Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • مسلم معاشرہ اور بولی وڈ

    مسلم معاشرہ اور بولی وڈ

    یوں تو مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب سے متعلق بے شمار فلمیں (نجمہ، طلاق، پالکی، میرے محبوب وغیرہ) بنتی رہی ہیں لیکن ایم ایس ستھیو کی ’گرم ہوا‘ (1973ء)، بی آر چوپڑا کی ’نکاح‘ (1982ء) اور ساگر سرحدی کی ’بازار‘ (1982ء) جیسی فلموں کو ایک خاص پہلو سے مسلم معاشرے کے سیاسی، معاشرتی اور ازدواجی رخ کو کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کی فقید المثال کوششوں میں گِنا جاسکتا ہے۔

    عصمت چغتائی کے افسانے پر مبنی ’گرم ہوا‘ میں تقسیم ہند کے فوراً بعد منقسم مسلم خاندانوں کے کرب اور بدلے حالات میں ہم وطنوں کے بدلے ہوئے رویوں کے بیچ ان کی اپنی بقا کی جدوجہد میں پریشانیاں، شمالی ہند کے ایک جوتا ساز خاندان کی کہانی کے حوالے سے اس خوبی سے پیش کی گئی ہیں کہ آپ ان موسموں کی گرم ہوا کی تپش محسوس کرسکتے ہیں۔ اچلا ناگر کی لکھی ہندی کہانی پر مبنی ’نکاح‘ میں مسلم فیوڈل کلاس میں عورت کی حیثیت اور خانگی مسائل (نکاح، طلاق اور حلالہ) کو پیش کرنے کی جرأت کی گئی ہے۔ ساگر ہی کی لکھی کہانی ’بازار‘ میں حیدرآباد(دکن) میں جوڑے اور جہیز کی بدعت کی مار جھیلتے متوسط طبقے کی کم تعلیم یافتہ بِن بیاہی لڑکیوں کی بدحالی اور جاگیر دار سماج یا عرب شیوخ کے ذریعے ان کے استحصال کی دل سوز داستان پیش کی گئی ہے۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں، پھر بھی ان فلموں کے اہم ترین کرداروں میں بالترتیب بلراج ساہنی، سلمیٰ آغا اور سپریا پاٹھک کی بے داغ اور لاجواب اداکاری کا اعتراف ضروری ہے۔

    ’نکاح‘ میں غلام علی کی آواز میں گائی ہوئی حسرت کی غزل ’’چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘‘، سلمیٰ آغا کی دل ربا آواز میں حسن کمال کا کلام ’’ دل کے ارماں آنسوؤں میں۔۔۔‘‘ اور ’’دل کی یہ آرزو تھی کوئی۔۔۔‘‘ شامل ہے۔ اسی طرح ’بازار‘ میں خیام کی موسیقی کے ساتھ میر، مرزا شوق، مخدوم اور بشر نواز کا کلام لتا منگیشکر، جگجیت سنگھ، چترا سنگھ، طلعت عزیز اور بھوپیندر کی آوازوں میں غالباً اپنے بہترین غنائی فارم میں محفوظ ہو گیا ہے۔

    (وشوناتھ طاؤس کے مضمون مسلم معاشرہ اور ہندی فلمیں سے اقتباس)

  • ’’بانی صاحب بہرحال بانی صاحب ہیں!‘‘

    ’’بانی صاحب بہرحال بانی صاحب ہیں!‘‘

    راجیندر منچندا بانی کو اردو ادب میں‌ جدید لب و لہجے والے ایسے شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے غزل کو توانا فکر سے مالا مال کیا۔

    ان کا نام راجیندر منچندا تھا اور بانی تخلّص۔ وہ 1932ء کو ملتان میں‌ پیدا ہوئے۔ بانیؔ کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد بھارت ہجرت کر گیا۔ وہیں 1981 میں‌ بانی کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ ان کے تین شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کے نام‌ حرفِ معتبر، حسابِ رنگ اور شفقِ شجر ہیں۔ یہاں ہم بانی سے متعلق اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے شخصی خاکے سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    بانی کو میں نے جس طرح اور جس حد تک دیکھا، پایا اور سنا ہے وہ سب کچھ اس خاکے میں ہے۔ ایک بانی وہ جو بانی ہے، دوسرا بانی وہ جو منچندا ہے۔

    نومبر 1972 میں جب میں دہلی آیا تو اس وقت تک میں نے ڈرتے ڈرتے بانی کا تھوڑا بہت کلام پڑھ لیا تھا۔ اور آج سربزم اس راز کا افشا کرتا چلوں کہ مجھے ان کا کلام بے حد پسند آیا تھا۔ دل میں اندیشہ تھا۔ کہ بانی سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر ضرور ملاقات ہوگی۔ لہٰذا سوچا کہ ان کا مزید کلام پڑھ لینا چاہیے۔ اگر وہ اپنی شاعری کے بارے میں کبھی کوئی سوال پوچھ بیٹھیں، اور میں معقول سا جواب نہ دے سکوں تو سبکی ہوگی یوں بھی دور اندیش آدمی خطرہ کو پہلے ہی بھانپ لیتا ہے، میں بانی کے کچھ شعر یاد کر کے اور ان کے کلام کے بارے میں اپنی رائے پر مبنی چند جملے تراش کر دلّی میں بلا خوف و خطر گھومتا رہا کہ بانی اب جہاں چاہیں ملیں وہ مجھے یوں غفلت میں نہ پائیں گے۔ مگر ایک دن کسی نے بتایا کہ بانی ان دنوں موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ پھر بہت عرصہ بعد ماولنکر ہال میں ریڈیو کے ایک مشاعرہ میں انہیں جناب ’’دم گفتگو صد سخن معتبر راز‘‘ نے میرا تعارف بانی سے کرایا۔ بانی انہی دنوں اسپتال سے چھوٹ کر آئے تھے۔ نقاہت کے باوجود بڑی گرم جوشی سے ملے پھر شکایت کی ’’بھئی ہم ہسپتال میں مہینوں تک موت سے لڑتے رہے مگر تم نے خبر تک نہ لی حالانکہ تمہیں دلّی آئے ہوئے تو کئی مہینے بیت گئے۔‘‘

    بانی شکایت کرتے رہے اور میں نظر جھکائے بانی کے کلام کے بارے میں ان جملوں کو یاد کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا جو میں نے کبھی حفظ کر رکھے تھے۔ خدا دشمن کو بھی کمزور حافظہ نہ دے۔ پھر بانی سے کافی ہاؤس، ادبی جلسوں اور مخصوص بیٹھکوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں۔ بانی کو میں نے ہر دم ایک سیدھے سادے اور معصوم آدمی مگر ایک سرکش اور چوکس شاعر کے روپ میں پایا۔ ایسا شاعر جس کے سامنے ہر دم اس کی شاعری رہتی ہے۔ بانی کی شاعری مال عرب ہے جو ہمیشہ پیش عرب رہتا ہے۔

    مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں اپنے ایک حیدر آبادی دوست کے ہمراہ کافی ہاؤس گیا تو دیکھا کہ بانی دوستوں میں گھرے بیٹھے ہیں۔ مسئلہ کچھ یوں زیر بحث تھا کہ بانی فلاں مشاعرہ میں کیوں نہیں گئے۔ بحث پہلے سے جاری تھی اور جب ہم ٹیبل پر پہنچے تو بانی دوستوں سے یوں مخاطب تھے۔ ’’بھئی بانی صاحب کو تم جانتے ہی ہو۔ وہ کیوں اس طرح کے مشاعروں میں جانے لگیں۔ بانی صاحب کو لوگوں نے سمجھ کیا رکھا ہے۔ بانی صاحب کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ بانی صاحب بہرحال بانی صاحب ہیں۔‘‘ غرض وہ بڑی دیر تک بانی صاحب ہی کی باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ ٹیبل سے اٹھ کر چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو میرے حیدرآبادی دوست نے کہا ’’یار بانی تو دہلی میں ہی رہتے ہیں۔ ان سے ملنے کی بڑی تمنا ہے۔ بڑا اشتیاق ہے۔ پھر ابھی جو صاحب اٹھ کر گئے ہیں۔ انھوں نے تو اس آتش شوق کو اور بھی بھڑکا دیا ہے۔ یار ہماری ان سے ملاقات تو کرا دو۔‘‘ محفل میں زور دار قہقہے بلند ہوئے اور میں نے اپنے دوست کو بتلایا۔ ’’میاں یہ جو صاحب ابھی تمہاری آتش شوق کو بھڑکا رہے تھے وہ اصل میں بانی صاحب ہی تھے۔ بانی صاحب کے راستہ میں خود بانی صاحب حائل ہیں۔ اب یہ تمہاری بدقسمتی ہے کہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔‘‘

    اور میرا دوست حیران اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمارے قہقہوں کو دیکھتا رہ گیا۔ میں یہ بات مذاق میں نہیں بلکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ احتشام حسین مرحوم سے لے کر باقر مہدی اور شمس الّرحمن فاروقی تک سب ناقد بانی کے سچے قدردان ہیں۔ موخرالذکر دوناقدوں کی قدردانی کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔

    ڈاکٹر نارنگؔ کے گھر پر ایک محفل میں جب بانی سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو شمس الّرحمن فاروقی نے کہا تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے، بانی اپنے رتبہ کے اعتبار سے آخر میں کلام سنائیں گے۔ پہلے میں سنائے دیتا ہوں۔‘‘

  • ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    یہ اس برس کی بات ہے جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلی تھی۔ شہر شہر ہنگامے ہو رہے تھے۔ میرٹھ کیسے بچا رہتا۔ وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔

    اردگرد ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگ رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں مگر میرٹھ کالج میں امن و امان تھا۔ بس ایک صبح کالج کے کسی گوشے میں یہ نعرہ بلند ہوا۔ سمجھو کہ جیسے کسی نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔ آگ فورا ہی بھڑک اٹھی۔ کلاسوں سے لڑکے بھرا کھا کر نکلے۔ نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ کسی نے گھما کر پتھر مارا اور ایک کمرے کے کسی دریچے کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ بس پھر دروازوں، دریچوں کے شیشے چکنا چور ہوتے چلے گئے۔ جب ہجوم کسی طور قابو نہ آیا تو پولیس طلب کرلی گئی۔

    مگر پولیس کے آنے سے پہلے میرٹھ کے جانے مانے لیگی راہ نما ڈاکٹر اشرف کالج آن پہنچے۔ مسلمان طلباء میں جو لیڈر قسم کی مخلوق تھا، اسے ہدایات دیں اور چلے گئے۔ میں نے اردگرد نظر ڈالی تو دیکھا کہ مسلمان طلباء بھاگنے کے بجائے لپک جھپک پرنسپل چٹر جی کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ میں بھی ان میں جا شامل ہوا۔ آگے آگے جو گھڑ سوار تھا، اس نے اپنے دستہ کو ہدایت دی کہ کر لو انہیں گرفتار۔ مگر چٹر جی بیچ میں آگئے۔

    "نہیں انہیں نہیں۔ یہ میرے بچّے ہیں۔”

    سو رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت

    کالج بند ہوگیا مگر پروفیسر مکر جی کلاس سے اپنی بے تعلقی کو زیادہ دن برداشت نہ کرسکے، جلد ہی اس جمود کو توڑا اور کلاس لینا شروع کر دی۔ آج یوں ہوا کہ انگریزی شاعری کے نئے رجحانات پر بات کرتے کرتے کہیں ایزرا پاؤنڈ کا حوالہ آگیا۔ لیجیے پھر ایزرا پاؤنڈ پر ہی رواں ہوگئے۔ یہ دھیان ہی نہیں رہا کہ ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں۔ ذرا وقفہ آیا تو ایک طالب علم ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا اور جھجھکتے ہوئے بولا: سر، ایزرا پاؤنڈ ہمارے کورس میں نہیں ہے۔

    بس مکر جی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کورس؟ میں کورس نہیں پڑھاتا، تمہیں انگریزی ادب پڑھاتا ہوں۔ یہ کہا، سامنے رکھی کتاب کہنے والے طالبِ علم کی طرف پھینک کر ماری اور بھنّا کر باہر نکل گئے۔ کلاس ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔

    اگلے دن کلاس میں طلباء سب موجود، مکر جی غائب۔ بہت انتظار کیا مگر بے سود۔ تب طلباء کو احساس ہوا کہ مکر جی کچھ زیادہ ہی خفا ہوگئے ہیں۔ اگلے دن طلباء کی ایک ٹولی ان کے گھر پہنچی۔ منت سماجت کی، روٹھے ہوئے کو منایا اور کلاس میں لے کر آئے۔ یہ تھے ہمارے پروفیسر مکر جی۔

    (ماخوذ از "جسجتو کیا ہے”)

  • "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟

    مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے سے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہیں گے، مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ حالانکہ اگر اسے ڈھونڈ نکالیں تو عیش و مسرت کا سارا سامان اسی کوٹھڑی کے اندر سمٹا ہوا مل جائے۔ ایوان و محل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں، دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے تو سبزۂ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں، اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں ہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئیں ہیں تو ہو جائیں، صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی، چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی، لیکن اگر دل زندہ پہلو میں نہ رہے، تو خدارا بتلائیے اس کا بدل کہاں ڈھونڈیں؟ اس کی خالی جگہ بھرنے کے لیے کس چولھے کے انگارے کام دیں گے۔

    میں آپ کو بتلاؤں اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا۔ کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہاں زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدۂ خلوت کے دم سے ہیں۔ یہ اجڑا اور ساری دنیا اجڑ گئی۔

    (انشاء پرداز مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِ خاطر سے اقتباس)

  • ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مدارس کے بوریا نشینوں اور معمر باریش غازیوں نے موت سے بے نیاز ہو کر میرِ کارواں کا کردار ادا کیا۔ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی اور تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔

    ان کی گاندھی سے ایک ملاقات اور اس دوران ہونے والی گفتگو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے، جس کے راوی سید محمد اسلم ہیں جو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: میں نے ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی۔ مسجد کے شمالی دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جو امام صاحب کا قبرستان کہلاتا ہے۔ اسی قبرستان میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی (م 1956ء) اور مولوی سمیع اللہ (م 1969ء) محو خوابِ ابدی ہیں۔

    مولانا لدھیانوی ایک زمانے میں مجلسِ احرار کے صدر تھے اور پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد موصوف مہاجروں کے قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے، لیکن یہاں ان کا جی نہ لگا اور موصوف دسمبر 1947ء کے اواخر میں دوبارہ بھارت چلے گئے۔ 3 جنوری 1948ء کو وہ ’گاندھی جی‘ سے ملے۔ گاندھی جی نے ان سے کہا۔ مولانا کیا آپ بھی پاکستان چلے گئے تھے؟ کیا آپ نے لدھیانہ کی سکونت اس بنا پر ترک کی کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، اگر آپ کا یہی جرم تھا تو آپ اپنے دین کے لیے جان کا نذرانہ پیش نہ کر سکے۔ یہ بات خود مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے راقم الحروف کو سنائی تھی۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ گاندھی جی کی باتیں سن کر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہ گاندھی کے ساتھ ان کی آخری ملاقات تھی۔ 30 جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

    (کتاب ’سفرنامۂ ہند‘، از قلم سید محمد اسلم)

  • "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    مصنّف: شائستہ زرّیں

    بچپن کی یادوں نے جب بھی ہمیں ستایا تو جہاں بچپن کے سنگی ساتھی یاد آئے وہاں اسکول کا زمانہ بھی بہت یاد آیا۔

    اسکول کا ذکر آئے اور ناغے کی بات نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ دورِ ضعیفی میں بھی جب ماضی اپنی گرفت میں لیتا ہے تو بچپن کی یادوں اور باتوں میں ناغے کے دن بہت ستاتے ہیں۔ ممکن ہے اوروں کامشاہدہ اور تجربہ ہمارے مشاہدے کے برعکس ہو۔ بات ہو رہی تھی ناغے کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں نیا کیلینڈر اسی لیے تو اچھا لگتا تھاکہ اس میں سال بھر کی تعطیلات کی فہرست بھی ہوتی تھی اور اگر کوئی چھٹّی اتوار کو پڑ جاتی تو ناغہ کا سارامزہ کرکرا ہو جاتا۔ یہ چھٹیاں بہت پُرلطف ہوتیں۔ پھر یوں ہوا کہ اسکول کا زمانہ بھی رخصت ہوا۔ اسکول کو خیرباد کہہ کر ہم نے کالج کی راہ پکڑی تو آئے دن کے ”ہڑتالی ناغوں“ نے ناغے کی ساری خوشی خاک میں ملا دی اور ناغہ ہماری آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے لگا۔ ہر بات کی آخر ایک حد اور خصوصی ناغوں کی لذت ہی الگ ہوتی ہے۔

    آج یادوں نے ذہن پر دستک دی تو جہاں زمانۂ طالبعلمی کے ناغوں نے اپنے حصار میں لیا وہاں انواع و اقسام کے ناغہ خوروں کا خیال بھی ہمیں ستانے لگا۔ ان میں سے بعض تفریحاً، چند مجبوراً، اکثر عادتاً اور کچھ تقلیداً ناغہ کرتے ہیں۔ آخری قسم کے ناغہ خور وہ ہیں جو اچھے بھلے جی رہے ہوتے ہیں، عادی ناغہ خوروں کو دیکھ کر اُنھیں بھی ناغہ کی ہڑک اُٹھتی ہے اور وہ ناغہ کا ذائقہ چکھنے کو بے چین ہوجاتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں اوراپنے تو اپنے غیر بھی اُن کے ہنر کی داد دیتے نظر آتے ہیں۔ ان روایتی و مثالی ناغہ خوروں کے درمیان کئی ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناغہ کے تصور ہی سے خائف ہو جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے ناغہ جن کے لیے پیغامِ حیات لاتا ہے۔ ناغہ خوروں کی وجہ سے اُن کی چاندی جو ہو جاتی ہے۔ ظہیر کو جمعہ کو بخار چڑھا، ہفتہ ناغہ ہوا، اتوار کو دوبارہ اُسے بخار نے آ لیا، پیر کو ایک مرتبہ پھر ناغہ۔ ظہیر تو بوکھلا گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنھیں اپنا فسانۂ درد سنا کر پوچھا ؎ اے مسیحا یہ ماجرا کیا ہے؟

    ڈاکٹر نے حسبِ پیشہ دو بول تسلی کے دیے، دو سو فیس کے لِیے اور دو ہزار کے ٹیسٹ ظہیر کی نذر کیے تو وہ تلملا گیا۔ اوائلِ بچپن ہی سے اُسے ٹیسٹ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اِدھر ڈاکٹر نے اُس کے ہاتھ میں ٹیسٹ کا پرچہ تھمایا، اُدھر یک بیک وہ اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب عین ٹیسٹ والے روز بالکل اچانک اُس کے کسی بھی حصہ جسم میں درد کا ایسا شدید حملہ ہوتا کہ وہ بے حال ہو جاتا۔ درد چونکہ نظر بھی نہیں آتا، اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔ سو، ظہیر مزے سے ناغہ کر لیتا اور ایسا ہر اُس دن ہوتا جب ماہانہ ٹیسٹ ہوتا۔ باقی دن وہ چین کی بانسری بجاتا اور ماہانہ ٹیسٹ ختم ہوتے ہی پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہو جاتا۔ گھر والے اِس صورت حال سے حیران و پریشان تھے، لیکن اللہ جانے ظہیر نے ڈاکٹر سے کیا ساز باز کر رکھی تھی کہ وہ بھی ظہیر کے ساتھ شریک ہوجاتے اور اب جو برسوں بعد ظہیرکو درحقیقت ناغہ کا بخارچڑھا تو وہ خود ڈاکٹر کی سازش کا شکار ہو گیا کہ ٹیسٹ کی نوعیت بے شک بدل گئی تھی لیکن اس کی یہ ہیَت خاصی ہیبت ناک تھی۔ یکایک ظہیر کو احساس ہوا کہ اسکول کے ٹیسٹ تو بہت بے ضرر اور تعلیمی سفر کا زادِ راہ ہوا کرتے تھے اور یہ ٹیسٹ جیب کٹنے کی علامت ہیں۔ اُس کی مہینہ بھر کی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ ناغہ کی اذیت کی نذرہو گیا تو زندگی میں پہلی بار ناغہ سخت برا لگا اور اُسے اپنا مصلحتاً کیا جانے والا ناغہ بلکہ بے دریغ ناغے یاد آگئے۔

    شوکت کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں تفریحاً ناغہ کی بہت سوجھتی ہے۔ مثلاً اگر کل میں دفتر سے ناغہ کر لوں تو مزہ ہی آجائے، کئی روز ہوئے گرلز کالج کا چکر نہیں لگایا، ایک دن کے ناغہ کے عوض دل لگی میں کیا برائی ہے؟ بہت ممکن ہے، ایک دن کی دل لگی شوکت کی شان و شوکت میں اضافے کا سبب بن کر دائمی خوشیوں کی نوید دے دے۔ شوکت نے اپنا سراپا آئینے میں دیکھ کرسوچا اور دفترسے ناغہ کر کے گرلز کالج کی راہ پکڑی۔ اب یہ شوکت کے نصیب کہ اُن کی شان تو کیا بڑھتی ہاں رہی سہی شوکت بھی خاک میں مل گئی۔اُس روز ناغہ کے طفیل شوکت کی وہ بھد اڑی کہ دفترسے مستقل ناغہ کی نوبت آگئی کہ جس لڑکی کو وہ شیشے میں اُتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں اُن کے باس کی بیٹی تھی۔

    ناغہ ہر ایک کو راس نہیں آتا۔ ہفتہ وار سرکاری تعطیل کے علاوہ بھی ہفتہ وار ناغہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ہمیں وہ ناغہ یاد آگیا جس کی اطلاع نے ایک پل میں ہمیں کئی کیفیتوں سے گزار دیا تھا۔ آج آپ بھی اس ناغہ کی روداد سے لطف اندوز ہوں۔

    استاد کی زبان سے ادا ہونے والا ایک تاکیدی جملہ بھی شاگردوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے، سو پروفیسر صاحب کا ہدایت نامہ ہم نے بھی بصد عجز و نیاز سُنا کہ ”منگل کے علاوہ کسی روز بھی آجانا کہ منگل کو میرا اور گوشت کا ناغہ ہوتا ہے۔“ منگل کے گوشت کا ناغہ تو بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن پروفیسر صاحب کے منگل کے ناغہ کا ذکر سُن کر ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمیں زمانۂ طالبعلمی یاد آگیا جب بغیر اطلاع ناغہ کرنے پر طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی تھی اور اطلاعی ناغہ کرنے والوں سے بھی باز پُرس ضرور کی جاتی تھی۔ دستاویزی ثبوت کافی نہ سمجھا جاتا تھا۔ اب جو پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تو خیال آیا کہ پروفیسر صاحب بلاجواز اتنے دھڑلّے سے ہفتہ وار ناغہ کی تہمت نہیں اٹھا سکتے۔ یقیناً منگل کو تنقید، تحقیق و تخلیق کے نت نئے در وا ہوتے ہوں گے کہ تینوں امور پروفیسر صاحب کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ منگل شادمانی کو کہتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منگل کو ناغہ کر کے پروفیسر صاحب فال نکالتے ہوں کہ امتحان کے لیے کون سی شبھ گھڑی ہو گی جب طالبعلم خلافِ توقع پرچہ دیکھ کر بھی اپنی تمام تر توجہ پرچے پر ہی مرکوز رکھیں گے اور کسی بھی اشتعال یا انتقام کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوں گے۔

    پروفیسر صاحب کے ناغہ کی گتھی تھی کہ سلجھ کر ہی نہیں دے رہی تھی، یکایک ہمیں اُن ناغہ خوروں کا خیال آگیا جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دانا کا تجربہ بھی یاد آگیا کہ ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا“ تب ہمیں ایک اور پروفیسر صاحب یاد آگئے جو پڑھاتے بیشک بہت اچھا تھے لیکن قدر کھو دینے کے خدشے کے تحت تین دن ہونے والی کلاس میں سے بھی ایک دن ناغہ ضرورکرتے اور شاگرد ایسے ناخلف اور ناقدرے کہ اُستاد کی دانائی کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُن سے ایسے بدظن ہوئے کہ اُن کی قدر و منزلت تک دل سے نکال بیٹھے، لیکن جن پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تھا وہ تو تدریسی ذمہ داریاں نباہنے میں بے مثال ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کے ساتھ گوشت کے ناغہ کا ذکر کیوں کیا؟ ہماری سُوئی تو یہیں آکر اٹک گئی تھی۔ ”بذلہ سنج ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں“ ہمارے دماغ نے ہمیں راہ دکھائی۔

    پروفیسر صاحب کی حکمت کا راز جانتے جانتے ہم نے خود حکمت کے موتی چننے شروع کردیے مگر عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا کہ آخر منگل کو ہی ناغہ کیوں؟ جب کچھ لوگ اگر گوشت کے ناغہ کا غم منا رہے ہوتے ہیں تو بعض لوگ ناغہ کی مدت جلد ختم ہونے کی مسرت سے دوچار ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا ناغہ گورکھ دھندا بن گیا، ایسا پیچیدہ معاملہ جس میں الجھ کر خیال کے نت نئے پھول تو کھل گئے مگر ناغہ کا سراغ پھر بھی نہ مل سکا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو سراغ لگا لیجیے! شاید یہ کام یابی آپ کے حصے میں آجائے اور ہم پر بھی پروفیسر صاحب کا منگل کا ناغہ اور وہ بھی گوشت کے ناغہ کے ساتھ مذکور ناغہ کا راز منکشف ہوجائے۔

    ہاں ایک عہدے دارایسا بھی ہے جس کے ذمے ناغہ کرنے اور نہ کرنے والوں کی فہرست درج کرنا لکھا ہوتا ہے جسے اپنے ناغے سے زیادہ اوروں کے ناغے کا خیال ہی نہیں رہتا بلکہ وہ اُن کے ناغوں کا حساب اور ریکارڈ تک اپنے پاس رکھتا ہے۔ تمام ناغہ خوروں کے مزاج اور مسائل بھی سمجھتا ہے تو کیوں نہ ناغہ نویس سے ملا جائے جو عمرکے ہر حصے میں ناغہ کے مزے لوٹنے والوں کے تمام حربوں، حیلوں اور جواز سے واقف ہوگا۔ شاید ناغہ نویس کے توسط سے ہم مزید ناغہ خوروں سے ملاقات کر لیں۔ اُن ناغہ خوروں سے جو سرِدست ہماری دسترس سے دُور ہیں اور شاید اس طرح ہمارے علمِ ناغہ خوری میں قابلِ قدر اضافہ ہو جائے۔ لیکن یہ اضافہ طالبعلم بھی تو کر سکتے ہیں کہ ناغہ کی اصل عادت تو اسکول کے زمانے ہی سے پڑتی ہے نا؟ کیا خیال ہے؟

  • علی سردار جعفری:‌ انقلابی فکر کا پرچارک اور انسان دوست شاعر

    علی سردار جعفری:‌ انقلابی فکر کا پرچارک اور انسان دوست شاعر

    ہندوستان میں اردو ادب، ترقی پسند تحریک کا عروج، پھر تقسیمِ ہند سے قبل انقلاب کی گونج میں جن اہلِ قلم نے شہرت اور نام و مقام پایا، علی سردار جعفری انہی میں سے ایک ہیں۔

    علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کی ترویج و تبلیغ تمام عمر کرتے رہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی امن، ہندوستان میں بھائی چارے اور عالمی سطح پر انسان دوستی کا پرچار کیا۔ وہ فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے لیے نظمیں لکھتے رہے اور ہر خاص و عام نے ان کے کلام کو سراہا۔ آج علی سردار جعفری کا یومِ وفات ہے۔

    یہ بھی پڑھیے: اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    انقلاب آفریں نغمات کے خالق علی سردار جعفری نے اپنے تخلیقی وفور اور قلم کے زور پر ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور اس دور کے نئے قلم کاروں کو متاثر کیا۔ وہ شاعر، نقّاد اور ایسے مضمون نگار تھے جن کے قلم سے کئی توصیفی اور تنقیدی مضامین، افسانے اور ڈرامے ہی نہیں نکلے بلکہ انھوں نے اپنی یادداشتوں اور ادبی تذکروں پر مبنی تحریریں‌ بھی یادگار چھوڑی ہیں۔

    بنیادی طور پر علی سردار جعفری نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور گیت نگاری بھی کی جن میں خاص طور پر ایک جذباتی رو پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام ایک ایسا صوتی آہنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ علی سردار جعفری درد مند اور انسان دوست مشہور تھے اور ان اہلِ قلم میں سے ایک تھے جنھوں نے قوم اور فرد کی آزادی اور ترقی کا خواب دیکھا اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    علی سردار جعفری بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے اور یکم اگست 2000ء کو ممبئی میں انتقال کیا۔

    ممتاز شاعر علی سردار جعفری نے ایک انٹرویو میں اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت اور اپنے ادبی سفر کا احوال یوں بتایا تھا: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔

    انھوں‌ نے اپنی تعلیم اور مشاغل و معمولاتِ نوعمری سے متعلق بتایا، سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔

    ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    وقت گزرا تو جہاں انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنایا اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے، وہیں آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلمی سفر درجہ بہ درجہ جاری تھا اور اسی دوران وہ شاعری اور کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی مگن تھے، وہ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔

    لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔

    1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    ان کے تحریر کردہ ڈرامے اور افسانے بھی مختلف ادبی پرچوں کی زینت بنتے تھے جب کہ ممبئ سے چھپنے والا سہ ماہی "نیا ادب” ان کے زیرِ ادارت شایع ہوتا تھا۔ علی سردار جعفری ایک بہترین مترجم بھی تھے اور شیکسپئر کی چند تحریروں کے علاوہ دوسرے قلم کاروں کی تخلیقات کے تراجم بھی کیے۔ علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات پر مشتمل کتابوں‌ میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ کتاب بعنوان لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء)، اقبال شناسی (1969ء) میں منظر عام پر آئی۔ انھوں نے فلمی گیت بھی لکھے اور فلم کی دنیا میں بطور مصنّف بھی جگہ بنائی۔

    بھارت میں علی سردار جعفری کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے پدم شری ایوارڈ جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے 1978ء میں اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ علی سردار جعفری کو خصوصی تمغائے ماسکو (ستّر سالہ جشنِ پیدائش پر) 1984ء میں عطا کیا گیا تھا۔ 1997ء میں بھارت نے انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ بھی دیا تھا۔

  • قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ”بنات“ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ”چاکلیٹ کا قلعہ“ بنات میں شایع ہوئی تھی۔ قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ماری پور میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں۔ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی۔

    آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک بی نارتھ ناظم آباد میں ہوئی، کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے اپنے ضخیم ناول ”آگ کا دریا“ اور “سفینۂ غم دل“ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں۔

    مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ”عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں، اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔“ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ”عصمت“ اور ”تہذیبِ نسواں“ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔

    باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھا کر حجرِ اسود کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔

    ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچّے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔ پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں۔ ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔

    (مصنّف حاذق الخیری، ماخذ خود نوشت ’جاگتے لمحے‘)

  • قیل و قال کی مجالس

    قیل و قال کی مجالس

    علی عباس جلال پوری اردو کے ممتاز ادیب، مفکر اور دانش وَر تھے۔ فلسفہ ان کا بنیادی وظیفہ تھا اور اس کے ذریعے وہ فطرت اور اس کے دامن میں بسے ہر ذی روح اور اشیاء کے وجود اور رمز کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے ان کا ذہن نئے نئے سوالات کو جنم دیتا اور وہ اس کا جواب اپنی عقل اور علم کے مطابق تلاش کرتے۔ علی عباس جلال پوری کے افکار اور ان کی تصانیف پر تنازع بھی رہا۔

    فلسفے میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے لینے والے علی عباس جلال پوری نے اردو اور فارسی میں بھی ایم اے کی سند افتخار حاصل کی تھی اور تدریس سے وابستہ رہے۔علی عباس جلال پوری کی مشہور کتابوں میں ’روح عصر‘ روایات فلسفہ، تمام فکری، مغالطے، کائنات اور انسان، روایات تمدن قدیم، جینیاتی مطالعے کے علاوہ مقالاتِ جلال پوری اور خرد نامۂ جلال پوری شامل ہیں۔ 7 دسمبر 1997ء کو علی عباس جلال پوری وفات پا گئے تھے۔

    سید علی عباس جلال پوری سے ممتاز انشائیہ نگار، ادیب اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کا رابطہ و تعلق زندگی بھر قائم رہا۔ ان کے مابین علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی اور اکثر خطوط کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک خط ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    سید علی عباس جلال پوری کا خط بنام ڈاکٹر وزیر آغا

    آپ کا خط ملا۔ میں سکون و فراغت کی تلاش میں گاؤں جا رہا ہوں، اب لاہور میں میرے لئے کشش کا کوئی سامان نہیں رہا، ذہنی فکری لحاظ سے یہ شہر بانجھ ہو چکا ہے، قیل و قال کی مجالس تو بہت ہیں لیکن صاحب بصیرت اور اربابِ فکر کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ مشاعروں اور کم سواد عطائیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے، ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے اپنا اپنا ’امیج‘ بنانے کی فکر میں ہیں اور تھوڑی بہت Recognition کم نظروں سے مل جاتی ہے تو اس ’امیج‘ کو ریڈیو، ٹیلی ویژن پر بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ مطالعے اور تفکر سے عاری محض ہیں اور ہر شخص کو اپنی ہی سطح پر کھینچ لانا چاہتے ہیں۔

    یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ نے اقبالؒ کی کتاب لکھی ہے۔ اس کا موضوع تو بتایا ہی نہیں۔ مجھے بھی کہلوایا گیا تھا کہ اقبالؒ پر کوئی کتاب لکھوں لیکن میں نے انکار کردیا۔ اقبالؒ کی فکر کے بارے میں جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ میں نے اقبالؒ کے علم الکلام میں کہہ دیا ہے۔ رہی اس کی شاعرانہ عظمت تو اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن مجھے فرصت نہیں ہے۔ اب پنجابی کتاب کا موضوع ’پنجابی کے صوفی شاعر اور وحدت الوجود‘ چنا گیا ہے۔ دو ایک ماہ میں چھپ گئی تو آپ کو بھیجوں گا۔ اس میں میں نے اپنی ماں بولی کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔

    ’اردو زبان‘ کے تازہ شمارے میں محمد احسن فاروقی کا مضمون ’ادب اور تحریک‘ نظر سے گزرا۔ اس میں فرماتے ہیں کہ ’’بقراط کا یہ خیال تھا کہ کائنات تمام حرکت میں ہے‘‘ ان صاحب کو معلوم نہیں کہ بقراط طبیب تھا فلسفی نہیں (اصل میں ہیپاکریٹس)۔ اسے طب یونان کا باوا آدم مانا گیا ہے۔ فلاسفہ میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ یہ خیال کہ تمام کائنات حرکت میں ہے، ہیرا کلیٹس کا ہے۔ میں شاید چھ ماہ (یا برس بھر) یہاں قیام کروں۔ میرے چھوٹے بیٹے نے بی اے فائنل کا امتحان دینا ہے اور وہ سیاسی آشوب کی وجہ سے التوا میں پڑ گیا ہے۔ اس کی فراغت تک گاؤں نہیں جا سکوں گا۔ جب آپ یہاں تشریف لائیں گے تو ملاقات کی کوئی سبیل پیدا ہو جائے گی۔

    (نوٹ: یہ خط غالباً مئی 1977ء میں لکھا گیا تھا)

  • بھیا احسان الحق!

    بھیا احسان الحق!

    علم و فنون کی دنیا کے کئی نام ایسے ہیں جنھیں آج کوئی نہیں جانتا اور اردو زبان و ادب کے متوالوں کی فہرست میں‌ کئی ایسے لوگ شامل ہیں جن کا ذکر بھی اب نہیں کیا جاتا، لیکن کبھی یہ لوگ علمی مجالس اور ادبی بیٹھکوں کی رونق بڑھاتے تھے۔

    یہ معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے ایسی ہی ایک شخصیت کا تذکرہ ہے۔ خلیق ابراہیم خلیق نے اپنے دورۂ بھارت( دہلی) کی یادوں میں بھیّا احسان الحق کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    بھیّا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدّین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرفِ عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ء میں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل“ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔

    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادوں سے ایک پارہ)