Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • اہلِ پنجاب اور کلامِ‌ اقبال پر اعتراضات!

    اہلِ پنجاب اور کلامِ‌ اقبال پر اعتراضات!

    ادبی صحافت کے ابتدائی نقوش ہفت روزہ یا پندرہ روزہ اخبارات میں نظر آتے ہیں۔ باضابطہ ادبی رسائل کا وجود بہت بعد میں ہوا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں ادب سے مختص رسائل شائع ہونا شروع ہوئے۔

    یہ سطور "ادبی صحافت کے دو سو سال” کے عنوان سے حقانی القاسمی کے ایک علمی و تحقیقی مضمون سے نقل کی گئی ہیں‌۔ اس مضمون میں اپنے وقت کے چند بڑے اور معروف رسائل کے ساتھ انھوں‌ نے اردوئے معلّیٰ، علی گڑھ، کانپور کا تذکرہ بھی کیا ہے جو زبان و ادب کا شوق رکھنے والوں‌ کے لیے معلوماتی اور اس حوالے سے دل چسپ ہے کہ اس رسالے میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے کلام پر اعتراض اور مولانا الطاف حسین حالی کی زبان کی لغزشوں پر بھی تنقید کی گئی تھی۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "1903 میں ہی اردوئے معلّی علی گڑھ کی اشاعت مسٹن روڈ موجودہ رسل گنج علی گڑھ سے شروع ہوئی۔ اس میں سیاسی نوعیت کے مضامین کے ساتھ ساتھ ادبی، سوانحی، علمی و تاریخی تمدنی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی بی۔ اے نے اس رسالے کو ادب اور سیاست کا ایک حسین امتزاج بنایا تھا۔ اس مجلّہ نے سیاسی شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ادبی ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مقاصد کے تحت مولانا نے بہت قیمتی باتیں تحریر کی تھیں جن پر آج کے مدیران کو بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے لکھا تھا کہ ’’اس رسالے کا مقصد صرف ایک ہے۔ یعنی درستیٔ مذاق۔ چنانچہ اس لحاظ سے امورِ مندرجہ ذیل کی پابندی کی جاوے گی۔

    ٭مضامینِ نثر ہر قسم کے ہوں گے۔ یعنی سوانحی، تاریخی، علمی، فلسفی، اخلاقی، تمدنی، ادبی، تنقیدی و متعلق بہ افسانہائے مختصر و مکمل۔

    ٭ یہ مضامین نہ حد سے زیادہ خشک ہوں گے نہ حد سے زیادہ ہلکے اور اُن کی ترتیب ایسی ہو گی جو ہر قسم کے مذاق کو گوارا ہو۔

    ٭ حصۂ نظم میں صرف اس قسم کی نظمیں شائع کی جائیں گی جن کے انداز بیاں میں کچھ خصوصیت ہو۔ ان نظموں کے متعلق قدیم و جدید کی قید نہ ہوگی۔

    ٭ نظم و نثر دونوں میں حتی الامکان صحتِ زبان کا سختی کے ساتھ لحاظ رکھا جائے گا۔ ‘‘

    ’اردوئے معلّی‘ میں ان تمام مقاصد کے پیشِ نظر ہی تحریروں کی اشاعت عمل میں آئی۔ مولانا حسرت موہانی نے اس میں بہت سے اہم سلسلے شروع کیے۔ جن میں تذکرۃُ الشعراء جیسا ایک مفید کالم بھی تھا۔ جس کے تعلق سے مولانا نے لکھا تھا کہ:’’اردو زبان کے تمام گذشتہ اور موجودہ اساتذہ کا ایک ایسا تذکرہ ترتیب دیا جائے جس میں ہر استاد کا مفصل حال اور اس کے کلام پر بے لاگ تنقید موجود ہو اور اس تذکرے کی تقسیم باعتبارِ سلاسلِ شعراء پانچ جلدوں میں ہو۔‘‘

    مولانا نے اس سلسلے کے تحت بہت سے مشہور اور گمنام شعراء کے احوال و کوائف اور انتخاب کلام شائع کیے۔ جسے کتابی شکل میں ڈاکٹر احمر لاری نے مرتب کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں انتخابِ دواوین اور گلدستوں کے انتخابات کے سلسلے بھی تھے۔ یہ تمام سلسلے بہت مفید تھے۔ اُن کا یہ کام اس لحاظ سے بہت مفید ہے کہ انہوں نے ہمارے بیش قیمت ادبی اور شعری سرمائے کو محفوظ کر دیا۔ اردوئے معلی ہی میں اصلاحِ زبان سے متعلق تحریروں کی اشاعت ہوئی۔ ’ادب الکاتب و الشاعر‘ کے عنوان سے نظم طباطبائی کا مضمون کئی قسطوں میں شائع کیا گیا جو لسانی نقطۂ نظر سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں طباطبائی نے تذکیر و تانیث، غلط الفاظ کی تحقیق اور رسم الخط کے حوالے سے بہت عمدہ خیالات کا اظہار کیا تھا۔ صحت زبان پر بھی اس رسالہ کا خاص ارتکاز تھا۔ چنانچہ اس تعلق سے کئی مضامین شائع کیے گئے۔ انہیں میں ایک مضمون ’اردو زبان پنجاب میں‘ کے عنوان سے تھا جس میں کلامِ اقبال پر اعتراضات کیے گئے تھے۔ یہ تنقید ہمدرد کے عنوان سے اگست 1903 کے شمارہ میں شائع ہوا۔ جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ :’’رسالہ مخزن میں جب سے اقبال کی نظمیں شائع ہونے لگی ہیں اس وقت سے اہلِ پنجاب کا دماغ اور بھی آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ جس کو دیکھیے اقبال اور ناظر کا حوالہ دے کر اپنی زبان کو مستند قرار دیتا ہے۔ اقبال کا کلام ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ ترکیبیں نہایت درست ہوتی ہیں اور مضامین اکثر بلند، طرزِ بیان پسندیدہ ہوتا ہے اور سلسلۂ خیالات اکثر نازک و لطیف۔ لیکن اگر کچھ کمی رہ جاتی ہے تو صحتِ زبان کی جس کی وجہ سے ان کے کلام کا سارا لطف خاک میں مل جاتا ہے۔ ‘‘

    اسی طرح ’اردوئے معلّی‘ میں مولانا الطاف حسین حالی کی زبان کی لغزشوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ ’اردوئے معلّی‘ ہی میں چکبست اور شرر کا معرکہ بھی شائع کیا گیا جو گلزار نسیم کے حوالے سے تھا۔ اسی رسالہ میں شوق نیموی کا مشہور رسالہ ’اصلاح مع ازاحۃ الاغلاط‘ بھی شائع کیا گیا تھا۔ ’اردوئے معلّی‘ میں شاہ حاتم، مرزا مظہر جانِ جاں، قائم، سودا، رنگین، مصحفی، مجروح، امیر اللہ تسنیم، اصغر علی خاں نسیم، مومن، غالب، شاہ ظفر، شاہ نسیم، ندا بدایونی، ظہیر دہلوی، گستاخ، وفا رامپوری پر حسرت کے مضامین شائع ہوئے۔ یہ تمام مضامین حسرت موہانی کے گہرے تنقیدی شعور کا ثبوت ہیں۔ ان میں بہت اہم تنقیدی نکات و اشارات ہیں۔”

    "آل احمد سرور ’اردوئے معلّیٰ‘ کے امتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا حسرت موہانی کو ایک اچھا محقق اور قابل قدر نقاد قرار دیتے ہیں:

    ’’یہ رسالہ تحقیق و تنقید، سیاسی مضامین، انتخاب کلام اور تبصروں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اگر اس کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو حسرت کو صرف ایک بڑا شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھا محقق اور ایک سنجیدہ اور قابلِ قدر نقاد ماننے میں کسی کو تامل نہ ہوگا۔‘‘ "

  • ایک شعر یاد آیا!

    ایک شعر یاد آیا!

    بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔

    پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘

    ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘

    ’’شعر سننے اور سنانے کا یہ کون سا موقع ہے۔‘‘

    ’’غم غلط ہو جائے گا۔ ذوق کا شعر ہے‘‘، فرماتے ہیں،

    تو ہی جب پہلو سے اپنے دل ربا جاتا رہا
    دل کا پھر کہنا تھا کیا ،کیا جاتا رہا،جاتا رہا

    ’’کہئے پسند آیا؟‘‘

    ’’دل ربا نہیں پہلو سے بٹوا جاتا رہا ہے‘‘، ہم نے نیا پہلو نکالا۔

    پہلو کے مضمون پر امیر مینائی کا شعر بے نظیر ہے،

    کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں سو بدلتے ہیں
    جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

    ہم نے جھلا کر کہا، ’’توبہ توبہ! آغا صاحب آپ تو بات بات پر شعر سناتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’چلتے چلتے ایک شعر ’توبہ‘ پر بھی سن لیجئے‘‘،

    توبہ کرکے آج پھر پی لی ریاض
    کیا کیا کم بخت تونے کیا کیا

    ’’اچھا صاحب اجازت دیجئے۔ پھر کبھی ملاقات ہوگی۔‘‘

    ’’ملاقات! ملاقات پر وہ شعر آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    نگاہوں میں ہر بات ہوتی رہی
    ادھوری ملاقات ہوتی رہی

    ’’اچھا شعر ہے لیکن داغ نے جس انداز سے’’ملاقاتوں‘‘ کو باندھا ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی‘‘،

    راہ پر ان کو لگا لگائے تو ہیں باتوں میں
    اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

    ’’بہت خوب۔ اچھا آداب عرض۔‘‘

    ’’آداب عرض۔‘‘

    بڑی مشکل سے آغا صاحب سے جان چھڑائی۔ آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔ آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھئے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھئے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘، اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔ ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں‘‘۔ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے،

    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے،

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لئے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے ،لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فر مایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر
    پر کترنے کولگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے،

    کیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میں
    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے،

    ہمیں بھی نامہ بر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے

    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔۔۔ وہ شعر ہے، شعر ہے کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔ ہاں، یاد آ گیا، لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    ایک دن ہماری آنکھیں آگئیں۔ کالج سے دو دن کی چھٹی لی۔ آغا صاحب کو پتہ چلا، حال پوچھنے آئے۔ فرمانے لگے، ’’بادام کا استعمال کیا کیجئے۔ نہ صرف آپ آنکھوں کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے بلکہ آنکھوں کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘ دوایک منٹ چپ رہنے کے بعد ہم سے پوچھا، ’’آپ نے آنکھوں سے متعلق وہ شعر سنا جسے سن کر سامعین وجد میں آگئے تھے۔ میرا خیال ہے نہیں سنا۔‘‘ وہ شعر تھا،

    جس طرف اٹھ گئی ہیں آہیں ہیں
    چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں

    نہایت عمدہ شعر ہے لیکن پھر بھی سودا کے شعر سے ٹکر نہیں لے سکتا۔

    کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
    ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

    اسی موضوع پر عدم کا شعر بھی خاصا اچھا ہے۔

    اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
    قافلے راہ بھول جاتے ہیں

    عدم کے بعد انہوں نے جگرؔ، فراقؔ، جوشؔ، اقبالؔ، حسرتؔ،فانیؔ کے درجنوں اشعار سنائے۔ انہیں سن کر کئی بار اپنی آنکھوں کو کوسنے کو جی چاہا کہ نہ کم بخت آتیں اور نہ یہ مصیبت نازل ہوتی۔ رات کے بارہ بج گئے لیکن آغا صاحب کا ذخیرہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ آخر تنگ آ کر ہم نے کہا، ’’آغا صاحب! آپ نے اتنے اشعار سنائے۔ دو شعر ہم سے بھی سن لیجئے‘‘،

    ’’ارشاد،‘‘ آغا صاحب نے بے دلی سے کہا۔

    ’’ایسے لوگوں سے تو اللہ بچائے سب کو
    جن سے بھاگے نہ بنے جن کو بھگائے نہ بنے
    جس سے اک بار چمٹ جائیں تو مر کے چھوٹیں
    وہ پلستر ہیں کہ دامن سے چھڑائے نہ بنے‘‘

    آغا صاحب نے مسکرا کر فرمایا، ’’حالانکہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف نہیں ہے، پھر بھی آداب عرض۔‘‘

    (معروف ادیب اور طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کی شگفتہ تحریر)

  • دوپٹے سے پٹے تک

    دوپٹے سے پٹے تک

    ’’اے ہے! یہ نگوڑا مارے دو ڈھائی گز کے دوپٹے تم سے نہیں سنبھلتے؟‘‘

    ’’غضب خدا کا، تمام مردوں کا سامنا ہو رہا ہے اور تمھارے سر پر دوپٹہ تک نہیں ٹکتا۔‘‘

    ’’الہیٰ خیر! یہ دوپٹہ ہے یا گلے کا ہار؟‘‘

    ’’ارے بی بی سَر پر دوپٹہ تو ڈالو۔‘‘

    یہ تیر اُن جملوں میں چند ہیں، جو ہم بچپن سے لے کر آج تک دوپٹہ اوڑھنے کے سلسلے میں بطور ہدایت، تنبیہ اور سرزنش کے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے کھاتے چلے آرہے ہیں، اس لئے یہ تیر بھی بچپن ہی سے دوپٹے کی طرح چمٹ کر ہمیشہ ہمارے گلے کا ہار بنے رہے، خاص کر دادی اماں کی کڑی نظریں ہر وقت ہمارے دوپٹے کی نگرانی کرتی رہتیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم نے دادی اماں کا دوپٹہ ہمیشہ ان کے سرہانے رکھا پایا، جس کے ایک کونے سے وہ ’پرس‘ کا کام لیتی تھیں اور خود عام طور پر دوپٹے سے بے نیاز صحن، آنگن یا لان میں گھوما کرتیں۔ گھر کی بزرگ خواتین کے نزدیک دوپٹے کا واحد مقصد سَر پوشی ہے، اور اس کے تحت وہ احکامات صادر کرتی رہتی ہیں، لیکن جوں جوں ہماری عمر بڑھتی گئی اس کے دوسرے مقاصد بھی معلوم ہوتے گئے۔ دوپٹے کے نت نئے فوائد کے آگے ہم نے اس کے اصل مقصد کو نظر انداز کر دیا، جسے ہماری نالائقی اور سرکشی سمجھا گیا۔ اب آپ ہی بتائیے، جب ان ہی بزرگوں نے ہمیں دوپٹے کے اتنے سارے مصرف سکھا دیے ہوں، تو پھر اس سے محض ایک ہی کام سَر ڈھانکنا، جس سے بظاہر کوئی خاص تو کیا، عام فائدہ بھی نظر نہیں آتا، کیوں لیں۔

    دوپٹے کا نام سنتے ہی آپ کی نظروں میں رنگ برنگے دوپٹے لہرانے لگے ہوں گے، نیلے پیلے، اودے ہرے، سرخ و سبز، زرد و دھانی دوپٹے۔ شانوں سے ڈھلکتے، سروں سے پھسلتے ریشمی دوپٹے، کسی کے رخِ روشن کے گرد ہالہ کئے پاکیزہ دوپٹے۔

    آپ ہوں، ہم ہوں یا کوئی اور، دوپٹے کی مقبولیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ میر کے زمانے میں بھی اگر دوپٹے اس طرح مقبول ہوتے تو ان کا شعر یوں ہوتا۔

    ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
    ان دوپٹوں کے سب اسیر ہوئے

    آج کل تو اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گلیوں، سڑکوں، بازاروں، کلبوں، ہوٹلوں، کالجوں، سنیما گھروں اور کافی ہاؤسوں غرضیکہ ہر جگہ لہراتے، سرسراتے، اور جادو جگاتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو آدمی چکرا جاتا ہے کہ ترقی لڑکیوں نے زیادہ کی ہے، یا دوپٹوں نے، اور مقبول لڑکیاں زیادہ ہیں یا دوپٹے۔

    دوپٹہ ململ کا بھی ہوتا ہے اور آبِ رواں کا بھی، نائلون کا بھی ہوتا ہے اور ڈیکرون، ٹیریلین اور شیفون کا بھی ہوتا ہے اور جالی کا بھی، چھینٹ کا بھی ہوتا ہے اور پاپلین کا بھی، غرضیکہ دنیا کے ہر کپڑے کا دوپٹہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی خاص کپڑا مخصوص نہیں ہوتا ہے، گھر میں رکھی ہوئی مچھر دانی کی جالی کا بھی دوپٹہ بنا سکتی ہیں، اور پائجامہ قمیص کے کپڑے کو بھی کام میں لا سکتی ہیں، بلکہ کھادی تک کا دوپٹہ بنا سکتی ہیں۔

    اس سلسلے میں انار کلی لیلیٰ مجنوں آنکھ کا نشہ اور جھنک جھنک پائل باجے قسم کے دوپٹوں کا ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اول الذّکر دوپٹوں کا ہونا تو کچھ سمجھ میں آنے والی بات ہے بھی کہ شاید انار کلی نے اس کپڑے کا دوپٹہ اوڑھا ہو یا مجنوں نے لیلیٰ کو اس خاص کپڑے کا دوپٹہ بطور تحفہ پیش کیا ہو، لیکن آنکھ کا نشہ اور جھنک جھنک پائل باجے مارکہ دوپٹوں کی بات دل کو نہیں لگی۔

    خیر، ناموں میں کیا رکھا ہے، کام دیکھئے، تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ دوپٹہ اپنے اندر وحدت میں کثرت کا اثر رکھتا ہے یعنی یہ ڈھائی تین گز کا ٹکڑا سیکڑوں کام سرانجام دیتا ہے، اس کا ایک فائدہ تو بہت پرانا ہے کہ یہ سر کندھے اور جسم کے بالائی حصے کو اچھی طرح ڈھک سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے چادر کی طرح اوڑھ کر گھر سے بھی نکلا جا سکتا ہے۔ دن میں مکھیوں سے اور رات میں مچھروں سے بچنے کے لئے اسے اوڑھ کر سویا جا سکتا ہے۔ ہوشیار خواتین باورچی خانہ میں صفائی کے لئے صافی رکھنے کی زحمت نہیں کرتیں، اور یہ کام بھی دوپٹہ سے لے لیتی ہیں۔ ادھر ہانڈی جلی یا دودھ ابلا اور انہوں نے جھٹ پتیلی اتار لی۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد اب کون تولیہ تلاش کرتا پھرے، جھٹ دوپٹہ سے پونچھ لیا۔ ننھے کی ناک بہہ رہی ہو تو اسے صاف کرنے کے لئے کوئی میلا یا صاف کپڑا تلاش کرنے سے آسمان ان کے لئے، دوپٹے ہی سے ان کی ناک پونچھ دیتی ہے۔

    پلیٹیں دوپٹے سے بہت آسانی سے پونچھی جاسکتی ہیں۔ شربت بناتے جلدی میں باریک کپڑا نہ ملے تو دوپٹے کے کونے سے فوراً شکر چھان لی۔ اس دوپٹہ کا ایک کونا آپ کی چلتی پھرتی صندوقچی (پیسہ رکھنے والی) کا کام بھی دیتا ہے، جس میں پیسوں کے علاوہ چھوٹے موٹے ضروری کاغذات، بل اور سودے کا حساب وغیرہ گرہ میں بندھا ہوتا ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ نہ چوری کا اس کو کھٹکا، نہ چابی کھونے کا ڈر، نہ صندوقچی غائب ہونے کا خوف۔ چابی کی بات پر یاد آیا، کہ چابیاں کھویا بہت کرتی ہیں، اس لئے اسے بھی ایک کونے میں باندھ لیا جائے تو وہ محفوظ بھی رہیں گی، اور دوپٹے کی افادیت میں چار چاند لگ جائیں گے۔

    دوپٹے کا آنچل جھاڑن کا کام بھی خوب دیتا ہے۔ گھر گرہست خواتین دوپٹے سے میز کرسیاں اور ان کے شوہر اپنے چشمے کو شیشے صاف کرلیا کرتے ہیں، کبھی کبھی یہ بزرگوں کی ڈانٹ پھٹکار سے بچانے میں بڑی مدد دیتا ہے، مثلاً بڑوں کے سامنے اگر ہنسی روکے نہ رکے تو منہ میں دوپٹہ ٹھونس کر کھن کھن۔۔۔ کی آواز کو بخوبی روکا جاسکتا ہے اس طرح جواب نہیں سوجھتے وقت اگر اس کا کونا منہ میں دبا لیا جائے تو دماغ تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔

    دو دلوں کو باندھنے کے لیے بھی دوپٹہ کی گرہ حرفِ آخر سمجھی گئی ہے۔ آپ نے بھی مار دھاڑ والی فلموں میں دیکھا ہوگا یا کہانیوں میں پڑھا ہوگا کہ کس طرح کسی نوجوان اجنبی کے زخمی ہونے پر اچانک پردۂ غیب سے ایک حسینہ نمودار ہوتی ہے اور بلا کچھ سوچے سمجھے دوپٹہ کی ایک لمبی چٹ پھاڑ کر اس کے پٹی باندھ دیتی ہے، پٹی کی گانٹھ کے ساتھ دو دل بھی بندھ جاتے ہیں۔ دوپٹہ بدل کر بہن بنانے کارواج پہلے بہت تھا، مگر خراب دوپٹے کے بدلے اچھے دوپٹے اینٹھ لینے کی وجہ سے یہ رسم دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔

    دوپٹہ کی ایک قسم اور بھی ہوتی ہے اور وہ ہے رسی کی طرح بٹی ہوئی اوڑھنی جسے عرفِ عام میں چنا ہوا دوپٹہ کہتے ہیں، یہ دوپٹہ گلے کا ہار بنا رہتا ہے۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے کسی طرح کی لاپروہی نہیں برتی جاسکتی، کیوں کہ گلے کا ہار جو ٹھہرا۔ یہ ہار ضرورت پڑنے پر پھانسی کے پھندے کا کام بھی دے سکتا ہے، اس کی اس خصوصیت کا ہمیں پچھلے ہفتے پتہ لگا جب پڑوس کی ایک ناکام محبت لڑکی نے اپنے دوپٹے سے پھانسی لگا کر اپنی محبت کے افسانے کو اچھا خاصا اسکینڈل بنا دیا۔ امتحان میں ناکامی، محبوب کی بے وفائی، محبت میں ناکامی، احساسِ حماقت کے بعد اور جہیز کا مطالبہ پورا نہ کرسکنے کی صورت میں اکثر لڑکیوں کو خودکشی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس صورت میں ان بے چاری لڑکیوں کے لئے دوپٹہ کا نسخہ بہت آسان ہے، کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

    ہمیں افسوس ہے کہ دوپٹہ جیسی نعمت سے اکثر ملکوں کی خواتین محروم ہیں۔ افسوس تو ان مشرقی میم صاحبات پر بھی ہے جو اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھنا پسند نہیں کرتیں، اور بقول نانی اماں کے ’’کم بختیں ننگی بچی گھوما کرتی ہیں،’’ اور اس سے زیادہ افسوس ان فیشن ایبل لڑکیوں اور ٹیڈیوں پر ہے جنھوں نے اس کا طول و عرض کم کرتے کرتے اسے دوپٹے سے پٹہ بنا دیا ہے اور جس کا عرض گھٹاتے گھٹاتے ایک بالشت بلکہ چارانگل تک پہنچا چکی ہیں۔ جس طرح چوٹی کے مقابلے میں ’پٹے‘ فیشن میں آتے تھے اسی طرح اب دوپٹہ کی جگہ پٹہ (کتے یا بلی کا نہیں) لے رہا ہے لیکن اس سے نہ تو سر پوشی کا کام لیا جا سکتا ہے اور نہ ستر پوشی کا، اور نہ ہی ہزاروں دوسرے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں، اس دوپٹے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ بحث بھی اب آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہے، اس لئے اسے چھوڑیئے، کیوں کہ ہمیں تو کام دیکھنا ہے، اور اس کا کام بھی کسی حالت میں دوپٹہ کے کاموں سے کم نہیں، اس کا رنگا رنگ کام بھی دیکھئے۔

    یہ ایجاد کیوں کیا گیا، اس کی ایک وجہ ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ اس سے مرہم پٹی کا کام بہت آسانی سے لیا جا سکتا ہے۔ لڑکیاں اب گھروں میں بیٹھ کر چولھے چکی میں پڑنا پسند نہیں کرتیں، اور ناک میں نتھ کی نکیل پڑنے تک کھیل کود، پنکنک، آؤٹنگ وغیرہ میں انہیں لڑکوں کے برابر سوراج اور مساوات کا درجہ حاصل ہے، اس لئے ہاتھ پیر ٹوٹنے یا موچ آنے کی صورت میں یہ دوپٹہ بڑا کام آتا ہے۔ ادھر کھیل کود یا دھینگا مشتی میں کسی لڑکی کی ہڈی پسلی ایک ہوئی اور محبت دوپٹہ سے بنڈیج کا کام لیا گیا۔

    اس دوپٹہ کا ایک مفید اور عام استعمال آنکھ مچولی کے دوران آنکھوں پر باندھنے یا بستر باندھنے کے لئے رسی نہ مل سکے، تو یہ کام بھی دوپٹہ بخوبی انجام دے سکتا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ اتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے کہ اس کا جسم پر ہونا نہ ہونا برابر ہے، اس کا بنانا اس قدر کم خرچ بالانشیں ہوتا ہے کہ جمپر یا پائجامہ کا کپڑا بچا کر اسے تیار کیا جاتا ہے۔ اس گرانی کے زمانہ میں اس طرح کافی کم خرچ یا بالکل ہی خرچ نہ کرکے اسے بنایا جا سکتا ہے۔

    لیجئے، اپنے تجربات بتاتے بتاتے نہ جانے کب میرا دوپٹہ شانوں سے پھسل کر گود میں آگیا اور خالہ جان کی چیختی ہوئی آواز آرہی ہے، ’’نوج! اس جیسی کوئی بے خبر لڑکی ہو، جسے آج تک دوپٹہ اوڑھنے کا ڈھنگ نہ آیا۔‘‘

    (بھارت کی معروف مزاح نگار سرور جمال کی ایک شگفتہ تحریر)

  • گلشنِ امید کی بہار

    گلشنِ امید کی بہار

    امید ایک رفیقِ ہمدم ہے کہ ہرحال اور ہر زمانہ میں ہمارے دَم کے ساتھ رہتا ہے۔ دَم بہ دَم دلوں کو بڑھاتا ہے اور سینے کو پھیلاتا ہے۔ خیالات کو وسعت دیتا ہے۔ اور نئی نئی کامیابیوں کی ترغیبیں دیتا ہے، غرض ہمیشہ کسی نہ کسی خوش حالی کا باغ پیشِ نظر رکھتا ہے کہ یا اس سے کوئی کلفت رفع ہو یا کچھ فرحت زیادہ ہو۔

    خدائی کی نعمتیں اور ساری خوش نصیبی کی دولتیں حاصل ہو جائیں، پھر بھی یہ جادو نگار مصور ایک نہ ایک ایسی تصویر سامنے کھینچ دیتا ہے جسے دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ بس یہ بات ہو جائے گی تو ساری ہوسیں پوری ہوجائیں گی اور پھر سب آرزوؤں سے جی سیر ہو جائے گا۔

    امید کا ہونا ہر حال میں ضروری ہے۔ مفلسی، بیماری، قید، مسافرت، بہت سے دنیا کے دکھ درد ہیں کہ امید نہ ہو تو ہر گز نہ جھیلے جائیں۔ آسا جیے، نراسا مرے۔

    یہ نعمت جو بظاہر ہر کس و ناکس میں عام ہو رہی ہے، وہ ضروری شے ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر حالت بھی ہم کو اس صورت سے بے نیاز نہیں کر سکتی کیوں کہ حقیقت میں یہ مشغلہ زندگی کے بہلاوے ہیں۔ اگر ان کا سہارا ہمارا دل نہ بڑھاتا رہے تو ایک دَم گزارنا مشکل ہو جائے اور زندگی وہال معلوم ہونے لگے:

    ایک دم بھی ہم کو جینا ہجر میں تھا ناگوار
    پر اُمیدِ وصل پر برسوں گوارا ہو گیا

    اس میں شک نہیں کہ امید دھوکے بہت دیتی ہے اور اُن باتوں کی توقع پیدا کرتی ہے جو انسان کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔ مگر وہ دھوکے اصلی نعمتوں سے سوا مزہ دیتے ہیں اور موہوم وعدے قسمت کی لکھی ہوئی دولتوں سے گراں بہا اور خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ میں ناکام بھی کرتی ہے تو اُسے ناکامی نہیں کہتی، بلکہ قسمت کی دیر کہہ کر ایک اس سے بھی اعلیٰ یقین سامنے حاضر کر دیتی ہے۔

    (صاحبِ اسلوب نثر نگار، شاعر اور مؤرخ و تذکرہ نگار محمد حسین آزاد کے مضمون سے اقتباس)

  • "من موہنی” جس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا!

    "من موہنی” جس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا!

    اردو کے صاحب طرزِ طرز ادیب، ماہرِ موسیقی، مترجم اور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی اردو زبان کے ایک آشفتہ و فریفتہ اور ادب کے شیدائی تھے۔ دلّی کے یہ باکمال ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔ کئی مضامین اور شخصی خاکے ان کے دل آویز طرزِ‌ نگارش اور نثرِ لطیف کی یادگار ہیں۔

    یہ انہی شاہد احمد دہلوی کے ایک مکتوب سے ماخوذ پارہ ہے جو اردو زبان سے ان کی محبّت کی خوب صورت مثال تو ہے ہی، مگر اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک ہم عصر شخصیت سے زبان کے معاملہ پر شاہد احمد دہلوی کا اختلاف ہے جس میں ان کی تلخ و ترش باتوں پر اردو زبان کی مٹھاس غالب آگئی ہے۔ مشہور ادبی رسالہ ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل نے اپنے اداریہ میں اردو زبان کے ایک نہایت اہم مسئلے پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ شاہد دہلوی نے اُس اداریہ کے جواب میں انھیں خط میں لکھا:

    جی ہاں، اردو بڑی اچھی اور بڑی پیاری زبان ہے اور بڑی نرالی زبان ہے۔ کیوں کہ اردو بولنے والے مردوں کی زبان اور ہے، اور عورتوں کی زبان اور بھی…. اپنی جگہ پر ترقی یافتہ ہے۔ اور اتنی وسیع کہ مولانا سید احمد، صاحب فرہنگ آصفیہ، عورتوں کے محاوروں کی ایک جامع لغات ’’لغات النساء‘‘ کے نام سے لکھ گئے ہیں۔

    دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی ہو کہ اس میں مردوں اور عورتوں کی زبانیں الگ الگ ہوں۔ عورتوں کی زبان میں اگر شاعری دیکھنی ہو تو ریختیاں ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے مضامین شاید ثقہ طبیعتوں پر ناگوار گزریں تو گزریں، زبان کا چٹخارہ یقیناً مزہ دے جائے گا۔

    دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو بھی مقامی بولیوں اور دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا تو خمیر ہی زبانوں اور بولیوں کے آمیز ے سے اٹھا ہے۔ چھوت چھات کی یہ نہ تو پہلے کبھی قائل تھی اور نہ اب ہے۔ زندہ زبانیں چھوت چھات کو نہیں مانتیں اور نہ اچھوت رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کا تال میل سب سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اردو ہرجائی بھی ہے، حریص بھی ہے، جس کی جو چیز پسند آتی ہے لے کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، کبھی پرائی چیز کو جوں کا تو رہنے دیتی ہے اور کبھی اس کی شکل ہی بدل ڈالتی ہے۔ یہ عادت بھی اس نے اپنی ترقی پذیر بہنوں سے سیکھی ہے۔ جبھی تو من موہنی بن گئی اور اس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا تھا۔

    بھلا جس نے عوام میں جنم لیا ہو، سرکاروں، درباروں میں قدم رکھا ہو، بادشاہوں کی منہ چڑھی رہی ہو، اس کی بڑھوتری کیسے رک سکتی تھی؟ ککڑی کی بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی اور ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر دوسرے براعظموں پر بھی چولائی کی طرح پھیلنے لگی۔ اب دنیا میں آپ جہاں چاہے چلے جائیں، اردو بولنے والے آپ کو مل ہی جائیں گے۔ اور صاحب، غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جان، ہمسایہ ملک میں اردو کو نہ صرف اچھوت بنایا جارہا ہے، بلکہ اسے قتل کرنے کے سامان کیے جا رہے ہیں، مگر یہ ہے کہ ڈٹی ہوئی ہے اور برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سَر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے نہیں مر سکتی۔ یہ تو یونہی نئے نئے میدان مارتی چلی جائے گی۔”

  • اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    بے اطمینانی انسان کی طبیعت میں ہے۔ نہ وہ اپنے ماضی سے مطمئن نہ حال سے خوش۔ جب وہ اپنی ناکامیوں پر نظر ڈالتا ہے تو صرف ٹھنڈی سانس بھر کر چپکا نہیں ہو جاتا بلکہ جو واقعات گزر چکے ہیں کبھی کبھی اپنے ذہن میں ان کی ترکیب بدل دیتا ہے۔ بلکہ ان میں سے تبدیلیاں کر لیتا ہے۔

    جس طرح ایک شاعر اپنے کلام پر نظر ثانی کرتے وقت تنقید کے خوف سے الفاظ کی ترتیب بدل ڈالے یا بعض الفاظ کو حشو سمجھ کر نکال دے اور ان کی جگہ دوسرے الفاظ لے آئے۔ آپ نے اگر اس انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پر غور کیا ہے تو آپ کو اس طومار میں ایطائے خفی یا ایطائے جلی کی مثالیں نظر آئی ہوں گی۔ کبھی آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ اس شعر میں شتر گربہ ہے۔ یہاں بندش سست ہے۔ یہاں حرف صحیح ساقط ہو گیا ہے۔ یہاں مضمون پامال ہے۔ یہاں اختلافِ بحر ہے اور استغفراللہ یہ غزل کہتے وقت میری کیا مت ماری گئی تھی کہ پورا مصرع وزن سے خارج ہے۔ لیکن صاحب دل ہی دل میں اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کو الٹ پلٹ کے اور ان کی ترتیب بدل کے خوش ہو لینا اور بات ہے۔ زندگی سچ مچ شعر تو نہیں کہ جب چاہیں اس کی اصلاح کر لیں یا اگر کلام چھپ گیا تو اس کے ساتھ ایک غلط نامہ شائع کروا لیں اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سوچ کے چپکے ہو رہیں کہ چلو اگلے ایڈیشن میں صحیح ہو جائے گی۔

    گزرے ہوئے دن پلٹ کر نہیں آتے اور جو کچھ ہو چکا اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہم اور آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے اگر مگر چناں و چنیں اور کاشکے کی بھول بھلیاں میں کھو جائیں اور ‘یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا’ گنگنانا شروع کر دیں یا مرزا غالب کی طرح یہ کہہ کے چپکے ہو رہیں کہ:

    آئینہ و گزشتہ تمنا و حسرت است
    یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم

    لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم اور زندگی میں جو غلطیاں کر چکے ہیں اگر وہ ہم سے سرزد نہ ہوتیں تو کیا ہوتا۔ یا مرز غالب کو اپنے چچا کی پوری جاگیر مل جاتی تو آیا وہ کلکتہ اٹھ جاتے یا دہلی میں رہتے اور کلکتے چلے جاتے تو وہاں کی آب و ہوا کا ان کی غزل گوئی پر کیا اثر پرتا؟ مجھ سے تو یہ سوال کیا گیا ہے کہ اگر چنگیز خان زندہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ اوّل تو مجھے اس سوال پر ہی اعتراض ہے۔ چنگیز خان جن اثرات کی پیداوار تھا۔ ان پر غور کیا جائے تو علت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ جس کی کڑیاں گننا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ زندگی کے پیڑ میں ایسا کڑوا پھل ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس لیے خاص موسم شرط ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ چنگیز خاں جیسے شخص کے لیے بارھویں تیرھویں صدی کا موسم اور مغولستان یعنی منگولیا کا ماحول ہی موزوں تھا۔ چنگیز خاں کو جس زمان اور جس ماحول میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ وہ اسی زمانے میں اور ماحول میں پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ آپ اور ہم اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کی ترتیب الٹنے پلٹنے اور نئے ڈھنگ سے ان کی چولیں بٹھانے کے عادی ہیں۔ چنگیز خاں سے بھی اسی قسم کی زبردستی کر گزریں یعنی اسے تیرھویں صدی سے کھینچ کر بیسویں صدی میں لا کھڑا کریں۔ خیر یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ آئیے اب ہم اور آپ مل کر اس سوال پر غور کریں کہ اگر یہ مغل سردار جس نے پرانی دنیا کے نصف حصے کو زیر و زبر کر ڈالا تھا۔ آج ہوتا تو کیا ہوتا؟

    یہ سوال سن کر آپ کا ذہن یقیناً ہٹلر کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہٹلر کے چہرے میں چنگیز خان کے خدوخال کا عکس تیار کر لینا بڑی آسان اور پیش پا افتادہ سی با ت ہے اور ممکن ہے کہ آپ کو اقبال کا یہ شعر بھی یاد آ گیا ہو کہ:

    از خاک سمر قندے ترسم کرد گر خیزد
    آشوبِ ہلاکوئے ہنگامۂ چنگیزے

    ہٹلر اور چنگیز خان میں بظاہر کئی چیزیں مشترک معلوم ہوتی ہیں۔ اور دونوں کے کارناموں میں بھی بڑی مشابہت ہے۔ مثلاً چنگیز خان تو چنگیز خانی کو جو اس کے بعض قوانین کا مجموعہ تھا ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتا تھا۔ ہٹلر بھی نیا نظام قائم کرنے کا مدعی تھا اور نازیوں میں مائن کیمپ کو وہی حیثیت دی جاتی تھی جو مغلوں میں تورہ چنگیز خانی کو حاصل تھی۔ پھر دونوں میں تنظیم کی خاص صلاحیت ہے اور دونوں خون ریزی کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے بڑی مشابہت یہ ہے کہ کیف کا شہر دو دفعہ لٹا ہے۔ ایک دفعہ چنگیز مغلوں نے اسے تاراج کیا تھا اور دوسری دفعہ ہٹلر نازیوں کے ہاتھوں اس کی تباہی آئی۔ اس لیے مجھے مان لینے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر چنگیز خان آج زندہ ہوتا اور یورپ میں ہوتا تو نسل انسانی کے لیے ہٹلر سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتا۔ لیکن یہ امر مشتبہ ہے کہ اگر چنگیز خان آج مغولستان ہی میں پیدا ہوتا تو کیا دنیا اسے فاتح اور کشور کشا کی حیثیت سے جانتی۔ اور کیا اس کی سرداری میں مغل فوجیں آج بھی نصف کرۂ ارض کو پامال کر ڈالتیں۔

    بارہویں اور تیرہویں صدی میں ایسے کارنامے انجام دینے کے لیے جو چیزیں ضروری تھیں وہ آج بے کار ہو کے رہ گئی ہیں، مثلاً اس عہد میں ہر نامور سردار کے لیے ضروری تھا کہ وہ جسمانی قوت میں نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتا ہو۔ فنون سپہ گری یعنی تیغ گری، تیغ زنی، تیر اندازی، نیزہ بازی، اور شہسوری میں ماہر ہو۔ لیکن آج کل جسمانی قوت یا فنونِ سپہ گری کی مہارت بے معنی ہے۔ ہٹلر میں تنظیم کی صلاحیت ضرور تھی۔ لیکن وہ پہلوان تو ہرگز نہ تھا۔ فنون سپہ گری سے بھی نابلد تھا۔ پھر اس نے وہ کیا جو چنگیز خاں نے اپنے عہد میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ چنگیز خان نے بڑی بڑی فتوحات اس لیے حاصل کیں کہ منگولیا میں اعلیٰ نسل کے مضبوط اور جفا کش گھوڑے کثرت سے ہوتے ہیں۔ مغل گھوڑے چڑھے جب مغولستان کے کوہستانوں سے گھوڑے دوڑاتے نکلتے ہیں تو انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔

    آج کی لڑائیوں میں گھوڑوں کو اتنی اہمیت نہیں رہی، اب تو ٹینکوں کا زمانہ ہے اور ہٹلر نے ٹینکوں کی مدد سے ہی میدان سر کیے ہیں۔ شاید آپ کہیں گے کہ اگر چنگیز خان اس زمانے میں ہوتا تو اس کے پاس بھی ٹینک ہوتے لیکن صاحب مغولستان میں ٹینک کہاں سے آتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے لیکن منگولیا کے باشندوں کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ ان کی زندگی اب بھی قریب قریب ایسی ہی ہے کہ جیسی آج سے سات ساڑھے سات سو برس پہلے تھی۔ اب بھی دشت گوبی کے آس پاس کے علاقے میں مغل خانہ بدوشوں کے قافلے بھیڑ بکریوں کے گلے کے لیے چارے کی تلاش میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ اب بھی گھوڑے ان کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ اس لیے چنگیز خان آج ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار یا منگولیا کے کسی علاقے کا حاکم ہوتا۔ اور اگر اسے فتح مندی اور کشور کشائی کا شوق چراتا تو آس پاس کے علاقے پر چھاپا مارنا شروع کر دیتا اور ممکن ہے کہ اخباروں کے کالموں میں اس کا نام بھی آ جاتا۔ ریڈیو پر بھی ہم اس کا ذکر سن لیتے اور ہمارے ملک کے اکثر لوگ یہ جان لیتے کہ منگولیا کے سرداروں میں ایک صاحب چنگیز بھی ہیں۔ اور ممکن ہے ک کبھی ہم یہ بھی سن لیتے جاپانیوں یا روسیوں سے چنگیز کی ان بن ہو گئی۔ پہلے تو بڑے زور میں تھا لیکن ایک ہی ہوائی حملے نے ساری شیخی کرکری کر دی اور چنگیز خانی دھری کی دھری رہ گئی۔ اور ممکن ہے کہ چنگیز خان کو کسی قبیلے کی سرداری بھی ہاتھ نہ آتی اور ساری عمر جھیل بے کال کے آس پاس گھاس کھودتے گزر جاتی اور اس طرح اس مذاقِ خوں ریزی کی تسکین کا سامان فراہم ہو جاتا۔ یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ قیصر ولیم ثانی جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد درخت کاٹا کرتے تھے۔ غالباً انہوں نے یہ مشغلہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ انہیں بھی تخریب سے ازلی مناسبت تھی۔

    منگولیا میں درخت کم ہیں، اس لیے چنگیز خان درختوں کے بجائے گھاس پر غصہ نکالتا اور اسی کو کشور کشائی اور جہانگیری کا بدل سمجھتا اور یہ بھی اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان منگولیا میں ہوتا۔ ورنہ اگر وہ ہندوستان اور پاکستان میں پیدا ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار ہوتا نہ کسی علاقے کا حاکم۔ بلکہ یا تو لیڈر ہوتا یا پھر شاعر ہوتا۔ لیڈر ہوتا تو سیاست کے گلے پر کند چھری پھیرتا۔ اخبار نویس کی ٹانگ اس طرح توڑتا کہ بچاری ہمیشہ کے لیے لنگڑی ہو کر رہ جاتی۔ اور شاعر یا ادیب ہوتا تو ادب کا خون بہاتا۔ بھاری بھرکم لغات اس طرح لڑھکاتا کہ شاعری اس کے نیچے دب کے رہ جاتی۔ پرانے شاعروں کے دیوانوں پر ڈاکہ ڈالتا اور بڑے بڑے سلاطینِ سخن کے کلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا۔ متداول بحروں میں ایسے تصرفات کرتا کہ ان کی شکل نہ پہچانی جاتی۔ یہ اس لیے کہ ہندوستان پاکستان میں منگولیا ایسے گیاہستان نہیں جہاں چنگیز خان اطمینان سے گھاس کھود سکتا اور درخت کاٹنا جرم ہے اور یہ پھر بھی ہے جس طرح منگولیا گھوڑوں کے لیے مشہور ہے۔

    ہمارا ملک شاعری اور شاعروں کے لیے مشہور ہے۔ اس لیے یقین ہے کہ چنگیز خان کو شاعری کا پیشہ اختیار کر کے کاغذی گھوڑے دوڑانے اور قلم کی تلوار چمکانے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آتا اور اس معاملے میں مرزا غالب کا فتویٰ بھی تو یہی ہے کہ

    بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

    (دنیائے ادب اور صحافت میں ممتاز چراغ حسن حسرت کی ایک شگفتہ تحریر)

  • بوکیچیو: یونانی زبان کا زبردست عالم اور شاعر

    بوکیچیو: یونانی زبان کا زبردست عالم اور شاعر

    بوکیچیو (1313ء تا 1375ء) یونانی زبان کا زبردست عالم تھا۔ اس نے عوام کی توجہ یونانی زبان کے حصول کی طرف مبذول کرائی۔

    یونانی علم و ادب کا نشاۃ الثّانیہ لانے میں جو زبردست حصّہ ہے اس کے متعلق کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔ اور بوکیچیو نے اس سلسلے میں کافی اہم خدمات انجام دیں۔ وہ اپنی کتاب ’ڈیکا میرون‘ کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہے۔ یہ کتاب بہت سی کہانیوں کامجموعہ ہے۔ فلورنس میں طاعون پھیل جانے کی وجہ سے اس شہر کے اعلیٰ طبقے کی خواتین ایک گاؤں میں عارضی طور پر قیام پذیر ہوجاتی ہیں اور وقت گزارنے کی خاطر ایک دوسرے کو کہانیاں سنانی شروع کر دیتی ہیں۔ یہ کتاب انہی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ مشہور انگریزی شاعر چوسرؔ نے اپنی کتاب ’’کنٹریری ٹیلز‘‘ کیچیو کی مندرجہ بالا کتاب ہی کی طرز پر لکھی ہے۔

    بوکیچیو نے تنقید اور جمالیات پر کچھ نظریات پیش کیے ہیں۔ وہ شاعری کی تعریف، ابتدا اور مقاصد کے متعلق لکھتا ہے۔ ’’شاعری جس کو جہلاء ایک بیکار سی چیز سمجھتے ہیں، دل و دماغ کی ایجادات میں سے ایک ایسی ایجاد ہے جو ولولہ اور شوق سے بھرپور ہے اور جس کا اظہار پرجوش طریقے سے ہوتا ہے۔ شاعری کا جذبہ خدا کا عطیہ ہے اور میرے خیال صرف چند ہی اشخاص کو یہ نعمت عطا کی گئی ہے۔ یہ عطیہ حقیقتاً اس قدر اعلیٰ ہے کہ حقیقی معنوں میں شاعر بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اس کے اثرات نہایت لطیف ہوتے ہیں۔ شاعری کا جذبہ انسان کو کچھ نہ کچھ کہنے پرمجبور کرتا ہے۔ اور اس طرح دل و دماغ کو ناقابلِ بیان چیزوں کے اظہار پر اکساتا ہے۔ وہ اظہار کے خاص سانچے تخلیق کرتا ہے اور الفاظ اور خیالات کو ایک نئی ترتیب سے منظم کرتا ہے۔ وہ صداقت کو تمثیل کے پردے میں پیش کرتا ہے۔ اور اگر وہ چاہے تو بادشاہوں کو جنگ پر آمادہ کرتا ہے۔ فوجوں کو میدانِ جنگ میں لے آتا ہے۔ بجر و بر کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔ نوجوان خواتین کی تعریف میں گیت گاتا ہے۔ انسانی کردار کو مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے۔ خوابیدہ کو بیدار، مشتعل کو مطمئن اور مجرم کو مطبع کرتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کی تعریف میں قصیدے کہتا ہے۔ غرض اسی قسم کے بہت سے کام ہیں جو اس جذبے کی بنا پر رونما ہوتے ہیں، اس کے بعد وہ شاعر کے لیے زبان، صرف و نحو، مختلف اخلاقی اور سماجی علوم کے حصول پر زور دیتا ہے کہ ان کے بغیر ایک شاعر خداداد صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار نہیں لاسکتا۔ علاوہ ازیں حسنِ فطرت، تنہائی، اطمینانِ قلب، جوش و خروش اور آرام دہ زندگی کی خواہش کو بھی وہ شاعر کے لیے ضروری خیال کرتا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک شاعر کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    بوکیچیو سیسرؔو سے کافی متاثر ہے۔ وہ اسے شاعر سے زیادہ ایک مفکر مانتا ہے۔ اور اپنے نظریات کی تائید میں سیسروؔ کے اقوال پیش کرتا ہے۔ وہ سیسرؔو کی اس بات سے متفق ہے کہ ’’دوسرے تمام فنون کا دار و مدار علم، قواعد اور تکنیک پر ہے لیکن شاعری کی بنیادیں خداداد صلاحیت اور ذہنی استعداد پراستوار ہیں اور یہ آمد اور وجدان کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘‘ لیکن وہ مختلف علوم کے حصول کو ضروری خیال کرتا ہے۔ تاکہ خداداد صلاحیت کو جِلا دی جاسکے اور اسے پوری طرح بروئے کار لایا جاسکے۔

    (سعید احمد رفیق کے تحقیقی مضمون بعنوان نشاۃ الثانیہ میں جمالیاتی افکار سے انتخاب)

  • نقش و نگاری اور مصوّری میں‌ مسلم دنیا کا امتیاز

    نقش و نگاری اور مصوّری میں‌ مسلم دنیا کا امتیاز

    مسلمانوں کے ابتدائی دور میں خلفائے بنو امّیہ کے زمانے میں فتوحات سے اسلامی سلطنت میں توسیع ہوئی۔ اس وقت خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ساسانی اور بازنطینی پر اپنا سکہ جاری کیا، جس پر اس کی تصویر تھی، جو اس وقت مصلحتاً ضروری سمجھا گیا تھا۔

    بقول ابنِ سعد صاحب طبقاتِ قاضی شریع کی مہر پر دو شعر اور بیچ میں درخت منقش تھے۔ اس ابتدائی دور میں محض جمالیاتی طور پر فرحت اور مسرت حاصل کرنے کے لیے کپڑوں اور ظروف پر کئی قسم کے رنگوں سے نقاشی کی جاتی تھی۔ اس زمانہ کی نقاشی کے مطالعہ سے ہم آج اس زمانہ کے تمدن اور اطوارِ زندگی کا پتہ لگاتے ہیں۔

    مسلمانوں نے ان مصوّر اشیاء کی جمالیاتی خصوصیات کے لحاظ سے ان کے نام بھی وضع کیے۔ یعنی مرط مرحل اس چادر کو کہا جاتا تھا، جس پر مجمل اور آدمیوں کی تصاویر ہوں۔ شجراف و سجلاط وغیرہ ان چادروں کو کہا جاتا تھا، جن پر درختوں اور زیورات کی تصاویر ہوں۔ محلات کے نام بھی اس کی جمالیاتی کیفیات اور نقاشی کے اعتبار سے رکھے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے شہر فزدین میں جب ابتدائی دور میں اوّل مسجد بنائی تو اس کے لیے ایسے ستون استعمال کیے جن کے سروں پر بیلوں کے نقوش تھے۔ اس کی جمالیاتی خصوصیت کی وجہ سے اس کا نام مسجدِ ثور یعنی بیلوں والی مسجد رکھ دیا تھا۔

    مسلمانوں نے ایسے حسین ماحول کے جمالیاتی اثرات کو پریشان دماغی کیفیات کاعلاج بھی تصور کیا ہے، جس کی اکثر تاریخی شہادتیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر حکیم بدرالدین قاضی بعلبکی نے اپنی کتاب مفرّحُ النّفس میں بیان کیا ہے کہ تمام اطبا حکما و فضلائے عصر کا اتفاق ہے کہ خوب صورت اور نازک صُوَر کے دیکھنے سے نفس کو ایک گونہ فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے اور ان سے امراض سوداویہ اور پریشان کن افکار دور ہوتے ہیں۔ اسی لیے مشرقِ وسطیٰ میں جب حمام بنائے گئے تو ان کی دیواروں کو نازک تصویروں سے مصور کیا جاتا تھا۔ مثلاً ان حماموں کی دیواروں پر عشقیہ نظاروں، حسین تصویروں اور وحوش کے شکار کے مناظر ہوتے تھے۔

    حکیم رازی نے لکھا ہے کہ مصوّر شکلوں میں تناسب اور مقدار کو ملحوظ رکھ کر دیدہ زیب رنگوں مثلاً سرخ، سبز، زرد اور سفید کے ساتھ مصور کیا جائے تو یقینی طور پر مفید ثابت ہوں گی اورتمام ہموم و غموم کو دور کریں گی اور خوشی کا سامان پیدا کریں گی۔ کیونکہ نفسِ انسانی اس قسم کے صورِ حسینہ کو دیکھ کر بہرہ اندوز ہوتا ہے۔

    ہماری جمالیاتی تاریخِ مصوّری بہت دل چسپ ہے اور ہماری مصوّری ہماری ثقافت کا بہت اہم باب ہے۔ ہم یہاں مختصر طور پر مصوّری میں مسلمانوں کے بڑے بڑے کارنامے جمالیاتی طور پر بیان کرتے ہیں، جس کو عام طور پر یورپ میں آج مفتی انجینئر پنڈنگ کہا جاتا ہے۔

    مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں تمام مشرقِ وسطیٰ، مشرقِ قریب اور وسط ایشیا کو فتح کرلیا تھا۔ مسلمانوں کی افواج کے امیر زیاد بن صالح نے جب سمرقند کو 58ء میں فتح کیا تو اس لڑائی کے قیدیوں میں کچھ چینی قیدی بھی ہاتھ آئے، ان میں سے بعض کاغذ بنانا بھی جانتے تھے، جن سے یوسف بن عمرو عرب نے کاغذ بنانا سیکھا، جسے مکّہ میں قرطاس سے تعبیر کیا گیا۔ اس وقت سے مسودات کو کاغذ پر لکھنا شروع کیا گیا۔

    یہ ظاہر ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے سامنے قرآنِ کریم کی حفاظت جو ان کا جزوِ ایمان تھا اور محض اسے لکھا ہی نہیں گیا بلکہ اس کو مُزَیّب و منقش کیا گیا جو مسلمانوں کے جذبۂ مصوری کی بیّن شہادت ہے۔ چنانچہ ابنِ مریم نے جہاں ابتدائی رسماء الکتاب قرآنِ کریم کا ذکر کیا ہے، وہاں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو قرآنِ کریم کو زرفشاں کرتے تھے، جن میں سے ابراہیم الصغیر، ابوموسیٰ بن عمار القطنی، محمد بن محمد ابوعبداللہ الغزاعی وغیرہ کافی مشہور گزرے ہیں۔ ان میں سے اکثر حافظِ قرآن ہوتے تھے اور قرآن کو لکھنا سطلاً اور منقش اور مُذَہّب کرنا توشۂ آخرت تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہایت شوق اور دل و دماغ سے اس کام کو انجام دیتے تھے۔

    مسلمانوں نے جمالیاتی اعتبار سے اس قسم کے نقش و نگار میں ایک خاص امتیاز پیدا کیا ہے جسے آج متفقہ طور پر یورپ میں ارابیک کہتے ہیں اور دنیائے مصوری میں ایک مسلّمہ جدت خیال کی جاتی ہے۔ اسی زمانے کے ذرا بعد وہ زمانہ آیا کہ جب مسلمانوں نے اپنی علمی کتابوں کو مزید مفید بنانے کے لیے ان کو مصوّر کرنے کی طرف توجہ کی، کیونکہ اس کے بغیر ان کی تفہیم کسی قدر مشکل تھی۔

    اگرچہ تصویر کشی ایک غیراسلامی عمل ہے مگر محض اس کی ضرورت علمی میدان میں محسوس کر کے طب، جغرافیہ، قرآۃ، ریاضی، نجوم، جر ثقیل، موسیقی کی کتابوں کو تصنیف کیا گیا اور اس کے ساتھ ان کے مخطوطے اعلیٰ فنِ مصوری اور جلد سازی سے تیار کیے گئے، جو بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اگرچہ ہم اس عہد کی کسی کتاب کو، جو ان علوم سے تعلق رکھتی ہے، اٹھا کر دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس ابتدائی زمانے میں مسلمانوں نے اس فن کو کتنے عروج پر پہنچا دیا تھا اور ان مخطوطات کی افادیت ایک مسلّمہ کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ کتابوں کے مصوّر صفحات کا نظارہ ان کی جمالیاتی قدر و قیمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

    (عالمی شہرت یافتہ پاکستانی مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے قلم سے)

  • آزاد اور شبلی کی پہلی ملاقات کا دل چسپ قصّہ

    آزاد اور شبلی کی پہلی ملاقات کا دل چسپ قصّہ

    یہ ہندوستان کے اُن دو نابغانِ عصر اور اصحابِ علم و ادب کا تذکرہ ہے جن کی عمروں‌ میں‌ بڑا تفاوت تھا، مگر جب باہم تعلق استوار ہوا اور ملاقات ہوئی تو اس بندھن میں عقیدت و ارادت کے پھول کھلے اور شفقت کی خوش بُو گھلتی گئی، ان کا یہ تعلق احترام کے ساتھ دوستانہ بے تکلفّی تک بھی پہنچا۔

    بات ہو رہی ہے مولانا ابوالکلام آزاد اور علّامہ شبلی نعمانی کی جو برطانوی دور کے عوام بالخصوص مسلمانانِ ہند کے بڑے خیر خواہ اور مصلحِ قوم گزرے ہیں۔ شبلی 1914ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے جب کہ آزاد نے 1958ء میں دارِ فانی سے کوچ کیا۔ ان نادرِ روزگار شخصیات کے درمیان خط کتابت کا آغاز اور اوّلین ملاقات سے متعلق ہم ظفر احمد صدیقی کے ایک تحقیقی مضمون سے چند اقتباسات نقل کر رہے ہیں جس سے ان دونوں‌ شخصیات کے علمی مرتبہ اور اوصاف کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مولانا ابو الکلام آزاد بلاشبہ نابغۂ روزگار تھے۔ ان کی غیر معمولی ذہانت و ذکاوت، مسحور کن خطابت، بے مثال انشا پردازی، اس کے ساتھ ہی دانش وری اور سیاسی بصیرت کو اب مسلّمات کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی وسعتِ مطالعہ، قوتِ حافظہ اور جامعیت بھی عجیب و غریب تھی۔ اسلامیات، شعر و ادب، تاریخ و جغرافیہ اور طب جیسے متنوع اور مختلف الجہات علوم و فنون سے وہ نہ صرف واقف تھے، بلکہ ان کی جزئیات بھی اکثر و بیشتر انھیں مستحضر رہتی تھیں۔ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر انھیں کامل عبور تھا۔ انگریزی کتابوں کے مطالعے میں بھی انھیں کوئی زحمت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    انھوں نے علّامہ (شبلی نعمانی) کے نام پہلا خط 1901ء میں لکھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ دوسری جانب علامہ شبلی اس وقت اپنی عمر کی 44 ویں منزل میں تھے۔ ان کی تصانیف میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، المامون، سیرةُ‌ النّعمان، رسائلِ شبلی اور الفاروق منظرِ عام پر آچکی تھیں۔ اس لحاظ سے وہ ملک کے طول و عرض میں ہر طرف مشہور ہوچکے تھے اور قیامِ علی گڑھ کا دور ختم کر کے ناظم سر رشتۂ علوم و فنون کی حیثیت سے ریاست حیدرآباد سے وابستہ اور شہر حیدرآباد میں مقیم تھے۔ اِدھر مولانا آزاد کا یہ حال تھاکہ باوجود کم سنی وہ نصابی و درسی تعلیم سے گزر کر اب علوم جدیدہ کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں پہلے انھوں نے انگریزی، عربی اور فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد ان کی خواہش ہوئی کہ عربی میں ترجمہ شدہ علومِ جدیدہ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ غالباً وہ علامہ شبلی کی تصانیف سے واقف تھے۔ اس لیے انھیں خیال آیا کہ اس سلسلے میں علاّمہ ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ’’آزاد کی کہانی‘‘ میں فرماتے ہیں،

    اب مصر و شام کی کتابوں کا شوق ہوا۔ مولانا شبلی کو ایک خط لکھا اور ان سے دریافت کیا کہ علومِ جدیدہ کے عربی تراجم کون کون ہیں اور کہاں کہاں ملیں گے؟ انھوں نے دو سطروں میں یہ جواب دیا کہ مصر و بیروت سے خط کتابت کیجیے۔

    جنوری 1903ء میں علّامہ شبلی انجمن ترقی اردو کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے۔ اسی سال کے آخر میں مولانا آزاد نے کلکتہ سے ’’لسان الصّدق‘‘ جاری کیا۔ یہ علمی و ادبی رسالہ تھا۔ یہ علّامہ شبلی سے مولانا آزاد کے غائبانہ تعارف اور قربت کا ذریعہ بنا۔ کیونکہ مولانا اس میں انجمن سے متعلق خبریں، رپورٹیں اور اس کی کار گزاریوں کی تفصیلات وغیرہ شائع کرتے رہتے تھے، جو علّامہ شبلی انھیں وقتاً فوقتاً بھیجتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا کی دل چسپی اور مستعدی کو دیکھ کر علّامہ نے کچھ دنوں بعد انھیں انجمن کے ارکان انتظامیہ میں شامل کرلیا اور لسانُ الصّدق کو ایک طرح انجمن کا ترجمان بنا لیا۔ اس پورے عرصے میں ان دونوں شخصیتوں کے درمیان مراسلت کا سلسلہ تو جاری رہا، لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔

    مولانا آزاد کی علّامہ شبلی سے پہلی ملاقات غالباً 1904ء کے اواخر یا 1905ء کے اوائل میں بمبئی میں ہوئی۔ اب مولانا سولہ سال کے تھے اور علامہ کی عمر 47 سال تھی۔ اس دوران ان کی تصانیف میں الغزالی، علم الکلام، الکلام اور سوانح مولانا روم بھی شائع ہوچکی تھیں۔ اس پہلی ملاقات میں جو لطیفہ پیش آیا، اس کا بیان مولانا آزاد کی زبانی ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں،

    مولانا شبلی سے میں 1904ء میں سب سے پہلے بمبئی میں ملا۔ جب میں نے اپنا نام ظاہر کیا تو اس کے بعد آدھا گھنٹے تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور چلتے وقت انھوں نے مجھ سے کہا تو ابوالکلام آپ کے والد ہیں؟ میں نے کہا نہیں میں خود ہوں!

    علّامہ شبلی کے لیے دراصل باعث ِ استعجاب یہ تھا کہ یہ کم سن لڑکا ’لسان الصّدق‘ جیسے علمی و ادبی رسالے کا مدیر کیوں کر ہو سکتا ہے؟ علّامہ ان دنوں دو تین ہفتے تک بمبئی میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران مولانا کی ان سے بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں میں علّامہ ان سے حد درجہ متاثر ہوئے۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں، جب چند دنوں میں گفتگو و صحبت سے انھیں میرے علمی شوق کا خوب اندازہ ہوگیا تو وہ بڑی محبت کرنے لگے۔ بار بار کہتے کہ مجھے ایک ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ تم اگر کسی طرح حیدرآباد آسکو تو ’’النّدوہ‘‘ اپنے متعلق کر لو اور وہاں مزید مطالعہ و ترقی کا بھی موقع ملے گا۔

    اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں، سب سے زیادہ مولانا شبلی پر میرے شوقِ مطالعہ اور وسعتِ مطالعہ کا اثر پڑا۔ اس وقت تک میرا مطالعہ اتنا وسیع ہوچکا تھا کہ عربی کی تمام نئی مطبوعات اور نئی تصنیفات تقریباً میری نظر سے گزر چکی تھیں اور بہتیر کتابیں ایسی بھی تھیں کہ مولانا ان کے شائق تھے اور انھیں معلوم نہ تھا کہ چھپ گئی ہیں، مثلاً محصل امام رازی۔

    انہی ملاقاتوں کے دوران فنِ مناظرہ سے متعلق ایک صاحب کی کج بحثی کا جواب دیتے ہوئے مولانا آزاد نے جب ایک مدلّل تقریر کی تو اسے سن کر علّامہ(شبلی نعمانی) نے فرمایا، تمہارا ذہن عجائبِ روزگار میں سے ہے۔ تمھیں تو کسی علمی نمائش گاہ میں بہ طورایک عجوبے کے پیش کرنا چاہیے۔

  • امریکہ میں صلاحیت اور ہمّت کا امتحان

    امریکہ میں صلاحیت اور ہمّت کا امتحان

    نیویارک ٹیکس زدہ ہے۔ ہر قدم پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

    ایئرپورٹ پر سامان رکھنے کے لئے ٹرالی درکار تھی۔ وہ ایک لوہے کی راڈ سے بندھی تھی۔ ہم نے اسے کھینچ کر نکالنے کی بہت کوشش کی۔ ناکام ہوئے، تب ایک امریکن نے بتایا ڈیڑھ ڈالر ڈالیں گے جب باہر نکلے گی۔ ہم ڈالر کو روپے سے ضرب کر کے پریشان ہونے لگے۔ لیکن کوئی اور راستہ نہ تھا۔

    نیویارک سے باہر نکلنے کا بھی جرمانہ ہے۔ شہر سے نکلتے ہی ایک پل آ گیا…. ٹرائی برو۔ اسے پار کرنے کے ڈھائی ڈالر ٹیکس۔ اس کا ٹوکن بھی ملتا ہے۔ پل دیکھ کر حیران ہو گئے۔ دریائے ہڈسن پر عظیم الشان بارعب ایسا کہ ہم بھی ڈھائی ڈالر ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گئے۔ ہائی وے پر آئے تو بھائی ساڑھے دس ڈالر ادا کر چکا تھا۔ اتنی رقم دینے کے بعد جو سڑک نظر آئی وہ اچھی لگنی ضروری تھی۔ دونوں طرف گھاس کے قطعے، جنگلوں اورباغوں کی بہتات۔ کئی جگہ ” یہاں ہرن ہیں” لکھے دیکھا۔ ہم بار بار اس ہائی وے سے گزرے لیکن ہم نے نہ ہرن دیکھے، نہ کوئی اور جانور۔ امریکی اگر ” یہاں شیر ہے” کا بورڈ لگا دیتا تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔

    راستے میں کئی جگہ ہم نے دیکھا پولیس کی گاڑی درختوں کے جھنڈ میں کھڑی ہے۔ اس میں ریڈار لگا ہے رفتار چیک کرنے کا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عام گاڑیوں میں اینٹی ریڈار لگا ہے۔ جہاں گاڑی پولیس والوں کے ریڈار رینج میں پہنچی اور وارننگ سگنل کی آواز آنے لگی اب ظاہر ہے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ کم ہوگا۔ رفتار قابو میں آجائے گی اور ٹکٹ سے بچت ہو گی۔
    یہ نظام ہمیں پسند آیا۔ جمہوری ملک میں پکڑنے اور بچنے کے مواقع برابر ہونے چاہیں۔

    آسمان پر بادل تھے۔ ذرا دیر میں رم جھم بارش ہونے لگی۔ سیاہ سڑک پہلے ہی صاف ستھری تھی اب مزید دھل گئی۔ یہ سب ہمیں متاثر کرنے کے لئے تھا۔ ہم مرعوب ہو گئے۔ ایک آدھ بار شک گزرا کہیں کسی حادثے کا شکار ہو کر جنت تو نہیں سدھار گئے۔ لیکن اعمال پر نظر گئی تو یہ خیال خام نکلا۔

    گاڑی ایک جگہ ٹہر گئی۔ یہ ریسٹ ایریا تھا۔ یہاں ریسٹورنٹ تھا۔ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک، چپس، ڈونَٹ، برگر…. ڈالر کے بدلے ملتے تھے۔ باتھ روم مفت تھے۔ ہم نے مال مفت پر حملہ کیا۔

    بھائی کے گھر، لاوڈن ول میں جاگنگ کرتے دور نکل گئے۔ نہ گرد و غبار نے منہ ڈھکا نہ تھکن کا احساس ہوا۔ اس بات سے دل خوش نہیں ہوا۔ برسوں کی عادت ایک دن میں کیسے جاتی۔ دھول مٹی نہ ہو پھر کیا لطف۔ تین میل کا چکر لگا کر واپس گھر آئے تو عجیب سی خوشبو نے استقبال کیا۔ بھاوج نے بتایا ” نہاری پک رہی ہے ” ۔ دوسرے دن پائے، تیسرے دن حلیم۔ پھر جو دعوتوں کا سلسلہ چلا تو گردے، کلیجی، مغز، بریانی، فیرنی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا ان لوگوں کے نہاری خلوص، پائے محبت، حلیم مہمان داری کو کیسے روکیں؟

    امریکہ جانے میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ سلاد کھائیں گے، پھلوں کا رس پئیں گے۔ ایک آدھ دبلا کرنے کی دوا استعمال کریں گے تو لوگ چہرے کی شادابی اور جسم کی فٹنس دیکھ کر حیران ہوں گے۔ لیکن امریکہ میں پاکستانی ہمیں نہاری، پائے سے مرعوب کر رہے تھے۔

    جس دن ہم امریکہ پہنچے اس کے دوسرے دن بقر عید تھی۔ دوسرے دن دس بجے بھائی ہمیں گاڑی میں سوار کر کے ایک باڑے کی طرف چلا قربانی کے لئے۔

    ایک کمرے میں مشین پر گوشت کاٹتا قصائی کھڑا تھا۔ ہمارے بھائی نے کہا: ” قربانی کے لئے بکرا چاہیے۔”

    اچانک مشین بند ہو گئی۔ اس نے برابر کے نل سے ہاتھ دھوئے اور جھٹ ہم سے ملا لیا۔ ہمارا ہاتھ چھوڑ کر وہ اندر کے کمرے میں گیا اور ایک بکرے کو کان سے پکڑ لایا۔ مول تول ہونے لگا۔ وہ اسّی ڈالر سے کم پر آمادہ نہ تھا۔ بھائی ضد کرنے لگا۔

    قصاب بولا ” میں کچھ اور دے دوں گا۔ ” اتنے میں اندر سے ایک اور بکرا نمودار ہوا۔ قصاب نے اس کی ٹانگ پکڑ لی، ہم سمجھے کچھ اور میں اس کی ٹانگ کاٹ کر دے گا۔ لیکن اس نے ٹانگ چھوڑ کر دائیں طرف سے ایک ڈبہ اٹھا کر دیا۔ اس میں ایک درجن انڈے تھے۔

    بھائی نے کہا صرف ایک درجن، قصاب نے ایک ڈبہ اور پیش کر دیا۔ اور بولا۔۔” بس اب چپ رہنا۔”
    بھائی نے اسّی ڈالر کا چیک کاٹ کر دیا۔ اسی لمحے بکرے کو زمین پر لٹا کر چھری پھیر دی گئی۔ہمیں ایک ڈر تھا۔ یہ سارا گوشت، پائے، مغز، گردوں اور کلیجی کے ساتھ کھانا پڑے گا اور آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوا۔ وہ سارا گوشت ہمارے گوشت میں آ ملا۔ اور اب ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

    شوکت صاحب ہمارے بھائی کے سسر ہیں۔ انہیں سیر و سیاحت کا شوق ہے۔ اب پروگرام بننے لگا کہ کھلی فضا میں پکنک منائی جائے بھلا ہمیں کیا اعتراض۔ جارج لیک کا پروگرام بنا۔ البنی سے ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس کے لئے شوکت صاحب کے ہم نام شوکت علی خان کو فون کیا گیا کہ ٹرک لے کر آ جاؤ، ہم پریشان ہو گئے ۔ بھلا ٹرک کیا کام۔ پھر اس میں کس طرح بیٹھیں گے۔ شوکت علی خان اپنی ایئر کنڈیشن ٹویوٹا ویگن لے آئے۔ یہ ٹرک تھا۔ شوکت علی خان نے لیک ایک گھنٹے سے پہلے پہنچا دیا۔

    یہاں جھیل کی سیر کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جہاز تھے جن میں ایک گھنٹے سے ساڑھے چار گھنٹے کی سیر شامل ہے۔ اس میں جاز اور رقص شامل ہے۔

    ہم نے دریافت کیا۔ "رقاصہ ساتھ لانی ہو گی یا جہاز مہیا کرے گا۔”

    جواب ملا، ” یہ اپنی صلاحیت اور ہمّت پر ہے۔”

    (قمر علی عباسی کے سفر نامہ امریکہ مت جیو سے اقتباس)