Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    یہ مجازؔ کا تذکرہ ہے، وہ مجاز جس کا کلام ہندوستان بھر میں مقبول تھا اور خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں جس کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھا کرتے تھے۔ مجاز کی نظموں میں جذبات کی شدّت اور ایسا والہانہ پن تھا جس نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ شاعر اسرارُ الحق مجازؔ کی نظم ’آوارہ‘ نے اپنے دور میں سبھی کو چونکا دیا تھا۔ یہ نظم بہت مقبول ہوئی اور ہر باذوق کی زبان پر جاری ہوگئی تھی۔ مجاز کو شراب نے اتنا خراب کیا کہ عین جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ اردو شاعری کے آسمان پر گویا لمحوں کے لیے چمکے اور پھر ہمیشہ کے لیے سب کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

    معروف ادیب مجتبیٰ حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ اس وقت وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئے تھے۔ شراب نے انھیں برباد کردیا تھا۔ لکھنؤ میں انتقال کرنے والے مجاز کا خاکہ مجبتیٰ حسین کی کتاب نیم رُخ میں شامل ہے۔ مجبتیٰ حسین لکھتے ہیں:

    بارے مجاز ڈائس پر آئے۔ انہوں نے "اعتراف” سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آ رہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے۔ طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جا رہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہو چکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہو کر پڑھے جا رہے تھے:

    خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
    شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
    شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
    خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

    ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آ گیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔ مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔ دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے۔‘

    معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔ جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔ اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔

  • کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس

    کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس

    اردو ادب میں صوفی غلام مصطفی تبسم ادیب اور شاعر کی حیثیت سے خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اردو، پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے اور اصنافِ نظم و نثر میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہوئے۔ صوفی صاحب ہمہ جہت شخصیت تھے اور تدریس کے ساتھ ان کے ادبی مشاغل میں ڈرامہ نگاری، بچّوں کے لیے نظمیں لکھنا، تراجم کرنا بھی شامل رہا۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو تعلیمی ادارے میں اردو کے ایک بڑے مزاح نگار اور پروفیسر، احمد شاہ المعروف پطرس بخاری کا ساتھ بھی نصیب ہوا۔ ان شخصیات نے تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں خلوصِ‌ نیّت سے انجام دیں۔ یہ پارہ اسی کی ایک جھلک دکھاتا ہے جو صوفی صاحب کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ۱۹۴۸ء کی بات ہے، شام کا وقت تھا۔ پروفیسر بخاری اور میں بیٹھے کالج کی باتیں کررہے تھے۔ میں نے کالج کی تدریسی اور ادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں کچھ تجویزیں پیش کیں۔

    ہنس کر بولے،’’صوفی! یہ تو شعر ہوئے۔ تم نے سنائے اور میں نے سن کر داد دی۔‘‘ میں چپ ہوگیا۔

    کچھ وقفے کے بعد بولے، ’’سنو!‘‘ تم استاد ہو، اور میں کالج کا پرنسپل۔ ہمارا کام اس درس گاہ کے نظم و نسق کو عملی طور پر آگے بڑھانا ہے۔ میرے نزدیک وہ تجاوز جو عملی صورت میں نہیں آتی، خواہ وہ آسمان ہی سے کیوں نہ نازل ہوئی ہو، محض ذہنی عیاشی ہے اور میں ذہنی عیاشیوں میں شعروں اور دوستانہ خوش گپیوں کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ میں نے مرزا بیدل کی ایک غزل جو اسی روز پڑھی تھی سنائی شروع کر دی۔

    رات کچھ بے چینی سی رہی۔ ایک مدر سے کالج میں اردو کی تدریس شبانہ جاری کرنے کا ارادہ تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے ’’ادیب فاضل کلاس‘‘ کی تدریس کا ایک مکمل ’’پیش نامہ‘‘ مرتب کرلیا، اور اس کی تین نقلیں بھی تیار کردیں۔ شام کو یہ مسل بغل میں دبائے بخاری صاحب کے مکان پر پہنچا۔

    یانہوں نے پوچھا، ’’ضلع کچہری سے آئے ہو؟‘‘

    میں نے کہا، ’’گھر سے آرہا ہوں۔‘‘

    ’’تو یہ پلندہ کیسا ہے؟‘‘

    ’’میرے ذاتی کاغذات ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک، بیٹھو‘‘

    ان دنوں پرنسپل کے مکان میں سرکاری کاغذات کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک آدھ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد میں جھجکتے جھجکتے اپنا تجویز کلام سنانا شروع کیا۔

    میں نے کہا ’’عام شائقین کے لئے اردو کی اعلیٰ تدریس کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ارادہ ہے کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس شام کو جاری کی جائے۔ اس کلاس کے جملہ نظم و نسق، ترتیب و تدوین اور درس کا کفیل کالج ہی ہو۔‘‘

    حسب معمول کہنے لگے، ’’یہ طرحیہ اشعار ہیں؟‘‘

    میں نے کہ، ’’جی ہاں۔ مطلع سنا چکا ہوں، پوری غزل یہ رہی۔‘‘

    یہ کہہ کر میں نے کاغذات کا پلندہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ اسے پڑھتے جاتے اور ان کا چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتماجاتا تھا۔ درمیان میں کہیں کہیں وہ کچھ سوال بھی پوچھتے جاتے۔ میں جواب دیتا اور کہتا، ’’آپ سارا مسودہ پڑھ لیں آپ کو معلوم ہوجائے گا۔‘‘

    کاغذات ختم ہوئے تو بولے، ’’ہوں… گویا میں بھی پڑھاؤں گا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’آپ فقط پرنسپل ہی نہیں، استاد بھی ہیں۔‘‘

    ’’کیوں نہیں۔‘‘

    اسں کے بعد انہوں نے ایک سگرٹ سلگایا، جس کا دھواں تھوڑے ہی وقفے میں برآمدے کے ہر گوشے میں لہرارہا تھا۔

    شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ موٹر کار میں بیٹھ کر شہر میں گھومنے لگے۔ جہاں جاتے اسی غزل کی تلاوت ہوتی اور پڑھنے کے ساتھ ہی اس طرح داد بھی دیتے کہ دوسروں کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی۔ اہلِ فکر حضرات اور مشفق احباب سب نے اسے سراہا۔ اس تبلیغی اعلان اور نشری پرچار میں آدھی رات گزر گئی۔

    صبح کو یہ بات لاہور کی گلی گلی کوچے میں گشت لگارہی تھی۔ ایک ہفتہ کے اندر تمام ضروری مراحل طے ہوگئے۔ محکمانہ اجازت، اشتہار و اعلان اور درخواستوں کی طلبی، امیدواروں کی پیشی، داخلہ اور پڑھائی۔

    پروفیسر بخاری اپنے روزمرّہ مشاغل میں خواہ وہ فرائضِ منصبی سے تعلق رکھتے ہوں یا نجی ہوں ایسے ہی مستعدی سے کام لیتے تھے۔ زندگی میں ان کی کام یابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔

  • معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اردو زبان و ادب میں ’پطرس بخاری‘ کے قلمی نام سے خوب لکھا اور بطور مزاح نگار اس قلمی نام سے ان کی منفرد پہچان بنی۔ علمی و ادبی حلقے اور باذوق قارئین انھیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ پطرس بخاری کی ہمہ گیر شخصیت کا تعارف بیک وقت مزاح نگار، نقّاد، مترجم، صحافی، براڈ کاسٹر، ایک ماہرِ تعلیم، اور سفارت کار کے طور پر ہم سے ہوتا ہے۔

    پطرس بخاری کی اپنے دور کے ادب، ادبی سرگرمیوں اور اہلِ قلم کی بعض کم زوریوں پر نظر رہی۔ اس کا اندازہ ان کے ایک انگریزی مقالہ سے ہوتا ہے۔ یہ مقالہ پطرس مرحوم نے ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے جے پور میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں پڑھا تھا۔ اس میں ان کا موضوع اردو ادب کا جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔ مظفر علی سیّد نے اس کا ترجمہ کیا تھا جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم و بصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُر جوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ’’کل‘‘ کو پا لے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا، اس کو درونِ خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔

  • ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    یہ اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کا تذکرہ ہے جنھوں نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی اور اردو ادب کو اپنی تصانیف سے مالا مال کیا۔ ادبیاتِ اردو میں انھیں ایک محقق، نقاد، ادبی مؤرخ، مترجم، لغت نویس اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

    جالبی صاحب کا یہ تذکرہ انتظار حسین کے قلم کی نوک سے نکلا ہے جو اردو کے ایک مشہور ادیب اور نقاد تھے۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی قلم کار تھے جن کا نام مین بکر پرائز کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ آج دونوں‌ ہی شخصیات اس دنیا میں‌ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی تصانیف اور بہت سی ادبی تحریریں ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ انتظار حسین کی کتاب ‘چراغوں کا دھواں’ سے جمیل جالبی کے بارے میں یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    انتظار حسین لکھتے ہیں، "سلیم کو تو 1947ء میں جیسا چھوڑا تھا، اب بھی ویسا ہی پایا، مگر وہ جو اس ٹولی کا دوسرا جوان تھا، جمیل خان اور جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ماشاء اللہ کیا قد نکالا تھا۔ جب میرٹھ میں دیکھا تھا، تو نام خدا ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ چھریرا بدن، گوری رنگت، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس۔ میرٹھ کالج کا نیا دانہ اور اب جو دیکھا، تو نقشہ کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلے میں گلوری، ہونٹوں پر پان کی لالی، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی۔ کتنی جلدی مگر کسی شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔ ”ناصر صاحب پان لیجیے اور یہ قوام چکھیے۔“

    ناصر کاظمی کو جمیل خاں کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فوراً ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر دیا۔ ”یہ تمہارے جمیل صاحب آدمی شستہ ہیں۔“ پانوں کی اس ڈبیا اور قوام کی اس ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔ ”ارے میاں تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔“

  • ”کھاٹ بُنا لو“ یا ”چارپائی بُنا لو؟“

    ”کھاٹ بُنا لو“ یا ”چارپائی بُنا لو؟“

    کتاب ‘لال قلعہ کی ایک جھلک’ کے مصنّف سید ناصر نذیر فراق دہلوی ہیں۔ وہ اردو کے ایک بڑے ادیب، شاعر اور انشا پرداز تھے۔ مذکورہ کتاب ان متعدد واقعات اور قصائص پر مبنی ہے جو مصنّف نے سن رکھے تھے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے کی دلّی اور لال قلعے کے دل چسپ واقعات کے علاوہ اس کتاب سے ہمیں اس دور کے بعض سماجی رویوں اور شاہی خاندان کے حالات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔

    یہاں ہم اسی کتاب سے اُس دور میں زبان و بیان کے ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ سید ناصر نذیر فراق دہلوی لکھتے ہیں:

    اکبرِ ثانی کے حضور میں پرچا گزرا کہ آج شاہ جہاں آباد میں شہر والوں نے کھٹ بُنوں کو خوب مارا پیٹا، کیوں کہ کھٹ بُنوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ شہر میں پھیری پھرنے آتے ہیں، تو آواز لگاتے ہیں، ”کھاٹ بُنا لو کھاٹ… کھاٹ بُنا لو کھاٹ!“

    شہر والوں نے کہا نکلے تمہاری کھاٹ۔ یہ کیا بری فال منہ سے نکالتے ہو۔ پھر جو انہیں پیٹا تو پیٹتے پیٹتے جھلنگا بنا دیا اور اس ٹکسال باہر لفظ سے توبہ کروائی اور سمجھایا کہ بجائے کھاٹ بُنا لو کے چار پائی بُنا لو کہا کرو، چناں چہ جب سے اب تک کھاٹ بُنے، چارپائی بُنا لو ہی کہتے ہیں۔

    اس تکلف و تنبیہہ اور تدبیر اور تدبر سے اردو معلیٰ کو سنوارا گیا ہے۔ اور جگہ اردو کو چار چاند نہیں لگ سکتے۔ ان کھٹ بُنوں کی ایک صفت قابلِ رشک ہے کہ شاہ جہاں کے عہد سے آج تک ان کا کسی قسم کا مقدمہ عدالتِ شاہی میں نہیں آیا۔ ان کا سرگروہ جو چوہدری کہلاتا ہے، وہی چُکا دیتا ہے۔

  • باغی سپارٹیکس اور کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ

    باغی سپارٹیکس اور کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ

    دنیا کی تاریخ کا ایک غلام آج ایک باغی سپارٹیکس کے نام سے نہ صرف زندہ ہے بلکہ یہ ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت اور آخری سانس تک لڑائی کا استعارہ بن چکا ہے ہاورڈ فاسٹ نے بھی اپنا شاہ کار ناول بعنوان سپارٹیکس ایک قید خانے میں ہی لکھا تھا وہ بھی اپنے نظریے کی بنیاد پر حقوق کی جنگ لڑنے والا قلم کار تھا

    شہرۂ آفاق باغی سپارٹیکس قبلِ مسیح کا ایک ایسا کردار ہے جس نے رومی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ محققین کے مطابق جب دنیا رومن بادشاہت کا عروج دیکھ رہی تھی، تب سپارٹیکس نے آنکھ کھولی تھی۔ اس دور میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کا رواج تھا اور ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ ظلم و ستم عام تھا اور آقا اپنے ان غلاموں کے ساتھ ہر قسم کا غیر انسانی سلوک کرسکتے تھے اور کرتے تھے۔ معمولی خطا پر ان سے مار پیٹ اور ان کا قتل بھی کر دیا جاتا تھا۔ سپارٹیکس بھی نوعمری میں غلام بن کر سلطنتِ روم کے بادشاہ اور امراء کی بطور گلیڈی ایٹر (انسانوں کی لڑائی) خوشی کا سامان کرنے لگا تھا۔ وہ جسمانی طور پر مضبوط اور بلند قامت غلام تھا۔ گلیڈی ایٹرز کے کھیل میں دو غلام اس وقت تک آپس میں لڑتے تھے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو پچھاڑ کر اس کی گردن نہ مار دے۔ ان کا خون بہتے، انھیں تڑپتے اور درد کی شدت سے چیختے چلاّتے دیکھ کر ان امراء کو راحت ملتی تھی اور یہ سب ان کے لیے محض ایک تماشا تھا۔ سپارٹیکس نے پا بہ زنجیر قید اور ہر طرح کا ظلم برداشت کیا، لیکن وہ خواب دیکھتا تھا، آزادی کا اور انتقام لینے کی خواہش رکھتا تھا۔ اسے یہ موقع مل گیا اور ایک دن وہ اور کئی غلام گلیڈی ایٹرز قید خانے سے سپاہیوں کا خون کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ اس وقت تک سپارٹیکس کی شہرت گلی گلی پھیل چکی تھی اور لوگ اسے دل و جان سے چاہنے لگے تھے۔ انھوں نے گلیوں میں دیوانہ وار اپنے ہیرو سپارٹیکس کا خیرمقدم کیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔ سلطنت کے بڑے شہر میں بادشاہ کی فوج سے لڑائی میں خوب خون بہا، اور ایک دن سپارٹیکس بھی مارا گیا۔ مگر یہ ایسی موت تھی جس نے اُسے امر کردیا۔ اسی سپارٹیکس کی کہانی مشہور ناول نگار فاسٹ نے بھی لکھی ہے۔

    ادیب و شاعر احمد عقیل روبی اپنی ایک کتاب میں ہاورڈ فاسٹ اور ان کے اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں: اسی طرح ہاورڈ فاسٹ (Haward Fast) نے اپنا شاہ کار ناول ’’سپارٹیکس (Spartacus)‘‘ قید خانے میں مکمل کیا۔ ہاورڈ فاسٹ کا تعلق کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین ارکان میں ہوتا تھا۔ اپریل 1946ء کی بات ہے، امریکی فاشزم کا زمانہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹی زیر عتاب تھی۔ ہاورڈ فاسٹ کے پیچھے جاسوس پاگل کتوں کی طرح لگے ہوئے تھے۔ اسے پارٹی کو چندہ دینے والے لوگوں کے ناموں کی فہرست دینے کے لیے کہا گیا۔ اس نے انکار کر دیا چنانچہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اسے سزا دینے کے لیے ووٹنگ ہوئی 62 ممبران نے حق میں 262 نے خلاف ووٹ دیا۔ اسے جیل بھیج دیا گیا۔ ہاورڈ فاسٹ نے کاغذ سامنے رکھے۔ قلم ہاتھ میں پکڑا اور ’’سپارٹیکس‘‘ مکمل کرلیا۔ 1951ء میں ناول مکمل ہوا۔ اس ناول کو چھاپنے کے لیے کوئی پبلشر تیار نہ تھا۔ فاسٹ نے ناول خود چھاپا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی 50 ہزار کاپیاں بک گئیں۔ اس ناول کا دنیا کی 82 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول کو بیسویں صدی کا اہم ترین ناول قرار دیا گیا۔ اُردو میں اس ناول کا 1988ء میں مشہور ادیب شاہ محمد مری نے بہت خوبصورت ترجمہ کیا۔ ہاورڈ فاسٹ 11 نومبر 1914ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں پیدا ہوا۔ ماں (IDA) برطانیہ سے ہجرت کر کے نیویارک گئی تھی اور باپ یوکرائن کا رہنے والا تھا۔ اس کا نام Barney Fastorsky تھا۔ نیویارک میں آیا تو Fastorsky کو مختصر کر کے Fast بنا لیا۔ اسی مناسبت سے ہاورڈ FAST کہلاتا ہے۔ اپنی سوانح عمری Being Red میں ہاورڈ فاسٹ اپنے گھریلو حالات کے بارے میں لکھتا ہے: ’’ہم بہت غریب تھے، مگر میری ماں نے کبھی ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا۔ 14 سال کی عمر ہی میں میرے باپ نے لوہے کی فیکٹری میں مزدوری شروع کر دی تھی، پھر میرے باپ نے نیویارک سٹی میں چلنے والی کیبل کار میں نوکری کر لی، پھر ملبوسات بنانے والی فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔ اسے وہاں 40 ڈالر ہفتہ وار ملتے تھے۔ میری ماں کپڑے سی کر سویٹر بُن کر گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ برتن دھوتی اور مجھے اچھی اچھی کہانیاں سناتی۔ اس کا لہجہ اس قدر دلچسپ، رنگین اور دل پذیر تھا کہ اب بھی جب میں یاد کرتا ہوں تو موت کا خوف میرے دل سے غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ 1923ء میں جب اس کی ماں مری اور باپ کی نوکری چھوٹ گئی، تو حالات نے خطرناک صورت اختیار کر لی اور گھر سے ساری خوش حالی ہوا ہو گئی۔ ہاورڈ فاسٹ نے گلی گلی گھوم کر اخبار بیچنے شروع کر دیے اور نیویارک کی پبلک لائبریری میں نوکری کر لی اور پھر مختلف شہروں میں روزگار تلاش کرنے کے لیے مارا مارا پھرنے لگا۔ ان بُرے حالات نے اس کا دھیان دو چیزوں کی طرف موڑ دیا۔ وہ لکھنے لگا اور سوشلزم کے نظریات اس کے دل میں گھر کرنے لگے۔ اس کا پہلا ناول (Two Valleys)، 1933ء میں چھپا۔ جب وہ 18 سال کا ہوا، تو اس نے اپنا مشہور ناول(Citizen Tom Pain) لکھا۔ The Last Froniter اور Freedom Road جن پر امریکی تاریخ کی چھاپ ہے بعد میں چھپے۔

    1944ء میں ہاورڈ فاسٹ کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بن گیا اور اس کا شمار پارٹی کے اہم افراد میں ہونے لگا۔ کمیونزم کے نظریات اسے اپنے باپ سے ورثے میں ملے تھے، جو روئے زمین پر مزدوروں کی حاکمیت کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ جب ہاورڈ فاسٹ نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو امریکا میں کمیونزم کی سخت مخالفت ہو رہی تھی اور پارٹی کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھی جا رہی تھی۔ کمیونزم کو کچلنے اور ملیامیٹ کرنے پر پوری توجہ دی جا رہی تھی۔ یسوع کے نام پر کمیونسٹ کو مارنا کار ثواب سمجھا گیا اور پارلیمنٹ اس پارٹی کے سر کردہ افراد کو سزائیں دینے پر تلی ہوئی تھی۔ امریکی حکومت کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کو دبایا جا رہا تھا اور کمیونسٹ امور لوگوں کے پیچھے جاسوس لگے ہوئے تھے۔ ہاورڈ فاسٹ اس ضمن میں گرفتار ہوا۔

    ہاورڈ فاسٹ نے اپنے اصل اور فرضی نام سے بہت کچھ لکھا۔ ناول، فلموں کے اسکرین پلے، T.V سیریل لکھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے اخبار Daily Worker میں کام کیا۔ اس کی تحریروں میں کمیونزم نظریات کے پرچار پر اسے 1953ء میں ’’سٹالن امن انعام‘‘ سے نوازا گیا۔ اپنی تخلیقی زندگی کے آخر میں اسے کمیونسٹ انتظامیہ سے اختلاف ہو گیا اور اس نے پارٹی سرگرمیوں سے ہاتھ کھینچ لیا اور سیاسی میدان سے کٹ کر زندگی بسر کرنے لگا۔ آخری عمر میں فاسٹ Old Green wich چلا گیا۔ 12 مارچ 2003ء کو اس کی وفات ہوئی۔

  • جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    ضامن علی نام، جلالؔ تخلص۔ والد کا نام حکیم اصغر علی، خاندانی پیشہ طبابت۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں۔ مزاج میں نزاکت کے ساتھ کچھ چڑچڑا پن۔ پستہ قد، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، آواز بلند، پڑھنا بہت بانکا تھا۔ پڑھنے میں کبھی کبھی ہاتھ ہلاتے تھے، اپنا آبائی پیشہ یعنی طبابت بھی نظر انداز نہیں کیا۔

    ایک مرتبہ رام پور کے مشاعرہ میں حضرتِ داغؔ دہلوی نے مندرجۂ ذیل مطلع پڑھا:

    یہ تری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھا ہے
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    مشاعرہ میں بہت داد دی گئی، مگر جلالؔ مرحوم نے تعریف کرنے میں کمی کی اور جب ان کی باری آئی، ذیل کا شعر پڑھا جس کی بے حد تعریف ہوئی:

    دل مرا آنکھ تری دونوں ہیں بیمار مگر
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    ایک اور مشاعرہ میں جلالؔ نے ایک شعر پڑھا، مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کو وجد آگیا۔ جھوم اٹھے اور بے اختیار آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے:

    حشر میں چھپ نہ سکا حسرتِ دیدار کا راز
    آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو

    مولانا مرحوم روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ کیا با اثر شعر ہے، کس مزے کی بلاغت ہے، رازِ حسرتِ دیدار چھپانے کی انتہائی حد دکھائی ہے، عمر بھر حسرت چھپائی، وقت مرگ بھی افشائے راز نہ ہونے دیا لیکن مقام حشر جو آخری دیدار کی جگہ ہے وہاں حسرتِ دیدار کا راز کسی طرح چھپائے نہ چھپ سکا۔ آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو۔

    (کتاب لکھنؤ کی آخری شمع سے انتخاب)

  • ہیبت ناک افسانے

    ہیبت ناک افسانے

    یہ فرانس کے ایک مشہور ادیب مورس لیول (Maurice Level) کی پُراسرار اور دہشت انگیز کہانیوں کے اردو ترجمہ پر رواں تبصرہ ہے، اور اس کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، براڈ کاسٹر اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری ہیں۔

    پطرس کو یہ کتاب معروف ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج نے ارسال کی تھی جو ان کہانیوں کے اردو مترجم ہیں۔ اگر آپ دل چسپی رکھتے ہیں اور یہ کہانیاں‌ پڑھنا چاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر اردو ترجمہ دست یاب ہے۔ فرانس کے ادیب مورس لیول کو بطور فکشن نگار اور ڈرامہ نویس دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔ ان کی خوف ناک اور پرتجسس واقعات پر مبنی مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں اور امتیاز علی تاج انہی کو اردو زبان میں ڈھالا تھا جس پر پطرس بخاری کا یہ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    ”ہیبت ناک افسانے“ کا پیکٹ جب یہاں پہنچا۔ میں گھر پر موجود نہ تھا۔ میری عدم موجودگی میں چند انگریز احباب نے جو کتابوں اور اشیائے خوردنی کے معاملے میں ہر قسم کی بے تکلفی کو جائز سمجھتے ہیں، پیکٹ کھول لیا۔

    یہ دوست اردو بالکل نہیں جانتے۔ بجز چند ایسے کلموں کے جو غصے یا رنج کی حالت میں وقتاً فوقتاً میری زبان سے نکل جاتے ہیں اور جو بار بار سننے کی وجہ سے انہیں یاد ہوگئے ہیں۔ اردو تقریر میں ان کی قابلیت یہیں تک محدود ہے۔ تحریر میں اخبار ”انقلاب“ کا نام پہچان لیتے ہیں وہ بھی اگر خط طغریٰ میں لکھا گیا ہو چنانچہ جب واپس پہنچا تو ہر ایک نے محض کتاب کی وضع قطع دیکھ کر اپنی اپنی رائے قائم کر رکھی تھی۔ سرورق پر جو کھوپڑی کی تصویر بنی ہوئی ہے اس سے ایک صاحب نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کتاب،

    میں بھی کبھی کسی کا سر پر غرور تھا

    سے متعلق ہے۔ ایشیا کے ادیب (عمر خیام، گوتم بدھ وغیرہ) اکثر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب سمجھے کہ فن جراحی کے متعلق کوئی تصنیف ہے۔ ایک بولے جادو کی کتاب معلوم ہوتی ہے (ہندوستان کے مداریوں کا یہاں بڑا شہرہ ہے ) ایک خاتون نے کتاب کی سرخ رنگت دیکھ کر بالشویکی شبہات قائم کر لیے۔

    میں نے کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھا۔ گو یہ سب کی سب کہانیاں میں پہلے انگریزی میں پڑھ چکا ہوں۔ اور ان میں سے اکثر تراجم کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے خود امتیاز سے سن چکا ہوں۔ وہ مختلف قسم کی دلفریبیاں جو مجھے کبھی کسی تصنیف کو مسلسل پڑھنے پر مجبور کرسکتی ہیں سب کی سب یہاں یکجا تھیں۔ کتابت ایسی شگفتہ کہ نظر کو ذرا الجھن نہ ہو تحریر میں وہ سلاست اور روانی کہ طبیعت پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ اور پھر امتیاز کے نام میں وہ جادو جس سے ہندوستان یا انگلستان میں کبھی بھی مَفر نہ ہو۔ یہ کتاب تیرہ ہیبت ناک افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جن کے مصنف کا مدعا یہ تھا کہ پڑھنے والوں کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے اور ہر افسانے میں درد و کرب خوف و دہشت یا پھر مرگ و ابتلاء کی ایسی خونیں تصویر کھینچی جائے کہ بدن پر ایک سنسنی سی طاری ہوجائے۔

    ایڈگر ایلن پو کے پڑھنے والے ایسے افسانوں سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ پو اس فن کا استاد تھا۔ اور یہ جو آج کل اس صنف ادب کی کثرت فرانس میں نظرآتی ہے عجب نہیں کہ اس کا بیشتر حصہ تو اسی کی بدولت ہو۔ کیونکہ فرانس کی ادیبات پر پو کا اثر مسلّم ہے اور ادب کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو۔ جہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نے اپنا رنگ نہ پھیر رکھا ہو۔ پیرس میں ایک خاص تھیٹر اسی بات کے لئے وقف ہے کہ اس میں دہشت انگیز کھیل دکھائے جائیں۔ اس کمپنی نے اس قسم کے ڈراموں کا اچھا خاصا مجموعہ مہیا کر رکھا ہے۔ تھیٹر کی ڈیوڑی میں چیدہ چیدہ ڈراموں کے مشہور مناظر کی تصاویر آویزاں ہیں۔ کہیں کوئی بدنصیب موت کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ چہرہ تنا ہوا ہے اور آنکھیں باہر پھوٹی پڑتی ہیں۔ کہیں کوئی سفاک کسی حسینہ کی آنکھیں نکال رہا ہے۔ بائیں ہاتھ سے گردن دبوچے ہوئے ہے۔ دائیں ہاتھ میں خون آلود چھری ہے اور لڑکی کی آنکھوں سے لہو کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔ کھیل کو ہیبت ناک بنانے کے لئے جو جو تدابیر بھی ذہن میں آسکتی ہیں ان سب پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایکٹر اپنی شکل شباہت اپنی آواز اور اپنی حرکات کے ذریعے ایک خوف سے کانپتی ہوئی فضا پیدا کر لیتے ہیں۔ پردہ اُٹھنے سے پہلے ہی گھنٹی نہیں بجائی جاتی بلکہ چراغ گُل کر کے لکڑی کے تختے پر دستک دی جاتی ہے۔ اس سے ہیبت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

    اس بات میں بحث کی گنجائش نہیں کہ درد و کرب یا خوف و دہشت کے مناظر یا افسانوں سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ فقرہ بظاہر خود اپنی تردید کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کو درد کہا جاتا ہے۔ اس سے خوشی کیسے حاصل ہوگی۔ لیکن یہ ہمارے متداول الفاظ کی کم مائیگی کا نتیجہ ہے۔ اصل خیال کو جو اس فقرے سے ظاہر کیا گیا ہے الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی وجہ سے بعض ماہرین نفسیات دکھ، درد، کرب وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال سے مجتنب رہتے ہیں کیونکہ وہ کب کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت سی ایسی کیفیات جن کو ہم عام زبان میں دکھ درد وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس قدر تسکین بخش ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے وصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اور ان میں اپنی مسرت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یقیناً آپ کے پڑوس میں کئی ایسی عورتیں ہوں گی جو اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی کی موت کی خبر سن پائیں اور بین اور واویلا میں شامل ہو کر آنسو بہا بہا کر اپنی تمنا پوری کرلیں۔ جرائم اور اموات کی گھناؤنی سے گھناؤنی تفصیلات کی اشاعت یورپ اور امریکہ کے کئی اخباروں کی مقبولیت کا باعث ہے۔ لوگوں کو ان کے پڑھنے میں ایک خاص لطف آتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یا میں بعض دہشت ناک افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے محض اس وجہ سے متامل نہ ہونا چاہیے کہ کہیں لوگ اس کو ہماری طینت کے کسی نقص پر محمول نہ کریں۔

    اعصاب میں ایک تھرتھراہٹ! بس یہی ان افسانوں کا مقصد ہے اور جس کامیابی، جس خوبی اور جس فن کے ساتھ اس کتاب کے مصنف نے اس مقصد کی تکمیل چاہی ہے اس کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ امتیاز جیسے ذی مطالعہ اہل قلم کو اس کے ترجمے کی خواہش ہو۔ ان لوگوں کے سامنے جو اردو ادب کے مشاہیر سے واقف ہیں اس سے زیادہ قابل وقعت ضمانت نہیں پیش کی جاسکتی۔ مصنف کی سب سے بڑی خوبی خود مترجم نے کتاب کے دیباچے میں واضح کر دی ہے۔

    مورس لیول بے انتہا، سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پختگی اور روانی پڑھنے میں نظم کا سا لطف دیتی ہے۔ ایک فقرہ یا لفظ بھی ضرورت سے زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔ مختلف چیزوں کے بیان میں تناسب کی سمجھ بے حد تیز ہے۔ چنانچہ ان کی ہر مکمل کہانی ایک نفیس اور صاف ستھرے ترشے ترشائے ہیرے کی طرح دل کش معلوم ہوتی ہے۔“

    یہ اختصار دہشت انگیز افسانوں کی ایک ضروری صفت معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ان میں وہ تندی وہ تیزی نہیں رہتی جس سے سنسنی پیدا کی جا سکے۔ اور پھر یہ اختصار ہر رنگ میں شامل حال رہتا ہے ورنہ افسانے یا ڈرامے کی کامیابی میں نمایاں طور پر فرق پڑ جاتا ہے اس کی وجہ میں کبھی ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکا لیکن اس کی حقیقت کے متعلق میرے دل میں کوئی شبہ نہیں۔ پیرس کے جس تھیٹر کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں اکثر کھیل صرف ایک ایکٹ کے ہوتے ہیں اور خود تھیٹر بھی بہت چھوٹا سا ہے۔ چند دن ہوئے میں نے لندن میں ایک ایسی قسم کا کھیل دیکھا جو ہیو والیول کے ایک ناول سے مرتب کیا گیا ہے۔ دل چسپی کی بات یہ ہے کہ اس کھیل کے لئے بھی لندن کا ایک بہت چھوٹا سا تھیٹر منتخب کیا گیا اس تھیٹر کا نام لٹل تھیٹر یا چھوٹا تھیٹر ہے۔ باقی رہا امتیاز کا ترجمہ، میں حیران ہوں کہ اس مختصر سے تبصرے میں اس موضوع کے متعلق کیا کہوں اور کیا کسی اور وقت پر اٹھا رکھوں۔

  • ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف روس کا عظیم ڈراما نویس، ناول اور افسانہ نگار تھا جس کی تحریروں سے اپنے وقت کے بڑے بڑے دانش ور اور اہلِ قلم متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ ایسا ادیب تھا جسے اس کی تخلیقات ہی نہیں انسان دوستی اور افکار کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

    ترگنیف کا یہ تذکرہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں، احمد عقیل روبی کے قلم کی نوک سے نکلا ہے۔ وہ ایک باکمال ادیب، شاعر اور بہترین مترجم تھے جن کا غیرملکی ادب کا مطالعہ حیرت انگیز تھا۔ ایوان ترگنیف کی زندگی اور اس کے تخلیقی سفر کے بارے میں احمد عقیل روبی کی یہ تحریر پُرلطف اور دل چسپ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ماں کی ممتا پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بچے کو زندگی دیتی ہے، اسے بولنا، چلنا، زندگی کو ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی ماں بچے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ بچے کو اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتی۔ من مانی پر اتر آتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور آخر کار بچہ بغاوت کر دیتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی ہے۔ ماں غصیلی تھی، چڑ چڑاپن اپنے عروج پر تھا۔ اس پر جب غصے کا بھوت سوار ہوتا تو وہ لارڈ بائرن کے بال نوچتی، اسے بری طرح مارتی، بائرن اس سے ہر پل خائف رہتا تھا۔ جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھی اس سے اکثر پوچھتے تھے:’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن کو اس بات کا بڑا افسوس تھا۔ اسے بچپن میں ماں کا پیار نہ ملا۔ وہ ساری عمر اپنی محبوباؤں میں ماں کا پیار تلاش کرتا رہا۔ فرانسیسی ناول نگار گستاؤ فلابیئر کے ساتھ الٹا حساب ہوا۔ فلابیئر کی ماں نے اسے اتنا پیار دیا، اتنی توجہ دی کہ فلابیئر کی زندگی برباد کر دی اور ساری عمر ماں کی بغل میں سمٹ کر بیٹھا رہا۔ نہ کسی عورت سے شادی کر سکا، نہ کھل کے محبت کر سکا۔ اگر کبھی شادی کے لئے دل نے رضا مندی ظاہر بھی کی تو محبوبہ کو چھوڑ کر ماں کے پاس چلا آیا۔ ماں اس کی کمزوری بن گئی۔ کھانا، پینا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، سب کچھ ماں کے اشارے پر کرتا تھا۔ گاؤں سے کبھی پیرس گیا، اپنی محبوبہ سے ملا۔ ماں یاد آ گئی تو پیرس سے بھاگ کر گاؤں چلا آیا۔ ایک بار اس کی شاعر محبوبہ نے اس سے کہا:’’تمہاری ماں تمہاری ایسے دیکھ بھال کرتی ہے جیسے تم کوئی کنواری لڑکی ہو۔‘‘ یہی حال ترگنیف کا تھا لیکن اس نے اپنی ماں سے کھل کر اختلاف کیا۔

    اس کی ماں بہت بڑی جاگیر کی وارث تھی۔ اس کی جاگیر میں 5000 غلام (Serfs) تھے۔ ان پر وہ دل کھول کر ظلم کرتی تھی۔ ہلکی سی غلطی پر انہیں کوڑوں سے مارتی۔ ترگنیف کو ماں کی اس عادت سے نفرت تھی۔ یہ نفرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔ وہ ماں سے اختلاف کرتا رہا۔ وہ اپنے غلاموں کو انسانی حقوق دینا چاہتا تھا۔ ماں اس پر رضامند نہ تھی۔ وہ اذیت پسند تھی۔ ترگنیف اس کی اس عادت سے بیزار رہتا تھا۔ 1834ء میں ترگنیف کا باپ مر گیا جو روسی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔ ترگنیف کی ماں کے لیے اب کھلا میدان تھا‘ اس نے جی بھر کے غلاموں پر تشدد کیا۔ ترگنیف نے کبھی دبے الفاظ میں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو ماں نے اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ترگنیف کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا‘ وہ خاموشی سے ماں کی بات مانتا رہا مگر ترگنیف نے ماں کے ظالمانہ سلوک کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔

    18ء اکتوبر 1818ء کو (Oral) شہر میں ایک امیر خاندان کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماں Varvara Petr شاعرانہ اور ادبی ذوق رکھنے والی ایک رئیس اور اذیت پسند خاتون تھی۔ترگنیف یورپ اور فرانس کے ادیبوں میں بہت مقبول تھا۔ فلابیئر کے ساتھ اس کے بہت گہرے مراسم تھے۔ ترگنیف اپنا زیادہ وقت فرانس ہی میں گزارتا تھا۔ روس کے ادیب، جن میں ٹالسٹائی بھی شامل تھا، اس کی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ روس کے ادیبوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ ترگنیف کو روس سے کوئی دل چسپی نہیں، وہ ذہنی طور پر ’’یورپ زدہ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ترگنیف کی تحریروں سے واضح ہے کہ اسے روس سے بہت محبت تھی۔ روس کے کسانوں اور دیہات میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار پر اس کا دل لہو روتا۔ روس کے ادیب صرف حسد میں یہ باتیں کرتے تھے کیونکہ یورپ اور دیگر ممالک میں ترگنیف اپنے تمام ہمعصر لکھنے والوں سے زیادہ مقبول تھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ (Fathers and Sons) ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے۔ یہ ناول 1862ء میں چھپا۔ اس ناول کا ہیرو بازووف 1860ء کی نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نوجوان Nihilist تحریک سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب سمیت تمام پرانے عقائد اور اداروں کو رَد کرتی ہے۔ مغربی یورپ میں اسے پہلے روسی ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔

    ترگنیف بحیثیت شاعر تو نا کام رہا لیکن بحیثیت ناول نگار اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اسے ’’ناول نگاروں کا ناول نگار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بازووف ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو مر کر بھی زندہ رہی جس نے اپنے آپ کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا، جس نسل کے خیالات ان کی بزرگ نسل نہ سمجھ سکی۔

    ترگنیف بلاشبہ ایک ایسا ناول نگار تھا جس نے ہمیں بتلایا کہ زندگی کیا ہے۔ انسان کی مختلف پرتیں کیا ہیں۔ وہ کیا ہے جو تاریخ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ بھید کیا ہے جو انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ قاری اگر ترگنیف کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کا ان تمام چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔

    (ادبی اقتباسات)

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)