Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری

    جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری

    اگر تاریخِ عالم میں سکندر کا نام ایک غیرمعمولی شخصیت، باتدبیر حکم راں اور بہترین فوجی کمانڈر کے طور پر محفوظ ہے تو فارس کے بادشاہ دارا کا تذکرہ بھی بہادر فوجی اور باصلاحیت حکم راں کی حیثیت سے بہت اہمیت رکھا ہے جس نے سکندرِ اعظم کی فتوحات کا راستہ روکا تھا۔

    نوجوان سکندرِ اعظم نے وسیع میدانوں میں بڑے بڑے سورماؤں‌ کو شکست دے کر دنیا پر راج کیا لیکن دارا سوّم بھی 30 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط وسیع سلطنت رکھتا تھا۔ دارا کی سلطنت کی وسعت اس زمانے کے فن پاروں سے بھی عیاں ہے جن میں اس کے مختلف حصّوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ بحیثیت جنگجو اور حکم راں، مغرب کے نزدیک دارا نے ہمیشہ سخت رویہ اپنایا اور وہ اپنے ایک عزیز کے ہاتھوں مارا گیا۔ 330 قبلِ مسیح میں دارا کی موت کے بعد سلطنتِ فارس کا خاتمہ ہوا اور دنیا کی تاریخ میں سکندرِ اعظم کی عالی شان سلطنت وجود میں آئی۔ ان حکم رانوں اور فوجی کمانڈروں کا ذکر تاریخ کے اوراق تک محدود نہیں بلکہ دنیا کی مختلف زبانوں کا ادب بھی ان کے نام اور کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ نام دلیری، شجاعت، خوش نصیبی کا استعارہ بھی بنے اور ان سے جڑے واقعات نے شاعری میں صنعتِ تلمیح کی صورت میں جگہ پائی۔ اس میں جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری پر کئی نثر پارے اور اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دونوں عجیب و غریب یا اس زمانے کے اعتبار سے کرشماتی چیزیں ہیں جس میں کچھ حقیقت ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے تاریخی کتب کھنگالی جاسکتی ہیں۔ لیکن اہلِ فن و قلم ان کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:

    سکندر اور ایران کے بادشاہ دارا کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں لیکن سکندر دارا کی تدبیروں کی وجہ سے شکست کھا جاتا تھا۔ دارا جامِ جہاں نما کی مدد سے سکندر کی تمام نقل و حرکت اور تیاریوں سے آگاہ ہو جاتا اور سکندر کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتیں۔ آخر کار اس نے حکومت کے مدبروں اور سائنس دانوں کی مدد سے شہر اسکندریہ کے ساحل پرایک آئینہ بنانے میں کام یابی حاصل کر لی، جس سے وہ دشمن کی نقل و حرکت اور سربستہ رازوں سے آگاہی حاصل کرسکے۔ یہ آئینہ سکندر نےایک اونچے مینار پر نصب کرایا تھا، اس آئینے کی مدد سے دشمن کی نقل و حرکت کا اندازہ سو میل کی مسافت سے ہوجاتا تھا۔ اس تلمیح کا استعمال ان اشعار میں دیکھیے۔

    سکندر کیوں نہ جاوے بحرِ حیرت میں کہ مشتاقاں
    تمہارے مکھ اگے درپن کوں درپن کر نہیں گنتے
    شاعر: ولی دکنی

    خاکِ آئینہ سے ہے نامِ سکندر روشن
    روشنی دیکھتا گر دل کی صفائی کرتا
    شاعر: ذوق

    آئینۂ سکندری اردو ادب کا خاص موضوع رہا ہے اور عوام میں اس کی شہرت کو دیکھتے ہوئے برطانوی دور میں اسی نام سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ یہ فارسی زبان میں نکلنے والا ہفت روزہ اخبار تھا۔ اسے مولوی سراج الدّین نے آئینۂ سکندر کے نام سے فروری 1831ء میں کولکتہ سے جاری کیا۔ یہ ہفت روزہ 14 صفحات پر مشتمل تھا اور ہر دو شنبہ کو نکلتا تھا۔ مشہور ہے کہ اس اخبار کو عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا تعاون حاصل تھا۔ ان کا فارسی کلام بھی آئینۂ سکندر میں شائع ہوتا تھا۔ اس ہفت روزہ کی خاص بات یہ تھی کہ ہر خبر کی سرخی کے نیچے ایک شعر بھی لکھا جاتا تھا۔ اسی طرح جامِ جہاں نما، برصغیر پاک و ہند میں پہلا اردو اخبار مشہور ہے جو 1822ء میں کلکتے سے ہری ہردت نے جاری کیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں کے بعد اسے فارسی زبان میں شائع کرنا شروع کردیا گیا تھا۔

  • ادب اور عشق

    ادب اور عشق

    ایک بادشاہ نے ایک ملکہ کے حسن و جمال کا شہرہ سنا اور اس پر عاشق ہو گیا۔ پھر وہ تخت و تاج چھوڑ کر اس اجنبی ملک کی طرف اس ملکہ کا دیدار کرنے چلا۔ مگر اس بادشاہ سے زیادہ کمال شہزادہ جانِ عالم نے دکھایا جو ایک توتے کی باتوں میں آکر انجمن آرا کا نادیدہ عاشق ہو گیا اور دربدر خاک بسر پھرا۔ مگر ایک شہزادہ وہ بھی تو تھا جس نے خواب میں ایک صورت دیکھی تھی اور صبح ہونے پر اس نے باپ سے کہا کہ ایسا اس کا ناک نقشہ ہے اور ایسی اس کی چھب ہے، شادی کروں گا تو اسی سے کروں گا، نہیں تو ڈوب مروں گا۔ اور ایک وہ شہزادہ تھا جس نے جوتی دیکھی اور کہا کہ جوتی ایسی ہے تو جوتی والی کیسی ہوگی اور جوتی والی پر مر مٹا۔

    شہزادوں پر منحصر نہیں۔ اُن دنوں سب عشق کرتے تھے اور اسی طور کرتے تھے۔ کوئی نوجوان لکڑہارا درخت کاٹتے کاٹتے کوئی شیریں آواز سنتا وہ آواز اسے لے اڑتی۔ آواز ایسی ہے تو آواز والی کیسی ہوگی۔ پھر جب وہ درخت آہستہ آہستہ کاٹ چکتا تو کوئی پری چہرہ برآمد ہوتی اور وہ اس پر مہربان ہو جاتی۔ مہربان کا لفظ میں نے جان کر استعمال کیا ہے۔ عورت مہربان ہی ہو سکتی ہے، عشق نہیں کر سکتی، عشق مردوں کا پیشہ رہا ہے۔ عورت اس پیشے میں شریک ہو جائے تو یہ اس کی عنایت ہے، نہ ہو تو اس کی شکایت نہ کرنا چاہیے اور جب دونوں ہی گریجویٹ ہوں تو پھر تو شکایت بالکل زیب نہیں دیتی۔

    خیر تو ذکر یہ تھا کہ عشق ان دنوں سچ مچ اندھا تھا۔ دیدار شربتِ وصل کا مرتبہ رکھتا تھا۔ مگر دیدار ہوتا کہاں تھا۔ محبوب کی خوشبو چہار سو پھیلی ہوتی تھی مگر اس کا جلوہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر یہ بات شاید شاعرانہ ہو گئی۔ نثر میں بات یوں ہے کہ ان دنوں مرد اندھا تھا اور عورت تاریک براعظم تھی۔ تاریک براعظم مرد کو پکارتا بھی تھا، ڈراتا بھی تھا۔ اس بلاوے اور ڈراوے سے مہموں اور معرکوں اور واردات نے جنم لیا اور اندھا عشق عہد کی بینائی بن گیا اور اس کی روشنی میں لوگ چلتے تھے اور اپنے کام کرتے تھے۔ اس روشنی میں خودکشیاں ہوئیں، سفر کئے گئے، لڑائیاں لڑی گئیں۔ کبھی ہار کبھی جیت۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب جذبے پر آدمی کا ایمان قائم تھا۔ اپنے جذبے کے واسطے سے بروئے کار ہونے میں اسے کسی صورت عار نہ تھی۔ سری کرشن جی حکیم عصر بھی تھے اور عاشق پیشہ بھی تھے۔ جذبے پر ایمان ہی ایکلیز کو کھینچ کر لڑائی کے محاذ پر لے گیا اور جذبے پر ایمان ہی نے اسے اس معرکے سے بیزار کیا۔ وہ روٹھ گیا۔ اس نے ہتھیار کھول کر رکھ دیے اور کہا کہ بھاڑ میں جائے یونان کی غربت۔ میری محبوبہ کو ایگمنان لے گیا ہے۔ اب میں نہیں لڑوں گا۔

    جنگیں طرزِ احساس کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ جیسا معرکہ پڑتا ہے ویسا ہی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ لڑائی کے محاصرے کی داستان نے ہومر کو پیدا کیا۔ جذبے کے معنی ہونے پر ہومر کا ایمان تھا۔ اس حد تک ایمان کہ اس کے لئے اس واسطے سے پڑنے والا معرکہ ایسی جامعیت رکھتا ہے کہ اسے بیان کر کے شاعر اپنے عہد کے جذبات، احساسات اور عقائد و افکار کی تفسیر کر سکتا ہے۔ مگر دوسری جنگِ عظیم نے کامیو کو پیدا کیا۔ اس نے ایک تو OUTSIDER لکھا، اوپر سے یہ کہا کہ ہر ادیب اپنے عہد کے جذبات کو ایک شکل عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کل کا جذبہ محبت کا تھا۔ آج اتحاد اور آزادی کے جذبات نے دنیا میں ہنگامہ پیدا کر رکھا ہے۔ کل تک یہ ہوتا تھا کہ محبت کے پیچھے آدمی خودکشی کر لیتا تھا، آج اجتماعی جذبات عالمگیر تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

    کامیو صاحب محبت کو آج کا جذبہ نہیں مانتے مگر آدمی بامروت ہیں۔ انہوں نے ہمیں تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ضروری کاموں سے وقت اگر بچے تو وقتاً فوقتاً عشق کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے اگر ضروری کاموں سے وقت بچنے ہی کا معاملہ ہے تو بہتر ہے کہ عشق طالب علمی کے زمانے میں کر لیا جائے۔ اس وقت آدمی کو ضروری کام نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ اگر اسمگلنگ یا چور بازاری یا اس قسم کی اور کوئی حرکت کرکے ہم نے جذباتی خودکشی نہیں کر لی ہے، تو یہ لہو کی بوند جو ہمارے اندر ہے کسی نہ کسی وقت ضرور ہنگامہ آرا ہو گی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں وہ ہنگامہ آرا ہو جائے تو اچھا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال امتحان نہیں دیں گے۔

    پرانی دنیا میں عشق جز وقتی مشغلہ نہیں تھا۔ اس کی حیثیت ضمنی اور غیرضروری کام کی نہیں تھی۔ عشق کے آغاز کے ساتھ سارے ضروری کام معطل ہو جاتے تھے اور آدمی کی پوری ذات اس کی لپیٹ میں آ جاتی تھی۔ یہ صنعتی عہد کا کارنامہ ہے کہ عشق کو ذات کی واردات اور زندگی کا نمائندہ جذبہ ماننے سے انکار کیا گیا اور یورپ کا معاملہ یہ ہے کہ صنعتی عہد کے ساتھ وہاں سے انسانی حوالے غائب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یورپ نے بیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں لڑیں اور دونوں بغیر کسی انسانی حوالے کے۔ بیسویں صدی کا یورپ کسی ہیلن کی خاطر جنگ کرنے کا جگر پیدا نہ کر سکا۔ لہو کی بوند ہنگامہ آرا تو ہوئی مگر کسی جیتی جاگتی ہستی کے حوالے سے نہیں، کسی کھرے اور سچے جذبے کے واسطے سے نہیں۔ کیا ہٹلر اور کیا اس کے حریف، دونوں کے پیشِ نظر کچھ غیرانسانی مجرد قسم کے حوالے تھے، کچھ سامراجی مقاصد تھے۔

    قوموں کو جنگیں تباہ نہیں کرتیں۔ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب جنگ کے مقاصد بدل جاتے ہیں۔ یورپ کے اخلاقی زوال کی ذمہ داری اس واقعے پر ہے کہ اس نے جذبے کو فراموش کیا اور غیرانسانی حوالوں سے دو لڑائیاں لڑیں۔ سو پھر الیڈ اور اوڈیسی کہاں سے پیدا ہو جاتیں۔ ’آوٹ سائڈر‘ ہی لکھا جانا تھا۔ جہاں سب انسانی رشتے اپنے معنی کھو چکے ہیں۔

    رہے ہم، تو ہمارا مغربی سامراج نے ۱۸۵۷ء ہی میں پٹرا کر دیا تھا۔ سن ستاون کے بعد مولانا حالی آئے اور بے چاروں نے سیدھا سچا اعتراف کر لیا کہ،

    کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

    آسمان سے ڈر کر ہم نے انگریزوں کی اطاعت قبول کی اور دل سے ڈر کر ملکہ وکٹوریہ کے زمانے والی انگریزی اخلاقیات میں پناہ لی۔ تب نیچرل اور قومی شاعری کی بدعت شروع ہوئی اور واردات عشق کے واسطے سے ہونے والی شاعری ملعون ٹھہری اور مولانا حالیؔ نے بیان جاری کیا کہ،

    بھائیو! دل نہ لگانا، نہ لگانا ہرگز

    جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز

    یوں تو اس سے بہت پہلے میر صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ،

    وصیت میر نے مجھ کو یہی کی
    کہ سب کچھ ہونا تو عاشق نہ ہونا

    مگر دونوں آوازوں میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ حالیؔ کی آواز ایک سہمے ہوئے آدمی کی آواز ہے، اس آدمی کی جو عشق سے خائف ہے۔ میر کی آواز ایک خوار و خستہ عاشق کا مشورہ ہے۔ اس شخص کا جو پوری واردات سے گزرا ہے۔ ویسے ایک طرح سے یہ اسی قسم کا مشورہ ہے جو تجربے سے ناآشنا نوخیز شہزادوں کو دیا جاتا تھا کہ سب کھونٹ جانا، چوتھے کھونٹ مت جانا، یا سب دروازے کھولنا پر ساتواں درمت کھولنا، مگر یہ مشورہ تھوڑا ہی تھا۔ یہ تو چیلنج ہوتا تھا کہ اگر جگر ہے تو ساتواں در کھولو، ور نہ شریف آدمی بن کر بیٹھے رہو۔ لہو کی بوند ان دنوں مستقل ہنگامہ آرا رہتی تھی۔ سو شہزادے چیلنج کو قبول کرتے تھے اور ساتواں در کھول کر اپنے سر خرابی لاتے تھے۔ خرابی ان کے خون کے اندر تھی۔

    برہمن جنم پتری بناتے تھے اور بتاتے تھے کہ جنون کے آثار ہیں، خرابی کی علامات ہیں، بارہ برس تک آسمان مت دیکھنے دو اور چاندنی میں مت سونے دو۔ مگر خون کا فساد ادبدا کر تاریخ کا گھپلا ڈالتا تھا۔ بارہویں برس کی آخری شب شہزادہ آسمان دیکھ لیتا تھا اور کوئی پری اسے اڑا لے جاتی تھی۔ مگر وہ شخص جو شہزادہ نہیں تھا، شاعر تھا، اس کے لئے عمر کی ہر رات بارہویں برس کی آخری شب بنی اور چاند میں پری نظر آکر خور و خواب میں خلل ڈالتی رہی۔ اس کا نام میر تقی تھا۔ اسے باپ نے نصیحت کی تھی کہ فرزند عشق کیا کر، سعادت مند بیٹے نے صوفی صافی باپ کی نصیحت گرہ میں باندھی۔ عشق کیا، دیوانہ ہوا اور غزل کہی۔

    ایک زمانے کے بعد مولانا حالی آئے۔ اب وقت اور تھا۔ دل کا خوف الگ، آسمان کا خوف الگ، مولانا حالی نہ سید علی متقی بن سکتے تھے، نہ میر تقی بن سکتے تھے۔ عاشقوں اور صوفیوں کا دور گزر چکا تھا۔ یہ مصلحین کا دور تھا۔ واردات کی جگہ وعظ نے لے لی۔ مولانا حالی نے غزل سے کنارہ کیا اور اصلاحی شاعری پر آ رہے۔ فرزندان قوم کو نصیحت کی کہ عشق سے پرہیز کرو اور انگریزی پڑھو۔ فرزندان قوم نے نصیحت قبول کی۔ انگریزی پڑھی اور اصلاحی ادب پیدا کیا۔ عشق کا تقاضا ہوا تو جواب دیا کہ، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ یعنی ویسی محبت جس میں رکتے رکتے جنون ہو جاتا تھا اور گریبان کے چاک اور دامن کے چاک میں فاصلہ ختم ہو جاتا تھا۔ مگر محبت کسی قسم کی بھی ہو بہرحال محبت ہوگی۔ نئے شاعر کی بصیرت نے یہ نکتہ پیدا کیا۔

    اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
    تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

    یہ اردو کی مخرب الاخلاق شاعری ہے۔ بات یہ ہے کہ اخلاقی ادب اور مخرب الاخلاق ادب کے بارے میں بہت سی باتیں مولویوں نے کہی ہیں۔ کچھ باتیں مولانا حالی اور ڈپٹی نذیر احمد نے کہیں۔ مگر ایک بات ڈی ایچ لارنس نے بھی کہی ہے۔ مگر ٹھہریے! اس سے پہلے ۳۶ء کے ادیبوں کا ایک اخلاقی محاکمہ سن لیجیے۔ جب ان کی مختلف نظموں اور افسانوں پر فحاشی کا الزام لگا تو انہوں نے بیان صفائی یوں دیا کہ جنس کے بیان میں اگر لذت کی کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ فحاشی ہے مگر ہمارے افسانوں اور نظموں میں جنس ایک گھناؤنے پن کے ساتھ پیش ہوتی ہے، اس میں لذت کا رنگ ہوتا ہی نہیں، اس لئے اسے فحاشی نہیں کہا جا سکتا۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ جذبہ ایک گھناؤنی چیز ہے، اس سے بیزار رہنا ہی بھلا ہے۔ اور اب لارنس کی بات سنئے۔ وہ بات یہ ہے کہ جب لکھنے والا ترازو میں اپنا انگوٹھا اڑا دے اور پلڑے کو اپنے مطلب کے موافق جھکانے کی کوشش کرے تو یہ مخرب الاخلاق بات ہے۔

    اور فیض صاحب نے ایک مخرب الاخلاق بات تو یہ کی کہ ترازو کے ایک پلڑے کو ڈنڈی پہ انگوٹھا رکھ کر جھکا دیا اور دوسری مخرب الاخلاق بات انہوں نے یہ کی کہ زندگی کے دکھوں میں تقسیم پیدا کر دی۔ دکھ بٹے ہوئے نہیں ہیں، سب دکھ اکٹھے ہیں۔ ایک دکھ دوسرے دکھ میں اور دوسرا دکھ تیسرے دکھ میں بندھا ہوا ہے۔ وہ سب ایک وحدت میں ڈھل کر زندگی کے غم کی صورت میں منور ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس بات کو نہیں مانتے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو آپ میر کو ایک فراری شاعر کہہ کر رد کر دیں گے، یا اس کے کلیات سے چند دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کے شعر نکال کر یہ ثابت کریں گے کہ میر کو اپنے عہد کے مصائب کا بھی احساس تھا اور وہ سیاسی شعور بھی رکھتا تھا۔ مگر میر کے یہاں تو فرد کے دکھ اور عہد کے دکھ گھل مل کر میر کا غم بنے ہیں۔ سب دکھ ایک وحدت میں ڈھلے تو غم عشق بن گیا۔ اب آپ ایک دکھ کو دوسرے دکھ سے کیسے تمیز کریں۔

    دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
    یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

    اس شعر میں عہد کے غم اور ذات کے غم کو کیسے علاحدہ کریں گے اور غالب کے اس شعر کو آپ کس خانے میں ڈالیں گے،

    اس چمن میں آگ برسے گی کہ آئے گی بہار
    اک لہو کی بوند کیوں ہنگامہ آرا دل میں ہے

    سیاسی شاعری کے خانے میں یا؟ عشقیہ شاعری کے خانے میں؟

    قصہ اصل میں یہ ہے کہ باقی غم بھی تو عشق کے غم ہی کے واسطے سے سمجھ میں آتے ہیں،

    پہنچا جو آپ تک تو وہ پہنچا خدا تئیں
    معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

    خدا تئیں اور عہد تئیں، اور اب پھر میں لارنس سے رجوع کرتا ہوں جس نے کہا تھا کہ انسانی معاملات میں سب سے بڑا رشتہ ہمیشہ مرد اور عورت والا رشتہ رہے گا۔ مرد اور مرد کا رشتہ، عورت اور عورت کا رشتہ، والدین اور اولاد کا رشتہ یہ سب ثانوی رشتے ہیں اور مرد اور عورت کا رشتہ ہر آن، ہر گھڑی بدلے گا اور ہر صورت انسانی زندگی کے لئے نئی کلید بنے گا۔ اور اہم نہ تو مرد ہے نہ عورت ہے اور نہ ان کے رشتے سے پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ بلکہ خود یہ رشتہ اہم ہے۔۔۔ تو غزل اور داستان نے اس رشتے کو انسانی زندگی کی کلید جانا اور عشق کی واردات کے راستے سب انسانی رشتوں کو سمجھا اور حاصل یہ نکلا کہ بندہ بشر ہے اور آدمی کا شیطان آدمی ہے اور بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں۔ پس، اے برے آ میں تجھ سے پیار کروں۔

    یہ آخری بیان فراق کا ہے۔ مگر یہ وہ بصیرت ہے جو اسے کلاسیکی غزل سے ورثے میں ملی ہے اور اس عہد میں عاشق نے بہت گریباں چاک کئے اور صحراؤں کی خاک اڑائی اور دیواروں سے سر پھوڑے مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ باپوں نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ بیٹا عشق کیا کرو اور بیٹوں نے عشق کیا۔ ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے واحد صداقت جذبے کو جانا اور ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے عقل و دانش کو سر پر چڑھایا۔ ہاں ایک بصیرت حاصل ہوئی۔ آدمی کے بارے میں ایک بصیرت۔ پچھلی غزل اور داستان کا سرمایہ یہی بصیرت ہے۔ اصلاحی دور اور ترقی پسند دور کے ادب کا سرمایہ درس ہے۔ آج کے لکھنے والے کے لئے یہ دونوں رستے کھلے ہیں۔ وہ چاہے تو درس والا رویہ اپنا لے، اس واسطے سے اسے ادب پیدا کرنے کے مقبول عام نسخے میسر آ جائیں گے اور ادب پیدا کرنے کا کام آسان ہو جائے گا اور چاہے تو وہ اول الذکر رستے کو اپنا لے۔ مگر وہ رستہ کٹھن ہے۔ واردات کے رستے بصیرت کی منزل تک پہنچنے کا عمل ہے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر اور انتظار حسین کی تحریر)

  • اُس مسکین پرندے کا تذکرہ جو عہدِ قدیم سے پیامبر رہا ہے!

    اُس مسکین پرندے کا تذکرہ جو عہدِ قدیم سے پیامبر رہا ہے!

    نامہ بر کبوتروں کا وجود عہد قدیم کی ایک نہایت مشہور اور بڑی ہی دل چسپ کہانی ہے۔

    اس کا سلسلہ نصف صدی پیشتر تک بڑی بڑی آبادیوں میں جاری تھا۔ اب بھی دنیا سے بالکل مفقود نہیں ہوا ہے۔ بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگی حصاروں کے زمانے میں ان سے کام لینا پڑتا ہے، جب نئی دنیا کی بڑی بڑی قیمتی اور مغرورانہ ایجادیں کام دینے سے بالکل عاجز ہو جاتی ہیں۔ حکومتِ فرانس نے تو اب تک ان کے باقاعدہ اہتمام اور پرورش کے کام کو باقی و جاری رکھا ہے۔ ان امانت دار پیامبروں نے دنیا میں خبر رسانی کی عجیب عجیب خدمتیں انجام دی ہیں اور احسان فراموش انسان کو بڑی بڑی ہلاکتوں سے بچایا ہے۔ جہاں انسان کی قوتیں کام نہ دے سکیں، وہاں ان کی حقیر ہستی کام آ گئی۔

    ہمارے عالم حسن و عشق کے راز دارانہ پیغاموں کے لیے اکثر انہیں سفیروں سے کام لیا گیا ہے۔ عشاق بے صبر کو ان کا انتظار قاصد بے مہر کے انتظار سے کچھ کم شاق نہیں ہوتا۔ شعراء کی کائناتِ خیال میں بھی خبر رسانی و پیامبری صرف انہی کے سپرد کر دی گئی ہے اور فارسی شاعری میں تو ’’عظیم الشان‘‘ بلبل کے بعد اگر کسی دوسرے وجود کو جگہ ملی ہے تو وہ یہی مسکین کبوتر ہے۔

    مسلمانوں نے بھی اپنے عہدِ تمدن میں ان پیامبروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے۔ حتیٰ کہ نامہ بر کبوتروں کے اقسام و تربیت کا کام ایک مستقل فن بن گیا تھا جس میں متعدد کتابیں بھی تصنیف کی گئیں۔ ان کا ذکر تاریخوں میں موجود ہے۔

    حال میں رسالہ ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے ایک مضمون نگار نے نامہ بر کبوتروں کے متعلق ایک نہایت دل چسپ مضمون لکھا ہے اور بہت سی تصویریں بھی دی ہیں۔ اسے دیکھ کر مسلمانوں کے عہدِ گزشتہ کی وہ ترقیات یاد آگئیں جن کا تفصیلی تذکرہ سیرطی اور مقریزی وغیرہ نے مصر کی تاریخوں میں کیا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس مضمون کا ترجمہ ہدیۂ قارئین کرام کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر میں مسلمانوں کے عہد کی ترقیات تفصیلی طور پر درج کریں گے، اور ان واقعات کا بھی حال لکھیں گے جن میں مسلمانوں نے نامہ بر کبوتروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے اور ان کی پرورش و تربیت کو ایک قاعدہ فن بنا دیا تھا۔

    فرانس میں نامہ بر کبوتروں کی درس گاہ
    سائنٹفک امریکن کا مقالہ نگار لکھتا ہے، ’’یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ عہد علمی میں جب کہ تار برقی اور ہوائی طیارات کی ایجادات نے دنیا کے تمام گوشوں کو ایک کر دیا ہے، ان تیز رو اور وفادار پیغامبروں کی کچھ ضرورت نہ رہی، جنہوں نے جنگِ جرمنی و فرانس میں بڑی بڑی گراں قدر خدمات انجام دی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی ایجادات نے حالت بدل دی ہے اور اب نامہ بر کبوتر صرف چند بوڑھے شکاریوں ہی کے کام کے رہ گئے ہیں۔ مگر ایسا خیال کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ جو توجہ کہ اس وقت یورپ کی حکومتیں خصوصاً حکومتِ فرانس ان پرندوں پر کر رہی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ خدمت فراموش نہیں ہوئی ہے جو ان مسکین پرندوں نے حملۂ جرمنی کے زمانے میں محصورینِ پیرس کی انجام دی تھی۔ اس وقت فرانس کے یہاں ۸۲ فوجی کبوتر خانے ہیں جو اس کے تمام قلعوں میں علی الخصوص ان قلعوں میں جو مشرقی سرحد میں واقع ہیں، پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کبوتر خانے جو انجینئرنگ کور کے زیرِ انتظام ہیں، افزائشِ نسل اور تربیت کے لیے وقف کر دیے گئے ہیں۔

    مجھے ان فوجی کبوتر خانوں میں جانے کے لیے اور خاص اجازت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی جو پیرس کے قلعوں کے قریب مقام Vagirard میں واقع ہیں۔ یہاں کے حکمراں افسرنے مجھے اس عجیب جانورکی افزائش اور تربیت کا نظام سمجھا دیا۔ قارئین کرام کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ان پرندوں پر اس قدر روپیہ صرف کیا جا رہا ہے۔ سپاہی ان ننھے ننھے جانوروں کو بہت چاہتے ہیں اور ان کی تعلیمی ترقی کو سرگرم دلچسپی کے ساتھ دیکھتے رہتے رہیں۔

    مقام ویجیر رڈ اور اسی طرح دوسرے مقامات میں کبوتروں کی ڈھابلیاں مکان کی چھت پر ہوتی ہیں۔ ہر یک ڈھابلی ایک روش کے ذریعہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ فرش پر پلاسٹر اور اس پر خشک اور متوسط درجہ کی خوشنما چٹائیوں کی ایک تہہ ہوتی ہے تاکہ ان کے پنجے نجاست میں آلودہ نہ ہوں۔ پانی کے برتن چھوٹے بنائے گئے ہیں تاکہ کبوتر نہانے میں زیادہ پانی نہ پھینک سکیں۔ لیکن جب کبھی ان ڈھابلیوں کی چھت پر بہتے ہوئے پانی کا سامان ہو جاتا ہے تو بڑے برتن رکھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان میں آزادی سے نہا دھوسکیں اور اس طرح مہلک جراثیم سے محفوظ ہو جائیں۔

    ہر خانے میں ہوا کی آمد و رفت کا عمدہ انتظام کیا گیا ہے۔ ہر کبوتر کے جوان جوڑے کو ۳۵ فٹ مکعب اور ہر بچہ کو ۹ فٹ مکعب جگہ دی گئی ہے۔ اس خیال سے کہ ہوا کی گردش میں سہولت ہو، پہاڑی یا سرد ملکوں کے علاوہ اور کہیں ڈھابلیوں کی چھتوں پر استر کاری نہیں کی جاتی۔

    ان ڈھابلیوں کا مشرق رو ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ تقریباً تمام فرانسیسی ڈھابلیوں کا رخ شمال اور شمال و مشرق نیز طوفان آب کے تمام رخوں کے بالکل مخالف ہوتا۔ اس کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ ڈھابلیاں ٹیلی گراف یا ٹیلی فون کے دفتر کے پاس نہ بنائی جائیں جن کے تار اڑنے میں ٹکرا کے انہیں زخمی کر سکتے ہیں۔

    بڑے بڑے درخت اور اونچی اونچی عمارتیں بھی قابل اعتراض سمجھی جاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کی وجہ سے ان کبوتروں کو بآسانی بیٹھنے کے مواقع مل جاتے ہیں اور اڑنے سے جی چرانے لگتے ہیں۔ کترنے والے جانوروں مثلاً Ordents کی روک کے لیے شیشہ دار پنجرے چوکھٹوں میں رکھے جاتے ہیں۔ پاس کی چمنی پر لوہے کا جال تنا رہتا ہے تاکہ چمنی میں بچے نہ گر سکیں۔ تمام کبوتر خانوں اور انجینئرنگ کور کے دفتروں میں ٹلی فون لگا ہوا ہے۔

    یہ قاعدہ ہے کہ ہر کبوترخانے میں ۱۰۰ کبوتر ایسے ہوتے ہیں جو فراہمی فوج میں شرکت کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس مفید طاقت کے قائم رکھنے کے لیے دو کمرے ایک سو تیس جوان کبوتروں کے، ایک کمرہ دو سو بچوں کا جو اسی سال پیدا ہوئے ہوں، ایک جنوب رو شفاخانہ (infirmary) اور ایک دار التجربہ (Laboratory) درکار ہوتا ہے۔

    ان خانوں میں رکھنے کے لیے کبوتر ان بچوں میں سے انتخاب کیے جاتے ہیں جن کی عمر ابھی ۴ ہفتہ ہی کی ہوتی ہے اور جو ابھی تک اپنے ان پیدائشی خانوں سے نہیں نکلے ہوتے جن میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔

    صحت اور غذا کی نگرانی کے خیال سے پہلے ۴ یا ۵ دن تک ان کی دیکھ بھال رہتی ہے۔ اس کے بعد خانے سے نکلنے اور ادھر ادھر اڑتے پھرنے میں اس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ بغیر ڈرائے ہوئے (تاکہ وہ اپنے داخلے کا دروازہ پہچان سکیں) نکل بھاگنے کا انہیں موقع دیا جاتا ہے۔ یہ تربیت روز تین بجے دن کو کی جاتی ہے۔

    جب اس نوآبادی میں جوان کبوتر ملا دیے جاتے ہیں تو یہ مشق بہت دیر تک جاری رہتی ہے۔ تازہ وارد کبوتر پہلے تو ایک معتدبہ زمانے تک علیحدہ بند رہتے ہیں۔ اس کے بعد پرانے رہنے والوں کے ساتھ ملا دیے جاتے ہیں۔ آخر میں ان کی اگلی پانچ پانچ یا چار چار کلیاں دو دو انچ کے قریب کتر دی جاتی ہیں تاکہ موسم بھر اڑ نہ سکیں۔ جب جھاڑنے کا زمانہ آتا ہے تو ان کتری ہوئی کلیوں کی جگہ پوری پوری نئی کلیاں نکل آتی ہیں۔

    قابلِ خدمت ٹکڑیوں میں (ٹکڑیاں فوجی اصطلاح میں کور Corps کہلاتی ہیں) ماہ مئی کے قریب دو برس سے لے کر آٹھ برس تک کے ۱۰۰ کبوتر ہوتے ہیں۔ ان میں اکتوبر تک ۶ محفوظ کبوتر اور ۱۸ مہینے کے ایسے ۲۳ پٹھے نوجوان بڑھا دیے جاتے ہیں جو تعلیمی معرکوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

    کھانے کے لیے سیم، مٹر اور مسور کا اکرا دیا جاتا ہے جو برابر سال بھر تک جمع ہوتا رہتا ہے۔ اکرے کی مقدار فی کبوتر تقریباً ڈیڑھ اونس ہوتی ہے جو تین وقتوں میں یعنی صبح، دوپہر اور ۳ بجے دن کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی، چونا، دریا کی عمدہ بالو، انڈے کے چھلکے اور گھونگے بھی ہم وزن پسے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ مرکب جسے نمک آمیز زمین (Salted Earth) کہتے ہیں، ہمیشہ ان کے پنجروں میں پڑا رہتا ہے۔

    بہار کے زمانے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ دو ہلکے یا دو بہت ہلکے رنگ کے کبوتروں میں یا نہایت ہی قریبی رشتہ دار کبوتروں میں، یا ایک دوسرے سے بے حد ملتے ہوئے کبوتروں میں جوڑا نہ لگنے پائے۔ جوڑا صرف انہی کبوتروں میں قائم کرنا چاہیے جن کی آنکھوں اور پروں کے رنگ مختلف ہوں۔ چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے، باہم مانوس اور غیر مانوس کبوتروں میں اوٹ ضرور بنا دینی چاہیے۔
    جب چند دنوں تک ایک ساتھ علیحدہ بند رہنے سے جوڑا لگ جائے تو پھر انہیں کمرہ میں آزادی سے پھرنے دینا چاہیے۔ جوڑا لگنے کے بعد سے۴۰ دن کے اندر مادہ انڈے دیتی ہے اور اس کے بعد ۱۷ دن تک سیکتی ہے۔ جب بچے ۴ یا ۵ ہفتے کے ہو جاتے ہیں اور دانہ چگنے لگتے ہیں تو ماں باپ سے علیحدہ کر کے ایک ایسے جنوب رویہ کمرہ میں رکھ دیے جاتے ہیں جس میں زائد سے زائد دھوپ آتی ہو۔ کسی دوسری جھولی کے یا موسم خزاں کے انڈے نہیں رکھے جاتے۔ کیونکہ ان کے بچے موٹے ہوتے ہیں اور بے قاعدہ پر جھاڑنے لگتے ہیں۔

    (انشاء پرداز اور صاحبِ طرز ادیب ابوالکلام آزاد کے ایک مضمون سے اقتباس، اندازہ ہے کہ یہ تحریر لگ بھگ سات، آٹھ دہائیاں پرانی ہے)

  • آٹھ طرح کے افسانہ نویس!

    آٹھ طرح کے افسانہ نویس!

    ایک نوخیز افسانہ نگار کو سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج کل افسانہ نگاروں کی قسمیں کتنی ہیں تاکہ وہ یہ طے کرسکے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

    میں نمبر وار گناتا ہوں۔
    (۱) پہلی قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنے افسانوں کی خوبی کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ اپنے اوریجنل افسانوں کی وجہ سے پبلک سے روشناس ہوئے۔ اوّل تو انہوں نے دوسری چیزیں مثلاً فکاہیہ مقالے، تواریخی مضامین، ترجمے اور دوسرے دل چسپ ادبی اور معاشرتی مضامین ویسے بھی کم لکھے اور اگر لکھے بھی تو ان کی بدولت ان کو مقبولیت کا تمغہ نہیں ملا۔ اصل کارنامہ ان کا افسانہ نگاری رہا۔ ایک نہیں ان کے درجنوں افسانے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر، ایسے کہ جب کبھی بھی کسی رسالے میں ان کا افسانہ شائع ہوا تو نہ صرف افسانوں میں ان کا افسانہ بہترین قرار دیا گیا بلکہ رسالے کے تمام مضامین نظم و نثر سے وہ سبقت لے گیا۔ عموماً رسالہ ہاتھ میں آتے ہی لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا افسانہ بھی ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہی پڑھتے ہیں۔ مثال کے طور پر منشی پریم چند۔

    (۲) دوسری قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے انتہائی قابلیت اور خوبی سے غیر ملکی زبانوں کے مشہور افسانہ نویسوں کی کاوشوں سے اردو کو مالا مال کر دیا اور انہوں نے دنیائے ادب میں اسی سے شہرت حاصل کی۔ بدقسمتی سے آج کل کی اصطلاح میں یہ بھی افسانہ نویس کہلاتے ہیں۔

    (۳) ایک اور قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے غیرملکی افسانوں کو ملکی جامہ نہایت ہی خوبی سے پہنایا اور اپنا کمال اسی مخصوص کام میں دکھایا۔ بدقسمتی سے یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۴) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے، جنہوں نے خود بھی اوریجنل افسانے لکھے، غیر ملکی افسانوں کو ملکی لباس بھی خوب پہنایا، دوسری زبانوں کے اچھے افسانوں کے ترجمے بھی خوب پیش کیے اور ان تمام کاموں کو مجموعی طور پر نہایت ہی خوبی سے انجام دیا اور جو کچھ بھی شہرت حاصل کی وہ ان تینوں کاموں سے حاصل کی مگر ان کا ہر کام علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو ایسا نہیں جو ان کو مقبولیت کا وہ درجہ دے سکتا جو ان کو اب حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۵) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت نام پیدا کیا۔ افسانے بھی لکھے اور اچھے لکھے مگر جو کچھ شہرت حاصل کی وہ محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت حاصل کی۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ بھی افسانہ نگار ہیں۔

    (۶) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جو دراصل شاعر ہیں اور انہوں نے شاعری ہی میں نام اور کمال پیدا کیا اور اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن باوجود اس کے اوریجنل افسانے بھی لکھتے ہیں۔ اچھے افسانے مگر ایسے نہیں کہ وہ افسانے ان کو وہ شہرت دیتے جو ان کی اپنی شاعری کی بدولت حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۷) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو تخلّص رکھتے ہیں اور ساتھ ہی دہلوی، جودھپوری وغیرہ کو تخلص کے ساتھ لازمی استعمال کرتے ہیں۔ محض اس نیت سے کہ اگر افسانے کے ساتھ نام شائع نہ ہوا تو لوگ بھول جائیں گے اور پبلک سے روشناس ہونے میں بڑی دیر لگے گی۔ یہ لوگ اپنے افسانوں سے نام پیدا نہیں کرتے بلکہ نام سے افسانہ پیدا کرتے ہیں۔ پڑھنے والوں کے دل پر بجائے افسانے کے نقش کے اپنے تخلص یا قلمی نام کا نقش کھود چکے ہیں۔ ہر قسم کے مضمون، ترجمے، ادب لطیف وغیرہ وغیرہ کے مریض ہیں۔ لوگوں کے ذہن نے اور حافظے نے کام نہ دیا۔ نتیجہ یہ پبلک کو سوائے ان کے تخلص کے اور کچھ یاد نہیں رہا کہ انہوں نے کب افسانے لکھے اور ان میں کیا لکھا تھا، مگر ہاں یہ قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مشہور افسانہ نویس ہیں، جو کچھ بھی انہوں نے نام پیدا کیا وہ تخلص کے زور سے کیا اور فطرت انسانی کا صحیح مطالعہ کر کے اپنے نام کو مخفف کر کے اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۸) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو آئے دن اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح کسی رسالے کے آنریری ایڈیٹر یعنی مدیر اعزازی بن جائیں۔ اس سے یہ آسانی ہوتی ہے کہ اگر اپنا افسانہ کسی رسالہ کو چھپنے بھیجتے تو وہ اشتہارات کا نرخ پیش کرتا، اب مفت چھپ جائے گا۔ یہ لوگ اڈیٹر کو خط لکھتے ہیں تو عموماً کسی آنریری مجسٹریٹ کے خط سے مسودہ تیار کرتے ہیں جو کمشنر کو لکھا گیا ہو۔ یہ افسانہ نویس سرکار ادب کے آنریری مجسٹریٹ ہیں۔ مدیر اعزازی ہوتے ہی رسالہ ان کا ہو جاتا ہے، خود ایڈیٹر صاحب اس بات پر زور دیا کرتے ہیں کہ اپنے رسالے کا خیال رکھیے، ان کے ہر قسم کے مضامین رسالے میں شائع ہوتے ہیں۔ کسی کے نیچے کبھی ’ٹیگور‘ لکھنا بھول گئے، کبھی ’منقول‘ لکھنے سے رہ گیا۔

    جس طرح آنریری مجسٹریٹ سرکار اور پبلک کی خاطر اپنا خرچ کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی سرکار ادب اور رعایائے ادب کی خاطر اپنا بیش قیمت وقت اور ڈاک خرچہ صرف کرتے ہیں۔ کبھی کبھار آنکھ بچا کر ایک آدھ اوریجنل افسانہ بھی رسالے میں شائع کر دیتے ہیں۔ ایڈیٹر بھی چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کہ چلو رہنے بھی دو۔ روز یہ بدعت تھوڑے ہی ہوگی۔ جس طرح آنریری مجسٹریٹ تساہلی کرے تو اس کے اختیارات ضبط ہو جاتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اگر ٹھیک کام نہ کریں اور توسیع اشاعت میں کوشاں نہ رہیں تو ان کے اختیارات بھی ضبط ہو جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی تقرری کے لیے دوسرے پر گنے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ آنریری مجسٹریٹ کا اور ان دونوں کا منتہائے نظر اور مقصد اوّلین خطاب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایک دن وہ آتا ہے کہ دونوں کو خطاب مل جاتا ہے۔ ایک کو بادشاہ کی سالگرہ پر دوسرے کو رسالے کی سالگرہ پر۔ اس کے بعد ایک کو خان بہادر کہتے ہیں اور ایک کو افسانہ نویس! چنانچہ مدیران اعزازی بھی افسانہ نویس ہیں۔

    قصہ مختصر آج کل ہر مضمون نگار، نامہ نگار، فکاہیہ نگار، مزاحیہ نگار، شاعر، مترجم، وغیرہ وغیرہ افسانہ نگار یا افسانہ نویس کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجھے اس سے کچھ بحث نہیں کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے یا یہ کہ کارروائی کہاں تک صحیح اور درست ہے۔ مجھے تو ایک مبتدی کی توجہ صرف اس بات کی طرف مبذول کرنا ہے کہ وہ محض افسانہ نویسی کے نام کے پیچھے نہ دوڑے، ورنہ کوشش رائیگاں جائے گی۔ اس کو یہ کوشش کبھی نہ کرنا چاہیے کہ کسی نہ کسی طرح لفظ ’’افسانہ نویس‘‘ کا اس پر اطلاق ہوجانا ہی کافی ہے۔ خوب اچھی طرح ایک مبتدی کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان آٹھ طرح کے افسانہ نویسوں میں سے کوئی بھی صحیح معنی میں افسانہ نویس نہیں۔ سوائے قسم اوّل کے اور مبتدی کو طے کرلینا چاہیے کہ اس کو سوائے پہلی قسم کے اور کسی طرح کا افسانہ نگار بننا کسی طرح بھی منظور نہیں۔

    (یہ تحریر مرزا عظیم بیگ چغتائی کی ہے، وہ ممتاز طنز و مزاح نگار، اور ادبی مضمون نویس تھے)

  • طارق چھتاری: "جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے!”

    طارق چھتاری: "جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے!”

    طارق چھتاری کا خیال ذہن میں آتا ہے تو ع۔۔۔ فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں، والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں اور اس میں سن و سال کی کوئی قید نہیں کہ جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور یہ روشنی دیر تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔

    طارق چھتاری سے اپنی پہلی ملاقات یاد نہیں لیکن ان کا تصور آتے ہی جو پہلا منظر سامنے آتا ہے اس کا مختصراً بیان کچھ یوں ہے۔ پس منظر میں مسلم یونیورسٹی کی اونچی سرخ عمارتیں، تارکول کی سڑک کے دو رویہ سرکش و سرسبز درخت، جاڑوں کا موسم، ایک وجیہ و شکیل نو عمر جس کے بدن پر گہرے رنگ کا قدرے لمبا کوٹ تھا اور ہاتھوں میں ایک سرخ بائسیکل کے ہینڈل تھے یا شاید اسکوٹر کے ہینڈل تھے۔ وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہم عمر دو لڑکے اور تھے۔ میں انھیں دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔ یہ لڑکے اس زمانے کی یونیورسٹی کے خوش لباسوں میں یگانہ تھے۔ آج سے تیس بتیس برس پہلے کی یونیورسٹی۔ طارق چھتاری نے ایک مضمون میں اس زمانے کا بڑا سچا اور دل کش نقشہ کھینچا ہے۔ کچھ سطریں اس مضمون سے مستعار ہیں، ’’یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کی پرکشش اور سحر آگیں رومانوی فضا یونیورسٹی کے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور استعمال کرنے کی محرک ہوا کرتی تھی۔ کنیڈی ہاؤس کا خوش نما احاطہ، مولانا آزاد لائبریری کے سامنے کا وسیع سبزہ زار، فیکلٹی آف آرٹس کی سہ منزلہ جدید طرز کی خوب صورت عمارت کے صدر دروازے پر بنے حوض، مختلف عمارتوں کو ایک دھاگے میں پرونے والی صاف شفاف دھلی دھلائی سی سفید ٹھنڈی سڑکیں۔ پام، ساگون، گل مہر اور یوکلپٹس کے اونچے اونچے درخت۔ کینٹین کے وسیع وعریض ہال کی نیم تاریک اور پُرسکون فضا میں صوفے نہایت سلیقے سے آراستہ ہیں، طالبِ علم خراماں خراماں چلے آرہے ہیں، برآمدے نما پورٹیکو میں داخل ہوتے ہیں اور رنگین شیشوں والے محراب دار بڑے دروازے سے اندر پہنچ کر صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سعادت مند ویٹر پانی کے گلاس ٹرے میں لیے قریب آتے ہیں اور جھک کر میز پر سجا دیتے ہیں۔ سینئر طالبِ علم آرڈر دے دیتا ہے، اس کی آواز اتنی نرم اور دھیمی ہوتی ہے کہ اگر خاص طور سے سننے کی کوشش نہ کی جائے تو شاید برابر بیٹھا شخص بھی نہ سن سکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ طالبِ علم گفتگو میں محو ہی رہتے ہیں اور ویٹر پانی لگا کر خاموشی سے بغیر آرڈر لیے واپس چلا جاتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹرے میں ٹیکوزی ڈھکی کیتلی، دودھ دان، شکر دان، چمچے اور چند پیالیاں لے کر اس طرح آتا ہے جیسے طالبِ علموں کی خواہشات اور ضروریات سے وہ پہلے سے واقف ہو۔ نہ کسی کو آرڈر دینے کی ضرورت ہے، نہ اسے آرڈر لینے کی، گویا وہ سب کے دل کی زبان سمجھتا ہے۔

    اس زمانے میں اس کینٹین کا کنٹریکٹ اُردو کے ایک مشہور شاعر جناب جاوید کمال کے پاس تھا۔ کاؤنٹر پر کبھی جاوید کمال صاحب اور کبھی میکش بدایونی صاحب بیٹھے نظر آتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد کبھی کبھی جذبی صاحب بھی شام کی چائے پینے اسی کینٹین میں تشریف لاتے۔ ان شخصیات کی موجودگی آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی، صغیر افراہیم، شارق ادیب، فرحت احساس، خورشید احمد، نسیم صدیقی، غضنفر، اظہار ندیم، پیغام آفاقی، پرویز جعفری، عبدالرحیم قدوائی، قمرالہدیٰ فریدی، اسعد بدایونی، شہپررسول، غیاث الرحمٰن، ابن کنول اور سیّد محمد اشرف کو اکثر و بیش تر وہاں کھینچ لاتی۔ گفتگو شروع ہوتی، کبھی کسی ادبی مسئلے پر بحث ہو رہی ہے، کبھی کوئی مضمون پڑھا جا رہا ہے، کبھی شاعری سنی جارہی ہے اور کبھی افسانہ، یہاں سے اٹھ کر یہ احباب کبھی شہریار صاحب تو کبھی قاضی عبدالستار صاحب کے دولت کدے پہنچتے اور بہت سی گتھیاں ان اہل دانش کی گفتگو سن کر سلجھ جاتیں۔ ان دنوں علی گڑھ کے یہ نوجوان ادیب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت دونوں کے فکری اور فنی رویوں سے غیر مطمئن تھے اور کسی نئی راہ کی تلاش میں تھے۔

    اس وقت علی گڑھ میں کئی ایسے ریسٹورنٹ تھے جہاں ادیب اور شاعر بیٹھتے۔ کیفے ڈی لیلیٰ، کیفے ڈی پھوس، پیراڈائز، کبیرؔ کا ٹی ہاؤس، عاشق علی کی کینٹین، رائل کیفے اور Monsieurکے علاوہ راجا پنڈر اول کا ایک خوب صورت ریستوراں ’’Seven Stars‘‘ بھی تھا۔ رائل کیفے اور Monsieur جدید طرز کے ریسٹورینٹ تھے جہاں بلیرڈ کی میزیں بھی تھیں مگر سیون اسٹارس ایسا ریستوراں تھا جس میں قدیم وضع کے صوفے، نقشیں چمنیوں والے شمع دان، عالی شان فانوس، انگلستانی کروکری اور خوش اخلاق و خوش گفتار و خوش رو راجا قاسم علی خاں نواب آف پنڈر اوّل کی بہ نفس نفیس موجودگی۔ وہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے، شعر سنتے اور شعر سناتے۔‘‘

    ان ناموں میں جاوید حبیب، نذیر بوم اور محی الدین اظہر کانام بھی شامل سمجھا جائے۔

    اس زمانے میں دن طویل ہوتے تھے اور راتیں طویل تر۔ کلاس روم کی پڑھائی کے علاوہ ذہن پر اگر کوئی بوجھ ہوتا تھا توبس یہ کہ اخراجات کے لیے گھر سے جو روپے آتے ہیں وہ مہینہ سے پہلے ختم نہ ہوجائیں۔ دل میں ترنگیں تھیں اور آنکھوں میں اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، گلابی گلابی رنگوں کے خواب لشکارے مارتے تھے۔ اس زمانے میں زندگی کے طے شدہ مقاصد کا اتنا رواج نہیں تھا جتنا اب ہے۔ خود میں نے یونیورسٹی چھوڑ نے سے ڈیڑھ دو برس پہلے سوچا تھا کہ مستقبل میں دو وقت کی روٹی کا کیا انتظام ہو۔ طارق چھتاری نے بھی یقیناً وقت کو اتنے ہی عرصے تک بہلا پھسلا کر رکھا ہوگا اور غالباً دوستوں نے ایساہی کیا ہوگا۔ وہ وقت اور تھا۔ شروع میں طارق چھتاری کا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھا جو عرفِ عام میں شاعر و ادیب کہلاتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے شاعروں اور ادیبوں کی جماعت کو احساس ہوا کہ ایک ذہین، شگفتہ مزاج، باحوصلہ اور بامروت شخص آپ ہی آپ ان کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ بغیر کسی اعلان کے ہوا تھا۔ میرے استاد زادے اور ہم وطن اور بڑے بھائی کے دوست شارق ادیب (ڈاکٹر مظفر سیّد) نے ایک دن چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا،

    ’’یارا شرف! طارق کو دیکھ کر فاختہ کا خیال آتا ہے۔‘‘

    مجھے ان کا یہ جملہ آدھا سچ لگا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ بولے، ’’یہ اس لیے کہ فاختہ کسی کو زک نہیں پہنچاتی۔ بے ضرر ہوتی ہے۔‘‘

    طارق چھتاری کے بارے میں اس وقت میری معلومات کم تھیں لیکن پرندوں کے بارے میں اچھی خاصی تھیں۔ میں نے کہا، ’’فاختہ اپنے سے چھوٹی چڑیا کے لیے رحم دل ہے لیکن اس سے زیادہ طاقت کا کوئی پرندہ اگر اس کو تکلیف دے تو وہ فضا میں اُڑ اُڑ کر اس سے ٹکر لیتی ہے۔‘‘

    میں نے اپنے قصبے کے آنگن میں لیٹے لیٹے ایسے کئی منظر یاد کیے جس میں بڑی فاختہ (یا حق تو، یا دوست تو) نے فضا میں اس کوے پر کئی کاری جھپٹیں کی تھیں جو اس کا گھونسلہ خراب کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ سب بیان کیا تو شارق ادیب ہنس پڑے۔

    اس شام ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ طارق چھتاری کوؤں کے علاوہ باقی تمام مخلوق کے لیے فاختہ کی طرح بے ضرر ہیں۔

    کچھ دن بعد شارق ادیب نے مجھے مطلع کیا کہ چوں کہ طارق چھتاری نجی محفلوں میں کسی غائب شخص کے بارے میں برے کلمات نہیں کہتے، اسی بے ضرر ہونے کی صفت کی وجہ سے انھیں فاختہ سے تشبیہ دی گئی۔ اب جو غور کیا تو طارق چھتاری کے کردار کی ایک اور خوبی سامنے آئی کہ وہ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ یہ خوبی یا خرابی اب تک باقی ہے۔

    اس زمانے میں طارق چھتاری کو بزرگوں سے بہت لگاؤ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب جب رشید صاحب کے گھر گیا تو طارق چھتاری وہاں موجود تھے یا دروازے سے نکل رہے تھے، یا رشید صاحب نے ان کی آمد کا ذکر کیا۔

    1975ء تک علی گڑھ کے طالبِ علم ادیب دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے، لیکن میں نے اکثر دیکھا کہ طارق چھتاری کو کسی کے ساتھ سے پرہیز نہیں تھا۔ علی گڑھ میں اس وقت علم و ادب سے وابستہ مندرجہ ذیل شخصیات تھیں۔ طارق چھتاری نے اپنے ایک ہم عصر پر شخصی مضمون لکھتے وقت ان سب کو یاد کیا ہے۔

    طارق چھتاری کے خلاقانہ انتظام کا ایک نمونہ گورکھ پور ریڈیو اسٹیشن پر نظر آیا۔ طارق چھتاری نے فکشن پر ایک ایسے سمینار کا اہتمام کیا جس میں اردو اور ہندی کہانی لکھنے والوں کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اردو اور ہندی کی کہانی پر دو مضمون پڑھے جاتے ایک اردو نقاد کا دوسرا ہندی نقاد کا۔ مقصد صرف یہ نہیں تھاکہ دونوں زبانوں کے ادیب اور نقاد ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ اصل مدعا یہ تھاکہ ایک زبان کی کہانی پر اسی زبان کے نقاد اور دوسری زبان کے نقاد کی تنقید کا فرق سامنے آسکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس بہانے کئی اچھے افسانے اور کئی اچھے مضامین وجود میں آگئے۔

    نیّر مسعود نے اپنی کہانی ’’وقفہ‘‘ پڑھی تھی۔ خورشید احمد نے ایک ہندی کہانی پر بہت اچھا مضمون پڑھا تھا۔ دو دن کی ان محفل آرائیوں کے روح رواں طارق چھتاری تھے۔ ان محفلوں میں قاضی عبدالستار اور کے پی سنگھ جیسے بزرگ بھی تھے، گو اس وقت وہ ایسے بزرگ نہیں تھے۔ ایک لطیفے کا صدور بھی ہوا۔ علی گڑھ سے جب گورکھ پور چلنے کی تیاری ہورہی تھی تو میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ آپ میرا بھی ریزرویشن کرا دیں، جب وہاں ریڈیو سے پیسہ ملے گا تب ادا کر دوں گا۔ فرمایا، ’’آپ خورد ہیں اورآپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے بڑوں سے ایسی فرمائش کریں۔ میں کے پی سنگھ سے کہتا ہوں۔‘‘

    غرض یہ کہ ریزرویشن ہوا اور ہم لوگ گورکھ پور پہنچے۔ کڑاکے کے جاڑے تھے۔ تمام ادیب گرم لباس میں ملبوس تھے۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سے پیسے ملے۔ میں نے فوراً حساب لگایا اور بیچ محفل میں جا کر قاضی صاحب سے کہا، ’’یہ ٹکٹ کے پیسے ہیں۔‘‘

    انھوں نے تیوری چڑھا کر ڈانٹا اور کہا، ’’خوردوں کو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح بزرگوں کو روپے واپس کریں۔ میں ان روپوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا۔ آپ یہ روپے کے پی سنگھ کو دے دیں۔ میں ان سے لے لوں گا۔ یا بصورت دیگر کل صبح جب میں دستانے پہنے ہوں تب آپ یہ روپے مجھے دیجیے گا۔‘‘

    علی گڑھ میں کوئی ادیب شاعر آئے، شہریار اور طارق چھتاری سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ طارق چھتاری شعبۂ اُردو سے مہمان خانے تک اس مہمان کا ساتھ دیتے ہیں اور ضرورت پڑے تو اس مہمان کی ملاقات یونیورسٹی کے دوسرے ادیبوں سے کرانے میں پٹرول اور وقت دونوں کی پروا نہیں کرتے اور یہ سب کچھ بے غرض ہوتا ہے۔ وہ شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے غیر رسمی چیف آف دی پروٹو کول ہیں۔ طارق چھتاری ادب میں اپنی شہرت اور مقبولیت اور شعبے میں منصب کے اس درجے پر فائز ہیں کہ انھیں ان محنتوں اور زحمتوں کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن ان معاملات میں وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ بنگال کے کسی دور افتادہ قصبے کا اُردو کا کوئی استاد اگر شعبۂ اُردو میں قدم رکھے گا تو سب سے پہلے طارق چھتاری کو ہی دریافت کرے گا اور یہ عین ممکن ہے کہ طارق چھتاری نے اس دن سے پہلے اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھی ہوگی۔

    ادبی جلسوں میں طارق چھتاری سب کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ ادیب اور شاعر انھیں بہت توجہ سے سنتے ہیں۔ کسی سمینار یا سمپوزیم کی نظامت کر رہے ہوں یا Moderation کر رہے ہوں تو ان کی باتیں سننے میں دل لگتا ہے۔ ادبی معاملات میں وہ بہت صاف گو ہیں لیکن یہ صاف گوئی کسی کی دل آزاری یا حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بنتی۔ وہ اپنی بات بہت سلیقے، تہذیب اور پُر زور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

    ستر کی دہائی کے آخری حصے میں ان کی کہانیاں سامنے آئیں۔ یہ وقت ترقی پسندی اور جدیدیت کی سخت آویزش کا دور تھا۔ طارق چھتاری اور علی گڑھ میں ان کے معاصرین ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کے بھی باد فروش بننا نہیں چاہتے تھے۔ ان دونوں گروہوں کے بڑوں کے درمیان کھڑے ہوکر طارق چھتاری بہت اطمینان سے اپنا موقف بیان کرتے اور لہجے کو تاب دار کیے بغیر اپنی بات مکمل کرکے ہی گفتگو ختم کرتے۔ ہم لوگ ذرا اکھڑ لہجے، طنز آمیز مکالموں اور دل آزار جملوں سے کام لیتے تھے۔ اس لیے اکثر بھول چوک ہوجاتی تھی۔ طارق چھتاری ایسے تمام موقعوں پر اپنے نرم لہجے، دلیل کی قطعیت اور مناسب مثالوں کے ہتھیاروں سے کام لے کر ہم لوگوں کی حماقتوں کی تلافی کردیتے تھے۔

    ( طارق چھتاری اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ 1970ء کے بعد کی نسل کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ بھارت کے معروف ادیب اور افسانہ نگار سید محمد اشرف کے طارق چھتاری کے فن اور شخصیت پر ایک مضمون سے یہ پارے نقل کیے گئے ہیں)

  • معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اردو زبان کے ان شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں بہت کم کہا، لیکن اردو ادب کے معتبر اور نمایاں شاعروں میں شمار ہوئے۔ ان کی شاعری نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور ان کے متعدد اشعار ضرب المثل بنے۔

    اردو زبان کے اس مقبول شاعر سے متعلق غضنفر علی کے ایک مضمون سے یہ اقتباسات مصنّف کی یادوں پر مشتمل ہیں۔ غضفر علی کا تعلق بھارت سے ہے۔ وہ شاعر، ناقد اور فکشن رائٹر ہیں۔ انھوں نے اس تحریر میں جذبی سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ معین احسن جذبی 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں وفات پاگئے تھے۔ غضنفر لکھتے ہیں:

    "احمد جمال پاشا نے جب میرا تعارف کرایا تو جذبی صاحب اس درجہ خوش ہوئے جیسا کہ کوئی مشفق استاد یا شفیق باپ ہوتا ہے۔ مجھ سے ان کے خوش ہونے کی میرے خیال میں تین وجہیں رہی ہوں گی، پہلی وجہ یہ کہ میں اس شعبے کا طالب علم تھا جسے جذبی نے اپنا گھر سمجھا۔ دوسری یہ کہ میں اس زبان میں ریسرچ کررہا تھا جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز تھی اور تیسری شاید یہ کہ میرے اندر بھی وہ صلاحیت موجود تھی جس کی بدولت کوئی تخلیقی فن کار کسی کو اپنے قبیلے کا فرد سمجھنے لگتا ہے۔ ان میں قوی تر سبب یہ تھا کہ میں ان کے شعبے کا طالبِ علم تھا جو اس حقیقت کا غماز بھی تھا کہ اُن کو اپنے شعبے سے کس درجہ لگاؤ تھا، مگر افسوس کہ اس شعبے نے ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور اس حد تک گزند پہنچائی کہ انھوں نے برسوں اس کی طرف رخ نہیں کیا۔ یہ شعبے کی کوئی نئی بات نہیں تھی، بلکہ یہ روایت پہلے سے چلی آرہی تھی اور بعد تک باقی رہی۔ اس روایت کی آگ میں رشید احمد صدیقی بھی جلے، آلِ احمد سرور بھی جھلسے اور کئی دوسرے بھی اس کی لپٹوں میں لپیٹ لیے گئے۔ اس شعبے کی ایک مثبت اور مضبوط روایت بھی رہی۔ وہ یہ کہ بہت دنوں تک اس میں تخلیقیت کا بول بالا رہا۔ رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھ پوری، آلِ احمد سرور، معین احسن جذبی، خورشید الاسلام، خلیل الرحمان اعظمی، راہی معصوم رضا، شہریار، قاضی عبدالستار ایک سے ایک مشہورِ زمانہ تخلیق کار اس سے وابستہ رہے اور اپنے فن پاروں سے اس کے نام میں چار چاند لگاتے رہے مگر دل کو گداز کرنے، ذہن کو بالیدہ بنانے اور روح کو گرمانے والی اس روایت کو کسی کی نظر لگ گئی۔ غیر تخلیقیت کے سحر نے اس کے ارد گرد ایسا حصار کھڑا کیا کہ تخلیقیت کا داخلہ بند ہوگیا۔ تخلیقیت کے اکّے دکّے نمائندے کسی طرح داخل ہونے میں کام یاب ہوئے بھی تو وہ ہمیشہ غیر تخلیقی بلاؤں کی زد پہ رہے۔

    سیوان کی اس ملاقات میں گوشہ نشینی اختیار کرنے اور مسلسل چپّی سادھ لینے والے جذبی نے ایسی جلوت پسندی اور محفل بازی کا ثبوت دیا کہ ہم دنگ رہ گئے۔ دورانِ دورِ میکشی انھوں نے ایسے ایسے قصّے سنائے اور نشے کی ترنگوں کے ساتھ لطائف کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑے کہ ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ عالمِ سرور میں ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں جذبی نے ترنم سے غزلیں بھی سنائیں۔ ترنم سے غزلیں سنتے وقت بار بار مجھے ایک واقعہ یاد آتارہا: کسی محفل میں یونی ورسٹی کے ایک استاد نے جذبی سے ترنم کی فرمائش کر دی۔ جسے سن کر جذبی چراغ پا ہوگئے اور غصّے میں ایسا دیپک راگ الاپنا شروع کیا کہ لیکچرر صاحب کو اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا۔ وہ تو بھلا ہو اس محفل میں موجود کچھ نبض شناس سینئر استادوں کا کہ جنھوں نے انگلیوں میں دبے سگار کو ماچس کی تیلی دکھا دکھا کر جذبی کی حالتِ جذب کو ٹھنڈا کیا ورنہ تو اس جونیئر استاد کا اس دن خدا ہی حافظ تھا۔

    اس واقعہ کے ساتھ ساتھ میں جذبی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایک طرف تو جذبی کسی استاد کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب بغیر کسی فرمائش کے طلبہ کو ترنم سے غزل سناتے ہیں۔ جذبی کی شخصیت کا یہ تضاد پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آیا، ہاں اتنا ضرور محسوس ہوا کہ جذبی طریقتِ شعر و سخن کے مجذوب تھے۔ مجذوب جو صرف من کی سنتا ہے۔ من کہتا ہے تو اللہ ھو کا نعرۂ مستانہ بھی لگاتا ہے اور من نہیں کہتا ہے تو بس ہُو کا عالم لیتا ہے۔

    اس ملا قات کے دوران جذبی کے جذب و مستی کے کئی اور رنگ بھی دیکھنے کو ملے، غزل سنانے کے بعد شراب کا ایک لمبا گھونٹ بھر کر بولے غضنفر! کباب کے بغیر شراب پینا کیا ایسا نہیں لگتا جیسے غریب مزدور روکھی روٹی کھا رہے ہوں مگر ہم لوگ تو غریب ہیں نہیں، تو پھر یہ روکھی روٹی کیوں؟ جاؤ گھر والوں کو بولو کہ کباب دے جائیں۔

    میں محفل سے اٹھ کر جمال پاشا کے قلعہ نما محل کے دروازے کے پاس پہنچا اور آہستہ آہستہ دستک دینا شروع کیا۔ پانچ سات منٹ تک مسلسل دستک دینے کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو جذبی صاحب اٹھ کر خود بھی دروازے کے پاس آگئے اور بولے:

    ’’اس طرح ناک کرنے سے بڑے دروازے نہیں کھلتے، انھیں پیٹنا پڑتا ہے۔ یوں۔‘‘ اور وہ دھڑا دھڑ دروازے پر مُکّے مارنے لگے۔ دھڑدھڑ کی آواز پر واقعی دروازہ کھل گیا۔ ایک گھبرایا اور ہڑبڑایا ہوا خادم قسم کا آدمی باہر نکلا اور ہکلاتا ہوا بولا،

    ’’جی، فرمائیے۔‘‘

    ’’کباب لاؤ! کباب۔‘‘ میرے منہ کھولنے سے پہلے ہی جذبی صاحب بول پڑے‘‘

    کباب! وہ اس طرح چونکا جیسے کسی پکّے مسلمان سے شراب پلانے کی فرمائش کر دی گئی ہو۔‘‘

    ’’ہاں بھئی کباب؛ کہو تو ہجّے کر کے بتاؤں‘‘ جذبی صاحب کا لہجہ سخت ہوگیا۔

    ’’مگر کباب تو نہیں ہیں۔‘‘ قدرے سنبھلتے ہوئے اس خادم نما آدمی نے جواب دیا

    ’’کیا کہا؟ کباب نہیں ہیں؟ اتنی بڑی حویلی، وہ بھی ایک مسلمان رئیس کی اور کباب نہیں؟ نہیں نہیں، کباب ضرور ہو گا جا کر کچن میں دیکھو!‘‘ جذبی صاحب کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ اس شاندار حویلی میں کباب نہیں ہوں گے۔

    وہ آدمی چپ رہا۔

    ’’کیا اس حویلی میں کچن نہیں ہے؟‘‘

    کچن کیوں نہیں ہوگا صاحب!‘‘

    تو پھر جاتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’بات یہ ہے صاحب۔۔۔‘‘

    ’’ہم کچھ سننے والے نہیں، تم جاؤ اور فوراً کباب لاؤ۔ ہمارے منہ کا مزہ بگڑا جا رہا ہے جاؤ! منہ کیا تاک رہے ہو؟‘‘جذبی صاحب نے اسے بولنے نہیں دیا۔

    اس خادم یا خادم نما آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے عزّت دار مالک کے اس معزز مہمان سے کس طرح نمٹے کہ قدرت کو اس کی حالت پر ترس آگیا اور اس نے اس کی مدد کے لیے خود مالک کو بھیج دیا۔ عین اسی وقت احمد جمال پاشا اپنی موٹر سے آدھمکے۔ شاید ہمیں وہ لینے آئے تھے۔ موٹر سے اتر کر سیدھے دروازے کے پاس آگئے۔ غالباً انھوں نے ہمیں دور ہی سے دیکھ لیا تھا۔ پاس آکر گھبراہٹ کے لہجے میں بولے:

    ’’سر! آپ یہاں؟‘‘

    ’’ارے بھائی! تمھارے اس خادم سے کب سے کباب لانے کو کہہ رہے ہیں مگر یہ ہے کہ۔۔۔

    ’’سر! آج کھانے کا انتظام کالج میں کیا گیا ہے نا، اس لیے یہاں کے تمام باورچی ادھر لگے ہوئے ہیں۔‘‘ جمال پاشا نے صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

    ’’باورچی ہی تو گئے ہیں کچن اٹھ کر تو نہیں چلاگیا!‘‘ جذبی صاحب نے صورتِ حال کو پھر سے بے قابو کر دیا۔

    ’’دراصل کئی دنوں سے کالج فنکشن میں مصروف ہونے…

    ’’رہنے دو، رہنے دو، میں سب سمجھ گیا۔ پاشا تم کیسے مسلمان ہو کہ گھر میں کباب تک نہیں رکھتے۔ لگتا ہے یہاں آ کر تم بھی بہاری ہوگئے ہو۔‘‘

    ’’بہاری ہی نہیں سر!میں تو شدھ شاکا ہاری بھی ہوگیا ہوں، مانسا ہاری۔۔۔ بیماریوں نے جسم و جان کو دبوچ جو رکھا ہے۔ جلد تشریف لے چلیے، شامی، سیخ اور بہاری تینوں وہاں آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’پاشا! میں مان گیا کہ تم واقعی مزاح نگار ہو۔ اپنے گھر کی عریانیت پر تم نے کتنا خوب صورت اور دبیز پردہ ڈال دیا، چلو میں نے تمھیں معاف کیا۔‘‘

    مصنّف نے اپنے اس مضمون کا عنوان ‘دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں’ رکھا ہے جو معین احسن جذبی کی اس مشہور غزل سے مستعار لیا گیا ہے‌۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
    یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

    جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
    اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

    جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
    جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

    دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
    دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

  • الفاظ اور شاعر

    الفاظ اور شاعر

    صرف ادبیوں اور شاعروں کے یہ دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم و راہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کُھل کھیلنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی الٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔

    البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں اُن کے لباس تبدیل کر دیں۔ اُن کی لَے اور رنگ بدل دیں، اُن کا رخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرما دیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں ادنیٰ و اعلیٰ ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔

    ؎ ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
    ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
    مومن خاں مومنؔ

    لفظ ” بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔

    ؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سَر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔

    (از قلم: جوشؔ ملیح آبادی)

  • رہتی دنیا تک اقبال مشرق کا ولولہ خیز شاعر رہے گا!

    رہتی دنیا تک اقبال مشرق کا ولولہ خیز شاعر رہے گا!

    ’’وہ انسان جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا۔‘‘ اقبال کی وفات سے ہندوستان ایک جلیل القدر شاعر سے کہیں زیادہ باعظمت ہستی سے محروم ہو گیا۔

    وہ بطور ایک عالم اور تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے سرگرم طالب علم بھی ان لوگوں کے لئے جو اپنی محدود قابلیت کے سبب اس کی اعلیٰ شاعری تک رسائی سے قاصر تھے، منبع فیض وجود تھا۔ بطور شاعر اگرچہ اس کا مقام نہایت بلند تھا لیکن ادبی اور عمرانی دنیا میں اثر و نفوذ کے لحاظ سے اس کا مقام اس سے بھی بلند تر تھا۔ اس کی وفات سے جہاں مسلمانوں سے ایک فصیح اللسان پیغامبر اور ان کی تہذیب کا ایک بہت بڑا شارح چھن گیا ہے وہاں اردو شاعری سے خدا معلوم کتنی دراز مدت کے لئے اہمیت اور منزلِ مقصود چھن گئی۔

    کم و بیش چالیس سال گزرے جب اقبال کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت اردو شاعری اگرچہ لوگوں میں مقبول تھی اور ہر کس و نا کس اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اس کا مقصد خود زندگی نہیں بلکہ محض زندگی کے حاشیہ کی تزئین سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ مقبولِ عام فن تھا مگر یہ فن محض فن کی خاطر اختیار کیا جاتا تھا۔ اس وقت شاعری کیا تھی؟ محض جذبات انگیز عیاشی، نرم و نازک، دل خوش کن، مزاحیہ یا ہجویہ، لیکن سراسر بے ربط۔ اسی لئے اس کے اختیار کرنے میں سنجیدگی اور متانت سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی جاتی۔

    لیکن مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا احساس کروٹیں لے رہا تھا۔ اور لوگوں کی زبان پر تعمیرات ملت اور ترقی کے الفاظ آنے شروع ہو گئے تھے۔ ان میں جو زیادہ ذکی الحس واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے آرٹ کو پھر ڈھونڈ نکالا کہ یہ بھی انسان کے زیادہ اہم مشاغل میں سے ایک ہے اور اس کو اعلیٰ سنجیدگی اور مقصد و مدعا سے معمور کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ حالی ایسا غزل گو عہد شباب کی ہوس کاریوں سے تائب ہو کر مشہور زمانہ مسدّس کا مصنف بن گیا۔ جس نے خوابِ غفلت کے متوالے ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا کہ کوئی ایک نظم نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا کر سکی۔ ان ہی حالات میں اقبال جس نے اسی فرسودہ ڈگر پر اپنی شاعری شروع کی تھی، محسوس کرنے لگا کہ اس کا دل مسلمانوں کے احیا اور ان کی نئی زندگی کے خواب سے مضطرب اور بے قرار ہے۔

    ہندوستان ہمارا
    اقبال کی ابتدائی نظموں سے ہی جو اس رجحان کے ماتحت لکھی گئیں۔ اس کے ولولہ، عمل سے بے تاب دل اور اپنے وطن کے لئے جذباتِ محبت کا پتہ لگتا ہے، اس کی نظم، ’’سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے‘‘ اب تک فرقہ وارانہ اتحاد کی سب سے زیادہ پُر اثر اپیل ہے جو کسی محب وطن کے قلم سے نکلی ہو۔ اور اس کا شہرۂ آفاق گیت ”ہندوستان ہمارا“ میرے خیال میں بہترین قومی گیت ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور جس سے بہتر گیت کی شاید مدت مدید تک بننے کی امید نہیں ہو سکتی۔ لیکن مذہب اسلام کے غائر مطالعہ نے جو اقبال نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک مسلسل جاری رکھا۔ اس کے افق خیال کو وسعت بخشی۔ وطن اور ملک کی نسبت سے قوموں کا تصور اس کی فطرت کے خلاف تھا۔ اپنی شاعری اور اپنی گفتگو میں وہ ہمیشہ یورپ کی مثال دے کر انسانوں کو ملکوں اور وطنوں کے تنگ دائروں میں تقسیم کرنے کی بیہودگی ثابت کیا کرتا۔ وہ ایک ایسے تمدنی نصب العین کا قائل تھا جو انسانوں کو وطنوں اور قوموں کے اختلافات کی سطح سے بلند کر دے اور جو زندگی کو ایک مقصود مدعا بخشے کیونکہ اس کے نزدیک آرٹ کا با مقصد ہونا محض زندگی کے اصول علت العلل کا جزو لاینفک تھا۔ اسی قسم کی ہمہ گیری اور با مقصدیت انہیں نظر آئی تو اسلام میں یا چند جرمن فلسفیوں کی تعلیمات میں جن سے وہ بے دریغ اپنی شاعری میں استفادہ کرتا رہا۔

    مجازی خیالی دنیا
    جس دور سے ہم ہندوستان میں گزر رہے ہیں اگرچہ اس میں بڑے بڑے امکانات پوشیدہ ہیں تاہم اس میں ایک خاص غم ناک کیفیت موجود ہے۔ ہم میں شاید ہی کوئی فن کار ایسا ہو جس کے فن میں گھر کے لئے اداسی بطور مرض کے موجود ہو۔ ہم دور دراز خیالی دنیاؤں کے آرزومند ہیں۔ اور خواہ وہ دنیائیں خیالی ہوں یا حقیقی۔ ان کی زمانی یا مکانی دوری ہی ان کے اندر ایک بے پناہ دلکشی پیدا کر دیتی ہے۔ اقبال نے اسلام کے ابتدائی زمانے پر پُر شوق نظر ڈالی۔ اس کی آرزو تھی کہ وہ اس عہد کے مسلمانوں کی سادگی، بلند ہمتی، ایمان اور عزم و استقلال کو دوبارہ پیدا کر سکے۔ ایک عالمگیر تمدن کے لئے اس کی دلی خواہش انسان کی تقدیر میں اس کا زبردست ایمان، انسان کے ارتقا میں اس کا پختہ یقین کہ وہ مقصد کی بلندیوں کو منزل بمنزل طے کرتا ہوا کمال کی چوٹیوں پر پہنچ سکتا ہے ان شرائط کے مطابق جو مسلم گھرانے میں پیدائش کے سبب اور اسلامی تعلیمات اس کے ذہن نشین ہو چکی تھیں۔ ان سب باتوں نے اس کی شاعری کو اسلامی رنگ دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں اس کے بعض قدر دان اس سے چھن گئے۔
    کسی شاعر کے کلام کی قدر اور اس کے اعتقاد کے باہمی تعلق کی بحث پرانی چیز ہے اور میں اس کے متعلق یہاں کچھ نہ کہوں گا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو صرف اس لئے ملٹن کی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوں کہ وہ اس کے مذہبی عقائد سے متفق نہیں یا جو شیکسپیئر کا کلام محض اس لئے پڑھنا گوارا نہ کریں کہ وہ اس کی شاہ پرستانہ خیالات کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لئے جو کولرج کے لفظوں میں کسی شاعر کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ”انکار کو عمداً معطل کر دیتے ہیں“ اقبال رہتی دنیا تک مشرق کا سب سے زیادہ ولولہ خیز شاعر رہے گا۔

    فارسی اور اردو
    اس کے بعض ہم وطنوں کی بدقسمتی ہے کہ اقبال کے بہترین کلام کا زیادہ تر حصہ فارسی میں ہے اور اس کی صرف ایک طویل نظم اسرارِ خودی کا ترجمہ جو پروفیسر نکلسن نے کیا ہے، انگریزی زبان میں ملتا ہے۔ تاہم اس کا ابتدائی کلام جو اردو میں ہے وہی اس کی ہندوستانی شاعروں میں ایک بلند مقام دینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن خواہ اس نے اپنی نظمیں اردو میں لکھیں، خواہ فارسی میں، اس کا اردو شاعری پر گہرا اور مسلسل اثر پڑتا رہا۔ پیدائش کے لحاظ سے وہ پنجابی تھا (اصل میں اقبال کشمیری اور ذات کا سپرو تھا) اسی لئے اس کے یوپی کے نکتہ چیں اس کو ہمیشہ یہ حقیقت ایسے لفظوں میں یاد دلاتے رہے جن میں انصاف کم اور تلخی زیادہ ہوتی تھی اور اس کی شاعری کی زبان کو ٹکسال باہر ہونے کا طعنہ دیتے رہتے۔ اور یہ باوجود اس حقیقت کے کہ وہ داغ کا معنوی فرزند تھا۔ جو اردو زبان کا مسلمہ بادشاہ ہوا ہے لیکن اس کی غیر معمولی قابلیت نے اس کے نکتہ چینوں کو جلدی خاموش کر دیا۔ اور اس کی طرز شاعری کے بے شمار پہلو ملک کے طول و عرض میں پیدا ہو گئے۔ اگر افراد کی وسیع اثرات کا تذکرہ کرنا اندیشناک نہ ہو تو اس ضمن میں تین ہستیوں کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اردو ادب کو نئی اور مختار صورت بخشی ہے۔

    مولانا ظفر علی خان نے زمیندار کے ابتدائی ایام میں اس میں مضمون لکھ لکھ کے اردو صحافت کو ایک ایسی زور دار اور لچکیلی زبان سے مالامال کیا جس سے وہ پہلے قطعاً ناواقف تھی۔مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو نثر کو وہ شوکت، فراوانی اور شیرینی بخشی جس کا راز انہوں نے عربی زبان کے مطالعہ کرتے وقت پا لیا تھا لیکن چٹپٹے مضامین یا پُر اثر وعظوں کی نسبت شاعری لوگوں کے دلوں میں زیادہ دیرپا اثر رکھتی ہے اور شاعر زبان پر زیادہ گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ جدید اردو کے بنانے والوں میں اقبال (اور اسی طرح اس کا پیش رو غالب) ابھی تک سب سے نمایاں اور زبردست اثر ڈال رہا ہے۔ ہزاروں ترکیبیں اور الفاظ جو ان دونوں استادان فن نے گھڑے یا اپنے فارسی کے پیشرو استادوں سے مستعار لئے آج بھی اردو تحریر اور تقریر میں ان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، طنز نگار اور ماہرِ نشریات پطرس کے انگریزی مضمون کا ترجمہ از صوفی ریاض حسین)

  • اخترالایمان: انصار کانفرنس کے ہیرو

    اخترالایمان: انصار کانفرنس کے ہیرو

    راقم الحروف کی ملاقات اختر الایمان سے ٹھیک ساٹھ سال پہلے ہوئی۔ ۱۹۴۲ء ماہ جون، میرے آبائی قصبہ نگینہ میں آل انڈیا انصار کانفرنس منعقد ہوئی۔

    اس کانفرنس میں ہندوستان کے کونے کونے سےانصاری برادری کے لیڈران آئے تھے۔ میرا مطلب ہے ’’انصاری جدید‘‘ اور اس کانفرنس کی وجہ سے قصبہ کے ایک مشہور حکیم ایوب انصاری اپنی بدنامی سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ تین روزہ کانفرنس کے دوران اپنے گھر سے ہی نہ نکلے۔ اس کانفرنس کے سکریٹری مشہور رہنما قیوم انصاری نے ایسی گرم تقریر کی کہ غیر انصاریوں کو جوش آگیا اور نقص امن کا اندیشہ ہونے لگا۔ تب صدر محفل کے کہنے پر اخترالایمان نے جو ان ’جغادریوں‘ کے سامنے ’’طفل مکتب‘‘ معلوم ہو رہے تھے، وہ دھواں دھار تقریر کی کہ دونوں فریقوں کو شکایت کی گنجائش نہ رہی۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہ انگریزی سامراج کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے دو گروپ ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ اخترالایمان اس انصار کانفرنس کے ہیرو ٹھہرے۔ اور بعد میں ہم نوجوانوں نے جو ’’ساقی‘‘ میں ان کی نظمیں پڑھتے تھے، ان سے کلام سنانے کی فرمائش کی تو اخترالایمان نے اپنی دو نظمیں ’’نقش پا‘‘ اور ’’محلکے‘‘ ترنم سے سنائیں۔ تب تک ان کا مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔

    چند ماہ بعد پھر وہ نگینہ تشریف لائے اور اس رات ہم نے ان کی زبانی وہ سب نظمیں سنیں جو ’’گرداب‘‘ میں شائع ہوئیں۔ ’’انصار کانفرنس‘‘ کی لیڈری ان کے قدموں میں تھی مگر اختر نے اس سلسلے کو منقطع کردیا۔ ان دنوں وہ ساغر نظامی کے رسالے ’ایشیا‘ کے نائب مدیر تھے۔ نگینہ کے بعد اخترالایمان سے میری ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں مگر وہ جلد ہی علی گڑھ ایم۔اے کرنے چلے گئے۔ وہاں بھی ایک سال رکے اور ان کے کچھ عرصہ کے لیے قدم تھمے۔ پونا میں اور پھر پونا سے بمبئی۔ بمبئی میں اخترالایمان کو خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے لکھنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ باندرہ میں ان کا دو کمرے کا ایک فلیٹ تھا، گراؤنڈ فلور پر۔ پھر جب ان کی مقبولیت اور آمدنی میں اضافہ ہونے لگا تو انھوں نے اس مکان میں اپنی لائبریری بنالی اور باندرہ میں ہی ایک بڑا فلیٹ خرید لیا۔ بمبئی آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ اس نئے فلیٹ میں وہ ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلم ’’قانون‘‘ جس میں کوئی گانا نہیں تھا، ان کے مکالموں کے باعث بہت مقبول ہوئی اور وہ ان کی کامیابی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ البتہ آخری دنوں میں انھوں نے بیماری اور مالی مجبوریوں کے باعث وہ بڑا فلیٹ بیچ دیا تھا اور باندرہ میں ہی دو کمرے کا فلیٹ خرید لیا تھا۔

    (رفعت سروش کی یادوں سے ایک پارہ)

  • اردو، جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا

    اردو، جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا

    مشہور شاعر داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎

    اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
    ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

    اردو ہمارے ملک کی مشترکہ وراثت کی امین ہے۔ یہ خالص ہندوستانی زبان ہے اور ہمارے مشترکہ کلچرکی نمائندگی کرتی ہے۔ اردو ترکی زبان میں فوج یا لشکر کو کہتے ہیں۔ دراصل اس زبان کی پیدائش اور پرورش فوجی چھاؤنی میں ہوئی جہاں ہر مذہب، ذات اور نسل کے فوجی ہوتے ہیں۔ ان فوجیوں کے آپسی میل جول اور مختلف زبانوں کے تال میل سے اردو زبان وجود میں آئی۔

    ایک غلط فہمی ہمارے معاشرے (ہندوستان) میں عام ہو چکی ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ اس زبان کا فارسی رسم الخط ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آج اردو لکھنے پڑھنے کا دستورعموماً مسلمانوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں ۶۰ فیصد سے زیادہ کھڑی بولی کے الفاظ ہیں جو اردو اور ہندی دونوں کی ماں ہے۔ اس زبان کو ابتدا میں ہندوستانی، ہندوی اور اردو کے نام سے موسوم کیا گیا۔ چودھویں صدی عیسوی میں جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے فوجی سپاہیوں کی زبان ترکی، عربی اور فارسی تھی۔ اس وقت ہندوستان میں سنسکرت، کھڑی بولی، برج بھاشا، مگہی اور ہریانوی زبانوں کا بول بالا تھا۔ مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے باہمی میل جول سے ایک نئی تہذیب اور ایک نئی زبان وجود میں آئی جس میں مختلف تہذیبوں کی رنگا رنگی اور مختلف زبانوں کے الفاظ و استعارات نے جگہ پائی۔ مشہور تاریخ داں ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:

    ’’مسلم ذہن ہندوانہ رنگ و روپ قبول کرنے لگا اور اس نے فارسی و ترکی کی جگہ مقامی زبانوں کو سیکھنا اور استعمال کرنا شروع کیا۔ ہندوؤں نے عربی، فارسی اور ترکی الفاظ کو مقامی محاوروں میں جگہ دی۔ اس لین دین کا منافع ہماری تہذیب کے خزانے میں اردو کی شکل میں شامل ہوا۔‘‘

    کرشن چندر نے اردو کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’اردو ادب شروع ہی سے ایک مشترکہ ہند آریائی تہذیب اور کلچر کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت میں ہندوؤں اور مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں نے مل جل کر حصہ لیا ہے۔اردو ایک ہندوستان گیر زبان ہے۔ اس نے اپنے دائرہ اثر میں ہر مذہب و ملت ، ہر رنگ و نسل کے افراد کے محسوسات اور جذبات کو سمو کر ایسا ادبی رنگ و روپ عطا کیا ہے جس سے اس زبان کے ادب اور شاعری پر باہمی میل جول، رواداری، محبت، اخوت اور قومی یکجہتی کے جذبوں کی گہری چھاپ پڑ چکی ہے۔ ان ہی عناصر کی موجودگی نے اردو زبان و ادب کو ایک سیکولر مزاج عطا کیا ہے جو سارے ہندوستانی عوام کے جمہوری جذبے سے ہم آہنگ ہے۔‘‘

    انہی خیالات کو جگن ناتھ آزاد نے شعری پیکر میں یوں ڈھال کر پیش کیا ہے:

    غلط ہے جو سمجھتا ہے اغیار کی بولی
    یہ ہے اخلاص کی، طرزِ تکلم، پیار کی بولی

    ریاضِ ہند میں اردو وہ اک خوش رنگ پودا ہے
    جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا ہے

    برج لال رعنا نے اردو کے ہندوستانی نژاد ہونے کا یوں اعتراف کیا ہے:

    نام اردو کبھی ہندی کبھی ہندوستانی
    فارسی خالہ مری سنسکرت ہے نانی

    بھارتی اپنا لباس اور سنگھار ایرانی
    لے کے ہر پھول سے رس، کرتی ہوں گل افشانی

    میرا ہر دیس سے پربندھ ہے، ہر قوم سے سمبندھ
    میں کسی دین کی تابع، نہ دھرم کی پابند

    اردو زبان کے اس سیکولر مزاج کے باوجود آج اردو زبان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے محض مسلمانوں کی زبان تعبیر کر لیا گیا ہے۔ زبان تہذیب اور کلچر کی پروردہ ہوتی ہے لیکن اسے مذہب سے جوڑکر دیکھا جانے لگا۔ زبان مذہبی لٹریچر کے مطالعے کا وسیلہ تو ہوسکتی ہے لیکن کوئی مذہب کسی زبان کو جنم نہیں دے سکتا۔ آج چونکہ اردو لکھنے پڑھنے والا طبقہ بیشتر مسلمانوں پر محیط ہے، اس لئے اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو اردو زبان و ادب کی ترقی اور نشوونما میں کار ہائے نمایاں انجام دینے والے غیر مسلم ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ہم کیا نام دیں گے؟ کیا اردو زبان و ادب کی تاریخ سینکڑوں غیر مسلم شعرا و ادیب کے ذکر کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے جنہوں نے نہایت پیارسے اردو کی زلفیں سنواری ہیں اور اس زبان کی آبیاری اور نشوونما میں اپنا خونِ جگر شامل کیا ہے۔

    یہ درست ہے کہ اردو کے فروغ اور ارتقائی سفر میں ولی دکنی، میر امن، مرزا ہادی رسوا، داغ دہلوی، بہادر شاہ ظفر، حسرت موہانی، میر، غالب، ذوق، اقبال، فیض، ساحر وغیرہ کا اہم رول رہا ہے لیکن نہال چند لاہوری، درگا سہائے سرور، للو لال جی کوی، دیا شنکر نسیم، لبھو رام جوش ملیسانی، پنڈت بالمکند عرش ملیسانی، موہن دتاتریہ کیفی، برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم وغیرہ بھی وہ شاعر اور ادیب ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں اردو کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ یہ رام بابو سکسینہ تھے جنہوں نے پہلی بار اردو ادب کی تاریخ مرتب کی۔ منشی نول کشور کی خدمات سے صرف نظر ممکن ہی نہیں ہے، جنہوں نے ۱۸۵۸ء میں لکھنؤ میں نول کشور پرنٹنگ پریس اور بک ڈپو قائم کیا جس کے توسط سے سینکڑوں کتابیں اور رسالے محفوظ ہوئے۔ ان کی اس گراں بہا خدمت کے اعتراف میں حکومت ہند نے ۱۹۷۰ء میں ان پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ راجہ رام نارائن موزوں، مہاراجہ شتاب رائے، کلیان سنگھ عاشق کی سرپرستی اور مربیانہ سلوک کی وجہ سے اردو نے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ ان لوگوں نے نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ اردو کو پاؤں پاؤں چلنا سکھایا۔اردو ادب کی تاریخ منشی پریم چند کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جنہوں نے اردو کا پہلا افسانہ ’سوز وطن‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ یہی نہیں بلکہ منشی پریم چند نے ہی اردو افسانے کو رومان کی وادی سے نکال کر حقیقت کی سنگلاخ زمینوں پر قدم جمانے کا ہنر عطا کیا۔ یہ پریم چند تھے جنہوں نے ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے شروع ہونے سے پہلے افسانہ ’کفن‘ لکھ کر اپنی دور اندیشی اور ترقی پسندی کا ثبوت دیا۔

    سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، علی عباس حسینی کے ساتھ ساتھ راجندر سنگھ بیدی، اپندر ناتھ اشک، دیوندر ستیارتھی، بلونت سنگھ، ہنس راج رہبر، رامانند ساگر وغیرہ نے اردو افسانے کو فن کی بلندی تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ اسی طرح شاعری کے میدان میں مجاز، فیض، جگر مراد آبادی، جوش، سردار جعفری، جذبی، کیفی اعظمی، اخترالایمان کے ساتھ رام پرساد بسمل، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کی غزلوں نے اردو عوام کے دلوں پر حکومت کی ہے۔ یہ دور اردو زبان و ادب کا سب سے سنہرا دور کہلاتا ہے جس میں اردو زبان اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی اور ہر طرح کے موضوعات و مضامین اردو زبان کے وسیلے سے ادا ہونے لگے۔ اردو شاعر و ادیب کی اس نسل سے پیوستہ جو دوسری نسل اردو کی آبیاری کے لئے تیار ہوئی اس میں مسلم ادیب و شاعر کے شانہ بہ شانہ جگن ناتھ آزاد، کنہیا لال کپور، نریش کمار شاد، بششیر پردیپ، دیوندر اسر، برج پریمی، آنند نارائن ملا، حکم چند نیر، گیان چند جین، مالک رام، کمار پاشی، کشمیری لال ذاکر، کنور مہندر سنگھ سحر وغیرہ جیسے عاشقانِ اردو کا نام سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے لائق ہے۔

    اردو کو اپنے قلم کا وسیلہ بنانے والوں کی یہ طویل فہرست اس بات کی ضامن ہے کہ اردو زبان کسی خاص مذہب، فرقے یا علاقے کی زبان نہیں ہے بلکہ اس کی آبیاری اور نشوونما میں ہر مذہب و ملت اور خطے کے افراد نے بھرپور حصہ لیا ہے۔ اردو زبان اسی مشترکہ تہذیب کی نہ صرف نمائندہ ہے بلکہ اس تہذیب کے اظہار کا وسیلہ بھی ہے۔ لیکن آج اس تلخ حقیقت کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اردو کے متوالوں کی تعداد پہلے کے تناسب میں کافی کم ہو چکی ہے۔ اردو کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے شیدائی اب خال خال نظر آتے ہیں لیکن صورت حال مایوس کن بھی نہیں ہے۔

    سلیقے سے ہواوؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
    ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

    کالم نگار شکیل شمسی نے اردو کے ماضی اور موجودہ تشفی بخش صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’اگر ہم اردو کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کسی زمانے میں منشی نول کشور اس کے فروغ میں مصروف نظر آئیں گے، کہیں غالب کی تحریروں میں ہر گوپال تفتہ جا بجا مسکراتے ہوئے ملیں گے، کہیں پنڈت برج نارائن چکبست اور رتن ناتھ سرشاراردو کی راہوں میں پھول بچھاتے ہوئے نظر آرہے ہوں گے۔ شاید کوئی کہے کہ آزادی سے پہلے کی بات کرنے کا کیا فائدہ؟ مگر آزادی کے بعد بھی تو رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کنور مہندر سنگھ بیدی، جگن ناتھ آزاد، نریش کمار شاد، سمپورن سنگھ گلزار، کرشن بہاری نور، شین کاف نظام اور پنڈت گلزار زتشی جیسے نام بھی تو گلستان اردو کو سیراب کرتے رہے اور آج تو نہ جانے کتنے نوجوان لڑکے رنجیت چوہان کی شکل میں اردو کی خدمت کررہے ہیں تو ان کو کیا کہیں گے؟

    دراصل اردو زبان میں محبت کی ایسی خوشبو بسی ہوئی ہے جو ہر کسی کے دل و دماغ کو معطر کر دیتی ہے۔ اس زبان کی جادوئی قوت نے سب کے دلوں کو مسخر کر رکھا ہے۔ اردو دراصل محبت اور آشتی کی زبان ہے۔ اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنانے کی بڑی قوت ہے۔اس لئے اردو میں مختلف زبانوں کے الفاظ نے جگہ بنائی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تمام لوگ اس زبان کو لکھ یا پڑھ نہ سکیں لیکن ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں اسے سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان کا اپنا کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہے لیکن یہ سارے علاقے کی زبان ہے۔ اردو زبان کی شیرینی اور مٹھاس کے بغیر فلم، ڈرامے، غزلیں، گانے سب نامکمل ہیں۔ اردو زبان کی فصاحت اور شین قاف کی درستی کی وجہ سے گلوکاروں اور اداکاروں کے لئے اس زبان کو اپنانا لازمی ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے بہترین اعتراف کیا ہے:

    وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
    ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

    (بھارتی ادیب اور مضمون نگار وصیہ عرفانہ کی ایک تحریر سے اقتباسات)