Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    منٹو کی موت ایک بڑا سانحہ تھی۔ کئی لکھنے والے دل برداشتہ ہوئے تھے۔

    ایک تعزیتی جلسے میں حمید اختر نے کہا تھا، ’وہ طبعی موت نہیں مرا۔ اسے مار ڈالا گیا ہے۔ اسے مارنے والوں میں سب سے زیادہ ہاتھ اسے کے دوستوں کا ہے۔ اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا۔ برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اس کے ساتھ مل کر اسے برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے اسے مار ڈالا ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

    سب جانتے ہیں کہ منٹو کی ناگہانی موت کے لیے شراب ذمے دار ہے۔ لیکن اس کے دوست حمید اختر کا خیال کچھ اور تھا۔

    ’اس کی زندگی میں جہاں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ آسائش کی محرومیاں، محبت کی محرومیاں، محبوبہ کی محرومی، اچھے مکان کی محرومی اور ضروریات زندگی سے محرومی، کہاں کہاں یہ محرومی راستہ روک کر کھڑی رہتی ہے۔ سنگدل، بے مہر اور ظالمانہ محرومی سے ٹکر مار کر انسان شراب نہیں پیے گا تو کیا کرے گا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ منٹو اور منٹو کی طرح کے دوسرے لاکھوں لوگ اچھی شراب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس سے کسک اور بڑھتی ہے اور نتیجہ جو ہوتا ہے، وہ ظاہر ہی ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

  • غالب کی قرض خواہوں کو تسلیاں اور سفرِ کلکتہ

    غالب کی قرض خواہوں کو تسلیاں اور سفرِ کلکتہ

    برصغیر کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے، اس دور کے مروجہ علوم پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری تھی جو دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔

    شعر و ادب کے ساتھ غالب کی شخصیت خصوصاً ان کا شاعرانہ مزاج بھی ہمیشہ لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہا۔ اس شاعرانہ بلکہ شاہانہ مزاج کی بدولت وہ تاحیات زیر بار قرض رہے مگر اپنی روش نہیں بدلی۔ ان کا اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا بس انگریز سرکار سے ملنے والی خاندانی پنشن پر گزارا تھا۔ یہ پنشن غالب کے گھریلو اور ”ذاتی“ اخراجات کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا مرزا تا حیات قرض پہ قرض لیتے رہے۔ قرض کی نا دہندگی کی وجہ سے اکثر مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ قید و بند کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ اس دور میں انگریز سرکار کا قانون تھا کہ دیوانی مقدمات میں ملوث ملزمان کو گھر سے باہر اور دن کے وقت ہی حراست میں لے سکتے تھے۔ لہٰذا جب گرفتاری کا خدشہ ہوتا تو ان دنوں غالب دن کے اجالے میں گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ اگر کہیں جانا ہوتا تو رات کے وقت جاتے۔

    قرض خواہوں کو تسلی دینے اور اپنی آمدنی میں اضافے کی غالب کے پاس ایک ہی امید تھی کہ ان کی پنشن میں اضافہ ہو جائے اور یہ اضافہ بھی ان کی پیدائش کے وقت سے ہو تاکہ انھیں یکمشت ایک خطیر رقم حاصل ہو جائے۔ اس امید پر مرزا نے عمر گزار دی۔ قریباً تیس برس اسی تگ و دو میں گزرے۔ ان گنت درخواستیں دائر کیں جو مقامی افسران سے لے کر گورنر جنرل اور ملکہ برطانیہ تک کو ارسال کی گئیں۔

    انگریز افسروں کے روبرو اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے غالب نے متعدد سفر کیے جس میں کان پور، فیروز پور جھرکا اور فرحت پور شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا طویل ترین سفر دہلی سے کلکتے کا تھا اور یہی غالب کی زندگی کا سب سے لمبا سفر تھا۔ تقریباً تین برس پر محیط اس سفر نے غالب کے مشاہدات و تجربات اور علم و فکر میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

    اس سے قبل کہ مرزا غالب کے سفر کی روداد بیان کی جائے اس سفر کی وجہ یعنی انھیں ملنے والی پنشن اور ان کے خاندانی پس منظر کا مختصر جائزہ لے لیتے ہیں۔ غالب 1797 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار برس کے تھے کہ ان کے والد مرزا عبداللہ انتقال کر گئے۔ لہذا غالب کے خاندان کے سرپرست ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ قرار پائے۔ نصر اللہ بیگ مرہٹوں کی فوج میں شامل تھے اور آگرہ کی حفاظت پر مامور تھے۔ جب انگریزوں نے آگرہ حملہ کیا تو نصر اللہ بیگ نے بغیر مزاحمت کے آگرہ انگریزوں کے کمان دار لارڈ لیک کے حوالے کر دیا۔ اس کے بدلے میں انگریزوں نے نصر اللہ بیگ کو آگرہ کے قلعے کا قلعہ دار بنا دیا۔ علاوہ ازیں انھیں جاگیر اور انعام و کرام سے بھی نوازا۔ لیکن یہ انعام و کرام اور جاگیریں تا دیر نصر اللہ بیگ کے کام نہ آئیں اور 1806 ء میں ہاتھی سے گر کر انتقال کر گئے۔ ان کے بیوی بچے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ جیسا کہ انگریزوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے وفاداروں کو نسل در نسل نوازتے تھے، سرکار نے پس ماندگان کے لیے پنشن مقرر کر دی جس کے نگران نصر اللہ بیگ کے سالے نواب احمد بخش قرار پائے۔ ان کے بقول یہ رقم پانچ ہزار روپے سالانہ تھی۔ جس کی تقسیم کچھ یوں ہوئی (1) خواجہ حاجی دو ہزار روپے سالانہ (2) نصر اللہ بیگ کی والدہ اور تین بہنیں ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ (3) مرزا غالب اور ان کے بھائی مرزا یوسف ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ۔ غالب اس میں سے چھ سو سالانہ بھائی مرزا یوسف کو دیتے تھے۔ جبکہ بقیہ نو میں سے چار سو اپنی زوجہ امراؤ جان کو دینے کا حکم تھا کیونکہ امراؤ جان نواب احمد بخش کی بھتیجی تھی۔ مرزا غالب اور امراؤ جان کا عقد 1810 ء میں ہوا تھا اس وقت غالب کی عمر تیرہ اور امراؤ جان کی دس برس تھی۔ اسی برس غالب آگرہ سے دہلی منتقل ہو گئے۔ دہلی میں وہ کرائے کے مختلف مکانات میں فروکش رہے ان میں سے آخری بلی ماراں والا مکان تھا۔

    مرزا غالب نے ہوش سنبھالا تو انھیں علم ہوا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان کے اعتراضات یہ تھے۔ (اول) پنشن کی اصل رقم پانچ نہیں دس ہزار روپے سالانہ ہے۔ (دوئم) خواجہ حاجی ان کے برائے نام رشتہ دار تھے اس لیے ان کو دی جانے والی رقم غالب اور ان کے بھائی کو ملنی چاہیے۔ مرزا غالب نے جب یہ معاملہ نواب احمد بخش کے سامنے اٹھایا تو بقول غالب انھوں نے پنشن کی رقم دس ہزار تو تسلیم نہیں کی، لیکن خواجہ حاجی کو حصہ دینے کی غلطی تسلیم کی اور وعدہ کیا کہ خواجہ حاجی کے انتقال کے بعد ان کا حصہ غالب اور ان کے بھائی کو ملے گا۔

    لیکن 1823 ء میں خواجہ حاجی کے انتقال کے بعد یہ رقم ان کے بیٹوں کو ملنے لگی۔ یہیں سے غالب کی شکایت میں شدت پیدا ہوئی۔ انھوں نے اس نا انصافی پر آواز اٹھائی لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ نواب احمد بخش سے مایوس ہو کر غالب نے دلی میں تعینات انگریز ریذیڈنٹ سے ملاقات کی کوشش شروع کر دی مگر بوجوہ یہ ملاقات نہ ہو سکی یا احمد بخش نے نہ ہونے دی۔ 1825 ء تک غالب کی مالی حالت انتہائی دگرگوں ہو چکی تھی۔ وہ ننھیال اور ددھیال کی تمام موروثی جائیداد بیچ کر کھا چکے تھے اس پر مستزاد بیس ہزار روپے کے مقروض ہو چکے تھے۔

    اس وقت غالب کی عمر صرف اٹھائیس برس تھی۔ اس سے غالب کی شاہ خرچی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ آمدنی جتنی بھی ہو ان کا طرز حیات نہیں بدلا۔ ایک مرتبہ متھرا داس مہاجن نے عدم ادائیگی قرض پر غالب پر مقدمہ کر دیا۔ غالب مفتی صدر الدین آزردہ کی عدالت میں پیش ہوئے جو خود اچھے شاعر اور غالب کے مداح تھے۔ انھوں نے غالب سے پوچھا ”مرزا نوشہ یہ آپ اس قدر قرض کیوں لیا کرتے ہیں“ غالب نے برجستہ جواب میں یہ شعر سنایا:

    قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
    رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

    مفتی صدر الدین ہنس پڑے۔ انھوں نے فیصلہ تو مدعی کے حق میں دیا لیکن غالب کا زر ڈگری ایک دوست کی حیثیت سے خود ادا کر دیا۔

    مرزا غالب کا بال بال قرضے میں جکڑا تھا مگر اس معاملے میں وہ خوش قسمت بھی تھے کہ کسی نہ کسی سے مزید قرض لے لیتے تھے۔ حالانکہ قرض دینے والوں کو بھی علم تھا کہ اس کی واپسی تقریباً نا ممکن ہے۔ جیسا کہ متھرا داس مہاجن غالب کے گھر قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے گئے، الٹا دو ہزار روپے مزید دے کر لوٹے۔ ان معاملات کے باوجود غالب کی شاعری اور ان کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ حتٰی کہ ان کے مخالفین بھی ان کی شاعری کے معترف تھے۔

    ویسے بھی وہ فن شاعری کی قدرو منزلت کا دور تھا۔ مشاعروں میں ہزاروں کا مجمع ہوتا۔ جہاں چار پڑھے لکھے افراد جمع ہوتے شعر و شاعری کا تذکرہ لازمی ہوتا۔ غالب کی شاعری نوجوانی میں ہی سند قبولیت حاصل کر چکی تھی۔ ابھی ان کا دیوان شائع نہیں ہوا تھا کہ ان کے اشعار زبان زد عام ہو چکے تھے۔ کوٹھے کی مغنیہ ہو یا گلی میں پھرتے بنجارے ہر ایک کی زبان پر غالب کے اشعار ہوتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں زندگی شاعری کے بل بوتے نہیں گزرتی، اس کے تقاضے اور بھی ہیں۔

    جب دہلی میں شنوائی نہیں ہوئی تو غالب نے کلکتہ جا کر گورنر جنرل سے ملنے کا ارادہ کر لیا۔ اس دور میں ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے بھی ویسی ہی تیاری کرنی پڑتی تھی جیسے پردیس جا رہے ہوں۔ اکتوبر 1826ء میں غالب براستہ کانپور لکھنؤ پہنچے۔ دوران سفر وہ بیمار پڑ گئے وہ بھی ایسے کہ صحت یاب ہوکے نہیں دیتے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ نوجوان تھے مگر انھیں کئی بیماریاں لاحق تھیں۔ اودھ میں مرزا کے قریبی دوست امام بخش ناسخ رہتے تھے ان کی بدولت غالب کا علاج جاری رہا۔

    ان دنوں اودھ پایہ تخت دہلی سے آزاد ایک خود مختار ریاست تھی۔ غازی الدین حیدر اس کے بادشاہ تھے معتمد الدولہ آغا میر وزیر اعظم تھے۔ آغا میر شعر و شاعری کے قدردان تھے اور شعرا کی سرپرستی کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے غالب سے ملنے خواہش ظاہر کی۔ غالب کو خلعت اور انعام کرام ملنے کی امید پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنے دوست امام بخش ناسخ کے مشورے پر آغا میر کے لیے ایک سو دس اشعار پر مشتمل قصیدہ لکھا۔ مگر اپنی افتادِ طبع کے مطابق تین شرائط بھی رکھ دیں۔

    پہلی شرط یہ کہ معتمد الدولہ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کریں گے۔ دوسری شرط، ان سے معانقہ کریں گے اور تیسری شرط، غالب کو نذر پیش کرنے سے معافی دی جائے۔ ان کے پاس دینے کے لیے کچھ تھا بھی نہیں۔ وزیر اعظم نے غالب کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا اور غالب نے ملاقات سے معذرت کر لی۔ غریب الوطنی اور مالی مجبوریوں کے باوجود حاکم وقت کے آگے ایسی شرائط رکھنا اور پھر ملنے سے انکار کرنا، بظاہر نادانی لگتی ہے مگر وہ غالب تھے۔ ایسے لوگ دماغ سے نہیں دل سے سوچتے ہیں۔ ان کی طبیعت کا غنا انھیں کسی کے آگے سر جھکانے نہیں دیتا۔ انھی کا مشہور شعر ہے۔

    بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
    تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

    شاہ میر غالب کے خلاف ہو گیا اور اس نے انھیں شاہ اودھ سے بھی ملنے نہیں دیا۔ غالب نو ماہ تک لکھنؤ میں مقیم رہے۔ ان کی بیماری میں افاقہ نہیں ہوا۔ مجبوراً اسی حالت میں انھوں نے رخت سفر باندھا اور اکیس جون 1827 ء کو لکھنؤ سے روانہ ہو گئے۔ اس دور کی مشکلات سفر کا اندازہ لگائیے کہ لکھنؤ سے کانپور کے درمیان تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ پانچ دن میں طے ہوا۔ یہ سفر یکے پر کیا گیا۔ کان پور سے غالب باندہ پہنچے جہاں کے نواب ذوالفقار بہادر علی غالب کے عزیز اور شاگرد تھے۔

    انھوں نے غالب کی خوب مدارت کی اور علاج بھی کروایا جس سے انھیں کچھ افاقہ ہوا۔ غالب کلکتہ جانا چاہتے تھے مگر زاد سفر کے نام پر ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ مناسب موقع پا کر انھوں نے نواب ذوالفقار علی سے دو ہزار روپے قرض مانگ لیا۔ غالب کے بقول انھوں نے براہ راست تو یہ رقم نہیں دی کہ شاید میں واپس نہ کر سکوں لیکن ایک مہاجن سیٹھ امی کرن سے دو ہزار روپے قرض دلوا دیے۔ غالب کا مسئلہ وقتی طور پر حل ہو گیا اور وہ دو ہزار روپے لے کر باندے سے بذریعہ بیل گاڑی روانہ ہو گئے۔

    راستے میں انھوں نے ایک گھوڑا خرید لیا۔ جمنا کنارے پہنچے تو کشتی کرائے پر لی اور گھوڑے سمیت اس پر سوار ہو گئے۔ ستائیس نومبر 1827ء وہ الہ آباد پہنچے۔ غالب کا ارادہ یہاں چند ہفتے قیام کرنے کا تھا مگر پہلی ہی شام ایک ادبی تقریب میں ان کی مولوی امام شہید سے تلخ کلامی ہو گئی۔ مولوی شہید، قتیل کے شاگرد تھے جس سے غالب شدید متنفر تھے۔ اس واقعہ سے غالب اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اگلے ہی روز بنارس روانہ ہو گئے۔ اپنے خطوط میں غالب نے الہ آباد کے باسیوں کو آداب محفل سے نا آشنا اور اجڈ قرار دیا۔ انھیں یہ شہر، شہر نہیں ویرانہ لگا۔ آگے کا سفر بھی غالب نے جمنا کی لہروں پر ڈولتی کشتی میں کیا اور وہ بنارس پہنچ گئے۔

    بنارس شہر غالب کو خوب بھایا۔ جمنا کے کنارے بسا یہ شہر، اس کے سر سبز نظارے، صبح دم مندروں کی گھنٹیوں کی صدا، سر شام جمنا کے پانیوں کو چھوتی ہوا اور اس کا غارت ایماں حسن غالب کے دل میں گھر کر گیا۔ ان کا دل چاہا کہ ہمیشہ کے لیے اس شہر میں بس جائیں۔ حالانکہ دیگر شہروں کی نسبت بنارس میں ان کا کوئی قریبی دوست نہیں تھا۔ ان کا مزاج بھی ایسا نہیں تھا کہ احباب کے بغیر تنہا خوش رہیں۔ آثار سے لگتا ہے کہ کسی غارت گر کے عشق نے غالب کے قدم روک دیے تھے۔

    دوسرا یہ معجزہ بھی ہوا کہ اس شہر کی آب و ہوا غالب کو راس آئی اور ان کی صحت بحال ہو گئی۔ بہرحال انھوں نے چار ہفتے بنارس میں قیام کیا۔ غالب جہاں جہاں قیام کرتے رہے وہاں کے احباب سے سفارشی خطوط بھی لکھوا کر ساتھ رکھتے رہے تاکہ کلکتہ جا کر انھیں استعمال کر سکیں۔ جیسے باندہ کے سول جج نواب محمد علی خان غالب کے دوست بن گئے تھے انھوں نے کلکتے کے ایک معزز نواب اکبر علی خان کے نام رقعہ لکھ دیا۔

    دہلی سے کلکتہ کا ایک ہزار میل کا یہ سفر غالب نے 17 ماہ میں طے کیا۔ یوں تو یہ سفر حصول پنشن کی غرض سے تھا مگر مرزا غالب نے اسے سیاحتی، تفریحی اور تہذیبی سفر بھی بنا دیا۔ جس شہر میں جاتے وہاں طویل قیام کرتے، ادبی اور سماجی حلقوں سے رابطے ہوتے اور شعر و شاعری کے جھنڈے گاڑ کر داد و تحسین وصول کرتے۔ اگرچہ زاد سفر قرض لے کر نکلے تھے مگر کہیں تنگ چشمی سے کام نہیں لیا اور دریا دلی سے خرچ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو دو ہزار روپے باندہ سے قرض لے کر نکلے تھے کلکتہ پہنچنے تک اس میں سے چھ صد روپے باقی بچے تھے۔ حالانکہ اس دور میں روپے کی قدر اتنی تھی کہ کلکتہ پہنچ کر انھوں نے جو مکان کرائے پر لیا اس کا ماہانہ کرایہ چھ روپے تھا۔ مکان خاصا بڑا تھا اور اس میں گھوڑا رکھنے کی بھی گنجائش تھی۔

    کلکتہ میں ابتدا ہی میں غالب کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ باندے کے نواب محمد علی خان کا تعارفی خط لے کر اور کشتی کرائے پر لے کر نواب اکبر علی خان کے گھر پہنچے جو کلکتہ کے مضافاتی علاقے بگلی میں واقع تھا۔ انھیں معلوم ہوا تھا کہ نواب اکبر علی خان کے انگریز کلکٹر سے دوستانہ روابط ہیں۔ مگر جب غالب گئے تو نواب صاحب نے بتایا کہ کلکٹر صاحب سے ان کے تعلقات اب کشیدہ ہو چکے ہیں اور وہ کسی قسم کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔

    اودھ حکومت کے سفیر منشی عاشق علی سے غالب کو کافی امید تھی اور ان کے نام بھی سفارشی خط لکھو اکر لائے تھے۔ مگر شومئی قسمت سے غالب کے پہنچنے تک منشی عاشق علی کو لکھنؤ واپس بلا لیا گیا۔ گویا ہر جانب مایوسی اور ناکامی کا سامنا تھا۔ جہاں تک ادبی پذیرائی کا تعلق ہے کلکتہ میں بھی غالب کے پرستار موجود تھے مگر ان کی تعداد مٹھی بھر تھی۔ اس کی ایک وجہ تو دہلی سے دوری اور رسل و رسائل کی کمی تھی۔ ویسے بھی یہاں بنگالی زبان بولی جاتی تھی اور اردو کا چلن عام نہیں تھا۔

    دوسری وجہ مرزا محمد حسین قتیل (1759۔ 1818) کی مقبولیت تھی۔ مرزا قتیل اپنے عہد کے ممتاز فارسی داں تھے اور فارسی میں ہی شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے فارسی قواعد کی چند کتب لکھی تھیں جن میں چہار شربت اور نہر الفصاحت مشہور ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا مگر وہ کلکتہ میں بھی خاصے مقبول تھے۔ جب غالب کلکتہ گئے تو ان کا انتقال ہوئے دس برس گزر چکے تھے لیکن ان کی مقبولیت برقرار تھی۔ دوسری جانب غالب بزعم خود اپنے دور کے سب سے بڑے فارسی دان تھے اور اپنے مقابل کسی کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔

    یہ تو سب جانتے ہیں کہ جو غالب کے دل میں ہوتا تھا اسے زبان پر لانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ لہذا قتیل سے ان کی نفرت پوشیدہ نہ رہ سکی۔ دوسری جانب قتیل کے شیدائیوں اور چاہنے والوں کی بڑی تعداد کلکتہ میں تھی۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے۔ ایک مشاعرے میں غالب نے فارسی اشعار سنائے تو ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اعتراض اٹھا دیا کہ اس میں قواعد گرائمر کی غلطی ہے۔ بس پھر کیا تھا غالب کے خلاف شور مچ گیا اور محفل درہم برہم ہو گئی۔ اگلے دن پورے شہر میں اس واقعے کا چرچا تھا۔

    غالب کو یہ بھی فکر تھی کہ میں تو واپس دلّی چلا جاؤں گا مگر اس شہر کے لوگ کہیں گے کہ ایک شر پسند اور فسادی شخص آیا تھا فساد برپا کر کے چلا گیا۔ لہذا انھوں نے تحریری معذرت کی اور قتیل کی کچھ توصیف بھی کی۔ بہرحال مرزا غالب کو کلکتے میں وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ اب اسی کلکتے میں اس گلی کا نام غالب سے موسوم ہے جس میں ان کا قیام تھا جس طرح دہلی میں غالب میوزیم اور غالب اکیڈمی موجود ہیں۔ لیکن جانے والے کو اب کیا فائدہ۔ حیات انسانی کے دیگر بے شمار موضوعات کے ساتھ اس موضوع پر بھی غالب کا شعر موجود ہے۔ :

    کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
    ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

    کلکتے میں غالب کے مخالفین میں مرزا افضل بیگ نمایاں تھے۔ وہ حاجی جان کے بیٹوں کے ماموں اور ان کے وکیل تھے۔ خاندان مغلیہ کا شاہی وکیل ہونے کے وجہ سے انگریز سرکار سے ان کے قریبی روابط تھے۔ مرزا افضل بیگ نے سرکاری حلقوں اور عوام الناس میں غالب کے خلاف خوب زہر بھرا۔ انھوں نے ہی یہ مشہور کیا تھا کہ غالب قتیل کو برا بھلا کہتے ہیں۔ غالب کو ملحد اور زندیق مشہور کر دیا گیا اور یہ کہ وہ بار بار نام بدلتے رہتے ہیں۔ مجبوراً نام کے معاملے میں غالب کو تحریری صفائی دینی پڑی۔ یوں غالب کے خلاف ہر جانب محاذ کھڑا کیا گیا۔

    مارچ 1828ء میں گورنر جنرل کا دربار لگنا تھا۔ درخواست کی جانچ پڑتال اور اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کی ذمہ داری William Frazer کی تھی۔ غالب نے اپنی درخواست میں تین استدعا کی تھیں (1) حکومت نصر اللہ بیگ کے ورثا کا تعین خود کرے اور ہر وارث کو الگ پنشن دی جائے (2) دوئم یہ کہ جو رقم نواب احمد بخش نے حکومت سے لی اور ورثا میں تقسیم نہیں کی وہ اس کی جائیداد ضبط کر کے وصول کی جائے اور ورثا میں تقسیم کی جائے (3) آئندہ پنشن براہ راست سرکار کے خزانے سے ادا کی جائے۔

    درخواست داخل کرنے کے لیے غالب ولیم فریزر سے ملاقات کے لیے گئے تو انھیں اپنے مقام و مرتبے کا بھی احساس تھا مگر وہ مطمئن لوٹے کیونکہ ولیم فریزر نے کھڑے ہو کر ان کا سلام قبول کیا اور عطر اور پان سے ان کی تواضع کی۔ ولیم فریزر نے یہ بھی بتایا کہ درخواست دہلی ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے توسط سے پیش کرنی چاہیے تھی۔ تاہم اس نے درخواست گورنر کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی۔ گورنر جنرل نے اس دن دس درخواستیں نمٹانی تھیں۔ غالب کا ان میں آخری اور دسواں نمبر تھا۔

    افضل بیگ وکیل نے جوابی دعویٰ پیش کیا اور غالب پر دروغ گوئی اور مکاری کا الزام عائد کیا کہ موقع کی مناسبت سے یہ شخص اپنا نام بدلتا رہتا ہے کبھی نوشہ، کبھی اسد، کبھی غالب اور کبھی نام کے ساتھ بیگ اور خان بھی لکھتا ہے۔ گویا غالب کی افتاد طبع کو ان کی دھوکا دہی اور نوسر بازی کا نام دے دیا گیا۔ گورنر جنرل نے غالب کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ اسے دہلی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے توسط سے آنا چاہیے تھا۔ یہ غالب کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ وہ سالوں سے جو بھاگ دوڑ کر رہے تھے اور تین برسوں سے گھر سے بے گھر مسافر بنے ہوئے تھے، وہ ساری محنت اکارت گئی تھی۔ انھیں بے نیل مرام واپس لوٹنا پڑا۔

    پنشن تو بحال نہ ہوئی مگر دلّی واپس جانے کے لیے غالب کو ڈیڑھ ہزار روپوں کی ضرورت تھی۔ گھوڑا وہ پہلے ہی ڈیڑھ سو روپے میں فروخت کرچکے تھے۔ باندے والے دوست محمد علی خان دو مرتبہ دو دو سو روپے بھجوا چکے تھے۔ آگرہ سے والدہ نے 475 روپے بھجوائے۔ غالب نے کلکتہ کے ایک بڑے مہاجن راؤ شیو رام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھیں کتنا قرض ملا۔ کلکتہ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا الٹا قرض کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ غالب کو یہ بھی فکر تھی اب قرض خواہوں کا سامنا کیسے کریں گے۔

    وہ اس لیے بھی دلّی جلد لوٹنا چاہتے تھے کہ گورنر جنرل دلّی کے دورے پر آرہے تھے۔ غالب ان سے پہلے پہنچ کر اپنی درخواست ریذیڈنٹ کے ایڈیٹر کے توسط سے انھیں پیش کرنا چاہتے تھے۔ وہ 20 اگست 1829ء کو کلکتہ سے روانہ ہو کر 8 نومبر 1829ء کو دہلی پہنچے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ دہلی پہنچ کر انھیں علم ہوا کہ گورنر جنرل نے بنارس پہنچ کر اپنا ارادہ بدل دیا اور دلی آنے کے بجائے کلکتہ واپس لوٹ گئے۔

    1835ء میں نواب شمس الدین کو ولیم فریزر کے قتل کی سزا میں پھانسی ہو گئی اور ان کی جائیداد ضبط ہو گئی۔ موقع غنیمت جان کر غالب نے آگرہ پریزیڈنسی میں ایک اور درخواست بھجوائی کہ مرزا نصر اللہ بیگ کا وارث ہونے کی حیثیت سے اس جائیداد کا ایک حصہ انھیں ملنا چاہیے تاکہ وہ قرض سے نجات پا سکیں۔ گورنر جنرل نے یہ درخواست بھی رد کردی اور یہ فائل ہمیشہ کے لیے بند کر دی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر غالب نے گورنر جنرل کے توسط سے ہی ایک درخواست لندن میں ملکہ وکٹوریہ کو بھیجی جس کا جواب کبھی نہیں آیا۔ مرزا غالب نے 1823ء سے 1860ء تک تقریباً 37 برس تک پنشن میں اضافے کے لیے مسلسل جدوجہد کی مگر انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ان کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار، کالم نویس اور متعدد کتابوں کے مصنّف طارق مرزا کی تحریر)

  • جب گلے پر چھری رکھ دی گئی!

    جب گلے پر چھری رکھ دی گئی!

    ہندوستان میں انگریز راج کے دوران اردو اور ہندی زبان کے جس تنازع نے سَر اٹھایا تھا، وہ برس ہا برس سے مختلف شکلوں میں جاری ہے اور بٹوارے کے بعد اب بھی بھارت میں‌ اردو بولنے اور لکھنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے وہاں زبان کو مذہب سے جوڑ کر پیش کیا گیا ہے اور اردو کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ اس وقت انگریزوں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے۔ اسی لیے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا مگر اس پر 1867ء میں چند ہندو تنظیموں اور اکابرین نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی جس نے بعد میں اردو ہندی تنازع کو جنم دیا جو آج تک جاری ہے۔

    یہاں ہم اس تناظر میں‌ اردو زبان کلاسیکی طرز کی شاعری اور اپنی شگفتہ اور رواں نثر کے لیے مشہور، متعدد اخبارات اور ادبی رسائل کے مدیر اور فلمی گیت نگار ماہر القادری کا ایک مضمون نقل کررہے ہیں جس سے اردو دشمنی میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں اور بعض اقدامات کے علاوہ اس وقت کے ہندو قائدین اور انتہا پسند تنظیموں‌ کے بغض و عناد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی فرماں روا کو ہندوستان جیسا بیوقوف اور نا سمجھ ملک حکومت کرنے کے لیے نہیں ملا۔

    ناواقفیت اور کور چشمی کی حالت میں، کنوئیں میں گر جانا قابلِ اعتراض فعل نہیں، لیکن سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے کنوئیں میں گر پڑنا، یقیناً دماغ کی خرابی اور فہم کی کوتاہی کی دلیل ہے۔

    ابھی ہندو، مسلمان حقوق کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے اور یہ گتھی سلجھنے بھی نہ پائی تھی کہ زبان کا اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس نے رہے سہے اتحاد کا خاتمہ کر دیا اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انشقاق کی گہری اور وسیع خلیج حائل ہوگئی۔ اگر مدبرین ملک نے مسئلہ کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے، زبان کے اس اختلاف کو دور نہ کیا، تو یہ خلیج اور زیادہ وسیع و عمیق ہو جائے گی اور پھر اس کی پایابی کے امکانات شاید باقی نہ رہیں گے۔

    مولوی عبدالحق صاحب معتمد انجمن ترقی اردو نے جو بیان شائع کرایا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برادرانِ وطن نے اس اکھاڑے میں کتنی پھرتی اور چالاکی کے ساتھ پینترے بدلے ہیں اور اردو کو مٹانے کے لیے کس قدر منظم کوشش کی جارہی ہے۔ نوعیتِ مسئلہ اب اس منزل میں پہنچ گئی ہے، جہاں خاموش رہنا گناہ نہیں کفر ہے۔ اردو کے جسم پر جب تک خراشیں پہنچائی جاتی رہیں، ہم خاموش رہے، مگر اب جب کہ گلے پر چھری رکھ دی گئی ہے، زبان فریاد کرنے سے کس طرح رک سکتی ہے؟

    ہندو لیڈروں میں تین اصحاب غیرمعمولی اثر و اقتدار رکھتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالویہ! ہندوستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پنڈت مالویہ جی نے ہندو، مسلم اختلاف کی خلیج کو اپنے طرزِ عمل اور روش سے ہمیشہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہم ان سے قریب قریب مایوس ہیں۔ مہاتما گاندھی سے بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں مگر جب سے مہاتما جی ضمیر کی آواز سننے لگے ہیں، مذہبی تعصب نے ان کے دل و دماغ کو گھیر لیا ہے۔ انہوں نے سیاسیات سے علیحدگی اختیار کرکے، ہریجن تحریک شروع کردی، جو خالص مذہبی تحریک ہے۔

    مہاتما جی کو ہندو مسلمان دونوں اعتماد کی نظر سے دیکھتے تھے مگر ان کی عجیب و غریب روش نے اس اعتماد کو زائل کر دیا، جس کے وزن نے ان کو ’’مسٹر‘‘ سے ’’مہاتما‘‘ بنا دیا تھا۔ اس حقیقت کو کون جھٹلاسکتا ہے کہ کئی برس سے مہاتما جی کا وجود ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کے خیالات مذہبی تعصب کے تنگ دائرہ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ خیال تھا کہ کانگریس کے اجلاس کے بعد ہندو مسلمانوں میں اتفاق ہو جائے گا اور مہاتما جی اپنی روش بدل دیں گے مگر انہوں نے روش میں تبدیلی پیدا کرنے کے بجائے، ہندی اردو کا فتنہ کھڑا کردیا، جس نے دو قوموں کو اختلافات کی دلدل میں پھنسا دیا۔

    جب مہاتما جی ملک کے خیرخواہ تھے اور ان کے دائرۂ فکر و عمل میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ تھی، اس وقت انہوں نے اردو زبان سیکھی اور اپنے قلم سے مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کو اردو میں خط لکھا مگر آج وہی مہاتما جی اردو سے بیزاری ظاہر فرماتے ہوئے، سنسکرت کے ایسے کٹھن الفاظ استعمال فرما رہے ہیں، جن کو شاید ’’پاننی‘‘ سمجھ سکے تو سمجھ سکے! جو زبان گاندھی جی استعمال کر رہے ہیں وہ اردو کو کھلا چیلنج ہے۔ ان حالات کے تحت مہاتما جی سے بھی ہم مایوس ہی سے ہیں، کیونکہ وہ ارادے کے بہت پکے ہیں، اور ایسا ارادہ، جس کی دیواروں میں تعصب کا سیسہ پگھلایا گیا ہو، اس کو کون جنبش دے سکتا ہے۔
    پنڈت جواہر لال نہرو ایک معقول اور وسیع القلب رہنما ہیں، جن کا مسلمان بھی اب تک احترام کرتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جی فکر و رائے کی اس آزادی کے باوجود، گاندھی جی سے بے حد متاثر ہیں اور بعض وقت گاندھی جی کے ایک انچھر میں پنڈت جی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو خود اچھی اردو بولتے ہیں اور ان کی خواتین بھی اردو کے میٹھے بولوں کے لیے مشہور ہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جواہر لال نہرو کی صاحب زادی کو خاص طور پر ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔

    ہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں، اگر کوئی شخص ہندی سیکھتا ہے تو اس میں ہمارا کیا جاتا ہے، مگر پنڈت جواہر لال نہرو کی اس منقلب ذہنیت کا اتا پتا پا کر، شبہ ہوتا ہے کہ کہیں سابرمتی آشرم کے جوگی نے کچھ پڑھ کر پھونک تو نہیں دیا۔ اردو، ہندی کے مسئلہ میں پنڈت جواہر لال نہرو متذبذب سے نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو سے بظاہر ان کو خاص لگاؤ اور رغبت نہیں رہی۔ لیکن اس تمام افسوس ناک صورتِ حال کے باوجود ہم پنڈت جواہر لال نہرو سے مایوس نہیں ہیں۔ پنڈت جی، ملک کے بہی خواہ ہیں اور جب وہ محسوس کریں گے کہ اس اختلاف کے سبب ملک تباہی کے گڑھے میں جارہا ہے تو وہ ضرور اس کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہمارا قیاس ہے، خدا کرے یہ قیاس صحیح ثابت ہو۔

    ایک طرف اردو کے خلاف مورچہ جما ہوا ہے اور دوسری طرف ہز ایکسیلنسی سر مہاراج کشن پرشاد بہادر یمین السطنت، سر تیجؔ بہادر سپرو، مسٹر اینؔ ہسکر، پنڈت برج موہنؔ دتاتریہ کیفی، رائے بہادر امر ناتھ اٹل، مسٹر سروجنی نائیڈو وغیرہ جیسے بہی خواہانِ اردو بھی موجود ہیں، جو اس مسئلہ میں تعصب سے بالکل الگ تھلگ رہ کر، حق کی حمایت کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ حق کی یہ حمایت بدستور جاری رہے، اور ورغلانے والوں کے حربے کارگر ثابت نہ ہوں۔

    کانگریس سے دو باتیں
    اس کے بعد ہم ہندوستان کی سب سے بڑی نمایندہ اور منظم جماعت کانگریس سے دو دو باتیں کرنا چاہتے ہیں، بشرطیکہ ہماری آواز سنی جائے۔ ہماری آواز یقیناً کمزور ہے مگر کانگریس تو کمزوروں کی حمایت کی دعوے دار ہے، ہم بے سرو سامانی کی حالت میں حق کا نعرہ بلند کر رہے ہیں لیکن سنا ہے کہ کانگریس تو حق پرست بے سرو سامانوں کو ہی اپنے آغوشِ شفقت میں لینے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ اگر یہ دعویٰ صحیح اور درست ہے تو پھر ہم کو یقین رکھنا چاہیے کہ ہماری آواز نہ صرف سنی جائے گی بلکہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور بھی کیا جائے گا۔

    کانگریس کا نصب العین آزادی ہے اور یہ امر بالکل متحقق اور مسلم ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں نے کانگریس میں شامل ہو کر جو قربانیاں دی ہیں، ان کو کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پشاور کے شہدا مسلمان ہی تھے، جنہوں نے کانگریس کے اصول کی کامیابی کے لیے اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں اور خاک و خون میں تڑپ کر جان دے دی۔ ان قربانیوں سے کانگریس کے وقار میں کس قدر اضافہ ہوا، اس کا جواب کانگریس ہی دے گی۔

    اسمبلی کے گزشتہ انتخاب میں مسلمانوں نے کانگریس کا بہت کچھ ساتھ دیا مگر اب کانگریس کی روش مشتبہ معلوم ہوتی ہے اور وہ شاید مسلمانوں سے اشتراکِ عمل کرنا نہیں چاہتی۔ کانگریس کے اکثر ہندو لیڈر اردو کے مخالف ہیں اور مسٹر پٹوردھن جیسے لوگ تو اردو کی بنیادیں کھوکھلی کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ وہ زبان جس کو کروڑوں انسان بولتے ہیں، جو ہزاروں کتابوں کا سرمایہ رکھتی ہے، کسی طرح مٹائی نہیں جا سکتی۔ اس تخریبی کوشش کا ہاں یہ نتیجہ ضرور برآمد ہوگا کہ ہندو، مسلمانوں کے دل پھٹ جائیں گے اور کانگریس اپنے حصولِ آزادی کے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گی۔

    اگر میرے پاس اطلاعات صحیح پہنچی ہیں، تو مجھے اس کا اظہار کرتے ہوئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ کانگریس کے اجلاسوں کی کارروائیاں خالص ہندی زبان اور ہندی رسم الخط میں چھپوا کر تقسیم کی گئیں۔ خدا کرے یہ اطلاعات غلط ہوں، لیکن اگر صحیح ہیں تو پھر کانگریس کی اس غیر دانش مندانہ روش پر ماتم کرنا پڑے گا۔

    اس کے بعد کانگریس سے یہ عرض کرنا ہے کہ اردو رسم الخط اور اردو کا سرحد، کابل، بلوچستان، کاشغر، لداخ، ایران، عراق، شام، فلسطین، شرق اردن، حجاز، یمن، مصر، جنوبی افریقہ، جاوہ وغیرہ ممالک سے گہرا تعلق ہے اور لسانی اعتبار سے ترکستان سے بھی شناسائی ہے، ان تمام ممالک میں اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں جہاں فارسی اور عربی بولی جاتی ہے، اردو جاننے والا کسی نہ کسی حدتک اپنا ما فی الضمیر ادا کرسکتا ہے۔

    اس اعتبار سے آزاد ہندوستان کروڑوں باشندوں سے اپنے تعلقات آسانی کے ساتھ قائم کرسکے گا اور تجارتی اور سیاسی سہولتیں پیدا ہو جائیں گی۔ کیا کانگریس اردو کو ختم کر کے ان ممالک سے بیگانہ بننا چاہتی ہے جن سے ہمسایگی، قربت اور ایشیائی ثقافت کے باعث تعلقات قائم رکھنا پڑیں گے۔ اردو زبان میں بین الاقوامی شان پیدا ہوگئی ہے، اور دنیا اس کو قبول کرتی جارہی ہے، کانگریس کو تو اردو کے شیوع میں مدد دینی چاہیے تاکہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کے خیالات غیرلوگوں تک پہنچیں اور وہ ہمارا وزن محسوس کریں۔

    کانگریس اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہوگی کہ سول نافرمانی کے زمانے میں جن مقررین نے ملک میں آگ لگائی اور ملک میں بیداری پیدا کی، ان میں سے زیادہ تعداد اردو بولنے والوں کی تھی۔ وہ قوت جو کانگریس کا دست و بازو رہ چکی ہے، کیا کانگریس اس کو بیکارکر دینا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اردو زبان اپنے اندر خطابت کی بڑی گنجایش رکھتی ہے اور اس زبان کے ذریعہ ملک و قوم کی بہت کچھ خدمت کی جاسکتی ہے۔ کیا کانگریس ہمارے اشارات پر غور کرے گی؟

    سنسکرت کا تجزیہ
    اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اردو، ہندی کے بنیادی موضوع پر آتے ہیں۔ جس ہندی زبان کے پرچار کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کی اصل سنسکرت اور پراکرت زبان ہے۔ پہلے ہم کو ہندی یا دیوناگری کے ماخذ (سنسکرت) پر نظر ڈالنی چاہیے کہ دنیا میں اس کا کیا درجہ رہا ہے اور اس وقت اس کی کیا حیثیت ہے؟ بھارت ورش کی قدیم تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ بھارت باشیوں نے غیرملکوں سے تعلقات پیدا کرنے کی عام طور پر کوشش نہیں کی۔

    بھارت کے رہنے والے اپنے ملک کی چہار دیواری ہی میں امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، اپنے ملک سے باہر جانے کی انہوں نے یا تو ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور ضرورت محسوس کی تو وہ وطن کی جدائی شاید گوارا نہ کرسکے۔ یہ تو معاشرتی اور تجارتی نوعیت تھی۔ اب مذہب باقی رہ جاتا ہے۔ مذہب کی تبلیغ کے سلسلہ میں دوسری قوموں اورملکوں سے تعلقات قائم ہو جایا کرتے ہیں مگر ہندوؤں کا قدیم مذہب کسی ایسے شحص کو جو دھرم سماج گھرانے میں پیدا نہیں ہوا، اپنے اندر جذب کرنے سے صاف انکار کردیتا ہے۔ بھارت کے قدیم باشندوں (اہل ہنود) کے اسی طرزِ عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی خطہ پر نہ تو ہندو دھرم کا سایہ پڑ سکا اور نہ ہندو تہذیب کا کوئی نقش باقی رہ سکا۔ بھارت باشیوں نے اپنے کو دوسرے خطوں سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی اور وہ بھارت ورش کے مرغزاروں میں ہی گھوما کیے۔

    سنسکرت ان لوگوں کی مادری زبان تھی، لہٰذا ان کی اس اجنبیت اور الگ تھلگ رہنے کا یہ اثر ہوا کہ ان کی زبان میں ’’بین الاقوامی‘‘ استعداد کبھی پیدا نہ ہوسکی اور شاید دنیا کے کسی لٹریچر کی ایک کتاب بھی سنسکرت میں منتقل نہیں ہوئی۔ ہم سنسکرت کے مصنفین کی علوِ خیالی اور جادو نگاری کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کا طائرِ خیال ہمالیہ کی چوٹیوں سے آگے نہیں اڑ سکتا اور ان کی جادو نگاری کا چشمہ گنگا، جمنا میں گھل مل کر رہ جاتا ہے۔ اس زمانہ میں سنسکرت شباب پر تھی اور ہندو راجاؤں کے اقبال کا چراغ گنگا، جمنا کی لہروں پر جلتا تھا، اس زمانہ میں ہی جب سنسکرت کو وسعت دے کر ’’بین الاقوامی‘‘ زبان نہیں بنایا گیا، تو اس وقت کیا امید ہوسکتی تھی، جب کہ ان کے اقبال کا چراغ گل ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بہت سے پلٹے کھائے، سنسکرت نے بھی بہت سے چولے بدلے اور آخر یہ زبان بالکل مردہ ہو گئی۔

    جس دریا کا منبع ہی خشک ہوگیا ہو، اس کے بہتے رہنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ جب ہندی زبان کا ماخذ ہی ’’بین الاقوامیت‘‘ پیدا نہ کرسکا اور آخر کار وہ مردہ ہو گیا، تو پھر ہندی زبان سے ہم اس کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں جب کہ غیرممالک کے تعلقات ہندوستان سے قایم ہو رہے ہیں، افہام و تفہیم، رسل و رسائل اورنامہ و پیام کا ذریعہ بن سکے گی۔

    ہندی زبان کی ساخت کچھ اس نوعیت کی ہے کہ اس میں دوسری زبانوں کے لٹریچر منتقل کیے جانے کی صلاحیت ہی نہیں پائی جاتی۔ اس کے ثبوت کے لیے سنسکرت، پراکرت، برج بھاشا اور ہندی کی کتابیں اٹھا کر دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ دوسری زبانوں کے لٹریچر سے یہ زبانیں یکسر خالی ہیں۔ ہندی میں خود کوئی جان اور وسعت نہیں ہے، اس کو دوسری زبانوں کے لٹریچر کے ترجمہ کے لیے سنسکرت کے الفاظ سے امداد لینا پڑے گی۔ لیکن اس معاملہ میں سنسکرت تو خود تہی مایہ اور کنگال ہے۔ برخلاف اس کے اردو زبان میں، دنیا کی مختلف زبانوں کی سیکڑوں کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جب کبھی خاص اصطلاحات کے لیے جدید الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے، تو اردو اپنی پشت پر فارسی، عربی کا لامحدود سرمایہ پاتی ہے جو اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ فارسی اور عربی زبان کی ’’بین الاقومیت‘‘ ظاہر ہے، ان ہی زبانوں کے اثر نے اردو میں بھی ’’بین الاقوای استعداد‘‘ پیدا کر دی اور وہ دنیا کے ہر لٹریچر کے ہر مفہوم کو ادا کرسکتی ہے۔

    اردو کی مقبولیت
    اردو زبان میں اس قدر جاذبیت اور دلچسپی ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ جب ہندوستان میں آتے ہیں تو اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ عربوں اورایرانیوں کو چھوڑیے، شاید ہی کوئی ایسا انگریز ملے گا، جس نے ہندی زبان، اور ہندی رسم الخط اختیار کیا ہو، برخلاف اس کے اردو جاننے والے اور اردو لکھنے والے بہت سے انگریز ملیں گے، ایک دو انگریزوں نے تو اردو میں شعر بھی کہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی نے مولوی عبدالکریم صاحب اکبر آبادی کو اردو زبان سیکھنے کے لیے بلایا تھا۔ یہ اس زمانہ کا قصہ ہے جب کہ اردو لٹریچر کو زیادہ وسعت حاصل نہیں ہوئی تھی مگر زبان کی شیرینی، جامعیت اور بین الاقوامی شان تو اس وقت بھی موجود تھی۔

    ہندوستان میں ہندی کے بہت سے اخبار اوررسالے نکلتے تھے لیکن غیر ممالک میں شاید ہی کوئی ہندی رسالہ یا اخبار جاتا ہو، مگر اردو کے بہت سے رسالے اور اخبار، دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں اردو کے مشاعرے ہوتے ہیں اور اردو لٹریچر کی وہاں بہت کچھ مانگ ہے۔ ایک افریقی صاحب نے ڈربن میں ہوٹل قائم کیا ہے، انہوں نے مجھ سے ایک قطعہ اور اردو تحریر کا ایک نمونہ طلب کیا ہے، جسے وہ ہوٹل میں آویزاں کرنا چاہتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افریقہ میں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی کافی تعداد ہے۔ میں اپنے متعلق اس قسم کی باتیں لکھنے کاعادی نہیں ہوں مگر ضرورت نے مجبور کردیا۔

    اردو کی ہمہ گیری
    اردو کو مٹاکر ہندی کو فروغ دینے کے یہ معنی ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے حافظوں سے وہ الفاظ محو کر دیے جائیں جو زبانوں پر چڑھ چکے ہیں اور خیالات میں سما چکے ہیں۔ کیا یہ کوشش کسی طرح بھی تعمیری کہی جاسکتی ہے؟ کسی عمارت کو اسی وقت مسمار کیا جاتا ہے، یا تو وہ کمزور ہوگئی ہو یا زمانے کے حسین ڈیزائنوں کے مقابلہ میں بھدی اور بدشکل ہو، مگر ایک مستحکم اور حسین عمارت کو مسمار کر دینا تو ایک ایسی شدید حماقت ہے، جس پر انسانوں کو نہیں، بندروں کو ہنسی آنی چاہیے۔

    مگر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ کوشش کبھی بارآور نہیں ہوسکتی، کروڑوں انسانوں کی زبان کو مٹا دینا ناممکن ہے۔ ہم ہندی کے پرستاروں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ تخریبی کارروائی کرنے سے قبل، دیہات اور قریوں میں جاکر اردو کی ہمہ گیری، جامعیت اور قبولیت کا پہلے اندازہ لگا لیں، اس کے بعد وہ کوئی اقدام کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ دو گھروں کے کھیڑے میں بھی اردو زبان کے میٹھے بولوں کو سنیں گے۔

  • شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ہند کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور مذہب کی بنیاد پر فسادات میں قتل و غارت گری پر کئی افسانے اور مضامین سپردِ‌ قلم کیے ہیں جو زمین پر لکیر کھینچے جانے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اس وقت کے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ لرزہ خیز اور نہایت درد ناک بھی ہیں اور بعض جگہ ان واقعات کی بدولت ایک مضحکہ خیز اور دل چسپ صورتِ حال نے جنم لیا۔

    منٹو ایک مضمون میں دو ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جو اسی دور میں بلوے اور لڑائی جھگڑوں‌ کے دوران پیش آئے۔ یہ غالباً ہندوستان کے کسی شہر میں پیش آنے والے دو دل چسپ واقعات ہیں۔ منٹو لکھتے ہیں:

    ایک سڑک پر ایک انگریز اپنی موٹر میں جا رہا تھا۔ چند آدمیوں نے اس کی موٹر روک لی۔ انگریز بہت گھبرایا کہ نہ معلوم یہ سر پھرے لوگ اس کے ساتھ کس قسم کا وحشیانہ سلوک کریں گے، مگر اس کو حیرت ہوئی جب ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’دیکھو، اپنے شوفر کو پیچھے بٹھاؤ اور خود اپنی موٹر ڈرائیو کرو۔۔۔ تم نوکر بنو اور اس کو اپنا آقا بناؤ۔‘‘ انگریز چپکے سے اگلی سیٹ پر چلا گیا۔ اس کا شوفر بوکھلایا ہوا پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بلوہ پسند لوگ اتنی سی بات پر خوش ہو گئے۔ انگریزکی جان میں جان آئی کہ چلو سستے چھوٹ گئے۔

    ایک جگہ بمبئی کے ایک اردو فلمی اخبار کے ایڈیٹر صاحب پیدل جا رہے تھے۔ بل وصول کرنے کی خاطر انہوں نے سوٹ ووٹ پہن رکھا تھا۔ ہیٹ بھی لگی تھی۔ ٹائی بھی موجود تھی۔ چند فسادیوں نے انہیں روک کر کہا، ’’یہ ہیٹ اور ٹائی اتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے ڈر کے مارے یہ دونوں چیزیں ان کے حوالے کر دیں۔ جو فوراً دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونک دی گئیں۔ اس کے بعد ایک نے ایڈیٹر صاحب کا سوٹ دیکھ کر کہا، ’’یہ بھی تو انگریزی ہے، اسے کیا نہیں اتروانا چا ہیے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب سٹپٹائے کہ اب کیا ہوگا، چنانچہ انہوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ ان لوگوں سے کہا، ’’دیکھو، میرے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے جسے پہن کر میں فلم کمپنیوں میں جاتا ہوں اور مالکوں سے مل کر اشتہار وصول کرتا ہوں۔ تم اسے جلا دو گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ میری ساری بزنس برباد ہو جائے گی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کی آنکھوں میں جب ان لوگوں نے آنسو دیکھے تو پتلون اور کوٹ ان کے بدن پر سلامت رہنے دیا۔

  • علّامہ اقبال حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر

    علّامہ اقبال حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر

    1905ء میں یورپ روانگی کے ارادے سے علّامہ اقبال لاہور سے دلّی پہنچے تو وہاں خواجہ نظام الدّین اولیاء کی درگاہ پر حاضری دی۔ اس درگاہ پر اقبال نے اپنی نظم ’التجائے مسافر‘ پڑھی تھی۔

    محبوب الٰہی نظام الدّین اولیاء سلسلۂ چشتیہ کے چوتھے صوفی بزرگ تھے جن کے ارادت مند برصغیر میں پھیلے ہوئے تھے اور آج بھی ان کے عرس پر کثیر تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ علّامہ اقبال کو اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام سے بڑی عقیدت تھی اور اس کا اندازہ ان کی نظم کے اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں؛ ’دو دفعہ حضرت خواجہ نظام الدّین کی درگاہ پر حاضر ہوا تھا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنوائی۔‘

    علّامہ کبھی کبھار دلّی آتے تھے، جس کی ایک وجہ ان کا حکیم نابینا سے علاج معالجہ کا سلسلہ بھی تھا۔ ستمبر میں یورپ روانگی سے قبل دلّی آمد کے بعد وہاں مختصر قیام کے دوران علّامہ اقبال اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب کے مدفن پر بھی گئے تھے۔

    دلّی کی روداد علّامہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے: ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا۔ ازاں بعد حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن بسر کیا۔ اللہ اللہ! حضرت محبوب الہیٰ کا مزار بھی عجیب جگہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے۔ خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں۔ شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہوجائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے، جس پر خاکِ دہلی ہمیشہ ناز کرے گی۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا، اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر”دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی…..” کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہوگئیں، بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا:

    وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
    اٹھیے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی

    تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا، آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوحِ مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔

    اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں، مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا۔ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھا، دارا شکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ھوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرت ناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا، جو صفحۂ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ تین ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا اور 4 ستمبر کو خدا خدا کر کے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا۔

  • ناسخ کا تذکرہ جو شاعری کو بھول گیا تھا!

    ناسخ کا تذکرہ جو شاعری کو بھول گیا تھا!

    ذرا غور کیجیے، شیخ امام بخش ناسخ زندگی اور شاعری دونوں میں یتیم تھے۔ باپ کا نام خدا بخش تھا، وطن لاہور تھا۔ زمانے کی گردش نے با پ سے وطن چھڑوا دیا اور عالمِ غربت میں فیض آباد کا منھ دکھایا، جہاں ناسخ پیدا ہوئے۔

    کہا جاتا ہے کہ ناسخ خدا بخش کے بیٹے بھی نہیں تھے بلکہ متنبی تھے۔ خدا بخش کے مرنے کے بعد بھائیوں نے دعویٰ کیا کہ امام بخش کوئی نہیں ہوتے اور خدا بخش کی کل دولت انھیں ملنی چاہیے۔ مگر ناسخ کی خود اعتماری دیکھیے کہ انھوں نے کہہ دیا مجھے مال و دولت سے کچھ غرض نہیں، جس طرح ان کو باپ سمجھتا تھا آپ کو سمجھتا ہوں، اتنا ہے کہ جس طرح وہ میری ضروریات کی خبر گیری کرتے تھے اسی طرح آپ فرمائیے۔ انھوں نے قبول کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جائیداد کے جھگڑے میں بد نیّت چچا نے بیسنی روٹی اور گھی میں ناسخ کو زہر دیا۔ لیکن یہ زہر کارگر نہ ہوا۔

    کچھ پیش نہیں جاتی قسمت کے دھنی سے

    عمر بھر کسی کی نوکری نہیں کی۔ پہلی دفعہ جب الہ آباد آئے، راجہ چندو لال نے بارہ ہزار روپے بھیج کر بلا بھیجا۔ انھوں نے لکھ بھیجا، اب جاؤں گا تو لکھنؤ ہی جاؤں گا۔ راجہ موصوف نے پھر خط لکھا بلکہ پندرہ ہزار روپے بھیج کر بڑے اصرار سے کہا کہ یہاں تشریف لائیے گا تو ملک الشعراء کا خطاب دلواؤں گا، حاضریٔ دربار کی قید نہ ہو گی، ملاقات آپ کی خوشی پر رہے گی۔ انھوں نے منظور نہ کیا۔

    پھر سنیے کہ غازی الدین حیدر کے عہد میں جب ان کی تعریفوں کا آوازہ بہت بلند ہوا تو انھوں نے کہلوایا کہ اگر شیخ ناسخ ہمارے دربار میں آئیں اور قصیدہ سنائیں تو ہم انہیں ملک الشعراء خطاب دیں۔ جب یہ پیغام ان کے شاگرد نواب معتمد الدّولہ نے پہنچایا تو ناسخ نے بگڑ کر جواب دیا کہ مرزا سلیمان شکوہ بادشاہ ہو جائیں تو وہ خطاب دیں۔ اِن کا خطاب لے کر میں کیا کروں گا۔

    غازی الدّین حیدر ذرا خطرناک آدمی تھے۔ ناسخ کو لکھنؤ چھوڑ کر غربت اختیار کرنی پڑی، لیکن غازی الدّین حیدر کے دربار میں نہ گئے اور ان کے لیے یا کسی کے لیے عمر بھر کوئی قصیدہ نہ کہا — حالانکہ کچھ نقادوں کو اس کی حسرت رہ گئی کہ ناسخ قصیدہ کی طرف مائل ہوتے۔

    اردو شعراء پر جو سہل پسندی سے یہ حکم لگا دیا جاتا ہے کہ وہ لالچی، خوشامدی دربار پرست اور ثروت پرست ہوتے ہیں یا ہوتے تھے۔ وہ تصویر کا محض ایک رخ ہے اور وہ بھی سب سے زیادہ نظر فریب اور دلکش رخ نہیں ہے۔ مجھے تو اُردو شاعروں کی دنیا پرستی میں بھی ایک لطیف عنصر ملتا ہے۔

    ناسخ کا دل کتنا بڑا تھا، اس کی ایک جھلک تو ہم آپ نے دیکھ لی۔ اب دیکھیے کہ شاعری میں بھی کس انداز سے بے یار و مددگار شخص اپنی دھاک بٹھا کر رہا اور دہلی سے لکھنؤ تک بلکہ براعظم ہند کے اس تمام حصے پر چھا گیا جہاں ہندوستانی زبان بولی یا سمجھی جاتی ہے۔ ناسخ کی شاعری کس طرح شروع ہوئی اس کا حال مصنفِ آبِ حیات (آزاد) سے سنیے:

    شاعری میں کسی کے شاگرد نہ تھے۔ روایت ہے کہ ایک بار ناسخ نے آغازِ شاعری کا حال یوں بیان فرمایا کہ میر تقی میر مرحوم ابھی زندہ تھے، جو مجھے ذوقِ سخن نے بے اختیار کیا۔ ایک دن نظر بچا کر کئی غزلیں خدمت میں لے گیا۔ انھوں نے اصلاح نہ دی میں دل شکستہ ہو کر چلا آیا اور کہا کہ میر صاحب بھی آخر آدمی ہیں فرشتہ تو نہیں۔ اپنے کام کو آپ ہی اصلاح دوں گا، چنانچہ عرصے کے بعد پھر فرصت میں نظرِ ثانی کرتا اور بناتا۔ غرض مشق کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ لیکن کسی کو سناتا نہ تھا۔ جب تک خوب اطمینان نہ ہوا مشاعرے میں غزل نہ پڑھی نہ کسی کو سنائی۔

    مرزا حاجی صاحب کے مکان پر مشاعرہ ہونا تھا۔ سید انشاء، مرزا قتیل، جرأت، مصحفی وغیرہ سب شعراء جمع ہوتے تھے۔ سب کو سنتا تھا مگر وہاں کچھ نہ کہتا تھا۔ غرض سید انشاء اور مصحفی کے معرکے بھی ہو چکے۔جرأت اور ظہور اللہ خاں نوا کے ہنگامے بھی طے ہوگئے۔ جب زمانہ سارے ورق الٹ چکا اور میدان صاف ہو گیا تو میں نے غزل پڑھنی شروع کی۔’

    اس میں شک نہیں کہ ناسخ پیدائشی لیڈر اور ڈکٹیٹر تھا۔ اس نے سختی سے تکمیل کے ساتھ اور جز رسی کے ساتھ اردو زبان کو منضبط اور منظم کیا اور ہمیشہ کے لیے زبان اور بیان کی بدنظمیوں کو مٹا دیا اور اس معنی میں کہ جتنا بڑا کلیسکس دیوانِ ناسخ ہے آج تک اردو کا کوئی اور دیوان نہیں ہو سکا، جس طرح آگسٹس نے روم کو اینٹ کا پایا اور اسے سنگ مرمر کا بنا کر چھوڑا، اسی طرح جہاں تک زبان و بیان اور شاعری کے خارجی اصولوں اور میونسپل قانونوں کا تعلق ہے، ناسخ نے اقلیمِ غزل کو ایک خودر و جنگل پایا اور اسے کم از کم ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے ایک وسیع البسيط باغ بنا کر چھوڑا۔ شاعرانہ حیثیت سے نہ سہی، لیکن تاریخی حیثیت سے یہ معمولی کارنامہ نہیں۔

    لوگ یہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ دیوانِ ناسخ سے پہلے جو اردو دیوان مرتب ہوتے تھے۔ ان میں سب سے مشہور دیوانِ میر، دیوانِ سودا اور جرأت و مصحفی اور انشاء کے دیوان ہیں۔ ان دواوین کے مرتب ہونے کے پچاس برس کے اندر اندر دیوانِ ناسخ مرتب ہوا۔ لیکن مقابلہ کر کے دیکھیے تو دیوانِ ناسخ کی زبان اور ان کے بزرگ ہم عصروں کی زبان میں ایک صدی کیا شاید کئی صدیوں کا فرق نظر آئے گا۔

    کہا جاتا ہے کہ جب پہلے پہل دیوان ناسخ کی کچھ جلدیں دہلی پہنچیں تو غالب، مومن ذوق اور دوسرے استادوں نے کہا کہ اب تک جو اندازِ بیان رائج تھا، اس کی آخری گھڑی آگئی۔ ہم سب کو اب اسی نئے رنگ میں کہنا ہے۔ شیفتہ ایسا اہلِ نظر ایسا مرعوب ہوا کہ بمقابلہ آتش کے ناسخ کے یہاں اسے زیادہ نشتر نظر آئے۔

    بحیثیت ادبی ڈکٹیٹر کے تو ناسخ کا ثانی کوئی ہوا ہی نہیں۔ اور اب سو برس پہلے کے مغرور ہندوستان سے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے لکھنؤ سے کمزور ہستیوں کی گت بنا دینے والے لکھنؤ سے اپنا لوہا منوا لینا، جیسا میں کہہ چکا ہوں کہ بڑی ٹھوس شخصیت کا کام تھا۔ اب بحیثیت شاعر کے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے— کہ وہ نہایت ثقیل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

    خیر یہ تو صحیح ہے کہ ناسخ نے غزل کو نہ غزل رکھا نہ قصیدہ رکھا بلکہ ایک معجون مرکب بنا دیا۔ لیکن اس کے اشعار کی بلند آہنگی انداز بیان کی تکمیل، بندش کی چستی، مصرعوں کا کس بل اور زور وہ چیزیں ہیں جو اس پہلوانِ سخن کے 1297 ڈنڈ کا اثر اس کی شاعری میں بھی نمایاں کر رہے ہیں۔ اس کے معنی اور مفہوم کو آپ سراسر تصنع کہیں، لیکن جہاں تک منضبط اسلوب بیان کا تعلق ہے، ناسخ کے احسان سے اور تو اور غالب، ذوق، مومن آتش اور ناسخ کے بعد کے اردو زبان کے تمام شعراء گراں بار ہیں۔

    یہ بات ہمیشہ صیغہ راز میں رہے گی کہ غالب نے جو ایک بہت بڑا حصہ اپنے اردو دیوان کا منسوخ کر دیا—اس نظم و نسخ میں دیوانِ ناسخ کا بھی فیصلہ کن اثر پڑا تھا یا نہیں؟ لیکن مصحفی، انشاء، جرأت کی زبان تو دور رہی، کیا زبان کا جو اسلوب آج ہمارا جزوِ دماغ ہو چکا ہے وہ اسلوب، وہ اندازِ زبان غالب مومن اور ذوق کے مروجہ دواوین سے مرتب ہو سکتا ہے؟ غالباً نہیں۔ یہ تو ہوا زبان پر ناسخ کا عالمگیر اور مستقل اثر، اب رہی ناسخ کی شاعری سوا اس کے محاسن و معائب کچھ تو عرض کیے ہی جا چکے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی کہہ دوں کے باوجود تضع اور مبالغہ کے اور باوجود آج سے سو برس پہلے کا لکھنوی شاعر ہوتے ہوئے بھی ابتذال سے جتنا ناسخ کا کلام پاک ہے اُتنا آتش کا بھی نہیں۔ تصنع اور خارجیت اس میں شک نہیں ناسخ کے یہاں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں، لیکن ناسخ کے اندازِ بیان میں جو صفات ہیں وہ کامیاب داخلی شاعری کے لیے کہاں تک کارآمد ہو سکتے ہیں یا وہ داخلی شاعری کی جھلک کہاں تک دکھا سکتے ہیں۔ اس پر شاید بہت کم غور ہمارے نقادوں نے کیا ہے۔

    شب فرقت میں شمع کا کیا ذکر
    زندگی کا چراغ بھی گل ہے

    رو ٹھے ہوئے تھے آپ کئی دن سے من گئے
    بگڑے ہوئے تمام مرے کام بن گئے

    شبِ فراق گئی، روزِ وصل آ پہنچا
    طلوعِ صبح ہے عالم تمام روشن ہے

    جنوں پسند مجھے چھاؤں ہے ببولوں کی
    عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی

    ایسے اشعار کہنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ اشعار ہیں جنھیں میر، غالب اور اقبال بھی اپنے مجموعے میں شامل کرنا فخر سمجھتے۔ ناسخ اگر چاہتا تو ایسے اشعار کی ایک بہت بڑی تعداد کہہ ڈالتا، لیکن وہ آیا تھا زبان کو سنوارنے، صرف زبان کا ہو کر رہ گیا اور شاعری کو بھول گیا۔

    (شاعر اور نقاد فراق گورکھپوری کے مضمون سے اقتباسات)

  • امید کی خوشی (انشائیہ)

    امید کی خوشی (انشائیہ)

    اے آسمان پر بھورے بادلوں میں بجلی کی طرح چمکنے والی دھنک، اے آسمان کے تارو، تمھاری خوش نما چمک، اے بلند پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرنے والی دھندلی چوٹیو! اے پہاڑ کے عالی شان درختو! اے اونچے اونچے ٹیلوں کے دل کش بیل بوٹو! تم بہ نسبت ہمارے پاس کے درختوں اور سر سبز کھیتوں اور لہراتی ہوئی نہروں کے کیوں زیادہ خوش نما معلوم ہوتے ہو؟ اس لیے کہ ہم سے بہت دور ہو۔

    اس دوری ہی نے تم کو یہ خوب صورتی بخشی ہے۔ اس دوری ہی سے تمھارا نیلا رنگ ہماری آنکھوں کو بھایا ہے، تو ہماری زندگی میں بھی جو چیز بہت دور ہے وہی ہم کو زیادہ خوش کرنے والی ہے۔

    وہ چیز کیا ہے؟ کیا عقل ہے؟ جس کو سب لوگ سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ کیا وہ ہم کو آئندہ کی خوشی کا یقین دلا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! اس کا میدان تو نہایت تنگ ہے۔ بڑی دوڑ دھوپ کرے تو نیچر تک اس کی رسائی ہے جو سب کے سامنے ہے۔ او نورانی چہرے والے یقین کی اکلوتی خوب صورت بیٹی، امید! یہ خدائی روشنی تیرے ہی ساتھ ہے۔ تو ہی ہماری مصیبت کے وقتوں میں ہم کو تسلی دیتی ہے۔ تو ہی ہمارے آڑے وقتوں میں ہماری مدد کرتی ہے۔ تیری ہی بدولت نہایت دور دراز خوشیاں ہم کو نہایت ہی پاس نظر آتی ہیں۔ تیرے ہی سہارے سے زندگی کی مشکل مشکل گھاٹیاں ہم طے کرتے ہیں۔ تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی، خوشی کے لیے نام آوری، نام آوری کے لیے بہادری، بہادری کے لیے فیاضی، فیاضی کے لیے محبت، محبت کے لیے نیکی، نیکی کے لیے صلہ تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔

    وہ پہلا گنہگار انسان جب شیطان کے چنگل میں پھنسا اور تمام نیکیوں نے اس کو چھوڑا اور تمام بدیوں نے اس کو گھیرا تو صرف تو ہی اس کے ساتھ رہی۔ تو ہی نے اس نا امید کو نا امید ہونے نہیں دیا، تو ہی نے اس موت میں پھنسے دل کو مرنے نہیں دیا۔ تو ہی نے اس کو ذلت سے نکالا اور پھر اس کو اس اعلیٰ درجہ پر پہونچایا جہاں کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا تھا۔

    اس نیک نبی کو جس نے سینکڑوں برس اپنی قوم کے ہاتھ سے مصیبت اٹھائی اور مار پیٹ سہی، تیرا ہی خوبصورت چہرہ تسلی دینے والا تھا۔ وہ پہلا ناخدا جب کہ طوفان کی موجوں میں بہا جاتا تھا اور بجز مایوسی کے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا تو تو ہی اس طوفان میں اس کی کشتی کھینچنے والی اور اس کا بیڑا پار لگانے والی تھی۔ تیرے ہی نام سے جودی پہاڑ کی مبارک چوٹی کو عزت ہے۔ زیتون کی ہری ٹہنی کو جو وفادار کبوتر کی چونچ میں وصل کے پیغام کی طرح پہنچی، جو کچھ برکت ہے تیری ہی بدولت ہے۔

    اے آسمانوں کی روشنی اور اے ناامیدوں کی تسلی، امید! تیرے ہی شاداب اور سر سبز باغ سے ہر ایک محنت کا پھل ملتا ہے۔ تیرے ہی پاس ہر درد کی دوا ہے۔ تجھی سے ہر ایک رنج میں آسودگی ہے۔ عقل کے ویران جنگلوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھکا ہوا مسافر تیرے ہی گھنے باغ کے سر سبز درختوں کے سایہ کو ڈھونڈتا ہے۔ وہاں کی ٹھنڈی ہوا، خوش الحان جانوروں کے راگ، بہتی نہروں کی لہریں اس کے دل کو راحت دیتی ہیں۔ اس کے مرے ہوئے خیالات کو پھر زندہ کرتی ہیں۔ تمام فکریں دل سے دور ہوتی ہیں اور دور دراز زمانہ کی خیالی خوشیاں سب آ موجود ہوتی ہیں۔

    دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے۔ اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے۔ ہاتھ کام میں اور دل بچے میں ہے اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سو رہ، اے میرے دل کی کونپل سو رہ، بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آنے پاوے، تیری ٹہنی میں کوئی خار کبھی نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آوے، کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی تو نہ دیکھے، سو رہ میرے بچے سو رہ، میری آنکھوں کے نور اور میرے دل کے سرور میرے بچے سو رہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہوگا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہوگی، تیری شہرت، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو ہم سے کرےگا آخر کار ہمارے دل کو تسلی دے گی۔ تیری ہنسی ہمارے اندھیرے گھر کا اجالا ہوگی۔ تیری پیاری پیاری باتیں ہمارے غم کو دور کریں گی۔ تیری آواز ہمارے لیے خوش آیند راگنیاں ہوں گی، سو رہ میرے بچے سو رہ۔ اے ہماری امیدوں کے پودے سو رہ۔

    بولو جب اس دنیا میں ہم تم سے جدا ہو جاویں گے تو تم کیا کرو گے۔ تم ہماری بے جان لاش کے پاس کھڑے ہو گے۔ تم پوچھو گے اور ہم کچھ نہ بولیں گے۔ تم روؤ گے اور ہم کچھ نہ رحم کریں گے۔ اے میرے پیارے رونے والے! تم ہمارے ڈھیر پر آکر ہماری روح کو خوش کرو گے۔ آہ ہم نہ ہوں گے اور تم ہماری یادگاری میں آنسو بہاؤ گے۔ اپنی ماں کا محبت بھرا چہرہ، اپنے باپ کی نورانی صورت یاد کرو گے۔ آہ ہم کو یہی رنج ہے کہ اس وقت ہماری محبت یاد کر کر تم رنجیدہ ہو گے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ۔ سو رہ میرے بالے سو رہ۔

    یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور معصوم ہنسی سے اپنی ماں کے دل کو شاد کرنے لگا اور امّاں امّاں کہنا سیکھا۔ اس کی پیاری آواز، ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہونچنے لگی۔ آنسوؤں سے اپنی ماں کی آتش محبت کو بھڑکانے کے قابل ہوا۔ پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا۔ رات کو اپنی ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا سبق غم زدہ دل سے سنانے لگا اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا اور اپنے بے گناہ دل، بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہو گئیں۔ اس کے ماں باپ اس معصوم سینہ سے سچی ہمدردی دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اور ہماری پیاری امید تو ہی ہے جو مہد سے لحد تک ہمارے ساتھ رہتی ہے۔

    دیکھو وہ بڈھا آنکھوں سے اندھا اپنے گھر میں بیٹھا روتا ہے۔ اس کا پیارا بیٹا بھیڑوں کے ریوڑ میں سے غائب ہو گیا ہے۔ وہ اس کو ڈھونڈتا ہے پر وہ نہیں ملتا۔ مایوس ہے پر امید نہیں ٹوٹی۔ لہو بھرا دانتوں پھٹا کرتا دیکھتا ہے، پر ملنے سے نا امید نہیں۔ فاقوں سے خشک ہے۔ غم سے زار نزار ہے۔ روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئی ہیں۔ کوئی خوشی اس کے ساتھ نہیں ہے مگر صرف ایک امید ہے جس نے اس کو وصل کی امید میں زندہ اور اس خیال میں خوش رکھا ہے۔

    دیکھ وہ بے گناہ قیدی، اندھیرے کنوئیں میں سات تہ خانوں میں بند ہے۔ اس کا سورج کا سا چمکنے والا چہرہ زرد ہے۔ بے یار و دیار غیر قوم، غیر مذہب کے لوگوں کے ہاتھ میں قید ہے۔ بڈھے باپ کا غم اس کی روح کو صدمہ پہنچاتا ہے۔ عزیز بھائی کی جدائی اس کے دل کو غمگین رکھتی ہے۔ قید خانے کی مصیبت، اس کی تنہائی، اس گھر کا اندھیرا اور اس پر اپنی بے گناہی کا خیال اس کو نہایت رنجیدہ رکھتا ہے۔ اس وقت کوئی اس کا ساتھی نہیں ہے۔ مگر اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید! تجھ ہی میں اس کی خوشی ہے۔

    وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پر کوچ کرتے کرتے تھک گیا ہے، ہزاروں خطرے درپیش ہیں مگر سب میں تقویت تجھ ہی سے ہے۔ لڑائی کے میدان میں جب کہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کا عالم ہوتا ہے، دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرأت ہوتی ہے۔ اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور لڑائی کے بگل کی آواز بہادر سپاہی کے کان میں پہنچتی ہے۔ اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہو کر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے۔ اور جبکہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگینیں اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے۔ اور جب کہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھتا ہے تو اے بہادروں کی قوتِ بازو۔ اور اے بہادری کی ماں۔ تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال ان کے دلوں کو تقویت دیتا ہے۔ ان کا کان نقارہ میں سے تیرے ہی نغمے کی آواز سنتا ہے۔

    وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکر کرتا ہے۔ دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے، ہر وقت بھلائی کی تدبیریں ڈھونڈتا ہے۔ ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے، یگانوں بے گانوں سے ملتا ہے۔ ہر ایک کی بول چال میں اپنا مطلب ڈھونڈتا ہے۔ مشکل کے وقت ایک بڑی مایوسی سے مدد مانگتا ہے۔ جن کی بھلائی چاہتا ہے انہیں کو دشمن پاتا ہے۔ شہری وحشی بتاتے ہیں۔ دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں۔ عالم فاضل کفر کے فتووں کا ڈر دکھاتے ہیں۔ بھائی بند عزیز اقارب سب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہو رہتے ہیں،

    وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں
    بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں​

    ساتھی ساتھ دیتے ہیں مگر ہاں ہاں کر کر محنت اور دل سوزی سے دور رہ کر۔ بہت سی ہمدردی کرتے ہیں، پر کوٹھی کٹھلے سے الگ کر کر۔ دل ہر وقت بے قرار ہے۔ کسی کو اپنا سا نہیں پاتا۔ کسی پر دل نہیں ٹھہرتا۔ مگر اے بے قرار دلوں کی راحت اور اے شکستہ خاطروں کی تقویت۔ تو ہی ہر دم ہمارے ساتھ ہے، تو ہی ہمارے دل کی تسلی ہے، تو ہی ہماری کٹھن منزلوں کی ساتھی ہے۔ تیری ہی تقویت سے ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔ تیرے ہی سبب گوہر مراد کو پاویں گے اور ہمارے دل کی عزیز اور ہمارے مہدی کی پیاری ’’امید‘‘ تو ہمیشہ ہمارے دل کی تسلی رہ۔

    اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید۔ جب کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیاوی حیات کا آفتاب لبِ بام ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں میں گرمی نہیں رہتی۔ رنگ فق ہو جاتا ہے۔ منہ پر مردنی چھاتی ہے۔ ہوا ہوا میں، پانی پانی میں، مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہوتی ہے۔ اس وقت اس زرد چہرے اور آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے ہونٹوں اور بے خیال بند ہوتی ہوئی آنکھوں اور غفلت کے دریا میں ڈوبتے ہوئے دل کو تیری یادگاری ہوتی ہے۔ تیرا نورانی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ تیری صدا کان میں آتی ہے اور ایک نئی روح اور تازہ خوشی حاصل ہوتی ہے اور ایک نئی لازوال زندگی کی جس میں ایک ہمیشہ رہنے والی خوشی ہوگی، امید ہوتی ہے۔

    یہ تکلیف کا وقت تیرے سبب سے ہمارے لیے موسمِ بہار کی آمد آمد کا زمانہ ہو جاتا ہے۔ اس لازوال خوشی کی امید تمام دنیاوی رنجوں اور جسمانی تکلیفوں کو بھلا دیتی ہے اور غم کی شام کو خوشی کی صبح سے بدل دیتی ہے۔ گو کہ موت ہر دم جتاتی ہے کہ مرنا بہت خوف ناک چیز ہے۔ او ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی دوسری دنیا جس میں ہم کو ہمیشہ رہنا ہے جہاں سورج کی کرن اور زمانے کی لہر بھی نہیں پہنچتی۔ تیری راہ تین چیزوں سے طے ہوتی ہے، (۱) ایمان کے توشے۔ (۲) امید کے ہادی اور (۳) موت کی سواری سے۔ مگر ان سب میں جس کو سب سے زیادہ قوت ہے وہ ایمان کی خوبصورت بیٹی ہے جس کا پیارا نام ’’امید‘‘ ہے۔

    لوگ کہتے ہیں کہ بے یقینوں کو موت کی کٹھن گھڑی میں کچھ امید نہیں ہوتی مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیری بادشاہت وہاں بھی ہے۔ قیامت پر یقین نہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ تمام زندگی کی تکلیفوں کا اب خاتمہ ہے اور پھر کسی تکلیف کے ہونے کی توقع نہیں ہے۔ وہ اپنے اس بے تکلیف آنے والے زمانے کی امید میں نہایت بردباری سے اور رنجوں کے زمانے کے اخیر ہونے کی خوشی میں نہایت بشاشت سے یہ شعر پڑھتا ہوا جان دیتا ہے،

    بقدر ہر سکوں راحت بود بنگر تفاوت را
    دویدن، رفتن، استادن، نشتن، خفتن و مردن

    (از مقالاتِ سر سید، جلد چہارم)​

  • فن یا آرٹ اور طبقاتی سطح پر انقلاب

    فن یا آرٹ اور طبقاتی سطح پر انقلاب

    آج میں اس گفتگو کا آغاز اس مسئلے سے شروع کرنا چاہتا ہوں کہ فن یا آرٹ کی (اردو ادب جس کا ایک جزو ہے) ہماری زندگی میں ضرورت کیا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ پہلا فن کار غالباً وہ انسان تھا یا انسانوں کا وہ گروہ تھا جس نے سب سے پہلے معمولی کھردرے پتھر کو اوزار کی شکل میں ڈھالا، ایک حربہ جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرنے کے لیے جانوروں کا شکار کرسکے۔ اور جب انسانوں نے ایک طرح کے بہت سے اوزار بنا لیے ہوں گے، تب ہی اس اوزار کو بہتر طور سے سمجھنے، پہچاننے اور اس کے استعمال پر مہارت حاصل کرنے کے لیے ان کے ذہن میں پتھر کے کلہاڑے کا مجرد تصور بھی پیدا ہوا ہوگا۔ اور وہ لفظ بااسم وجود میں آیا ہوگا جس سے پتھر کے کلہاڑے کو عام طور سے پہچانا جاسکے۔ اس طرح الفاظ انسانی عمل اور اس عمل کے مادی آثار کی تشبیہ بھی ہیں اور اپنے مفہوم کے وسیلے سے دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتہ بھی قائم کرتے ہیں۔ لفظ کی قوت کا اندازہ کیجیے، جس کے اختراع سے تاریکی میں جیسے روشنی ہو جاتی ہے، انسان خود کو زیادہ طاقت ور محسوس کرتا ہے، قدرت کی اندھی طاقتوں اور اپنے مشکل ماحول پر قابو پانے کی زیادہ صلاحیت اس میں پیدا ہوتی ہے۔

    ایک طرف قدرت کی بے پناہ اندھی طاقتوں، گرمی، سردی، طوفان، بارش اور سیلاب، تاریکی، وحشی درندے اور زہریلے سانپ، وہ طاقتیں اور چیزیں جن کے قوانین ابھی تک انسان نے سمجھے نہیں تھے اور جس ناسمجھی کے سبب سے انسان کو اپنی سخت بے بسی کا احساس ہوتا تھا، اور دوسری طرف انسان کا عمل، اس کے دو ہاتھوں کی طاقت اس کی اوزار بنانے کی اور رفتہ رفتہ ذہن اور زبان، تصور اورخیال کے ذریعہ چیزوں، حادثات، انسان اور قدرت اور انسان اور انسان کے مابین رشتوں اور تعلقات کو سمجھنے اور پھر سمجھانے کی صلاحیت، لاچاری اور بے بسی اور صلاحیت، بس، اور ابھرتے ہوئے شعور کے درمیان سخت نفسیاتی تناؤ اور تشنج پیدا کرتے ہوں گے، ایسا ذہنی اور روحانی ہیجان پیدا کرتے ہوں گے جو انسان کو اس مخمصے سے نجات دلانے کے لیے نئی راہوں اور نئے طریقوں کی دریافت پر اکساتا ہوگا۔

    لفظوں کا جادو: ایسے ماحول اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیت میں انسان نے لفظوں کی طلسمی کیفیت محسوس کی۔ لفظ جو شعور اور معنی، تخیل اور فکر کا صوتی اظہار کرتے تھے، اسم اعظم جس کے دہرانے سے اپنے ماحول اور حالات زندگی اور جہد حیات پر قدرت حاصل کرنے کے لیے نفسیاتی، ذہنی اور روحانی طور پر وہ اپنے کو زیادہ مضبوط اور طاقت ور بنا سکتا تھا۔ پھر قدرت کے مظاہر، موت اور زندگی، روشنی اور آگ، جنس کی کشش، ان سب سے پیدا ہونے والا تحیر، انسان کی اجتماعی زندگی سے ان کا تعلق، تمام ان چیزوں کو اور ان کے قوانین اور اصل کو سمجھنے کی کوشش، زندگی کو بہتر، زیادہ کامیاب اور بار آور بنایا جا سکے۔ اسی کاوش اور کوشش، اور اس کے تجربے، شعور اور خیال کے اتحاد سے انسانی گروہوں کے ابتدائی مذہبی عقائد، دیوی دیوتا، جادو اور انھیں کے ساتھ ساتھ اجتماعی ناچ اور گیت (متوازن عمل اور الفاظ کے صوتی اور تخئیل اثر کا امتزاج) نیز غاروں اور گپھاؤں کی قدیم ترین تصویر کشی، یعنی فنون لطیفہ وجود میں آئے۔

    لیکن قدیم اشتراکی معاشرت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اجتماعی عمل، اجتماعی زندگی اور فن کی وحدت بھی باقی نہیں رہی۔ طبقاتی معاشرت میں، جہاں ایک طرف نئے وسائل اور ذرائع پیداوار کی دریافت کی وجہ سے، انسان کے مادی وسائل میں زبردست اضافہ ہوا، تہذیب اور مدنیت وجود میں آئے، آبادی میں اضافہ کے لیے وسائل فراہم ہوسکے۔ اسی کے ساتھ مالک اور غلام، اہل دول اور مفلس، محنت کش طبقوں کا وجود، اپنے تمام تضادات کے ساتھ بھی ظاہر ہوا۔ حکمراں، مالک اور استحصال کرنے والے طبقوں کے فنون اپنی خاص خصوصیت رکھنے لگے، اور ان طبقوں کا فن جن کا استحصال ہوتا تھا، جن کے دست و بازو کی محنت سے معاشرت کی تمام وہ پیداوار اور زائد پیداوار وجود میں آتی تھی، جس پر تہذیب و تمدن کی بنیاد اور چمک دمک تھی، ان کے فنون مثلاً لوک گیت، ناچ، مروجہ مذہبی عقائد کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک طرح کا فلسفیانہ انحراف، ان کی دست کاری ان کا بھی وجود رہا اور ان کا ارتقا ہوتا تھا۔

    شاعر ادیب ، فن کار اس طبقاتی سماج سے باہر نہیں تھا۔ دربار اور استحصال کرنے والے طبقوں سے وابستگی اسے کبھی ایک طرف کو کھینچتی تھی، کبھی وہ عوامی محنت کش طبقوں سے وابستگی محسوس کرتا تھا (جن کا بیشتر وہ ایک فرد ہوتا تھا) کبھی وہ اس گم شدہ جنت، کھوئی ہوئی اجتماعیت کے خواب دیکھتا تھا، جب سب انسان مفلس سہی، لیکن برابر تھے، اور کبھی وہ یہ سوچتا تھا کہ مصائب اور مظالم کا یہ لامتناہی سلسلہ شاید موت کے بعد، کسی دوسری زندگی میں ختم ہوجائے گا اور دنیا کے جہنم سے نکل کر اسے ایسی جنت میں پناہ ملے گی، جہاں ظلم، جھوٹ غرور اور نخوت، نفرت، حسد، جنگ اور خونریزی کا نام و نشان نہ ہوگا، اور انسان امن، محبت، عیش و عشرت کے ماحول میں ابدی زندگی گزار سکیں گے۔

    سماج کی طبقاتی کش مکش: سرمایہ داری کے جدید نظام میں، جو انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد رفتہ رفتہ امپریالزم کی شکل میں ساری دنیا پر حاوی ہوگیا، اگر ایک طرف دنیا کو انواع اقسام کی مادی ضرورتوں کو پوری کرنے والی اشیا سے بھر دیا، اور جس کی وجہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی اور تیز رفتار ترقی ہوئی، اور جس کے سبب سے بڑی مشینی صنعتوں میں اجتماعی طور سے کام کرنے والا، نیا صنعتی محنت کشوں کا طبقہ وجود میں آیا، جس کا اس کے پہلے کے جاگیری یا تاجر سرمایہ دار معیشت میں وجود نہیں تھا، تو دوسری طرف سرمایہ داری نے سماج کی طبقاتی کش مکش، محکوم اور حاکم استعماری ملکوں کی کش مکش کو بہت زیادہ تیز کر دیا، اور ایسے معاشرتی حالات اور کیفیتیں پیدا کیں جن میں بحیثیت فرد کے انسان کی بے گانگی (Alienation) کا احساس شدید اور جاں گداز بن گیا۔ یہ کیفیت بنیادی طور پر اس لیے پیدا ہوتی ہے چونکہ سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کش مزدور اور اس کے عمل اور سلسلہ عمل میں بیگانگی ہوتی ہے۔ مارکس نے اس کیفیت کی تشریح یوں کی ہے:

    کام، مزدور سے علاحدہ ہوتا ہے، یعنی وہ اس کی فطرت کا حصہ نہیں ہوتا، نتیجہ کے طور پر وہ کام کرکے یہ نہیں محسوس کرتا کہ اپنی تکمیل کر رہا ہے، بلکہ وہ اسے ایک قربانی سمجھتا ہے، اسے اپنی لاچاری کا نہ کہ خوش حالی کا احساس ہوتا ہے، اس کے ذریعہ سے اس کا جسمانی اور ذہنی فروغ نہیں ہوتا، بلکہ وہ جسمانی طور سے تھکاوٹ اور ذہنی طور سے گراوٹ محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اپنے فرصت کےاوقات میں مزدور اطمینان محسوس کرتا ہے، کام کے اوقات میں اسے اپنی بے نوائی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا کام اس کی مرضی کا نہیں، وہ اسے کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے، کام خود اس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی دوسری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ کام کی یہ بے گانہ خصوصیت اس بات سے صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ جب کوئی جسمانی یا دوسری مجبوری نہیں ہوتی تب وہ طاعون کی طرح اس سے گریز کرتا ہے۔ اور آخر میں کام کی بے گانہ خصوصیت اس بات سے بھی صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کام خود اس کے لیے نہیں، بلکہ کسی اور کے لیے ہے، یعنی کام کرتے وقت وہ اپنا مالک نہیں ہوتا، کسی دوسرے شخص کا محکوم ہوتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے مذہب میں، انسانی تخیل کے عمل، یعنی انسانی دماغ اور ذہن کے عمل کا آزادانہ ردعمل ہوتا ہے، اور یہ دیوتاؤں اور شیطانوں کا ایک فرد بے گانہ عمل معلوم ہوتا ہے، اسی طرح مزدور کا عمل اس کا اپنا عمل نہیں ہوتا، اس کے برخلاف کسی دوسرے کا عمل معلوم ہوتا ہے اس کی اپنی بے ساختگی کا اتلاف ہوتا ہے۔

    دوسری جگہ بے گانگی کے متعلق مارکس نے کہا ہے: ’’مزدور، شے (جسے وہ بناتا ہے) میں اپنی جان لگا دیتا ہے، اس طرح اس کی جان اپنی نہیں بلکہ اس شے کی ملکیت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ جتنا زیادہ عمل کرتا ہے، اتنا ہی کم اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کے عمل سے بنی ہوئی شے میں جتنا زیادہ اس کا عمل ہوتا ہے، وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ شے جتنی بڑی ہوگی اتنا ہی وہ خود کم ہوگا۔ اس کی بنائی ہوئی شے سے مزدور کی یہ بے گانگی، نہ صرف اس کے عمل کو ایک شے بناتی ہے، یہ شے، اس سے علاحدہ اپنی ایک مطلق ہستی رکھنے لگتی ہے۔ اس کا وجود اس کی ہستی سے باہر ہوتا ہے، اس سے بے گانہ ہوتا، اور یہ ایک خود مختار قوت بن کر اس کی مخالفت میں سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اپنی جان جو اس نے اس شے میں لگائی ہے۔ اب ایک بے گانہ اور مخالف قوت بن کر اس کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔‘‘

    سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی: اس نفسیاتی بے گانگی کے ساتھ ساتھ جدید عہد کی بعض دوسری خصوصیتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹکنالوجی کی غیر معمولی اور تیز رفتار ترقی کا زمانہ ہے۔ جن کی مدد سے اور جن کو استعمال میں لاکر انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں نے، افلاس، بیماریوں اور بہت سی دوسری محرومیوں سے، جو قبل کے زمانوں میں انسانوں کی قسمت تھی، نجات حاصل کرلی ہے۔ اور اس کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ ساری نوع انسان کو تکلیف دہ مشقت، افلاس، بیماری، ناخواندگی، پس ماندگی سے چھٹکارا دلا کر مادی خوش حالی فراہم کی جاسکے۔ ترقی کی اس تیز رفتاری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ممالک متحدہ امریکا کے ایک سائنسی ادارے کےصدر گل برٹ وڈمین نے کہا ہے؛

    ’’۱۹۵۰-۵۶ء کے درمیان سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں علم کی مقدار دگنی ہوگئی، اور غالباً اس کے بعد کی مدت میں پھر دگنی ہوگئی۔ اس وقت جن اشیاء کی پیداوار ہو رہی ہے، ان میں سے پچاسی فیصدی ایسی ہیں جو ۱۹۵۶ء میں تجرباتی مرحلے میں بھی نہیں تھیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے سائنس داں اور انجینئر زندہ ہیں، وہ پوری انسانی تاریخ کے نوے فیصد ہیں۔‘‘

    یہ بات گزشتہ سال کہی گئی تھی (۱۹۶۷) اور میں نہیں کہہ سکتا کہ مسٹروڈمین کا یہ تخمینہ صحیح ہے یا نہیں، پھر بھی اگر اس تخمینے میں کسی قدر مبالغہ سےبھی کام لیا گیا ہے، فی الجملہ ایسے عہد کی غیرمعمولی تیز رفتار ترقی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جب انسان کے قبضے میں ایٹمی اور نیوکلیائی طاقت آگئی ہے اور اس کا استعمال بھی شروع ہوگیا ہے، اور جب آٹومیشن، الکٹرونک مشینوں اور سائبرٹیکنکس کا استعمال صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں پھیلتا جارہا ہے، اور ان کے ذریعہ سے گنتی کے افراد، اتنا کام کرسکتے ہیں جو پہلے سیکڑوں ہزاروں آدمی کرتے تھے، اور جب انسان ارضی بندش کو توڑ کر خلا اور بیرونی خلا میں پرواز کرنے لگا ہے، جب چاند اور زہرہ پر اس نے اپنی نشانیاں اتار دی ہیں۔

    یقینی یہ تبدیلیاں اتنی بڑی اور بنیادی ہیں کہ ان سے پوری نوع انسانی، معیشت، معاشرت اور اس کے سبب سے انسانوں کی نفسیات، ان کے اجتماعی اور انفرادی تعلقات، فن اور آرٹ اور ادب پر گہرا اثر پڑے گا، اور اس وقت بھی پڑ رہا ہے، لیکن قبل اس کے کہ ہم اس کا ذکر کریں، اس تصویر کے ایک دوسرے پہلو پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

    تصویر کا دوسرا رخ: ٹھیک ایسے زمانے میں جب انسان کے علم اور اس کی عملی صلاحیت نے اتنی زبردست ترقی کی ہے کہ اس دنیا کو جنت بنانے کی حقیقی صلاحیت رکھتے ہیں، ٹھیک اسی زمانے میں اور اس تابناک امکان اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ پوری نوع انسانی کی نیوکلیائی بربادی اور ہلاکت، یعنی اس دنیا کو یکایک، چند گھنٹوں کے ہی اندر ایٹمی خاک کے جہنم اور تہذیب و تمدن کی ہیبت ناک تباہی کا خطرہ بھی ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے۔ وہ طاقت جو اس کرۂ خاکی اور اس پر بسنے والی مخلوق کو لامحدود خوش حالی دے سکتی ہے، اس کا ہی علم اور نیوکلیائی آلات حرب کی شکل ہے، اس کا ذخیرہ، اگر نیوکلیائی جنگ چھڑ جائے، تو ماہروں کے اندازے کے مطابق پوری نوع انسانی، اس کی تمام بستیوں، آبادیوں، تمام تمدنی اور تہذیبی مظاہر کو ایک بار نہیں، بیس مرتبہ مکمل طور سے ہلاک و برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کے موجودہ بڑے اور بنیادی تضادات جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا، یعنی ایک طرف بڑی مشینی صنعت، سائنس اور ٹکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی، یعنی نئے وسائل و ذرائع پیدا وار کی دریافت اور ان کی وجہ سےانسانی سماج کی غیر معمولی ترقی، دوسری طرف سرمایہ دار دنیا میں ان وسائل و ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت، استعمار، اجارہ داری، نوآبادیاتی نظام اور نوآبادیاتی اور استعماری جنگیں، اور عالم گیر نیوکلیائی ہلاکت کا خطرہ، اس کا متقاضی ہے کہ ان تضادات کو حاصل کرکے نوع انسانی کے راستے سے اس کی لامحدود ترقی کے راستے کی رکاوٹوں کو جلد از جلد دور کیا جائے، اور ایک نظام معاشرت کی تشکیل کی جائے، جس کی موجودہ اجتماعی محنت خود متقاضی ہے، اور جس کی عملی شکل کے ابتدائی نقوش ہمیں دنیا کے ایک تہائی سوشلسٹ حصے میں نظر آنے لگے ہیں، دنیا کا وہ حصہ جہاں ذرائع اور وسائل پیداوار پر ذاتی منافع خور ملکیت کو ختم کر دیا گیا ہے، جہاں محنت کش طبقہ ذرائع و وسائل پیداوار کا مالک اور مختار ہے اور جہاں ریاست کا نظم و نسق محنت کش طبقوں کے ہاتھ میں ہے۔

    لیکن جیسا کہ قدیم اور جدید عہد دونوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے، استحصال کرنے والے حکمراں طبقے، اس وقت بھی جب تاریخ کی جانب سے ان کو موت کا پروانہ مل چکتا ہے، اور جب ان کا وجود نئی ترقی پذیر قوتوں اور طبقات کے راستے میں ایک ناقابل برداشت رکاوٹ بن چکا ہوتا ہے، خود بہ خود، اپنے انجام کا ادراک حاصل کر کے پُرامن طریقے سے سیاست اور معاشرت کے اسٹیج سے ہٹ کر پس پردہ نہیں چلے جاتے، انھیں بے دخل کرنے کے لیے زندگی کی ترقی کےعلم بردار طبقوں اور گروہوں کو سخت انقلابی جدوجہد کرنا ہوتی ہے، اور یہ جدوجہد محض سیاسی یا معاشی میدان میں نہیں، بلکہ نظریاتی، فلسفیانہ، ادبی اور فنی محاذوں پر بھی جاری ہوتی ہے۔


    (نام ور ادیب، انقلابی فکر و نظریہ کے حامل سماجی دانش ور اور مارکسسٹ سجاد ظہیر کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    میں جب بھی شہر کی گہما گہمی سے اکتاتا ہوں تو آسٹریلیا کے کسی دیہی علاقے کا رُخ کرتا ہوں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبات بلکہ گاؤں میں بھی ہوٹل دستیاب ہیں۔ جدید سہولتوں کے باوجود گاؤں کی زندگی اب بھی زیادہ نہیں بدلی۔ بلکہ صدیوں پرانی طرز پر قائم ہے۔

    وسیع رقبے پر بنے سادہ سے مکانات، کشادہ سڑکیں، درختوں اور سبزے کی بہتات، صاف ستھری آب و ہوا اور حدّ نظر تک پھیلے کھیت اور کھلیان فطرت سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تنہائی اور سکوت درکار ہو تو فارم ہاؤس بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔

    چند ماہ قبل ہمیں ایسے ہی ماحول کی طلب محسوس ہوئی تو ہم نے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنز لینڈ کے درمیان واقع شہر ٹاری کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس چند دنوں کے لیے بُک کرا لیا۔ راہ کے خوشگوار مناظر دیکھتے، سبزے اور درختوں کے بیچ ہموار سڑک پر چلتے اور بھیڑوں، گائیوں اور گھوڑوں کے فارمز کا مشاہدہ کرتے پانچ گھنٹے کے بعد ہم اس فارم کی طرف مڑنے والی سڑک کے سامنے جا پہنچے۔ فارم ہاؤس کی طرف جانے والی یہ دو کلومیٹر سڑک کچی تھی مگر اس پر چھوٹے چھوٹے پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ جس پر گاڑی چلنے سے کڑکڑاہٹ کی آواز آتی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف گھنے، اُونچے اور قدیم درخت ایستادہ تھے جن کی خستہ ڈالیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں۔ ہم فارم ہاؤس کے سامنے پہنچے تو دور دور تک جنگلوں میں گھرے، آبادیوں سے دور اس اکلوتے گھر کو دیکھ کر یوں لگا جیسے جنگل میں بہار آگئی ہے۔ کیونکہ گھر کے چاروں اطراف بڑے درختوں کے بجائے بے شمار چھوٹے اور پھول دار پودے رنگ بکھیر رہے تھے۔ ان میں پھلوں سے لدے لیمن، مالٹے،سٹرابری اور سیب کے درخت بھی شامل تھے۔ مرکزی دروازے کے پاس لگی انگور کی بیل گھر کی دیوار پر پھیلی تھی۔ جب کہ عقب میں کافی دور تک گھاس کا میدان تھا جہاں بکریاں، گائیں اور گھوڑے چر رہے تھے۔ گھر کے ارد گر آہنی تاروں کی باڑ تھی اور سامنے دھکیل کر کھلنے والا گیٹ تھا۔

    گیٹ کھول کر ہم گاڑی اندر لے گئے اور ایک شیڈ کے نیچے پارک کر دی۔ گھر کے باہر نمبر کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے مجھے کچھ شک تھا کہ یہی ہمارا مطلوبہ فارم ہاؤس ہے۔ یہ شک رفع کرنے کے لیے وہاں کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ میں نے فارم کی مالکن کو فون کر کے بتایا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس نے فون پر ہی خوش آمدید کہا اور بتایا ’’چابی مرکزی دروازے کے سامنے دیوار پر چسپاں ایک بکس کے اندر ہے اور باکس کھولنے کے لیے کوڈ نمبر یہ ہے۔ گھر کے اندر آپ کو ہر شے تیار اور صاف ستھری ملے گی۔‘‘

    ہم اس خاتون کی ہدایت کے مطابق دروازہ کھول کر اندر گئے تو واقعی پورا گھر سجا دھجا اور صاف ستھرا تھا۔ بستر کی چادریں، تکیے، تولیے، فریج، ٹی وی، چولہے، برتن ، کیتلی، ٹوسٹر، لائبریری، ویڈیو، برآمدے میں باربی کیو چولہا اور دیگر سب چیزیں موجود اور صاف ستھری تھیں۔

    ہم چار دن وہاں رہے، اس دوران کوئی شخص وہاں نہیں آیا۔ آخری دن کرایہ بھی وہیں رکھ کر آئے۔ دراصل ہم نے یہ فارم ہاؤس صرف تین دن کے لیے لیا تھا۔ تیسری رات میرا ایک دوست بھی اپنی بیگم کے ساتھ وہاں آگیا۔ حالانکہ وہاں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا پھر بھی میں نے فون کر کے مالکن کو بتایا، ’’ آپ کو مطلع کرنا تھا کہ ہمارے دو مہمان آئے ہیں۔ دوسرے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ہم ایک رات مزید یہاں رُک سکتے ہیں۔

    میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اضافی افراد کا اضافی کرایہ طلب کرے گی۔ کیونکہ گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں، اتنا بجلی اور پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ مگر اس نے یہ جواب دے کر ہمیں حیران کر دیا، ’’مہمانوں کا کوئی مسئلہ نہیں، ہاں آپ ایک رات مزید رک سکتے ہیں کیونکہ کل کوئی اور مہمان نہیں آرہا۔ اس اضافی رات کا کرایہ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔’’

    یہ جواب میرے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ کافی دیر تک یقین نہیں آیا کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں لالچ چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ فارم ہاؤس کی مالک خاتون ایک ریستوراں میں اور اس کا میاں کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہ بات اس نے خود مجھے فون پر بتائی تھی۔ فارم ہاؤس کا خرچ نکال کر انہیں اس سے معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود انہیں لالچ اور حرص نہیں تھی۔

    اس فارم میں درجن بھر گائیں، اتنی ہی بکریاں اور دو گھوڑے تھے۔ فارم کے مکین کی حیثیت سے آپ کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ پچیس ایکڑ میں پھیلے اس فارم میں خود ہی چرتے پھرتے ہیں۔ دھوپ اور بارش سے پناہ لینی ہو تو درختوں کے جھنڈ تلے چلے جاتے ہیں۔ فارم میں تین چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں جہاں بارش کا پانی جمع رہتا ہے۔ وہیں سے یہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ہاں مہمان اپنے شوق کی خاطر انہیں چارہ ڈالنا چاہیں تو فارم ہاؤس کے عقب میں ایک شیڈ میں گائے، گھوڑے اور بکریوں کے لیے الگ الگ چارہ موجود ہے۔ چارہ لے کر باڑ کے پاس جائیں تو گھوڑے اور گائیں جمع ہو جاتے ہیں، آپ باڑ کے اوپر سے انہیں گھاس ڈال سکتے ہیں۔ بکریوں کا الگ باڑہ ہے۔ وہاں پرانا سا شیڈ بھی ہے جہاں وہ سردی اور بارش میں پناہ لیتی ہیں۔ فارم ہاؤس میں بجلی کی سپلائی ہے مگر اس کے ساتھ شمسی توانائی بھی استعمال ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں شمسی توانائی کا استعمال عام ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فارم ہاؤس میں استعمال ہونے والا تمام پانی بارش سے جمع کیا ہوا ہے۔ گھر سے ملحق دو بڑے بڑے پلاسٹک کے ٹینک ہیں جہاں چھت سے بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ یہی پانی نہانے دھونے، کھانے پینے ہر مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    میں سوچتا تھا کہ آسٹریلیا اور ہندوستان پاکستان کے موسموں میں بہت مماثلت ہے۔ بارشیں اور دھوپ دونوں جگہوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ بلکہ پاکستان میں دھوپ زیادہ پڑتی ہے۔ وہاں ایسے شمسی پلانٹ آسانی سے اور ارزاں داموں لگ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہمارے دیہات میں بھی ایسے تالاب بنائے جا سکتے ہیں جیسے اس فارم میں بنے ہیں۔ جب بارش نہ تو یہ پانی مویشیوں اور فصلوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی کام بھی مشکل اور مہنگا نہیں ہے۔ نہ جانے اس طرف کسی کی توجّہ کیوں نہیں ہے۔

    اس علاقے میں شہد کے بہت سے فارم ہیں۔ علاوہ ازیں سیب، ناشپاتی ، سٹرابری، انگور اور دیگر پھلوں کے باغات ہیں۔ ہم اس علاقے میں ڈرائیونگ کرتے تو کئی گھروں کے آگے شہد اور ان پھلوں کی فروخت کا بورڈ رکھا نظر آتا۔ ایک جگہ گاڑی روک کر ہم اندر گئے۔ وہاں برآمدے میں میز پر خالص شہد کی بوتلیں اور پھلوں کی ٹوکریاں رکھی تھیں۔ ان پر قیمت درج تھی اور ایک طرف کھلا بکس رکھا تھا، جہاں سے بڑا نوٹ ہونے کی صورت میں آپ اپنا چینج بھی لے سکتے ہیں۔ وہاں نہ کوئی شخص تھا اور نہ کوئی کیمرا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی شخص چوری یا بے ایمانی کرے۔

    گاؤں کے یہ لوگ سادہ اور فطری زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی مگر وہ قناعت کی دولت سے مالامال ہیں۔ پرانے گھروں ، چھوٹی گاڑیوں اور قدرے غربت کے باوجود بڑے شہروں سے دور رہ کر اپنے طرزِ حیات سے خوش ہیں۔ یہاں آبادی اور ذرائع روزگار دونوں کم ہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی سطح مرتفع پر فصلیں نہیں اُگتیں صرف مویشی بانی، باغبانی اور دیگر چھوٹے چھوٹے مشاغل ہیں جن کی محدود آمدنی ہے مگر وہ صبر شکر کے ساتھ اس سے گزارہ کر لیتے ہیں۔

    ایسے علاقے میں قیام کی صورت میں ہ میں اشیائے خوردونوش کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں ریستوراں کم اور حلال کھانا نایاب ہے۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ اشیائے خورد و نوش اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ اسی علاقے کے ایک دور دراز گاؤں کی سیر کے دوران ہمیں اشتہا محسوس ہوئی تو وہاں نظر آنے والے واحد کیفے کے اندر چلے گئے۔ سہ پہر کے اس وقت وہاں کوئی اور گاہک نہیں تھا۔ کیفے کی مالکن اُدھیڑ عمر آسٹریلین خاتون سے ہم نے دستیاب کھانوں کے بارے میں دریافت کیا تو ہمارے مطلب کی کوئی حلال شے موجود نہیں تھی۔ ہمیں مایوس دیکھ کر یہ خاتون بھی پریشان ہو گئی۔ حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں نے پوچھا ‘‘ آپ کے پاس ڈبل روٹی اور انڈے ہیں؟’’ اس نے فوراً اثبات میں جواب دیا۔ ہمارے کہنے پر اس نے ڈبل روٹی، انڈے، پنیر، مکھن، ٹماٹر اور پیاز نکالے۔ ہم سب نے مل جل کر پیاز، ٹماٹر اور انڈوں کا آملیٹ بنایا، ٹوسٹ گرم کیا، مکھن لگایا اور مزے سے تازہ اور گرم کھانا کھایا جو اس علاقے کی نسبت سے غنیمت تھا۔ خاتون ہمیں خوش اور مطمئن دیکھ کر بہت خوش تھی۔

    ہم نے نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اس مہمان نواز خاتون کو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے سمجھایا کہ ہمیں صاف جگہ اور صاف کپڑا درکار ہے۔ جب سمجھ آیا تو اس نے فوراً جگہ صاف کی، صاف ستھری چادر بچھائی اور خود دروازے سے باہر چلی گئی۔ نماز کے بعد ہم نے اس مہربان خاتون کا شکریہ ادا کیا تو نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شاید یہ اس کی زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی اس خاتون نے مسلمانوں کے بارے میں نجانے کیا کچھ سن رکھا تھا۔ آج پہلی مرتبہ سامنا ہوا تو وہ ششدر رہ گئی۔ ہمارے لیے بھی یہ ‘پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے’ والا معاملہ تھا۔

    یہ دنیا تو ہے ہی حیرت کدہ! یہاں ایسی حیرتیں اکثر ملتی رہتی ہیں۔ واپسی کے سفر میں، میں سوچ رہا تھا کہ قوموں کی سر بلندی کے لیے وسائل کی نہیں۔ حسنِ اخلاق اور بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اطمینان و مسرت کے لیے روپے پیسے کی نہیں قناعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خطے میں سکون اور اطمینان کی یہی وجوہات ہیں۔

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف طارق مرزا کی ایک منتخب تحریر)

  • ’مردِ کامل‘ اور ’مردِ مومن‘

    ’مردِ کامل‘ اور ’مردِ مومن‘

    شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کے فکری مآخذ کے متعلق مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ ان کی حیات میں شروع ہو گیا تھا جو ابھی تک تھما نہیں ہے۔

    خصوصاً ان کے شہرۂ آفاق اور معراجِ انسانیت فلسفۂ خودی کے متعلق مختلف نقّادوں نے مختلف یورپی علمی شخصیات کے نام لیے ہیں۔ زیادہ تر کی تان فرانسیسی فلسفی نطشے پر ٹوٹی ہے جس نے’مردِ کامل‘ کے نام سے عظمتِ انسانی کا فلسفہ پیش کیا تھا۔

    ابھی کل ہی میں جوشؔ ملیح آبادی کی کتاب ’یادوں کی بارات‘ پڑھ رہا تھا، اُنہوں نے بھی اقبالؒ پر طنز کے تیر برساتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے نطشے کے مردِ کامل کو مسلمان کر کے مردِ مومن بنا دیا ہے۔ خیر جوش صاحب نے تو اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ لکھا ہے جس میں اپنے تئیس معاشقوں، اپنی بادہ خوری، شب و روز کی عیاشیوں، قیامِ پاکستان کی مخالفت اور پھر اسی پاکستان میں سرکاری مراعات سے استفادہ اور پھر پاکستان چھوڑ کر ہندوستان لوٹ جانے تک، ان کوئی کل سیدھی دکھائی نہیں دی۔

    حقیقت یہ ہے کہ اقبال ؒ مشرق اور مغرب دونوں بحرِ علم کے غواص تھے۔ کارل ماکس، گوئٹے، ارسطو، ابن ِ خلدون، رازی، رومی، نطشے، آئن سٹائن، بائرن، پٹوفی، ہیگل، مزدک سمیت علم و ہنر کے کتنے ہی تابندہ چراغ تھے جن سے اقبالؒ نے اکتسابِ فیض کیا۔ تاہم ان تمام حکما سے علامہ نے اپنے نظریات کو خلط ملط نہیں ہونے دیا، بلکہ ایک بلند پایہ مفکّر اور فلسفی کی حیثیت سے اپنی سوچ اور اپنا نظریہ منفرد اور جداگانہ رکھا۔

    کہاں نطشے کا مردِ کامل جو بے روح مشین کی طرح ہے اور کہاں اقبال کا مردِ مومن جس کی خودی کا سرّ نہاں لا ا لہ الا اللہ ہے۔ ویسے بھی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی فکر اور فلسفہ تہذیبِ مشرق کا عکاس ہے جو عمومی طور پر مغربی فکر کے برعکس ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

    کھول آنکھ، زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
    مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

    علامہ ؒ کے فکر و نظر میں بُو علی اور رازی کا انداز اور رومی کا سوز و ساز ان کے کلام کو الہامی بنا دیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ رومی جیسے مردِ عارف کے مدّاح تھے جس کی فکر میں سوز ہے۔ وہ انہیں پیرِ رومی کہتے تھے اور خود کو مریدِ ہندی۔ انہوں نے بُو علی کو عقل و دانش اور رومی کو عشق و مستی کا استعارہ قرار دیا۔ اقبال فرماتے ہیں:

    اِسی کشمکش میں گزری مری زندگی کی راتیں
    کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تاب رازی

    یورپ سے لوٹنے کے بعد اقبالؒ کے اندر ایسی انقلابی تبدیلیاں آئیں کہ انہوں نے وطنیت اور قومیت کا جال توڑ کر اسلام کا علم تھام لیا۔ وہ مفکر اسلام، حکیم الامت اور ترجمانُ القرآن بن کر احیائے اسلام اور نشاۃِ اسلامیہ کے علمبردار بن کر نمایاں ہوئے۔ چنانچہ اگلے تیس برس جو ان کی زندگی کے تھے وہ انہوں نے اسلام کے نظامِ فکر، فلسفۂ اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی شخصیت اور پیغام کو عام کرنے میں صرف کیے۔ اس کے بعد انہوں نے قرآن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے جیسے خود وقف کر دیا۔

    آغاز ہی سے اقبال کے کلام اور پیام میں قومی اور ملّی شعور نمایاں تھا۔ انہوں نے تاریخِ اسلام، اسلامی علم و فلسفہ، فقہی مباحث اور قرآن و سنت کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ تاریخِ اسلام سے ان کی فکر کو جلا ملی۔ اس علمی آگہی کی وجہ سے ملّتِ اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ کے زوال، اس کی زبوں حالی، بیشتر مسلمان ملکوں کی غلامی، جہالت اور یورپ کی غاصبانہ نوآبادیاتی پالیسی نے اقبال ؒ کے عقل و شعور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مسلمانوں کے علمی ورثے، اسلامی تاریخ، مسلم مفکرین، علما، حکما کے کارنامے اسلام کے سنہری اصول، مسلمانوں کی فکری تحریکوں اور مغرب کے فلسفے کے عمیق مطالعے نے اقبالؒ کو اپنی بنیاد یعنی سیرت النبیﷺ اور قرآن کے قریب کر دیا۔ قرآن کریم ان کے شعور سے تحت الشعور تک سرایت کرتا چلا گیا۔ انہیں بیشتر مسائل کا حل اس الہامی کتاب میں دکھائی دینے لگا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن سے ان کا رشتہ گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ قرآن اور صاحبِ قرآن ان کے فکر و فلسفہ کا محور بن گئے۔چنانچہ اقبالؒ قرآن کے ایسے مفسر اور شارح بن کر سامنے آئے جنہوں نے اس الہامی پیغام کو شعری اسلوب میں ڈھال کر نیا رنگ و آہنگ دیا جو تاقیامت اہلِ ایمان کے قلب و ذہن کو گرماتا رہے گا۔ علامہ ؒ کے کلام میں قرآنی پیام بھی ہے اور شعری حسن بھی ہے اور انتہائی موثر پیرایہ بھی جس سے کوئی بھی حساس قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔:

    فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
    آہنگ میں یکتا، صفتِ سورۂ رحمٰن

    جہاں تک عقلی خیالات کا تعلق ہے، اقبالؒ کے نزدیک استدلالی اور طبیعی عقل حیوانی جذبات کے تابع ہوتی ہے اور انسان کے خیالات اور فکر و نظر میں تنگی کا باعث بنتی ہے جس سے عام قاری کو مغالطہ ہوتا ہے اور وہ ہر قسم کی عقل کو بیکار سمجھنے لگتا ہے۔ اقبالؒ عقلِ جزوی کے قائل نہیں کیونکہ یہ عقلِ ایمانی اور عقلِ نبویﷺ کی نفی کرتی ہے۔ ایسے گمراہ کن فلسفے انسان کو خدا اور خودی دونوں سے دور کر دیتے ہیں۔

    اقبالؒ نے اپنی شاعری اور فلسفے کے ذریعے حقیقتِ حیات تک رسائی آسان بنا دی ہے جو انسان کو تختِ معراج تک پہنچا سکتی ہے۔ تاہم یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اقبال زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود وجدان پر زیادہ یقین رکھتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک صوفی ہی تھے۔ اقبال غالباً دنیا کے واحد فلسفی ہیں جو شعر کو ذریعۂ اظہار بنا کر فکر کو فن کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں شعر اور فلسفے کے فرق کا ادراک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آپس میں مدغم ہو کر کہیں بھی تضاد پیدا نہیں کرتے۔ اسی طرح آیاتِ قرآنی بھی ان کے اشعار کی زینت بن کر ان کے نظریۂ حیات کو مزید تقویت عطا کرتی ہیں۔

    کتابُ اللہ کی آیات کو اشعار میں استعمال کرنا ایک نہایت دقیق کام ہے لیکن یہ کام علامہؒ نے نہایت مہارت اور خوبی سے کیا ہے۔ اقبالؒ کی عقل اور دانائی فکرِ انسانی تک محدود نہیں بلکہ اس کے مآخذ قرآن و سنت بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام واضح اور ابہام سے پاک ہے۔

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار اور ادبی محقق طارق مرزا کے مضمون ‘اقبالؒ کے فکری مآخذ’ سے اقتباسات)