان بہنوں نے بمبئی شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔

    وسنت راؤ پہلوان کے مشورے سے انھوں نے بمبئی میں ایک ہندو کالونی میں فلیٹ کرایہ پر لیا اور یہاں 30 کی دہائی میں اندو رانی نے فدا وطن، پرتیما، بلڈاگ اور انصاف جیسی فلموں میں کام کیا۔ اسی زمانے میں اندو رانی کو ساتھی اداکار پریم ادیب سے محبت ہوگئی۔ لیکن وہ شادی کے لیے اپنے خاندان کی مخالفت مول لینے کی ہمّت نہ کرسکا تو اداکارہ نے اس سے دوری اختیار کرلی۔ بمبئی میں قیام کے دوران کئی پروڈیوسر ان بہنوں کے پاس آئے جن میں وی شانتا رام بھی شامل تھے۔ وی شانتا رام نے اندو رانی کو 300 روپے ماہانہ پر نوکری دینے کو کہا تو اداکارہ نے اپنی بہن یعنی سروجنی اور اپنے چاچا جی کے لیے بھی کام مانگا۔ شانتا رام نے اس کی بہن سروجنی کے لیے تو رضامندی ظاہر کی لیکن وسنت راؤ پہلوان کو قبول نہ کیا۔ اس لیے یہ سلسلہ آگے نہیں‌ بڑھ سکا۔ پہلوان اس کے فوراً بعد بمبئی سے چلے گئے۔ ایک روز نام ور فلم ساز سہراب مودی اور کیکی مودی ان کے گھر آئے۔ سہراب مودی نے اندو رانی اور اس کی بہن سروجنی کو 450 روپے ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا اور یوں وہ ان کے اسٹوڈیو پہنچ گئیں جس کا نام منروا مووی ٹون تھا۔ ابھی یہ سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ موہن پکچرز کے رمنک لال شاہ اور ان کے دوست نانا بھائی بھٹ نے بھی ان اداکاراؤں سے رابطہ کیا۔ رمنک لال سے معاملہ 500 روپے تنخواہ پر طے پایا اور اس طرح 1938ء سے دونوں بہنیں رمنک لال شاہ کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ سروجنی نے لگ بھگ دو درجن فلموں‌ میں کام کیا۔ اس کی چھوٹی بہن اندو رانی نے بھی مرکزی اور سائڈ ہیروئن کے رول بہت عمدگی سے نبھائے۔

    1939ء میں اندو رانی نے رمنک لال شاہ سے خفیہ شادی کرلی تھی۔ وہ 17 برس کی تھی۔ جب کہ سروجنی نے موہن پکچرز کے مرکزی ہدایت کار نانو بھائی وکیل سے شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا۔ 1943ء کے بعد ان کا فلمی سفر جیسے تھم گیا تھا۔ 1949ء میں ان کی آخری فلم ریلیز ہوئی اور پھر ان بہنوں کو مزید کام نہیں ملا۔ لیکن جب تک وہ فلموں سے خاصا پیسا بنا چکی تھیں۔

    اندو رانی اور سروجنی نے تین فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا، اور یہ جادوئی کنگن (1940)، حاتم طائی کی بیٹی اور تاج محل تھیں۔ اندو رانی نے اپنے دور کے کئی مشہور ہیروز کے ساتھ کام کیا، جن میں پریم ادیب، جینت، جیون، یعقوب، مبارک، سشیل کمار، یوسف آفندی، نذیر وغیرہ شامل ہیں۔

    رمنک لال شاہ اور اندو رانی دونوں بہت فیاض اور تعاون کرنے والے انسان تھے۔ ان کے چھے بچّے تھے۔ رمنک لال شاہ کا انتقال 1973 میں ہوا۔ اندو رانی امریکا منتقل ہو گئیں اور وہیں اپنے بیٹوں کے ساتھ باقی عمر کاٹ دی۔ اندو رانی 17 فروری 2012 کو انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی تدفین کیلیفورنیا کے ایک قصبے میں کی گئی۔

    (تلخیص و ترجمہ)