Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • "چن وے”  اور اساطیرِ لالی وڈ!

    "چن وے” اور اساطیرِ لالی وڈ!

    "چن وے” کئی دہائیوں قبل ریلیز ہونے والی وہ پنجابی فلم تھی جسے نہ صرف شائقین کی جانب سے زبردست پذیرائی ملی بلکہ کاروباری لحاظ سے اس فلم نے تہلکہ مچا دیا تھا۔

    اس وقت لالی وڈ میں‌ یہ تأثر گہرا ہو گیا کہ نور جہاں اس فلم کی ہدایت کار ہیں اور ساتھ ایک افواہ یہ پھیل گئی کہ چن وے کی موسیقی نورجہاں کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ فلم کے پوسٹر پر ڈائریکشن کے لیے نور جہاں کا نام تو درج بھی تھا، لیکن جب کئی دہائیوں‌ بعد سینئر صحافی، مشہور براڈ کاسٹر، ہدایت کار اور مصنّف عارف وقار نے ملکۂ ترنم نور جہاں‌ سے انٹرویو کیا تو فلم چن وے سے متعلق ایک بات ضرور صاف ہوگئی۔ عارف وقار لکھتے ہیں:

    چن وے 24 مارچ 1951 کو لاہور کے ریجنٹ سنیما میں ریلیز ہوئی اور عوام نے عرصہ دراز کے بعد کسی سینما پر لمبی قطاروں اور دھینگا مشتی کی مناظر دیکھے۔ ’جُگنو‘ کے چار برس بعد نور جہاں کی کوئی فلم سامنے آئی تھی اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔

    چن وے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسے خود نور جہاں نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اساطیرِ لالی وڈ میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کا میوزک بھی نور جہاں نے خود ہی دیا تھا اور فیروز نظامی محض نام کے موسیقار تھے۔ تاہم وفات سے کچھ عرصہ قبل لندن میں اپنے ایک طویل انٹرویو کے دوران نور جہاں نے ان قصّوں کی تردید کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ فیروز نظامی اپنے فن کے ماہر تھے، وہ موسیقی کے تمام اسرار و رموز سے واقف تھے اور چن وے کی ساری دُھنیں ان کے ذاتی کمالِ فن کا نتیجہ تھیں۔

  • ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    اس سوال پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی گئی ہے۔ بہر حال کبھی کبھی لوگوں کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے جدید ادب میں مزاح کیوں نہیں ہے؟ یعنی خالص مزاح، ورنہ ویسے تو افسانوی ادب کا بیشتر حصّہ طنز پر مشتمل ہے اور طنزیہ نظموں کے علاوہ بہت سی اور نظموں میں بھی طنزیہ عناصر آ جاتے ہیں۔

    ادب میں مزاح کی کمی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف اردو ادب تک ہی محدود ہو۔ اس کا تعلق بیسویں صدی کے ہر ادب سے ہے بلکہ صنعتی دور کے ادب سے ہے۔ یوں ہونے کو تو مغرب میں مزاحیہ ادب کی تھوڑی بہت تخلیق ہو رہی ہے اور طنز و تضحیک سے لے کر FANTASY تک ہر چیز موجود ہے۔ اگر خالص ادبی حثییت رکھنے والی چیزیں ختم بھی ہو جائیں تو بھی جب تک MUSIC HALL زندہ سلامت ہیں، مغربی تہذیب سے مزاح غائب نہیں ہو سکتا بلکہ اگر کاڈویل کی بات مانیں تو میوزک ہال کی تخلیقات کو پرولتاری آرٹ کہنا پڑے گا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود خود مغرب میں چوسر، رابیلے، سروانیٹنراور شیکسپئر کی قسم کا عظیم المرتبت مزاحیہ ادب پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ جوئس کی کتابوں کے بہت سے حصّے مستثنیٰ کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں، مگر ان مزاحیہ اور طربیہ حصوں کے پہلو بہ پہلو جوئس کے یہاں حزن بھی بلا کا موجود ہے۔ بہرحال جوئس سے قطع نظر عمومی حیثیت سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بیسویں صدی وہ زمانہ ہی نہیں جہاں طربیہ روح پھلے پھولے۔

    ہمارے دور کا انسان ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہے۔ وہ مستقبل کو نہیں بھول سکتا۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو حال کے لمحے میں بھی اس طرح جذب نہیں کر سکتا جس طرح صنعتی دور سے پہلے کا انسان کر سکتا تھا۔ اور پھر مستقبل بھی ایسا کہ جو ہمیشہ خوفناک نہ سہی، مگر اتنا بے شکل ہے کہ دل میں تردد پیدا کر دیتا ہے۔ بیسویں صدی کا انسان اس یقین کے ساتھ نہیں ہنس سکتا کہ کل بھی وہ اسی طرح ہنس سکے گا۔ پہلے آدمی کے لئے حیات بعد ممات کا عقیدہ ایک بہت بڑا سہارا تھا، اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی کہ ایسی طاقت موجود ہے جس کی رضا کے مطابق ہر بات ہوتی ہے۔ یہ طاقت انسان سے بلند تر ہونے کے باوجود بہت سی باتوں میں انسان سے مشابہ تھی۔

    یہ طاقت غضب ناک سہی مگر رحیم و کریم تھی۔ کم سے کم انسان کو تھوڑا بہت یہ ضرور معلوم تھا کہ یہ طاقت کن باتوں سے خوش ہوتی ہے اور کن باتوں سے ناراض۔ ان تصورات پر سے اعتقاد اٹھ جانے کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ ان کی جانشینی چند معاشیاتی یا عمرانی نظریوں کے سپرد کی جائے، مگر یہ نظریے ابھی تک عوام کے شعور میں جذباتی تجربوں کا درجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ چنانچہ اب ان کے پاس اپنی دنیا کو سمجھنے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا جو انہیں مطمئن کر سکے۔ ہر نیا واقعہ اتفاق یا حادثے کی حیثیت رکھتا ہے اور عوام کی ذہنی حالت کچھ حیرانی اور سراسیمگی کی زیادہ ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں اگر کوئی مزاح نگار پیدا بھی ہو جائے تو اسے ایسی پبلک نہیں ملے گی جو ہنسنے کے لئے تیار ہو۔ چیٹرٹن کے اندر بڑا مزاح نگار بننے کی کچھ صلاحیت موجود تھی، لیکن ماحول کا جبر دیکھئے، ساری عمر وہ ہنسنے کی ضرورت پر وعظ کہتا رہا، مگر خود نہیں ہنس سکا (یعنی کسی بڑی مزاحیہ تخلیق کی شکل میں)

    ایک اور وقت ہمارے زمانے کے مزاح نگار کو پیش آتی ہے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس چیز پر ہنسا جا سکتا ہے اور اس چیز پر نہیں۔ ماحول اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ کسی چیز کو غور سے دیکھنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ جو چیز آج طربیہ ہے کل وہ حزنیہ بن جاتی ہے۔ ان کے اس طرح گڈمڈ ہو جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چیز یا تو ہولناک نظر آنے لگی ہے یا مضحکہ خیز۔ لیکن جب ہر چیز مضحکہ خیز ہو گئی تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ آپ کسی چیز پر بھی ہنس نہیں سکتے۔ سوچئے کہ آپ ALICE IN WONDERLAND والی دنیا میں پہنچ جائیں تو آپ کے دماغ کی کیا حالت ہوگی؟

    ہنسی کے لئے تضاد اور تقابل کا وجود لازمی ہے۔ تضاد کے بغیر چیزوں کی معنویت غائب ہونے لگتی ہے۔ جب ساری چیزیں ایک سی بے معنی ہوگئیں تو ہنسی کی گنجائش کہاں رہی؟ ہمارے زمانے میں کوئی STANDARD OF FORMALITY ہی باقی نہیں رہتا ہے، حالانکہ مزاح کے لئے یہ چیز بنیادی طور پر ضروری ہے۔ غیر معمولی باتیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ ہم انہیں روزمرّہ کی چیزیں سمجھ کر قبول کرنے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب باتیں ہمارے اندر رنج و غم بلکہ وحشت اور دیوانگی تک پیدا کرتی ہوں۔ لیکن جب تک ہم انہیں معمول سے ہٹتی ہوئی باتیں نہ سمجھیں ہم ان پر ہنس نہیں سکتے۔

    کچھ ہماری دنیا میں نظریہ بازی کا شوق بھی بہت بڑھ گیا ہے اور واقعی ہمارے زمانے کے واقعات ہیں بھی بہت اہم۔ ساری انسانیت کا مستقبل بلکہ انسانیت کی زندگی تک ان کے رجحانات پر منحصر ہے۔ چنانچہ ہر چیز ایک مسئلہ بن گئی ہے اور ایسا مسئلہ کہ جس سے لطف لینے کا وقت بالکل نہیں ہے بلکہ جسے جلدی سے جلدی سمجھنا ہے اور کوئی حل تلاش کرنا ہے۔ ہر چیز اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے کہ بے پروائی سے اس پر ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ہاں جب ہم کسی چیز کا حل نہیں تلاش کر سکتے تو شکست، مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے ایک زہر خند ضرور ہمارے ہونٹوں تک آ جاتا ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ادب میں اذیت پرستانہ طنز کی بڑی فراوانی ہے۔

    اور بہت سی چیزوں کی طرح اس بحرانی دور میں ادب اور ادیب بھی بڑی غیر ضروری اور بے کار سی چیزیں معلوم ہونے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ادیب کو بھی شدت سے یہ احساس ہوگیا ہے کہ سماج اب اس کی ضرورت نہیں سمجھتی، یا اسے سامانِ تعیش میں گنا جاتا ہے جس کا بوجھ اب سماج نہیں اٹھا سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ چند ادیب سماج سے بے نیاز ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ہر آدمی میں تو اتنا بل بوتا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ادیبوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سماج پر اپنی اہمیت واضح کرنے اور اپنا کھویا ہوا وقار پا لینے کی کوشش کی ہے۔ وہ سماج کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ذمہ دار آدمی ہیں، ہم بھی نظریے بنا سکتے ہیں، ہمارے پاس بھی مسائل کے حل موجود ہیں، ہمارا بھی مقصد ایک ہے۔ ادیب اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں غیر ذمہ دار یا غیرسنجیدہ نہ سمجھ لیا جائے، لہٰذا وہ کوشش کر کر کے اپنے چہرے پر شکنیں ڈالتے ہیں، خود اپنے آپ کو زبردستی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم بڑے سنجیدہ اور ذمہ دار آدمی ہیں، حالانکہ زندگی سے لطف لینا خود ایک بڑ ی ذمہ داری ہے۔ اس طرح یہ ادیب اپنے اندر ہنسی کا گلا خود دبائے رکھتے ہیں۔

    یہ ایسی باتیں تھیں جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مزاحیہ ادب کی تخلیق کو روک رہی ہیں۔ لیکن اردو کے نئے ادب میں مزاح کی کمی کے علاوہ ایک اور بھی سبب ہے۔ اردو کے ادیبوں کا سرمایہ بس لے دے کے ادیب بننے کی خواہش ہے۔ ان کی جڑیں نہ تو ادب میں مضبوط ہیں نہ زندگی میں۔ جس زندگی نے انہیں پیدا کیا ہے اس سے نہ تو انہیں واقفیت ہے نہ اس سے محبت۔ یوں حب الوطنی کا اظہار اور چیز ہے، لیکن جس طرح ہم سرشار اور نذیر احمد کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ماحول میں ڈوبے ہوئے تھے اور اپنی دنیا سے محبت کرتے تھے، اس طرح کے جملے ہم نئے ادیبوں کے متعلق استعمال نہیں کرسکتے۔ عصمت چغتائی اس بات سے بہت حد تک مستثنی ہیں۔ ذاتی خواہشات کے میدان کو چھوڑ کر اردو کے اکثر و بیشتر نئے ادیبوں کو زندگی سے کچھ یوں ہی سا علاقہ ہے۔ غریبوں سے ہمدری کے تمام اعلانوں کے باوجود زندگی سے ناواقف ہیں۔

    میرا مطلب ذہنی علم سے نہیں بلکہ اعصابی ادراک سے ہے۔ اگر میرا یہ الزام کچھ غیرمتوازن معلوم ہوتا تو امتحان بھی کچھ مشکل نہیں۔ اردو کے سارے نئے ادب میں سے صرف ایک افسانہ ایسا نکال کر دکھا دیجیے جس میں ہندوستان کی زندگی اور ہندوستان کی روح اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتی ہو۔ ایک ایسا افسانہ جسے پڑھ کر کوئی غیر ملکی آدمی یہ کہہ سکے کہ ہاں، اس افسانے میں ہندوستان سما گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں صرف PICK PAPERS جیسی چیز سے مطمئن ہوں گا۔ یہاں تو اسکاٹ کے THE TWO DROVERS کے مقابلے کا افسانہ ملنا مشکل ہے۔

    اردو کے ادیبوں کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ انہیں اپنی زبان ہی نہیں آتی۔ ہمارے ادیبوں نے عوام کو بولتے ہوئے نہیں سنا، ان کے افسانوں میں زندہ زبان اور زندہ انسانوں کا لب و لہجہ نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں مزاح کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ادب کی اور اصناف کی بہ نسبت مزاح کہیں زیادہ سماجی چیز ہے۔ جب تک مزاح دوسروں کے اندر آواز بازگشت پیدا نہیں کرتا، کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ آواز بازگشت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک زبان پر قدرت حاصل نہ ہو۔ لوگوں کو رلانے کے لئے اتنے فن کی ضرورت نہیں جتنی ہنسانے کے لئے ہے۔ ہمارے لکھنے والوں کو ایک طرف تو اردو نہیں آتی، دوسری طرف زیادہ تعداد ایسے ادیبوں کی ہے جنہیں صرف اتنی انگریزی آتی ہے کہ عبارت کا مفہوم سمجھ لیں۔ جب وہ کسی انگریزی مصنف سے اثر پذیر ہوتے ہیں تو وہ اس اثر کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا موٹی موٹی باتوں کی نقل تو وہ خیر بری بھلی کر لیتے ہیں مگر اصلی چیز ان کی گرفت میں نہیں آتی۔

    بہرحال اور جتنی رکاوٹیں ہیں وہ دور بھی ہو جائیں تب بھی اردو میں مزاحیہ ادب کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نہیں بن سکتا، جب تک کہ اردو کے ادیب اردو سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔

    (اردو کے ممتاز نقاد، مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی ایک فکرانگیز تحریر)

  • پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین: ایک نابینا کی کتھا!

    پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین: ایک نابینا کی کتھا!

    پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین (۱۸۸۹ء۔ ۱۹۷۳ء) دنیائے عرب کی ایک ایسی عظیم شخصیت کا نام ہے جس کی تمام زندگی حصول علم، فروغ علم اور ترسیل علم سے عبارت ہے۔

    مصر کے اس مرد آہن نے تعلیم کے میدان میں ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیے جنہیں تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہرے حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ وہ رہتی دنیا تک ایک مثال اور ایک نمونہ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ بصارت سے محروم ہوتے ہوئے علم و تحقیق کی انتہا کو پہنچے، تحصیل علم کے لیے آپ کی جد و جہد اور اس راہ میں حائل مسائل و مشکلات کو برداشت کرنا قابل ستائش ہے۔

    ڈاکٹر طحہٰ حسین مصر کے ایک چھوٹے سے شہر میں ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے۔ یہ اپنے تیرہ (۱۳) بھائیوں میں ساتویں اور گیارہ بہنوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔ آپ نے اپنی بصارتی محرومی کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ ’’ دیہاتی اور شہری عورتوں کا فلسفہ مہمل ہوتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے ٹوٹکوں‘ جھاڑ بھونک اور تعویذ گنڈوں پر بھروسہ رکھتی ہیں، مریض کی مناسب اور بر وقت دیکھ بھال ان کے نزدیک ثانوی ہوتی ہے۔ ‘‘

    ڈاکٹر طحہٰ حسین لکھتے ہیں کہ ’’میری آنکھیں دکھنے لگیں‘‘ اس وقت عمر کوئی تین برس تھی، چند دن تو یونہی چھوڑ دیا گیا اس کے بعد ایک نائی کو بلایا گیا اور اس نے ایسا علاج کیا کہ آنکھیں جاتی رہیں۔‘‘

    کلام مجید حفظ کرنے اور ابتدائی مذہبی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم بھی مصر ہی میں حاصل کی۔ آپ ابتدا ہی سے آزاد خیال اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے قائل تھے، چنانچہ ابتدائی مذہبی تعلیم کے دوران آپ کو دینی مدارس کے روایتی استادوں سے نفرت سی ہو گئی تھی۔ آپ نے اپنی سوانح عمری میں ان اسباب کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے اور متعدد واقعات ان استادوں کی کم علمی، فرقہ پرستی، محدود نظری اور قناعت علمی کے بارے میں تحریر کیے ہیں۔ آپ جامعۃ الازہر بھی جاتے رہے، ساتھ ہی شام کے اوقات میں جدید تعلیم کے ادارے یعنی کالج بھی جانے لگے جہاں سے وہ علوم جدیدہ کی طرف مائل ہوئے، اس نتیجے پر پہنچے کہ علم چند کتابوں تک محدود نہیں۔ جامعہ الا زہر سے فارغ ہو جانے کے بعد جہاں پر آپ کو کچھ اختلاف بھی ہوا جس کا آپ نے برملا اظہار بھی کیا، آپ مصری یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے جہاں سے آپ نے ۱۹۱۴ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ ’آپ پہلے طالب علم تھے جنہوں نے گیارہویں صدی کے شاعر ابو العلا پر مقالہ تحریر کر کے یونیورسٹی سے ڈگری کے حصول کا اعزاز حاصل کیا۔‘ ڈاکٹریٹ کر لینے کے باوجود ڈاکٹر طحہٰ حسین میں مزید علم حاصل کرنے کی جستجو بر قرار رہی۔ آپ فرانس کی یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے اور ۱۹۱۸ء میں مزید ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ گویا آپ ڈبل پی ایچ ڈی ہو گئے۔ علم کی ان اعلیٰ ترین اسناد کے حصول میں آپ کی بصارت سے محرومی آپ کے آڑے نہ آئی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر انسان کسی مقصد کے حصول میں سچائی اور لگن کے ساتھ مصروف عمل ہو جائے تو کوئی مشکل، کسی بھی قسم کی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

    فرانس میں اپنے قیام اور مشکلات کا ذکر ڈاکٹر طحہٰ حسین نے اپنی ایک کتاب میں ان الفاظ میں کیا کہ ’’مجھے اپنی خصلتوں میں صبر و اولاالعزمی کی فرانس میں جس قدر شدید ضرورت محسوس ہوئی اپنی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے وہاں اپنے گرد و پیش کی ہر چیز اور انسان نیا معلوم ہوتا تھا۔ اسی طرح وہاں کی ہر چیز اور ہر شخص نے مجھے اجنبی سمجھا لیکن صبر اور غیر متزلزل قوتِ برداشت ہی وہ خصلتیں ہیں جنہوں نے مجھے، لوگوں اور چیزوں کو موقع دیا کہ وہ مجھے سمجھیں اور انہیں خصلتوں کی مدد سے میں فرانس میں باوجود ابتدائی مشکلات و مصائب کے زندہ رہا اور بالآخر پہلے دو سالوں کے بعد وہاں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔‘

    فرانس میں قیام کے دوران ڈاکٹر طحہٰ حسین کی ملاقات ایک فرانسیسی خاتون سیوزانی برسیو سے ہوئی جو طبیعتاً نرم دل، ہمدرد اور تعلیم یافتہ تھی۔ رفتہ رفتہ وہ ڈاکٹر طحہٰ کے نزدیک آ گئی اور انہوں نے سیوزانی برسیو سے شادی کر لی۔ فرانس سے واپسی پر برسیو ڈاکٹر طحہٰ کے ہمراہ مصر آ گئی اور بقیہ زندگی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزار دی۔ زندگی کے سفر میں سیوزانی برسیو کو دیگر مصروفیات کے علاوہ ایسے کام بھی اضافی کرنا پڑے مثلاً ڈاکٹر صاحب کو اخبارات، رسائل اور کتب پڑھ کر سنانا، ان سے ایڈوائس لینا، تقاریر تحریر کرنا وغیرہ۔

    ڈاکٹر طحہٰ حسین کی شخصیت ان کے بعض نظریات اور خیالات کے باعث سخت تنقید کا نشانہ بنی، وہ ایک جانب تو عربی زبان کے بڑے اور ممتاز ادیب کی حیثیت رکھتے تھے دوسری جانب ان پر ناقدین نے سخت تنقید بھی کی اور ان کے خلاف مصر میں بہت سی کتابیں اور بے شمار تنقیدی مضامین تحریر کیے گئے، خاص طور پر جامعۃ الازہر کے علماء نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر طحہٰ کی بعض اختلافی باتیں بہت زیادہ بلکہ خطرناک حد تک سامنے آئیں۔

    ڈاکٹر طحہٰ حسین کی تمام زندگی جد و جہد سے عبارت ہے، بصارت سے محروم ہوتے ہوئے آپ نے حصول تعلیم میں بلندیوں کو چھوا، عملی زندگی میں قدم رکھا تو مصائب و مشکلات کو برداشت کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا حتیٰ کہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی، تصنیف و تالیفات کے میدان میں ڈاکٹر طحہٰ حسین نے نمایاں خدمات انجام دیں، بے شمار مضامین و خطبات کے علاوہ آپ نے چالیس سے زیادہ کتب تخلیق کیں۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

    ۱۹۷۳ میں عرب دنیا کا یہ عظیم انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔

    (از قلم رئیس احمد صمدانی، شائع شدہ مجلہ افق)

  • اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    ادب و قصص کی کتب کی تصاویر کا سلسلہ یوں تو ابتدائی اسلامی عہد میں شروع ہوگیا تھا مگر ان کے قدیم ترین نسخے، جو ہمیں ملتے ہیں وہ زیادہ تر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے ہیں۔ اتفاق سے قابوس نامہ کا مصوّر نسخہ امریکہ میں ایک پرانی اشیا کے تاجر کے ذریعہ حال ہی ملا ہے، جسے راقم نے بھی دیکھا ہے۔

    دراصل قابوس بن دشمگیر نے دسویں صدی عیسوی میں اسے بطور پند و نصائح لکھا تھا مگر مصور نسخے کے متعلق مختلف آرا ہیں کہ آیا یہ مصوّر نسخہ صحیح ہے یا جعلی ہے۔ اگرچہ ابھی تک زیادہ قیاس یہی ہے کہ یہ جعلی ہے۔ بہرحال یہ نسخہ ۴۱۳ھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی رنگین تصویریں قابل مطالعہ ہیں۔ میرے نزدیک یہ نسخہ ضرور مشکوک ہے۔

    بغداد میں عہد دولتِ عباسیہ میں علوم و فنون کو بہت فروغ ہوا تھا۔ یہاں الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ جیسے علمی اور ادبی شہ پارے بھی مصوّر کیے گئے تھے جو اس عہد کی یادگار سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ کلیلہ و دمنہ کے مصوّر نسخے اب نہیں ملتے ہیں۔ خدیویہہ کتب خانۂ مصر میں عربی کی مشہور کتاب آغانی کا مصوّر نسخہ بھی موجود ہے، جس کے جمالیاتی حسن سے عربوں کی ثقافت اور فن کا عروج نظر آتا ہے۔ حسنِ اتفاق سے میونخ جرمنی کی نمائش ۱۹۱۴ء میں چند اوراق الف لیلیٰ کے بھی رکھے گئے تھے، جن میں اس گھڑی کا نقشہ تھا جسے ہارون رشید نے چارلس پنجم کو تحفتاً ارسال کیا تھا۔ اوراق میں اس زمانے کے بازاروں کے مناظر اور بعض علم موسیقی سے متعلق بہت اہم یادداشتیں تھیں۔

    چونکہ عام طور پر کلیلہ و دمنہ کو ہندی الاصل کتاب ہتھوپدیش کا چربہ شمار کیا جاتا ہے، جو عبداللہ بن مقفع کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اسے مصور کرنے کی طرف بہت توجہ کی گئی تھی۔ اس کا ایک نسخہ نمائش ۱۹۱۴ء میں پیرس میں آیا تھا۔ جو ۶۳۲ھ کا لکھا ہوا تھا جس میں یہی تصاویر بھی تھیں۔ مگر ان کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک اور مصور نسخہ پیرس میں ۷۳۳ھ کا لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا، جو بغداد میں لکھا گیا تھا مگر اسی عہد میں مقاماتِ حریری کے مصوّر نسخے تیار ہوئے کیونکہ مدارسِ اسلامیہ میں یہ کتابیں باقاعدہ پڑھاتی جاتی تھیں اور اس طرح قدرے سریعُ الفہم تصور کی جاتی تھیں۔ انسان ان کتابوں میں جمالیاتی صورت سے بھی خوب حظ اٹھا سکتا تھا۔

    چنانچہ ان کتب کے کافی مصوّر نسخے یورپ کے کتب خانوں مثلاً برٹش میوزم لنڈن، کتب خانہ ملّی پیرس اور وائنا میں موجود ہیں جنہیں راقم نے بھی دیکھا ہے۔ پیرس کا نسخہ بھی امین محمود الوسطی نے مصوّر لکھ کر ۶۳۴ھ میں تیار کیا تھا مگر لنڈن کا نسخہ جو ۷۲۳ھ کا لکھا ہوا ہے اسے ابوالفضل بن ابی اسحاق نے مصوّر کیا ہے۔ یہ تینوں نسخے خالصتاً عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا چینی یا ایرانی اثر نہیں ہے۔ اسی طرح مصوّر نسخہ مجمع التواریخ رشید الدین کا اڈنبرا یونیورسٹی کتب خانے میں ہے، جو ۷۵۵ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں کافی تصاویر ہیں مگر اسی تاریخ کے مصوّر نسخے جن کو کسی قدر اس نسخہ کا حصہ تصور کرنا چاہیے، ہند میں کتب خانۂ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی اور رام پور کے کتب خانے میں ہیں، جن کو راقم نے بھی دیکھا ہے۔ ان میں واضح طور پر وسط ایشیائی ماحول ہے۔ اسی لیے ہم ان کی مصوری کو وسطِ ایشیائی دبستان کی مصوری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ان تصاویر پر کسی قدر چینی مصوری کے اثرات بھی ہیں۔

    وسطِ ایشیاء میں فردوسی کے شاہنامہ نے اسلامی مصوری میں ایک نیا رزمیہ رنگ پیدا کر دیا تھا، اس کو مصوروں نے ہر دور میں مصور کیا ہے۔ یہ کتاب جو سلطان محمود غزنوی کے عہد کا ایک زرین علمی کارنامہ ہے، مصوروں کے لیے جولانئ طبع کا مرکز رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصوروں کو اس میں وہ واقعات ملے جس کے لیے مصور سہارا تلاش کرتا ہے کہ مصور کرنے میں سہولت ہو۔ اس میں بنے بنائے موضوعات ملتے ہیں۔ دوسرے یہ ایرانی ثقافت کا ایک بہترین نمونہ ہے یعنی ایرانی قوم کی یہ مصور تاریخ ہے۔

    یہ ماننا پڑے گا کہ مصوری کے معیار کے ساتھ ساتھ ہمارا جمالیاتی نقطۂ نگاہ بھی اسی طرح ترقی کرتا رہا۔ چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے اخیر میں، فنون میں کافی ترقی ہوچکی تھی اور خاص کر ایرانی مصوری میں شاہنامۂ فردوسی کے علاوہ دوسرے مستند شعرا کے کلام کو مصور کرنے کی طرف بھی مصوروں نے توجہ کی، جس میں نظامی کی کلیات، خواجہ کرمانی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن کو ایرانی مصوروں نے مصور کر کے جمالیاتی اعتبار سے دنیا میں مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز قائم کر دیا۔

    (ممتاز پاکستانی مصوّر عبدالرحمٰن چغتائی کے مضمون سے اقتباسات)

  • فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم یوں تو کھیل ہے، لیکن اس کا بنانا کھیل نہیں۔ ارادے اور روپ ریکھا سے لے کر فلم بنانے تک بیچ میں بیسیوں، سیکڑوں ایسی رکاوٹیں آتی ہیں کہ بڑے دل گردے والا آدمی بھی دم توڑ سکتا ہے۔

    سوشل فلم باقی دوسری فلموں سے الگ نہیں، لیکن زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ سماج مختلف قسم کا ہے۔ کئی مذہب، نسل، صوبے، بولیاں ٹھولیاں ہیں۔ جمہوری نظام نے انفرادی طور سے سب کو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں اور مجموعی طور پر برابری کے حقوق۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان حقوق کے خلاف ہوں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور سے ابھی میرے بھائیوں کو ان حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا۔

    مجھے یاد ہے، جب میں نے فلم ’مرزا غالب‘ لکھی تو اوّل اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ ان کے خیالات اور ان کی شاعری کی عظمت سے روشناس ہوں۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے، جس کی مدد سے آپ اس عہد کے سماج کی پرچھائیاں قلم بند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں، ’’آواز اٹھی اور نہ آنسو بہے۔ شہنشاہ ہند کی حکومت جمنا کے کنارے تک رہ گئی۔‘‘

    مغل عہد ختم ہو رہا تھا اور برٹش سامراجیت دھیرے دھیرے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اس وقت وہ ایک سادہ مگر دکھ بھرے جملے میں اس عہد کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں، ’’ارے کہاں ہو دلّی والو۔۔۔؟ دن دہاڑے ہی سو گئے؟‘‘ اس پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا صاحب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے، ان کے دل نہیں تھا۔ وہ کتنے دل والے تھے، ان کے خطوط پڑھ کر پتا چلتا ہے۔

    تاریخی فلموں کا ذکر محض تذکرہ ہے، کیونکہ حقیقت میں وہ کسی نہ کسی طرح سماجک پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کا اشارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراج رنجیت سنگھ کے بارے میں فلم بنانا آسان نہیں ہے۔ حقیقت سے متعلق دو مؤرخوں کی رائے آپس میں نہیں ملے گی۔ پھر وہ مقصد ان کی زندگی کے انفرادی پہلو کو فلم کے پردے پر نہیں لانے دے گا۔ آپ کو کئی اداروں سے کلیرنس حاصل کرنا ہوگا اور جب وہ حاصل ہوگا تو اسکرپٹ کی شکل بالکل بدل چکی ہوگی، جس میں آپ اپنا چہرہ پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہو جائیں گی۔ آپ بہت اچھے ہیں، میں بھی بہت اچھا ہوں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے، وغیرہ وغیرہ اور اگر آپ ان کے شکوک کے خلاف جائیں گے تو مورچے لگیں گے، آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اور آپ گھر کے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

    آپ زیبُ النساء کے بارے میں فلم نہ ہی بنائیں تو اچھا ہے، کیونکہ وہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی اور اس لیے سیزر کی بیوی کی طرح تمام شکوک اور شبہوں سے اوپر۔ عاقل خان گورنر ملتان سے ان کی محبت کو نہ صرف مشکوک سمجھا جائے گا، بلکہ اس کی صحت، میرا مطلب ہے، قصے کی صحّت کو بیہودہ قرار دیا جائے گا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں، حال ہی میں ستیہ جیت رے نے، جنہیں دنیا ایک بڑے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مانتی ہے، ایک فلم بنائی جس میں ایک نرس دکھائی گئی جو اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہو کر رات کو دھندا کرتی ہے۔ اب وہ ایک انفرادی بات تھی جس کا اجتماعی طور پر نرس پیشہ عورتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پر اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ نرسوں نے آندولن چلایا اور شری رائے کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ مرزا غالب، اور ’سنسکار‘ جیسی فلموں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انہیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔ اس کے بنانے والے کو راشٹر پتی اپنے ہاتھوں سے سورن پدک اور مان پتر پیش کرتے ہیں۔

    ساماجک فلم اپنے یہاں بنانے میں اپنے یہاں دیش کے حالات بہت آڑے آتے ہیں۔ مختلف گروہ، قومیں اور مقصد تو ایک طرف، خود سرکار بھی اس گناہ سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر سرکار کی پالیسی اہنسا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجیے گا کہ کئی ہنسا استعمال کرنے والوں کو ہم نے اپنا رہنما مانا ہے، ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور اس کے سہرے گائے ہیں۔ میں شہید بھگت سنگھ کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ شہید بھگت سنگھ اوّل اور آخر کرانتی کاری تھے، وہ من سے سوشلسٹ تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے بنا برٹش سامراجیہ کا تختہ الٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ان کے بارے میں فلم بنائیں تو دوسری طرف ان کے اسمبلی میں بم پھینکنے کے واقعے کو یا تو چھوڑ دینا ہوگا اور یا پھر اس کا بیان یوں کرنا ہوگا کہ وہ صرف سامراجیہ کو چونکانا چاہتے تھے۔

    تبھی ایک اندرونی تضاد پیدا ہو جائے گا۔ کیا لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس سانڈرس کی ہتیا بھی انہوں نے انگریزوں کو چونکانے کے لیے کی تھی؟ اگر آپ ان واقعات کو ایسے ہی دکھائیں گے جیسے کہ وہ واقع ہوئے تو آپ حملوں کا نشانہ بنیں گے، کیونکہ ملک میں کئی ایسے گروہ ہیں جو گولی بندوق میں یقین رکھتے ہیں اور سرکار کی پالیسی ایسی ہے کہ وہ دھماکہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ورنہ ان کروڑوں نوجوانوں کا کیا ہوگا جو دن رات یونیورسٹی کیمپس میں اودھم مچاتے رہتے ہیں۔

    سوشل فلم بناتے وقت ہم ہر ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ آپ قومی ایکتا پر فلم بنا رہے ہوں تو آپ میں ہمت نہیں ہوگی کہ رانچی، بھیونڈی اور مالیگاؤں کے واقعات کو ان کی صحیح صورت میں پیش کر سکیں، کیونکہ ان میں ایک مذہب یا قوم کے لوگوں نے دوسرے پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے۔ آپ ہندو مسلم فساد دکھاتے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں دو ہندو مرے ہوں وہاں دو مسلمان مار کے دکھائیں۔ اس پر بھی نہ ہندوؤں کی تسلی ہوگی نہ مسلمانوں کی۔ دونوں آپ سے ناخوش، دونوں ناراض اور اس پر آپ کو سینسر سرٹیفکیٹ لینے میں تکلیف ہوگی۔

    نوجوانوں کے بارے میں فلم بنائیے تو صرف یہیں تک پہنچیے کہ بڑوں کا عشق، عشق تھا اور چھوٹوں کی محبت بدنامی اور بدکاری۔ اُسے ’اُچت‘ مت لکھیے کہ شری مدبھا گوت سے لے کر اب تک استری اور پرشوں کے بیچ کیا کیا گردانیں ہوئیں۔ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ چند مصیبتوں میں پڑے بڑوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ وہ انہیں سیاسی اور رہنما نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو اپنے ہی الٹے معنی پہناتے ہیں۔

    سوشل فلم بنانے والے کی حیثیت اس عورت کی طرح ہے جو غرارہ پہنے ہوئے کسی پارٹی میں گئی اور جب لوٹی تو برسات ہو چکی تھی اور گھر کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ اس کے مرد نے سر والٹر ریلے کی طرح راستے میں اینٹیں اور سلیں رکھ دیں اور وہ غرارے کو سنبھالتی ہوئی چلی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک اینٹ ٹیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ دھپ سے پانی میں گری۔۔۔ غرارے سمیت! ساودھانی اُسے لے ڈوبی۔

    نا بابا۔ ساماجک فلم بنانے میں بڑی جوکھم ہے۔ چاروں طرف سے آپ ننگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بدن پر کھال بھی نہیں اور نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ فلمیں ساماجک اور دوسری کن حالات میں بنتی ہیں، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ نام کی ہمیں پوری آزادی ہے مگر اس کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں، اس عالم میں مجاز کا شعر یاد آ جاتا ہے،

    حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
    کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا

    (اردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار اور فلمی مکالمہ نویس راجندر سنگھ بیدی کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • ڈاکٹر مقصود زاہدی: ایک بے داغ، دل آویز شخصیت

    ڈاکٹر مقصود زاہدی: ایک بے داغ، دل آویز شخصیت

    کچھ دوست اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق کچھ لکھنا چاہو تو سوائے قصیدے کے اور کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتا۔ گہری دوستی، انتہائی قربت، شب و روز کی بے تکلف صحبتوں، ذہنی رشتوں اور نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود برسوں کی ہم سفری میں بھی ان کی کوئی ایسی چوری ہم پکڑ نہیں سکتے جس پر جی کھول کر قہقہہ لگانے کا موقع میسر آئے۔ کوئی ایسی گمراہی نظر نہیں آتی جو ان کے لئے توشۂ آخرت ثابت ہو۔ ڈاکٹر مقصود زاہدی ایک ایسی ہی بے داغ دل آویز شخصیت ہے۔

    وہ کوئی ایسا گہرا آدمی بھی نہیں جس کے اندر تہ خانوں میں اپنے معاشقوں اور آوارگیوں کو پالنے کے لچھن ہوں اور ان تہ خانوں کے چور دروازوں تک رسائی جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو۔ وہ تو پیٹ کا اتنا ہلکا ہے کہ پہلی ملاقات ہی میں آپ کو اپنے دوستوں، ملاقاتیوں، یہاں تک کہ اپنے مریضوں کو بوالعجبیاں تک سنا ڈالے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کے بعض ممنوع ابواب کے علاوہ اور کوئی بات بھی کسی سے نہیں چھپاتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنی افتادِ طبع کے باعث چھپا ہی نہیں سکتا۔ پھر اسے اپنی پارسائی و پاک بازی کا بھی کوئی گھمنڈ نہیں رہا۔ وہ ایک شریف اور مہذب آدمی ضرور ہے۔ لیکن ایسا گیا گزرا بھی نہیں۔ نہ خشک ملّا ہے، نہ بے رنگ سوشلسٹ، نہ صراط المستقیم کی پیمائش کرنے والا مسلمان، نہ اخلاق کا مبلغ، نہ جمالیاتی حس سے کورا فلسفی، نہ جہالت کا دوست، نہ عقل کا دشمن، اس نے منہ زور جوانی کا طوفانی دور بھی گزارا ہے۔ شکل و صورت بھی لاکھوں میں ایک ہے، ہم نے اسے ڈھلتی عمر میں دیکھا اور سچ پوچھئے تو ایک ادیب شاعر یا نظریاتی انسان کے طور پر نہیں (کہ اس وقت تک ہم پر اس کے جوہر نہیں کھلے تھے) بلکہ اپنے خوب رُو دوستوں میں اضافے کے طور پر اسے قبول کیا۔ سرخی سپیدی تو نظرِ بد دور اس ساٹھے پاٹھے دور میں بھی اس کے حسین و جمیل چہرے پر ٹھاٹھیں مارتی محسوس ہوتی ہے۔ جوانی میں نہ جانے کیا قیامت ہو گا۔

    وہ قیام پاکستان کے بعد لٹ لٹا کر یہاں پہنچا۔ اس وقت وہ سب کچھ ہار کر قلندر بن چکا تھا، لیکن ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن فکر و نظر کی روشنی تھی، علم کی دولت تھی، اس نے راولپنڈی میں نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا، ٹیوشنیں پڑھائیں، کتابوں کی دکان تھنکرز کارنر کے نام سے کھولی۔ آخر برما شیل میں معقول ملازمت مل گئی اور کچھ عرصہ بعد وہ تبدیل ہو کر پشاور آگیا۔ اس وقت اس کی شادی ہو چکی تھی اور ایک گول مٹول پیارا سا بچہ بھی جنم لے چکا تھا۔ پشاور آتے ہی اس نے یہاں کے اہلِ قلم سے فرداً فرداً مل کر اپنا تعارف کرایا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے نظریاتی رشتوں نے سارے فاصلے سمیٹ کر ہمیں قریب تر کر دیا تھا۔ دفتری اوقات کے بعد اس کا زیادہ وقت میرے ساتھ ہی گزرتا۔ ان دنوں ابھی اس کے حالات اچھے نہیں تھے لیکن میں نے اسے کبھی حالات کا رونا روتے یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔

    زاہدی کے آنے سے پشاور کی ادبی فضا چمک اٹھی۔ تنقیدی نشستوں میں ہماہمی پیدا ہو گئی اور لکھنے والوں میں ایک تخلیقی لہر سی دوڑ گئی۔ ایک دفعہ مشہور ادبی ماہنامہ’’ساقی‘‘ کے مدیر و مالک شاہد احمد دہلوی مرحوم ایک ریڈیو پروگرام کے سلسلے میں پشاور وارد ہوئے۔ زاہدی اور ان کے نہایت گہرے اور دیرینہ مراسم تھے۔ اس نے انہیں کھانے پر مدعو کیا اور مجھے بھی بلایا۔ پہلی دفعہ زاہدی کا ٹھکانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک شکستہ حال مکان تھا جس میں بجلی تک نہیں تھی۔ گھر کا سامان دو چارپائیوں اور چند ایک ٹوٹے پھوٹے برتنوں پر مشتمل تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ہم نے ایک بوریے پر بیٹھ کر لالٹین کی مدھم روشنی میں کھانا کھایا۔ لیکن اس کی خود اعتمادی نے بڑا متاثر کیا۔ زاہدی نے نہ تو کوئی معذرت کی۔ نہ شرمندگی محسوس کی، بلکہ اس کی تلافی کچھ اس طرح اپنی سدا بہار مسکراہٹ، جادو اثر گفتگو اور لطیفوں اور چٹکلوں سے کی کہ کسی اور طرف دھیان دینے کا موقع ہی نہ دیا۔ سارے وقت بچوں کی طرح اس کے فلک شگاف قہقہے گونجتے رہے۔

    میرے معاشی حالات جو کبھی اچھے نہیں رہے، ان دنوں بھی دگرگوں تھے۔ لیکن زاہدی کی حالت دیکھ کر اپنے مصائب بھول گیا اور وہاں سے جا کر کئی دنوں تک اس آہنی انسان کے عزم اور حوصلے کی داد دیتا رہا۔ مجھے زندگی کے متعلق اس کے اس رویے سے ایک نئی روشنی ملی۔ بعد میں اسی جگہ ہم نے لالٹین کے ٹمٹماتے اجالے میں اپنی زندگی کے بعض نہایت اہم فیصلے کیے۔ دلوں کے چراغ جلا کر بجلی کی کمی کو پورا کیا۔ علم و آگہی کی ضیا سے ذہنوں کو منور کیا۔ اپنی فکری الجھنوں کو سلجھا کر ذاتی اور کائناتی رشتوں کو استوار کیا۔ سماجی شعور اور عصری بصیرت حاصل کی۔ غمِ ذات کی حد بندیاں توڑ کر انسانی سوچ کے ہمہ گیر فلسفے کو اپنایا، اس وقت کہیں جا کر مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ زاہدی ان افلاس زدہ حالات میں فلگ شگاف قہقہے لگانے کی ہمّت کیسے کرتا ہے، اپنے ذاتی دکھوں کو اہمیت کیوں نہیں دیتا، اور حالات کی ستم ظریفی نے جو پہاڑ اس پر توڑے ہیں، ان کی شکوہ گزاری کو قابلِ اعتبار کیوں نہیں سمجھتا؟

    ہمیں اپنی دوستیوں کی وسعت پر بڑا فخر ہے، لیکن زاہدی کے تعلقات کا طول و عرض دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ پورے برصغیر ہندو پاک میں شاید ہی کوئی ایسی قابل ذکر ادبی سیاسی، مذہبی اور علمی شخصیت ایسی ہو گی جس سے اس کی اچھی خاصی راہ و رسم نہ ہو، سید مطلبی فرید آبادی سے قائداعظم تک، علامہ اقبال سے احمد ندیم قاسمی تک، علامہ عبدالسلام، نیازی سے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تک، اور مولوی عبدالحق سے دادا امیر حیدر تک سیکڑوں ہزاروں بڑی شخصیتوں کو اس نے اتنے قریب سے دیکھا ہے اور وہ ان کے متعلق اتنا کچھ جانتا ہے کہ اگر اس نے یاداشتوں کا یہ خزینہ محفوظ نہ کیا تو وطن عزیز کی ادبی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا نہایت قیمتی حصہ ضائع ہو جائے گا، کیونکہ ان عظیم حضرات کے متعلق موجودہ دوستوں میں سے کسی کو بھی صحت کے ساتھ ان تفصیلات کا علم نہیں جن کا عینی شاہد زاہدی ہے۔

    زاہدی شروع ہی سے ادب کا ایک ذہین قلم کار تھا۔ اس نے ایک ایسے پُرآشوب دور میں آنکھ کھولی جب برصغیر میں جنگ آزادی کی تحریک اپنے پورے عروج پر تھی اور انگریز سامراج کی غلامی سے گلو خلاصی کے لیے ہر نوجوان دار و رسن کی آزمائش سے گزرنے کو بے تاب تھا۔ پھر تلاشِ روزگار کے لیے اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ وہ شہر شہر قریہ قریہ سرگرداں پھرتا رہا۔ اس آوارہ گردی میں اسے محنت و سرمایہ کی کش مکش کا نہایت تلخ تجربہ ہوا‘ طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواریوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ اس زہر کو اپنے رگ و پے میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کیا۔ پھر تقسیمِ ملک کے ساتھ ہی مذہبی اور نسلی فسادات کے الاؤ سے گزر کر وہ پاکستان پہنچا۔ آگ اور خون کے اس سیلاب میں اُس نے ہزاروں، لاکھوں بے گناہوں کو مذہبی تعصب کے بھینٹ چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہنستے بستے شہروں کی تباہی اور پُر امن گھرانوں کی بربادی کے مناظر نے اس کے احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
    پاکستان آ کر اسے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی کمینگیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ خوف ناک واقعات ایک ہوش مند انسان کو پاگل بنانے کے لیے کچھ کم نہ تھے۔ لیکن اس کی سوچ ایک ترقی پسند دانشور کی سوچ تھی۔ انسانی شرف پر غیر متزلزل یقین اور اس انقلاب میں کشت و خون کے اقتصادی، معاشی اور طبقاتی اسباب کے شعور نے اسے زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیا اور وہ محنت و ہمّت جو اس کی گھٹی میں پڑی تھی اس کے لیے ایک نئی زندگی کے آغاز کا سہارا بنی۔

    زاہدی ایک عرصے تک افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور نقاد کے طور پر ادبی حلقوں سے متعارف رہا۔ پھر اچانک اُس نے رباعیات و قطعات لکھ کر لوگوں کو چونکا دیا۔ پھر اس کی نظمیں اور غزلیں چھپنے لگیں۔ میں اس کی ادبی، سیاسی، سماجی بصیرت اور غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا ہمیشہ قائل رہا، لیکن مجھے اس کی شعر گوئی کے متعلق کبھی حسنِ ظن نہیں تھا۔ جب پہلی دفعہ اس کی رباعیات میری نظر سے گزریں تو سب سے زیادہ اچنبھا مجھے ہوا اور میں نے اسے لکھا۔ ’’شاعری کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہ کرو، نثر تمہارا میدان ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دو، اسی میں تمہارا بھلا ہے۔‘‘میرے اس فقرے نے جیسے اس پر تازیانے کا کام کیا اور وہ زیادہ زور و شور اور پوری لگن سے لکھتا رہا۔ اور آخر رباعیات و قطعات میں اس نے اپنے آپ کو منوا کر ہی دم لیا۔

    پھر ماہنامہ کتاب میں اس کے چند ادبی خاکے سامنے آئے تو دوستوں کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ خاکے نہ صرف بھرپور اور معلومات افزا تھے بلکہ ایک منفرد اسلوب کے حامل بھی تھے۔ زبان کی چاشنی کے علاوہ ان خاکوں میں زاہدی کا غیر معمولی سیاسی و سماجی شعور رچا بسا تھا۔

    زاہدی کی صحبت گزرے ہوئے دنوں کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسندی کے جراثیم پہلے سے میرے اندر موجود تھے اور اپنے معاصرین سے میری سوچ خاصی مختلف تھی لیکن اس نے مجھے انسانی قدروں سے روشناس کرایا، قلم کے استعمال میں اپنی ذمے داری کا احساس دلایا، فنی سفر میں نئی روشنیوں کی راہ دکھائی اور میری سوچ کو وسعت دے کر بے کراں بنا دیا۔

    (معروف ادیب، شاعر اور نقّاد فارغ بخاری کے مضمون سے چند اقتباسات جس میں انھوں نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم اور دوست مقصود زاہدی کے فن اور شخصیت کو پیش کیا ہے)

  • "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان

    "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان

    اہلِ علم و دانش، ادیب اور دوسرے بڑے بڑے لوگ ہمیں اپنے مشاہدات اور تجربات سے زندگی کے وہ اسرار و رموز اور ایسی باتیں سکھا گئے ہیں جو ہمارے فکر و شعور کی بلندی اور روحانی ترقّی کا ذریعہ ہیں یہ ایک ایسی ہی تحریر جو بہت سادہ اور ایک عام سے عمل کی ترغیب دیتی ہے، لیکن ہماری زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون کے نام سے ادب کے رسیا اور باذوق قارئین ضرور واقف ہوں گے اور ان کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہوگا۔ برطانوی راج میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے سردار صاحب نے صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ وہ مدیر ریاست اخبار، دہلی رہے اور اس زمانے میں انھوں نے کئی مضامین اور کالم تحریر کیے جو قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ انہی کی ایک خوب صورت تحریر ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بچّوں کی فطرت ہے کہ ان کو دنیا میں صرف دو باتیں متاثر کر سکتی ہیں اور یہ صرف ان دو سے ہی خوش ہو سکتے ہیں۔ ایک کھانے کے لیے ان کو کچھ دیا جائے۔ دوسرے ان سے اخلاص و محبت کے ساتھ پیش آیا جائے۔

    اگر کسی بچّے کو یہ دونوں اشیا اپنے خاندان کے کسی دشمن سے بھی نصیب ہوں تو یہ بچّہ اپنے گھر والوں کو بھول کر دشمن خاندان کے لوگوں سے مانوس ہو جاتا ہے اور "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان ہے کہ مالی ، ذہنی اور روحانی خوش حالی کے لیے ضرورت مند غریب لوگوں اور بچوں کی دعائیں بہت ہی پُراثر ہوتی ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں نے جب تک ضرورت مند دوستوں، غریب لوگوں اور معصوم بچّوں کی امداد کی مجھے روپے پیسے کے اعتبار سے کبھی کمی نہ ہوئی اور میں نے جب بھی ان لوگوں کی خدمت گزاری سے ہاتھ کھینچا میری مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور فاقہ کشی شروع ہوگئی۔ چناں چہ مجھے جب کبھی زیادہ ذہنی کوفت ہو تو میں پانچ، سات یا دس روپے کے اچھے اچھے پھل اور مٹھائیاں منگا کر محلہ کے غریب بچوں میں تقسیم کر دیا کرتا ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہنی کوفت اور تشویش سے فوراً ہی نجات مل جاتی ہے اور حالات درست ہو جاتے ہیں۔

    یہ کیفیت تو تشویش یا ذہنی کوفت کو دور کرنے کے متعلق ہے۔ عام طور پر بھی محلّہ اور پڑوسیوں کے بچّے مجھ سے بہت مانوس ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان بچّوں کے والدین سے نہ میں نے کبھی تعلقات پیدا کیے اور نہ میں نے ان لوگوں کے نام اور حالات سے واقف ہونے کی کبھی کوشش کی۔”

    (از قلم سردار دیوان سنگھ مفتون، مدیر ریاست اخبار، دہلی)

  • لاہور کا ایک واقعہ!

    لاہور کا ایک واقعہ!

    یہ بات ۱۹۳۷ء کی ہے۔ میں ان دنوں لاہور میں تھا۔ ایک دن میرے جی میں آئی کہ چلو علّامہ اقبال سے مل آئیں۔ اس زمانے میں میرے پاس ہلکے بادامی سفید (Off White) رنگ کی ایمبسیڈر (Ambassador) تھی۔ میں اسی میں بیٹھ کر علامہ صاحب کی قیام گاہ کو چلا۔

    ان کی کوٹھی کا نمبر اور وہاں تک پہنچنے کا صحیح راستہ مجھے ٹھیک سے نہ معلوم تھا، لیکن میکلوڈ روڈ، جہاں وہ رہتے تھے، اس کی جائے وقوع سے میں اچھی طرح واقف تھا۔ لہٰذا کسی خاص مشکل کے بغیر میں علامہ کے بنگلے تک پہنچ گیا۔

    سڑک کچھ گرد و غبار سے بھری ہوئی لگتی تھی۔ فٹ پاتھ، یا یوں کہیں کہ فٹ پاتھ کی جگہ سڑک کے دونوں طرف کی چوڑی پٹی، خشک اور گردآلود تھی۔ علّامہ کے بنگلے کا پھاٹک اچھا خاصا اونچا، لیکن لکڑی کا تھا۔ اس پر سلیٹی رنگ کی لوہے (یا ٹین) کی چادر تھی، جس کے باعث پھاٹک بہت بھاری اور کسی پراسرار سی عمارت کا پھاٹک معلوم ہوتا تھا۔ پھاٹک کھلا ہوا تھا اور سامنے مختصر سی اندرونی سٹرک (Drive Way) تھوڑا بل کھاتی ہوئی اصل عمارت کی طرف جاتی ہوئی صاف نظر آ رہی تھی۔ عمارت بلند و بالا، لیکن سال خوردہ اور ذرا بوسیدہ معلوم ہوتی تھی۔ جگہ جگہ مرمت اور ایک جگہ تعمیر نہ کے آثار بھی باہر سے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے احسان دانش کی نظم ’’علامہ اقبال کی کوٹھی‘‘ یاد آئی جو ایک دو مہینہ پہلے ’’خیام‘‘ یا ’’عالم گیر‘‘ میں چھپی تھی۔ نظم میں کوٹھی کی خستہ حالی پر افسوس اور رنج کا اظہار تھا۔ آخری شعر تھا:

    سنتا ہوں کہ اب ہو گئی کوٹھی کی مرمت
    احسان اسے دیکھنے جاؤں گا دوبارہ

    میں کچھ دیر اس شش و پنج میں رہا کہ گاڑی اندر تک لیے چلا جاؤں، یا فٹ پاتھ ہی پر چھوڑ دوں۔ پھرمیں نے دل میں کہا، ممکن ہے پورٹیکو میں اور کوئی گاڑی کھڑی ہو اور میں اپنی گاڑی اندرونی سڑک پر کھڑی کر دوں تو شاید کسی کا راستہ رک جائے۔ لہٰذا میں نے گاڑی وہیں سڑک کے کنارے لگا دی اور باہر آ یا۔ تب میں نے دیکھا کہ میرے مقابل فٹ پاتھ پر دو تین گمٹیاں ہیں، جیسی کہ پان سگریٹ والے رکھتے ہیں۔ ان گمٹیوں پر نوجوانوں اور بے فکروں کا مجمع سا تھا۔ کچھ نو عمر لڑکے بھی تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ان کم بختوں کو لکھنے پڑھنے سے مطلب نہیں کہ یہاں پان کی دکان پر وقت ضائع کر رہے ہیں۔

    میں ابھی گاڑی کو تالا لگا ہی رہا تھا کہ اچانک سڑک پار کرکے پانچ سات نو عمر لڑکے میری طرف لپکے۔ ان کے انداز اور ہاتھوں کے اشارے سے مجھے ایسا لگا کہ وہ کچھ مانگ رہے ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ تو اور بھی برا ہے۔ یہ لونڈے پیشہ ور بھاری معلوم ہوتے ہیں۔ یقیناً منظم اور مجرمانہ طور پر بھیک منگوانے والوں کا کوئی گروہ ہوگا جو انہیں اس طرح استعمال کر رہا ہوگا اور ان کی زندگیوں کو بھاڑ میں جھونک رہا ہوگا۔ جب تک میں گاڑی کے دروازے سے چابی نکالوں نکالوں، کوئی چار پانچ لڑکے اورایک دبلا پتلا منحوس صورت شخص، جس کی شکل سے ہی خباثت ٹپک رہی تھی، اچانک میرے پاس پہنچ گئے اور قریب تھا کہ ان کے ہاتھ میرے کوٹ تک پہنچ جائیں۔

    میں یہ دیکھ کر لرز گیا کہ وہ لڑکے نہ محلے کے ان پڑھ بے فکرے آوارہ گرد تھے اور نہ بھیک منگے۔ وہ تو کسی قسم کے پیشہ ور معلوم ہوتے تھے، اپنے جسم کی تجارت کرنے والے۔ میں نے دل میں کہا، معاذاللہ، یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ یہ بھرا پرا شہر، دن کا وقت، شریفوں کا محلہ اور یہ پیشہ ور لونڈے؟

    اب میں نے جانا کہ وہ ہاتھ میرے کوٹ کی جیبوں تک پہنچنا نہیں بلکہ میرے دامن کو تھامنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ مجھ سے کوئی سودا کرنا چاہتے تھے۔ دس دس بارہ بارہ سال کے لونڈے، جن کی آنکھوں میں لڑکپن کی معصومیت کی جگہ عجیب شیطانی چمک تھی، چہروں پر وہ پختگی اور پھیکاپن تھا جو بڑے عمر کے لوگوں کے چہروں پر بھی شاذ ہی نظر آتا ہے۔ میں نے نفرت سے انہیں جھٹک کر ایک طرف ہو جانا چاہا تو وہ میرے پیچھے لپکے۔ توبہ! ایسا تو سنسنی خیز افسانوں میں بھی نہ ہوتا ہوگا۔ یہ واقعہ ہے یا کوئی دیوانہ پن جس میں سے دوچار ہوں، میں نے دل میں کہا۔ پھر تقریباً جست لگاتا ہوا ان کے نرغے سے نکل کر میں علامہ کے پھاٹک میں داخل ہو گیا۔

    خدا کا شکر ہے کہ اندر آنے کی ہمت ان بدمعاشوں کو نہ ہوئی۔ پھاٹک تو کھلا ہی ہوا تھا، لیکن وہ پھاٹک کے کھمبے کے پاس آکر یوں رک گئے جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ میں نفرت سے اپنے ہاتھ اور کپڑے جھاڑتا ہوا دوڑ کر بنگلے کے پورٹیکو میں داخل ہو گیا۔

    اب واللہ اس ملاقات کی تفصیل کچھ یاد نہیں۔ اتنا خیال میں ہے اور وہ بھی دھندلا سا، کہ حضرت علامہ بڑی شفقت سے پیش آئے۔

    میں نے گھنٹی بجائی توا یک بڑے میاں جو وضع سے ملازم اور رشتہ دار کے بین بین لگتے تھے، فوراً برآمد ہوئے۔ میری اطلاع لے کر اندر گئے اور تقریباً الٹے ہی پاؤں واپس آکر مجھ سے کہا کہ علامہ صاحب گول کمرے میں تشریف رکھتے ہیں، آپ آ جائیں۔ کچھ یاد نہیں کہ باتیں کس موضوع پر ہوئیں۔ میں ریلوے کا انجینئر، مجھے شاعری سے ذوق تو تھا (اب بھی ہے) اور مجھے علامہ کا بہت سا کلام زبانی یاد بھی تھا، لیکن اس ذوق کے سوا میرے پاس کچھ نہ تھا جو مجھے علامہ سے ہم کلام ہونے کا اہل بناتا۔ یہ بخوبی یاد ہے کہ علامہ نے مجھے بالکل احساس نہ ہونے دیا کہ میری ملاقات ان کے لیے ایک کار فضول سے زیادہ نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسی بات کہی جس سے مجھے اپنے جہل کا احساس ہوتا۔

    ملاقات کوئی آدھ گھنٹہ رہی۔ پھر میں نے اجازت لے کر سلام کیا۔ علامہ صاحب کمرے سے باہر تک مجھے چھوڑنے آئے۔ ایک بار جی میں آئی ان سے درخواست کروں کہ آپ کے دروازے کے باہر سڑک کی پرلی طرف جو طائفہ شیاطین ہے، اس کا کچھ تدارک کریں۔ لیکن میری ہمت نہ پڑی اور پھر اس معاملے سے ان کا مطلب ہی کیا تھا؟ یہ کام تو پولیس والوں کا تھا۔ علامہ کو شاید خبر بھی نہ رہی ہو کہ سڑک پار کی گمٹیوں پرکس طرح کا ہجوم رہتا ہے۔

    میں پورٹیکو سے باہر آیا تو اندرورنی سڑک (Drive Way) پر سرمئی رنگ کی ایک پرانی آسٹن اے چالیس (Austin-A40) کھڑی تھی۔ علامہ کی تو نہ ہوگی، کیونکہ میں نے کہیں سنا تھا کہ ان کے پاس ان دنوں ایک بڑی سی فورڈ تھی۔ خیر، کوئی ملنے والا آیا ہوگا، میں نے دل میں کہا۔ اچھا ہی ہوا جو میں نے اپنی کار باہر کھڑی کی۔

    میں علامہ صاحب سے ملاقات کی خوشی میں مگن باہر نکلا۔ ایک لمحے کے لیے میں بھول گیا تھا کہ ان لوگوں سے پھر سابقہ پڑ سکتا ہے۔ لیکن باہر سڑک پر آکر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کئی لڑکے میری کار کے پاس کھڑے تھے اور کار کو ڈھکیل ڈھکال کر اس کا رخ مخالف سمت میں کر دیا گیا تھا۔میں کچھ حواس باختہ سا، لیکن ہمت کر کے گاڑی کی طرف بڑھا تو وہ لونڈے مجھ سے تقریباً چمٹ گئے۔ ان کے بدن سے عجیب طرح کی حیوانی اور چکنے تیل کی سی بو آ رہی تھی۔ ابھی میں فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ ان سے کس طرح نپٹوں، کہ ایک لمبا سا دبلا پتلا شخص، جو خاکی مائل ملگجے پیلے رنگ کی لمبی قمیص اور اسی کپڑے کی شلوار پہنے ہوئے تھا، میری طرف لپکا۔ اس کے چہرے پر بداخلاقی اور بےحیائی کے آثار اس قدر نمایا ں تھے کہ میری طبیعت گنگنا گئی، جیسے میں نے کسی بھیگی لجلجی چیز کو چھو لیا ہو۔ اس وقت میں سڑک کی جانب تھا اور وہ میرے دائیں ہاتھ پر فٹ پاتھ کے رخ پر تھا۔

    میں نے پلٹ کر اسے ایک ٹھوکر لگانی چاہی تو اس نے اپنی ٹانگ میری طرف بڑھا کر مجھے روکنا چاہا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میری ٹانگ کچھ اس طرح اس کی ٹانگ سے الجھی کے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور اچل کر چھپاک سے فٹ پاتھ کے نیچے گہری نالی میں جا رہا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر لپکتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا، دل میں دعا کر رہا تھا کہ گاڑی فوراً اسٹارٹ ہو جائے۔ بارے دعا قبول ہوئی۔ چابی لگاتے ہی گاڑی بڑی خوبی سے اسٹارٹ ہو گئی۔ میں نے گاڑی گیئر میں ڈالی اور ایکسیلٹر پر پاؤں پورے زور سے داب دیا۔

    گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔ میرا ارادہ تھاکہ چند ہی لمحے بعد فرسٹ گیئر سے سیکنڈ میں آجاؤں گا، کیونکہ سیکنڈ میں طاقت بہت تو ہوتی ہی ہے، ساتھ ہی اس میں رفتار تیزی سے سڑھانے کابھی امکان رہتا ہے۔ حسب ارادہ میں نے گاڑی سیکنڈ میں ڈالی ہی تھی کہ محسوس ہوا گاڑی چل نہیں پار ہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی طاقت اسے پکڑ کر الٹی طرف کھینچ رہی ہو۔ میں نے پیچھے نگاہ کی تو دیکھا کہ کئی لونڈے کار کے بمپر اور بوٹ سے چپکے ہوئے پورا زور لگاکر گاڑی کو آگے بڑھنے سے روکنے میں مصروف تھے۔ ادھر میں ایکسی لیٹر پر پاؤں پورے زور سے دبائے ہوئے ہوں، ادھر وہ دس بارہ بچے گاڑی کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور اس کامیابی سے کہ گاڑی کی رفتار چیونٹی کی رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔

    میں نے کندھے سکوڑ کر سر کو یوں جھکا لیا گویا خطرہ میرے پیچھے نہیں، بلکہ سامنے ہے اور میں پوری قوت کے ساتھ سامنے کسی چیز سے ٹکرانے والا ہوں۔ سر جھکاکر اور بدن چراکر میں نے اپنی پوری قوت ارادی و جسمانی اس بات پر لگا دی کہ گاڑی کو اتنی ریس دوں کے ان غول بچوں کو جھٹکتا ہوا نکل جاؤں۔ لیکن ان پلیدوں میں خدا معلوم کتنی طاقت آ گئی تھی کہ میرا پندرہ ہارس پاور کا انجن، میری اپنی قوت مدافعت، سب بے کار ثابت ہو رہی تھیں۔ گاڑی بس گھسٹتی ہی رہی اور سو پچاس گز ہی کے اندر مجھے یقین ہو گیا کہ یا تو گاڑی اب بہت جلد بند ہو جائےگی، یا ان لونڈوں کی طاقت اسے آگے بڑھنے سے روک ہی دےگی۔

    میں اب سراسیمہ ہو چلا تھا۔ میرے ذہن میں بس یہ بات گردش کر رہی تھی کہ یہ گاڑی جسے میں اپنی حفاظت و مدافعت کے لیے کافی سمجھ رہا تھا، میرے لیے موت کا پھندا، یا فنا کا جال ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر میں اسی میں بندرہ گیا تو چند ہی منٹ جاتے ہیں کہ یہ غولان شیطانی مجھے آگے بڑھنے سے روک دیں گے، مجھے گاڑی سے کھینچ لیں گے اور پھر خدا جانے میری کیا درگت بنائیں۔ وہ شخص، جسے میں نے نالی میں ڈھکیل دیا تھا، وہ تو شاید میری تکا بوٹی کر کے پھینک دے۔

    اب، کئی سال بعد میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میرا استدلالی، ترقی یافتہ دماغ، جسے اصطلاح میں ’’یمینی دماغ‘‘ یا Right Brain کہتے ہیں، معطل ہو چکا تھا اور میں اپنے ’’یساری دماغ‘‘ یعنی Left Brain کے قبضے میں تھا۔ یساری دماغ، جسے Reptilian Brain بھی کہتے ہیں، انسانوں، رینگنے والے جانوروں اور انڈا دینے والے جانوروں میں مشترک ہے۔

    کہا گیا ہے کہ ارتقائی عمل کے کروڑوں برس نے اس دماغ کو پیدا کیا اور چونکہ یہ دماغ رینگنے والے جانوروں اور پھر انڈا دینے والے جانوروں سے ہو کر انسان تک پہنچا ہے، اس لیے اسے حشراتی دماغ Reptilian Brain بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے بنیادی اور ’سفلی‘ جذبات سب اسی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ شہوت، خوف، بھوک کا احساس، تشدد، تحفظ جان، خطرے سے فرار اختیار کرنا وغیرہ سب جبلتیں اسی دماغ کی دین ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر جرائم پیشہ لوگوں، خاص کر قاتلوں اور زنا بالجبر کے مرتکب لوگوں میں یساری دماغ کو سمینی دماغ سے زیادہ فعال پایا گیا ہے۔ اس کی جگہ چونکہ سر کے بائیں اور نچلے حصے میں ہے، اس لیے اسے ’یساری‘ کہتے ہیں۔ اس کے برخلاف، یمینی یا Right Brain کا ارتقاء اور بھی کئی کروڑ برس میں ہوا۔ استدلال، درون بینی اور تعقل کی صفات اسی یمینی دماغ کی پیداوار ہیں۔

    یساری دماغ کو استدلال اور تعقل اور پچھتاوے سے کوئی علاقہ نہیں۔ جب یہ دماغ حاوی ہو جاتا ہے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ بعض دماغی مریضوں میں بھی یمینی دماغ کی کمزوری اور یساری دماغ کی مضبوطی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

    بہرحال اس وقت مجھے ایک ہی دھن تھی، کہ کسی طرح اس گاڑی سے نکل بھاگوں۔ گاڑی میں جائے قیام نہ تھی تو باہر جائے فرار ضرور ہوگی، یہ میرا استدلال تھا۔ لیکن گاڑی کس طرح چھوڑوں اور کس مقام پر، یہ ابھی سمجھ میں نہ آیا تھا۔

    اچانک میں نے ایک عجیب بات محسوس کی۔سڑک پر کوئی راہ گیر نہ تھا۔ خالی راستہ قطعاً سنسان، بھائیں بھائیں کرتا معلوم ہوتا تھا۔ خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اور میرے ذہن میں کبیر کا مصرع آیا۔ میکلوڈ روڈ پرزیادہ بھیڑ بھاڑ تو کبھی نہ ہوتی تھی، لیکن بالکل سناٹا بھی نہ ہوتا تھا۔ ایک دو موٹریں تو منٹ دو منٹ پر گذر ہی جاتی تھیں۔ علامہ صاحب کے مکان سے ذرا آگے علامہ کے مشہور دوست سرجگندر سنگھ کا عظیم الشان بنگلہ تھا۔ (کیسے پتے کی بات جگندر نے کل کہی۔) ان کے پھاٹک پرا یک دو ملازم بھی ہمیشہ کھڑے نظر آتے تھے۔ سردار صاحب کے بنگلے کے ذرا ہی فاصلے پر بہرام جی خدائی جی کی دکان ایک بنگلہ نما مکان میں تھی۔ یہ لوگ ولایت سے عمدہ قسم کی شرابیں اور سگار منگاتے تھے۔ کوئی ایک دو فرلانگ پر وہائٹ وے، لیڈلا (Whiteway, Laidlaw) کی عالی شان دو منزلہ دکان تھی۔ اس کے سامنے دو چار موٹریں، ایک دو شکر میں، پان سات بگھیاں، تو ہر وقت ہی کھڑی رہتی تھیں۔ آج خدا جانے کیابات تھی کہ نہ وہ کوٹھیاں دکھائی دیتی تھیں، نہ کوئی دکان ہی نظر آئی تھی۔ حتیٰ کہ پولیس کاکوئی سپاہی بھی ٹریفک چوراہے پر نہ تھا۔

    اب جو غور کرتا ہوں تو خیا ل آتا ہے کہ میری رفتار اس قدر دھیمی تھی کہ بس چیونٹی کی چال سمجھیے اور جن عمارتوں، دکانوں کا میں نے اوپر ذکر کیا، وہ مجھ سے چند فرلانگ تو تقریباً دور تھیں، اس وقت کہاں سے دکھائی دے جاتیں؟ لیکن میں نے کہا نا کہ اس وقت میرا انسانی دماغ نہیں، بلکہ حشراتی دماغ مجھ پر حاوی تھا۔ آج مجھے یقین ہے کہ اگر میں ہمت کر کے اس گاڑی کو چلاتا رہتا، اسپیڈ چاہے جو بھی رہتی، تو دس پانچ منٹ میں کسی محفوظ یا آبادی والی جگہ پر ضرور پہنچ سکتا تھا۔ میرا پیچھا کرنے والے مجھ پر ہرگز ہاتھ نہ ڈال سکتے تھے۔ گاڑی کو وہ بالکل روک نہ سکتے تھے اور اگر وہ گاڑی کو چھوڑ کر کھڑکی کی راہ سے مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے تو میں بآسانی اتنی دیر میں گاڑی کی رفتار بڑھاکر ان کے خطرے سے آزاد ہو سکتا تھا۔ لیکن اس وقت تو یہ لگ رہا تھا کہ یہ گاڑی نہیں موت کی کوٹھری Death Cell ہے۔ اگر میں اسی میں بیٹھا رہا تو موت کا شکار ہو جاؤں گا۔

    میں نے دل میں کہا کہ اگر کوئی مضبوط کھمبا، یا دیوار، راستے میں ملے تو گاڑی اس سے ٹکرا دوں۔ دھماکہ ہوگا تو دس پانچ لوگ لامحالہ جمع ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کوئی پولیس والا بھی آ نکلے۔ یا شاید میں زخمی، یا بے ہوش ہی ہو جاؤں۔ تب تو یہ طائفہ بیابانی میرا پیچھا چھوڑے گا۔ اس وقت میرے (حشراتی) دماغ میں یہ بات نہ آئی کہ موٹر کا کوئی واقعی کارگر ایکسیڈنٹ کرنے کے لیے رفتار ضروری ہے۔ بیس بائیس کی رفتار تو ہو اور اس وقت میری رفتار چار پانچ سے متجاوز نہ تھی اور نہ ہی مجھے یہ بات سوجھی تھی کہ زخمی یا بےہوش ہو کر تو میں اور بھی ان کے رحم وکرم پر ہو جاؤں گا۔ وہ مجھے ہسپتال لے جانے کے بہانے اٹھا کر کہیں بھی لے جا سکتے تھے، یا وہیں کا وہیں مجھے مزید گزند پہنچا سکتے تھے۔ اسے میری خوش قسمتی کہیے کہ اس وقت میرے سامنے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس سے ٹکرا کر میں اپنا یہ عقل مندی پر مبنی ’منصوبہ‘ پورا کرتا۔

    اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ وہ پیلی ملگجی قمیص والا گھناؤنا شخص بھی ان لونڈوں کا معاون ہو کر میری گاڑی کو پیچھے سے روکنے میں شامل ہو گیا ہے۔ ’’اس کی بھی طاقت شامل ہو گئی ہے، اب تو میں بچ نہ سکوں گا‘‘ میں نے دل میں کہا۔ ابھی گاڑی کی رفتار میں کوئی خاص فرق نہ آیا تھا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ ملگجی قمیص والا گاڑی کو رکوانے میں جان لڑا دےگا۔

    ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائےگی‘‘، میں نے اپنے آپ سے کہا۔ مجھے اپنے والد مرحوم کا ایک خادم یاد آیا جو ایسے موقعوں کے لیے حسب ذیل شعر پڑھا کرتا تھا:

    کب تک چھپیں گی کیریاں پتوں کی آڑ میں
    آخر کو آم بن کے بکیں گی بزار میں

    عام حالات میں مجھے جب بھی یہ شعر یاد آتا تو ہلکی سی ہنسی بھی آتی۔ لیکن آج رونا آ رہا تھا۔ یہی نہیں، اپنا بچپن بھی اس وقت مجھے بڑی آرزو بھری ارمان انگیز گلابی نارنجی روشنیوں کے سائے میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا تھا، حالانکہ دراصل میرا بچپن خاصا ناخوشی سے بھرا ہوا اور بھلا دینے کے لائق تھا۔

    کہتے ہیں ایک بار بسمل سعیدی نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب آپ کے کلام میں سوزوگداز کی اک ذرا کمی نہ ہوتی تو آپ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔ جوش صاحب نے کہا، ’’ہرگز نہیں، میرے یہاں سوزوگداز کی کمی ہرگز نہیں۔ لو یہ شعر سنو:‘‘

    میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
    عمر کا بہترین حصہ ہے

    بسمل سعیدی نے قہقہہ لگا کر کہا، ’’واللہ جوش صاحب بچپن کے مضمون پر اس سے بہتر شعر میں نے نہیں سنا تھا‘‘۔ خیر، جوش صاحب اور بسمل صاحب کے مخول ایک طرف، لیکن سچ بات یہ ہے کہ میرا بچپن اپنے بڑوں سے پٹتے اور روتے ہی گزرا تھا۔ پھر بھی کاش میں ابھی سات ہی آٹھ برس کا ہوتا، میں نے دل میں تقریباً روتے ہوئے کہا۔ اس صورت میں آج اس موٹر میں تو نہ ہوتا، جہاں میری عزت اور جان دونوں کے لالے پڑے ہیں۔ آخر میں نے کسی کا بگاڑا بھی کیا ہے؟

    مجھے صغر سن کے وہ دن یاد آ گئے جب ذرا ذرا سی بات پر اور اکثر بے وجہ ہی، مجھ پرڈانٹ یا مار پڑتی تھی۔ یا اگر کوئی وجہ ہوتی ہوگی تو میرا ننھا سا ذہن اس کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا۔ کسی بات کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ ان دنوں میرے محدود دماغ کا فیصلہ تھا۔ بعد میں، جب مجھے علت یعنی Cause اور سبب، یعنی Reason کا فرق معلوم ہو ا تو میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ لازماً ایسا نہیں کہ کسی چیز کی علت معلوم ہو جائے تو اس کا سبب بھی معلوم ہو جائے۔ مثلاً کسی شخص کا قتل ہو جائے اور لاش کا معائنہ کرکے ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ وہ پستول کی گولی سے مرا ہے، تو یہ محض علت قتل معلوم ہوئی۔ ا س سے یہ کہاں معلوم ہوا کہ اس کے قتل کا سبب کیا ہے؟

    اس وقت جو میں اپنی جان کے خطر میں ہوں، تو اس کی علت یہ ہے کہ میں کسی مقام پر کسی وقت موجود تھا۔ اگر نہ ہوتا تو یہ بات بھی نہ ہوتی۔ لیکن میرے وہاں موجود رہنے کی کچھ علت تھی اور اس علت کی بھی کچھ علت ہوگی اور پھر اس علت کی بھی۔

    تو کیا ساری دنیا محض علل کی داستان ہے؟ اسباب کہیں نہیں؟ یا شاید ہمارا یہاں آنا کسی سبب سے ہو؟ اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں، میر تقی میر نے چپکے سے میرے کان میں کہا۔ کون سے اسباب؟ ہمیں یہاں کیوں لایا گیا؟ کیا اس لیے کہ میں اپنی موٹر میں بیٹھا ہی بیٹھا جسم فروش لونڈوں اوران کے سرخیل کی ناپاک حرکتوں کاہدف بنوں؟ میں نے تقریباً ہسٹریائی انداز میں اپنے آپ سے کہا۔

    اچانک مجھے کار کے پیچھے اور باہر سڑک پر سے کچھ غلغلہ سنائی دیا۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اوربھی میرے دشمنوں کی امداد کو آ گئے ہیں۔ گاڑی کی رفتار اب مزید پست پڑ گئی تھی۔ یا شاید وہ میرا وہم رہا ہو۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہاں ایک لمحہ بھی رکنا کسی برے انجام کو دعوت دینا ہوگا۔ مجھے خیال آیا کہ میرے شیطان صفت متعاقبوں نے علامہ صاحب کی کوٹھی میں قدم نہ رکھا تھا۔ شاید وہ گھروں کے اندر آنے سے ڈرتے ہوں؟ لہٰذا سب سے اچھا یہ ہوگا کہ میں گاڑی کو کسی مناسب پھاٹک میں اڑا دوں اور خود نکل بھاگوں۔ نکل بھاگوں گا کس طرح، وہ لوگ جھپٹ کر مجھے پکڑ تو نہ لیں گے؟ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سڑک پر میری جانب، یعنی بائیں جانب، ایسی ہی محفوظ سی ایک کوٹھی دکھائی دی۔ ’’وہ مارا‘‘، میں دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔

    میں نے ایک زبردست جھٹکے سے اسٹیئرنگ کو بائیں گھماکرگاڑی کو پھاٹک میں ترچھا ڈال کر پوری طاقت سے بریک لگائی۔ بائیں گھومنے کے جھٹکے اور پھر بریک لگنے کے جھٹکے سے گاڑی پھاٹک کے بیچ میں ترچھی ہو کر بند ہو گئی۔ تعاقب کرنے والے بھی ان جھٹکوں کی مرکز گریز Centrifugal قوت کی تاب نہ لا کر پیچھے ادھر ادھر گر پڑے۔ میں نے مڑ کر نگاہ کی تو میرا نزدیک ترین معاقب مجھ سے کوئی دس بارہ فٹ کے فاصلے پر تھا۔ میں نے کھینچ کر چابی گاڑی میں سے نکال لی اور اندھا دھند دوڑتا ہوا اس کوٹھی، یعنی اپنی پناہ گاہ میں داخل ہو گیا۔

    بڑا سا بنگلہ تھا، لیکن ذرا سنسان سا۔ سامنے کوئی نوکر، مالی یا چوکی دار نہ تھا۔اونچی کرسی کا برآمدہ، جس میں پرانی وضع کی آرام کرسیاں اور مونڈھے تھے۔ دیوار سے لگی ہوئی سنگار میز اور قد آدم آئینہ، اس کے پاس ہی ہیٹ وغیرہ رکھنے کا اسٹینڈ۔ زیادہ دیکھنے کا موقع تھا نہ ہمت۔ میں مکان کی لمبائی میں دوڑتا چلا گیا۔ برآمدے کے اختتام پر ایک کمرہ سا دکھائی دیا۔ اس کا دروازہ کچھ نیم وا، کچھ بھڑا ہوا ساتھا۔ میں نے جھٹ سے اس میں داخل ہوکر اندر سے کنڈی چڑھا لی۔

    کمرے میں فنائل کی ہلکی سی بوتھی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ باتھ روم ہے۔ ٹٹول کر بجلی کا سوئچ تلاش کیا۔ زرد زرد روشنی ہوئی تو دیکھا کہ آٹھ سات فیٹ لمبا، اسی قدر چوڑا باتھ روم اور غسل خانہ ہے۔ کموڈ کی جگہ نئے ڈھنگ کا فلش تھا۔ اوپر لوہے کا ٹینک، اس سے زنجیر لٹکتی ہوئی۔ اس طرح کے فلش اس وقت ہندوستان میں بہت کم تھے۔ میں اس لیے واقف تھا کہ ریلوے کی دو بڑی کمنیاں، جی آئی پی ریلوے G.I.P. Railway اور بی بی اینڈ سی آئی ریلوے B.B.&C.I. Railway اپنے اسٹیشنوں پر فرسٹ کلاس ویٹنگ روموں میں ایسے باتھ روم بنوا رہی تھیں۔ میں خود جی آئی پی ریلوے میں ملازم تھا۔

    مجھے بری طرح پیشاب محسوس ہو رہا تھا۔ خدا معلوم ڈرکی وجہ سے، یا واقعی۔ لیکن ابھی میری پوزیشن بالکل غیرمحفوظ تھی۔ ادھر ایسا لگ رہا تھا کہ پیشاب ضرور کرنا چاہیے، پتا نہیں پھر موقع ملے نہ ملے۔ میرا ہاتھ پتلون کی پیٹی کی طرف گیا ہی تھا کہ دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا۔ پتا نہیں وہ میرے دشمن تھے، یا گھر کا کوئی فرد جسے شک ہو گیا تھا کہ کوئی باہری آدمی باتھ روم میں گھس آیا ہے۔ میں بہرحال خود کواس حالت میں نہ سمجھتا تھا کہ دروازہ کھول کر باہر آؤں۔ لیکن باتھ روم میں خود کو چھپائے رہنے کا امکان کہاں؟ اور نکلوں تو جاؤں کہاں؟ پھر میری نگاہ پر لی طرف کی دیوار پر پڑی تو معلوم ہوا کہ ادھر بھی ایک دروازہ ہے۔ اب وہ جہاں بھی کھلتا ہو، میرے لیے وہی دروازہ نجات کا دروازہ تھا۔

    میں نے آہستہ سے پرلی طرف کی کنڈی کھول لی۔ دل میں خدا کا شکر بجالایا کہ دروازہ دوسری طرف سے بند نہ تھا۔ اول تو دو دو دروازے توڑنے میں ان لوگوں کو وقت لگےگا، دوسری بات یہ کہ جب اتنا شوروغل اور توڑ پھوڑ کا ہنگامہ ہوگا تو گھر میں کوئی تو متوجہ ہوگا۔ اس وقت مجھے یہ یاد نہ رہا تھا کہ میرے اپنے خیال کے مطابق ان شیاطینوں کا طائفہ گھروں میں گھس نہ سکتا تھا۔ لہذا اغلب تھا کہ دروازہ پیٹنے والا (والے) اہل خانہ سے ہی متعلق ہو (ہوں)۔

    دروازے سے باہر آکر میں نے دیکھا کہ وہی برآمدہ اور آگے تک چلا گیا ہے۔ میرے دائیں جانب چار دیواری تھی، لہٰذا برآمدے کی شکل اب راہداری کی سی تھی۔ باتھ روم کے دروازے سے متصل ہی چار دیواری میں ایک دروازہ تھا جو سڑک کی طرف کھلتا ہوگا۔ دروازے کاایک پاٹ کھلا ہوا تھا، ااور اس میں سے تین ملازم صاف دکھائی دیتے تھے۔ وہ دہلیز اور سیڑھی پر بیٹھے ہوئے باتوں میں اس قدر محو تھے کہ انہوں نے میری موجودگی بالکل محسوس نہ کی اور ظاہر ہے کہ میں بھی ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے حق میں نہ تھا۔

    راہداری میں گربہ قدم چلتا میں کوئی دس گز گیا ہوں گا کہ ایک دروازہ نظر آیا جو گھر کے اندر کھلتا تھا۔ ادھر باتھ روم کا باہری دروازہ ٹوٹنے کی سی آواز ہلکی سی میرے کان میں آئی۔ میں نے مزید توقف کیے بغیر گھر کے دروازے میں قدم رکھ دیا۔ وہاں کمرہ نہ تھا، بلکہ ایک وسیع برآمدہ، سہ دری نما، جس میں کسی مصروف گھر کا تاثر صاف محسوس ہوتا تھا۔ ایک چوڑے پلنگ پر دو عورتیں بیٹھی چالیا کتر رہی تھیں۔ ان کی شکلیں اور وضع قطع اب بالکل نہیں یاد رہی۔ لیکن پلنگ کے پاس ایک بڑی سی گدے دار آرام کرسی Frong Chair پر دوہرے، گداز بدن کی ایک ادھیڑ، قبول صورت خاتون تھیں جو ساری میں ملبوس تھیں۔ ان کے سامنے کرسیوں پر دو نسبتاً نوجوان عورتیں سوئیٹر بن رہی تھیں۔ میں نے قیافہ کیاکہ ادھیڑ عمر خاتون ہی ان میں صاحب اقتدار ہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ وہ میرے انداز، لب و لہجہ اور میری حواس باختگی سے یہ تو شاید سمجھ ہی گئیں کہ میں کوئی چور اچکا نہیں ہوں۔ باقی لڑکیوں؍عورتوں میں ضرور ایک طرح کی گھبراہٹ نظر آئی، لیکن کسی نے شور وغیرہ کچھ نہ مچایا۔ ممکن ہے کہ وہ ان خاتون کی وجہ سے خود کو محفوظ سمجھ رہی ہوں۔ خاتون نے میرے سلام کا جواب نہ دیا، بلکہ ذرا درشت لہجہ میں کہا:

    ’’کون ہو تم؟ یہاں کیسے آئے؟ چلو، فوراً چلے جاؤ یہاں سے‘‘۔ وہ خوف زدہ سے زیادہ جھنجھلائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

    ’’خدا کے لیے مجھے پناہ دیجئے، میں بڑے خطرے میں ہوں‘‘۔ میں نے سرگوشی کی سی آواز میں کہا۔

    ’’کیوں؟ کیا پولیس تمہارے پیچھے ہے؟‘‘

    ’’یہ سب بعد میں بتاؤں گا۔ پولیس وغیرہ کا کوئی چکر نہیں۔ میں ایک باعزت انجینئر ہو۔ کچھ بدمعاش میرے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘۔

    ’’بدمعاشوں ہی کے پیچھے تو بدمعاش لگتے ہیں۔ شریفوں کو ایسے لوگوں سے کیا کام؟ چلو نکلو۔ ابھی نکلو۔ نہیں تو میں نوکروں کو بلواتی ہوں‘‘۔

    ’’پھر میرا خون ہو جائے تو آپ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گی؟‘‘ اچانک میرے دل میں بجلی کی طرح یہ خیال کوندا کہ یہ خاتون ہزار باعزت سہی، لیکن خاتون خانہ نہیں ہیں۔ ’’للہ آپ کسی ذمہ دار شخص کے پاس لے چلیں‘‘۔

    میرا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ وہ پہلو بدل کر بولی، ’’ذمہ دار؟ ذمہ دار اور کون ہے یہاں؟ تم بتاؤ، تمہارا معاملہ کیا ہے؟ اس کا لہجہ اب ذرا تیز تر تھا اور زور لفظ ’’تم‘‘ پر تھا۔

    میں نے اٹک اٹک کر اپنا حال بتانا شروع کیا۔ یہ بھی ڈر تھا کہ بات کچھ ایسی عجیب ہے کہ ان لوگوں کو یقین شاید ہی آئےگا۔ اگر ایسا واقعہ کوئی مجھ سے بیان کرتا تو میں اسے مجذوب کی بڑ سے زیادہ وقعت نہ دیتا۔ اس خوف کے باعث میرا لہجہ خود مجھے ہی تیقن سے عاری لگ رہا تھا اور میری روداد بھی ناقابل یقین معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن خیر، وہ لوگ تو توجہ سے سن رہے تھے اور داستان تھی ہی کتنی لمبی؟ چند منٹ سے بھی کم میں تمام ہو جاتی۔ میں نے بولنا شروع کیا اور دل میں دعا کرتا رہا کہ ان لوگوں کو اعتبار آ جائے۔

    وہ دروازہ، جس سے میں داخل ہوا تھا، یوں ہی کھلا ہوا تھا۔ سب کے دھیان میری کہانی کی طرف تھے۔ اچانک پیلی ملگجی قمیص والا شخص بڑے اطمینان سے اسی دروازے سے داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لمبا سا پستول تھا۔

    میں نے دوڑ کر ادھیڑ عمر خاتون کی کرسی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ لیکن اس شخص نے پستول کا رخ انہیں خاتون کی طرف کر دیا اور عجیب نخوت بھرے، سرد، سفاک، حقارت آمیز لہجے میں بولا:

    ’’بول، میر تیرا کون لگتا ہوں؟‘‘

    میرے پور ے جسم میں سنسنی پھیل گئی۔ تو کیا یہ سب لوگ ایک ہی تھے؟ میں نے سراسیمہ ہو کر دل میں کہا۔

    ابھی ہم میں سے کوئی اس حال میں نہ تھا کہ اس نئے خطرے سے دفاع کے لیے کچھ کرتا۔ ان سب عورتوں کے بدن بالکل ساکت تھے، جیسے پتھر کی مورتیں ہوں۔ میں جس جگہ چھپنے کی سعی ناکام کر رہا تھا، اس کے پیچھے ایک دروازہ تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ اس دروازے کے پیچھے بھی کوئی ہے۔

    میں ابھی یہ فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ دروازے کے پیچھے واقعی کوئی ہے بھی کہ نہیں اور وہ میرا دوست ہے کہ دشمن۔ دفعتاً وہی دروازہ دھڑاکے کی آواز کے ساتھ کھلا اور ایک سیاہ سی چیز سائیں سائیں کرتی ہوئی اس میں سے نکلی اور باہر آنگن میں گردباد کی طرح قائم ہو گئی۔

    میں نے دیکھا کہ وہ ساری عورتیں منہ کو دوپٹے سے ڈھانکے بےہوش سی پڑی ہیں۔ پستول والا گھٹنوں کے بل تھا، اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ ہاتھ کچھ اسطرح سینے پر تھے گویا بندگی بجا لا رہا ہو۔ پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ادھیڑ عمر خاتون کے قدموں میں آ رہا تھا۔ لیکن خود انہیں کسی چیز سے مطلب نہ رہ گیا تھا۔ وہ گردن ڈھلکائے، ساری کے پلو میں منہ کو چھپائے آرام کرسی پر کپڑے کی گڑیا کی طرح ڈھیر تھیں۔ میرے پاؤں من من بھرکے ہو رہے تھے۔ دل گویا بیٹھ کرجوتے کے تلے میں آ گیا تھا۔ لیکن دماغ (وہی حشراتی دماغ؟) تھوڑا بہت حاضر تھا۔ میں نے دل میں کہاکہ بھاگ نکلنے کا اس سے بہتر موقع نہ ملےگا۔ ممکن ہے اپنی گاڑی کو بھی اس گھر کے پھاٹک سے نکال لے جا سکوں۔

    میں ڈرتا، چوروں کی طرح قدم رکھتا، بلکہ تقریباً گھسٹتا ہوا، اپنی پناہ گاہ سے باہر آیا۔ یہ پناہ گاہ کی بھی خوب رہی۔ آنگنمیں وہ سیاہ گردباد ابھی بھی اسی طرح قائم تھا۔ سائیں سائیں کی آواز آ رہی تھی۔ لیکن اس وقت وہ آواز کچھ ماتمی سی لگی۔ نہ جانے کیوں مجھے خیال تھا کہ مجھے قطعاً کسی قسم کی آواز نہ کرنی چاہیے۔ بھلا وہ گردباد کیا تھا، کیا کوئی بدروح تھی، یا کوئی خدائی قہر؟ لیکن میرے شور کرنے نہ کرنے سے اس کا کیا تعلق ہو سکتا تھا؟ شاید یہ بھی میرے حشراتی ذہن کا کرشمہ تھا، کہ اکثر رینگنے والے جانور خطرے کے سامنے دم سادھ کر پڑ جاتے ہیں، گویا مردہ ہوں۔

    ملگجی قمیص والے کے پاس سے گزرتے ہوئے میرے جی میں آئی کہ اس کی پسلیوں پراپنے بوٹ سے ایک زوردار ٹھوکر لگاؤں۔ حرام زادہ مر تو چکا ہی تھا۔ لیکن نہ مرا ہو تو؟ اور وہ سیاہ گردباد؟ میں اس ارادے سے باز رہا۔ پھرمیں نے دل میں کہا کہ پستول ہی اٹھا لوں، شاید وہ اخوان الشیاطین ابھی باہر بیٹھے ہوں۔ مگر تھوڑی سی عقل جو واپس آ رہی تھی، اس کا مشورہ تھا کہ تم نہ پستول چلانا جانتے ہو اور نہ اس کا لائسنس ہی تمہارے پاس ہے۔ کیوں خواہ مخواہ ایک اور مصیبت کو دعوت دیتے ہو؟ ایک مشکل سے تو مرمر کے جینے کی نوبت آ رہی ہے، اب اور کوئی حماقت نہ کرو۔ چپکے یہاں سے نکل چلو۔’’مگر وہ عورتیں اور یہ ملگجی قمیص والا، کہیں یہ سب مر نہ گئے ہوں۔ کہیں پولیس میرا پیچھا نہ کرے‘‘۔ میں نے اپنے دل سے کہا۔

    ’’بےوقوف آدمی‘‘، میں نے دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا۔ ’’اب دیر کرو گے تو پولیس نہ آتی ہوگی تو بھی آ جائےگی۔ اگر یہ لوگ مر بھی گئے ہیں توتم سے کیا مطلب؟ ہاں ا گر پولیس نے یہاں تمہیں دیکھ لیا تو البتہ مشکل ہوگی۔بندھے بندھے پھروگے۔ نوکری سے الگ ہاتھ دھونا پڑےگا۔ چلو، یہاں سے فوراً چل نکلو‘‘۔

    میں اس قدر آہستہ آہستہ وہاں سے نکلا گویا انڈوں پر چل رہا ہوں۔ گلیارے کے دروازے پر اندھیرا تھا۔ وہ تینوں نوکر بھی شاید سو گئے تھے، کہ بے ہوش تھے، پتانہیں۔ میں ان کو چپکے سے پھاند کر اس آسیب گھر سے باہر آ گیا۔

    سڑک پر روشنیاں جل اٹھی تھیں، ایک آدھ سواری بھی خراماں خراماں گزر رہی تھی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن کچھ بدلا ہوا سا بھی تھا۔ میری سمجھ میں فوراً یہ بات نہ آئی کہ کیا تبدیلی آ گئی ہے۔

    تھوڑی دیر بعد مجھے اچانک احساس ہوا کہ میکلوڈ روڈ اب صبح کی طرح سنسان نہیں تھی اور یہ بھی کہ جب میں پیچھے کے گھر میں پناہ لینے کے لیے گھسا تھا تو اس وقت دھوپ نکلی ہوئی تھی، دن کے گیارہ کا عمل رہا ہوگا اور میں ہرگز ہرگز اس گھر میں پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ رہا تھا۔ پھر اس وقت یہ شام کیسی؟

    گھبراہٹ اور خوف کے باعث مجھے بڑے زور کی متلی آئی۔ سارا منہ نمکین پانی سے بھر گیا اور جب تک میں خود کو سنبھالوں، مجھے ایک ابکائی، بلکہ بھینسے کی سی ڈکراتی ہوئی آواز کے ساتھ استفراغ ہوا۔ لیکن ایک تلخ، زرد سیاہی مائل گھونٹ کے سوا کچھ نہ نکلا۔ میں نے صبح کئی پیالی چائے کے ساتھ بہت معمولی ناشتہ کیا تھا اور تب سے اب تک تین چار گھنٹے ہو چکے تھے (یا شاید سارا ہی دن گذر چکا تھا)۔ پھر متلی میں نکلتا کیا۔ میں نے گرمی زدہ کتے کی طرح ہانپتے ہوئے اپنا سینہ اور پیٹ سنبھالنا چاہا۔ اس قے کے باوجود میری ابکائیاں کم نہ ہوئی تھیں۔ مجھے ’’توبۃ انصوح‘‘ کے شروع کا بیان یاد آیا کہ نصوح کو بھی بڑے زور کا استفراغ ہوا تھا۔ (جسے کوے کا پر، مجھے بچپن کی پڑھی ہوئی ایک کہانی بھی یاد آئی، استفراغ اتنا سیاہ جیسے کوے کا پر)۔ ’’تو کیا مجھے بھی ہیضہ ہو رہا ہے؟ یا میں نے کہیں سے زہر تو نہیں منہ میں ڈال لیا؟‘‘ میں نے گھبراکر اپنے دل میں کہا۔

    چکر سے بے حال ہوکر میں بےتحاشا پاس کی دیوار سے ٹکرا گیا۔ چوٹ بچانے کی فکر میں ہاتھ جو دیوار پر زور سے مارا تو کوئی چیز بچھو کے ڈنک کی طرح چبھی۔ گھبراکر غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ دیوار میں ایک موٹی کیل نکلی ہوئی تھی اور وہ کوئی آدھ انچ بھر میری ہتھیلی میں اتر گئی ہے۔ ہتھیلی سے خون بری طرح بہہ رہا تھا۔ میری آستین اور پتلون پر بھی جگہ جگہ خون ٹپک گیا تھا۔ خوف اور خلجان کے ساتھ یہ چوٹ مجھے اور بھی بدحال کر گئی۔

    مجبوراً اسی دیوار کو دیکھ بھال کر اور اسی سے ٹیک لگاکر میں ٹھہر گیا۔ رومال سے ہتھیلی پر پٹی کس کے باندھ لی کہ جریان خون کم ہو۔ دیر بعد طبیعت ذرا بحال ہوئی۔ میں نے اپنے دل میں کہا، ’’یہ سب جناتی کارخانہ معلوم ہوتا ہے۔ آیت الکرسی اس وقت ٹھیک سے یاد نہ آئی تو قل ھواللہ احد اور لاحول ولا قوۃ کا ورد شروع کیا۔ کچھ دیر بعد دل ذرا ٹھہرا۔ میرا گلا بالکل خشک ہو رہا تھا۔ لیکن وہاں پانی کہاں۔ میں نے دل سے کہا اب ہمت کرکے سڑک پر نکلو، اپنی گاڑی اٹھاؤ اور بھاگ لو۔ یہ پانی کے لیے ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے اور نہ ہتھیلی کی مرہم پٹی کی فکر اس وقت مناسب ہے۔

    میں بوجھل قدموں سے اس بنگلے کے پھاٹک کی طرف چلا، جہاں میں نے گاڑی چھوڑی تھی۔ کچھ خوف اس بات کا بھی تھا کہ کہیں وہ موذی لونڈے ابھی موجود نہ ہوں۔ لیکن ان کا سرخیل تو وہاں اندر (مرا؟) پڑا تھا۔ وہ ناپاک حرام زادے بھی بھاگ گئے ہوں گے۔ دل میں یہ کہہ کر میں کوٹھی کے پھاٹک کی طرف الٹے پاؤں چلا۔

    جب میں پناہ کے لیے بھاگ رہا تھا اس وقت تو وہ کوٹھی مجھے بہت کشادہ محسوس ہوئی تھی۔ مجھے لگا تھا کہ اس کا باہری برآمدہ اور اندر کی راہداری ملا کر کوئی ڈھائی سو فٹ کی طوالت رہی ہوگی۔ خلاف توقع اب وہ فاصلہ بہت کم نکلا۔ میں چند ہی قدم چلا ہوں گا کہ عمارت کا پھاٹک نظر آ گیا لیکن میری کار وہاں کہیں نہ تھی۔ میں ایک لمحے کو سناٹے میں آ گیا۔ پھر میرے خیال میں آیا کہ چونکہ گاڑی میں نے پھاٹک میں اس طرح اڑاکر کھڑی کی تھی کہ راستہ بند ہو گیا تھا، اس لیے شاید کسی نے اسے ڈھکیل کر کنارے کرو یا ہو۔

    لیکن گاڑی تو وہاں کہیں نہ تھی۔ حتیٰ کہ پھاٹک پر ٹائروں کا نشان، بریکوں کی گھسٹنی، کچھ بھی ایسی علامت نہ تھی کہ کوئی کار یہاں جھٹکا دے کر موڑی اور پھر اسی طرح جھٹکے سے روکی گئی ہے۔ کار وہاں سے اس طرح مفقود تھی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ کوئی چور تو نہیں لے گیا؟ میں نے دل میں سوچا۔ لیکن کاروں کی چوریاں اس زمانے میں قطعاً نہ ہوتی تھیں۔ کار کی چوری کرنے والا اسے بیچتا بھی کس کے پاس؟ اس زمانے میں معدودے چند لوگ کار رکھتے تھے اور وہ زیادہ تر وکیل، ڈاکٹر، یا سرکاری افسر تھے۔ بہرحال، اگر کوئی چور بھی لے گیا تو مجھ میں اتنی ہمت اس وقت نہ تھی کہ اس چوری کی رپورٹ لکھاؤں۔ پولیس والوں کو کیا بتاتا کہ میں اس گھر میں کیا کرنے گیا تھا؟ اور کار کا تو وہاں نشان بھی نہ تھا، صرف چابی تھی جو میری جیب میں تھی۔ میں نے جیب ٹٹولی تو چابی واقعی موجود تھی۔

    ریلوے کے اسسٹنٹ انجینئر کے لیے کار کی چوری کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ مجھے فوراً تفتیش کرانی چاہیے تھی اور یہ تو ظاہر ہے کہ میں دوسری کار بآسانی نہ خرید سکتا تھا، بلکہ شاید اب دوسری کار نصیب ہی نہ ہوتی۔ لیکن اس وقت میرے لیے چارہ ہی کیا تھا۔ پھر یہ بھی خیال میں آیا کہ گاڑی کوئی چھوٹی سی سوئی تو نہیں کہ کھو جائے تو دکھائی نہ دے۔ فی الحال تو یہاں سے چل دینا چاہیے اور بہت جلد۔ انسان کی عقل معمولی چیزوں کو سمجھنے سے اکثر عاری رہتی ہے اور یہ تو یقیناً کوئی مافوق الفطرت معاملہ ہے۔ اس میں زیادہ چھان بین بھی ٹھیک نہیں۔ خدا نے بڑا فضل کیا جو میں محفوظ رہا۔ ورنہ اکثر لوگ تو سنا ہے خوف کے مارے مخبوط الحواس ہو جاتے ہیں، یا جان ہی سے جاتے رہتے ہیں۔ ابھی اپنی فکر کرو، کارکی فکر بعد میں ہوگی۔

    میں اپنے دل کو اس طرح سمجھاکر سڑک کی روشنی میں آیا۔ مجھے اپنے کپڑے خدا معلوم کیوں کچھ زردی مائل لگ رہے تھے۔ شاید میونسپلٹی کی بجلی ایسی ہی چندھیائی سی ہوتی ہے۔ سامنے سے ایک تانگہ آ رہا تھا، میں اسے روک کر سوار ہو گیا۔ میرے کپڑے اب اور بھی پیلے لگ رہے تھے۔ لاحول ولا قوۃ، کیا مجھے یرقان ہو گیا ہے؟ اتنے میں تانگے والے نے مڑکر مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ شاید اس کی نگاہ میرے لباس کے سرخ چھینٹوں پر پڑ گئی تھی۔یا پھر کیا میرے کپڑے سچ مچ پیلے ہو رہے تھے؟ اچانک مجھ پر بخار کا سا لرزہ طاری ہو گیا۔ میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں تانگے والے سے کہا ’’مجھے اسٹیشن لے چلو۔ جلد ی کرو گاڑی پکڑنی ہے‘‘۔ مغل پورہ کا اسٹیشن وہاں سے قریب ہی تھا۔ تانگے نے مجھے منٹوں میں پہنچا دیا۔ اسی وقت پٹھان کوٹ ایکسپریس پلیٹ فارم پر داخل ہو رہی تھی۔ میں پٹھان کوٹ کا ٹکٹ لےکر ایک ڈبے میں دھنس پڑا۔ پٹھانکوٹ میں میرا کوئی نہ تھا تو کیا ہوا، ملگجی قمیص والا اور سیاہ گرد باد بھی تو وہاں نہ تھے۔

    اور میں نے جو کچھ لکھا ہے، اسے میرے ایک دوست نے پڑھ کر کہا:

    ’’یہ کیا فضول بکواس تم نے لکھ ماری ہے؟ تم اپنی خود نوشت لکھ رہے ہو یا خواب میں دیکھے ہوئے اور دل سے گھڑے ہوئے واقعات لکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’تم جانتے ہو میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنی خودنوشت میں ایک حرف بھی جھوٹ نہ لکھوں گا اور اسی لیے ہر صفحہ تم کو پڑھوا دیتا ہوں کہ اگر کوئی غلطی ہو تو اسے ٹھیک کرا دو‘‘۔

    ’’ہوگا۔ لیکن میں ٹھیک کراؤں کیا خاک؟ اس بار تو تم نے حد ہی کر دی۔ تم کہتے ہو ان دنوں تمہارے پاس امبسیڈر کار تھی۔ ابے احمق، یہ کار تو تقسیم ہند کے بعد برلا نے پہلی بار ۱۹۵۷ء میں بنائی تھی۔ انہوں نے انگلینڈ کی Morris Oxford کے نقشے ان کی اجازت سے حاصل کر کے پہلے تو Hindustan 14 نامی کار بنائی۔ دو تین سال بعد مارس کا ماڈل بدلا تو انہوں نے نئے نقشے کے مطابق Landmaster اور پھر چند سال بعد جدید تر ڈیزائن کے مطابق Hindustan Ambassador کار وجود میں آئی۔ ۱۹۳۷ میں امبسیڈر کہاں تھی جس میں بیٹھ کر تم علامہ سے ملنے گئے تھے؟‘‘

    میں نے چڑ چڑاکر کہا ’’کار کا ماڈل بھول گیا ہوں گا۔ تم تو جانتے ہو کہ میرے پاس شروع نوکری ہی سے کار رہی ہے‘‘۔

    ’’بڑے آئے کار کا ماڈل بھولنے والے۔ بھلا اپنی پہلی کار کا ماڈل تم اس قدر بھول گئے کہ عدم کو وجود میں لے آئے؟ اور بیٹے ذرا یہ تو بتاؤ کہ ۱۹۳۷ میں علامہ اقبال صاحب میکلوڈ روڈ پر کہاں رہتے تھے؟ ۱۹۳۶ء کے اکتوبر میں یا اس کے کچھ پہلے حضرت علامہ نے میوروڈ پر جاوید منزل کی تعمیر مکمل کر لی تھی اور فوراً ہی وہ اس میں منتقل ہو گئے تھے۔ تم ۱۹۳۷ میں میکلوڈ روڈ پر ان سے کس جنم میں ملے ہو گے؟‘‘

    ’’سو سکتا ہے میکلوڈ روڈ نہیں، میوروڈ رہی ہو‘‘، میں نے جھنجھلاکر کہا۔ ’’نام میں ذرا ہی سا تو فرق ہے۔ کیا آدمی اتنی چھوٹی چھوٹی بات یاد رکھ سکتا ہے؟ شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے سر جگندر سنگھ کا بنگلہ اور دوکانیں وہاں نہیں مل رہی تھیں‘‘۔

    ’’بے شک آدمی ذرا ذرا سی بات یاد نہیں رکھ سکتا۔ لیکن یہاں تو اہم تفصیلات کا سوال ہے۔۔۔ہاں اگر خود نوشت کے نام پر داستان امیر حمزہ لکھنی ہو تو اور بات ہے‘‘۔

    ’’داستان امیر حمزہ کو کچھ نہ کہو۔ اس سے بڑھ کر تاریخی کتاب ممکن نہیں‘‘۔ میں نے بپھر کر کہا۔

    ’’خیر یہی سہی۔ لیکن عام پبلک کے سامنے ایسی بات نہ کہنا، ورنہ لوگ تمہیں پاگل خانے بھجوادیں گے اور بھائی صاحب، وہ لونڈے جن کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کے بارے میں آپ نے کہیں اخبار میں پڑھا ہوگا۔ وہ لوگ جرائم پیشہ کنجر، یعنی ایک طرح کے خانہ بدوش تھے۔ ایک زمانے میں ان کا ایک قبیلہ لاہور میں کہیں سے آ گیا تھا اور اس کے افراد، خاص کر لڑکے بالے، چھوٹی موٹی چوریوں میں اکثر ماخوذ ہوتے رہتے تھے۔ میکلوڈ روڈ یامیو روڈ تو نہیں، باغبان پورہ والی سڑک پر ضرور انہوں نے اپنے ڈیرے لگا رکھے تھے۔ آپ کبھی وہاں سے گزرے ہوں گے، پھر اسی کے بارے میں آپ نے کوئی خواب دیکھ لیا اور اب زیب داستان کے لیے اسے اپنی خود نوشت میں ڈالے دے رہے ہیں‘‘۔

    ’’اچھا یوں ہی سہی۔ تو یہ لو!‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنی دائیں ہتھیلی اپنے دوست کی ناک کے نیچے اس کی آنکھ کے بالکل پاس تقریباً ٹھونس دی۔ ہتھیلی پراب بھی چوٹ کا داغ بہت گہرا اور صاف تھا۔ ’’حرامزادے، یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا۔ ’’کہو تو پٹھان کوٹ کے اس ڈاکٹر کا نام پتا بتا دوں جس نے اس چوٹ کا علاج کیا تھا‘‘۔

    میرا دوست ایک لمحے کے لیے سن ہو کر رہ گیا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ گڑبڑا گیا ہے۔ مگر وہ بھی مجھ سے کم بےحیا نہیں۔ ذرا رک کر بولا، ’’اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ہتھیلی پر یہ چوٹ تمہیں اسی وقت اور اسی جگہ لگی تھی جس کا ذکر تم نے افسانے۔۔۔میرا مطلب ہے خودنوشت میں کیا ہے؟‘‘

    ’’نہ سہی، لیکن وہ ڈاکٹر اگر ہو گا تو وہ وقت اور زمانے کی تصدیق تو کر دے گا‘‘۔

    ’’پچاس سے اوپر برس ہو رہے ہیں۔ خدا معلوم وہ ڈاکٹر وہاں ہے بھی کہ مرکھپ گیا‘‘۔

    ’’وہم کا علاج تو لقمان کے پاس بھی نہ تھا اور ضد کے علاج سے سقرا ط بھی معذور تھا‘‘۔

    ’’مانا۔ لیکن میں تم سے جرح اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہیں نے کہا تھا، اس کتاب کو دشمن کی نظر سے دیکھو۔ میں نہیں چاہتا کہ اس میں ایک بھی بات غلط راہ پا جائے‘‘۔

    ’’ہاں اور اب تک تمہیں کچھ نہ ملا تو فرضی ہی الزام گڑھنا شروع کر دیے‘‘۔

    ’’سچی بات یہ ہے کہ تمہارے بیانیے میں اور باتیں بھی کھٹکی تھیں، لیکن وہ اتنی نمایاں نہ تھیں۔ اس باب میں تو تم نے واقعے کے نام سے ایک بھی حرف نہ لکھا‘‘۔

    ’’کچھ اور مثلا؟‘‘ میں نے بڑی کوشش سے غصہ ضبط کرکے پوچھا۔

    ’’تم نے علامہ صاحب کی آواز کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ اس وقت تک ان کی آواز بالکل بیٹھ چکی تھی‘‘۔

    ’’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس ملاقات کی تفاصیل نہیں یاد‘‘۔

    ’’مگر اتنی اہم بات۔۔۔‘‘

    ’’چپ رہو جانتے ہو، لفظ ’واقعہ‘ کے معنی حقیقت بھی ہیں اور خواب بھی اور موت بھی‘‘، میں نے بڑے فخر سے کہا، گویا کوئی بڑی دریافت بیان کر رہا ہوں۔

    ’’پھر تو مجھے کچھ کہنا ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ بتاؤ تم نے منیر نیازی کا مصرع کبیر کے سرکیوں مڑھ دیا؟‘‘

    ’’کیا بکتے ہو؟‘‘ میں دہاڑا۔

    ’’یہی کہ ’خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اور‘ منیر نیازی کا مصرع ہے اور یہ بات اس کے مجموعے ’دشمنوں کے درمیان شام‘ مطبوعہ ۱۹۶۸ کے صفحہ ۲۵ پر موجود ہے۔ تم نے ۱۹۳۷ء میں یہ مصرع کبیر کے نام سے کہاں دیکھ لیا؟ چلو اب مان بھی جاؤ کہ تم نے اپنی خودنوشت میں ایک افسانہ بھی ڈال دیا ہے‘‘۔

    ’’سب افسانے سچے ہوتے ہیں! سب افسانے سچے ہوتے ہیں!‘‘ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد میں چیخ کر بولا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

    (ممتاز نقّاد، افسانہ و ناول نگار اور شاعر شمسُ الرّحمٰن فاروقی کا ایک دل چسپ افسانہ)

  • جوش ملیح آبادی اور بچپن!

    جوش ملیح آبادی اور بچپن!

    کہتے ہیں ایک بار بسمل سعیدی نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب آپ کے کلام میں سوز و گداز کی ذرا کمی نہ ہوتی تو آپ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔

    جوش ملیح آبادی نے کہا، ’’ہرگز نہیں، میرے یہاں سوز و گداز کی کمی ہرگز نہیں۔ لو یہ شعر سنو:‘‘

    میرے رونے کا جس میں قصّہ ہے
    عمر کا بہترین حصّہ ہے

    بسمل سعیدی نے قہقہہ لگا کر کہا، ’’واللہ جوش صاحب بچپن کے مضمون پر اس سے بہتر شعر میں نے نہیں سنا تھا۔‘‘

    (ممتاز نقّاد، فکشن نگار اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی کے افسانے لاہور کا ایک واقعہ سے اقتباس)

  • 1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    سر زمینِ ہند و پاک میں انگریزوں کی حکمرانی کا سنگِ بنیاد پلاسی کے میدان میں رکھا گیا۔ بعد ازاں قریباً نوے برس میں یہ اجنبی حکومت پورے ملک پر مسلط ہو گئی اور مزید سو برس تک عنان فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں رہی۔ اس عہد کا ایک نہایت اہم واقعہ 1857ء کا وہ ہنگامۂ خونین تھا جسے اہلِ وطن ابتدا ہی سے جنگِ آزادی قرار دیتے رہے۔ لیکن خود انگریزوں نے اسے ‘‘غدر‘‘ کا نام دیا۔ یہی نام مدّت تک تاریخ کی درسی کتابوں میں استعمال ہوتا رہا۔

    مرزا غالب نے اپنی فارسی اور اردو تصانیف نظم و نثر میں اس واقعے پر جو کچھ لکھا اگر اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقین ہے کہ ایک ضخیم جلد تیار ہو جائے۔ فارسی نثر کی ایک کتاب جس کا نام ‘‘دستنبو‘‘ ہے صرف اسی واقعہ سے متعلق ہے۔ لیکن میں آج جو نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ محض مرزا کے مکاتیب سے جستہ جستہ اقتباسات لے کر تیار کیا ہے۔

    تمہید کے طور پر عرض کر دینا چاہئے کہ اس ہنگامے کا آغاز 11 / مئی 1857ء کو پیر کے دن ہوا تھا۔ چار مہینے اور چار دن انگریز شہر سے بے دخل رہے۔ 14/ ستمبر 1857ء کو وہ دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے۔ 18/ ستمبر کو شہر مکمل طور پر ان کے قبضے میں آ گیا۔ مرزا اس پوری مدت میں ایک دن کے لیے بھی باہر نہ نکلے۔ ان کا مکان بلی ماراں میں تھا جہاں شریک خانی حکیموں کے مکانات تھے۔ اس خاندان کے بعض افراد سرکار پٹیالہ میں ملازم تھے۔ جب انگریزی فوج دوبارہ دہلی میں داخل ہوئی تو اہل شہر گھر بار چھوڑ کر دہلی دروازے ترکمان دروازے اور اجمیری دروازے سے باہر نکل گئے۔ بلی ماراں کے دروازے پر والیٔ پٹیالہ نے شریف خانی خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اس طرح مرزا کی حفاظت کا بھی بندوبست ہو گیا اور انہیں گھر بار چھوڑ کر باہر نہ نکلنا پڑا۔

    مرزا کے مکاتیب میں اس واقعے کے متعلق سب سے پہلی تحریر نومبر 1857 ء کی ہے جب کہ انگریز شہر پر قابض ہو چکے تھے۔ حکیم غلام نجف کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میاں حقیقتِ حال اس سے زیادہ نہیں کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ کسی محکمے میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔‘‘

    پھر 9/ جنوری 1857ء کو تحریر فرماتے ہیں :

    ‘‘جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں۔ قلم ہاتھ میں لئے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ‘‘

    یہ اگرچہ چند فقرے ہیں جن میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ اس وقت حالات کتنے نازک تھے اور بے یقینی کس پیمانہ پر پہنچی ہوئی تھی۔

    یہ ہنگامہ درحقیقت ایک خوفناک زلزلہ تھا جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔ جس ماحول میں مرزا نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس گزارے تھے اس کی بساط لپیٹی جاچکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نیا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ مرزا کے دل پر اس وسیع اور ہمہ گیر انقلاب کا اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ 1857ء کے پیشتر کے دور اور بعد دور کو دو الگ الگ عالم سمجھنے لگے تھے۔ یا کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کے طریق تعبیر کے مطابق ان کے نزدیک ایک جنم ختم ہو گیا تھا، اور دوسرا جنم وجود میں آ گیا تھا۔ اپنے عزیز ہندو شاگرد ہر گوپال تفتہ کو تحریر فرماتے ہیں:

    ‘‘صاحب۔ تم جانتے ہو کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیا واقعہ ہوا۔ وہ ایک جنم تھا جس میں ہم تم باہم دوست تھے، اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے۔ دیوان لکھے اس زمانے میں ایک بزرگ تھے اور ہمارے تمہارے دلی دوست تھے۔ منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص۔ نہ وہ معاملات نہ وہ اختلاط نہ و انبساط۔ بعد چند مدّت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم بہ منشی ہر گوپال و متخلص بہ تفتہ ہو، آیا اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا نام دلّی اور اس محلّے کا نام بلی ماراں کا محلّہ۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں سے نہیں پایا جاتا۔‘‘

    میں عرض کر چکا ہوں کہ انگریزی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی اہل شہر باہر نکل گئے تھے۔ اور پورا شہر بے چراغ ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے اس کے بعد عام دار و گیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا فرماتے ہیں: ‘‘مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار پنشن دار، دولت مند، اہلِ حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ملازمانِ قلعہ پر شدت ہے۔ باز پرس اور دار و لیر میں مبتلا ہیں۔‘‘

    ‘‘اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے۔ شہر میں ہے کون جو آوے ؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پائے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست (یعنی مارشل لا) یاز دہم مئی سے آج تک یعنی پنجشنبہ پنجم دسمبر 1857ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں معلوم۔ ‘‘

    مرزا کے ایک شاگرد، منشی شیو نارائن آرامؔ نے آگرے سے ایک اخبار نکالا تھا۔ مرزا سے استدعا کی کہ اس کے لیے خریدار بہم پہنچائیے۔ جواب میں فرماتے ہیں:

    ‘‘یہاں آدمی کہاں ہیں کہ اخبار کے خریدار ہوں۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہو گئے تو جنس پوری دے دیں گے۔ کاغذ (یعنی اخبار) روپیہ مہینے کا کیوں مول لیں گے۔ ‘‘

    میر مہدی مجروح نے اسی زمانے میں ایک غزل بھیجی اس کے مقطع کا آخری مصرع یہ تھا:

    ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے ‘‘

    اس مصرع نے مرزا کے سازِ درد کا ہر تار ہلا دیا۔ فرماتے ہیں:

    ‘‘اے میر مہدی۔ تجھے شرم نہیں آتی ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے۔ ‘‘

    ‘‘اے، اب اہل دہلی ہند ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں۔ خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ان میں سے تو کسی کی تعریف کرتا ہے۔ ۔ ۔ اے بندۂ خدا اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں ؟ دلّی کہاں واللہ اب شہر نہیں ہے، کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔ ‘‘

    نواب علاؤ الدین خان کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میری جان۔ یہ وہ دلّی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے۔ ایک کیمپ ہے۔ مسلمان اہلِ حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ، باقی سراسر ہنود۔ ‘‘

    جنگِ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے یکساں حصہ لیا تھا لیکن انگریزوں کی نظروں میں اصل مجرم صرف مسلمان تھے۔ چنانچہ وہی زیادہ تر دار و گیر کے ہدف بنے۔ انہیں کو بالعموم پھانسیاں ملیں۔ انہیں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں۔ شہر سے باہر نکلنے میں بھی ہندو اور مسلمان برابر تھے۔ لیکن ہندوؤں کو بہت جلد گھروں میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ مسلمان بدستور باہر پڑے رہے۔ یا جن کو کسی دوسرے شہر میں ٹھکانا نظر آیا، وہاں چلے گئے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘واللہ ڈھونڈھے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہندو البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں۔

    ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔

    ‘‘ابھی دیکھا چاہئے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں۔ ‘‘

    مدت تک مسلمانوں کو شہر میں آباد ہونے کا حکم نہ ملا۔ تو ان میں سے بعض نے شہر کے باہر ہی جگہ جگہ عارضی مکان بنانے شروع کر دیے۔ اس پر حکم ہوا کہ سب مکان ڈھا دیے جائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ آئندہ کوئی مکان نہ بنائے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘کل سے یہ حکم نکلا ہے کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان وکان کیوں بناتے ہیں۔ جو مکان بن چکے ہیں انہیں گروا دو۔ آئندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو۔ آج تک یہ صورت ہے دیکھیے۔ شہر کے بسنے کی کون سی مہورت ہے۔ جو رہتے ہیں وہ بھی خارج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک للہ والحکم للہ۔ ‘‘

    مرزا نے ایک عجیب عبرت افزا واقعہ لکھا ہے۔ جن مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں ان میں ایک حافظ محمد بخش تھے جن کا عرف ‘‘مموں‘‘ تھا۔ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے اور جائیداد کی بحالی کا حکم مل گیا۔ انہوں نے کچہری میں درخواست دی کہ میری جائیداد پر قبضہ دلایا جائے۔ انگریز حاکم نے نام پوچھا۔ عرض کیا محمد بخش۔ چونکہ درخواست میں عرف بھی درج تھا اس لیے حاکم نے پوچھا ‘‘مموں ‘‘ کون ہے؟ عرض کیا کہ نام میرا محمد بخش ہے۔ لوگ مجھے ‘‘مموں، مموں ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ صاحب نے سن کر فرمایا:

    ‘‘یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم۔ حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں ؟ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں اپنے گھر چلے آئے۔‘‘