Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ناول، جو کسی نے نہیں‌ پڑھا تھا!

    ناول، جو کسی نے نہیں‌ پڑھا تھا!

    راجندر سنگھ بیدی سے لاہور میں اپنی ایک ملاقات کا ذکر سعادت حسن منٹو نے بھی کیا ہے جو پرانی انار کلی کے اس کمرے میں ہوئی جہاں باری علیگ اور حسن عباس رہتے تھے۔

    "گنجے فرشتے” میں منٹو نے باری علیگ کے خاکے میں لکھا ہے: "راجندر سنگھ بیدی، روسی ناول نویس شولوخوف کے "اینڈ کوائٹ فلوز دی ڈون” کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔ یہ ناول ہم میں سے کسی نے بھی نہیں پڑھا تھا۔ لیکن بیدی کچھ اس انداز سے گفتگو کر رہا تھا کہ مجھے خواہ مخواہ اس میں شریک ہونا اور یہ ظاہر کرنا پڑا کہ ناول میرا پڑھا ہوا ہے۔ جب میں نے اس کا اظہار کیا تو بیدی بوکھلا سا گیا۔ باری صاحب تاڑ گئے کہ معاملہ کیا ہے اور شولوخوف کی ناول نویسی پر ایک لیکچر شروع کر دیا۔

    نتیجہ یہ ہوا کہ بیدی صاحب کو تھوڑی دیر کے بعد بڑے بینڈے پن سے اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس نے شولوخوف کا زیرِ تبصرہ ناول نہیں پڑھا۔ میں نے بھی حقیقت کا اظہار کر دیا۔ باری صاحب خوب ہنسے اور آخر میں انہوں نے مخصوص انداز میں حاضرین کو بتایا کہ شولوخوف کا نام انہوں نے پہلی مرتبہ بیدی صاحب کے منھ سے سنا ہے اور اس کی ناول نویسی پر جو لیکچر انہوں نے پلایا ہے ان کی دماغی اختراع ہے!!

    (محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)

  • مولانا ابو الکلام آزاد کی ”انا“

    مولانا ابو الکلام آزاد کی ”انا“

    یہ تذکرہ ہے برصغیر کی دو علمی اور ادبی شخصیات کا جن کے افکار اور کردار کی ہندوستان کی تہذیب اور سیاست پر گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ایک تھے انشاء پرداز اور صاحبِ اسلوب ادیب آزاد اور دوسرے بے مثل خطیب اور شعلہ بیاں مقرر نواب بہادر یار جنگ۔

    ان دونوں کا تذکرہ ہندوستان کی سبھی ممتاز اور قابل شخصیات نے بڑی عقیدت اور محبّت سے کیا ہے۔ یہ اقتباس ملّا واحدی کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظام المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہو گئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔ ”

    "مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔ وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔”

    "مولانا ابوالکلام کو تو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابوالکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اوّل کے مقرر تھے۔”

    "مولانا ابوالکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔”

    "مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیر معمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابوالکلام اپنی مشہور ”انا“ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔”

    "مولانا ابوالکلام کی ”انا“ مغروروں اور متکبّروں کی سی ”انا“ نہیں تھی۔ وہ بس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابل ستائش ”انا“ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینئس۔ مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910ء میں تھے 1947ء تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔”

  • ”حضور پرمٹ!“

    ”حضور پرمٹ!“

    عشرت رحمانی ایک ممتاز ادیب، مؤرخ، نقاد اور براڈ کاسٹر تھے جنھوں نے لگ بھگ سو کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ آج عشرت رحمانی کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام امتیاز علی خان تھا۔ 16 اپریل 1910ء کو رام پور (یو پی) میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آگئے اور یہیں 20 مارچ 1992ء کو وفات پائی۔ تاریخی اور سوانحی موضوعات پر انھوں نے بڑا وقیع کام کیا۔ آل انڈیا ریڈیو پر سے عشرت رحمانی کی وابستگی ان دنوں ہوئی جب پطرس بخاری وہاں کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ اردو کے مایہ ناز ادیب اور مقبول مزاح نگار پطرس بخاری اپنی طباعی، غیر معمولی ذہانت اور مختلف علوم وفنون میں واقفیت رکھنے کے سبب ہندوستان بھر میں جانے جاتے تھے۔ پطرس بخاری کی شگفتہ مزاجی، بزلہ سنجی اور ہمہ گیر لیاقت و ذہانت ہر اعلیٰ وادنیٰ محفل میں ان کی ذات کو ممتاز بنائے رہتی تھی۔ عشرت بخاری کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور وہ بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں ہم عشرت رحمانی کی ایک تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا ہے۔

    عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”

    "بخاری صاحب کا حاکمانہ برتاؤ اپنے ماتحت افسران ہی کے ساتھ مشفقانہ نہیں تھا بلکہ تمام درجوں کے ملازمین کے ساتھ بھی پسندیدہ تھا۔ ہر اہل کار ان کے حسنِ سلوک اور اخلاقِ حمیدہ کا گرویدہ اور معترف تھا۔ ماتحت عملہ میں جو ادیب، شاعر اور ان کے دوست احباب شامل تھے ان کے ساتھ دفتر میں نہایت باضابطہ اور باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل نظر آتے لیکن نجی صحبتوں میں اسی انداز کی بے تکلفی برتتے، جس حیثیت کے تعلقات ہوتے۔ ضابطہ کی پابندی کا یہ حال تھا کہ ایک بار اسٹوڈیو کے محافظ نے ان کو حسبِ ضابطہ بغیر پرمٹ دروازے کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ نئی دہلی پارلیمنٹ اسٹریٹ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں بالائی منزل پر ڈائریکٹر جنرل کے دفاتر تھے۔ اور زیریں منزل میں دہلی اسٹیشن کے دفاتر اور اسٹوڈیوز واقع تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک دن بخاری صاحب اپنے دفتر سے اُٹھ کر بغرض معائنہ اسٹوڈیوز کی عمارت میں جانے لگے۔اسٹوڈیوز کے دروازے پر محافظ موجود تھا جس کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ اندر جانے والے ہر شخص کو ٹوکے اور داخلے کا پرمٹ دیکھ کر دروازہ کھولے ورنہ باہر ہی روک دے۔

    بخاری صاحب کا حکم تھا کہ اس ضابطہ کی سختی سے پابندی کی جائے اور وہ خود پرمٹ کارڈ اپنے لئے بھی ساتھ رکھتے تھے۔ اس وقت اتفاق سے پرمٹ ساتھ لے جانا بھول گئے۔ محافظ نے حسبِ صابطہ ادب سے سلام کیا۔ اور عرض کیا۔ ”حضور پرمٹ!“ ڈائریکٹر جنرل بخاری نے جیب میں ہاتھ ڈالا پرمٹ کارڈ نہ پایا، خاموشی سے مسکرائے اور واپس اپنے دفتر چلے گئے، تھوڑی دیر بعد چپراسی آیا اور محافظ کی طلبی کا حکم سنایا۔ ”ڈائریکٹر جنرل کو اس طرح بے باکی سے روک دیا۔ اب خیریت نہیں۔“ محافظ بے چارہ تھرتھر کانپنے لگا۔ باضابطہ پیشی ہوئے اور محافظ جو ڈرتا ہانپتا حاضر ہوا تھا خوش خوش اکڑتا ہوا اپنی ڈیوٹی پر واپس گیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس کی فرض شناسی اور مستعدی کی تعریف کر کے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اور کئی روز تک اس محافظ کے چرچے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں ہوتے رہے۔”

  • نجات کا طالب غالب

    نجات کا طالب غالب

    مرزا غالب کی غزلیں‌ ہی نہیں ان کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ غالب نے اردو زبان میں خطوط نویسی میں پُر تکلّف زبان، القاب اور روایتی طریقۂ سلام و پیام کو اہمیت نہ دی بلکہ اس روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی کو خوش مزاجی، لطف اور تازگی سے بھر دیا۔ ابنِ‌ انشاء اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر تھے جن کی کتاب خمارِ گندم میں شامل غالب کا ایک فرضی خط یہاں ہم نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    منشی صاحب میاں داد خاں سیاح

    یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہا ہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔

    یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلد بھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔

    خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھا کر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گھڑے ہیں اور اندازِ تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے، ابنِ انشا۔

    کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسر دخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچا دی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔

    نجات کا طالب
    غالب

  • حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    دریا کے دو کناروں پر بسے ہوئے لکھنؤ کو بارہا روندا گیا اور حملہ آور افواج آگے بڑھ گئیں۔ ہندوستان کا یہ مشہور شہر صدیوں تک اجڑتا اور اپنے دامن میں لوگوں بساتا رہا یہاں تک کہ لکھنؤ کو ایرانی نژاد نوابینِ اودھ نے تہذیب و ثقافت کا گڑھ اور علم و ادب کا گہوارا بنا دیا اور اہلِ لکھنؤ پر راج کیا۔

    عبدالحلیم شررؔ بیسویں صدی کی علمی و ادبی شخصیت تھے جنھیں لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب "مشرقی تمدن کا آخری نمونہ: گزشتہ لکھنؤ” ہمیں اُس لکھنؤ کی سیر کراتی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور اس کتاب کے صفحات رفتگاں کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ اس کتاب کے ایک باب میں عبدالحلیم شررؔ نے لکھنؤ کے چند باکمال خوش نویسوں کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "علوم ہی سے وابستہ کتابت اور تحریر کے فن ہیں۔ مسلمانوں کا پُرانا خط عربی تھا جس کو نسخ کہتے ہیں۔ خلافتِ بغداد کے ازمنۂ وسطی تک ساری دنیائے اسلام میں مشرق سے مغرب تک یہی خط تھا جو ارض حیرہ کے پرانے خط سے، خطِ کوفی اور خط کوفی سے خطِ نسخ بن گیا تھا۔ خاندانِ طاہریہ کے زمانے سے وہ تمام علم و فن جو بغداد میں عروج پا رہے تھے، ایران و خراسان کی طرف آنے لگے۔ اور دیلمیوں اور سلجوقیوں کے زمانے میں بغداد کے اکثر کمالات ایران میں بخوبی جمع ہو گئے۔ خصوصاً دیلمیوں کے علمی ذوق اور تفننِ طبع سے ایران کا مغربی صوبہ آذربائیجان جو قدرۃً عراق عجم و عراق عرب کے آغوش میں واقع تھا، ہر قسم کی خوبیوں اور ترقیوں کا گہوارہ قرار پا گیا۔”

    "اسی علاقے میں پہلے پہل خط نے بھی نئی وضع اختیار کرنا شروع کی۔ کتابت خطاطی کی حدوں سے نکل کے نقاشی کی قلمرو میں داخل ہو گئی اور اس میں مصورانہ نزاکتیں پیدا کی جانے لگیں۔ عجمی نزاکت پسندوں کو خطِ عرب کی پرانی سادگی میں بھدا پن نظر آیا اور پرانی شان اور وضع خود بخود چھوٹنے لگی۔ نسخ میں قلم ہر حرف اور لفظ میں اوّل سے آخر تک یکساں رہا کرتا تھا۔ حرفوں میں غیر موزوں خمی اور غیر متناسب ناہمواری ہوتی تھی۔ دائرے گول نہ تھے بلکہ نیچے اور چپٹے ہوتے اور ادھر اُدھر ان میں کونے پیدا ہو جاتے۔ اب نقاشی کی نزاکت کو خطاطی میں ملا کے تحریر میں نوک پلک پیدا کی جانے لگی۔ حرفوں کی نوکیں، گردنیں، اور دُمیں باریک بنائی جانے لگیں۔ دائرے خوبصورت اور گول لکھے جانے لگے۔ اس جدید مذاق کو پوری طرح پیش نظر رکھ کے سب سے پہلے میر علی تبریزی نے، جو خاص دیلم کا رہنے والا تھا، اس نئے خط کو بااصول و باقاعدہ بنا کے مشرقی بلاد میں رواج دیا اور اس کا نام نستعلیق قرار دیا۔ جو اصل میں نسخ تعلیق یعنی ضمیمۂ نسخ تھا۔”

    "یہ نہیں معلوم کہ میر علی تبریزی کس زمانے میں تھے۔ منشی شمس الدین صاحب جو آج لکھنؤ کے مشہور و مستند خوش نویس ہیں، ان کا زمانہ تیمور سے پہلے بتاتے ہیں۔ لیکن نستعلیق کی کتابیں اتنی پُرانی ملتی ہیں کہ تیمور درکنار، ہم سمجھتے ہیں کہ اس خط کی ایجاد محمود غزنوی سے بھی پہلے ہو چکی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ محمود کے حملوں کے ساتھ ہی ساتھ ہندوستان میں فارسی خوش نویسوں کی بھی آمد شروع ہو گئی ہو گی۔ جس کے اثر سے یہاں اس خط کا رواج شروع ہوا۔ اور ہندوستان کے ہر صوبے اور ہر خطے میں نستعلیق کے خوش نویس کثرت سے پیدا ہو گئے۔ لہٰذا یا تو میر علی تبریزی کا زمانہ بہت قدیم ہے اور یا وہ اصلی موجدِ خط نہیں ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ دہلی و لکھنؤ بلکہ سارے ہندوستان کی موجودہ خوش نویسی اپنا استادِ اوّل میر علی تبریزی کو بتاتی ہے۔ ان کے ایک مدتِ دراز کے بعد ایران میں نستعلیق کی استادی میں میر عماد الحسنی کا نام مشہور ہوا، جو خوش نویسوں میں بڑے ممتاز و نامور کاتب اور استادُ الکُل مانے جاتے ہیں۔ ان کے بھانجے آغا عبد الرشید دیلمی، نادر شاہ کے حملوں کے زمانے میں واردِ ہند ہوئے اور لاہور میں آ کر ٹھہر گئے۔ لاہور میں ان کے صدہا شاگرد پیدا ہوئے جنہوں نے اقطاعِ ہند میں پھیل کے انہیں ہندوستان کی خوش نویسی کا آدم نہیں تو نوح ضرور ثابت کر دیا۔ انہی کے دو شاگرد جو ولایتی تھے، واردِ لکھنؤ ہوئے۔ ان دونوں بزرگوں میں سے ایک حافظ نور اللہ اور دوسرے قاضی نعمت اللہ تھے۔”

    "کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بیگ نامی آغا عبد الرشید کے ایک تیسرے باکمال شاگرد بھی لکھنؤ میں آئے تھے۔ ان حضرت کے آنے کا زمانہ غالباً نواب آصف الدّولہ بہادر کا عہد تھا، جب یہاں کوئی باکمال آ کے واپس نہ جانے پاتا تھا۔ قاضی نعمت اللہ آتے ہی اس خدمت پر مامور ہو گئے کہ شاہ زادوں کو اصلاح دیا کریں اور حافظ نور اللہ کو بھی دربارِ اودھ سے تعلق ہو گیا اور ان دونوں نے یہاں ٹھہر کے لوگوں کو خوش نویسی کی تعلیم دینا شروع کی۔”

    "ان بزرگوں کے علاوہ یہاں اور پرانے خوش نویس بھی تھے جن میں سے ایک نامور بزرگ منشی محمد علی بتائے جاتے ہیں۔ مگر آغا الرشید کے شاگردوں نے اپنا ایسا سکّہ جما لیا کہ خوش نویسی کے تمام شائق بلکہ سارا شہر ان کی طرف رجوع ہو گیا۔ جسے خطاطی کا شوق ہوا، انہی کا شاگرد ہو گیا۔ اور تمام خوش نویسانِ سلف کے نام مٹ کے گمنامی کے ناپیدا کنار سمندر میں غرق ہو گئے۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ بزرگ اپنے کمال کے اعتبار سے اس کے مستحق بھی تھے۔”

    "حافظ نور اللہ کی لکھنؤ میں جو قدر ہوئی اس کا اندازہ اسی سے نہیں ہو سکتا کہ وہ یہاں سرکار میں ملازم ہو گئے تھے بلکہ لکھنؤ کی قدردانی کا صحیح اندازہ اس سے ہوت ہے کہ لوگ ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قطعوں کو موتیوں کے دام مول لیتے۔ یہاں تک کہ ان کی معمولی مشق بازار میں صرف ایک روپیہ حرف کے حساب سے ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔”

    "ان دنوں اُمرا اور شوقین لوگ اپنے مکانوں کو بجائے تصویروں کے قطعات سے آراستہ کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے علی العموم قطعوں کی بے انتہا مانگ تھی۔ اور جہاں کسی اچھے خوش نویس کے ہاتھ کا قطعہ مل جاتا، اس پر لوگ پروانوں کی طرح گرتے اور اسے آنکھوں سے لگاتے۔ اس سے سوسائٹی کو تو یہ فائدہ پہنچتا کہ اکثر اخلاقی اصول اور ناصحانہ فقرے یا اشعار ہمیشہ پیشِ نظر رہتے، اور ہر وقت گھر میں اخلاقی سبق ملتا رہتا اور خوش نویسی کو یہ فائدہ پہنچتا کہ خوش نویسوں اور صاحب کمال خطاطوں نے اپنے کمال کو قطعہ نویسی ہی تک محدود کر دیا تھا۔ جو آب دار اور عمدہ وصلیوں کو لکھ کے تیار کرتے اور اسی میں وہ گھر بیٹھے دولت مند ہو جاتے۔ مگر افسوس اب ہندوستان سے قطعات اور کتبوں کا رواج اُٹھتا جاتا ہے اور ان کی جگہ تصویروں نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے اگلے نفیس و مہذب شرعی مذاقِ آرایش کے مٹ جانے کے ساتھ خوش نویسی بھی ہندوستان سے اٹھ گئی۔ اب کاتب ہیں، خوش نویس نہیں ہیں۔”

    "اور جو دو ایک خطاط مشہور بھی ہیں، وہ مجبور ہیں کہ کاپی نویسی اور کتابت سے اپنا پیٹ پالیں جو چیز کہ اصل میں خوش نویسی کی دشمن ہے۔ بہ خلاف اس کے، ان دنوں ایک گروہ قائم ہو گیا تھا جس کا کام فقط یہ تھا کہ خوش نویسی کو اپنے اصول پر قائم رکھے اور اس کو وقتاً فوقتاً مناسب ترقیاں دیتا رہے۔ چنانچہ اگلے خوش نویس، کتابت کو اپنی شان سے ادنا سمجھتے تھے اور خیال کرتے کہ جو شخص پوری پوری کتابیں لکھے گا، وہ غیر ممکن ہے کہ اوّل سے آخر تک اصول و قواعدِ خوش نویسی کو پوری طرح نباہ سکے۔ اور سچ یہ ہے کہ جتنی محنت اور مشقت وہ لوگ ایک ایک وصلی کی درستی میں کرتے تھے، اس کی عشرِ عشیر محنت بھی کاتب کسی پوری کتاب کے لکھنے میں نہیں کر سکتے۔”

    "ان کی محنت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ سے ایک بار نواب سعادت علی خاں نے فرمایش کی کہ "مجھے گلستاں کا ایک نسخہ لکھ دیجیے” نواب سعادت علی خاں، گلستانِ سعدی کے بے حد شائق تھے اور کہتے ہیں کہ گلستاں ہر وقت ان کے سرہانے موجود رہا کرتی تھی۔ اور کوئی ایسی فرمایش کرتا تو حافظ نور اللہ اپنی توہین سمجھ کے اس کا منہ ہی نوچ لیتے مگر فرماں روائے وقت کا کہنا تھا، منظور کر لیا، اور عرض کیا، تو مجھے اسی گڈی کاغذ (ان دنوں رم کو گڈی کہتے تھے) ایک سو (100) قلم تراش چاقو اور خدا جانے کتنے ہزار قلموں کے نیزے منگوا دیجیے” سعادت علی خاں نے حیرت سے پوچھا: "فقط اکیلی ایک گلستان کے لیے اتنا سامان درکار ہو گا؟” کہا "جی ہاں، میں اتنا ہی سامان خرچ کیا کرتا ہوں۔” نواب کے لیے اس سامان کا فراہم کرنا کچھ دشوار تو تھا نہیں، منگوا دیا۔ اب حافظ صاحب نے گلستاں لکھنا شروع کی مگر پوری نہیں ہونے پائی تھی، سات ہی باب لکھنے پائے تھے اور آٹھواں باب باقی تھا کہ انتقال ہو گیا۔”

    "ان کے بعد جب ان کے بیٹے حافظ ابراہیم دربار میں پیش ہوئے اور انہیں سیاہ خلعتِ تعزیت عطا ہوا تو سعادت علی خاں نے کہا: "بھئی، میں نے حافظ صاحب سے گلستاں لکھوائی تھی، خدا جانے اس کا کیا حال ہوا؟” حافظ ابراہیم نے عرض کیا: "ان کے لکھے ہوئے سات باب تیار ہیں، آٹھواں باب باقی ہے، اسے یہ حقیر لکھ دے گا۔ اور اس قدر ان کی شان سے ملا دے گا کہ حضور امتیاز نہ کر سکیں گے۔ لیکن ہاں اگر کسی مُبصر خوش نویس نے دیکھا تو وہ بے شک پہچان لے گا۔” نواب نے اجازت دی اور اس گلستاں کو حافظ ابراہیم نے پورا کیا۔”

    "ان بزرگوں کے تذکرے سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ خوش نویسی میں لکھنؤ کو کوئی ایسا امتیاز حاصل ہو گیا تھا جو ہندوستان میں عدیم النظیر ہو، بہ خلاف اس کے میرا خیال ہے کہ نسخ کے جیسے جیسے باکمال دولتِ مغلیہ سے پہلے ہندوستان میں گزر چکے ہیں، ان کے عشرِ عشیر درجے کو بھی یہ لوگ نہیں پا سکتے بلکہ نسخ کا کمال ان دنوں مٹ چکا تھا۔ نستعلیق کے متعلق اس قدر البتہ کہا جا سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ اور حافظ ابراہیم کے ہاتھ کے قطعات جس ذوق و شوق سے سارے ہندوستان میں مقبول ہوئے اور کسی خوش نویس کے شاید نہ ہو سکے ہوں گے۔ لیکن اس پر بھی خطاطی کے فن میں لکھنؤ کا درجہ قریب قریب وہی تھا جو دیگر متمدن شہروں کا ہو سکتا ہے۔”

  • نیازی خانم

    نیازی خانم

    اردو زبان بالخصوص دلّی کے لوگوں کا لب و لہجہ اور روزمرّہ کا لطف ہی اور ہے۔ عرصے تک دہلی اور لکھنؤ نے اُردو کو بڑا سنوارا نکھارا۔ لہٰذا ان شہروں کی زبان ٹکسالی کہلاتی تھی۔ یہاں کے باشندوں کا لہجہ اور روزمرّہ سند کا درجہ رکھتا تھا۔ اسی شہر کے تھے اشرف صبوحی جن کے قلم سے کوئی تحریر نکلی ہو تو اس کا کیا ہی کہنا۔

    اشرف صبوحی نے ایک ادیب، مترجم اور صحافی کے طور پر خوب نام و مقام بنایا۔ انھوں نے مشہور و معروف شخصیات کے خاکے، اپنے دور کے واقعات، اور گلی محلّے کے بعض‌ عام لوگوں‌ کی زندگی اور اُن کے طور طریقوں کو نہایت پُرلطف انداز میں اردو میں‌ اس قرینے سے لکھا ہے جس کی مثال آج شاذ ہی دی جاسکتی ہے۔

    یہ ایک ایسی ہی عام عورت کا کردار ہے جو دلّی کے ایک گھرانے کی فرد تھیں۔ نام ان کا مصنّف نے نیازی خانم بتایا ہے اور ان کے بچپن کی شوخیوں اور شرارتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ملاحظہ کجیے۔

    "اللہ بخشے نیازی خانم کو عجیب چہچہاتی طبیعت پائی تھی۔ بچپن سے جوانی آئی، جوانی سے ادھیڑ ہوئیں۔ مجال ہے جو مزاج بدلا ہو۔ جب تک کنواری رہیں، گھروالوں میں ہنستی کلی تھیں۔ بیاہی گئیں تو کِھلا ہوا پھول بن کر میاں کے ساتھ وہ چُہلیں کیں کہ جو سنتا پھڑک اٹھتا۔ کیا مقدور ان کے ہوتے کوئی منہ تو بسورے۔”

    "پھر خالی ہنسوڑ ہی نہیں۔ اللہ نے عقل کا جوہر بھی دیا تھا۔ ذہن اتنا برّاق کہ جہاں بیٹھیں ہنسی ہنسی میں سگھڑاپے سکھا دیں۔ گدگداتے گدگداتے بیسویں ٹیڑھے مزاجوں کو سیدھا کر دیا۔ غرض کہ جب تک جییں جینے کی طرح جییں۔ کسی کو اپنے برتاؤ سے شکایت کا موقع نہیں دیا۔ قاعدہ ہے کہ جہاں دو برتن ہوتے ہیں ضرور کھڑکا کرتے ہیں۔ لیکن قہقہوں کے سوا ان کے اندر کبھی کوئی دوسری آواز نہیں سنی۔ مرتے مر گئیں نہ یہ کسی سے بھڑیں، نہ ان سے کسی نے دو بدو کی۔ جیسی بچپن میں تھیں، ویسی ہی آخری دم تک رہیں۔”

    "وہ جو کسی نے کہا ہے کہ پوت کے پانو پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ نیازی خانم ماں کی گود سے اتر کر گھٹنیوں چلنے میں ایسی شوخیاں اور ایسے تماشے کرتیں کہ دیکھنے والے حیران ہوتے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد تو کہنا ہی کیا تھا۔ پوری پکّی پیسی تھیں۔ جو ان کی باتیں سنتا دنگ رہ جاتا۔”

    "اگلے وقت تو نہ تھے لیکن اگلے وقتوں کے لگ بھگ مغلیہ خاندان کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا کہ دلّی کے ایک شریف پڑھے لکھے، قال اللہ قال رسول کرنے والے خاندان میں نیازی خانم پیدا ہوئیں۔ نیازی خانم کی دو بہنیں اور تھیں۔ کوئی دو دو سال کے فرق سے بڑی، اور ایک چھوٹا بھائی۔”

    "نیازی خانم کو گڑیوں کا بڑا شوق تھا۔ عجب عجب نام رکھے جاتے، ان کا بیاہ ہوتا تو مزے مزے کے رقعے لکھواتیں۔ مبارک بادیں، سہرے، اس کے بعد گڑیوں کے بچّے ہوتے تو زچہ گیریاں بناتیں۔ خود گاتیں اور ڈومنیوں سے گواتیں اور ان میں ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتیں کہ گھروالے ہنسی کے مارے لوٹ لوٹ جاتے۔”

    "ہمیں مرحومہ کی پوری سوانح عمری تو لکھنی نہیں کہ مہد سے لحد تک کے حالات بیان کریں اور نہ ہمارے پاس ان کی زندگی کا روزنامچہ ہے۔ ہاں چند واقعات سنے ہیں۔ آپ بھی سن لیں۔ زندہ دلی کے ایسے نمونے دنیا میں روز روز نظر نہیں آتے۔ ہونے کو ممکن ہے کہ نیازی خانم سے بڑھ چڑھ کر بھی عورتیں گزری ہوں گی، لیکن خدا جس کا نام نکال دے۔”

    "ایک دن کا ذکر ہے، موری دروازے چالیسویں میں جانا تھا۔ بچوں کو ایسی تقریب میں یوں بھی کوئی نہیں لے جاتا، پھر یہ تو بلا کی شریر تھیں۔ اس کے علاوہ ان دنوں جانے آنے کی بھی آسانی نہ تھی۔ امیروں کے ہاں اپنی سواریاں ہوتیں، پالکیاں نالکیاں، بہلیاں، رتھیں۔ حسبِ مقدور غریب مانگے تانگے سے کام چلاتے۔ ڈولیوں میں لدتے یا بار کش کرایے پر کرتے۔ اِکّے تھے مگر وہ اچکی سواری سمجھی جاتی۔ بیل گاڑیوں میں دیر بہت لگتی۔ ڈولیوں میں اکٹھے باتیں کرتے ہوئے جانے کا لُطف کہاں؟ شہر میں دو چار سیج گاڑیاں آگئی تھیں، تو ان کا کرایہ زیادہ تھا۔ دلّی دروازے سے موری دروازے کا فاصلہ خاصا۔ صلاحیں ہوئیں کہ کیوں کر چلنا چاہیے۔ کسی نے کہا بار کش کر لو، کوئی بولی شکرم میں کبھی نہیں بیٹھے۔ دس پانچ آنے زیادہ جائیں گے۔ بلا سے سیر تو ہوجائے گی۔ سنا ہے دو گھوڑے جتتے ہیں۔ گھر کا گھر ہوتی ہے۔ جھلملیوں میں سے راستے کا خوب تماشا دکھائی دیتا ہے۔ اندر بیٹھنے والے سب کو دیکھیں اور باہر کا کوئی نہ دیکھے۔”

    "آخر شکرم ہی کی ٹھہری اور بھائی صاحب جا کر سائی بھی دے آئے۔ اب سوال نیازی کی خانم کے لے جانے کا تھا۔ یہ نہ بچہ نہ بوڑھی اور ان کی بے چین فطرت سے سب واقف۔ ڈر تھا کہ ان کی بولیوں ٹھٹھولیوں کا کیا بندوبست۔ اگر یہ ساتھ چلیں تو روتوں کو ہنسائیں گی۔ اور کہیں بیچ بازار میں سیر کا شوق چرّایا۔ جھلملیاں اتار دیں تو کیا ہوگا۔ ان کی زبان میں تو بواسیر ہے۔ قہقہے لگانے شروع کر دیے، یا زور زور سے باتیں ہی کرنے لگیں تو کیسی بدنامی ہوگی۔ راہ گیر سمجھیں گے کہ نگوڑیاں کوئی بڑی اچھال چھکّا ہیں۔ نیازی خانم نے جو گھر والوں کو کانا پھوسی کرتے دیکھا تو وہ اڑتی چڑیا کے پَر گننے والی، فوراً سمجھ گئیں کہ ہو نہ ہو کہ کوئی بات ضرور مجھ سے چھپانے کی ہے۔ ٹوہ لینے کے لیے اِدھر ادھر ٹہلتے ٹہلاتے در سے لگ کر اس طرح کھڑی ہوگئیں، گویا کچھ خبر ہی نہیں۔”

    "رات کا وقت تھا۔ ٹمٹماتے ہوئے کڑوے تیل کے چراغ کی روشنی پر چھائیں پڑتی ہوئی بڑی بہن کی بھی نظر پڑگئی۔ ایک نے دوسری سے ٹہوک کر کہا ‘‘فتنی کو دیکھا کیسی چھپ کر ہماری باتیں سُن رہی ہے۔ آؤ زرگری میں باتیں کریں۔’’ زرگری فرفری اور اسی طرح کی کئی بولیاں قلعے والوں کی ایجاد شہر کے اکثر گھرانوں میں بھی آپہنچی تھیں۔ ان بولیوں کا شریفوں کی لڑکیوں میں بہت رواج تھا۔ انجانوں سے بات چھپانے کی خاصی ترکیب تھی۔ چنانچہ ایک بہن بولی ‘‘کریوں ازا پزا ازس سزے لزے چزل لزیں یزا نزئیں۔’’ (کیوں آپا اسے لے چلیں یا نہیں؟) دوسری نے جواب دیا ‘‘ازب ازس کزو یہنز رزے نزے دزو۔’’ (اب اس کو یہیں رہنے دو) اس کے بعد دیر تک ہنسی ہوتی رہی اور زرگری میں باتیں کرتیں۔ کبھی فرفری میں۔”

    "نیازی خانم کو یہ بولیاں نہیں آتی تھیں۔ جو کچھ بہنوں نے کہا وہ تو سمجھ میں کیا آتا تاہم ان کے مطلب کو پہنچ جاتیں۔ ان کی آنکھوں میں دھول ہی نہ ڈالی تو نام نیازی خانم نہیں۔ انھوں نے بھی ترکیب سوچ لی اور چپکے سے اپنے بھچونے پر آکر سوگئیں۔ صبح ہی ضروریات سے فارغ ہو کر سب نے کپڑے بدلنے شروع کیے۔ نیازی خانم غائب۔

    والدہ: اے بھئی نیازی کہاں ہے۔ بی امتیازی تم بڑی کٹر ہو۔ وہ بھی چلی چلے گی تو کیا ہوگا؟

    امتیازی: (بڑی بیٹی) اماں بی وہ بڑی شریر ہے۔ راستہ بھر ادھم مچاتی چلے گی۔

    والدہ: سیج گاڑی وہ بھی دیکھ لیتی، بچّے ادھم مچایا ہی کرتے ہیں۔

    بنیادی: (دوسری بیٹی) لے چلیے آپ ہی کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔

    امتیازی: تو اسی کو لے جاؤ چلو میں نہیں جاتی۔

    والدہ: بوا بگڑتی کیوں ہو۔ جیسا تمھارا جی چاہے کرو۔ مگر وہ ہے کدھر؟

    ماما: چھوٹی بیوی کو پوچھتی ہو؟ وہ تو سویرے اٹھتے ہی بی ہمسائی کے ہاں چلی گئیں۔ کل شام کو کوئی کہہ رہا تھاکہ نوری کے ابا بمبئی سے ولایتی گڑیا لائے ہیں۔

    بنیادی: یہ بھی اچھا ہوا۔ کھیل میں لگی ہوئی ہے تو لگی رہنے دو۔ اتنے میں گاڑی آگئی تھی۔ گاڑی والا غُل مچا رہا تھا کہ جلدی چلو۔

    امتیازی: اب دیر نہ کرو۔ گاڑی والے کی آواز اس کے کانوں میں پڑ گئی اور وہ آپہنچی تو پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ ”

    "سوار ہونے میں دیر کیا تھی۔ پردہ رکوا جھپاک جھپاک سب گاڑی میں جا بیٹھے۔ گاڑی بان دروازہ بند کر کے کوچ بکس پر چڑھ ہی رہا تھا کہ نیازی خانم ڈیوڑھی میں سے نکل گاڑی کے پائے دان پر جھلملیاں اٹھا اندر جھانکتے ہوئے بولی ‘‘چھوٹی آپا، تا، بڑی آپا سلام۔ اب زرگری نہیں بولتیں۔ کہو ‘لزے چزل تزی ہزو یزا نزاہزیں’۔ (لے چلتی ہو یا نہیں)

    والدہ: ہے تو بڑی فِتنی۔

    نیازی: نہیں اماں بی میں تو چھوٹی ہوں۔

    بڑی بہن: خدا ہی سمجھے۔

    دوسری بہن: (ہنس کر) اور تم چھپی ہوئی کہاں تھیں۔

    بڑی بہن: کپڑے بھی بدل رکھے ہیں۔

    نیازی: اور کیا۔ اے بھئی گاڑی بان دروازہ تو کھول۔

    گاڑی بان: کیا بیوی تم رہ گئی تھیں؟

    نیازی: دروازہ کھولتا ہے یا باتیں بناتا ہے۔

    سب ہنسنے لگے، دروازہ کھلا۔ نیازی خانم بڑے ٹھسے سے بیٹھیں اور سارے رستے بہنوں کا ستا مارا۔”

  • امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    غبارِ خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ایک انشاء پرداز، صاحبِ اسلوب ادیب تھے جن کا تحریر و تقریر میں کوئی ثانی نہیں۔ ان کی تصنیف غبارِ خاطر کا کی نثر شگفتہ اور پیرایہ دلنشیں ہے۔

    مختار مسعود بھی اردو ادب میں‌ اپنے اسلوب اور تصانیف کی وجہ سے شہرت اور مقام رکھتے ہیں۔ اپنے عہد کی ممتاز ادبی شخصیات اور بڑے بڑے قلم کاروں‌ کی طرح‌ مختار مسعود بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کی تحریروں میں سحر میں‌ رہے اور اس کا تذکرہ اپنی کتابوں‌ میں‌ کیا ہے۔ یہاں‌ ہم مولانا آزاد کے تعلق سے مختار مسعود کے قلم سے نکلے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    بی اے کا امتحان شروع ہونے سے پانچ دن قبل مولانا آزاد کی ’غبارِ خاطر ‘ ہاتھ آگئی جسے پڑھنا شروع کیا تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پانچ روز بعد بی اے کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ چوبیس گھنٹے بعد جب یہ کتاب پڑھ کے رکھی تو اُس کا جادو پوری طرح چڑھ چکا تھا۔

    مختار مسعود لکھتے ہیں: ’’غبارِ خاطر ختم ہوئی۔ میں نے اُسے جہاں سے اُٹھایا تھا وہاں واپس رکھنا چاہا (تو) کتاب نے کہا (کہ اب) باقی باتیں امتحان کے بعد ہوں گی۔ اِس وقت تو (مجھے) تم سے ایک عہد لینا ہے کہ ’’میں مسمٰی مختار مسعود متعلم بی اے (سال آخر) بقائمی ہوش و حواس اور بہ رضا و رغبت یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر حالات سازگار ہوئے اور زندگی نے موقع دیا تو میں بالیدگی، شائستگی اور حکمت کے اِس سبق کو جو مجھے اردو اور فارسی کی اِس (لازوال) نثر نے دیا ہے قرضِ حسنہ سمجھتے ہوئے بقلم خود قسط وار اُتارنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔

    وہ اس کتاب کے مطالعہ کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’امتحان کا خوف دل سے جاتا رہا۔ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت اور دانش سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ (اسی طرح ) فکر و نظر کا بھی تعلیمی اسناد (ڈگریوں) سے کوئی علاقہ نہیں۔ (اس) زور پر نہ کوئی اچھا شعر کہہ سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔ نہ اچھی کہانی کہہ سکتا ہے اور نہ اچھی تصویر بنا سکتا ہے۔ اِن منزلوں کے راستے اور (ہی) ہیں۔ سنگلاخ اور دشوار گزار۔ تلوے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ جسم پسینے پسینے اور چور چور ہو جاتا ہے (کیونکہ ) جسم ایک آرام طلب ذات ہے۔ ’کسب ِ کمال‘ کے لیے اُسے بہت بے آرام ہونا پڑتا ہے۔ تب جاکر ’عزیز جہاں شوی ‘ کی منزل آتی ہے۔ اور آدمی مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ!قدرت کتنی فیاض ہے۔ اور انسان کتنا نا سمجھ۔۔‘‘(حرفِ شوق)

  • جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    شاعر کو تلمیذِ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے، لیکن میر تقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔

    ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہے گا۔ ڈیڑھ سو برس سے اردو کے عظیم شعراء میر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے آئے ہیں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ ’’آپ بے بہرہ ہے ہے جو معتقد میر نہیں۔‘‘

    یوں تو میر کی بد دماغی کے بہت سے افسانے مشہور ہیں لیکن انہوں نے خود اپنی آپ بیتی ’’ذکرِ میر‘‘ میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ رعایت خاں کے نوکر تھے لکھتے ہیں، ’’ایک چاندنی رات میں خان کے سامنے ڈوم کا لڑکا چبوترے پر بیٹھا گا رہا تھا۔ (خان نے) مجھے دیکھا تو کہنے لگا کہ میر صاحب، اسے اپنے دو تین شعر ریختے کے یاد کرا دیجیے تو یہ اپنے ساز پر درست کر لے گا۔ میں نے کہا، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگا میری خاطر سے۔ چونکہ ملازمت کا پاس تھا۔ طوعا و کرہا تعمیل کی اور پانچ شعر ریختے کے اسے یاد کرائے۔ مگر یہ بات میری طبعِ نازک پر بہت گراں گزری۔ آخر دو تین دن کے بعد گھر بیٹھ رہا۔ اس نے ہر چند بلایا، نہیں گیا، اور اس کی نوکری چھوڑ دی۔‘‘ (بحوالہ، میر کی آپ بیتی۔ نثار احمد فاروقی)

    (علی سردار جعفری کے مضمون بعنوان میر: صبا در صبا سے اقتباس)

  • ‘چھوٹا کام’ کرنے والا ایک بڑا آدمی

    ‘چھوٹا کام’ کرنے والا ایک بڑا آدمی

    اٹلی میں ایک مسٹر کلاؤ بڑا سخت قسم کا یہودی تھا۔ اس کی کوئی تیرہ چودہ منزلہ عمارت تھی۔

    صبح جب میں یونیورسٹی جاتا تو وہ وائپر لے کر رات کی بارش کا پانی نکال رہا ہوتا اور فرش پر ٹاکی لگا رہا ہوتا تھا یا سڑک کے کنارے جو پٹری ہوتی ہے اسے صاف کر رہا ہوتا۔ میں اس سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے آدمی ہو کر۔ اس نے کہا یہ میرا کام ہے، کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا، جب میں نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے اور میں اس ڈسپلن میں داخل ہو گیا ہوں تو میں یہ کام کروں گا۔

    میں نے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انبیاء کی صفت ہے، جو انبیاء کے دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ وہ چھوٹے کام ضرور کرے۔ ہم کو یہ نوکری ملی ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریاں چَرائی تھیں اور ہم یہودیوں میں یہ بکریاں چَرانا اور اس سے متعلقہ نچلے لیول کا کام موجود ہے تو ہم خود کو حضرت موسٰی علیہ السلام کا پیروکار سمجھیں گے۔

    اس نے کہا کہ آپ کے نبی اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے۔ قمیص کو پیوند یا ٹانکا خود لگاتے تھے۔ کپڑے دھو لیتے تھے۔ راستے سے جھاڑ جھنکار صاف کر دیتے تھے، تم کرتے ہو؟

    میں کہنے لگا مجھے تو ٹانکا لگانا نہیں آتا، مجھے سکھایا نہیں گیا۔ وہ آدمی بڑی تول کے بات کرتا تھا۔ مجھے کہتا تھا دیکھو اشفاق تم استاد تو بن گئے ہو، لیکن بہت سی چیزیں تمہیں نہیں آتیں۔ جب کام کرو چھوٹا کام شروع کرو۔ اب تم لیکچرار ہو کل پروفیسر بن جاؤ گے۔ تم جب بھی کلاس میں جانا یا جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگنا اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا۔ ہمیشہ اپنی آواز کو دور پیچھے کی طرف پھینکنا۔ وہ لوگ جو بڑے شرمیلے ہوتے تھے، شرمندہ سے جھکے جھکے سے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔ آپ کا وصف یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنی بات ان کے لیے کہیں۔ جب بات چھوٹوں تک پہنچے گی تو بڑوں تک خود بخود پہنچ جائےگی۔ میں اس کی باتوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی تحریر چھوٹا کام سے اقتباس)

  • اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    جلال الدّین محمد اکبر ہندوستان کے وہ مغل بادشاہ ہیں جو تاریخ میں ’اکبرِ اعظم‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ جلال الدّین اکبر کا عہد حکومت علم و فنون کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور ہے۔ اکبر کے دربار میں کئی اہلِ‌ علم اور فن کار موجود رہے اور بادشاہ نے ان کی بڑی قدر اور عزّت افزائی کی۔

    اکبر کے عہدِ حکومت پر بہت سے کتابیں لکھی گئیں، جن میں ابوالفضل کی اکبر نامہ، محمد حسین آزاد کی دربارِ اکبری اور سرسید احمد خان کی آئینِ اکبری سرِفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ غیرملکی مؤرخین اور سیّاحوں نے بھی اکبر کی شخصیت اور اس کے دربار کا احوال رقم کیا ہے۔ عبدالمجید سالک نے سیموئل نسنسن اور ولیم اے ڈی وٹ کی کتاب کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ’اگرچہ اکبر اَن پڑھ تھے، لیکن ان کو علوم و فنون کی امداد اور سرپرستی کا خاص شوق تھا۔ بڑے بڑے شعرا، مصور، موسیقار، معمار اور دوسرے با کمال اس کی بخشش اور قدر دانی سے مالا مال ہوتے رہتے تھے اور اس کا دربار دور و نزدیک کے ماہرین فن کا مرکز بن گیا تھا۔ یہاں‌ ہم پاکستان کے ممتاز مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے ایک مضمون بعنوان "مصّوری” سے یہ پارہ نقل کررہے ہیں‌ جو بادشاہ اکبر کی اس فن میں دل چسپی اور سرپرستی کا عکاس ہے۔ چغتائی صاحب لکھتے ہیں:

    "اکبر کی عمر ابھی قریب چودہ برس کی تھی کہ تیموری تاج اس کے سرپر رکھا گیا۔ اس کے اتالیق منعم خاں اور بیرم خاں تھے۔ اس کی عملداری کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ کی۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اکبر کے نازک شانے تنہا حکومت کے بارِ گراں کو نہ اٹھا سکتے۔ انہوں نے اپنے آقا کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے لیا۔ اکبر نے ابتدائی مہموں سے فرصت حاصل کر کے فوراً علوم و فنون کی طرف توجہ کی۔ بچپن ہی سے اسے مصوری اور قصے سننے کی طرف رغبت تھی۔ اور میر سید علی تبریزی اور خواجہ عبدالصمد شیریں قلم برابر اپنا کام کر رہے تھے۔ اگرچہ وہ ابتدا میں کچھ ملول تھے مگر نوجوان بادشاہ کو ان کے فن سے دلچسپی نے ان کی ہمتیں بڑھا دیں۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے داستانِ امیر حمزہ کو مصور کیا، جس کی پوری تفصیل اس عہد کی تاریخ میں ملتی ہے۔ بلکہ اکبر کی اکیڈمی مصوری میں ان دو ایرانی مصوروں کے علاوہ کئی ہندو مصور بھی بطور تلمیذ شریک ہوئے۔”

    "اکبر کو جمالیاتی کیفیات کا صحیح اندازہ کرنے اور ان سے حظ اٹھانے میں قدرت نے کامل طور پر ملکہ عطا کیا تھا اور دینی معاملات اور ملکی مصلحتوں کی بنا پر نہایت درجہ وسیع۔ اس نے اپنے اس رویہ سے ہر فرقہ کو اپنی کم عمری سے مسخر کر لیا تھا اور خاص کر راجپوتوں کو قرب حاصل ہوا۔ آرٹ اکیڈمی میں سب قسم کے لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ ابوالفضل نے ایک ہندو مصور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک کہار کا لڑکا تھا۔ اکبرؔ نے اپنی دور رس جمالیاتی نگاہ سے اس کو دیکھا، جب کہ وہ ابھی کمسن بچہ ہی تھا اور ایک دیوار نقش و نگار کر رہا تھا، جیسا عام طور پر بچے تیار کرتے ہیں لیکن اکبر کی مردم شناسی تاڑ گئی کہ اس لڑکے میں اعلیٰ مصور بننے کے جوہر موجود ہیں۔”

    "چنانچہ اس نے اسے خواجہ عبدالصمد کے سپرد کیا تو اس کی تعلیم سے وہ بے مثال مصور نکلا مگر وہ اپنے فطری جذبۂ مصوری میں اس قدر پیش پیش آیا کہ وہ نوجوانی ہی میں دماغی توازن کھو کر ختم ہوگیا۔ اس کے کارنامے بجائے خود اس کے اعلیٰ فن کار ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اکبر کو مصوری کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے فتح پور سیکری میں دیواروں پر ان مصوروں سے تصاویر بنوائیں، جن کے نشان آج تک باقی ہیں اور اکبر، مصوّری کے جمالیاتی پہلو سے اس قدر متاثر ہوا کہ دلائل کے ذریعہ ہمیشہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا کہ مصوری اسلام کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے بلکہ معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے جہاں اور دوسرے طریقے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے۔

    چنانچہ ایک مرتبہ اس نے جب کہ سعادت مند لوگ انجمن خاص میں موجود تھے، فرمایا کہ بہت سے لوگ مصوری کے پیشے کو برا بتلاتے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں، میرے خیال میں مصور خدا شناسی میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ جب وہ کبھی جانور کی تصویر بناتا ہے اور حصّے کو الگ الگ کھینچتا ہے مگر روح اور جسم میں رابطہ پیدا کرنے سے عاجز ہے تو وہ خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے عجز سے معرفتِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ یعنی اللہ کو ہی واحد خالق سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔”

    "اکبر نے اپنی سرپرستی میں علاوہ داستانِ امیر حمزہ کے سنسکرت کتابوں کے فارسی میں ترجمے کروا کر ان کو مصوّر بھی کرایا جس کے اکثر مصوّر نسخے آج بھی ملتے ہیں۔ اور دیگر کتب بابر نامہ، انوار سہیلی وغیرہ جیسی کتابوں کو مصوّر کرایا۔ اس عہد کے امراء میں عبدالرحیم خان خاناں خاص طور پرقابلِ ذکر ہے جس نے اپنے ہاں الگ ایک شعبہ قلمی اور مصور کتابوں کے تیار کرنے کا قائم کیا ہوا تھا اور اکثر فن کار اس کے ہاں کام کرتے تھے، جن میں میاں قدیم اور عبدالرحیم عنبرین قلم قابلِ ذکر ہیں۔”