Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    دنیائے فانی میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں تاریخ بناتی ہے اور کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جو خود تاریخ بناتے ہیں جنہیں تاریخ ساز کہا جاتا ہے۔ بے شک مولانا آزاد ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔

    ایک روز میں اور جوش صاحب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے، جوش صاحب کو کچھ کام تھا لیکن میں یوں ہی ساتھ ہو لیا۔ مولانا ملاقاتیوں میں گھرے ہوئے تھے، جب کچھ دیر رکنے کے بعد بھی ہماری باریابی نہ ہوسکی تو جوش صاحب کہنے لگے، بھئی ہم تو اب چلتے ہیں۔ میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ مولانا نے تو آپ کو نہیں وقت دیا، آپ خود ہی تشریف لائے ہیں، ذرا اور انتظار کیجیے۔ جوش صاحب ان معاملات میں ضرورت سے زیادہ حساس تھے چنانچہ انہوں نے فوراً ہی یہ شعر لکھ کر چپڑاسی کے حوالے کیا اور چل پڑے:

    نامناسب ہے خون کھولانا
    پھر کسی اور وقت مولانا

    ابھی ہم دس بیس قدم ہی گئے ہوں گے کہ اجمل خاں ہانپتے ہانپتے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ مولانا کو تو آپ کے آنے کا علم ہی اب ہوا ہے، آپ آئیے مولانا یاد فرمارہے ہیں۔ چنانچہ ہم لوٹ آئے اور مولانا نے ہمیں بلا لیا اور معذرت کی کہ ہمیں انتظار کرنا پڑا۔

    فرمانے لگے کہ تمام وقت سیاسی لوگوں کی صحبت میں گزر جاتا ہے، جی بہت چاہتا ہے کہ کبھی کبھار علمی صحبت بھی میسر ہوتی رہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دو چار دس دن میں کبھی تشریف لے آیا کریں تو کچھ راحت ملے۔ جوش صاحب نے وعدہ فرما لیا، میں تو چونکہ جوش صاحب کے ساتھ تھا، مولانا نے مجھے بھی یہ دعوت دی حالانکہ ان دونوں حضرت کے سامنے میری حیثیت ایک طفلِ مکتب کی بھی نہیں تھی۔

    اسی سلسلے میں ہم ایک شام آٹھ بجے کے قریب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اجمل خاں آئے اور کہنے لگے کہ مولانا پنڈت جواہر لال نہرو جی کا فون آیا ہے، کسی ضروری مشورے کے لئے آپ کے پاس آرہے ہیں۔ یہ سن کر مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو فون کر دو کہ میں ابھی فارغ نہیں ہوں۔ میں نے اور جوش صاحب نے لاکھ کہا کہ ہمارا تو کوئی خاص کام تھا ہی نہیں، یوں ہی چلے آئے تھے، آپ ہماری وجہ سے پنڈت جی کو نہ روکیں، لیکن مولانا نہیں مانے۔ اتنے میں پھر اجمل خاں آگئے اور کہنے لگے کہ پنڈت تو گھر سے چل پڑے ہیں اور دو چار منٹ میں آتے ہی ہوں گے۔ ہم نے پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن مولانا نہیں مانے، اتنے میں پنڈت جی آگئے تو مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دو۔ اس کے بعد بھی مولانا نے پانچ سات منٹ ہم لوگوں کے ساتھ گزارے، لیکن جب انہیں احساس ہوگیا کہ ہمیں سخت کوفت ہورہی ہے تو فرمانے لگے آپ ابھی جائیے نہیں، میں پنڈت جی سے بات کر کے آتا ہوں۔ چنانچہ دس بیس منٹ کے بعد مولانا تشریف لائے اور آدھ پون گھنٹہ ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے، اس واقعے کا ذکر کرنے سے مولانا کی عظمت، خود داری، مہمان نوازی اور وقار کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ کتنے آدمی ایسے ہوں گے جو پنڈت جی کو آنے سے روک دیتے؟

    جوش صاحب اردو شاعری کے بادشاہ تھے۔ جتنا ذخیرۂ الفاظ ان کے پاس تھا شاید کسی اور کو نصیب نہ ہوا ہو، لیکن صرف دو ایسی ہستیاں تھیں جن کے سامنے جوش صاحب خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھتے اور وہ تھے مولانا آزاد اور مولانا عبدالسّلام نیازی۔ ایک روز میں نے جوش صاحب سے پوچھا کہ جب کبھی آپ مولانا آزاد یا مولانا عبدالسّلام نیازی سے ملتے ہیں تو اکثر خاموش ہی رہتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ تو جوش صاحب کہنے لگے کہ یہ دونوں حضرات اسی قدر پڑھے لکھے اور عالم ہیں کہ ان کے سامنے منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔

    (اردو کے معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے مضمون سے اقتباسات)

  • عام لوگ اور کلچر

    عام لوگ اور کلچر

    انسان جب اپنی عقل کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کسی خیال یا نتیجے تک پہنچنے کے لیے تحریک دیتا ہے تو اس پر کئی انکشافات ہوتے ہیں اور بعض ایسی باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ وہ چونک اٹھتا ہے

    اگر اس حوالے سے علمِ سائنس اس کے ماہرین کے بجائے ادبی دنیا میں اہلِ قلم اور خاص طور پر نقّادوں کی بات کریں تو وہ بھی اسی طرز پر اپنے عہد کے معاشرتی حالات کا مطالعہ کرتے ہوئے فرد کے خیالات، احساسات اور طرزِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں اور معاشرے اور اس کی ثقافت اور معاشرے میں بسنے والوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے علاوہ ان کی ذہنی سطح اور طرزِ‌ فکر سے متعلق اکثر کئی دل چسپ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

    کلیم الدّین احمد اردو تنقید کا بڑا نام تھا جن کی ایک تحریر اس پس منظر میں قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ وہ لکھتے ہیں؛

    انسان بالطبع کاہل واقع ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ وہ فطری طور پر تہذیب و کلچر کی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پسند نہیں کرتا۔

    اگر بچّوں کو اپنی راہ پر چھوڑ دیا جائے تو بڑے ہو کر وہ نرے وحشی نظر آئیں گے، وہ اپنے فطری میلات کو کبھی نہ روکیں گے بلکہ اپنی ہر خواہش کو واقعہ بنانا چاہیں گے۔ خود غرضی ان کا شیوہ ہوگا اور دوسروں کی بھلائی کے لئے وہ اپنی خواہشوں کا خون نہیں ہونے دیں گے۔ غرض ان کے جذبات و خیالات، تعلیم و تہذیب، تربیت، کلچر کی خوبیوں سے بے بہرہ ہوں گے۔ انسان کو تہذیب کے زینوں پر چڑھنے میں کاوش سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہوتا ہے۔ جہاں غفلت کی، پھر ساری محنت رائیگاں گئی۔ پھر ازسرِ نو محنت کرنی ہوگی۔ آج کل انسان کچھ اسی قسم کی غفلت کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ دماغی اور جذباتی کلفتیں اس کے لئے سوہان روح ہیں۔ اس لئے وہ ان کلفتوں سے اپنا دامن بچائے رہنا چاہتا ہے۔ یہ فطرت کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ وہی چیزیں جو تہذیب کی نشانی ہیں وہی تہذیب و کلچر کے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔

    بہر کیف اس بات سے کسی کو انکار نہ ہوگا کہ عام لوگوں کی دماغی اور جذباتی سطح کچھ زیادہ بلند نہیں۔ عموماً ایسے لوگوں کی پسند کسی معیار کا سہارا نہیں ڈھونڈتی اور ان کا فنی معیار، ان کا ادبی مذاق بہت بلند نہیں ہوتا۔ اگر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، اگر ان کے لئے صرف انہی کی پسند کی چیزیں مہیا کی جائیں تو پھر ان کے مذاق میں کوئی لطافت اور پاکیزگی نہیں آسکتی۔ انہیں کسی بلند فنی معیار کا احساس نہیں ہوسکتا، وہ ہمیشہ اپنی پست ذہنی دنیا میں مگن رہیں گے۔ انہیں کسی دوسری بہتر اور اعلیٰ دنیا کی تلاش نہ ستائے گی۔ اگر انہیں کسی زیادہ اچھی اور حسین دنیا کی طرف بلایا بھی جائے تو وہ اس کی طرف شاید متوجہ نہ ہوں گے، مثلاً سستے ناولوں، رومانوی افسانوں، جاسوسی قصوں کو لیجیے۔ کتنے لوگ ان چیزوں کو پڑھتے ہیں اور ان سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔ ان چیزوں میں فنی خوبیاں کچھ بھی نہیں ہوتیں اور نہ کسی کو فنی خوبیوں کی جستجو ہوتی ہے۔

    بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمارے میلانات، ہماری خواہشیں پھلتی پھولتی نہیں۔ جو دل چاہتا ہے وہ ہو نہیں پاتا، شکستِ امید ہماری بے اطمینانی کا سبب ہوتی ہے اور ہم اس بے اطمینانی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ نجات ہمیں رومانی افسانوں، جاسوسی قصوں کی مدد سے مل جاتی ہے۔ ان کی مدد سے ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارے میلانات، ہماری خواہشوں، امنگوں اور امیدوں کو ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ اسی لئے ہمیں اس دنیا میں ایک مسرت، ایک روحانی سکون محسوس ہوتا ہے اور اس سکون کے آگے فنی خوبیوں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ سکون مضر ہے اور ادبی حسن کی کمی ہمارے مذاق کو پست سے پست تر بنا دیتی ہے۔

    اگر یہ سستی کتابیں صرف دل بہلانے کا ذریعہ ہوتیں، اگرایک جماعت ان کتابوں کی مدد سے فرصت کی گھڑیاں آسانی اور دل چسپی کے ساتھ گزار سکتی اور بس، تو پھر شاید کسی کو بھی ان کتابوں کی مذمت کرنے کا حق نہ ہوتا لیکن مشکل یہ آپڑتی ہے کہ یہ کتاب تفریح کے ساتھ ہمارے مذاق کو بگاڑ دیتی ہیں۔ جس کی طبیعت ان سے مانوس ہو جاتی ہے پھر اسے دوسری چیزیں خصوصاً ایسی چیزیں جو ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، بالکل ناپسند ہوتی ہیں۔ اڈگر والس کے آگے شیکسپئر کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ جو اچھا، ستھرا، سنجیدہ مذاق رکھتے ہیں، جو ناقدانہ اوصاف کے حامل ہیں وہ بھی جاسوسی افسانوں اور ناولوں سے شوق کرنے کے بعد سنجیدہ کتابوں کی طرف رجوع کرنے میں ایک قسم کی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور جو ناقدانہ اوصاف کے حامل نہیں جو اچھا ستھرا، سنجیدہ مذاق نہیں رکھتے اور زیادہ تعداد اسی قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ انہیں تو جاسوسی یا رومانی افسانوں اور ناولوں کا ایسا چسکا پڑ جاتا ہے کہ وہ کسی سنجیدہ کتاب کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے۔

    معاشیات کا ایک اصول ہے کہ جن چیزوں کی مانگ ہوتی ہے تو ان چیزوں کے مہیا کرنے کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں رومانی اور جاسوسی قصوں کی مانگ ہے اور اس ضرورت کی وجہ سے مختلف قسم کے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں۔ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہو گئی ہے جن کی زندگی کا مقصد بس اسی قسم کے قصوں کا لکھنا ہے، اسی کو انہوں نے اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ یہی ان کا اچھا خاصا ذریعۂ معاش ہے۔ یہ قصے تجارتی اصول پر لکھے یا لکھوائے جاتے ہیں یعنی جس طرح سگریٹ، سگار، لپ اسٹک، پیٹنٹ دواؤں کی تجارت ہوتی ہے، اسی طرح اس قسم کی کتابوں کی تجارت ہوتی ہے اور تجارت کا اصل الاصول ہے نفع۔

    یہاں بھی نفع کا خیال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لکھنے والے نفع میں ہوتے ہیں اور لکھنے والوں سے زیادہ پبلشرز دولت جمع کر لیتے ہیں۔ اگر نقصان میں کوئی رہتا ہے تو بیچارہ پڑھنے والا۔ وہ فوری، ناپائیدار مسرت کے لئے اپنے ذہن کو ہمیشہ کے لئے مجروح و معطل بنا لیتا ہے۔

  • اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    ادب میں اختر الایمان کی پہچان ایک شاعر کی طرح ہے، لیکن وہ تنہا شاعر ہیں جنھوں نے فلم میں رہ کر اپنی شاعری کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا۔ تقریباً نصف صدی وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے، فلموں کے لیے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے رہے لیکن (سوائے فلم ’’غلامی‘‘ کے اوپیرا کے) کوئی گانا انھوں نے فلم کے لیے نہیں لکھا۔

    ایسا نہیں کہ فلم کی سطح تک اتر کر شاعری نہیں کرسکتے تھے مگر ان کا شاعری کے لیے جذبۂ احترام تھا کہ انھوں نے اسے میوزک ڈائریکٹروں کی دھنوں کی تان پر قربان نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ’’شعری جینیس‘‘ کو صرف سنجیدہ اور فکر انگیز شاعری کے لیے ہی محفوظ رکھا اور فلمی ادیبوں کی بھیڑ میں منفرد رہے۔ آج کے دور میں اپنے فن کے لیے اس قدر پرخلوص ہونا بے مثال ہے۔

    اخترالایمان نے نہ صرف یہ کہ فلمی شاعری نہیں کی، بلکہ سیاسی اور نیم سیاسی قصیدے بھی نہیں لکھے۔ اپنی شاعری کو ہر مصلحت سے دور رکھا اور وہی کہا جو شدت سے محسوس کیا اس لیے وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’گرداب‘‘ کی اشاعت (۱۹۴۳ء) کے ساتھ ہی صفِ اوّل کے شاعروں میں شمار کیے جانے لگے تھے اور یہ بلند مرتبہ انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعرانہ عظمت نہ کسی ’’تحریک‘‘ کی رہین منت ہے نہ کسی سیاسی یا غیرسیاسی گروہ یا شخصیت کی۔ وہ تنہا اپنے بل پر نمایاں رہے، بھیڑ میں سب سے الگ۔

    راقم الحروف کی ملاقات اختر الایمان سے ٹھیک ساٹھ سال پہلے ہوئی۔ ۱۹۴۲ء ماہ جون، میرے آبائی قصبہ نگینہ میں آل انڈیا انصار کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کے کونے کونے سے انصاری برادری کے لیڈران آئے تھے۔ میرا مطلب ہے ’’انصاری جدید‘‘ اور اس کانفرنس کی وجہ سے قصبہ کے ایک مشہور حکیم ایوب انصاری اپنی بدنامی سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ تین روزہ کانفرنس کے دوران اپنے گھر سے ہی نہ نکلے۔ اس کانفرنس کے سکریٹری مشہور رہنما قیوم انصاری نے ایسی گرم تقریر کی کہ غیر انصاریوں کو جوش آگیا اور نقصِ امن کا اندیشہ ہونے لگا۔ تب صدر محفل کے کہنے پر اخترالایمان نے جو ان ’جغادریوں‘ کے سامنے ’’طفلِ مکتب‘‘ معلوم ہو رہے تھے، وہ دھواں دھار تقریر کی کہ دونوں فریقوں کو شکایت کی گنجائش نہ رہی۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہ انگریزی سامراج کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے دو گروپ ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ اختر الایمان اس انصار کانفرنس کے ہیرو ٹھہرے۔ اور بعد میں ہم نوجوانوں نے جو ’’ساقی‘‘ میں ان کی نظمیں پڑھتے تھے، ان سے کلام سنانے کی فرمائش کی تو اخترالایمان نے اپنی دو نظمیں ’’نقش پا‘‘ اور ’’محلکے‘‘ ترنم سے سنائیں۔ تب تک ان کا مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔ چند ماہ بعد پھر وہ نگینہ تشریف لائے اور اس رات ہم نے ان کی زبانی وہ سب نظمیں سنیں جو ’’گرداب‘‘ میں شائع ہوئیں۔

    ’’انصار کانفرنس‘‘ کی لیڈری ان کے قدموں میں تھی مگر اختر نے اس سلسلے کو منقطع کردیا۔ ان دنوں وہ ساغر نظامی کے رسالے ’ایشیا‘ کے نائب مدیر تھے۔ نگینہ کے بعد اخترالایمان سے میری ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں مگر وہ جلد ہی علی گڑھ ایم۔ اے کرنے چلے گئے۔ وہاں بھی ایک سال رکے اور ان کے کچھ عرصہ کے لیے قدم تھمے۔ پونا میں اور پھر پونا سے بمبئی۔ بمبئی میں اخترالایمان کو خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے لکھنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ باندرہ میں ان کا دو کمرے کا ایک فلیٹ تھا، گراؤنڈ فلور پر۔ پھر جب ان کی مقبولیت اور آمدنی میں اضافہ ہونے لگا تو انھوں نے اس مکان میں اپنی لائبریری بنالی اور باندرہ میں ہی ایک بڑا فلیٹ خرید لیا۔ بمبئی آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ اس نئے فلیٹ میں وہ ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلم ’’قانون‘‘ جس میں کوئی گانا نہیں تھا، ان کے مکالموں کے باعث بہت مقبول ہوئی اور وہ ان کی کامیابی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ البتہ آخری دنوں میں انھوں نے بیماری اور مالی مجبوریوں کے باعث وہ بڑا فلیٹ بیچ دیا تھا اور باندرہ میں ہی دو کمرے کا فلیٹ خرید لیا تھا۔

    میں ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور اکثر ان کے گھر ان سے ملنے جاتا تھا اور مجھے اخترالایمان نے ہمیشہ ایک مشفق بزرگ کا پیار دیا۔

    جس طرح اخترالایمان نے غزل نہیں لکھی اور فلمی شاعری نہیں کی اسی طرح ان کی وضع داری کا ایک گواہ ان کا لباس بھی تھا۔ وہ ہمیشہ بغیر کالر کا کھدر کا کرتہ اور پاجامہ پہنتے تھے۔ دہلی میں تو سردیوں میں شیروانی پہنتے تھے مگر بمبئی میں بس ان کا یہی ایک لباس تھا۔ کھدر کا سفید کرتہ اور پاجامہ۔ اس لباس میں میں نے انھیں پہلی بار نگینہ میں دیکھا تھا۔ اور اسی لباس میں ان کے انتقال سے کچھ دن پہلے تک دیکھا۔

    اختر الایمان کا ایک وصف بہت کاٹ دار تقریر کرنا تھا۔ ان کی سب سے پہلے تقریر تو میں نے انصار کانفرنس کے اسٹیج پر سنی اور دوسری تقریر ۱۹۴۴ء میں دہلی کے دربار ہال میں جہاں ترقی پسندوں اور رجعت پرستوں کے درمیان باقاعدہ مناظرہ ہوا تھا۔ ایک طرف خواجہ محمد شفیع، مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور سلطان اور دوسری طرف سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور اخترالایمان تھے۔ اختر الایمان کی تقریر مدلل اور برجستہ تھی۔ ایک کامیاب ڈبیٹر کی تقریر اخترالایمان کی تیسری معرکۃ الآراء تقریر میں نے بمبئی میں صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں سنی۔ یہ بھی ایک مناظرہ ہی تھا۔

    یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سردار جعفری کی انانیت نے اختر الایمان کو پنپنے نہ دیا لیکن جب ۱۹۶۰ء میں جدیدیت کی رو چلی تو اس گروپ نے اختر الایمان کو اپنا بنالیا تو اختر الایمان کو دیر سے ہی سہی، اپنی کاوشوں کا صلہ ملا اور ادبی حلقوں میں وہ سردار جعفری سے کہیں بہتر شاعر تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر اپنے وقت کے ان دونوں بڑے شاعروں میں ایک محتاط دوستی تھی۔ محفلی زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا، ملنا جلنا بھی تھا۔ لیکن معاصرانہ چشمک کی ایک لہر دونوں طرف تھی۔

    اختر الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیق القلب اور ہمدرد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔ میں اختر الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اختر الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔ اخترالایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب ولہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے بازگشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔ ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے سوائے ایک نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کے۔

    (ہندوستان کے مشہور شاعر اور ادیب رفعت سروش کے ایک مضمون سے چند پارے)

  • مسلمانوں اور رومیوں‌ کے مابین چپقلش اور جنگوں پر مبنی فلمیں

    مسلمانوں اور رومیوں‌ کے مابین چپقلش اور جنگوں پر مبنی فلمیں

    تاریخِ عالم میں بالخصوص عظیم الشّان سلطنتوں کے حالات اور جنگوں کے واقعات عام دل چسپی کا موضوع رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دورِ‌ جدید میں دنیا کی ہر بڑی فلمی صنعت نے اس پر فلمیں بنائی ہیں۔ ہوسِ اقتدار اور دیگر سیاسی وجوہ کے علاوہ مذہبی بنیادوں پر دنیا کی مختلف اقوام میں چپقلش اور جنگوں کو بھی فلم سازوں نے موضوع بنایا۔ انہی میں رومیوں اور عربوں کے درمیان لڑائیاں اور بڑی جنگیں بھی شامل ہیں۔

    زمانۂ قدیم کی عظیم سلطنتِ روما میں مسیحیت کو سرکاری یا شاہی مذہب کے طور پر اپنانے کے بعد عرب مسلمانوں سے جنگیں تاریخ کا حصّہ ہیں۔ مؤرخین کے مطابق سلطنتِ روما کو اس کے شہنشاہوں اور اشرافیہ کی اخلاقی برائیوں اور سیاسی کم زوریوں کے علاوہ مختلف قبائل کی آپس کی لڑائیوں نے بھی انتشار اور ابتری کا شکار کر رکھا تھا اور پھر جنگوں میں عرب مسلمانوں‌ سے شکست کے بعد کئی علاقے بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ سلطنتِ روما جو مغربی رومی اور مشرقی بازنطینی سلطنت میں‌ تقسیم ہوچکی تھی، وہاں یہ جنگیں ساتویں صدی میں خلافتِ راشدہ اور اموی دور میں شروع ہوگئی تھیں۔ یورپی علاقوں‌ میں مسلمانوں کے ساتھ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں جو جنگیں لڑی گئیں، وہ دنیا کی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔ مغربی رومی سلطنت جرمنوں کے ہاتھوں برباد ہوئی جب کہ بازنطینی سلطنت کو فتحِ قسطنطنیہ کے ساتھ عثمانیوں‌ نے مٹا کر رکھ دیا۔

    اس حوالے سے پاکستانی فلم انڈسٹری نے پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں متعدد فلمیں بنائیں۔ مسلم رومن کشمکش اور جنگیں اس وقت ایک مرغوب موضوع تھا۔ یہ فلمیں عام طور پر افسانوی کرداروں پر مشتمل ہوتی تھیں اور جنگ و جدل اور رقص و سرود پر مشتمل کاسٹیوم فلمیں ہوتی تھیں جو عام مسلمانوں‌ کے مذہبی جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتی تھیں۔ یہاں‌ ہم ایسی ہی چند فلموں‌ کا ذکر کررہے ہیں‌ جن کی کہانی مسلمانوں‌ اور رومیوں کے درمیان جنگ و جدل پر مبنی تھی یا ان میں سلطنتِ روم کے عیسائی کردار نظر آتے ہیں۔

    گلفام
    یہ 1961ء کی وہ فلم ہے جس کے ہدایت کار ایس سلیمان تھے۔ گلفام ایک سپر ہٹ نغماتی فلم تھی اور اسے ایک بڑی فلم کہا جاتا ہے جس میں اداکار درپن نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ مسرت نذیر اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ اداکار نذر نے فلم گلفام میں ڈبل رول کیا تھا جس میں ایک رومن شہنشاہ کا رول بھی تھا۔ فلم گلفام کے دو گیت بہت مقبول ہوئے تھے جن میں سے ایک منیر حسین کا گیت "اٹھا لے آپ ہی خنجر اٹھا لے” اور دوسرا سلیم رضا کا گیت "یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو، یہ ادائیں، سب مل کے تیری مست جوانی کو سجائیں” تھا۔

    بغاوت
    یہ وہ فلم تھی جس میں سدھیر اور بیگم شمی نے کام کیا تھا۔ اس میں مسلمانوں اور رومیوں کے دور کے سیاسی و سماجی حالات اور ان دونوں اقوام کے درمیان جنگ کی منظر کشی کی گئی تھی۔ بغاوت 1963ء کی ایک مشہور فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم میں ولن اور رومن جرنیل کے بہروپ میں اداکار اکمل نے کام کیا تھا۔ وہ بعد میں پنجابی فلموں کے سپر اسٹار بنے تھے۔

    مجاہد
    1965ء کی مشہور پاکستانی فلم مجاہد بھی رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش اور مذہبی اعتبار سے دشمنی پر مبنی فلم تھی۔ اس فلم کے ہیرو سدھیر تھے جب کہ ولن کا کردار محمد علی نے نبھایا تھا۔ ملکی تاریخ کے اعتبار سے خاص بات یہ ہے کہ فلم 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ایک ترانہ بھی شامل تھا جو اس وقت کا مقبول ترین جنگی ترانہ ثابت ہوا جس کے بول تھے: "ساتھیو، مجاہدو، جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔”

    عادل
    یہ بطور فلم ساز لیجنڈری اداکار محمد علی کی پہلی فلم تھی جو 1966ء میں انھوں نے بنائی۔ اس فلم میں وہ ایک رومی سپاہی بنے ہیں جو اسلام قبول کرلیتا ہے۔ فلم میں‌ دکھایا گیا ہے کہ یہ رومی سپاہی مذہب کی طرف مائل ہورہا ہے۔ پھر وہ ایک گیت سن کر خدا کی وحدانیت اور اسلام کی حقانیّت کو تسلیم کرلیتا ہے جس کے بول تھے: "راہی بھٹکنے والے، پڑھ لا الہ کے اجالے” یہ گیت مہدی حسن کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    مذکورہ فلموں کے علاوہ روم کی عیسائی سلطنتوں اور مسلمانوں کے درمیان چپقلش کی عکاس اور جنگ و جدل کے مناظر سے بھرپور دیگر فلموں میں الہلال، سجدہ، کافر، شبستان وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

  • غیاث احمد گدی اور جامِ سفال!

    غیاث احمد گدی اور جامِ سفال!

    آزادی کے بعد بھارت میں جو افسانہ نگار سامنے آئے ان میں غیاث احمد گدی بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیدھے سادے اور علامتی و استعاراتی انداز میں بھی افسانے لکھے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ استعاراتی و علامتی انداز بیان کے باوجود ان میں کہانی پن موجود ہے۔ غیاث احمد گدی نے اپنی افسانہ نویسی کی ابتدا خاص قسم کے معاشرتی افسانوں سے کی جن میں معاشرہ کے مختلف پہلوؤں کو مختلف زاویوں سے پیش کیا۔

    اردو کے افسانہ نگار اور ہندوستانی زبانوں کے فکشن کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنے کے لیے پہچان رکھنے والے سلام بن رزاق نے غیاث احمد گدی سے اپنی ایک ملاقات پر تاثراتی تحریر رقم کی تھی جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ان دونوں شخصیات کا تعلق بھارت سے تھا۔ سلام بن رزاق لکھتے ہیں:

    ان(غیاث احمد گدی) سے چوتھی اور آخری بار میں 1978ء میں الہ آباد میں کل ہند افسانہ سیمینار میں ملا۔ اس سیمینار میں بمبئی سے انور قمر بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ سمینار غالباً اردو افسانے پر پہلا بڑا سمینار تھا۔ جس میں ڈاکٹر قمر رئیس، جناب شمس الرحمن فاروقی، جوگیندر پال، رام لال، قاضی عبدالستار، کلام حیدری کے علاوہ کئی ہم عصر اور نوجوان افسانہ نگار اور نقاد بھی شریک تھے۔ دو دنوں تک خوب محفلیں رہیں لوگ ایک دوسرے سے جی کھول کر ملے۔ غیاث احمد گدی کو اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیوں کہ وہ زیادہ وقت ہمارے ساتھ ہی گزارتے تھے۔

    سمینار کے آخری دن منتظمین کی جانب سے ایک ہوٹل میں ڈنر تھا، دو روز کے لگاتار ادبی مباحث اور نکتہ آفرینوں نے سب کو بری طرح تھکا دیا تھا۔ تقریباً سب کا جی چاہتا تھا کہ ڈنر سے پہلے کہیں سے دو گھونٹ مئے اندوہ رُبا کا انتظام ہوجائے تو ذہن و دل کو تراوٹ ملے۔ مگر سب ایک دوسرے کے لحاظ میں خاموش تھے۔ تبھی کسی نے آکر چپکے سے بتایا کہ قریب ہی کہیں ایک دیسی مے خانہ دریافت ہوا ہے جہاں انگلش نہیں دیسی مل جاتی ہے۔ میں انور قمر، شوکت حیات حمید سہروردی اور دو ایک مقامی نوجوان بزرگوں کی نظر بچا کر ڈائننگ ہال سے باہر نکل گئے، جب گدی صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ ڈاکٹر سید محمد عقیل اور کلام حیدری کی نظر بچا کر ہمارے پیچھے پیچھے آگئے۔ سید محمد اشرف بھی ازراہِ سعادت مندی ساتھ تھے۔ جب ہم لوگ اڈے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں شیشہ و ساغر کا دستور نہیں، جامِ سفالین کا چلن ہے۔ آرڈر دیا گیا۔ فوراً مٹی کے کلہڑوں میں مے خانہ ساز آگئی۔ ہم میں سے کوئی بھی عادی بادہ نوش نہیں تھا البتہ کبھی کبھی روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں چکھنے کے سب گناہ گار تھے۔

    مٹی کے کلہڑوں میں پینے کا ہمارا پہلا اتفاق تھا اور دورانِ گردشِ جام، غالب کا یہ شعر سب کو مزید ترغیب دلا رہا تھا۔

    اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
    جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

    گدی صاحب بہت موڈ میں تھے اور خوب چہک رہے تھے۔ اس محفل کو یاد کرتا ہوں تو گدی صاحب کا دمکتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ اس کے بعد گدی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔

  • سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    ”یادوں کا جشن“ اردو کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کی آپ بیتی ہے جس میں اُن کے دور کے معروضی حالات کے ساتھ کئی دل پذیر واقعات اور پُراثر باتیں ہمیں‌‌ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ کتاب 1983 میں منظرِ عام پرآئی تھی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کا تخلّص سحر تھا اور ہندوستان ہی نہیں پاکستان بھر میں انھیں بطور شاعر پہچانا جاتا تھا۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ کنور صاحب کی بذلہ سنجی

    کنور مہندر سنگھ بیدی 1909ء میں منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے شہری ہوگئے اور وہیں دہلی میں وفات پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پہلی مرتبہ 1956ء میں کراچی آئے جس کا ذکر انھو‌ں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔ مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتے ہیں:

    "جب میں کراچی پہنچا تو بہت سے دوست مجھے جانتے تھے اور بہت سے جو مجھے نہیں بھی جانتے تھے، ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ کراچی میں پورے سال میں آٹھ، دس انچ بارش ہوتی ہے، اُس روز ایک ہی دن میں چھ انچ بارش ہو چکی تھی اور کراچی کے لحاظ سے شدید سردی کا موسم تھا، مگر اس کے باوجود میرے دوست احباب نے پُرتپاک استقبال کیا۔

    میرے ساتھ چند اور دوست بھی دہلی سے گئے تھے، ان کے قیام کا انتطام بھی وہاں کے بہترین ہوٹلوں میں کیا گیا تھا مگر مجھے میرے پرانے دوست سلطان جاپان والا اپنے پاس لے گئے اور اپنے ہوٹل نازلی میں ٹھہرایا، میں پانچ، چھ دن وہاں ٹھہرا۔ اس قیام میں دوستوں نے اس قدر اور مہمان نوازی کا ثبوت دیا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

    دعوتوں کا یہ عالم تھا کہ صبح ناشتے سے شروع ہوتی تھیں۔ ناشتے کے بعد دو، دو تین، تین جگہ کافی، پھر لنچ اس کے بعد کئی کئی جگہ چائے اور پھر کلام و طعام کی محفلیں سجتی تھیں، جن لوگوں کے ہاں شام کی چائے پینی ہوتی ناشتے کے وقت سے ہمارے ساتھ ہو لیتے تھے، جہاں بھی میں جاتا دس، بارہ موٹر گاڑیاں میرے ساتھ رہتی تھیں۔ اچھا خاصا جلوس سا دکھائی دیتا تھا۔

    اس قیام کے دوران مجھے دہلی کے سب ہی پرانے دوست ملے، جس شام مجھے کراچی سے رخصت ہو کر واپس دہلی آنا تھا، اُس روز صبح سویرے ہی ایک صاحب نے مجھے اپنے گھر لے جانے کی درخواست کی، یہ صاحب پہلے ہی دن میرے ساتھ تھے بلکہ مجھے سلا کر جاتے تھے اور میرے بیدار ہو نے سے پہلے ہی آجاتے تھے اور مجھ سے ملنے والوں کی چائے پانی سے تواضع کرتے۔ ان کی خدمت گزاری سے بہت متاثر ہو کر جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے لیے کچھ کروں جس روز مجھے وہاں سے دہلی واپس آنا تھا، وہ حسبِ دستور اس روز بھی صبح سویرے میرے کمرے میں آگئے اور اس سے پیشتر کہ میں ان سے کچھ کہوں وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے سامنے یہ انکشاف کر رہا ہوں کہ میں سی۔آئی۔ ڈی کا آدمی ہوں اور میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ میں آپ کے ساتھ رہوں۔ اور دیکھوں کہ کون کون آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے اور آپ سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔ میں آپ سے اس قدر مانوس ہو چکا ہوں کہ آپ کو یہ سب بے تکلفی سے بتا رہا ہوں۔ اب میری ایک خواہش ہے اور یہ کہ آپ میرے گھر چلیے میری بیوی اور گھر کے دیگر لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

    اس نے اس محبت سے یہ بات کہی کہ میں انکار نہ کر سکا۔ وہ میرا کراچی میں آخری دن تھا اور مجھے کئی جگہ الوداع کہنے کے لیے جانا تھا مگر میں نے اس سے اس کے گھر چلنے کا وعدہ کرلیا۔ چنانچہ تیار ہو کر میں اس کے ساتھ ہو لیا اور بھی کئی دوست میرے ہمراہ تھے۔ جب اس کا گھر نزدیک آیا تو ہم سب رک گئے اور وہ باقی حضرات سے معذرت کر کے صرف مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر لے آیا۔ اس کا گھر گلی میں واقع تھا۔

    میں دروازے پر رک گیا۔ لیکن اس نے کہا کوئی مجھ سے پردہ نہیں کرے گا، میں اندر آجاؤں چنانچہ میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر میں اس وقت صرف اس کی بیوی تھی۔ اس نے ایک صاف تھالی میں کچھ پھل وغیرہ پیش کیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔

    کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگا میرے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ دعا کیجیے کہ وہ آپ کی طرح صالح اور نیک ہو۔ مجھے یہ سن کر اپنے گناہوں کا احساس ہوا اور میں نے اُس سے کہا کہ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں، مگر وہ بضد رہا۔ آخرکار میں نے اُس ہونے والے بچے کی درازیٔ عمر اور خوش حالی کی دعا مانگی۔

    اُس کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن سے رخصت لی۔ میرے دل پر اس واقعے کا بہت دیر تک اثر رہا۔ اب جب بھی یاد آتا ہے تو اس شخض کی فراخ دلی، اعتماد، صاف گوئی اور غیر متعصب جذبے کی داد دیتا ہوں۔ مجھے قلق اس بات کا کہ اُس سے اس کا ایڈریس نہ لے سکا ورنہ واپس آکر اسے شکریہ کا خط لکھتا۔‘‘

  • اگر، مگر اور لیکن…(منٹو کا ‘خط’)

    اگر، مگر اور لیکن…(منٹو کا ‘خط’)

    برادرم! السلام علیکم

    مجھے یہاں آئے ہوئے ساڑھے تین مہینے گزر چکے ہیں، لیکن میں تمہیں خیریت کا خط تک نہ لکھ سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ماحول میرے لئے نیا تھا۔ بہرحال اس ماحول سے یقیناً بہتر ہے جس میں، مَیں نے 42 برس تک جھک ماری تھی۔

    وہاں جب تک رہا، سولی پر لٹکتا رہا۔ جب سے یہاں آیا ہوں، نہ صفیہ نے مجھ سے کوئی فرمائش کی ہے اور نہ ہی نگہت، نزہت اور نصرت میں سے کسی نے، ورنہ اکثر یہ ہوتا تھا:
    ابا فلاں چیز لا دو ، فلاں چیز لا دو۔

    تمہیں تو علم ہے کہ مجھے اپنی بچیوں سے بے انتہا محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی فرمائش اپنی تنگدستی کی بنا پر پوری نہ کر پاتا تھا تو خون کے آنسو رویا کرتا تھا۔ حتی کہ بعض منحوس سال ایسے بھی آئے تھے کہ بچی کی سالگرہ تھی اور جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ ایسے ماحول میں، مَیں کب تک رہ سکتا تھا؟ قدرت تو مجھے ایسے انسان کش ماحول میں اور رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن میں نے خود ایسے وسائل اختیار کر لئے تھے کہ آپ کے جہنم زار سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

    میں جب تک وہاں رہا، آپ لوگوں ہی کے غموں میں گھلتا رہا۔ نہ صرف گھلتا رہا بلکہ آہستہ آہستہ معدوم ہی ہو رہا تھا۔ میں بھی تمہارے دکھوں اور غموں کو اس لئے رقم کر آیا ہوں تاکہ آنے والی نسلیں تم سب کو مظلوم کی حیثیت سے یاد رکھ سکیں۔

    میں یہاں ہر وقت یہی دعا کیا کرتا ہوں کہ یہ زندگی میرے تمام ہمعصر افسانہ نگاروں کو جلد نصیب ہو۔ اس لیے کہ وہاں پر رہ کر میں نے جیسی ان کی زندگی بسر ہوتے دیکھی تھی، وہ تو مجھ سے بھی بدتر تھی۔ جب مجھی کو وہاں سے آنا پڑا تو نہ جانے وہ کیوں ٹکے ہوئے ہیں؟ آپ کے تمام لکھنے والوں سے تعلقات ہیں، جو لاہور میں موجود ہیں۔ ان سے زبانی کہہ دیں، جو لاہور سے باہر ہیں، انہیں بذریعہ خط مطلع کر دیں کہ وہ سب کے سب بیوی بچوں سمیت میرے پاس آ جائیں۔ میں نے یہاں تمام ابتدائی معاملات طے کر لئے ہیں۔ اس لئے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔

    زمانے نے نہ میری قدر کی اور نہ دوسرے اہلِ قلم کی۔ تمہیں علم ہے؟ اگر ہم لوگ تمہارے ہاں نہ ہوتے تو سوائے علم، ادب اور آرٹ کے، سب کچھ ہوتا۔ یہاں جو بھی پہنچ گیا ہے، مزے میں ہے۔ اکثر قلم کاروں سے ملاقات رہتی ہے۔ سب میری ہی طرح پھولے بیٹھے ہیں۔ بعض نے تو تمہارے نمائش آباد کی شان میں ایسی ایسی ہجویات سپردِ قلم کی ہیں کہ جب تک کلیجہ کو دونوں ہاتھوں سے نہ تھام لیا جائے سنی ہی نہیں جا سکتیں۔ اگر وہ چھپ گئیں تو تمہارے ہاں کے بعض سر پھرے سرِ بازار پٹیں گے۔ بہرحال ہجویات کا وہ مجموعہ جب بھی شائع ہوا ، تمہیں اس کا ایک نسخہ ضرور بھیجوں گا۔ نقوش میں اس کا تبصرہ کر دینا۔

    تمہارے ہاں کے ادیب اور تمہارے پڑوسی ملک کے ادیب اپنے اپنے نا خداؤں سے جو بڑی خوشگوار قسم کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں، وہ سراسر حماقت ہے۔ ان خوشگوار قسم کی امیدوں کے پیٹ میں تو صرف بہن خوش فہمی لمبی تانے سو رہی ہے۔ تمہارے ہاں کی سیاست تو بڑی دھڑن تختہ قسم کی ہے۔ آج کوئی وزیر ہے تو کل جیل میں ہے۔ اگر کوئی چند دن پہلے جیل میں تھا اور ساتھ ہی غدارِ وطن بھی، تو آناً فاناً وزیر ہو جاتا ہے۔ یہاں پر میرے احباب جب تمہارے ہاں کی سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو یقین جاننا میں مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔

    تمہیں علم ہے کہ مجھ پر آپ کے ہاں پانچ مقدمے صرف فحاشی کے جرم میں چلے تھے۔ حالانکہ میں نے کوئی فحش تحریر نہیں لکھی تھی۔ اس ضمن میں مجھ پر کیا کیا ستم نہیں ڈھائے گئے تھے۔ کبھی وارنٹ نکلے، کبھی گرفتار ہوا، کبھی دوستوں سے ادھار مانگ کر جرمانہ ادا کیا۔ اس کے باوجود میں نے "انصاف زندہ باد” کا نعرہ لگایا تھا۔ اگر میں کچھ دن اور وہاں رہ جاتا تو بہت ممکن تھا، مجھ پر قتل، ڈاکہ زنی، اور زنا بالجبر کے جھوٹے مقدمے بنا دیے جاتے۔ جہاں ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی ہو، وہاں کون مسخرہ رہے۔

    اگر حکومت کے عتاب سے بچ جائیں تو نقاد پیچھا نہیں چھوڑتے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ساری عمر نقادوں سے دور بھاگا ہوں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بعض نقاد بھی مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ وہ ہیں جو بگڑے ہوئے افسانہ نویس اور بگڑے ہوئے شاعر ہوتے ہیں یہ لوگ جب تخلیق کی قوت سے محروم ہوتے ہیں، تو تنقید میں علامہ بن جاتے ہیں۔ مجھے ان سب سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے۔ اس لئے کہ جب یہ قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں تو اچھی بھلی چیز میں سو سو عیب نکالتے ہیں۔ لیکن ان حضرات کو اپنی تحریر کے عیوب کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ خدا کے لئے مجھے ان بے تحاشا لکھے پڑھوں سے بچانا۔ ایسا نہ ہو کہ میرے موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اپنے قلم کو تیز کر لیں اور میرے فن کی دوشیزگی کا جھٹکا کر دیں۔
    آج ادب جبھی ترقی کرے گا کہ جو نقاد کہے۔ اس کا الٹا کیا جائے، نقادوں کا منشا بھی یہی ہوتا ہے، لیکن اسے میرے سوا سمجھا کوئی نہیں ہے۔

    کاش مجھے یہاں کوئی نقاد مل جائے تاکہ میں اس سے تنقیدی بحث کر سکوں۔ تنقیدی بحث کرتے ہوئے اگر کسی نے ان تینوں لفظوں کا صحیح استعمال کر لیا تو سمجھ لیجئے بازی لے گیا۔ وہ تین الفاظ یہ ہیں: اگر، مگر اور لیکن۔

    جب تک نقاد تخلیق کی قوتوں سے مالا مال نہ ہوں گے۔ ان کی تحریروں میں نہ توازن پیدا ہوگا اور نہ واقعیت کے ساتھ خلوص۔ جب فن کار کے دل کے ساتھ نقاد کا بھی دل دھڑکے گا تو پھر جو کچھ لکھا جائے گا، اس پر ایمان لانا ہی پڑے گا۔

    یہاں شرابِ طہور عام ہے، پانی نہ پیجئے۔ شرابِ طہور نوش کر لیجئے۔ تمہارے ہاں تو بڑی تھرڈ کلاس قسم کی شراب ملتی تھی اور اس جگر پاش شراب کے لئے بھی مجھے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے تھے۔ بعض اوقات اس نامراد کے لئے ذلیل تک ہوا، دوستوں میں میری عزت نہ رہی۔ جدھر جاتا تھا، احباب منہ موڑ لیتے تھے۔ راستہ تک چھوڑ کر انجان بن جاتے تھے۔ اگر کسی سے مڈبھیڑ ہو جاتی تو وہ میرے منہ پر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ میری جیب میں دھیلا تک نہیں ہے۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کی جیب میں دھیلا چھوڑ اتنے روپے ہیں کہ وہ مجھے اس خانہ خراب کی کئی بوتلیں خرید کر دے سکتا ہے۔ میں نے شراب کو خانہ خراب اس لئے کہا ہے کہ اس کی بنا پر کئی بار خانہ میں خرابی پید اہوئی تھی۔

    ایک بڑی خطرناک مگر راز کی بات کہتا ہوں، اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا، ورنہ پٹو گے، یہاں جتنی لڑکیاں ہیں وہ سب ہزاروں برس پرانی ہیں۔ لیکن ان کمبختوں کا جسم اور بانکپن تقدس توڑ ہے۔ اس مسئلہ پر تم سے بات کرنا قطعی حماقت ہے۔ اس لئے کہ تم اس مسئلے میں نرے چغد واقع ہوئے ہو۔ تمہاری چغدیت کا احترام کرنے کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ ان سب میں ایسی پروقار کشش اور سپردگی سی پائی جاتی ہے کہ تمہارے ہاں کی لڑکیاں ان کے سامنے بالکل بکواس ہیں۔
    یہاں ایسے ایسے جمال آور لڑکے بھی ہیں کہ تمہارے ہاں کا کوئی شاعر اور ادیب دیکھ لے تو اس کمبخت کے بے ہوش ہونے کے قطعی امکانات موجود ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ جانبر ہی نہ ہوسکے۔

    میں ساری عمر ادبی تخلیقات کے سلسلے میں اپنے ہم عصروں سے شرمندہ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے بھی کہ میرے مقابلہ ہی کا کون تھا؟ لیکن یہاں آیا تو غالب نے بڑا پریشان کیا، بڑا پھبتی باز ہے۔ کہنے لگا: تُو تو میرا چور ہے۔ میرے شعروں سے تو نے اپنے افسانوں کے عنوان چنے۔ کتابوں کے نام تک جب نہ سوجھے تو میرے شعروں کو دھر رگڑا اور محسن کشی ایسی کی کہ میرے بارے میں جو فلمی کہانی لکھی، اس میں بجائے میری شکر گزاری کے اظہار کے میری کسی خوبی کا ذکر تک نہیں کیا۔ بلکہ الٹی میری کمزوریاں گنوا کے رکھ دیں کہ میں بڑا وہ تھا، عورت باز تھا، جوا کھیلتا تھا، اور اس کی پاداش میں جیل تک ہو گئی تھی۔ وغیرہ وغیرہ

    تمہیں علم ہے کہ میں تمام لکھنے والوں میں صرف غالب ہی کو تو مانتا تھا۔ جب اس نے بھی مجھ سے ایسی ایسی باتیں کیں تو میں نے دل میں کہا: لعنت ہو سعادت حسن منٹو تمہاری حقیقت نگاری پر۔ لیکن غالب ہے بڑا زندہ دل قسم کا انسان، میری اتنی زیادتی کے باوجود گاڑھی چھنتی ہے۔ ہم اکثر ایک ساتھ پیتے ہیں، اور پیتے ہی میں جب ہم حقیقت آشنا ہو جاتے ہیں اور ہماری انا بیدار ہوتی ہے تو غالب کہتا ہے: میں تم سے بڑا افسانہ نگار ہو سکتا تھا۔ لیکن میں نے اسے فضول چیز سمجھ کر ہاتھ ہی نہیں لگایا تھا۔

    اور میں اس سے کہتا ہوں: شعر کہنا کون سا کمال ہے مرزا صاحب، میری تو نثر کی ہر ہر سطر میں ایک شعر کیا پوری غزل کی غزل پنہاں ہوتی ہے۔

    بات دونوں کی غلط ہے، اس کا علم اسے بھی ہے اور مجھے بھی۔ لیکن ہم اپنی اپنی انا کا کیا کریں۔

    چچا سام کا دبدبہ تو تمہارے ہاں دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے، مبارک ہو!

    بڑوں کی عزت ضرور کرنی چاہئے۔ لیکن سعادت مندی کے معنی یہ بالکل نہیں ہیں کہ تم اپنی ننھی سی جان بھی خطرے میں ڈال دو۔ میں نے یہ خبر بد بھی سنی ہے کہ اب تو تمہارے ہاں کا سارا کا سارا کام وہی کرتے ہیں۔ اور تم سب الوؤں کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے اندھیرے کے منتظر ہو۔ اتنی تن آسانی اچھی نہیں، ورنہ پچھتاؤ گے۔ حتی کہ تم لوگوں نے اپنی خودداری تک کو قفل لگا کے الماریوں میں رکھ دیا ہے۔

    مصیبت یہ ہے کہ میں یہاں سے چچا سام کے نام کوئی خط نہیں لکھ سکتا۔ ورنہ میں اس سے اپنی حدود میں رہنے کی درخواست ضرور کرتا۔ دعا کرو کہ وہ خود ہی میرے پاس جلد سے جلد آجائیں تاکہ تمہاری جان چھوٹے، میں تو ان سے نمٹ ہی لوں گا۔ فراڈ کو فراڈ ہی پچھاڑ سکتا ہے۔

    میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جب سے یہاں آیا ہوں، تمہارے ہاں میرا بڑا سوگ منایا گیا۔ خدا کی قسم، یہ سنتے ہی میرا دل کباب ہو گیا۔ اس لئے کہ جب تک میں وہاں رہا، سب نے مل جل کر مجھے اپنے ہاں سے دور کرنا چاہا۔ جب یہاں کچھ دوسروں کی اور کچھ اپنی مرضی سے آ گیا ہوں۔ تو ریڈیو پر اس ناچیز کی گمشدگی کے اعلانات کیوں کیے جاتے ہیں۔ یہ وہی ریڈیو والے ہیں جو مجھے اپنے ہاں ناک تک صاف نہیں کرنے دیتے تھے۔ رسالے اور اخبارات بھی میرے روپوش ہونے پر خصوصی ماتم کیوں کر رہے ہیں؟ ان کا بھی میرے ساتھ یوسف کے بھائیوں جیسا سلوک تھا۔ ان حالات میں تمہیں اپنے اس منافقانہ رویہ پر شرم آنی چاہئے۔

    یہاں میرے کچھ قدر دان پیدا ہو گئے ہیں۔ اور پچھلے دنوں انہوں نے میرے ذمہ یہ کام کیا تھا کہ میں یہاں کے بارے میں اپنی سہ ماہی رپورٹ پیش کروں۔ یہ فریضہ میرے سپرد اس لئے ہوا تھا کہ ان کے خیال کے مطابق مجھ جیسا حقیقت نگار یہاں کوئی نہیں ہے۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق سب کچھ لکھ دیا ہے۔ اس میں اپنے ایک دوست کی خوب ڈٹ کر مخالفت بھی کی ہے۔ اور اس کا جو معاشقہ اندر ہی اندر چل رہا تھا، اس کا بھی کچا چٹھا لکھ دیا ہے۔

    حتی کہ میں نے رپورٹ میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہاں جو داڑھی نہ منڈوانے کا دستور ہے وہ بعض نستعلیق قسم کی طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے۔ اس لئے اس کی اجازت ہونی چاہئے کہ جس کا دل چاہے داڑھی رکھے جس کا دل نہ چاہے نہ رکھے۔

    اتنے بڑے حاکم کے سامنے اتنا کہہ دینا اور کسی قسم کی جھجک محسوس نہ کرنا، خالہ جی کا گھر نہ تھا، تمہارے ہاں ایسی کوئی کھری بات کہہ دیتا تو میری زبان گدی سے نکلوا دی جاتی۔

    اطلاعاً عرض ہے۔ یہاں میری کتاب "گنجے فرشتے” کافی پسند کی گئی ہے۔ ہو سکے تو میری بیوی بچّوں کا خیال رکھنا۔

    خاکسار
    سعادت حسن منٹو
    20/اپریل 1955ء

    (منٹو کی وفات کے تین ماہ بعد اردو کے مشہور جریدے نقوش کے منٹو نمبر میں محمد طفیل نے منٹو کا فرضی خط بنام مدیر نقوش شایع کیا تھا)

  • مثل فوکو اور اس کے نظریات

    مثل فوکو اور اس کے نظریات

    فوکو کا یہ قول مشہور ہے کہ ’’میں کبھی فرائڈ کا ماننے والا نہیں رہا، نہ میں کبھی مارکس کا پیروکار رہا ہوں اور نہ میں کبھی ساختیات پسند رہا ہوں۔‘‘

    سارتر کے انتقال کے بعد خود فوکو کو لوگوں نے’’ نیا سارتر‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ سارتر کی موت کے بعد فرانس میں جو نئے مفکر سامنے آئے ان میں لیوی اسٹراس، رولاں بارت، فوکو، لاکاں اور ژاک دریدا بہت مشہور ہیں۔ مثل فوکو نے اپنی توجہ تاریخ کے ان گوشوں کی طرف کی جن پر یورپ کے مفکروں نے توجہ نہیں کی تھی۔

    پاگل پن کے ان تصورات کی طرف جو یورپ میں جدید عہد میں سامنے آئے اور پاگل پن کے بارے میں عمرانی رویوں کی تبدیلیوں پر مثل فوکو نے توجہ کی۔ یہ بھی جاننے اور بتانے کی کوشش کی کہ یورپ میں پاگل پن کے علاج کے سلسلے میں کس طرح اندازِ فکر بدلتا رہا ہے، پاگل پن کے سلسلے میں بھی اندازِ فکر میں کس طرح تبدیلیاں آئی ہیں۔ حیاتیات، لسانیات اور معاشیات کے بنیادی تصورات میں کس طرح تبدیلیاں ہوئیں، لیوی اسٹراس، رولاں بارت اور ژاک دریدا کے نام کس طرح سامنے آئے۔ فوکو کا یہ قول کہ’’ انسان مر چکا ہے۔‘‘ دراصل۱۹۶۰ء میں اس کی شہرت کا باعث ہوا۔

    پاگل پن کی تاریخ پر اس کا تحقیقی مقالہ شائع ہوا اور اسی موضوع پر اس کی کتاب بھی شائع ہوئی تو۱۹۷۰ء میں وہ فلسفے کے تاریخ نظام فلسفہ کا چیئر مین بھی بنا دیا گیا۔ وہ ساختیات کا ماننے والا نہیں تھا پھر بھی جب اس کی کتاب The Orderof Things شائع ہوئی تو کچھ مبصروں نے اسے ساختیات پسند قرار دیا۔ حالانکہ اس کا خیال تھا کہ اس نے نہ تو ساختیات پسندوں کے نظریات کو قبول کیا تھا اور نہ ساختیاتی طریقہ کار کو اور نہ ساختیاتی اصطلاحوں کو۔ اس کے باوجود The Orderof Things میں اس نے ساختیات کو جدید علوم کا بے چین شعور کہا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ جدید عہد کی تاریخ لکھنا چاہتا ہے۔

    ’’پاگل پن اور تہذیب‘‘ سے لے کر’’ جنسیات کی تاریخ‘‘ تک اس نے بیس سال تصنیف و تالیف میں لگا دیے۔ ’’جنسیات کی تاریخ‘‘ اس کی موت کے بعد شائع ہوئی۔

    فوکو، نوم چومسکی، ہیبر ماس اورژاک دریدا کم و بیش ہم عمر تھے۔ فوکو کی شہرت نوم چومسکی کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ فوکو اپنے آپ کو جدید عہد کا مؤرخ کہتا ہے۔

    فوکو پہلا فلسفی ہے جس نے تاریخ اور فلسفے کو ملا کر ایک کر دیا اور اس طرح جدید تہذیب کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تنقید لکھی۔ پھر اس مسئلے سے بھی بحث کی ہے کہ مغرب میں سماجی طور پر عقلیت یعنی Rationality کا ظہور کس طرح ہوا، اور یہ کس طرح ثابت ہوا کہ جدید عہد کی روح عقلیت یعنی (Rationality) ہے۔ فوکو نے بتایا کہ جدید فلسفہ اس مسئلے میں بنیادی دلچسپی رکھتا ہے کہ عقل کا ظہور کس طرح معاشرے میں پختگی تک پہنچا۔ یعنی سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی تنظیم میں عقل کس طرح پختگی تک پہنچی۔ کانٹ کا یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ روشن خیالی سے کیا مراد ہے؟

    فوکو نے بتایا کہ کانٹ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ کامٹے (Comte) کے زمانے سے اب تک سائنس کی تاریخ کیا ہے؟ جرمنی میں میکس ویبر (Max Weber) سے ہابر ماس (Habermass) تک سماجی طور پر عقلیت کا مطلب کیا ہے۔ ڈیکارٹ سے ہیگل تک بنیادی سوال یہی رہا ہے کہ کس طرح انسانی فکر کو ماورائی نرگسیت سے نجات دلائی جائے۔

    اقتدار کا راستہ خود فرد کے جسم کی اپنی قوت مہیا کرتی ہے جسموں پر جو قوت حکمراں ہوتی ہے اس کی مخالفت بھی خود خواہش اور ارادے کی قوت کرتی ہے اور یہی قوت اس کے نزدیک سارے انقلابات کا ماخذ ہے۔ فوکو کا خیال ہے کہ انسان کی جنسی جبلتوں کے بارے میں کوئی چیز بنیادی اور حتمی انداز میں نہیں کہی جاسکتی۔

    یورپ میں زندگی کے جتنے بھی معانی ہیں ان کا ماخذ جنس ہے اور فوکو کے خیال میں یہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ فوکو کہتا ہے کہ اب یورپ کے لوگ جنس کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ایک ایسی چیز کی طرح جو حقیقتاً خواہش کے لائق ہے۔ اب انیسویں اور بیسویں صدی میں حیاتیات اور عضویات کی مدد سے جنس کے معاملے میں بھی اصول اور معیار متعین کر لیے گئے ہیں۔

    یورپ کے ماہرین نفسیات نے اور خود یورپ کے معاشرے نے بھی جنسی کج روی کو گناہ کے تصور سے آزاد کر کے اسے ابنارمل یا مریضانہ قرار دے دیا ہے لیکن خود فرائڈ نے اس قسم کی کوئی تقسیم جو نارمل یا ابنارمل کی بنیاد پر کی گئی ہو قبول نہیں کی۔ نارمل انسان کا جو تصور یورپ میں رائج ہے اس کی بجائے فوکو نے مشرق کا وہ انداز فکر جو جنس کو محبت کے آرٹ کا ایک مظہر سمجھتا ہے، زیادہ قابل قبول بتایا ہے اور اسے وہ صرف مسرّت برائے مسّرت کا حصول جانتا ہے۔ اس تصور میں جنسیت بھی محبت کا ایک آرٹ ہے۔ ایک طرح کا کھیل، تخلیقیت اور تصنع سے بھرپور۔

    (معروف نقاد، شاعر اور ادیب قمر جمیل کے مشہور فلسفی اور مؤرخ فوکو پر لکھے گئے ایک مضمون سے چند پارے)

  • مخمل کا کوٹ

    مخمل کا کوٹ

    دیوان سنگھ مفتون نے اردو ادب اور صحافت میں‌ بڑا نام پایا اُن کے کالم، آپ بیتی اور صحافت کی دنیا میں‌ اُن کے زور دار اداریے بہت مشہور ہیں۔

    1924 میں سردار دیوان سنگھ مفتون نے دہلی سے اپنا مشہور ہفتہ وار با تصویر اخبار ”ریاست“ نکالا تھا اور کہتے ہیں کہ یہ ہر لحاظ سے اعلیٰ پائے کے جرائد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا تھا۔

    وہ ایک ایسے اہلِ‌ قلم تھے جس نے زندگی کے ہفت خواں طے کرنے کے لیے مختلف کام سیکھے، پیشے اختیار کیے اور اپنی محنت اور لگن سے ادب اور صحافت میں نام وَر ہوئے۔ مفتون نے اپنی تصنیف میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ایڈیٹر "ریاست” (دیوان سنگھ مفتون)‌ کی عمر ایک ماہ دس روز تھی جب والد کا انتقال ہو گیا اور یتیمی نصیب ہوئی۔ اُس وقت گھر میں روپیہ، زیورات، زمین اور مکانات کے کاغذ تھے۔ کیونکہ والد صاحب نے اپنی کام یاب زندگی میں کافی روپیہ پیدا کیا تھا۔

    والد کے انتقال کے بعد رشتہ داروں نے زمین اور مکانات پر قبضہ کر لیا۔ اور بارہ سال تک بغیر کسی آمدنی کے ضروریاتِ زندگی اور بڑے بھائی اور بہنوں کی چار شادیوں پر روپیہ صرف ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیٹر ریاست کی عمر جب بارہ سال کی تھی تو گھر میں کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ چنانچہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اور ایڈیٹر ریاست پانچ روپیہ ماہوار پر حافظ آباد میں ایک بزاز کی دکان پر ملازم ہوا۔ کام یہ تھا کہ اندر سے کپڑوں کے تھان لا کر خریداروں کو دکھائے جائیں۔ اس ملازمت کے دو واقعات مجھے یاد ہیں جن کا میرے کیریکٹر پر بہت نمایاں اثر ہوا۔

    یہ دکان ایک ہندو بزاز کی تھی۔ اور اس دکان پر ایک بوڑھا مسلمان درزی اور اس کا جوان بیٹا کام کرتے تھے۔ یہ باپ اور بیٹا حافظ آباد کے قریب کسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ چند دن کے لئے باپ کسی شادی میں شریک ہونے اپنے گاؤں گیا تو اپنی غیر حاضری کے دنوں کے لئے اپنے بیٹے کو چند کپڑے سپرد کر گیا تا کہ ان کو وہ تیار کر رکھے۔ بوڑھا درزی جب واپس آیا تو بیٹے کے سلے ہوئے کپڑوں کو دیکھا تو ان میں کسی بچے کا سبز رنگ کی مخمل کا ایک کوٹ بھی تھا جو اس کے بیٹے نے سبز رنگ کے تاگے کی بجائے سفید رنگ کے تاگے سے سیا تھا۔ اس غلطی کو دیکھ کر بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا، اور کہا کہ
    نالائق تو دیہات کے رہنے والے جاٹ کے لڑکے (جس کا کوٹ سیا تھا) پر رحم نہ کرتا مگر اس مخمل پر تو رحم کرتا جس کا ستیاناس کر دیا۔

    چنانچہ اس مسلمان بوڑھے باپ نے مخمل کے اس کوٹ کی سلائی کو کھولا، سفید تاگے نکالے اور سبز تاگے سے سیا۔

    اس واقعہ کا میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ چاہے میں نے چھ روپیہ تنخواہ لی یا بارہ روپیہ یا دو سو روپیہ اور چاہے ملازمت کی یا خود اپنا کام کیا۔ تمام زندگی ہمیشہ کام کو دیکھ کر کام کیا نہ کہ اس کے معاوضہ کو۔ ہمیشہ بارہ گھنٹے سے اٹھارہ گھنے تک کام کیا۔ چاہے تنخواہ کچھ بھی ملتی تھی۔ اور شاید ایک دفعہ بھی ایسا نہ ہوا ہو گا کہ کسی کام کو کرتے ہوئے اُس پر پوری توجہ نہ دی ہو۔ غرض میرے کیریکٹر پر اس واقعہ نے بہت بڑا اثر کیا۔

  • ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    عشرت سلطانہ عرف ببّو کسی زمانے میں ساگر فلم کمپنی کی مشہور ہیروئن ہوا کرتی تھی۔ 1914ء میں دلّی میں پیدا ہوئی تھی۔ طبیعت بچپن سے اداکاری، رقص و موسیقی کی جانب مائل تھی اس لیے فلم لائن میں چلی گئی۔ اچھی اداکارہ ہونے کے ساتھ اچھی سنگر بھی ثابت ہوئی۔ ہیروئن اور ویمپ کا کردار یکساں خوبی کے ساتھ نبھایا کرتی تھی۔

    اُن دنوں بھی بہت ہنس مکھ تھی، جس محفل میں جاتی اُسے زعفران زار بنا دیا کرتی تھی۔ پہلی بار فلم ’دوپٹہ‘ میں ایک چھوٹا سا رول ملا تھا جو اس نے خوش اسلوبی سے نبھا دیا۔ پھر بڑے کردار ملنے لگے اور فلمیں کامیاب ہوتی چلی گئیں۔ جسم تھوڑا بھاری تھا لیکن اس کی سُریلی آواز نے لوگوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔

    ’جاگیردار‘ اور ’گرامو فون سنگر‘ فلموں کے باعث بڑی مشہور ہو گئی۔ اس کا یہ گانا بچّے بچّے کی زبان پر تھا ’’پجاری میرے مندر میں آؤ‘‘ ایک اور نغمہ تمھیں نے مجھ کو پریم سکھایا….سوئے ہوئے ہردے کو جگایا، بہت پاپولر ہوا تھا۔

    ایک بار اس کی ایک فلم دیکھ کر بمبئی کے گورنر نے اس کی تعریف کی تھی جس کی وجہ سے وہ مغرور ہو گئی اور اس کے نخرے بڑھنے لگے۔ اپنے وفا شعار شوہر کو چھوڑ کر چلتے پھرتے تعلقات پر یقین کرنے لگی۔ بالآخر حسن ڈھلنے کے دن آ گئے اور مٹاپا جسم پر چھا گیا تو سب نے آنکھیں پھیر لیں، کام ملنا بند ہو گیا۔ ملک کا بٹوارہ ہو گیا تو قسمت آزمائی کے لیے لاہور چلی گئی اور وہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مقام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہاں بھی مارکیٹ ختم ہو گئی۔ کام حاصل کرنے کی کوشش میں وہ اسٹوڈیوز کے چکّر کاٹتی رہتی تھی۔ فلم ’مغلِ اعظم‘ میں سنگ تراش کا کردار عمدگی سے نبھانے کے باوجود جب اداکار کمار کو بھی اداکاری کے میدان میں دشواری محسوس ہونے لگی تو وہ بھی پاکستان چلا گیا۔

    ایک دن اُس کا کسی اسٹوڈیو میں اپنی پرانی ہیروئن ببّو سے سامنا ہوا تو دونوں گلے ملے۔ کمار بار بار ’’میری ببّو، میری ببّو‘‘ کہہ کر پرانے دنوں کی یاد تازہ کرتا رہا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بمبئی میں تب کیسے اچھے دن تھے اور اب کتنا مایوس کر دینے والا ماحول تھا۔ ببّو کے پاؤں جب فلم انڈسٹری سے اکھڑ گئے اور کوشش بسیار کے باوجود کام نہ ملا تو اُس نے شراب کی ناجائز درآمد اور برآمد کا دھندا شروع کر دیا، پکڑی گئی تو نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ آخر کار گمنام موت نصیب ہوئی۔ اب اُسے یاد کرنے والا کوئی نہیں۔

    (از قلم وشو ناتھ طاؤس)