Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • "گالی ہمارا قومی خمیر ہوگئی ہے!”

    "گالی ہمارا قومی خمیر ہوگئی ہے!”

    پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار اور مصنّف تھے جنھوں نے عام معاشرتی برائیوں اور لوگوں میں رائج بعض غلط تصورات، مخرب الاخلاق باتوں اور بھونڈے انسانی رویوں کی نشان دہی بھی کی اور بغرضِ اصلاح ان پر مضامین بھی لکھے۔ اردو ادب میں ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ یہ پریم چند کی ایک ایسی تحریر ہے جس میں انھوں نے بھارتی سماج میں گالی اور بدکلامی کی عادت کو موضوع بنایا ہے۔

    پریم چند لکھتے ہیں، "گالی ہمارا قومی خمیر ہوگئی ہے۔ کسی یکہ پر بیٹھ جائیے اور سنیے کہ یکہ بان اپنے گھوڑے کو کیسی گالیاں دیتا ہے۔ ایسی فحش کہ طبیعت مالش کرنے لگے۔ اس غریب گھوڑے کی ذات خاص اور اس کی مادرِ مہربان اور اس کے پدرِ بزرگوار اور اس کے جدِ ناہنجار سب اس نیک بخت اولاد کی بدولت گالیاں پاتے ہیں۔”

    "ہندوستان ہی تو ہے۔ یہاں کے جانوروں کو بھی گالیوں سے لگاؤ تھا ہی۔ سرکار فیض مدار نے آج کل گالیاں بکنے کے لیے ایک محکمہ قائم کر رکھا ہے۔ اس محکمہ میں شریف زادے اور رئیس زادے لیے جاتے ہیں۔ انہیں بیش قرار مشاہرے دیے جاتے ہیں اور رعایا کے امن و امان کا بار ان پر رکھا جاتا ہے۔ اس محکمہ کے لوگ گالیوں سے بات کرتے ہیں۔ ان کے منہ سے جو بات نکلتی ہے، مغلظ نجاست میں ڈوبی ہوئی، یہ لوگ گالیاں بکنا حکومت کی علامت اور اپنے منصب کی شان سمجھتے ہیں۔”

    "یہ بھی ہماری کج فہمی کی ایک مثال ہے کہ ہم گالی بکنے کو امارت کی شان خیال کرتے ہیں۔ اور ملکوں میں زبان کی پاکیزگی اور شیریں بیانی، بشرہ کی متانت اور بردباری، شرافت اور امارت کے ارکان سمجھے جاتے ہیں۔ اور بھارت ورش میں زبان کی غلاظت اور بشرہ کا جھلا پن حکومت کا جزو خیال کیا جاتا ہے۔ دیکھیے فربہ اندام زمیندار اپنے اسامی کو کیسی گالیاں دیتا ہے۔ جناب تحصیل دار صاحب اپنے باورچی کو کیسی صلواتیں سنا رہے ہیں، اور سیٹھ جی اپنے کہار پر کن نجس الفاظ میں گرم ہوتے ہیں۔ غصہ سے نہیں صرف شان تحکم جتانے کے لیے۔ گالی بکنا ہمارے یہاں ریاست اور شرافت میں داخل ہے۔ واہ رے ہم!”

    "ان پھٹکل گالیوں سے طبیعت آسودہ نہ ہوتی دیکھ کر ہمارے بزرگوں نے ہولیؔ نام کا ایک تہوار نکالا کہ ایک ہفتہ تک ہر خاص و عام خوب دل کھول کر گالیاں دیتے ہیں۔ یہ تہوار ہماری زندہ دلی کا تہوار ہے۔ ہولی کے دنوں میں ہماری طبیعتیں خوب جولانی پر ہوتی ہیں اور ہفتہ بھر تک زبانی نجاست کا ایک غبار سا ہمارے دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ جس نے ہولی کے دن دو چار کبیر نہ گائے اور دو چار درجن مغلظات زبان سے نہ نکالے وہ کہے گا کہ ہم آدمی ہیں۔ زندگی تو زندہ دلی کا نام ہے۔”

    "سخن تکیہ کے طور پر بھی گالیاں بکنے کا رواج ہے۔ اور اس مرض میں زیادہ تر نیم تعلیم یافتہ لوگ گرفتار پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کوئی منتخب گالی چن لیتے ہیں اور دوران گفتگو میں اسے استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کا سخن تکیہ ہو جاتی ہے۔ بسا اوقات ان کے منہ سے بے اختیار طور پر نکل پڑتی ہے۔ یہ نہات شرم ناک عادت ہے۔ اس سے اخلاقی کمزوری کا پتہ چلتا ہے اور اس سے گفتگو کی متانت بالکل خاک میں مل جاتی ہے۔ جن لوگوں کی ایسی عادت پڑ گئی ہو انہیں طبیعت پر زور ڈال کر زبان میں پاکیزگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”

    "القصہ ہم چاہے کسی اور بات میں شیر نہ ہوں، بد زبانی میں ہم یگانہ روزگار ہیں۔ کوئی قوم اس میدان میں ہم کو نیچا نہیں دکھا سکتی۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ ہم میں سے کتنے ہی ایسے اصحاب ہیں جن کی زبان کی پاکیزگی پر کوئی حرف نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ مگر قومی حیثیت سے ہم اس زبردست کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں۔ قوم کی پستی یا بلندی چند منتخب افراد قوم کی ذاتی کمالات پر منحصر نہیں ہوسکتی۔”

    "حق تو یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے رہنماؤں نے اس وبائے عام کی بیخ کنی کرنے کی سرگرم کوشش نہیں کی۔ تعلیم کی سست رفتار پر اس کی اصلاح چھوڑ دی اور عام تعلیم جیسی کچھ ترقی کر رہی ہے، اظہر من الشمس ہے۔ اس امر کے اعادہ کی ضرورت نہیں کہ گالیوں کا اثر ہمارے اخلاق پر بہت خراب پڑتا ہے۔ گالیاں ہمارے نفس کو مشتعل کرتی ہیں۔ اور خود داری و پاسِ عزت کا احساس دلوں سے کم کرتی ہیں جو ہم کو دوسری قوموں کی نگاہوں میں وقیع بنانے کے لیے ضروری ہیں۔”

    (ماخذ: مضامینِ پریم چند، بعنوان گالیاں)

  • نواب کاشمیری: "وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا!”

    نواب کاشمیری: "وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا!”

    یوں تو کہنے کو ایک ایکٹر تھا جس کی عزت اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ نہیں ہوتی، جس طرح مجھے بھی محض افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے یعنی ایک فضول سا آدمی۔ پَر یہ فضول سا آدمی اس فضول سے آدمی کا جتنا احترام کرتا تھا، وہ کوئی بے فضول شخصیت، کسی بے فضول شخصیت کا اتنا احترام نہیں کرسکتی۔

    وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا۔ اس فن کے متعلق آپ کو یہاں کا کوئی وزیر کچھ بتا نہ سکے گا مگر کسی چیتھڑے پہنے ہوئے مزدور سے پوچھیں جس نے چونی دے کر نواب کاشمیری کو کسی فلم میں دیکھا ہے تو وہ اس کے گن گانے لگے گا۔ وہ آپ کو بتائے گا (اپنی خام زبان میں) کہ اس نے کیا کمال دکھائے۔

    انگلستان کی یہ رسم ہے کہ جب ان کا کوئی بادشاہ مرتا ہے تو فوراً اعلان کیا جاتا ہے، ’’بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ کی عمر دراز ہو۔‘‘ نواب کاشمیری مر گیا ہے۔۔۔ لیکن میں کس نواب کاشمیری کی درازئ عمر کے لئے دعا مانگوں۔۔۔ مجھے اس کے مقابلے میں تمام کردار نگار پیارے معلوم ہوتے ہیں۔

    نواب کاشمیری سے میری ملاقات بمبئی میں ہوئی۔ خان کاشمیری جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں، ساتھ تھے۔ بمبئے کے ایک اسٹوڈیو میں ہم دیر تک بیٹھے اور باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد میں نے اس کو اپنی ایک فلمی کہانی سنائی لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے مجھ سے بلا تکلف کہہ دیا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن مجھے پسند نہیں۔‘‘

    میں اس کی بے باک تنقید سے بہت متاثرہوا۔ دوسرے روز میں نے اسے پھر ایک کہانی سنائی۔ سننے کے دوران میں اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ جب میں نے کہانی ختم کی تو اس نے رومال سے آنسو خشک کرکے مجھ سے کہا، ’’یہ کہانی آپ کس فلم کمپنی کو دے رہے ہیں۔‘‘

    میں نے اس سے کہا، ’’یہ کہانی کوئی پروڈیوسر لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘

    نواب نے کہا، ’’تو لعنت بھیجو ان پر۔‘‘

    نواب مرحوم کو پہلی بار میں نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ میں دیکھا تھا۔ جس میں رتن بائی ہیروئن تھی۔ نواب غدار یہودی کا پارٹ کررہے تھے۔ میں نے اس سے پہلے یہودی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی لیکن جب بمبئی گیا تو یہودیوں کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ نواب نے ان کا صحیح سوفیصد صحیح چربہ اتارا ہے۔ جب نواب مرحوم سے بمبئی میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ غدار یہودیوں کا پارٹ ادا کرنے کے لیے اس نے کلکتہ میں یہ پارٹ ادا کرنے سے پہلے کئی یہودیوں کے ساتھ ملاقات کی۔ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھا رہا اور جب اس نے محسوس کیا وہ یہ رول ادا کرنے کے قابل ہوگیا ہے تو اس نے مسٹر بی این سرکار مالک نیو تھیٹر سے ہامی بھر لی۔

    جن اصحاب نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ فلم دیکھی، ان کو نواب کاشمیری کبھی بھول نہیں سکتا۔ اس نے بوڑھا بننے کے لیے اور پوپلے منہ باتیں کرنے کے لیے اپنے سارے دانت نکلوا دیے تھے تاکہ کردار نگاری پر کوئی حرف نہ آئے۔ نواب بہت بڑا کردار نگار تھا۔ وہ کسی ایسی فلم میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں تھا جس میں کوئی ایسا رول نہ ہو جس میں وہ سما سکتا ہو۔ چنانچہ وہ کسی فلم کمپنی سے معاہدہ کرنے سے پہلے پوری کہانی سنتا تھا۔ اس کے بعد گھر جا کر اس پر کئی دن غور کرتا۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر انپے چہرے پر مختلف جذبات پیدا کرتا تھا۔ جب اپنی طرف سے مطمئن ہو جاتا تو معاہدہ پر دستخط کردیتا۔

    اس کو آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں سے بہت محبت تھی مگر تعجب ہے کہ یہ شخص جو عرصے تک امپریل تھیٹریکل کمپنی کے ڈراموں میں اسٹیج پر آتا رہا اور دادِ تحسین وصول کرتا رہا، فلم میں آتے ہی ایک دم بدل گیا۔ اس کے لب و لہجے میں کوئی تھیٹر پن نہیں تھا۔ وہ اپنے مکالمے اسی طرح ادا کرتا تھا جس طرح کہ لوگ عام گفتگو کرتے ہیں۔جس تھیٹریکل کمپنی میں نے ذکر کیا ہے، اس میں نواب مرحوم نے ’خوب صورت بلا‘ ، ’نورِ وطن‘ اور ’باغ ایران‘ میں اپنی اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس کی دھاک بیٹھ گئی۔

    نواب کاشمیری لکھنؤ کے بڑے امام باڑے کے سید مفتی اعظم کے اکلوتے لڑکے تھے۔ قدرت کی یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہاں امام باڑے کا مفتی اعظم اور کہاں منڈوہ۔ لیکن بچپن ہی سے اس کو ناٹک سے لگاؤ تھا۔ لکھنؤ میں ایک ناٹک آئی جس کا مالک اگر وال تھا۔ اس کمپنی کے کھیل نواب باقاعدہ دیکھتا رہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اس سلسلے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، کھیل دیکھ کر گھر آتا تو گھنٹوں اس ڈرامے کے یاد رہے ہوئے مکالمے اپنے انداز میں بولتا۔

    اس ناٹک کمپنی میں چنانچہ ایک مرتبہ خود کو پیش کیا کہ وہ اس کا امتحان لیں۔ ڈائریکٹر نے جب نواب کی ایکٹنگ دیکھی اور مکالمے کی ادائیگی سنی تو حیران و ششدر رہ گیا۔ اس نے فوراً اسے اپنے یہاں ملازم رکھ لیا۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ اس کی تنخواہ کیا مقرر ہوئی۔ اس کمپنی کے ساتھ نواب کلکتہ پہنچے اور اپنے مزید جوہر دکھائے۔ کاؤس جی کھٹاؤ جی نے ان کی اداکاری دیکھی تو ان کو الفریڈ تھیٹرز کمپنی میں لے لیا۔ ان دنوں وہ کیریکٹر ایکٹر مشہور ہوگئے۔

    سیٹھ سکھ لال کرنانی جو الفریڈ تھیٹر کے مالک تھے اور پرلے درجے کے گدھے اور بے وقوف تھے۔ انہوں نے اپنے حواریوں سے سنا کہ ایک ایکٹر جس کا نام نواب ہے، کمال کررہا ہے۔ اس کا کوئی جواب ہی نہیں ہے تو انہوں نے اپنے ٹھیٹ اندازِ گفتگو میں کہا، ’’تو لے آؤ اس سانڈ کو۔‘‘

    وہ سانڈ آگیا اور وہ سانڈ نواب کاشمیری تھا۔ اس کو زیادہ تنخواہ دے کر اپنے یہاں ملازم رکھا۔ وہ دیر تک میرا مطلب ہے دو سال تک کرنانی صاحب کی کمپنی کے کھیلوں میں کام کرتے رہے۔

    مجھے یاد نہیں کون سا سن تھا۔ غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب بمبئی کی’’امپریل فلم کمپنی‘‘ نے ہندوستان کا پہلا بولتا فلم ’’عالم آرا‘‘ بنایا تھا۔ جب بولتی فلموں کا دور شروع ہوا تو مسٹر بی این سرکار جو بڑے تعلیم یافتہ اور سوجھ بوجھ کے مالک تھے، انہوں نے جب نیو تھیٹر کی بنیاد رکھی تو نواب کاشمیری کو جس سے وہ اکثر ملتے جلتے تھے، اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ تھیٹر چھوڑ کر فلمی دنیا میں آجائے۔

    بی این سرکار نواب کو اپنا ملازم نہیں محبوب سمجھتے تھے۔ ان کا ذوق بہت ارفع و اعلیٰ تھا۔ وہ آرٹ کے گرویدہ تھے۔ نواب مرحوم کا پہلا فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ تھا۔ اس فلم کی ہیروئن ’’رتن بائی‘‘ تھی۔ جس کے سر کے بال اس کے ٹخنوں تک پہنچتے تھے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ایک بنگالی مسٹر اٹھارتی تھے۔ ( جو دنیا تیاگ چکے ہیں) اس ٹیم میں حافظ جی اور میوزک ڈائریکٹر بالی تھے۔ اس تگڑم میں کیا کچھ ہوتا تھا، میرا خیال ہے اس مضمون میں جائز نہیں۔

    مسٹر اٹھارتھی نے جو بہت پڑھے لکھے اور قابل آدمی تھے، مجھ سے کہا کہ نواب ایسا ایکٹر پھر کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ وہ اپنے رول میں ایسے دھنس جاتا ہے جیسے ہاتھ میں دستانہ۔ وہ اپنے فن کا ماسٹر ہے۔ حافظ جی بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا اچھا ایکٹر کبھی نہیں دیکھا۔ خیر! ان باتوں کو چھوڑیے۔ میں اب نواب ایکٹر کی طرف آتا ہوں۔

    ایک فلم میں جس کا عنوان غالباً ’’مایا‘‘ تھا، مرحوم کو جیب کترے کا پارٹ دیا گیا۔ اس نے جب ساری کہانی سنی تو انکار کر دیا کہ میں یہ رول ادا نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں جیب کترا نہیں ہوں۔ میں نے آج تک کسی کی جیب نہیں کاٹی لیکن وہ کلکتے کے ایک واہیات ہوٹل میں ہر روز جاتا رہا۔ وہاں اس کی کئی جیب کتروں اور اٹھائی گیروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ سنا ہے کہ ان کے ساتھ اس نے شراب بھی پی۔ حالانکہ اسے اس کی عادت نہیں تھی۔ ایک ہفتے کے بعد وہ مطمئن ہوگیا۔ چنانچہ اس نے فلم کمپنی کے مالک سے کہہ دیا کہ وہ جیب کترے کا رول ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

    اس نے اس دوران میں کئی بد معاشقوں اور کرداروں سے دوستی پیدا کر لی تھی۔ ان کے تمام خصائص اس نے سیکھ لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس رول میں کامیاب رہا۔

    (سعادت حسن منٹو کی کتاب لاؤڈ اسپیکر میں شامل مضمون سے اقتباس)

  • ہیگل – فلسفۂ تاریخ

    ہیگل – فلسفۂ تاریخ

    جرمن فلسفی ہیگل (1770ء- 1831ء) اپنے وقت کے ان اہم فلسفیوں میں تھا جس نے اپنے خیالات و افکار کی بنیاد پر ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ برائی کے بارے میں اسی کی دلیل یہ ہے کہ یہ عیسائی مذہب میں Original Sin کی پیداوار ہے۔ اس لیے اس کا اثر انسان کی پوری زندگی پر ہوتا ہے۔ دوسرے وہ برائی کو تاریخ کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

    ہیگل نے اپنے زمانے میں فرانسیسی انقلاب اور اس کے اثرات کو دیکھا اور بعد میں اس نے نیپولین کی فتوحات اور اس کی شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جس وقت نیپولین نے Jena کی جنگ میں پروشیا کو شکست دی تھی اس کے بعد وہ شہر میں جب فاتح کے طور پر داخل ہوا تو ہیگل اپنی کتاب کی پروف ریڈنگ کررہا تھا جب اس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے نپولین کو گھوڑے پر سوار دیکھا تو کہا کہ روحِ عصر گھوڑے پر سوار ہے "world spirit on horseback”

    ہیگل Original Sin سے انکار کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا اور اس کے بہکانے پر آدم نے علم کے درخت کے پھل کو کھایا۔ ہیگل کے نزدیک یہ پوری کہانی بے معنی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ روشن خیالی دور کے دانشور بھی اس کے قائل نہیں تھے کہ برائی Original Sin کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی مرضی اور ارادے کے بغیر Original Sin کا شکار ہوجاتا ہے اور کیا وہ اس سے نجات نہیں پاسکتا ہے۔ اس کے خیال میں Original Sin انسان کی زندگی پر چھایا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ آزادانہ طور پر کوئی تخلیق نہیں کرسکتا۔

    ہیگل اس بات پر زور دیتا ہے کہ تاریخ کے ذریعے ہم اپنے ماحول اور اپنے ذہن کو سمجھ سکتے ہیں۔ تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جو مرحلہ وار تحقیق کی جانب لے جاتی ہے۔ جس سے ذہنی طور پر فہم اور آگاہی پیدا ہوتی ہے۔

    تاریخ واقعات سے پردہ اٹھاتی ہے اور ہمارے ذہن کو بناتی ہے۔ ہیگل تاریخ میں جدلیاتی عمل کا ذکر کرتا ہے یعنی ابتدا میں کوئی ایک خیال (Thesis) ہوتا ہے پھر جب اس پر تنقید ہوتی ہے تو یہ Thesis، اینٹی Thesis میں تبدیل ہو جاتا ہے، پھر Thesis اینٹی Thesis مل کر Synthesis ہوجاتے ہیں۔ اس جدلیاتی عمل کے ذریعے تاریخ آگے کی جانب بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہیگل تاریخ کی ترقی کے لیے تصادم یا Conflict کو ضروری سمجھتا ہے کیوں کہ یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جو تاریخی عمل کو تیز کرتا ہے۔

    ہیگل تاریخ میں شخصیتوں کے کردار کو بھی اہمیت دیتا ہے جو تاریخ کو بناتی بھی ہیں اور اسے تباہ و برباد بھی کر دیتی ہے۔ اگرچہ یہ شخصیتیں اپنی دانست میں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنی ذہانت، قابلیت، اور دانشمندی کے ذریعے تاریخ میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں۔ ہیگل کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ناسمجھی ہے۔ اس کی مثال وہ سکندر، سیزر اور نپولین سے لیتا ہے لیکن ہیگل کے نزدیک یہ بذاتِ خود کچھ نہیں تھے بلکہ نیچر ان سے کام لے رہی تھی جب انہوں نے نیچر کے منصوبوں کو پورا کر لیا تو پھر ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جب سکندر نے ایران اور عراق کو فتح کرلیا تو اب مزید فتوحات کی ضرورت نہ تھی، اس لیے وہ جوانی ہی میں مرگیا۔ جولیس سیزر نے جب گال اور انگلینڈ فتح کر لیا اور تاحیات ڈکٹیٹر ہوگیا تو نیچر کو اس کی ضرورت نہیں رہی اور اسے قتل کردیا گیا۔ یہی صورت حال نپولین کی تھی جس نے یورپ کو فتح کیا اور وہاں تبدیلیاں لائیں لیکن جب نیچر کا یہ مشن پورا ہوگیا تو اس کی بقیہ زندگی سیٹ ہیلنا میں قیدی کی حیثیت سے گزری۔ اس مثال کو ہم تاریخ کی دوسری بڑی شخصیتوں پر بھی دے سکتے ہیں۔ ہیگل کے نزدیک یہ سب تاریخ کے مہرے تھے، ایک خاص ماحول کی پیداوار تھے اور جب ان کا کردار ختم ہوگیا تو ان کو تاریخی عمل سے نکال دیا گیا۔

    ہیگل تاریخ میں حادثات کی اہمیت کا بھی قائل ہے۔ یہ حادثات نہ صرف اپنے وقت بلکہ آنے والے زمانے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تیرہویں صدی کا پلیگ ہے جس نے یورپ کی چالیس فیصد آبادی کو ختم کر دیا تھا مگر اسی کے نتیجے میں یورپ میں Reformation کی تحریکیں ابھریں۔ سائنس طب اور سماجی علوم میں نئے خیالات پیدا ہوئے لہٰذا ہر حادثہ چاہے وہ قحط ہو، زلزلہ ہو اور سیلاب ہو وہ تاریخ کے عمل کو تبدیل کر کے ایک نئی دنیا پیدا کرتے ہیں۔
    تاریخ کا یہ بھی کام ہے کہ وہ پختہ اور آزاد ذہن کو پیدا کرے تاکہ افراد اس دنیا کو سنبھالنے کی ذمے داری لیں۔ اس دنیا میں انسان نے جو اذیتیں برداشت کیں ہیں اور جو تکالیف اٹھائی ہیں ان سے سبق سیکھے۔

    (معروف اسکالر اور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف "عہدِ حاضر: تاریخ کے تناظر میں ” سے انتخاب)

  • بٹیروں کی لڑائی (انسانی نفسیات کے مشاہدہ پر مبنی ایک دل چسپ تحریر)

    بٹیروں کی لڑائی (انسانی نفسیات کے مشاہدہ پر مبنی ایک دل چسپ تحریر)

    ہندوستانیوں کا خاصہ ہے کہ ان کا ہر شوق ترقی کر کے جلد ’’عیاشی‘‘ کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اسی کے ساتھ ان کو یہ تاریخی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ انہیں کوئی ایسا شوق ہوتا ہی نہیں جو تجارتی، ادبی، تاریخی یا کم سے کم تمدنی حیثیت سے ان کے ملک اور قوم کے لیے مفید ہو۔

    چنانچہ ان کا سرمایۂ عزت، اثر اور رسوخ حتّٰی کہ جان و مال بھی اسی شوق کی نذر ہو جاتا ہے اور طبی تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس نوع کا جنون جو ہماری زبان میں شوق کہلاتا ہے ’’فسادِ گندم‘‘ کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ سرمایہ داری ان تمام نقائص کی ذمہ دار ہے۔ تیتر بازی سے لے کر مرغ بازی اور ہرقسم کی درمیانی بازیاں امرا ہی کے حصہ میں آگئی ہیں۔ مفلس اور بے زر لوگ اگر ان مشاغل کو اختیار بھی کرتے ہیں تو محض وسیلۂ معاش کی حیثیت سے۔ انہیں اس حیلے سے کم سے کم سرمایہ داروں کی مصاحبت کا شرف ہی حاصل ہوجاتا ہے اور پھر وہ اس سے کافی فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

    چنانچہ ہمارے ایک غریب ہمسایہ کسی چودھری کے یہاں چلم بھرنے پر ملازم تھے۔ اتفاق سے چودھری صاحب کو بٹیر بازی کا شوق پیدا ہوگیا اور انھوں نے ہزاروں روپیہ اس کی نذر کر دیا۔ ملازم ذہین آدمی تھا، اس نے فوراً ہی میاں کی نگاہیں پہچان لیں اور جھٹ ایک عمدہ قسم کا بٹیر بازار سے خرید کر سہراب نام رکھ دیا اور مشہور کر دیا کہ میاں کے بٹیر کا مقابلہ کرنے کی غرض سے میں نے سہراب کو تیار کیا ہے اور اس کی یہ کیفیت ہے کہ جب سے تیار ہوا ہے ایک طرف ریاست رام پور لرزہ بر اندام ہے تو دوسری طرف الور تھرا رہی ہے۔

    میاں نے جو ملازم کا یہ رجز سنا تو بگڑ کر بولے، ’’دیکھیں تیرا ’سہراب‘ کیسا شہ زور ہے۔ خدا کی قسم میرے ’اسفند یار‘ کی ایک لات کی بھی تاب نہ لاسکے گا۔‘‘

    ملازم نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا، ’’سرکار میں غریب آدمی ہوں۔ حضور کے سامنے زبان کھولتے ہوئے ذرا ڈر معلوم ہوتا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میرا ’سہراب‘ شہر بھر کے پہلوانوں کو پچھاڑ چکا ہے۔ حضور کا ’اسفند یار‘ ماشاء اللہ ہے تو بڑا طاقت ور جانور۔ اکھاڑے بھی بہت سے دیکھ چکا ہے مگر سرکار قصور معاف ہو، سہراب کے لگّے کا وہ بھی نہیں۔‘‘

    اب سرکار کو غصہ آگیا، مگر تھے بڑے قدر دان۔ اس معاملہ میں انھوں نے مساوات کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ مونچھوں پر تاؤ دے کر بولے، ’’فضول بکواس میں سننا نہیں چاہتا۔ دعویٰ ہے تو میدان میں آؤ۔ یہ تو کشتی ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے کا سوال نہیں۔ ہر شخص کو آزادی ہے، اپنا کمال دکھانے کی۔‘‘

    ’’پھر سرکار کچھ انعام مقرر کر دیا جائے۔‘‘

    ’’انعام۔۔۔ ہاں مناسب ہے، تو میں کہتا ہوں، اگر میرے اسفند یار کو تمہارے سہراب نے بھگا دیا تو قسم ہے قبلہ والد صاحب کے سرِعزیز کی دو سو روپے دوں گا۔‘‘

    ’’بجا ہے سرکار۔ مگر ہارنے والے کو بھی دنگلوں میں کچھ مل جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہارنے والے کو پچاس روپے ملیں گے۔‘‘

    اگلے دن کشتی کا اعلان ہوگیا اور سہراب و اسفند یار اپنی اپنی جگہ خم ٹھونکنے لگے۔ تیسرے روز بڑی دھوم سے پہوان اکھاڑے میں آئے۔

    چودھری صاحب اپنے بٹیر کو لیے نہاتی پرتکلف فٹن میں سوار تھے۔ آگے آگے بینڈ بجتا جا رہا تھا، چودھری صاحب پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ اس شان سے اسفند یار معرکہ کارِ زار میں وارد ہوئے تو دوسری طرف سے سہراب اپنے مالک کے ہاتھوں میں جوشِ تَہَوُّر سے سرشار آئے۔ بڑی کروفر سے دونوں پہلوان اکھاڑے میں اترے۔ ایک گھنٹہ تک زبردست مقابلہ رہا۔ دونوں بڑی بے جگری سے لڑے۔ مجمع قطعاً خاموش تھا۔ چودھری صاحب کے حاشیہ نشین دعائیں کر رہے تھے کہ اسفند یار غالب رہے اور غریب طبقہ کے لوگ، جن کو چودھری صاحب کے خوانِ کرم سے کبھی کوئی حصہ نہ ملا تھا، اپنی ہم جنسی کے خیال سے ملازم کے طرفدار تھے۔ وہ سہراب کے لیے فتح کی دعا مانگ رہے تھے۔

    ان دونوں گروہوں کے علاوہ ’’سخن فہم‘‘ حضرات کاطبقہ جو کسی کا طرفدار نہ تھا بلکہ صرف حق کی فتح چاہتا تھا، یہ دیکھ رہا تھا کہ باقاعدہ لڑائی کس طرف سے ہو رہی ہے اور منظم حملہ کا انتظام کس پہلوان کی جانب سے زیادہ ہے۔ کس کی لات اور چونچ فنِ سپہ گری کے اصول پر کام کر رہی ہے اور کون اپنی طاقت کو بے اصول صرف کر رہا ہے۔ یہ لوگ فن کے نقطۂ نگاہ سے لڑائی کو دیکھ رہے تھے اور کسی خاص پہلوان کے غالب و مغلوب ہونے کے طالب نہ تھے۔

    ایک گھنٹہ کے بعد سہراب دبنا شروع ہوا اور اسفند یار کے مُؤیَّدین خوشی کے نعرے بلند کرنے لگے لیکن لوگ دیکھ رہے تھے کہ سہراب نہایت قاعدے سے پٹ رہا تھا۔ اس کی پسپائی میں بھی شجاعت و بہادری کا ایک مستقل درس پنہاں تھا۔ اس کو مغلوب سمجھ کر جو لوگ ہجوم کر رہے تھے ان کو سخن فہم حضرات نے روک دیا اور غالب کی بالکل طرفداری نہ کی۔ انھوں نے جوش کے ساتھ کہا، خبردار، پہلوان کے قریب نہ آنا۔ اس کا دم نہیں ٹوٹا ہے۔ وہ پھر زور پکڑے گا۔ دیکھو ہاتھ نہ لگے نہیں تو سَر کی خیر نہیں۔

    اتنا جاں باز تو اسفند یاری گروہ میں کوئی نہیں تھا کہ اس موقع پر جان اور سر کی بازی لگا بیٹھتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ رجزیہ کلمات سن کر سب کی ہمتیں پست ہوگئیں اور جو عارضی ہلچل مچ گئی تھی وہ سرد پڑ گئی۔

    اب سہراب نے پھر ہمت کی اور ایک جگہ قدم جما کر کھڑا ہو گیا۔ اسفند یار تھک چکا تھا۔ سہراب نے اس کو دانستہ آگے بڑھنے اور اپنے زور کو بے جا صرف کرنے کا موقع دیا تھا۔ چنانچہ اب اس نے مدافعت شروع کی۔ انجام یہ ہوا کہ دوچار لاتوں ہی میں اسفند یار کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ سہراب برابر اسے دھکیلتا رہا۔ اسی کشمکش میں ایک دفعہ اسفند یار پھر سے اڑ گیا اور فضا تالیوں کی بے شمار آوازوں سے گونج گئی۔ سہراب کا مالک دوڑ کر اپنے آقا کے قدموں پر گر گیا اور عاجزی سے کہنے لگا، سرکار معاف فرمائیے۔ ہم پیٹ بھرنے کے لیے یہ سب جتن کرتے ہیں۔ ان دو سو کے لیے سال بھر سے سَر مار رہا تھا۔ چپکے چپکے پہلوان کی خدمت کر رہا تھا، جب بالکل تیار ہوگیا تو حضور کے سامنے تذکرہ کیا۔

    انھوں نے فوراً دو سو روپے کے نوٹ گن دیے اور آئندہ کے لیے ابھی سے پانچ سو روپے کا اعلان کر کے کہا، ’’اچھا اگلے مہینے کے شروع میں ہم ’افراسیاب‘ کو لڑائیں گے۔ تمہارے سہراب سے جیتنے والے کو پانچ سو روپے اور ہارنے والے کو سو روپے دیے جائیں گے۔ اب کے دیکھوں گا میں سہراب کو۔‘‘

    ملازم نے ادب سے سر جھکا کر کہا، ’’حضور میرا کیا ہے سب آپ ہی کا ہے۔ میں بھی آپ ہی کا ہوں اور سہراب بھی حضور ہی کا ہے۔‘‘

    سہراب برابر جیتتا رہا۔ مسلسل دس بارہ کشتیاں ہزرا ہزار اور دو دو ہزار کی اس نے لڑیں اور کامیاب رہا۔

    ایک سال کے بعد جو ہم گھر پہنچے تو دیکھا کہ محلہ میں جہاں چلم بھرنے والے ملازم کی جھونپڑی تھی، وہاں ایک عالیشان محل تعمیر ہوگیا ہے جس کے بلند اور شاندار دروازے کے سامنے بٹیروں کے بہت سے پنجرے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس درمیان میں اکثر نوٹس اور سمن اخبارات میں بنام چودھری سعادت حسین ولد امانت حسین ہماری نظر سے گزر چکے تھے اور ہمیں معلوم تھا کہ چودھری صاحب پر ہزاروں روپے کے نالشیں ہوچکی ہیں۔ یہاں آکر یہ حال کھلا کہ چودھری صاحب نے اپنی تمام جائیداد اسفند یار اور افراسیاب کے نذر کر دی۔ اب حالت یہ ہے کہ خدا بخش تو رئیس بنے ہوئے اس فلک بوس محل میں جلوہ افروز ہیں اور چودھری صاحب کا گھر تک نیلام ہوچکا ہے اور ذاتِ شریف پانچ ہزار کی ایک ڈگری کے سلسلہ میں جیل خانہ میں تشریف فرما ہیں۔ مگر دم خم وہی ہیں۔ مہینہ پندرہ روز میں کوئی نہ کوئی خط خدا بخش کے پاس آجاتا ہے جس میں آئندہ دنگل کے متعلق ان کے پرجوش ارادوں کی مفصل اطلاعات درج ہوتی ہیں۔ مگر خدا بخش واقعی خدا بخش ہے۔ وہ نہایت نرمی سے جواب لکھ دیتا ہے۔

    سرکار میرا سہراب بوڑھا ہوگیا ہے۔ اب اس میں لڑنے کی سکت نہیں رہی۔ لنگوٹ کھولنے کی رسم بھی ادا کرچکا ہوں۔ اب تو میں اپنے اس محسن کی خدمت میں مصروف ہوں۔ جب تک زندہ رہے گا خدمت کرتا رہوں گا۔ دنگل کا زمانہ اب نہیں رہا۔ آپ کے افراسیاب میں خدا کے فضل و کرم سے قوت ہے۔ اس کا کس بل نہیں ٹوٹا اور وہ ابھی لڑائی کے کام کا بھی ہے۔ مگر شہر میں اور بہت سے پہلوان موجود ہیں، ان سے لڑائیے غلام کو اب معذور سمجھیے۔

    (افسانہ و مضمون نگار کوثر چاند پوری کے مشاہدات پر مبنی تحریر)

  • تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟

    تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟

    عتیق صدیقی 1979ء میں لکھنؤ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے گئے تھے اور اس وقت وہ نوجوان تھے۔ عتیق صدیقی کا سفرنامہ، بعنوان سفرِ گزشت دراصل ایک عام آدمی کا سفرنامہ ہے جو بسوں ریلوں رکشوں اور پیدل اپنے رشتے داروں سے ملنے ملتان سے لکھنؤ، ملیح آباد وغیرہ گئے۔1979 میں انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔

    عتیق صدیقی لکھنؤ جانے کے لیے مسافروں سے بھری ایک ٹرین میں بیٹھے تو اس میں ایک ایسی پاکستانی خاتون بھی سفر کر رہی تھیں جن کی کہانی سن کر دوسرے مسافر بھی آب دیدہ ہو گئے۔ لاہور کی رہائشی یہ خاتون برصغیر کی تقسیم کے وقت کا ایک عہد نبھانے کے لیے انبالہ جا رہی تھیں۔ ان کے ہمراہ برتنوں سے بھرا ایک تھیلا تھا۔ یہ برتن انہوں نے برسوں سے سنبھال کر رکھے تھے۔ تقسیم کے وقت لاہور میں انہیں ایک سکھ خاندان نے پناہ دی تھی جو بعد ازاں ہندوستان روانہ ہو گیا تھا لیکن جاتے جاتے اس گھرانے کی بہو نے اپنے برتنوں پر اس طرح ایک نگاہِ حسرت کی جیسے کوئی اپنے کسی پیارے کو آخری بار دیکھ رہا ہو۔ اس لمحے ان خاتون نے خود سے عہد کیا کہ وقت آنے پر یہ امانت انبالہ ضرور پہنچائیں گی۔ ٹرین میں بے انتہا رش کی وجہ سے وہ ایک سردار جی پر خفا ہو رہی تھیں جن کی پتلون پر خاتون کے ٹرنک کا کونا لگ جانے کی وجہ سے کھرونچا پڑ گیا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے مسافروں نے بھی اس نوک جھونک میں دل چسپی لینا شروع کر دی، آئیے یہ منظر دیکھتے ہیں:

    ’’آپ پاکستان سے آئی ہیں اماں‘‘۔۔ کسی نے پوچھا۔

    ’’ہاں‘‘۔ خاتون نے مختصر سا جواب دیا

    ’’کیا حال ہیں پاکستان کے؟‘‘ ایک لہکتی آواز آئی۔

    ’’بہت اچھے۔ کرم ہے سوہنے رب کا۔‘‘

    ’’سنا ہے مہنگائی بہت ہے پاکستان میں۔‘‘ ایک نئی آواز ابھری۔

    ’’مہنگائی! مہنگائی کہاں نہیں ہے؟ تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟ مہنگائی سے تو دنیا پریشان ہے۔‘‘

    ’’مگر وہاں آمدنی بھی زیادہ ہے جی۔ ‘‘ کسی نے اعتراف حقیقت کیا۔ ’’ لوگ باگ زیادہ خوش ہیں ہمارے ملک سے۔‘‘

    خاتون بولیں،’’ تو اور کیا۔ مہنگائی ہو بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بازار بھرے رہتے ہیں خریداروں سے۔ ‘‘ خاتون کے لہجے میں فخر تھا۔ ’’ آج کل ہی دیکھو، وہاں آلو دس روپے کلو بک رہے ہیں مگر لوگوں نے کھانا نہیں چھوڑ دیے، اسی طرح خرید رہے ہیں جیسے روپے ڈیڑھ روپے میں خریدے جاتے تھے۔‘‘

    ’’دس روپے کلو آلو۔‘‘ کئی تحیر آمیز آوازیں ایک ساتھ ابھریں اور چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔

    ’’واہ بھئی واہ پاکستان۔‘‘ کھرونچا زدہ پتلون والے سردار جی بدبدائے تھے۔

    خاتون نے ان کی بات سن لی اور بھنا کر زور سے بولیں،’’ وہاں تیری طرح کپڑے پر ذرا سی لکیر آ جانے سے کوئی اتنی بدتمیزیاں بھی نہیں کرتا عورت ذات سے۔ ایک تو کیا دس پتلونیں پھٹ جائیں، کسی کو پروا نہیں ہوتی۔‘‘

    ان کی اس بات پر زور کا قہقہہ پڑا۔

  • کارلو پونتی: معروف فلم ساز جنھیں صوفیہ لارین سے شادی کرنے کے بعد مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا

    کارلو پونتی: معروف فلم ساز جنھیں صوفیہ لارین سے شادی کرنے کے بعد مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا

    اپنے دورِ عروج میں صوفیہ لارین پاکستان میں جتنی مقبول اور جانی پہچانی اداکارہ تھیں، ان کے شوہر فلم ساز کارلو پونتی اتنے ہی غیر معروف تھے، حالانکہ دنیائے فلم کے لیے ان کی بے پناہ خدمات ہیں۔

    152 فلموں کے پروڈیوسر، کارلو پونتی سے صوفیہ کی ملاقات کوئی 55 برس پہلے ہوئی تھی جب وہ پندرہ برس کی چھوئی موئی سی چھوکری تھی۔ کارلو پونتی اس وقت بھی ایک جانے پہچانے فلم ساز تھے اور کئی نئے چہروں کو متعارف کرا چکے تھے۔ چھ سات برس تک دونوں کا رومانس چلتا رہا لیکن کارلو چونکہ پہلے سے شادی شدہ تھے اس لیے اطالوی حکومت اور رومن کیتھولک کلیسا دونوں ہی ان کی امکانی شادی کے خلاف تھے۔ ہر طرح کی مشکلات کے باوجود 1957 میں دونوں نے شادی کر لی لیکن سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے اتنی لعن طعن ہوئی کہ دونوں اپنا ملک چھوڑ کر فرانس چلے گئے اور وہاں 1966 میں فرانسیسی قانون کے تحت پھر سے شادی کی۔

    اس واقعے کے بعد اٹلی میں شادی اور طلاق کے سخت قوانین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بعد میں ان قوانین کو خاصا نرم کر دیا گیا۔

    کارلو پونتی کا نام ذہن میں آتے ہی بڑی بڑی فلموں کا خیال آنے لگتا ہے مثلاً ڈاکٹر ژواگو، وار اینڈ پیس، لاسترادا، ٹوئنٹی ففتھ آور، سن فلاور، دی ورڈکٹ اور کیسنڈرا کراسنگ وغیرہ۔

    1962 میں جب کارلوپونتی نے فلم ’ٹو وومین‘ شروع کی تو اس کے ذہن میں صوفیہ لارین ہی کی شخصیت تھی۔ اس بھرپور کردار پر صوفیہ کو بہترین اداکارہ کا آسکر ایوارڈ بھی ملا۔

    اطالوی حکومت کے ساتھ کارلوپونتی کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے تھے۔ اپنا سرمایہ اٹلی سے باہر منتقل کرنے کے الزام میں وہ پندرہ برس تک عدالتوں کی پیشیاں بھگتتے رہے اور ان کے تمام اثاثے بحقِ سرکار ضبط رہے۔ ایک طویل قانونی جنگ کے بعد آخر کار 1980 میں ان کی خلاصی ہوئی اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے اٹلی کو خیر باد کہہ دیا۔ گزشتہ ربع صدی سے وہ سوئٹزرلینڈ میں مقیم تھے۔

    قانونی جنگ میں کارلو کی فتح غالباً اس لیے ممکن ہوئی کہ وہ خود ایک پیشہ ور وکیل تھے اور انہوں نے میلان یونیورسٹی سے وکالت پاس کرنے کے بعد کئی سال اس پیشے میں گزارے تھے۔

    1940 میں وہ ایک فلم ساز کا مقدمہ لڑ رہے تھے، مقدمہ ختم ہوا تو فلم ساز نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی آدھی بنی ہوئی فلم اپنے وکیل کارلو پونتی کو بخش دی۔ کارلو پونتی کو اپنے گلے میں پڑا ہوا یہ ڈھول مجبوراً بجانا پڑا۔

    Old Fashion World نامی یہ فلم جب 1941 میں مکمل ہوئی تو کارلو کو فلم سازی کا چسکا لگ چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے وکالت ترک کر کے اپنی پوری توجہ فلم سازی کی طرف کردی۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ ہالی وڈ کے اسٹوڈیوز کی تیار کردہ ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے تھے جن میں گلیمر تو بہت تھا لیکن زندگی کے روزمرہ حقائق سے جنہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ اٹلی میں ان دنوں ہالی وڈ کے تصّنع اور غیر فطری پن کے خلاف ایک تحریک چل رہی تھی جسے ’نیو ریلیزم‘ کی تحریک کہا جاتا ہے۔

    نیو ریلیزم سے وابستہ فلم ساز اسٹوڈیو کے بڑے بڑے سیٹ چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے گلیوں، بازاروں اور اصلی گھروں میں فلم بندی کی روایت شروع کی۔

    کارلو پونتی نے بھی اس تحریک کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے 1954 میں انتھونی کوئن کو لے کر فلم ’لاسترادا‘ بنائی جس کا ہیرو ایک گشتی بازی گر ہے اور جسمانی کرتب دکھا کر مجمع لگاتا اور پیسے کماتا ہے لیکن وہ اپنی بیوی کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتا اور اس پر بڑی زیادتیاں کرتا ہے۔ عرصۂ دراز کے بعد جب ہیرو کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تو پانی سر سے گزرچکا ہوتا ہے اور اب پچھتاوے کے سوا اسے کچھ نہیں ملتا۔

    اطالوی زبان کی اس فلم کو غیر ملکی فلم کا آسکر ایوارڈ دیا گیا تھا اور یہی فلم انتھونی کوئن کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ایک سنگِ میل ثابت ہوئی کیونکہ اس فلم کے فوراً بعد وہ ایک معمولی اداکار سے اسٹار میں تبدیل ہوگئے۔

    کارلو پونتی کی چند معروف فلمیں

    مِس اطالیہ 1950، اینا 1951، یوروپا 1951، دی بلیک آرچڈ 1958، اے وومن از اے وومن 1961، دی گرل اینڈ دی جنرل 1966، دی فائر مینز بال 1967، گھوسٹ اٹالین ساٹائل 1968، سن فلاور 1970، ہائی اسکول گرل 1974، بریف اِنکاؤنٹر 1974، دی ماسٹرز 1975، بے بی سٹر 1975، سنڈے اینڈ منڈے 1998

    کارلو پونتی اپنی پروڈکشن پر پورا کنٹرول رکھتے تھے اور اُن کے تحت کام کرنے والے معروف ڈائریکٹر، مثلاً ڈیوڈ لین اور فیلینی کی اُن سے جھڑپیں بھی ہو چکی تھیں۔ تاہم کارلو پونتی نے ہمیشہ معیار کو اوّلیت دی اور اپنے ڈائریکٹروں کی کسی معقول تجویز کو کبھی مسترد نہیں کیا۔

    جن دنوں فرانس میں’ نئی لہر‘ کی فلمیں بن رہی تھیں، کارلو پونتی نے کئی نادار فلم سازوں کی مالی امداد کی اور انھیں تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کیں۔ آخر کیوں نہ کرتے؟ فرانس نے انھیں ایک ایسے وقت پناہ دی تھی جب اٹلی نے انھیں ملک بدر کردیا تھا۔

    (فلم اور سنیما کی دنیا کی دو بڑی شخصیات سے متعلق معروف براڈ کاسٹر، مصنّف اور ہدایت کار عارف وقار کی تحریر)

  • عینی آپا کی رائے اور فوٹو جینک حافظہ

    عینی آپا کی رائے اور فوٹو جینک حافظہ

    قرۃ العین حیدر اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا اور ایک ناول نگار کی حیثیت سے ان کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ان کے سوانحی ناول ہیں جن میں ان کا منفرد انداز، تاریخی اور سماجی شعور قارئین کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ انھیں اہلِ علم و دانش ہی نہیں پاک و ہند میں موجود ان کے قارئین بھی عینی آپا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    یہاں ہم ابوالکلام قاسمی کی ایک تحریر سے دو پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ عینی آپا سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ باتیں رقم کررہے ہیں جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

    ایک بار دردانہ نے انھیں (عینی آپا) کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ اس زمانے میں ہمارا گھر محض دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ایک ناکافی ورانڈے پر مشتمل تھا۔ پہلے سے تو انھوں نے کھانے میں نمک نہ ڈالنے یا سبزی اور گوشت کے بارے میں اپنی پسند و ناپسندیدگی پر متعدد ہدایات دے دی تھیں مگر جب آئیں تو حد درجہ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ دروازے کی چوکھٹ، کمروں کے دروازوں اور ریفریجریٹر وغیرہ پر جو آیتیں اور دعائیں لگائی گئی تھیں ان کو پڑھتیں اور مجھ سے ان کے معنی دریافت کرتی رہیں۔ ویسے ان آیتوں اور دعاؤں کا ہلکا سا مفہوم ان پر پہلی نظر میں واضح بھی لگتا تھا۔ پھر بولیں کہ خدا کا شکر ہے کہ کوئی تحریر بے موقع اور نامعقولیت سے نہیں لگی ہوئی۔ بھئی تم تو خاصے معقول آدمی ہو۔ چوکھٹ پر گھر کی حفاظت، دروازوں پر عام صحت و عافیت اور فریج پر رزق سے متعلق آیتوں کو پڑھ کر انھیں خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو آیت جس جگہ تھی اسے وہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ معمولی معمولی باتوں سے انسان کے معمولات اور رویوں کے بارے میں گہرائی سے رائے قائم کیا کرتی تھیں۔

    ابوالکلام قاسمی نے ایک قصّہ یوں رقم کیا:
    ایک بار مجھے عینی آپا کے ساتھ یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ شاید امتحان کے کسی کام کے معاوضے کا معاملہ تھا۔ (پیسے وغیرہ کے معاملے میں وہ اپنے واجبات کو کبھی ثانوی حیثیت نہ دیتی تھیں) وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہیں اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہنے لگیں کہ شاید یہ وہی عمارت ہے جو بچپن ہمارا گھر ہوا کرتا تھا، جس میں میری پیدائش ہوئی تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی کوٹھی سچ مچ وہی تھی جس میں کئی سال تک یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار سجاد حیدر یلدرم قیام پذیر رہ چکے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ میرا حافظہ یوں تو بہت اچھا نہیں مگر جیسا بھی ہے، ہے فوٹو جینک ہے۔ یعنی ان کی یادیں تصویری شکلوں میں ان کے حافظے میں محفوظ رہا کرتی تھیں۔ یادوں کی بازگشت کے اس عمل کی انوکھی کارفرمائی ان کی تحریروں میں جگہ جگہ بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔

  • تذکرہ ان شعراء کا جو محکمۂ پولیس سے وابستہ رہے

    تذکرہ ان شعراء کا جو محکمۂ پولیس سے وابستہ رہے

    اردو کے شعری منظر نامہ پر محکمۂ پولیس سے وابستہ بہت سے افراد ہیں جن کے سوانحی کوائف اور نمونۂ کلام قدیم اور جدید تذکروں میں ملتے ہیں۔ لالہ سری رام کے مشہور تذکرہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ کی پانچ جلدوں کی ورق گردانی کی جائے تو بہت سے نام سامنے آئیں گے۔ ریاست بہار جو شعر و سخن کے باب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے یہاں بھی بہت سے ایسے تخلیق کار رہے ہیں جن کا تعلق محکمۂ پولیس سے ہے۔

    ضلع سارن (چھپرہ) سے تعلق رکھنے والے سید عزیز الحق ابن سید فضل حق اختر لشکری پوری بھی پولیس آفیسر تھے۔ پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد سب انسپکٹر کے عہدے پر مامور ہوئے، شعر و سخن سے بہت گہرا رشتہ تھا۔ ان کا کلام تاج گیا میں شائع ہوتا رہا ہے، مجلہ ادراک گوپال پور کے ایڈیٹر سید حسن عباس کے حوالے سے تذکرہ شعرائے سارن کے مصنف سمیع بہواروی نے اختر کا نمونۂ کلام درج کیا ہے جس سے ان کی قدرتِ کلامی اور شگفتگیٔ طبع کااندازہ ہوتا ہے۔

    ان کا منشا ہے کہ بسمل نہ تڑپنے پائے
    ساتھ خنجر کے وہ زنجیر لیے پھرتے ہیں
    قصۂ شیخ و برہمن سے ہمیں کیا مطلب
    ہم تو دل میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

    رسالہ تاج گیا، میں جنوری 1920ء میں ان کی غزل شائع ہوئی تھی جس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔

    حسینانِ جہاں کب آشنا ہیں دردِ الفت سے
    گلہ بے کار ہے شکوہ عبث ہے بے وفائی کا
    دل صد چاک اپنا آج کیسے کام کا نکلا
    ہوا سامان زلفِ یار کی عقدہ کشائی کا
    جسے دیکھو وہی زخمی پڑا ہے تیرے کوچے میں
    کوئی تیغِ ستم کا کوئی ہے دستِ حنائی کا
    (بحوالہ تذکرہ شعرائے سارن، سمیع بہواروی)

    رضا چھپروی بھی ایک اچھے شاعر تھے جن کا اصل نام احمد رضا کریم تھا۔ وہ جی بی کالج مظفر پور کے گریجویٹ تھے۔ دربھنگہ کے مشہور محقق شاداں فاروقی نے ان کا شعری مجموعہ ’ساغرِ گل‘ کے نام سے مرتب کیا تھا۔ ان کے کلام میں بھی بڑی تازگی و تنوع ہے۔ تذکرہ شعرائے سارن میں ان کا نمونۂ کلام درج ہے،
    آج اس عمر کو پہنچے تو یہ معلوم ہوا
    راہ جاتی ہے یہی کوچۂ جاناں کی طرف
    اب یہ عالم ہے کہ تنہائی میں دَم گھٹتا ہے
    دیکھیے کب ہو سفر شہر خموشاں کی طرف
    اب تو لے دے کے یہی وحشت دل ہے کہ رضا
    آنکھ اٹھتی ہے میری روزن زنداں کی طرف

    رضا چھپروی 1906ء میں پیدا ہوئے تھے اور اکتوبر 1971ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔

    محسن قاضی پوری بھی محکمہ پولیس میں ہی ملازم تھے۔ کئی زبانوں سے واقفیت تھی۔ انہوں نے اپنی تخلیق کو زیادہ تر نعتوں پر مرکوز رکھا، انہیں کا یہ نعتیہ شعر ہے۔

    تذکرہ کرتے ہیں آپس میں ملائک سارے
    آجاتا ہے بڑے دھوم سے مہماں کس کا

    1865ء میں جمال پور سیوان میں پیدا ہوئے اور رسل پورہ سارن میں 12 اگست 1945ء میں وفات پائی۔

    منشی میوہ لال عاجز بھی محکمۂ پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ ضلع گیا، بہار سے ان کا تعلق تھا۔ دربھنگہ میں تعینات تھے۔ ان کے کچھ اشعار ’’گلدستہ پیام یار‘‘ میں ماہ نومبر 1887ء میں اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ ’’کلید گنجینۂ توحید‘‘ کے عنوان سے 16 صفحوں کا ایک مختصر مجموعہ 1927ء میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا مجموعہ ’’سر توحید‘‘ کے عنوان سے 1930ء میں شائع ہوا۔ ان کے کلام پر تصوف کا رنگ غالب ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے،

    عالمِ غیب سے عاجز یہی آتی ہے صدا
    کچھ نہیں ہے کہیں مجھ واحدِ مطلق کے سوا
    خود ہی طالب ہوں میں خود میں ہوں مطلوب اپنا
    خود ہی معشوق ہوں خود عاشقِ شیدا میں ہوں

    شبِ ہجراں ہمارے نالہ و آہ
    عجب کیا ہے ہلا دیں آسماں تک
    دلِ ناداں سمجھتا ہی نہیں کچھ
    بھلا اس کو میں سمجھاؤں کہاں تک

    صابر بہاری فردوسی بھی کانسٹیبل تھے۔ نالندہ بہار میں اکتوبر 1915ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ پٹنہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کا پورا خانوادہ ہی شعری و ادبی ذوق رکھتا تھا۔ یاسؔ بہاری، شوقؔ بہاری، وجدؔ بہاری آپ کے خاندان کی وہ شخصیتیں ہیں جن کا شمار اپنے زمانے کے اہم شعرا میں کیا جاتا تھا۔ سید احمد اللہ ندوی نے بھی ’’مسلم شعرائے بہار‘‘ میں ان کا ذکر شامل کیا ہے۔ ارشد قمر نے ان کا نمونۂ کلام اپنی کتاب ’شعرائے پلاموں‘‘ میں درج کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں کتنی شائستگی اور سلاست ہے، ان کے چند اشعار:

    آپ اگر قتل کا سامان لیے بیٹھے ہیں
    ہم بھی کھونے کے لیے جان لیے بیٹھے ہیں
    ہیں عجب چیز شہیدانِ محبت ناصح
    موت میں زیست کا سامان لیے بیٹھے ہیں
    امتحاں کی کبھی پروا نہیں کرتے صابر
    سر ہتھیلی پہ یہ ہر آن لیے بیٹھے ہیں
    سرمۂ عبرت بنا ہوں چشم عالم کے لیے
    میں یہاں مٹتا گیا، سارا جہاں بنتا گیا
    راحتِ جاں بن گئی ہر اک مصیبت عشق کی
    درد دل جب جب بڑھا روح رواں بنتا گیا

    حسرت بکرم گنجوی بھی محکمۂ سی۔ آئی۔ ڈی میں انسپکٹر آف پولیس کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا اصل نام محمد داؤد خان تھا، بکرم گنج ضلع رہتاس، بہار میں 2 جنوری 1937 میں پیدائش ہوئی۔ آپ پولیس میڈل ایوارڈ سے بھی سرفراز کیے گیے۔ شفق سہسرامی سے آپ کو شرفِ تلمذ حاصل ہے، کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ارشد قمر نے دو غزلیں بطور نمونہ پیش کی ہیں، ان سے چند اشعار،
    دامن میں لگ گئی ہے کسی گلبدن کی آگ
    مجھ کو جلا نہ ڈالے یہ غنچہ دہن کی آگ
    ملک و وطن یہ کس طرح جنت نشاں بنے
    بجھتی نہیں ہے آج بھی ظلم کہن کی آگ
    مظلوم جو ستائے گئے ہیں جہان میں
    کتنے ہی گھر جلائے گی ان کے کفن کی آگ

    (تحریر و تحقیق: حقانی القاسمی)

  • قصہ گوئی: یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے!

    قصہ گوئی: یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے!

    جامع مسجد دہلی کے ’’دروازہ شمالی کی طرف ۳۹ سیڑھیاں ہیں۔ اگرچہ اس طرف بھی کبابی بیٹھے ہیں اور سودے والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑا تماشا اس طرف مداریوں اور قصہ خوانوں کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خواں مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستانِ امیر حمزہ کہتا ہے۔ کسی طرف قصہ حاتم طائی اور کہیں بوستان خیال ہوتی ہے اور صد ہا آدمی اس کے سننے کو جمع ہوتے ہیں۔‘‘
    (آثارُ الصنادید۔ سرسید احمد خان)

    دلّی والوں کو قصہ کہنے اور سننے کا یہ چسکا کچھ سر سید ہی کے زمانے میں نہ تھا، بلکہ محمد شاہی عہد میں بھی ان کا یہی عالم تھا۔ خواجہ بدرالدّین امان دہلوی بوستانِ خیال کے مترجم حدایق الانضار کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’اتفاقاً جہاں میر محمد تقی خیال (مصنف بوستان خیال) فروکش تھا، قریب مکان کے ایک نشست گاہ میں چند اشخاص جمع ہوتے تھے اور ایک قصہ گو ان کے روبرو امیر حمزہ کا جو تمام جہان میں مشہور ہے، بیان کیا کرتا تھا۔‘‘

    قصہ گوئی کی یہ عادت دنیا کی ہر تہذیب اور ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ جہاں ارسطو نے آدمی کو سیاسی حیوان اور حیوان ناطق ایسے نام دیے، وہاں اسے ایک نام قصہ گو کا بھی دینا چاہیے۔ گویا قصہ کہنے پر وہ مختار ہی نہیں بلکہ مجبور بھی ہے۔ وہ اپنی نفسیات کے دفینے اور اپنے مستقبل کے خواب کو انہی قصوں کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ خواہ وہ قصّے دیوی دیوتا، جن و پری، وحوش و طیور کے ہوں یا اشجع پاستاں اور ہمارے آپ کے ایسے چلتے پھرتے انسانوں کے۔ یہ سارے اقسام قصص کے اس ایک مظہر کی مختلف صورتیں ہیں کہ جن نعمتوں سے ہمیں زندگی میں محروم کیا جاتا ہے، ہم ان کے حصول کی آرزو اپنے خوابوں کی دنیا میں کرتے ہیں۔ باتیں ساری عالم کی ہی ہوتی ہیں، صرف ان کا اعادہ عالمِ خواب میں کیا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ قصہ گو جس قدر بے خود و بے ہوش اور خواب میں ڈوبا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ وحدت زماں یا قومی تاریخ کی وحدت کا احساس رکھتا ہے۔

    لیکن چوں کہ قصہ صرف قومی یا انفرادی نفسیات ہی کی ایک تاریخ نہیں ہے بلکہ انسانی تجربات کے نچوڑ، تصورِ حیات و کائنات کی ترسیل کا بھی ایک ذریعہ ہے، اس لئے یہ عالمِ بے داری کی بھی ایک شے ہے۔ وہ ایک مخصوص عہد کے ایک مخصوص معاشرے کے شعور کا بھی مظہر ہوتا ہے۔ اس شعور کی نوعیت اور اس کی سطح کیا ہے؟ مظاہرِ فطرت کو دیوی دیوتاؤں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے یا ان سے جدا کر کے ان کے اسباب و حل پر غور کیا گیا ہے۔ یہ باتیں تاریخی اور اضافی ہیں۔ اس سے اس بات پر حرف نہیں آتا کہ آدمی فطرتاً قصہ گو واقع ہوا ہے۔ وہ حقیقت کو خواہ وہ عالمِ خواب کی ہو یا عالمِ بے داری کی، زندگی کی ہو یا بعد زندگی کی، ٹھوس اور محسوس صورتوں میں متصور کرنے کا عادی رہا ہے، عادی ہے اور غالباً رہے گا۔

    قصہ گوئی زندگی سے فرار اختیار کرنے کا نہیں بلکہ زندگی سے دست و گریباں رہنے کا ایک مقصدی مشغلہ ہے۔ ہم زندگی میں جن طاقتوں سے ہار جاتے ہیں انہیں خواب میں یا ان قصوں میں مفتوح کرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ ہم جن چیزوں کی آرزو میں مرتے ہیں، ان کی تحصیل کا خواب انہی کہانیوں میں دیکھتے ہیں، لیکن ان کہانیوں کا یہ صرف ایک پہلو ہے، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی کے سفر میں جو نشیب و فراز، امتداد سن و سال کے آتے ہیں، ان سے مساعدت اور مطابقت پیدا کرنے کی تعلیم اور بقدرِ حوصلہ مبدا و معاد کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام بھی ہم ان کہانیوں کے ذریعے لیتے آئے ہیں۔ زندگی کی اس عظیم خدمت کو جو ہم ان کہانیوں سے لیتے آئے ہیں کیوں کر فرار اور عیش کوشی سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قصہ کہنے کے لیے فراغت درکار ہے اور اس کے سننے کے لئے شاید اس سے زیادہ فراغت چاہیے اور یہ فراغت اسی وقت ملتی ہے جب کہ معاشی خوش حالی ہوتی ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد ہی تفریح ہے، جیسا کہ مرزا غالب نے ازراہ تفنن طبع کہا ہے، ’’داستان گوئی من جملہ فنونِ سخن ہے۔ سچ ہے دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔‘‘

    تفریح تو اس کا صرف ایک پہلو ہے، جیسا کہ کسی بھی مقصد کی تعمیل میں پایا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ مقصد بہ حسنِ تمام پورا ہو۔ مقصد اور ادائے مقصد کا اتحا د ہی کسی عمل کو فن کارانہ عمل میں تبدیل کرتا ہے، حسن ان دونوں کے اتحادِ کامل سے نمو پاتا ہے۔ نہ کہ وہ پہلے سے کہیں موجود رہتا ہے۔ تبھی تو ہمارے شعرا دستِ قاتل کی اداکاری کی بھی داد دیتے رہے ہیں۔ ع: نظر لگے نہ کہیں ان کے دستِ بازو کو۔

    پھر بھی وہی فرماتے ہیں کہ یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔ شاید اس لیے کہ ہمارا یہ فن ان کے زمانے میں زندگی کے مقاصد سے اپنا رشتہ توڑ رہا تھا۔ لیکن ہم ان کی یہ بات اس دور کی داستان کے بارے میں کیوں کر سچ مانیں، جب کہ ہمارے فن اور ہماری زندگی کے مقاصد کے درمیان ایک گہرا رشتہ تھا۔ میں نے قصہ چہار درویش کو اسی نقطۂ نظر اور اسی زمانے کے پس منظر میں دیکھا ہے، لیکن اس سے اس حقیقت پر پردہ نہیں پڑتا ہے کہ غالب کے زمانے سے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب سے سر سیّد احمد خاں نے سوپر نیچرل کو نیچرل کے میدان سے خارج کر دیا، داستان گوئی جس میں سوپر نیچر کا ذکر لازمی طور سے ہوتا، ہمارے لیے صرف دل بہلانے کا ایک فن رہ گیا تھا اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے ہم معذرت خواہ ہوں۔

    زندگی کے ارتقائی تغیرات میں نہ صرف زندگی کے مقاصد بدلتے رہتے ہیں بلکہ حصول مقاصد کے ذرائع بھی بدلتے رہتے ہیں۔ سرسید کے نیچری عہد میں داستانوں نے ناول اور مختصر کہانیوں کے لیے جگہ خالی کی، جن میں اب ہم نیچرل دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن اس سے داستانوں سے لطف اندوز ہونے کی ہماری صلاحیت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے برعکس کچھ زیادہ بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ اب ہم ان داستانوں کی جذباتی اور داخلی گرفت سے آزاد ہو گئے ہیں۔ آج ان کا تجزیہ ہم خارجی انداز سے کرنے پر زیادہ قادر ہیں اور جس طرح کہ ایک بالغ آدمی اپنے بچپن کے تجربوں کے اعادے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہوتا ہے، اسی طرح اس عہد کا بالغ آدمی بھی، ان داستانوں کے مطالعے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے طریقِ فکر کی بدلتی ہوئی صورت کو دیکھ کر ازمنہ قدیم کے طریقِ فکر کو سمجھنے پر زیادہ سے زیادہ قادر ہو سکتا ہے اور اس طرح انسانی نفسیات کے مطالعے میں زیادہ گہرائی اور بصیرت حاصل کر سکتا ہے۔

    (اردو کے ترقی پسند نقاد اور محقق ممتاز حسین کے مضمون سے اقتباسات)

  • حسن کا وجود اور اس کی اثر آفرینی

    حسن کا وجود اور اس کی اثر آفرینی

    مارکس اور اس کے ہم خیالوں کا یہ تصور بہت صحیح ہے کہ ایک خارجی دنیا کی عملی تشکیل و تخلیق، ایک غیرنامیاتی بے جان عالمِ عناصر کو حسبِ مراد صورت دینا اور اس میں نئی زندگی پیدا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نوعِ حیوانی کا ایک ذی ارادہ ارتقائی رکن ہے۔

    وہ (انسان) حیوانات میں ایک ایسی مخلوق ہے جس کی تخیل یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جائے جیسا کہ خود اپنی ذات کے ساتھ اور اپنی ضرورتوں کی طرح اپنے تمام ہم جنسوں کی ضرورتوں کا رفیقانہ احساس رکھا جائے۔ یہ شرف کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں اور اگر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جا سکتا ہے تو اسی بنا پر دنیا میں اور بہت سے جانور ہیں، مثلا شہد کی مکھیاں، مٹے، دیمک اور بھڑ اور چڑیوں میں بیا وغیرہ جو کافی تخلیقی یا تعمیری قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت بے ساختہ اس سے کام لیتے ہیں۔ وہ چھتے، اور گھونسلے ایسی فن کارانہ خوش اسلوبی کے ساتھ بناتے ہیں کہ انسان ان کی نقل بھی نہیں اتار سکتا۔

    لیکن یہ ادنی درجے کے جانور جو کچھ کرتے ہیں اپنی ذاتی یا زیادہ سے زیادہ اپنی اولاد کی فوری ضرورتوں کو رفع کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں یک طرفہ ہوتی ہیں۔ انسان کے مساعی اجتماعی قدر لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ حیوانات جو کچھ کرتے ہیں، اپنی قدرتی جسمانی ضرورتوں کے تقاضوں سے مجبور ہو کر کرتے ہیں اور انسان یعنی مہذب انسان اپنی جسمانی ضرورتوں سے آزاد ہو کر تخلیقی فن کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بہترین تخلیق اس وقت کر سکتا ہے جب کہ اس کی ادنی حیوانی ضرورتیں آسودہ ہو چکی ہوں اور وہ ان کے ترددات سے فراغت پا چکا ہو، غیرانسانی مخلوقات اپنی اپنی ذاتوں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے کو پھر سے پیدا کرسکتی ہیں اور انسان سائرِ کائنات کو پھر سے پیدا کر سکتا ہے۔

    دوسرے جانوروں کی تخلیقی کوششیں ان کی جسمانی خواہشوں اور ضرورتوں سے براہِ راست متعلق ہوتی ہیں، یعنی وہ اپنے فطری مطالبات کے غلام ہوتے ہیں، برخلاف اس کے انسان اپنی تخلیقات کا پورے احساس و فکر اور مکمل آزادی کے ساتھ سامنا کر سکتا ہے اور ان پر نگاہِ بازگشت ڈال سکتا ہے جو خود اپنی جگہ ایک نئی تخلیقی حرکت ہے۔ جانور صرف اپنی نوع کی ضرورت کو اپنی تخلیقات کا پیمانہ بناتے ہیں، انسان ہر نوع کی ضرورت کے مطابق اور ہر وقت ہر موقع پر موضوع کے اعتبار سے نئے پیمانے مہیا یا ایجاد کر سکتا ہے۔ دوسرے حیوانات کی فنی تخلیق میں جو حسن ملتا ہے وہ اضطراری طور پر اس کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ انسان کو اس حسن کا نہ صرف شعور بلکہ درک بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادے اور اپنی قوت سے اس حسن کو اور زیادہ حسین و جمیل بنا سکتا ہے۔ انسان کی فن کاری نہ صرف ایک مفروضۂ حسن کا اظہار ہوتی ہے بلکہ حسن کے اندرونی ناموس کے مطابق خوب سے خوب تر کی جستجو اور اسے پانے کا نام انسانی لغت میں فن کاری ہے۔

    حسن کے وجود اور اس کی اثر آفرینی سے آج تک کوئی انکار نہیں کر سکا ہے۔ لیکن یہ حسن ہے کیا؟ اس سوال نے بڑے بڑے اہل فکر و بصیرت کو حیران رکھا ہے۔ شہرۂ آفاق سائنس داں اور نظریۂ ارتقا کا مبلغ ڈارون مور کی دُم کا راز نہ سمجھ سکا۔ مور کی دم پر اس قرینے کے ساتھ گل کاریاں ہوتی ہیں؟ اس سوال نے ڈارون کی عقل کو چکر میں ڈال رکھا تھا، وہ زندگی کے ہر مظہر کو جہدُالبقا، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح کی روشنی میں سمجھنا چاہتا تھا لیکن محض حیاتیاتی مقصد کے ماتحت حسن یعنی قرینہ یا آہنگ کی تاویل نہیں کی جا سکتی۔

    مور کی دُم میں اس توازن اور تناسب کے ساتھ خطوط و الوان کا التزام نہ ہوتا تو بھی حیاتیاتی غرض یعنی نسل کی افزائش اور اس کی بقا کا مقصد تو پوراہی ہوتا رہتا۔ قدرت نے اپنے تخلیقی نظام میں یہ جمالیاتی اسلوب کیوں ملحوظ رکھا؟ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے تاوقتیکہ ہم یہ نہ تسلیم کر لیں کہ قدرت کے اندر وہ آہنگ طبیعی طور پر موجود ہے جسے ہم حسن کہتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ حیوانی اور نباتاتی اور بہ ظاہر بے جان جماداتی دنیا بھی ایک جمالیاتی رخ رکھتی ہے۔ جہاں کہیں بھی زندگی کی قوت ہے وہاں یہ حسن بھی موجود ہے اور زندگی کی بقا اور فروغ کا ضامن ہے۔

    متقدمین سے لے کر آج تک لوگ حسن کو بلاوجہ ایک غیر ارضی چیز سمجھتے رہے ہیں اور جو چیز کہ سر بسر انسانی دنیا کی پیداوار ہے اس کو خواہ مخواہ ایک دیو لوک سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ اس ماورائیت نے حسن کو ایک سدیمی (Nebulous) شکل بنا کر رکھ دیا ہے۔ افلاطون نے حقیقت، خیر اور حسن کی سہ گانہ تقسیم کر کے ایک عرصہ تک دنیا کو مبہوت رکھا، لیکن وہ خود بڑی الجھن میں تھا۔ اگر ہم غور سے مطالعہ کریں تو اس کے بیان سے زیادہ اس کے بعض وقت کے سکوت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نظریۂ تصورات کی وجہ سے اپنے نظامِ فکر میں بہت سے تناقصات محسوس کرتا ہے۔ حسن کے بارے میں بھی اس کو اپنی عدم وضاحت کا احساس تھا۔ اس نے عالمِ مثال یا عالمِ تصورات میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس عالمِ اجسام سے باہر ایک عالم ہے، جہاں ہر شے کا ایک ازلی تصور یا نمونہ موجود ہے۔ عالم موجودات کی ہر شے اپنے تصور کی ایک ناقص نقل ہوتی ہے۔ پھر ان تصورات سے بلند اور سب پر احاطہ کئے ہوئے تصورات کا تصور، یا تصورِ اعلیٰ ہے۔ حسن اور خیر اور حقیقت اس تصور اعلیٰ کے تین مختلف رخ ہیں جو عالم اجسام میں الگ پائے جاتے ہیں۔

    افلاطون کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرشد سقراط کی طرح حسن کو حقیقت اور خیر کے ماتحت تصور کرتا تھا۔ اس جگہ ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ ہم سقراط اور افلاطون اور ان کے متبعین کے نظریہ تصورات سے آج ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ لیکن ان لوگوں کے بعض متفرق اقوال ایسے ہیں جو حقیقت کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جنہیں آج بھی ہم تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے، مثلاً حسن کے بارے میں سقراط کے دو اقوال ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ حسن وہ چیز ہے جو لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو، دوسرا یہ ہے کہ حسن اس چیز کا نام ہے جو کسی غرض کو پورا کرے اور غرض سے مراد عملی مفاد ہے۔ آج ہم حیرت کر سکتے ہیں کہ جس مفکر نے حیات اور کائنات کے سارے نظام کی بنیاد مادی اور عملی دنیا سے الگ تصورات پر رکھی ہو وہ حسن کا ایسا افادی نظریہ کیسے پیش کر سکا۔

    بعد کے اشراقیوں اور صوفیوں نے اسی تصور یا عالمِ مثال کے نظریہ کو اور زیادہ وسعت دی اور ہر ترقی یافتہ زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور مفکروں نے اس سرابی بنیاد پر رنگ برنگ کی نازک اور دل پذیر عمارتیں تیار کیں اور ان لوگوں نے لافانی حسن، ازلی حسن، لاہوتی حسن، حسن مطلق، حسن حقیقی وغیرہ جیسے بت تراشے جن کے آگے سر جھکانے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ کیٹس نے حسن کو حقیقت اور حقیقت کو حسن بتایا اور اسی کے اظہار کو شاعری کہا۔ بیدل بھی حسنِ حقیقت کے قائل ہیں یعنی حسن اور حقیقت کو ایک سمجھتے ہیں اور ہر وقت اور ہر جگہ اسے سامنے موجود مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی جستجو نہ کرنا ہی اس کو پانا ہے۔

    حسن کے اس پراسرار تصور نے فکر و احساس کی دنیا میں بڑی بڑی نزاکتیں پیدا کیں اور اس کی بدولت شاعری اور دوسرے فنونِ لطیفہ کے ایسے ناقابلِ فراموش کارنامے وجود میں آئے جن کی تواریخی قدر ہمیشہ مسلّم رہے گی۔

    (معروف ادیب، نقاد اور مترجم مجنوں گورکھپوری کے مضمون حسن اور فن کاری سے اقتباسات)