Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • میرا من پسند صفحہ

    میرا من پسند صفحہ

    کچھ لوگ صبح اُٹھتے ہی جماہی لیتے ہیں، کچھ لوگ بستر سے اُٹھتے ہی ورزش کرتے ہیں، کچھ لوگ گرم چائے پیتے ہیں۔ میں اخبار پڑھتا ہوں اور جس روز فرصت زیادہ ہو اس روز تو میں اخبار کو شروع سے آخر تک مع اشتہارات اور عدالت کے سمنوں تک پورا پڑھ ڈالتا ہوں۔

    یوں تو اخبار سارے کا سارا اچھا ہوتا ہے لیکن عام لوگوں کے لیے اخبار کا ہر صفحہ اتنی دل چسپی نہیں رکھتا۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو اخباروں میں صرف ریس کا نتیجہ دیکھتے ہیں یا وہ صفحہ جس پر روئی، تلی، پیتل، لوہا، تانبا، پٹ سن، سونا، چاندی، گڑ، پاپڑ اور آلوؤں کے سوکھے قتلوں کے بھاؤ درج ہوتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو اخبار کا پہلا صفحہ ہی پڑھتے ہیں جس پر بڑی وحشت ناک خبریں موٹے موٹے حروف میں درج ہوتی ہیں۔ روز قتل اور ڈاکہ اور بد دیانتی اور خون خرابے کے واقعات کو بڑی بڑی سرخیوں میں چھاپا جاتا ہے۔ بعض لوگ اخبار کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کا اداریہ کھول کے پڑھتے ہیں جس پر آج ایک چیز کے حق میں لکھا گیا ہے تو کل اُسی ذمہ داری سے اُس چیز کے خلاف لکھا جائے گا اور اگر پہلے دن آپ اس چیز کے حق میں ہوں گے تو دوسرے دن اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ یار لوگوں نے اس صورت حال کا نام رائے عامہ رکھ چھوڑا ہے۔ خیر اپنی اپنی سُوجھ بُوجھ۔

    آج کل میرا من پسند صفحہ وہ ہے جو پہلا صفحہ اُلٹنے کے فوراً بعد آتا ہے۔ دوسرا صفحہ جس پر صرف اشتہار ہوتے ہیں، میرے خیال میں یہ اخبار کا سب سے سچا، سب سے عمدہ اور سب سے دلچسپ صفحہ ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے لین دین اور تجارتی کاروبار کا صفحہ ہے۔ ان کی ذاتی مصروفیتوں اور کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زندگی کی ٹھوس سماجی حقیقتوں کا ترجمان ہے۔ یہاں پر آپ کو کار والے اور بے کار ٹائپسٹ اور مل مالک مکان کی تلاش کرنے والے اور مکان بیچنے والے، گیراج ڈھونڈنے والے اور ذاتی لائبریری بیچنے والے، کُتے پالنے والے اور چوہے مارنے والے، سرسوں کا تیل بیچنے والے اور انسانوں کا تیل نکالنے والے، پچاس لاکھ کا مِل خریدنے والے اور پچاس روپے کی ٹیوشن کرنے والے سبھی بھاگتے دوڑتے، چیختے چلاتے، روتے ہنستے، نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے جیتا جاگتا صفحہ ہے جس کا ہر اشتہار ایک مکمل افسانہ ہے اور ہر سطر ایک شعر۔ یہ ہماری دنیا کی سب سے بڑی سیر گاہ ہے جس کی رنگا رنگ کیفیتیں مجھے گھنٹوں مسحور کیے رکھتی ہیں۔ آئیے آپ بھی میرے اس من پسند صفحہ کی دلچسپیوں میں شامل ہوجائیے۔ دیکھئیے یہ ذاتی کالم ہے۔

    نائیلان جرابوں کا اسٹاک آگیا ہے، بیوپاری فوراً توجہ کریں۔ آپ کہیں گے یہ تو کوئی ذاتی دل چسپی کی چیز نہیں ہے۔ بھئی ہمیں نائیلان جرابوں سے کیا لینا، یہ صحیح ہے لیکن ذرا صنفِ نازک سے پوچھیے، جن کے دل یہ خبر سُن کر ہی زور سے دھڑک اُٹھے ہوں گے اور ٹانگیں خوشی سے ناچنے لگی ہوں گی۔ آج کل عورت کے دل میں نائیلان جراب کی وہی قدر و قیمت ہے جو کسی زمانے میں موتیوں کی مالا کی ہوتی تھی۔ آگے چلیے۔

    ڈارلنگ فوراً خط لکھو، معرفت ایس ڈی کھرونجہ نیلام پور۔ کون ڈارلنگ ہے وہ۔ کسی مصیبت میں ہے وہ۔ وہ کیوں اس کے گھر یا کسی دوست یا سہیلی کے ہاں خط نہیں بھجوا سکتا۔ اخبار میں یہ اشتہار کیوں دے رہا ہے کہ بیچارہ دیکھیے کیسی کیسی مجبوریاں ہوں گی، اس بیچاری لڑکی کے لیے بھی۔ وہ بھی میری طرح ہر روز یہ اخبار کھولتی ہوگی۔ اس میں ذاتی کالم دیکھتی ہوگی اور اپنے لیے کوئی خبر نہ پاکر کیسی اُداس اور رنجور ہوجاتی ہوگی اور آج جب وہ ذاتی کالم میں یہ خبر پڑھے گی تو کیسے چونک جائے گی، خوشی سے اس کا چہرہ چمک اٹھے گا۔ مسرّت کی سنہری ضیا اس کی روح کے ذرے ذرے کو چمکا دے گی اور وہ بے اختیار اخبار اپنے کلیجے سے لگا لے گی اور اس کی لانبی لانبی پلکیں اس کے رخساروں پر جھک جائیں گی یعنی اگر اس کی لانبی پلکیں ہوئیں تو ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی پلکیں نہایت چھوٹی چھوٹی ہوں، جیسے چوہیا کے بال ہوتے ہیں اور ماتھا گھٹا ہوا ہو۔ کچھ بھی ہو وہ ایس ڈی کھرونجہ کی ڈارلنگ ہے۔ ایس ڈی کھرونجہ کون ہے؟ اب اس کے متعلق آپ اندازہ لگائیے۔ ممکن ہے وہ کوئی بھڑونجہ ہو یا معمولی کلرک ہو یا ہلاس مونی گولیاں بیچنے والا ہو یا نیلا پور میں رس گلے اور بنگالی مٹھائی کی دکان کرتا ہو یا کسی بڑے مل کا مالک ہو وہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اور اب سوچتے جائیے، دیکھیے زندگی کس قدر دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔

    اس سے اگلا کالم دیکھیے، یہ مکانات کا کالم ہے۔ یہ بھی بے حد دلچسپ ہے کیونکہ آج کل مکان کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے لیکن یہاں آپ کو ہر طرح کے مکان مل جائیں گے۔

    میرے پاس سمندر کے کنارے ایک بنگلے میں ایک علیحدہ کمرہ ہے لیکن میں شہر میں رہنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب مجھے شہر کے اندر ایک اچھا کمرہ دے سکیں تو میں انہیں سمندر کے کنارے کا اپنا کمرہ دے دوں گا اور ساتھ ہی اس کا کل ساز و سامان بھی جس میں ایک صوفہ دو ٹیبل لیمپ اور ایک پیتل کا لوٹا شامل ہے۔

    لیجیے اگر آپ شہری زندگی سے اُکتا گئے ہوں تو سمندرکے کنارے جا کے رہیے۔ اگر آپ سمندر کے کنارے رہنے سے گھبراتے ہوں تو شہر میں جا کے رہیے۔ پیتل کا لوٹا تو کہیں بھی رہ سکتا ہے۔

    یہ دوسرا اشتہار دیکھیے۔

    کرائے کے لیے خالی ہے، نیا مکان، آٹھ کمرے، دو کچن پانچ غسل خانے، گراج بھی ہے اور مکان کے اوپر چھت ابھی نہیں ہے۔ مگر اگلے مہینے تک تیار ہوجائے گی۔ کرائے دار فوراً توجہ کریں۔

    آپ یہ پڑھ کر فوراً توجہ کرتے ہیں بلکہ کپڑے بدل کر چلنے کے لیے آمادہ بھی ہوجاتے ہیں کہ اتنے میں آپ کی نظر اگلی سطر پر پڑتی ہے لکھا ہے۔

    ’’کرایہ واجبی مگر سال بھر کا پیشگی دینا ہوگا۔ سالانہ کرایہ اٹھارہ ہزار۔‘‘

    اور آپ پھر بیٹھ جاتے ہیں اور اگلا اشتہار دیکھتے ہیں، لکھا ہے عمدہ کھانا، بہترین منظر، کھلا کمرہ، فرنیچر سے سجا ہوا بجلی پانی مفت۔ کرایہ سب ملا کے ساڑھے تین سو روپے ماہانہ۔

    آپ خوشی سے چلّا اٹھتے ہیں مِل گیا، مجھے ایک کمرہ مل گیا اور کس قدر سستا اور عمدہ اور کھانا ساتھ میں۔ واہ واہ آپ فوراً خط لکھنے کی سوچتے ہیں اور پھر کلیجہ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ آگے لکھا ہے؛

    ’’دل کُشا ہوٹل دار جلنگ‘‘

    ظاہر ہے کہ آپ بمبئی میں نوکر ہیں۔ دلکشا ہوٹل۔ دارجلنگ میں رہ کر بمبئی کی نوکری نہیں کرسکتے۔

    اس کا اگلا کالم موٹروں کتابوں اور کتوں کا ہے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ ایک ہی ماڈل کی نئی گاڑی ہے مگر وہ دو مختلف داموں میں بک رہی ہے۔ سیٹھ حُسن لال کی گاڑی سات ہزار میں بکاؤ ہے، کیونکہ وہ اسے بیچ کر کوئی دوسرا ماڈل لینا چاہتے ہیں اور وہی گاڑی مسٹر مکڈانلڈ کے پاس ہے اور وہ اسے دو ہزار میں بیچے دے رہے ہیں کیونکہ مسٹر مکڈانلڈ ولایت جا رہے ہیں۔ ایک خوب صورت کتّا ہے جو ڈیڑھ سو میں بکتا ہے۔ شکسپیئر کے ڈراموں کا باتصویر سیٹ ہے جو دس روپے میں جارہا ہے۔ یہ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ کتوں کے دام کتابوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ اس کالم میں موٹروں اور کتوں کے خریدنے اور بیچنے والے تو بہت ملتے ہیں، لیکن کتابوں کے صرف بیچنے والے تو نظر آتے ہیں خریدنے والا کوئی نہیں۔ جتنے اشتہار ہیں اس سے ہمیں اپنے ملک کے عظیم کلچر کا اندازہ ہوتا ہے۔

    اس صفحہ کا سب سے آخری کالم جسے میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں، شادی کا کالم ہے۔ بر کی ضرورت ہے، ایک نوجوان حسین اٹھارہ سالہ گریجویٹ لڑکی کے لیے۔

    بَر کی ضرورت ہے، ایک خوش رو خوش خو اور خوش قامت تعلیم یافتہ بے حد حسین لڑکی کے لیے جو ناچنا گانا بھی جانتی ہے اور ادبی ذوق بھی رکھتی ہے۔

    بَر کی ضرورت ہے، ایک خوبصورت خاندانی لڑکی کے لیے جس کا باپ ایک مل کا مالک ہے، لڑکا اچھا ہونا چاہیے، ذات پات کی کوئی تمیز نہیں۔

    اور میں بھی ذات پات کی پروا کیے بغیر ہر جگہ عرضی بھیجنے کی سوچتا ہوں کہ اتنے میں میری بیوی میرے سر پرآن کے کھڑی ہوجاتی ہے اور مجھ سے پوچھتی ہے کیا پڑھ رہے ہو؟ اور میں ایک حزیں مسکراہٹ سے اپنا من پسند صفحہ بند کر دیتا ہوں۔

    (کرشن چندر کے ایک شگفتہ مضمون سے چند پارے)

  • ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    مولانا حبیب الرّحمٰن کے بیٹے عزیز الرّحمٰن جامعی نہایت ہوشیار نوجوان تھے، انہیں شوق تھا کہ بڑے بڑے آدمیوں سے ملتے، والد کا ذکر کرتے اور کوئی نہ کوئی خبر اڑا لاتے، ان دنوں زعمائے احرار کی خبروں کا منبع عزیز الرّحمٰن ہی تھے۔ گاندھی، نہرو آزاد وغیرہ کے ہاں تو ان کا آنا جانا روز ہی کا تھا، ان سے ملاقات نہ ہوتی، ان کے سیکرٹریوں سے مل آتے، سیکرٹریوں سے نہ ملتے، تو ان کے سٹینو گرافروں سے مل آتے لیکن خبریں زور کی لاتے اور اکثر خبریں صحیح نکلتی تھیں۔

    ایک دن میں نے اور نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ان سے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کی راہ نکالو، عزیز نے کہا کہ ’’ابھی چلو، گاندھی جی نے بھنگی کالونی میں کٹیا ڈال رکھی ہے، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔‘‘ ہم تیار ہو گئے۔

    میں، نواب زادہ، انور صابری اورعزیز الرّحمٰن بھنگی کالونی پہنچے تو گاندھی جی وائسریگل لاج گئے ہوئے تھے۔ ان کی کٹیا ہری جنوں کی بستی کے بیچوں بیچ لیکن کھلے میدان میں تھی۔ کوئی تیس گز ادھر بانس بندھے ہوئے تھے اور یہ کھلا دروازہ تھا۔ یہاں سے قریب ہی ایک خیمہ تھا، جس میں رضاکاروں کا سالار رہتا، ادھر ادھر کچھ چارپائیاں پڑی تھیں۔ کرسیوں کا نشان تک نہ تھا، گاندھی جی کی بیٹھک کا تمام حصہ فرشی تھا، کچھ دیر تو ہم بعض دوسرے مشتاقین کے ساتھ بانس کے دروازے پر کھڑے رہے، پھر عزیز الرّحمن نے ہمت کی اور پیارے لال کو کہلوایا، اس نے بلوایا، پیارے لال گاندھی جی کا سکریٹری تھا، عزیز الرّحمٰن نے اس سے کہا کہ ’’ہم اس غرض سے آئے ہیں۔‘‘ وہ نیم راضی ہوگیا، کہنے لگا ’’آپ سامنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھیں، باپو ابھی آتے ہیں، ان کی مصروفیتیوں کا تو آپ کو اندازہ ہے، ممکن ہے کوئی اور وقت دیں۔‘‘

    ہم ٹھہر گئے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ میں ان دنوں کھدر پہنتا لیکن سر پر جناح کیپ رکھتا تھا۔ انور صابری نے قلندروں کا جھول پہن رکھا اور عزیز الرّحمٰن مولویوں کے چغہ میں تھا۔ کوئی چالیس منٹ ٹھہرے ہوں گے کہ گاندھی جی کی کار کی آمد کا غل ہوا۔ اتنے میں درجن ڈیڑھ درجن دیویاں بھی آگئیں، گاندھی جی کی کار سڑک سے اندر داخل ہوئی، دیویوں نے پاپوشی کرنی چاہی لیکن گاندھی جی تیر کی طرح نکل کر ہمارے پاس رک گئے۔ ہم نے ہاتھ اٹھا کر آداب کیا، مسکرائے۔

    ’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’پنجاب سے۔‘‘

    ’’آپ نے بہت تکلیف کی؟‘‘۔

    ’’جی نہیں، ہم آپ کے درشن کرنے آئے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے کہا: ’’مہاتما جی! میں مولانا حبیب الرّحمٰن لدھیانوی کا بیٹا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا! وہ مولوی صاحب جو مجھ سے بہت لڑتے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے ہم تینوں کا تعارف کرایا، گاندھی جی مسکراتے رہے۔ ملاقات کا وقت مانگا، گاندھی جی نے ہامی بھر لی، کہا: ’’آپ لوگ پرسوں شام پانچ بجے آدھ گھنٹے کے لیے آجائیں۔‘‘

    عزیز نے کہا:’’آپ کے سیکریٹری ٹرخا دیتے ہیں، ذرا ان سے بھی کہہ دیں۔‘‘

    گاندھی جی نے کہا:’’کوئی بات نہیں، یہ کھڑے ہیں، ان سے میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘ مزید کہا: ’’کل بھی میں آپ کو بلا سکتا ہوں لیکن کل میرا مون برت ہے۔ آپ باتیں کریں، تو میں سلیٹ پر لکھ کر جواب دوں گا، کچھ کہنا سننا ہے، تو پرسوں کا وقت ٹھیک رہے گا۔‘‘

    ہم نے صاد کیا ، گاندھی جی نے ہاتھ باندھ کر پرنام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کٹیا میں داخل ہوگئے۔ دوسرے لوگ ہمیں حیرت سے تکتے رہے۔

    (1946 میں شورش کاشمیری نے دہلی میں قیام کے دوران کئی قومی لیڈروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں جن کا ذکر اپنی کتاب بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل میں کیا ہے، یہ پارہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • سیّد عطا اللہ شاہ بخاری، قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب

    سیّد عطا اللہ شاہ بخاری، قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب

    یہ تذکرہ ہے سیّد عطا اللہ شاہ بخاری کا جنھیں متحدہ ہندوستان میں ان کی دینی خدمات اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے گہرے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا گیا۔

    عطا اللہ شاہ بخاری شعر شناس بھی تھے اور شاعر بھی جب کہ قدرت نے خطابت کا بے پناہ ملکہ بھی ودیعت کر رکھا تھا اور لوگ ان کی تقریر سننے کے لئے دور دراز سے چلے آتے تھے۔ اردو اور فارسی پر عبور حاصل تھا اور ان زبانوں میں ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور زیادہ تر شاعری فارسی میں کی۔ یہاں ہم عطا اللہ شاہ بخاری کے ذوقِ‌ ادب سے متعلق مستند کتابوں‌ سے چند اقتباسات نقل کررہے ہیں۔

    شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ (اپنی)‌ نانی اماں کی زبان دانی سے فیض پانے پر فخر کرتے اور شاد عظیم آبادی سے اپنی ہم صحبتی و ہم سخنی کے واقعات بڑے کرّو فخر سے بیان کرتے، جہاں تک اردو زبان سے آشنائی کا تعلق تھا وہ کسی بھی اہلِ زبان سے اپنے تئیں کم نہ سمجھتے تھے۔ اپنی زبان کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا…. اور یہ غلط نہ تھا۔‘‘

    شاہ جی کی سخن فہمی کے بارے میں ماہر القادری جن کا شمار اپنے دور کے معروف شعراء میں ہوتا ہے، لکھتے ہیں: ’’داد دینے کا انداز والہانہ تھا۔ میں نے زندگی میں بہت کم لوگوں کو اتنی صحیح اور معقول داد دیتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

    احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، احسان دانش، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، تاثیر، سالک، فیض، ساحر لدھیانوی، جگر مراد آبادی، عدم وغیرہم کو آپ کی ہم نشینی و بزم آرائی کا موقع ملا۔

    اقبال، غالب اور حافظ کو خوب ڈوب کر پڑھا تھا۔ ان کے کلام کے حوالے سے بڑا جامع تبصرہ فرماتے اور وقیع الفاظ میں ان شعراء کو خراجِ تحسین پیش کرتے اور ان شعراء کے اشعار بھی نوکِ زبان تھے جنھیں برجستہ و برمحل برت کر داد پاتے۔ مرزا غالب کے کئی اشعار ازبر تھے۔

    عبدالمجید سالک کے بیٹے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی کتاب ‘‘وے صورتیں الٰہی‘‘ میں عطا اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کا ذکر یوں‌ کیا ہے: اس کے بعد (شاہ جیؒ) ہمیں قیام گاہ پر لے گئے وہاں خوب محفل جمی، باتوں باتوں میں فرمایا ’’دو کتابیں ہمیشہ میرے پاس رہتی ہیں۔ قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب لیکن اوپر قرآنِ حکیم رہتا ہے اور نیچے دیوانِ غالب۔‘‘

    میں بے ساختہ پکار اٹھا، ہاں…. مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے!

    وہ ہنس پڑے کہنے لگے، کیسے چھپے رہتے، آخر ابنِ سالک ہو۔

  • مزدوروں کا دن (افسانچہ)

    مزدوروں کا دن (افسانچہ)

    ڈور بیل کی کرخت آواز نے اسے گہری نیند سے جگا دیا۔

    آج وہ اپنے وسیع پُرتعیش فلیٹ میں اکیلا تھا۔ خراب موڈ کے ساتھ دروازہ کھولا۔ سامنے خاکروب کھڑا تھا۔

    "صاب! کچرا”

    "یار چھٹی کے دن تو سونے دیا کرو” ٹھوکر مار کر ڈسٹ بن دروازے سے باہر کرتے ہوئے اس نے برہمی سے کہا۔

    "آج کون سی چھٹی ہے سر؟”

    "آج مزدوروں کا دن ہے اسٹوپڈ”

    دروازہ دھڑ سے بند کر کے وہ ٹوٹی نیند سے جڑنے بیڈ پر آ گرا۔ اور خاکروب نے اپنے میل بھرے کھردرے ہاتھ کی انگشتِ شہادت اگلے فلیٹ کی ڈور بیل پر رکھ دی۔

    (معروف ادیب، ناول نگار اور شاعر محمد عثمان جامعی کے قلم سے)

  • اداکار لہری کا پہلا اور واحد تجربہ

    اداکار لہری کا پہلا اور واحد تجربہ

    میری زندگی کی پہلی فلم جو میں نے اپنے ابو اور ان کے برطانیہ سے آئے کزن کے ساتھ سنیما میں دیکھی وہ فلم اولاد تھی۔

    فلمی ریکارڈ کے مطابق 10 اگست 1962 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس وقت میں تقریباً آٹھ برس کا تھا۔ اتنے بڑے اسکرین پر گھپ اندھیرے میں فلم دیکھنا میرے لیے ایک انوکھا، پُراثر، دل چسپ تجربہ تھا۔ اس فلم کو سنیما میں دیکھنے کے بعد کافی عرصہ تک اس فلم کے اثرات میرے ذہن پر رہے۔

    پاکستان کے نامور مزاحیہ اداکار لہری جن سے میرے بہت اچھے اور گہرے مراسم ہو گئے تھے، ایک دن گفتگو کے دوران (تقریباً فلم کی نمائش کے 40 برس سے زیادہ عرصہ بعد) فلم اولاد کا ذکر آگیا۔ لہری صاحب نے فلم اولاد سے وابستہ یادگار واقعہ سنایا کہ فلم اولاد کی تکمیل کے بعد ہدایت کار ایس ایم یوسف اور ایف ایم سردار اس کے فلم ساز بنے۔ یہ فلم اس وقت کے رائج کاروباری اصولوں کے مطابق جب فلمی تقسیم کاروں کو دکھائی گئی تو انھوں نے اس فلم کی کہانی، اداکاری اور موسیقی کی بہت تعریف کی لیکن انھوں نے فلم کے ہدایت کار اور فلم ساز کو بتایا کہ اس فلم میں بس ایک بہت بڑی کمی رہ گئی ہے، وہ ہے اداکار لہری کی۔

    چوں کہ اس وقت لہری صاحب بتدریج تقریباً ہر اردو فلم کا لازمی جزو بنتے جارہے تھے، اس پریشانی اور مشکل صورت حال کے ساتھ انھوں نے لہری صاحب سے رابطہ کیا۔ لہری صاحب نے فلم دکھانے کا کہا۔ فلم دیکھنے کے بعد لہری صاحب نے خود اپنے کردار کو تخلیق کرکے ان کے سامنے پیش کیا، جو انھوں نے جوں کا توں قبول کر لیا۔

    لہری صاحب نے کہا یہ ان کا پہلا اور واحد تجربہ تھا۔ ایک مکمل شدہ فلم میں اپنا کردار شامل کرنے اور نبھانے کا۔ جو کام یاب رہا اور فلم بین کو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ لہری صاحب کا کردار بعد میں شامل کیا گیا ہے۔

    فلم اولاد اپنے وقت کی باکس آفس پر ایک کام یاب ترین فلم تھی جس میں عورت کے کردار کو ماں کے روپ میں اور ماں کے ہاتھوں‌ بچّوں‌ کی تعلیم و تربیت کو بہت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم نے نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ نیّر سلطانہ اور وحید مراد نے اس فلم میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا تھا۔

    (خلیل اے شیخ نے پاکستانی فلمی صنعت کے مختلف ادوار دیکھے اور فن کاروں سے قریب رہے۔ ان کی یادوں پر مبنی ایک مضمون فلمی جریدے "مہورت” میں شایع ہوا تھا جس سے یہ اقتباس لیا گیا ہے)

  • نواب واجد علی شاہ اور مٹیا برج کا حیرت کدہ

    نواب واجد علی شاہ اور مٹیا برج کا حیرت کدہ

    نواب واجد علی شاہ کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے سرپرست اور فنونِ لطیفہ کے ایک بڑے شیدائی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو سلطنتِ اودھ کے آخری تاجدار تھے۔ اردو کے ممتاز ادیب اور ناول نگار عبدالحلیم شرر نے نواب صاحب کی زندگی اور ان کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلو وہ شوق بیان کیے ہیں جو ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

    نواب واجد علی شاہ کا ایک شوق مختلف چرند پرند اور درندے پالنا تھا۔ شرر لکھتے ہیں: "دنیا میں عمارت کے شوقین ہزاروں بادشاہ گزرے ہیں مگر غالباً اپنی ذات سے کسی تاجدار نے اتنی عمارتیں اور اتنے باغ نہ بنائے ہوں گے جتنے کہ واجد علی شاہ نے اپنی ناکام زندگی اور برائے نام شاہی کے مختصر زمانے میں بنائے۔”

    "عمارت کے علاوہ بادشاہ کو جانوروں کا شوق تھا اور اس شوق کو بھی انہوں نے اس درجہ تک پہنچا دیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اور شاید کوئی شخصی کوشش آج تک اس کے نصف درجہ کو بھی نہ پہنچ سکی ہو گی۔ نور منزل کے سامنے خوشنما آہنی کٹہروں سے گھیر کے ایک وسیع رمنہ بنایا گیا تھا جس میں صدہا چیتل، ہرن اور وحشی چوپائے چھوٹے چھوٹے پھرتے تھے۔ اسی کے درمیان سنگ مرمر کا ایک پختہ تالاب تھا جو ہر وقت ملبب رہتا اور اس میں شتر مرغ، کشوری، فیل مرغ، سارس، قازیں، بگلے، قرقرے، ہنس، مور، چکور اور صدہا قسم کے طیور اور کچھوے چھوڑ دیے گئے تھے۔”

    "صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ مجال کیا کہ جو کہیں بیٹ یا کسی جانور کا پَر بھی نظر آ جائے۔ ایک طرف تالاب کے کنارے کٹہروں میں شیر تھے اور اس رمنے کے پاس ہی سے لکڑی کی سلاخوں دار بڑے بڑے خانوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس میں بیسوں طرح کے اور خدا جانے کہاں کہاں کے بندر لا کے جمع کیے گئے تھے جو عجیب عجیب حرکتیں کرتے اور انسان کو بغیر اپنا تماشہ دکھائے آگے نہ بڑھنے دیتے۔”

    "مختلف جگہ حوضوں میں مچھلیاں پالی گئی تھیں جو اشارے پر جمع ہوجاتیں اور کوئی کھانے کی چیز ڈالیے تو اپنی اچھل کود سے خوب بہار دکھاتیں۔ سب پر طرہ یہ کہ شہنشاہ منزل کے سامنے ایک بڑا سا لمبا اور گہرا حوض قائم کر کے اور اس کے کنارو ں کو چاروں طرف سے خوب چکنا کر کے اور آگے کی طرف جھکا کے اس کے بیچ میں ایک مصنوعی پہاڑ بنایا گیا تھا جس کے اندر سیکڑوں نالیاں دوڑائی گئی تھیں اور اوپر سے دو ایک جگہ کاٹ کے پانی کا چشمہ بھی بہا دیا گیا تھا۔ اس پہاڑ میں ہزاروں بڑے بڑے دو دو، تین تین گز کے لمبے سانپ چھوڑ دیے گئے تھے جو برابر دوڑتے اور رینگتے پھرتے۔ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھ جاتے اور پھر نیچے اتر آتے۔ مینڈکیاں چھوڑی جاتیں، انہیں دوڑ دوڑ کر کے پکڑتے۔”

    "پہاڑ کے گردا گرد نہر کی شان سے ایک نالی تھی، اس میں سانپ لہرا لہرا کے دوڑتے اور مینڈکوں کا تعاقب کرتے اور لوگ بلا کسی خوف کے پاس کھڑے سیر دیکھا کرتے۔ اس پہاڑ کے نیچے بھی دو کٹہرے تھے، جن میں دو بڑی بڑی چیتنیں رکھی گئی تھیں۔ یوں تو خاموش پڑی رہتیں، لیکن جس وقت مرغ لا کے چھوڑا جاتا، اسے جھپٹ کر پکڑتیں اور مسلم نگل جاتیں۔ سانپوں کے رکھنے کا انتظام اس سے پہلے شاید کہیں نہ کیا گیا ہوگا اور یہ خاص واجد علی شاہ کی ایجاد تھی جس کو یورپ کے سیاح حیرت سے دیکھتے اور اس کی تصویریں اور مشرح کیفیت قلمبند کرتے جاتے تھے۔”

    "مذکورہ جانوروں کے علاوہ ہزارہا طیور کے چمکتے ہوئے برنجی پنجرے خاص سلطان خانے کے اندر تھے۔ بیسیوں بڑے بڑے ہال تھے جو لوہے کے جال سے محفوظ کر لیے گئے تھے اور گنج کہلاتے تھے۔ ان میں قسم قسم کے طیور کثرت سے لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ ان کے رہنے اور نشوونما پانے کا پورا سامان فراہم کیا گیا تھا۔ بادشاہ کی کوشش تھی کہ چرند و پرند میں سے جتنی قسم کے جانور دستیاب ہو سکیں، سب جمع کر لیے جائیں اور واقعی ایسا مکمل اور زندہ عجائب خانہ شاید روئے زمین پر کہیں موجود نہ ہو گا۔ ان جانوروں کی فراہمی میں بے روک روپیہ صرف کیا جاتا اور کوئی شخص کوئی نیا جانور لاتا تو منہ مانگے دام پاتا۔”

    "کہتے ہیں کہ بادشاہ نے ریشم پرے کبوتروں کا جوڑا چوبیس ہزار روپے کو اور سفید مور کا جوڑا گیارہ ہزار روپے کو لیا تھا۔ زرافہ جو افریقہ کا بہت بڑا اور عجیب جانور ہے، اس کا بھی ایک جوڑا موجود تھا۔ دو کوہان کے بغدادی اونٹ ہندوستان میں کہیں نہیں نظر آتے اور بادشاہ کے وہاں تھے۔ کلکتے میں ہاتھی مطلق نہیں ہیں، مگر بادشاہ کے اس زندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ محض اس خیال سے کہ کوئی جانور رہ نہ جائے، دو گدھے بھی رمنے میں لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ درندوں میں سے شیر ببر، دیسی شیر، چیتے، تیندوے، ریچھ، سیاہ گوش، چرخ، بھیڑیے کٹہروں میں بند تھے اور بڑی خاطر دشت سے رکھے جاتے۔”

  • زبانِ‌ اردو اور دہلی و لکھنؤ کی تقلید

    زبانِ‌ اردو اور دہلی و لکھنؤ کی تقلید

    اردو لغات، قواعد اور صحتِ زبان کے لیے عشرت لکھنوی کی تصانیف آج بھی نہایت مفید اور کارآمد ہیں۔ وہ انیسویں صدی میں اردو زبان کے ایک عاشق اور پُر زور داعی کے طور پر ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔ لکھنؤ کے اس شاعر اور نثر نگار کا اصل نام خواجہ محمد عبدالرؤف خان تھا جن کا خیال تھا کہ اردو زبان اپنی خوبیوں کے سبب ہندوستان پر راج کرے گی اور ضرور علمی زبان بنے گی۔ وہ اردو بولنے اور لکھنے کے لیے دہلی و لکھنؤ کی تقلید کو ہندوستانیوں کے لیے ضروری خیال کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ زبان کے مراکز ہیں جن کی تقلید نہ کی گئی تو ہر دوسرے شہر کی اردو الگ ہوگی اور لوگوں کو اس کا سمجھنا دشوار ہوگا۔

    جانِ اردو عشرت لکھنوی کی اردو نحو اور محاورات پر مفید کتاب ہے جس سے یہ اقتباس آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

    ’’جو لفظ یا جو اصطلاح یا جو محاورہ ہندوستان کے کسی شہر میں یا کسی صوبے میں بولا جاتا ہے اور دہلی اور لکھنؤ میں وہ مستعمل نہیں ہے اور زبان دانانِ دہلی اور لکھنؤ نے اسے قبول نہیں کیا تو وہ ٹکسال باہر اور غلط ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض اجنبی الفاظ اخبارات میں مستعمل ہورہے ہیں یا دوسرے شہروں میں بکثرت بولے جاتے ہیں، مگر عام ہندوستان کے لوگ اُسے غلط مانتے ہیں اور اس سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی صحت کا سرٹیفکیٹ زبان کے کالج سے حاصل نہیں ہوا یعنی دہلی اور لکھنؤ کے فصحا کے نظم و نثر کلام میں دیکھنے میں نہیں آیا اور ان کی زبانوں پر اس کا استعمال نہیں ملتا۔‘‘

    ’’مثال کے طور پر لکھا جاتا ہے، ایک لفظ ہے “ٹھہرنا”، بفتح ہائے ہوّز۔ دہلی اور لکھنؤ میں بولا جاتا ہے اور دونوں جگہ کے مستند شعرا نے اسی طرح نظم کیا ہے۔ فصیح الملک مرزا داغ دہلوی مرحوم نے بھی اس کو ثمر، سفر، سحر کے قافیے میں لکھا ہے:

    کیونکر پڑے گا صبر الٰہی رقیب کو
    گر بعد مرگ میری طبیعت ٹھہر گئی

    راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے
    ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے

    غم کھاتے کھاتے ہجر میں تو روح بھر گئی
    اب زہر کھائیں گے یہی دل میں ٹھہر گئی

    لیکن اس کو لاہور کے تمام لوگ ٹھیرنا بولتے ہیں اور پنجاب کی تمام کتابوں میں یہ لفظ اسی طرح لکھا جاتا ہے لیکن پنجاب کے سوا ہندوستان میں کوئی شہر اس کی تقلید نہیں کرتا اس لیے یہ لفظ ٹکسال باہر ہے۔‘‘

    ’’ اسی طرح حیدرآباد میں تقصیر کا لفظ صرف حضور کے معنی پر بولا جاتا ہے مگر لکھنؤ کے عوام عام خاص اس جدت کو غلط جانتے ہیں، اس لیے حیدرآباد کے سِوا تمام ہندوستان کے لوگ اسے غلط جانتے ہیں اور اس معنی پر اس کا استعمال نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ اس زمانے میں بعض نا آشنا نے خود روی اختیار کی ہے اور دہلی اور لکھنؤ کے اس اقتدار کو مٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اور اُس کی لطافتِ زبان اور فصاحتِ کلام سے خار کھاتے ہیں۔‘‘

    ’’اردو ادب ایسی سہل نہیں کہ بغیر کسی تحصیل کے کوئی اس کی معنوی خوبیوں سے آگاہ ہو سکے۔ لوگوں نے معیارِ ہمہ دانی انگریزی زبان کو بنا لیا ہے۔ ایک ہندوستانی ایم اے سمجھتا ہے کہ میں اردو کا بھی مالک ہوں۔ حالانکہ دو سطریں صحیح اردو کی نہیں لکھ سکتا۔ اس ضد میں زبان خراب ہو رہی ہے اور ہندوستان کے لوگ جس درخت پر بیٹھے ہیں اُس کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ اگر تمام ہندوستان جہالت کے دریا میں غرق ہو جائے جب بھی وہ عظمت اور وہ عزت جو خدا نے زبان کے بارے میں دہلی اور لکھنؤ کو دی ہے، کسی طرح کم نہیں ہو سکتی۔‘‘

    ’’فرض کیجیے آج تمام ہندوستان کے لوگ اتفاق کرلیں کہ ہم دہلی اور لکھنؤ کی پیروی نہیں کریں گے اور اپنی اپنی زبان بولیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر شہر کی بولی الگ الگ ہو گی۔ ایک شہر کا اخبار دوسرے شہر کے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے گا۔ کوئی کہے گا ٹوپی پہنی، کوئی کہے گا ٹوپی اوڑھی۔ کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی کوئی کہے گا ٹوپی باندھی، کوئی کہے گا ٹوپی چپکائی، کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی، کوئی کہے گا ٹوپی دھری، کوئی کہے گا ٹوپی لگائی، کوئی کہے گا ٹوپی سجی، کوئی کہے گا ٹوپی چڑھائی۔ اتنا بڑا فرق صرف ایک لفظ ایک معنی میں ہو گا تو پوری زبان کا کیا ذکر ہے۔ یہ ایک موٹی بات تھی جو ہم نے بیان کی۔ ورنہ زبان میں باریک پیچیدگیاں بہت ہیں۔ سب کے سب ایک قہار سمندر میں غوطہ کھا کر مرجائیں گے اور جو زندہ رہیں گے جہالت اور مزدوروں کی زندگی بسر کریں گے؛ اور اردو زبان کا جنازہ نکل جائے گا۔ لیکن دہلی اور لکھنؤ کی عظمت و فصاحت و بلاغت بیان و زبان کا نام ہمیشہ قائم رہے گا۔‘‘

  • پریم چند: آدمی یا دیوتا!

    پریم چند: آدمی یا دیوتا!

    اردو ادب میں پریم چند اور فراق گورکھپوری دونوں کو ان کی تخلیقات کی بدولت بلند مقام و مرتبہ، شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ فراق عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے اور پریم چند اردو اور ہندی کے افسانہ نگار تھے جن کی تحریریں جیسے جادوئی اسلوب کی حامل تھیں۔ فراق بھی پریم چند کی تخلیقات سے بہت متاثر ہوئے اور بعد میں اُن سے تعلق بھی استوار ہوا۔

    یہ فراق کی تحریر ہے جس میں انھوں نے پریم چند سے اوّلین تعارف، پہلی ملاقات اور تعلقِ خاطر کو بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستان میں لگ بھگ ہر سال پندرہ سو کہانیاں یا مختصر افسانے لکھے جاتے تھے۔ اور اردو میں تو ایک ہی آدمی تھا جس نے کہانی لکھنے کے لئے پہلے پہل قدم اٹھایا اور وہ تھے پریم چند۔

    جاڑوں کے دن تھے، ہمارے یہاں گھر پر ’’زمانہ‘‘ کا تازہ شمارہ آیا تھا جو بزرگوں کے دیکھنے کے بعد ہمارے بھی ہاتھ لگا۔ اس میں پریم چند کی ایک کہانی چھپی تھی ’’بڑے گھر کی بیٹی۔‘‘ جیسے جیسے وہ کہانی میں پڑھتا گیا، میرے دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور پلکیں بھیگتی گئیں۔ پریم چند سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج تک کسی کہانی کا مجھ پر وہ اثر نہ ہوا تھا جیسا کہ اس کہانی کا ہوا تھا۔

    اس کے بعد لگ بھگ ہر مہینہ ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند کی کہانی چھپتی اور میں اسے کلیجے سے لگا کر پڑھتا۔ ہر مہینہ پریم چند کی نئی کہانی ’’زمانہ‘‘ میں چھپنا دنیائے ادب کا ایک واقعہ تصور کیا جاتا۔ یہ کہانیاں لڑکوں، لڑکیوں، سب کو ایک طرح متاثر کرتی تھیں۔ کہانیوں کو پڑھ کر مولانا شبلی جیسے عالم کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور وہ کہہ اٹھتے تھے کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی ایسا سحر نگار نہیں ہے۔ لوگ سوچتے تھے کہ پریم چند آدمی ہیں یا دیوتا۔

    کچھ سال بیت گئے۔ میں امتحانوں میں کامیابی حاصل کرتا ہوا بی۔ اے میں آچکا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں الہ آباد سے اپنے وطن گورکھپور آ گیا تھا۔ ایک دن شام کو گورکھپور میں ایک بڑے بینک کی بلڈنگ میں سیر کرنے کے لئے نکل گیا تھا۔ وہاں میرے ایک دوست مہابیر پرساد پود دار ملے، جن کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ وہ بظاہر ایک بہت ہی معمولی آدمی معلوم ہوتے تھے، گھٹنوں سے کچھ ہی نیچے تک کی دھوتی، کرتا، جو عام کرتوں سے بہت چھوٹا کٹا ہوا تھا، پیروں میں معمولی جوتا۔ میں پود دار سے نئی کتابوں کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ان کے ساتھی بھی گفتگو میں شریک ہوگئے اور بات پریم چند کی آگئی۔

    پود دار نے مجھ سے پوچھا کہ تم پریم چند سے ملنا چاہتے ہو؟ مجھے ایسا معلوم ہوا گویا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہوں، دنیا بھر کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو؟ اس خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ پریم چند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ میں نے ان کا بالکل نہ یقین کرنے کے لہجہ میں پوچھا، ’’پرم چند سے ملنا! کیسے، کہاں اور کب؟’‘ دونوں آدمی ہنسنے لگے اور پود دار نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو صاحب ہیں وہی پریم چند ہیں۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی، بلکہ انتہائی مسرت کے ساتھ میری کچھ دل شکنی سی ہوئی۔ اس لئے کہ پریم چند بہت معمولی صورت شکل کے آدمی نظر آئے اور میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اتنا بڑا ادیب معمولی شکل کا آدمی نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی پریم چند کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔

    یہ جان کر تو میں خوشی سے جھوم گیا کہ پریم چند گورکھپور میں میرے مکان سے آدھے فرلانگ پر نارمل اسکول کے ایک بنگلہ میں مستقل طور پر مقیم رہیں گے۔ میں اور پریم چند تو فوراً گھل مل گئے۔ ہم دونوں ایک ہی مزاج کے تھے۔ دوسرے دن سے تیسرے پہر پریم چند کے گھر جانا میرا روز کا معمول بن گیا۔ پریم چند نارمل اسکول کے سکینڈ ماسٹر اور بورڈنگ ہاؤس کے سپریٹنڈنٹ تھے، اپنے چھوٹے سے بنگلے کے صحن میں چند درختوں کے سائے میں تیسرے پہر چند کرسیاں ڈال لیتے تھے، ایک چھوٹی سی میز بھی لگا لیتے تھے۔ اسی صحن میں ہر تیسرے پہر ملنا میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔ شاعری، ادب، کتابیں، مصنف، فلسفہ ہماری گفتگو کے موضوع تھے۔ کبھی کبھی ان لوگوں کا بھی ذکر چھڑ جاتا، جو ذکر کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بھی مواقع آجاتے جب کہ وہ اپنے بچپن کا حال یا خاندان کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کاپورا کردار میرے سامنے آ گیا۔

    ان کی باتوں میں بڑی معصومیت ہوتی تھی، بڑی سادگی، بڑی بے تکلفی۔ اس طرح باتوں کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن کے زمانے میں جب ان کے والد ڈاک خانے کے ملازمت کے سلسلے میں گورا دور میں رہتے تھے، اسکول میں پریم چندکی دوستی ایک تمباکو بیچنے والے کے لڑکے سے تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت اس لڑکے کے گھر پر پریم چند جاتے تھے۔ وہاں بزرگوں میں حقہ کے کش جاری رہتے تھے اور ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ روزپڑھا جاتا تھا۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سنتے سنتے بچپن میں ہی پریم چند کی خوابیدہ خیالی دنیا جاگ اٹھی جیسے ’’الف لیلہ‘‘ پڑھ کر مشہور ناول نگار ڈکنس کا سویا ہوا شعور فن جاگ اٹھا تھا۔ پھر اردو نثر کی روانی بھی پریم چند کے اندر گرج اٹھی۔

    پریم چند کا بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ باپ کی تنخواہ بیس بچیس روپے تھے۔ پھر ماں سوتیلی تھی۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں چار پانچ روپے کے ٹیوشن کے لئے تین میل جانا اور تین میل آنا پڑتا تھا۔ ایک بار ایسا گھر ملا کہ اسی گھر کے اصطبل میں سائیس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ سیکڑوں مواقع ایسے آئے کہ ایک پیسے کے چنے بھنا کر اسی کو کھا کر دن کاٹ دیا۔ اسی زمانے میں ایک ہیڈ ماسٹر نے انہیں ذہین سمجھ کر کچھ سہولیتں بہم پہنچائیں اور اس طرح وہ انٹرنس پاس کر کے کسی اسکول میں بیس بائیس روپے پر ٹیچر ہوگئے۔ ان کے والد نے اسی زمانے میں پریم چند کی شادی بھی کر دی تھی۔ ایسی شادی کہ دوچار ہفتوں بعد ہی بیوی سے جدا ہونا پڑا۔ اسی حالت میں باپ بھی چل بسے۔ سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کا بوجھ بھی پریم چند کے کندھوں پر آرہا۔

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ سال کی عمر سے لگ بھگ بیس بائیس سال کی عمر تک جیسی تلخ زندگی پریم چند کی تھی، اردو یا کسی زبان کے ادیب کی زندگی شاید ہی اتنی پُر الم رہی ہو۔ ہم اور آپ تو شاید ایسے امتحان میں مٹ کر رہ جاتے۔ اسی دور میں پریم چند نے پرائیویٹ طور پر ایف۔ اے، بی۔ اے اور بی۔ ٹی کے امتحانات بھی پاس کئے۔ محکمۂ تعلیم میں انہیں ملازمت مل گئی۔ وہی زمانہ زندۂ جاوید تخلیقات کا ابتدائی دور ہے جنہیں آج لاکھوں آدمی کلیجہ سے لگائے پھرتے ہیں۔

    پریم چند اب اپنی اردو تخلیقات کو ہندی میں بھی شائع کرنے لگے تھے لیکن اسے اگر اردو زبان اور ادب کا جادو نہ کہیں تو کیا کہیں کہ ہندی میں ان کی پہلی ہی کتاب چھپی تھی کہ وہ ہندی کے سب سے بڑے ادیب مان لئے گئے اور اگر وہ اردو نہ جانتے ہوتے اور صرف ہندی جانتے تو اتنی شان دار اور منجھی ہوئی زبان نہ لکھ پاتے۔ یہ وقت لگ بھگ ۱۹۱۹ء کا ہے۔ اسی زمانے میں میں نے آئی۔ سی۔ ایس کی نوکری چھوڑی اور پریم چند نے بھی، جن کی نوکری ایک ہزار روپے تک جاتی۔ عدم تعاون کی تحریک کے سلسلہ میں میرے ساتھ ہی اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ پندرہ سولہ سال اور زندہ رہے۔ اس عرصے میں لگ بھگ دس ناول اور سو کہانیاں ان کے قلم سے نکلیں۔

    یہ ہیں وہ یادیں جو پریم چند کے متعلق میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ پریم چند کی قبل از وقت موت نے اردو ہندی ادب اور ادیبوں کو یتیم کردیا۔ جو ادب درباروں اور رئیسوں کی محفلوں کی چیز تھی، اس زبان و ادب کو پریم چند نے کروڑوں بیگھے لہلہاتے کھیتوں میں اور کسانوں کے جھونپڑوں میں لا کر کھڑا کر دیا۔ ہماری ہزاروں سال کی تہذیب میں بھارت ورش کی دیہاتی زندگی کی آنکھ کھول دینے والی تصویر کشی ہندوستان کے کسی زبان کے کسی ادیب نے نہیں کی تھی۔

  • قیامِ پاکستان اور لائبریری تحریک

    قیامِ پاکستان اور لائبریری تحریک

    لاہور جو کتب خانوں کا شہر اور لائبریری تحریک کا مرکز تھا، قیامِ پاکستان کے وقت رونما ہونے والے واقعات کے باعث اس کی تمام تر لائبریری سر گرمیاں ماند پڑ چکی تھیں۔ کتب خانوں میں کام کرنے والے عملے کی اکثریت ہندوؤں کی تھی، ان کے ہندوستان چلے جانے کی وجہ سے کتب خانے بند ہو گئے۔

    ۱۹۱۵ء میں قائم ہونے والا ’لائبریری اسکول‘ بند ہو گیا، لائبریری پروفیشن کا ترجمان رسالہ ’ماڈرن لائبریرین‘ کی اشاعت بند ہو گئی۔ ایسی صورتِ حال میں کتب خانوں کا قیام اور لائبریری تحریک کو بالکل ہی ابتداء سے شروع کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ دور مصائب و مشکلات اور جدوجہد کا دور تھا۔ لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والی محترم شخصیات اور وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی سب ہی نے ان مشکل حالات میں لائبریرین شپ کے فروغ اور ترقی کے لیے خلوصِ دل کے ساتھ دن رات محنت کر کے نہ صرف لائبریری تحریک کی بنیاد رکھی بلکہ اسے پروان چڑھانے کی مسلسل انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کرتے رہے ان احباب نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج پاکستان لائبریرین شپ ترقی کے اعتبار سے دوسرے شعبوں سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ ان قابلِ تعریف شخصیات میں خان بہادر اسد اللہ خان، محمد شفیع، نور محمد خان، خواجہ نور الٰہی، فضل الٰہی، عبدالسبحان خان، عبدالصبوح قاسمی، عبدالرحیم، ڈاکٹر محمد علی قاضی، الطاف شوکت، فرحت اللہ بیگ، جمیل نقوی، الحاج محمد زبیر، سید ولایت حسین شاہ، حبیب الدین احمد، ڈاکٹر عبدالمعید اور ابن حسن قیصر شامل ہیں۔ لائبریری تحریک کو منظم کرنے اور فروغ دینے میں یہ احباب انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرتے رہے، ان میں ڈاکٹر عبدالمعید اگلی صف میں نظر آتے ہیں اور دیگر احباب ان کے شانہ بہ شانہ تھے، قیصر صاحب اس دور کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

    لاہور ہی میں برطانوی ہندوستان میں قائم ہونے والی پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے نام سے قائم ہوئی لیکن صوبوں کے ادغام کے بعد اسے دوبارہ پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن کا نام دے دیا گیا۔ اس ایسوسی ایشن نے دسمبر ۱۹۴۹ء میں ’’ ماڈرن لائبریرین‘‘ ( نیو سیریز) شائع کیا لیکن یہ جولائی ۱۹۵۰ء میں بند ہو گیا۔ ۱۹۴۸ء میں پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس شروع کیا لیکن یہ ایک سال میں بند ہو گیا۔ اِسی دوران ڈاکٹر عبدالمعید سندھ یونیورسٹی کے لائبریرین مقرر ہوئے اور لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے۔

    اب کراچی میں لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ کراچی لائبریری ایسوسی ایشن ۱۹۴۹ء میں قائم ہوئی۔ اس ایسوسی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس بھی شروع کیا جو کراچی میں اپنی نوعیت کا اوّلین کورس تھا۔ اس کورس نے لائبریرین شپ کو بنیاد فراہم کرنے میں بہت مدد دی۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء اور پا کستان لائبریری ایسوسی ایشن کی بنیاد کراچی میں مارچ ۱۹۵۷ء میں رکھی گئی۔ قیصر صاحب ان اداروں کے قیام اور سر گرمیوں میں دیگر احباب کے ہمراہ خاموشی سے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان لائبریرین شپ میں ایک ایسی انجمن معرضِ وجود میں آئی جس نے مختصر وقت میں کتب خانوں اور لائبریری تحریک کے فروغ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر دکھایا۔ یہ انجمن شہید حکیم محمد سعید کی سر پرستی میں ’انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، اسپل (SPIL) کے نام سے قائم ہوئی۔ ایسوسی ایشن نے ملک کے مختلف شہروں میں لائبریرین شپ کے مختلف موضوعات پر یکے بعد دیگرے قومی نوعیت کے سیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسیں منعقد کیں، کتب خانوں کے فروغ و ترقی کے منصوبے اور تجاویز حکومت کو پیش کیں۔ شہید حکیم محمد سعید نے نہ صرف اسپل (SPIL) کے پرچم تلے کتب خانوں کی ترقی کے لیے جدوجہد کی بلکہ دیگر لائبریری انجمنوں کی بھی سرپرستی کی اور ان کے تحت ہونے والے کتب خانوں کی ترقی کے پروگراموں کے ذریعہ حکومت کو ملک میں کتب خانوں کے قیام اور ترقی کا احساس دلاتے رہے۔

    قیامِ پاکستان کا ابتدائی دور مسائل اور مشکلات کا دور تھا۔ حکومت بعض اہم اور قومی نوعیت کے امور کی انجام دہی میں مصروف رہی جس کے نتیجہ میں تعلیم بشمول کتب خانوں کی جانب فوری توجہ نہ ہو سکی۔ ملک میں کتب خانوں کے قیام اور لائبریری تحریک کے سلسلے میں حکومتِ پا کستان کی جانب سے جو اوّلین اقدام سامنے آیا وہ امپیریل لائبریری کلکتہ کے سابق لائبریرین‘ انڈین لائبریری ایسوسی ایشن کے بانی سیکریٹری، لائبریری ایسوسی ایشن لندن کے فیلو اور اسا ڈان ڈکنسن کے شاگرد خان بہادر خلیفہ محمداسد اللہ خان کا تقرر وزارتِ تعلیم حکومت پاکستان میں بطور ’’آفیسر بکارِ خاص‘‘ (Officer on Special Duty) تھا جنہوں نے ہندوستان کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان ہجرت کی۔ خان بہادر صاحب کو ہندوستان لائبریرین شپ میں بہت ہی بلند مقام حا صل تھا۔ ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت نے انہیں اُن کی اعلیٰ لائبریری خدمات کے اعتراف میں ’’خان بہادر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ قدرت نے خان بہادر صاحب کو پاکستان میں بہت کم مہلت دی۔ وہ ۲۳ نومبر ۱۹۴۸ء کو رحلت کر گئے۔ مختصر عرصہ میں بھی انہوں نے پاکستان میں لائبریری تحریک اور ملک کی قومی لائبریری کی بنیاد رکھی۔ بقول ڈاکٹر ممتاز انور، اسداللہ نے افسر بکارِ خاص کی حیثیت سے کراچی میں مختصر عرصہ خدمات انجام دیں جہاں انہوں نے بنیادی نوعیت کے کام کیے۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز اور نیشنل لائبریری ۱۹۴۹ء میں اسد اللہ کے کام کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئے۔ ‘ ڈاکٹر حیدر کا کہنا ہے کہ ’’ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو ایک بات مسلمہ ہے وہ یہ کہ ۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز کا قیام بہادر صاحب کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔‘‘

    اس طرح پاکستان میں لائبریری تحریک کا آغاز کراچی سے اور لاہور سے بیک وقت شروع ہوا۔ گویا لاہور سے انجمن سازی کا آغاز ہوا اور کراچی سے کتب خانوں کے قیام اور فروغ کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ بعد ازاں انجمن سازی کی سرگرمیاں کراچی سے پورے آب و تاب سے شروع ہو گئیں۔

    (کتاب یادوں کی مالا از قلم رئیس احمد صمدانی سے اقتباس)

  • جب صدر ضیاء الحق نے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا، ’’ہم آئیں گے!‘‘

    جب صدر ضیاء الحق نے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا، ’’ہم آئیں گے!‘‘

    5 اپریل 1982ء کو ہماری شادی تھی۔ ہم نے سوچ سمجھ کر یہ تاریخ رکھی تھی۔ تب اسلام آباد میں خوش گوار موسم ہوا کرتا ہے۔ نہ گرمی نہ سردی بلکہ بہار کا سا موسم۔ بارش کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن جناب اللہ نے بھی تو اپنی شان دکھانی تھی۔ حیرت انگیز اور دھماکا خیز آمد صدر ضیاءُ الحق کی تھی جن کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ شرکت کریں گے۔

    قصّہ یہ ہے کہ ہر 23 مارچ کو ضیا صاحب سے ملاقات ہوتی۔ راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں سالانہ فوجی پریڈ انجام پاتی جس کی سلامی صدر ضیا لیتے۔ اور ہماری ذمے داری اس پر براہِ راست رواں تبصرہ کرنا تھا۔ پہلے سال ہی انھوں نے شاباش دینے کے لیے ہماری پوری ٹیم کو اپنے گھر پر بلایا۔ اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔

    1982ء میں ملنے گئے تو میں نے انھیں دعوت نامہ پیش کیا۔ انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا ’’ہم آئیں گے۔‘‘ بات آئی گئی ہو گئی۔ ہم نے سوچا کہ انھوں نے دل رکھنے کو کہہ دیا۔ ان کو آنے کا کہاں وقت ملے گا۔ ادھر سے کوئی اطلاع نہیں آئی، اس لئے، بھول گئے اور شادی کے ہنگاموں میں گم ہو گئے۔

    ولیمے کے دن صبح کے وقت میں مونا کے ساتھ اپنے نانا اور رشتے کی ایک بزرگ خاتون کو سلام کرنے نکل گیا۔ وہ شادی میں نہیں آسکے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ ایک پیغامبر بھاگتا ہوا آیا کہ جلدی واپس آئیں، صدر صاحب آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا، کون سے صدر صاحب؟اْس نے کہا ’’ضیا صاحب‘‘۔ میں نے کہا کہ غلط فہمی ہوئی ہو گی، کسی انجمن کے صدر آرہے ہوں گے۔ جب اس نے اصرار کیا تو ہم واپس گھر پہنچے۔ وہاں دیکھا کہ سیکورٹی کے سربراہ اور ان کا عملہ بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے سارے انتظامات دیکھے اور ہر طرح اطمینان حاصل کرنے کے بعد اپنا خصوصی عملہ وہاں تعینات کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اس کے بعد ہمارے گھر کے چاروں طرف اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔ خصوصی کمانڈوز نے جگہیں سنبھال لیں۔ یہاں تک کہ گھر کے اندر بھی فوجی گھوم رہے تھے۔ لگا کہ مارشل لا آج لگا ہے۔ مہمانوں کی فہرستیں بھی انھوں نے قبضے میں لے لیں اور کہا کہ بغیر اجازت کے کوئی اندر نہیں آئے گا۔

    اِس بھاگ دوڑ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ شہر کے دوسرے محکمے بھی حرکت میں آگئے۔ گھر کے چاروں اطراف صفائی شروع ہوگئی اور خصوصی لائٹیں لگا دی گئیں، جس سے سارا علاقہ روشن ہو گیا۔ ان کے لیے میں کئی روز سے کوشش کر رہا تھا۔ مگرکوئی ہِل جل نہیں تھی۔ اب ایک دم دوڑ شروع ہو گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ولیمے کی دعوت شام کو تھی جس کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا۔ لیکن حکم یہ ملا کہ صدر صاحب کھانے میں شرکت نہیں کر یں گے۔ شام کو جلدی آکے کچھ دیر ٹھہر کر چلے جائیں گے۔ چناں چہ کھانے کے سارے انتظامات روک کر چائے اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کیا گیا۔

    اس دوران صدر کے ملٹری سیکرٹری، کرنل ظہیر ملک بھی رابطہ کرتے رہے۔ میں نے جب اِس افراتفری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ ان کا عملہ دعوت نامہ کہیں رکھ کر بھول گیا۔ ہماری طرح انھوں نے بھی یہ سوچا کہ کون سا صدر نے وہاں جانا ہے! مگر اخباروں نے شرارت کر ڈالی۔ صبح اخباروں میں شادی کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ جب خبر چھپی تو صدر صاحب کی اس پر نظر پڑی۔ فوراً انھوں نے استفسار کیا کہ اِس شادی میں تو ہمیں شرکت کرنی تھی۔ اب وہاں دعوت نامے کی ڈھونڈ پڑ گئی اور جب کارڈ ملا تو وہ ولیمے کی دعوت تھی۔ اسٹاف کی جان میں جان آئی۔ فوراً بتایا گیا ’’ سر! آپ کا بلاوا آج ولیمے میں ہے۔‘‘ لیکن اس دن انھیں پشاور کسی ضروری میٹنگ میں جانا تھا اور واپسی میں ڈنر میں شرکت کرنا تھی۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ میں تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، مبارکباد دینے جاؤں گا ضرور۔

    ہمیں ان کی آمد کا وقت شام پانچ بجے بتایا گیا۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا لڑکی کی تلاش سے لے کر شادی تک کوئی کام ہمارا آسان نہ تھا۔ لہٰذا جناب، شام ہوتے ہی آندھی آگئی۔ آندھی کیا تھی طوفان تھا جو پورے اسلام آباد، پنڈی اور پشاور تک کے علاقوں میں آیا اور جس نے سب کچھ تہ و بالا کر ڈالا۔ صدر صاحب کا ہیلی کاپٹر پشاور سے واپسی میں راستے میں کہیں اتارنا پڑا، جہاں انھوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔

    ایک بار پھر ان کی آمد کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ ہم شش وپنج میں مبتلا ہو گئے۔ سیکورٹی کے باعث ولیمے کے دوسرے انتظامات بھی نہیں کیے جاسکتے تھے اور اوپر سے آندھی طوفان نے سب کچھ اکھاڑ پھینکا۔ لیکن شاید ان کا ارادہ مصمم تھا یا ہماری دعائیں تھیں کہ شام سات بجے کے قریب اطلاع ملی، مہمانِ گرامی پہنچنے والے ہیں۔

    تھوڑی دیر بعد موٹروں کا قافلہ گھر کے سامنے آکر رکا اور صدر صاحب، سفید شیروانی میں ملبوس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تشریف لائے۔ میری والدہ مرحومہ نے بڑے خوبصورت الفاظ کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ عین صدر صاحب کی آمد سے چند لمحے پہلے مووی بنانے والے کا کیمرہ گھبراہٹ میں ایسا گرا کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ لہٰذا ولیمے کی ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں۔ شادی اور مہندی کی ویڈیو ہم نے امریکا آنے سے پہلے کسی کو دی کہ اسے امریکی سسٹم کے مطابق تبدیل کر دیں۔ وہ ان سے ایسی ضائع ہوئی کہ اب وہ ریکارڈ بھی نہیں۔ بس کچھ تصویریں رہ گئی ہیں جن میں سے ایک آپ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اصل تصویریں اور لمحے ذہن پر نقش ہیں۔

    کیسے کیسے محبت کرنے والے لوگ اِس میں اپنا خلوص نچھاور کرنے آئے اور ان میں سے بہت سے اب دنیا میں نہیں رہے۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں، عبیداللہ بیگ مرحوم کو جنہوں نے نکاح کے بعد میرا سہرا پڑھا اور مونا کے گواہ بنے۔ پھر میری والدہ کیسے سایہ کیے ہوئی تھیں۔مونا کے والد مصطفیٰ راہی، جو بیٹی کے گھر سے جانے پر کتنے غم زدہ تھے۔ بھائیوں سے بڑھ کر محمد عارف مرحوم، جن کی ترجمہ کی ہوئی خبریں کئی برس ہم نے پڑھیں۔ غرض کس کس کو یاد کیجیے، کسے بھول جائیے!

    میں سمجھتا ہوں، ہم دونوں کے والدین کی دعاؤں کے باعث شادی کو چار چاند لگے۔ ہماری کسی نیکی کا صلہ یا ہمارے گھر میں مونا کے بھاگوان قدم کہ شادی کے آغاز پر ہی ایک صوفی گھرانے کے بزرگ صاحبزادہ نصیر الدین نصیر گولڑویؒ نے خود آکر دعا فرمائی اور شادی کا سہرا بھی لکھا۔ لاتعداد لوگوں نے اپنی محبت کے پھول نچھاور کیے۔ اور پھر سربراہِ مملکت نے باوجود اتنی رکاوٹوں اور وقت کی قلّت کے، ایک ادنیٰ سے فن کار کا مان اور عزت بڑھانے کی خاطر بنفسِ نفیس شرکت کر کے ان لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔

    (پی ٹی وی کے معروف نیوز کاسٹر خالد حمید کی آپ بیتی سے اقتباس)