Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • فراق گورکھپوری سے ایک یادگار ملاقات

    فراق گورکھپوری سے ایک یادگار ملاقات

    پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکا کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے ناراین پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔

    ان سے معلوم ہوا کہ الٰہ آباد میں وہ فراق گورکھپوری کی انڈر گریجویٹ کلاس میں تھیں اور ان سے ذاتی طور پر انس رکھتی تھیں۔ میں چونکہ شعبۂ انگریزی کی لٹریری سوسائٹی The Three Hundred کا پروفیسر انچارج تھا، میں نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ اب کے جب وہ اپنے والدین سے ملنے الٰہ آباد جائیں تو فراق گورکھپوری صاحب کو راضی کریں کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک توسیعی لیکچر دینے کے لیے تشریف لائیں۔ ہم ٹرین سے فرسٹ کلاس کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی رہائش کا گیسٹ ہاؤس میں بندوبست ہو گا۔اور میں ذاتی طور پر ایک چپراسی کو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ان کے پاس حاضر رہنے کا انتظام کر دوں گا، اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود بھی موجود رہوں گا۔

    فراق گورکھپوری آئے۔ آڈیٹوریم میں ان کی تقریر نے جیسے ہم سب کو مسحور کر لیا۔ شستہ انگریزی لہجہ، اس پر ہر پانچ چھ جملوں کے بعد اردو سے (موضوع سے متعلق) ایک دو اشعار، اور پھر انگریزی میں گل افشانی۔ یہ تجربہ ہم سب کے لیے نیا تھا، کیونکہ ہم تو کلاس روم میں صرف (اور صرف) انگریزی ہی بولتے تھے۔ ایک گھنٹہ بولنے کے بعد تھک گئے۔ میں چونکہ اسٹیج پر تھا اور مجھے بطور شاعر جانتے تھے، مجھے کہا کہ جب تک وہ تھرموس سے ’’پانی‘‘ پی کر سانس لیں گے، میں کچھ سناؤں۔

    میں نے اپنی ایک نظم انگریزی میں اور ایک اردو میں سنائی۔ تین چار گھونٹ ’’پانی‘‘ پینے اور دس پندرہ منٹ تک آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دَم ہو گئے۔ ایک بار پھر چالیس پنتالیس منٹوں تک بولے۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سبھی مسحور بیٹھے تھے، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ تب کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بھائی، کوئی کھانا وانا بھی ملے گا کہ نہیں!‘‘ اور تب طلبہ کو بھی خیال آیا کہ انہیں ہوسٹل کے میس میں کھانے کے لیے پہنچنا ہے، جس کا وقت گزر چکا ہے۔

    شام کو میں گیسٹ ہاؤس پہنچا تو انتظار ہی کر رہے تھے۔ میں وہسکی کی ایک بوتل اپنے اسکوٹر کے بیگ میں رکھ کر لایا تھا اور باورچی خانے میں سوڈے کی بوتلیں پہلے ہی لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر راج کمار بھی آ گئے۔ خاموش طبع انسان تھے اور بہت کم پیتے تھے، اس لیے گفتگو کا فرض ہم دونوں نے ہی ادا کیا۔ میں مودبانہ انداز سے ، لیکن کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتا اور پھر ان کے منہ سے گل افشانی شروع ہو جاتی۔

    ایک موضوع جو زیرِ بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تینوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں ، مسئلہ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے)۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ ‘‘ کو حالتِ جماع میں دیکھتا ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔

    فراق جیسے حالتِ استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوہی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لواطت تو خیر، …..میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اوّل و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔‘‘

    خوش ہو گئے۔ فرمایا، ’’کبھی الٰہ آباد آئیں تو غریب خانے پر بھی تشریف لائیں۔

    (بھارتی ادیب، شاعر اور نقّاد ستیہ پال آنند کے قلم سے)

  • گریش کرناڈ: بغیر کسی جھجک اور خوف کے اپنی بات کہنے والا

    گریش کرناڈ: بغیر کسی جھجک اور خوف کے اپنی بات کہنے والا

    گریش کرناڈ اور اننت مورتی کا تعلق کرناٹک سے تھا۔ انگریزی پر اہلِ زبان جیسی گرفت، مگر دونوں نے ادب میں ذریعۂ اظہار اپنی مادری زبان کنڑ (Kannada ) کو بنایا۔ دونوں فرقہ پرستی، تعصب اور معاشرتی تقسیم اور تصادم کے خلاف، روز بروز پھیلتے ہوئے اندھیرے میں روشنی کی علامت تھے۔ ضمیر کی آزادی کے علم بردار، بغیر کسی جھجک اور خوف کے اپنی بات کہنے والے۔

    اننت مورتی جن کا ناول ’سنسکار‘ جدید دور کے ہندوستانی فکشن میں ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ (اس ناول پر فلم بھی بن چکی ہے اور اردو میں ترجمہ کیا جا چکا ہے) وہ بھی اس قبیل کے انسان تھے۔ اننت مورتی اور گریش، دونوں ادب اور اخلاق، سیاست اور اخلاق کے تعلق میں گہرا یقین رکھتے تھے۔ دونوں معتوب ہوئے، دونوں نے کیریئر کے لحاظ سے ممتاز اور معروف سطحو ں پر زندگی گزاری، دونوں کا شمار ہمارے دور کے سب سے بااثر پبلک انٹلکچوئلز میں کیا جاتا ہے۔

    اننت مورتی کی دوستی انتظار صاحب سے بھی تھی اور وہ بھی انتظار صاحب کے ساتھ بکر کے لیے شارٹ لسٹ ہوئے تھے۔ آصف فرخی نے ’’سفر کے خوش نصیب ‘‘ میں ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ دیار مغرب میں جب اننت مورتی اور انتظار والہانہ انداز سے گلے ملے تو سب کو حیرت ہوئی کہ بظاہر ایک دوسرے کے حریف ملکوں سے تعلق کے باوجود، یہ کیسی محبت ہے؟ گھر پر لڑتے ہیں، باہر محبت کرتے ہیں۔ گریش کرناڈ سے بھی انتظار صاحب کی پرانی ملاقات تھی۔ دونوں میں تخلیقی رویے کی سطح پر خاصی مماثلت ہے۔ ٹامس مان کی کہانی The Transposed Head سے دونوں نے استفادہ کیا ہے۔ انتظار حسین نے نرناری میں اور گریش کرناڈ نے ہیودن میں۔ ان کے متعدد ڈراموں کے ترجمے دیسی بدیسی زبانوں میں کئے جا چکے ہیں۔ ان میں اردو بھی شامل ہے، تغلق کی وجہ سے۔ اردو میں یہ ڈرامہ آصف فرخی نے منتقل کیا تھا۔ گریش کو کچھ لوگ اپنے زمانے کے ہندوستان کا سب سے اہم اور بڑا ڈرامہ نویس کہتے ہیں جس نے دیومالا اور تاریخ کو اس دور کے معاشرے اور مسائل کی فن کارانہ پیشکش کا وسیلہ بنایا۔

    گریش کرناڈ کی شہرت کا آغاز ان کے ڈرامے ’ییاتی‘ سے ہوا تھا۔ مہا بھارت کے اس معروف کردار کو انہوں نے انسان کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہوس پرستی کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ اس طرح دو زمانے ایک مرکزپر سمٹ آئے ہیں اور وقت، مقام کی قید سے آزاد ایک لازوال سچائی کے بیان کا وسیلہ بن گئے ہیں۔ اسی کردار کو مرکز میں رکھ کر رام چندرن نے چار مہیب پینلز پر مشتمل اپنا میورل ییاتی خلق کیا تھا جس کی نمائش عالمی پیمانے پر کی گئی، ابراہم القاضی کی طرف سے، اب یہ مہیب میورل نیشنل گیلری آف ماڈرن آرٹ، نئی دہلی کی ملکیت ہے۔ بلراج مین را نے میورل کی تکمیل کے موقع پر اپنے جریدے شعور کی طرف سے رام چندرن کی ڈرائنگز پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا تھا-

    گریش کرناڈ سے میری ملاقات ایک اتفاق کا نتیجہ تھی۔ کوئی بتیس تینتیس برس پرانی بات ہے۔ وہ اپنی دو دستاویزی فلمیں بنا رہے تھے Lamp in A Niche اور The World is a Bridge ۔ ان میں پہلی فلم تصوف پر تھی، دوسری بھکتی کے موضوع پر۔ ایک صبح ان کا فون آیا کہ ملنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی روز شام کا وقت طے ہوا۔ وہ آئے۔ اپنی عام روش کے مطابق کھادی کے کرتے پاجامے میں ملبوس، پسینے میں شرابور۔ تصوف والی فلم کے سلسلے میں انہیں کچھ مدد چاہیے تھی۔ کچھ شوٹنگ دلی میں مہرولی کے علاقے کی، کچھ بستی حضرت نظام الدین اور چراغ دلی کے آس پاس ہونی تھی۔ اس کے بعد آگرہ، فتح پور سیکری اور اجمیر شریف جانا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اس سفر کے دوران میں ساتھ رہوں۔ فلم کا اسکرپٹ شمع زیدی نے لکھا تھا۔

    پروگرام طے ہونے کے بعد کام شروع کیا گیا، حضرت خواجہ بختیار کاکی کے مزار اور قطب مینار کے علاقے سے جو دور دور تک حیرت انگیز آثار سے بھرا ہوا ہے۔ (اناماری شمل Annemarie Shimmel ) اپنے لیکچرز کے دوران قطب مینار کو ہمیشہ اپنا محبوب (My Beloved Qutab Minar ) بتاتی تھیں۔ سو سیڑھیوں سے بنے ہوئے مینار کا حسن ایک لازوال صلابت اور شکوہ رکھتا ہے۔

    گریش کرناڈ کے مزاج میں ایک عجیب غریب سادگی اور کام کرنے کے انداز میں ڈسپلن بہت تھی۔ وہ بڑے اور اہم مناصب پر فائز رہے۔ جہاں بھی رہے نیک نام رہے۔ پونا فلم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، انگلستان میں نہرو میوزیم اینڈ لائبریری کے سربراہ، سنگیت ناٹک اکیڈمی کے صدر، مغرب کی کئی یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر، مگر راہ چلتے پہچان لیے جانے کے باوجود کوئی ناز نخرہ نہیں، کوئی تصنع اور نخوت نہیں۔ کوئی ہاؤ بھاؤ نہیں۔ عام انسانوں سے انہی کی سطح پر ملنا اور بے تکلف باتیں کرنا اور کیسی بے مثال! گونجیلی آواز! ہم صبح سویرے مہرولی کی طرف چل پڑتے تھے تاکہ دھوپ میں تیزی آنے سے پہلے اپنا کام پورا کر لیں۔ کسی کتبے یا پتھر کا ایک چھوٹا سا شاٹ لینے سے پہلے بھی وہ اپنے آپ کو پوری طرح مطمئن کرنا چاہتے تھے۔ اس کا مفہوم کیا ہے؟ پس منظر کیا ہے؟ … عمر کیا ہے؟ قطب مینار کے اطراف آج بھی ایک ایک گم گشتہ زمانے کا اور مہرولی کی آبادی میں ایک کھوئی ہوئی دلی کا سراغ ملتا ہے۔اپنی فلم میں انہوں نے دونوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

    مہرولی کے بعد بستی حضرت نظام الدین، حسن ثانی نظامی صاحب کا گھر، قرۃ العین حیدر کے، لفظوں میں مرحوم دلی کی بھولی بسری روایات کا آخری مرکز ! وہاں دو تین روز کی مصروفیت تھی۔ گریش کو حیرانی اس بات پر ہوئی کہ حسن ثانی صاحب صبح کے ناشتے پر بھی اصرار کرتے تھے۔ اپنی وضع اور روایت کے مطابق ان کا اہتمام بھی زبردست ہوتا تھا۔ پہلی صبح ہم وہاں پہنچے تو حسن صاحب کے ایک خدمت گار نے ہمیں بیٹھتے ہی ایک سینی میں ناشتہ لا کر رکھ دیا … دلّی کا روایتی قورمہ اور چپاتیاں۔ گریش بلاتکلف بیٹھ گئے۔ چند منٹ بعد حسن صاحب آئے اور یہ منظر دیکھا تو اپنے ملازم سے خفا کہ اس نے ان کے عام مریدوں کے لیے بھاری مقدار میں تیار کیا جانے والا ناشتہ لا کر رکھ دیا تھا۔ دیر تک معذرت کرتے رہے، پھر سب کو ساتھ لے کر ایک الگ کمرے میں داخل ہوئے۔ وہاں میز انواع و اقسام کے پکوانوں سے آراستہ تھی … حلوے، پراٹھے، کباب، کوفتے، پھل، مٹھائیاں … گریش یہ سب دیکھ کر بس مسکرائے اور بیٹھ گئے۔ ان کے لیے یہ اتفاق ایک معاشرتی تجربہ بھی تھا۔

    آگرہ، فتح پور سیکری اور اجمیر شریف کا سفر، ایک الگ قسم کا تجربہ تھا۔ راستے میں جگہ جگہ ڈھابے۔ ہم بالعموم وہیں کہیں رک کر کھانا کھا لیتے تھے۔ کھانے کے معاملے میں گریش کا مزاج بھی انتظار صاحب جیسا تھا۔ ڈھابوں میں آلو گوبھی کے پراٹھے سے لے کر کھوئے کے پراٹھے تک، ہر قسم کی بدپرہیزی کا سامان ملتا تھا۔ ایک بار بستی نظام الدّین میں انتظار صاحب اور میں ٹہل رہے تھے۔ رات کے کوئی آٹھ بجے۔ بھوک محسوس ہوئی تو وہیں ایک ہوٹل میں کھانا کھا لیا۔ وہاں سے نکلے تو حلوے پراٹھے کی دکان پر نظر پڑی۔ انتظار صاحب نے کہا… کھانا ہمیں یہاں کھانا چاہیے تھا۔ تو گریش کرناڈ کا بھی یہی حال تھا۔ جو سامنے آیا، کھا لیا۔ کہیں کوئی تکلف نہیں، بس منہ کا مزہ نہ بگڑے۔

    اجمیر شریف میں ہمارے علی گڑھ کے فارغ التحصیل ایک دوست وہاں کے گدی نشینوں میں تھے۔ انہوں نے گریش کرناڈ کے لیے درگاہ کے پرانے تبرکات کی فلم بندی کا انتظام بھی کر دیا۔ مگر پہلی ہی صبح کو ایک انوکھا تماشا سامنے تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ گریش سر پر ایک بڑے سے ٹوکرے میں، پھولوں سمیت، ریشمی چادر اور غالباً نذرانے کا لفافہ لیے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ میں نے کہا، یہ کیا؟ بولے۔ شمیم صاحب رسم تو نبھانی ہی چاہیے، پھر متین صاحب (ہمارے دوست)… کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
    درگاہ شریف کے صحن میں مغلیہ عہد کے دو عظیم الجثہ دیغوں (دیگوں) میں زائرین اپنے نذرانوں کی رقم ڈالتے رہتے ہیں۔ شام تک کوئی کہتا ہے ہزاروں، کسی کا اندازہ یہ ہے کہ لاکھوں جمع ہو جاتے ہیں۔ انہیں دیغوں میں لنگر کا کھانا پکتا ہے۔ لنگر کی تقسیم کا منظر بہت دل خراش ہوتا ہے۔ دھکم پیل، شور شرابہ اور کچھ سخت کلامی کا سلسلہ، آپس میں ناقابل بیان بے تکلفی، غرضیکہ اس منظر کو کیمرے میں منتقل کرتے وقت گریش کرناڈ اور ان کی پوری ٹیم بہت بدحظ ہوئی۔ اس آزمائش سے نکلنے کے بعد گریش نے کہا۔ اس کے لیے تو ہمیں ’کچھ اور انتظام کرنا ہو گا‘۔ کچھ اور انتظام سے مراد یہ کہ چالیس پچاس افراد کے لیے کھانے کا الگ سے انتظام ہو، بطور لنگر۔

    متین صاحب نے سارا انتظام کر دیا۔ ایک حجرے میں لنگر کا کھانا ہوا، خاموشی کے ساتھ ۔ گریش کرناڈ کو الجھن اس بات کی تھی کہ ان کی فلم میں لنگر کی تقسیم کے منظر سے عام دیکھنے والے، جو تصوف اور درگاہوں کی روایت سے، رسموں سے واقف نہیں، بدمزہ نہ ہوں۔ گریش کرناڈ اسی فلم کے سلسلے میں کسی ’زندہ صوفی‘ سے ملنے کے متمنی بھی تھے۔ میں نے کہا، زیادہ تو بہروپیے ہیں، ہاں دلّی میں ایک بزرگ ہیں، زید ابوالحسن فاروقی صاحب، نقشبندیہ سلسلے کے بزرگ۔ وقت طے کرنے کے بعد ہم نے ان کی خانقاہ کا رخ کیا۔ ترکمان گیٹ کے قریب اس گلی میں جہاں رضیہ سلطانہ کی قبر ہے۔ یہ خانقاہ بھی اپنے آپ میں ایک دنیا ہے۔ زید میاں کے حجرے کے سامنے مرزا مظہر جان جاناں کی قبر، کچھ اور قبریں۔ ایک بیش قیمت کتب خانہ۔ ہر طرف خاموشی اور پاکیزگی۔ اس فضا کو بہت خوبصورتی کے ساتھ فلمایا گیا۔

    گریش کرناڈ ہمارے زمانے کے سب سے روشن خیال، بے تعصب اور روادار انسانوں میں تھے۔ مسلمان اقلیت جن حالات سے دوچار ہے، اس سے گریش بہت فکرمند تھے۔ گوری نیکش کی ہلاکت سے پہلے تین معروف دانش وروں اور اساتذہ کا (پروفیسر پنسارے، پروفیسر دھایولکر، پروفیسر کال برگی) یکے بعد دیگرے قتل اور روز بروز بگڑتے ہوئے ماحول سے پروفیسر اننت مورتی اور گریش کرناڈ، دونوں بہت دل گرفتہ تھے۔ دونوں نے زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی، دونوں سماجی سطح پر سرگرم رہے۔ دونوں کو بہت خراب حالات سے گزرنا پڑا۔ دونوں نے کیا کچھ نہ سہا۔ مگر اپنے ضمیر اور اظہار کی آزادی کا سودا نہ کیا۔

    گریش کرناڈ سے پہلے اننت مورتی رخصت ہوئے۔ ان کے مخالفین نے انہیں ہوائی سفر کا ٹکٹ بھیج دیا تھا کہ اگر یہاں رہنا انہیں پسند نہیں تو جب چاہیں یہاں سے پڑوس کے ملک منتقل ہو جائیں۔ طعنے، تشنے، گالیاں، دھمکیاں، آئے دن کا قصہ۔ روشن نظری اور رواداری کے لیے یہ زمین بہت تنگ ہے، ادھر بھی اور ادھر بھی۔ ہماری دنیا ایک نئے دور، ظلمت کے دائرے میں داخل ہو چکی ہے۔

    اور گریش کرناڈ نے تو ہمیشہ زندگی کا وہ انداز اختیار کیا جب بہرحال نامقبول ہونا تھا۔ انہوں نے ٹیگور کے بارے میں اپنی یہ رائے کبھی نہیں چھپائی کہ وہ ڈرامہ نگار دوئم درجے کے تھے۔ اسی طرح نائپال کو نوبیل انعام ملنے پر انہوں نے بیباکانہ کہا کہ جو ادیب کسی خاص قوم یا فرقہ کو مسلسل تعصب اور نفرت کا نشانہ بناتا چلا آرہا ہے (اپنی دونوں متعلقہ کتابوں Among the Believers اور Inside Islam میں) اسے اس (عالمی) اعزاز کا حق نہیں پہنچتا۔ بنگلور ایئرپورٹ کو وہ ٹیپو سلطان کے نام سے منسوب کرنا چاہتے تھے۔ زندگی کے بہت سے معاملات میں اجتماع کے بالمقابل ایک اکیلی آواز سچائی کی آواز ہوتی ہے، مبنی برحق اور معقول۔

    انسانی تعلقات کی سطح پر گریش کرناڈ ہمیں پرانے دور کی شرافت، وضع داری اور رکھ رکھاؤ کی یاد دلاتے تھے۔ ہمارا ملنا جلنا زیادہ نہیں تھا، اکا دکا خط اور گھریلو تقریبات میں شرکت، مگر ان تمام آداب اور روایات کے ساتھ جو اب ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ انہیں ہماری مشترکہ تاریخ سے، طرز زندگی سے، زبان اور کلچر سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ انہیں اپنی قدیم روایت، دیومالا، فکری اور تہذیبی میراث کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور عقلیت پسندی کے نئے میلانات سے بھی قلبی تعلق تھا۔ اس شیرازے کو بکھرتے ہوئے دیکھنا اتنا ہی غم آلود تجربہ تھا جتنا گھر کے طاق میں رکھے ہوئے چراغ کا ناوقت بجھ جانا۔ مگر آندھی میں اپنے چراغوں کی حفاظت کہاں تک کی جا سکتی ہے۔ سو، گریش کرناڈ بھی ایک پرچھائیں کی طرح بالآخر چپ چاپ چلے گئے۔

    (بلند پایہ ناقد، دانش وَر، ادیب اور ڈرامہ نگار پروفیسر شمیم حنفی کے قلم سے)

  • غدر اور غالب کی ’’دستنبو‘‘

    غدر اور غالب کی ’’دستنبو‘‘

    غدر ہوا اور مغل سلطنت، جو برائے نام سہی ایک عظیم الشّان روایت کا نشان اور ایک مخصوص تہذیب کی علامت تھی، ختم ہو گئی۔

    بہادر شاہ ظفرؔ قید کر لئے گئے۔ ان کے حامیوں اور حمایتیوں، ان کے متوسلین اور متعلقین پر آفتیں آئیں اور اس انتشار میں برطانوی حکومت کا تسلط ہوا، جس کے معنی تھے ایک جاگیردارانہ نظام، ایک نیا صنعتی نظام، ایک نئی دیہی معیشت، نئے طبقاتی تعلقات اور نیا انداز فکر، نئی امیدیں اور نئی مایوسیاں، مگر یہ سب دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لئے تھا۔

    غدر کو کس نے کس نظر سے دیکھا، یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن غالبؔ نے اسے جو اہمیت دی ہے وہ نظر انداز کرنے کی چیز نہیں۔ اس سے غالبؔ کے ذہن کا پتہ چلتا ہے۔

    اپنے خطوط میں انھوں نے غدر کا تذکرہ کثرت سے کیا ہے۔ یہی نہیں ایک مختصر سی کتاب بھی جو روزنامچے کی حیثیت رکھتی ہے، دوران غدر میں ’’دستنبو‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہ ایک ذاتی یادداشت ہونے اور تاثرات سے لبریز ہونے کے باوجود بہت کچھ نہیں بتاتی۔ خطوط اور دستنبو کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ،

    (1) غالبؔ غدر کو کسی مخصوص طبقہ کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ غدر کی طبقاتی نوعیت ان کے سامنے نہ تھی۔

    (2) انھوں نے رست خیز بے جا کو یہ کہہ کر ظاہر کیا ہے کہ وہ بعض وجوہ سے اس ہنگامے سے خوش نہ تھے۔

    (3) غدر کے زمانے میں ذاتی تکلیفیں اور آلام بھی ان کے لئے روح فرسا تھیں۔

    (4) ابتدائی خطوط میں یہ خیال بار بار ملتا ہے کہ غدر کے جو حالات ہیں لکھ نہیں سکتا۔

    (5) امرا اور رؤسا اور شہزادوں پر جو مصیبتیں آئیں، ان کے ذکر میں دوستی اور ذاتی غم کا اظہار زیادہ ہے۔

    (6) انگریزوں میں سے جو مارے گئے ان سے ہمدردی ہے۔ اس ہمدردی میں بھی ذاتی دوستی اور شناسائی کا خیال زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی ان کی خوبیوں کا بھی احساس ہے۔ ’’دستنبو‘‘ میں بھی انھیں ’جہانداران داد آموز، دانش اندر نکو خوائے نکو نام‘‘ کہا ہے۔

    (7) غالبؔ کو غدر کے غیرمنظّم ہونے کا احساس ہے۔

    (8) انھیں اس کا بھی غمناک احساس ہے کہ انگریزوں نے غدر کے فرو ہونے کے بعد خاص طور سے مسلمانوں کو سزائیں دی ہیں اور دہلی سے باہر نکال دیا ہے۔

    (9) باغیوں نے قتل و غارت، لوٹ مار میں امتیاز برتا، غالبؔ اس کے شاکی ہیں لیکن وہ انگریزوں کی ان زیادتیوں سے بھی خوش نہیں جو غدر کے بعد عمل میں آئیں۔

    (10) غالبؔ کو مغل حکومت کے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کا کوئی خاص غم نہیں معلوم ہوتا حالانکہ آخری چند سال ان کے دربار دہلی سے وابستگی کے سال تھے۔

    ان باتوں کی روشنی میں اگر غالبؔ کے رجحان کا اندازہ لگایا جائے تو واضح ہوگا کہ غدر کے متعلق غالبؔ کوئی گہری سیاسی رائے نہ رکھتے تھے کہ جب حکومت بدلی تو انھیں حیرت نہ ہوئی بلکہ ان کے لئے یہ کوئی ایسی بات ہوئی جس کا انھیں پہلے ہی سے یقین تھا۔ انگریز غدر کے بعد بہت پہلے ہی سے سیاست اور انتظام مملکت میں اتنے دخیل تھے کہ جب وہ باقاعدہ حاکم ہو گئے تو ان لوگوں کو جنھیں غدر سے کوئی نقصان نہیں پہنچا کچھ زیادہ فرق معلوم نہیں ہوا۔ غالبؔ کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ غدر کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلی کو ایک حقیقت اور انگریزی حکومت کو ایک نئی سلطنت سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ اس لیے ان کے اندر اس نئی حکومت کے خلاف کوئی جذبہ نہیں معلوم ہوتا۔

    ان باتوں سے غالبؔ کی وطن دوستی یا قوم پرستی کے متعلق کوئی ایسا نقطۂ نظر قائم کرنا جو واضح طور پر انھیں پرانے جاگیردارانہ نظام کا دشمن، نئی انگریزی سرکار کا خوشامدی بنا دے، صحیح نہ ہوگا۔ غالبؔ کا ادراک غدر کے معاملہ میں ایک حقیقت نگار کا ادارک تھا اور تصور پرست ہونے کے باوجود حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض منطقی نگاہ رکھنے والوں کو یہ بات تضاد کی حامل نظر آئے گی لیکن تھوڑے سے غور سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ غالبؔ کا خلوص اور نظریۂ فن تھا، جو انھیں عقائد میں عینیت پسند اور صوفی بنانے کے باوجود حقیقت پسندی کی طرف مائل کرتا تھا۔ ان کے یہاں شعر اس طرح ڈھلتے تھے،
    بینیم از گداز دل، در جگر آتشے چوسیل
    غالبؔ اگر دمِ سخن، رہ ضمیر من بری

    ’’دستنبو‘‘ اور ’’مہر نیمروز‘‘ دیکھنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ غالبؔ کے پیش نظر کوئی فلسفۂ تاریخ بھی تھا یا نہیں؟ اس کا اندازہ ہو سکے تو غالبؔ کے شعور کا بھی اندازہ لگایا جا سکے گا۔ کیونکہ ایک شخص کا اندازۂ شعور ہی زندگی اور اس کے مظاہر کے متعلق اس کا رویہ متعین کرتا ہے۔ ’’مہر نیمروز‘‘ آغاز آفرینش سے لے کر ہمایوں کے وقت تک کی مختصر تاریخ ہے۔ یہ اس مجوزہ پرتوستان کا پہلا حصہ ہے جس میں تیموری بادشاہوں کی تاریخ بہادر شاہ ظفرؔ تک لکھنے کا کام غالبؔ کے سپرد ہوا تھا۔ غالبؔ اس کا پہلا حصہ ہی لکھ سکے تھے کہ دنیا بدل گئی اور دوسرا حصّہ ’’ماہ نیم ماہ‘‘ وجود ہی میں نہ آیا۔

    (غالب کا تفکّر از سید احتشام حسین سے اقتباسات)

  • یومِ‌ وفات: چاند نگر کے انشاء جی کی باتیں

    یومِ‌ وفات: چاند نگر کے انشاء جی کی باتیں

    "بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے، ابنِ انشاء کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے۔” آج کئی ادبی جہات کے حامل اور چاند نگر کے مالک ابنِ انشاء کی برسی ہے۔

    ابنِ انشاء کے لیے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے قلم کے لیے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والی کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ اردو طنز و مزاح کے سرخیل سمجھے جانے والے مشتاق احمد یوسفی ہیں۔

    اردو نظم اور نثر پر حاوی ہوجانے والے ابنِ‌ انشاء نے شاعری، مزاحیہ نثر، سنجیدہ مضامین، کالم، سفر نامے لکھے اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے۔ ابن انشاء ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنّف، مترجم، مزاح نگار اور شاعر تھے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کی ہر تحریر ان کے منفرد اسلوب اور موضوع کی وجہ سے بہت مقبول ہوئی۔ انشاء جی کے قارئین اور مداحوں کی بڑی تعداد ادبی رسائل، اخبار اور کتابیں‌ ان کی تحریر پڑھنے کے لیے خریدا کرتی تھی۔ شاعری کے علاوہ سفر ناموں، تراجم اور مختلف مضامین پر ان کی تصنیف اور تالیف کردہ کتب اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید نے سفرناموں پر مبنی اپنی ایک کتاب میں انشاء جی کے اسلوب اور طرزِ بیان پر لکھا ہے، ’’چلتے ہو تو چین چلیے ‘‘،’’دنیا گول ہے‘‘،’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘‘اور”آوارہ گرد کی ڈائری‘‘میں ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بیگانہ روی سے نظر ڈالتا ہے لیکن در حقیقت اس کی آنکھ اشیاء کے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔

    ابن انشا کی شخصیت میں سرشار کے سیلانی اور میر امن کے درویش دونوں کی خصوصیات جمع تھیں، چنانچہ ان کے شوق کی کمی بھی نہیں تھی، اور وحشت کا توڑا بھی نہیں تھا۔ فقط سبب کی حاجت ہوتی تھی۔ اور یہ سبب کتابی دنیا کی کوئی غیر ملکی کانفرنس مدت مدید کا وقفہ ڈالے بغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ابن انشا کے بیشتر سفر سرکاری نوعیت کی کانفرنسوں کی بدولت ہی ظہور میں آئے اور سفروں کا حال اخباری ضرورتوں کے لیے لکھا گیا۔

    ابن انشا کی منفرد خوبی ملکی اور غیر ملکی عادات کے درمیان موازانہ، رواں تبصرہ اور قول محال کی بوالعجبی ہے۔

    ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید مزید لکھتے ہیں، انشا کے طنز میں فطری نفاست ہے اور اس کا مزاج غیر جذباتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جملوں کے بین السطور معانی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

    ابنِ انشاء کو سرطان کے مرض نے ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ابنِ انشاء کی میّت کراچی لائی گئی اور اسی شہر میں پاپوش کے قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔

    ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا اور بعد میں باتیں انشاء جی کا قلمی نام اپنا لیا۔ وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    شاعر اور ادیب ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے بعد ان کے شعری مجموعے ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ کے نام سے سامنے آئے۔ ابنِ انشاء نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ شاعری اور نثر دونوں‌ میں انھوں‌ نے بچّوں کی دل چسپی اور ذہنی سطح‌ کے مطابق ان کی تربیت اور فکری راہ نمائی کی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے لکھے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ ان میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔ مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ ابنِ انشاء کے خطوط بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب ادبی حلقوں اور ان کے قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ خطوط کتابی شکل میں موجود ہیں۔

    ابنِ انشاء نے شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردی تھی لیکن اصل نکھار اس وقت آیا جب تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور آئے، لاہور اس زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ تھا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، ادبی مباحث، مشاعرے، ادبی مجالس اور مختلف تنظیموں کے ہفتہ وار اجلاس میں تخلیقات پر بات کی جاتی تھی جس میں شرکت نے انشاء کے ادبی رجحانات اور ان کے افکار پر بھی اثر ڈالا۔ ابنِ‌ انشاء ملکی ادب کے ساتھ عالمی سطح پر شہرت رکھنے والے تخلیق کاروں کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہے اور سیکھنے سکھانے کا سفر جاری رکھا۔

    ابنِ انشا کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

    کل چودھویں‌ کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

    اس غزل کو پاکستان اور بھارت کے کئی گلوکاروں نے گایا اور ان کی یہ غزل بھی مشہور ہوئی۔

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
    جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
    کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
    یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
    اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

    ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور باذوق حلقوں‌ میں‌ بھی مقبول تھے۔ انھوں نے اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور مختلف علمی و ادبی شخصیات کی زندگی کے بعض واقعات بھی تحریر کیے جو پُرلطف بھی ہیں اور کسی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابنِ‌ انشاء پر بھی ان کے ہم عصروں نے مضامین لکھے۔ ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا کے ایک عشق کا قصّہ یہاں نقل کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔

    جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

    اب انشاء جی کے قلم سے نکلی ایک تحریر بھی پڑھ لیجیے۔ یہ شگفتہ تحریر اردو کے اس بے مثال تخلیق کار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ابنِ‌ انشاء لکھتے ہیں:

    ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا۔

    کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔”

    میں نے چائے پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے۔ "ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے۔

  • اردو غزل کا محبوب

    اردو غزل کا محبوب

    بیسویں صدی میں اردو غزل کا محبوب ایک بالکل نئے روپ میں منظرِ عام پر آتا ہے۔ یہ نیا روپ ایک ایسے نئے معاشرے، ایک ایسی نئی ‏تہذیب کا پرتو ہے جو بیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی برق رفتاری سے پھیلنے لگی ہے۔

    اب نہ صرف جمہوریت اور حبُّ الوطنی کے ایک ‏مضبوط تصوّر نے بادشاہت کے تصوّر کی جگہ لے لی ہے بلکہ عورت بھی صدیوں کی گہری نیند سے گویا بیدار ہوگئی ہے اور اس کے انداز ‏و اطوار سے خود داری اور وقار مترشح ہو رہا ہے۔ چنانچہ نئی صدی میں طوائف سوسائٹی کا مرکز نہیں رہی اور اردو غزل کے محبوب میں ایک ‏عورت کا پرتو صاف دکھائی دینے لگا ہے۔

    حسرتؔ کے کلام میں اس نئی عورت کے وجود کا احساس ہوتا ہے اور ان کے بعد دوسرے غزل ‏گو شعرا کے ہاں تو اس نئے رجحان نے ایک واضح اور قطعی صورت اختیار کرلی ہے۔ ‏

    یہ نئی عورت حرم کی چار دیواری کے اندر رہنے والی ایک روایتی ’گونگی‘، ’اندھی‘ اور’بہری‘ عورت نہیں۔ اس کے برعکس اس عورت کو نہ ‏صرف احساسِ حسن ہے بلکہ وہ زندگی کی دوڑ میں بھی خود کو مرد کا ہم پلّہ سمجھتی ہے اور زندگی کی مسرتوں میں خود کو برابر کا حصہ دار قرار ‏دیتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ بھی ہے اور طرّار بھی۔ اس میں محبت کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور اس نے نئی روشنی کے تحت نئے رجحانات کو ‏قبول بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اردوغزل نے اس نئی صورت حال اور اس نئی عورت سے واضح اثرات قبول کیے ہیں اور اس کے محبوب ‏میں نئی عورت کے بہت سے میلانات سمٹ آئے ہیں۔ ‏

    نئی عورت کی ذہنی بلندی، نزاکت اور شعریت کے پیشِ نظر غزل گو شاعر کو اظہارِ عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ‏ایک ایسا پیرایۂ بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے۔ اس سے بیشتر اوقات شاعر کے جذبات محبت میں ‏عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود شاعر کے ہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ دوسرے ‏لفظوں میں غزل گو شاعر کے ہاں جذبے اور فکر کا ایک خوش گوار امتزاج رونما ہوا ہے، جس کے باعث جذباتِ محبت میں ضبط، توازن اور ‏رفعت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چند اشعار قابل غور ہیں۔ ‏

    اک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی
    اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے ‏
    فراقؔ

    کبھی تم یاد آتے ہو کبھی دل یاد آتا ہے ‏
    ہر اک بھولا ہوا منزل بہ منزل یاد آتا ہے ‏
    حفیظؔ ہوشیار پوری

    حسن پابندِ رضا ہو مجھے منظور نہیں ‏
    میں کہوں تم مجھے چاہو مجھے منظور نہیں ‏
    حفیظ جالندھری

    خیر ہو تیری کم نگاہی کی
    ہم کبھی بے نیازِ غم نہ ہوئے ‏
    باقیؔ صدیقی

    اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں ‏
    ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں ‏
    فیضؔ

    جذباتِ محبّت کے اظہار میں یہ سمٹا سمٹا سا انداز اس بات پر دال ہے کہ شاعر بتدریج محبت کے ایک محدود ماحول سے اوپر اٹھ کر عشق کی ‏ارفع اور وسیع تر فضا میں سانس لینے لگا ہے اوراس کے ہاں ایک گہری لگن اور کسک سطح کے نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے دو ضمنی نتائج بھی ‏برآمد ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض غزل گو شعرا کے ہاں محبوب ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کی منزل نہیں رہا، کیوں کہ محبوب سے قرب ‏کے باوصف شاعر کی ذہنی تشنگی بدستور قائم ہے۔ اس سے غزل میں محبوب کی مرکزی حیثیت کو ایک صدمہ پہنچا ہے۔ دوسروں کے ہاں ‏محبوب نے واضح طور پر ایک نصب العین یا آئیڈیل کا روپ دھار لیا ہے اور انہوں نے اپنے مسلک کے اظہار میں محبوب کو محض روایتاً ‏مخاطب کیا ہے۔ یہ چند اشعار ان نئے رجحانات کی غمازی کرتے ہیں۔

    تیرا کرم کرم ہے مگراس کا کیا علاج
    ہم نامراد خاک بسر مطمئن نہیں ‏
    احسان دانشؔ

    مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
    معاملاتِ من و تو نکل ہی آتے ہیں ‏
    تاثیرؔ

    دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
    تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے ‏
    فیضؔ

    خبر نہ تھی کہ غمِ یار جس کو سمجھے تھے ‏
    اسی کا روپ غمِ روزگار ٹھہرے گا
    عابدؔ

    آپ اسے جو چاہیں کہہ لیں عشق کبھی کہتے تھے لوگ
    ہم سے دل کی بات جو اب پوچھو تو ایک کسک تک ہے ‏
    قیوم نظرؔ

    ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے ‏
    ہمارا عشق ہوس سے بلند و بالا ہے ‏
    ظہیرؔ کاشمیری

    بحیثیت مجموعی غزل کے جدید ترین دور میں محبوب نے یقیناً ایک نیا روپ اختیار کرلیا ہے، تاہم قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ جدید دور میں بھی ‏غزل کی ایک مضبوط اور پائیدار روایت کے زیرِ اثر محبوب کے سراپا میں کوئی ایسی جیتی جاگتی عورت نظر نہیں آتی جس کی اپنی ایک انفرادیت ‏ہو اور جو اس انفرادیت کے باعث انبوہ سے قطعاً علیحدہ نظر آ رہی ہو۔ چنانچہ جدید دور میں بھی غزل کا محبوب ایک مثالی ہستی ہے اور اس ‏میں نہ صرف اس دور کی ایک ’مثالی عورت‘ دکھائی دیتی ہے بلکہ اس میں چند ایسی صفات بھی ہیں جو شعرا کے اجتماعی ردعمل سے پیدا ‏ہوئی ہیں۔ یہ صورتِ حال غزل کا تاریک ورق نہیں ہے بلکہ اس سے غزل کے اس بنیادی رجحان کا پتہ چلتا ہے جس کے زیرِ اثر غزل گو شاعر ‏نے حقیقت کے تجزیاتی مطالعہ کے بجائے اس پر ہمیشہ ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے اور زندگی کو کرداروں یا ٹکڑوں کے بجائے مثالی نمونوں یا ‏ثابت حقیقتوں کے پیکر میں پیش کیا ہے۔

    (ماخذ: تنقید اور احتساب از ڈاکٹر وزیر آغا)

  • لوک داستانوں پر بننے والی فلمیں

    لوک داستانوں پر بننے والی فلمیں

    قدیم داستانیں، حکایات اور لوک کہانیاں ہر زبان کے ادب کا حصّہ ہیں جو کسی خطّے کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور اقوام کے طور طریقوں اور ان کے مشاہیر کا تعارف بھی کرواتی ہیں اور انسان کے صدیوں‌ پر پھیلے ہوئے سفر کو ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

    پاکستان کے مختلف علاقوں اور زبانوں میں لوک ادب صدیوں سے عوام النّاس میں مقبول ہے۔ ان میں رومانوی داستانیں اور عشق و محبّت کے لازوال قصّے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان داستانوں کے کردار برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

    یہ لوک داستانیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی کتابی شکل میں زندہ رہیں جب کہ دورِ جدید میں انھیں ڈراموں اور فلموں کی شکل میں محفوظ کیا گیا اور اس میڈیم کے ذریعے خاص طور پر رومانوی داستانوں کو لازوال شہرت اور مقبولیت ملی۔ یہاں ہم ان مشہورِ زمانہ لوک داستانوں کی بات کر رہے ہیں جن پر فلمیں بنائی گئیں اور یہ کہانیاں بہت مقبول ہیں۔

    پاکستان کی لوک داستانیں
    پنجاب کی مشہورِ زمانہ "ہیر رانجھا” ، "سوہنی مہینوال” ، "مرزا صاحباں” اور "دُلا بھٹی ” کے رومانوی قصے، وادیِ مہران کی "سسی پنوں”، "عمر ماروی”، "نوری جام تماچی” اور "سورٹھ” جیسی داستانوں کو فلم کے پردے پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان اور پختونخوا کے علاقوں سے "یوسف خان شیر بانو” ، "آدم خان درخانئی” اور "موسیٰ خان گل مکئی” کی رومانوی کہانیوں پر بھی فلمیں بنیں۔ یہ علاقائی لوک داستانیں ہیں جب کہ اردو زبان میں "انار کلی” اور "شیخ چلی” وغیرہ مشہور کہانیاں ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ داستانیں حقیقی ہیں یا من گھڑت اور ان کے کردار بھی کسی کے ذہن نے تخلیق کیے تھے۔

    برصغیر میں لوک فلمیں
    برصغیر پاک و ہند میں داستانِ لیلیٰ مجنوں کو 1922ء میں زبردست شہرت ملی کہ اسے فلمایا گیا تھا۔ اردو ادب کی مشہور ترین داستان انار کلی کو اس کے چھے سال بعد پردے پر پیش کیا گیا جس پر ایک ناول لوگ پڑھ چکے تھے۔ تقسیم سے قبل خاموش فلموں کے دور میں پنجاب کی لوک داستانوں میں سے پہلی داستان سسی پنوں 1928ء میں فلمائی گئی۔ پنجاب کی مشہور لوک کہانیوں میں سے پہلی فلم سوہنی مہینوال بھی اسی سال جب کہ اگلے سال مرزا صاحباں اور ہیر رانجھا کو فلمایا گیا۔ ناطق فلموں کا دور آیا تو لاہور میں پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا 1932 میں بنائی گئی۔ تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں بھی یہ قصے کہانیاں متعدد بار سنیما پر پیش کیے گئے۔

    1970ء کی دہائی میں پشتو فلموں کے ابتدائی دور میں پہلی فلم یوسف خان شیر بانو ایک لوک داستان تھی جس میں یاسمین خان اور بدرمنیر نے ٹائٹل رول کیے تھے۔ اگلے سال اسی جوڑی کو فلم آدم خان درخانئی میں بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی جو مشہور زمانہ لوک کہانیاں سنیما کے پردے پر پیش کی گئیں۔

    ہیر رانجھا
    ہیر رانجھا پاکستانی لوک داستانوں میں سب سے مقبول رہی ہے۔ اسے پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر سید وارث شاہؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لوک داستانوں میں یہ واحد رومانوی داستان ہے جس میں دو مشہور کہانیاں ہیں۔ ایک "ہیر اور رانجھا” کی اور دوسری "سہتی اور مراد” کی۔ پاکستان میں صرف پندرہ برس کے دوران اس کہانی کو پانچ بار فلمایا گیا جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لازوال داستان پر پہلی بار ہدایت کار نذیر نے 1955 میں ہیر کے نام سے فلم بنائی جس میں سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی نے مرکزی کردار کیے تھے۔

    دوسری مرتبہ ہدایت کار ایم جے رانا نے اسی کہانی کے ایک ثانوی کردار یعنی سہتی پر 1957 میں فلم بنائی جس میں مسرت نذیر اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔

    تیسری مرتبہ ہدایت کار جعفر بخاری نے اسی کہانی کو ہیر سیال کے نام سے 1965 میں پیش کیا جس میں فردوس اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔ پانچویں اور آخری فلم ہدایت کار مسعود پرویز کی تھی جسے 1970 میں ہیر رانجھا کے نام سے ایک شاہکار فلم قرار دیا گیا۔ اجمل نے فلم میں "کیدو” کے روپ میں اس کردار کو گویا امر کر دیا۔

    سسی پنوں
    اس کہانی کو پنجاب کے قدیم شاعروں نے بڑے خوب صورت انداز میں منظوم پیش کیا۔ ہاشم شاہ نامی شاعر کا کلام سب سے زیادہ مقبول ہوا جس کو ایک مخصوص دھن میں گایا بھی جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے "سسی پنوں” کی کہانی پر مبنی فلم سسی 1954 میں بنائی گئی جو پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم بن گئی۔ ہدایت کار داؤد چاند کی اس یادگار فلم میں پاکستان کی پہلی سپراسٹار ہیروئن صبیحہ خانم نے "سسی” کا ٹائٹل رول کیا جب کہ ہیرو سدھیر "پنوں” کے کردار میں سامنے آئے تھے۔

    تقسیم کے بعد اسی نام سے فلم سندھی زبان میں بھی بنائی گئی۔ یہ 1958 کی بات ہے جب کہ باقی تین فلمیں پنجابی زبان میں تھیں جن میں 1968 میں ایک فلم، دوسری 1972 اور پھر 2004 میں بنائی گئی۔

    سوہنی مہینوال
    پنجاب کی مشہور لوک داستان "سوہنی مہینوال” پر ہدایت کار ایم جے رانا کی اردو فلم سوہنی 1955 میں ریلیز ہوئی جس میں صبیحہ خانم اور سدھیر نے مرکزی کردار نبھائے۔ اس مقبولِ عام کہانی کو ہدایت کار ولی صاحب نے دوسری بار سوہنی کمہارن کے نام سے 1960 میں بنایا جس میں بہار اور اسلم پرویز نے شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ 1973 میں اسی داستان پر نیم مزاحیہ فلم بنائی گئی جب کہ چوتھی بار ہدایت کار رضا میر نے ممتاز اور یوسف خان کو فلم سوہنی مہینوال میں مرکزی کردار سونپے اور یہ 1976 میں ریلیز ہوئی۔ اسے 2004 میں بھی فلمایا گیا لیکن یہ اتفاق ہے کہ سوہنی مہینوال کی کوئی بھی فلمی پیشکش بڑی کام یابی سے محروم رہی۔

    تقسیم سے قبل بھی سوہنی مہینوال کی کہانی کو پانچ مرتبہ فلمایا گیا تھا۔ اور یہ اس دور میں ہندوستان کے تینوں بڑے فلمی مراکز بمبئی، کلکتہ اور لاہور میں الگ الگ بنائی گئی تھی۔

    مرزا صاحباں
    پاکستان کی لوک داستانوں میں "مرزا صاحباں” کا قصہ بڑا مشہور ہوا جسے
    پاکستان میں پہلی بار ہدایت کار داؤد چاند نے اردو زبان میں اسی نام سے پیش کیا تھا۔ 1956 کی اس فلم میں مسرت نذیر اور سدھیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ دوسری مرتبہ ہدایت کار مسعود پرویز نے اور
    اسی کہانی پر 1982ء میں بھی فلمایا گیا۔ تقسیم سے قبل "مرزا صاحباں” کی کہانی کو پانچ بار فلم بند کیا گیا تھا۔

    بدیسی لوک داستانیں
    پاکستان کی لوک داستانوں کے علاوہ دوسرے خطے کی داستانوں اور بدیسی لوک کہانیوں کو بھی فلمی پردے پر پیش کیا گیا جن میں خاص طور پر فارسی اور عربی داستانیں اور کہانیاں شامل ہیں۔ عربی ادب سے "لیلیٰ مجنوں” ، "وامق عذرا” اور "الف لیلہ” وغیرہ کی داستانیں اور فارسی ادب سے "شیریں فرہاد” اور "گل بکاؤلی” جیسی داستانیں اور کہانیاں بھی اردو میں ترجمہ ہوئیں اور ان پر پاکستان میں فلمیں بنائی گئیں۔

  • ادبی رسائل، ان کے ایڈیٹر اور قلم کاروں کے نام

    ادبی رسائل، ان کے ایڈیٹر اور قلم کاروں کے نام

    پچھلے سات آٹھ سال سے شائع ہونے والے رسالوں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم پچھلے پچیس سال کے بعد ایڈیٹروں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔

    اس زمانے میں جن لوگوں نے ایڈیٹری کی دنیا میں ہلچل پیدا کی ان میں مولانا صلاح الدین احمد، مولانا حامد علی خاں اور شاہد احمد دہلوی کے نام بہت ممتاز ہیں۔ ان لوگوں نے اردو کے ادیبوں کی ساری نئی نسل دی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ حکیم یوسف حسن صاحب (فی الحقیقت ان کے دوستوں تاثیر۔ مجید ملک وغیرہ وغیرہ) اور منصور احمد مرحوم کے نام آتے ہیں۔ میرا جی بھی اس میدان میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ بعد کے ایڈیٹروں میں ادب لطیف کے مرزا ادیب کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کا ذکر ضروری ہے جو ادب لطیف کے کئی برس تک ایڈیٹر رہے، اور بعد میں سویرا اور نقوش کے موسس مدیر بنے جو اس وقت بھی اردو کے چوٹی کے رسالے ہیں۔

    قطع کلام ہوتا ہے لیکن بات واضح کرنی ضروری ہے۔ ادیبوں کے ناموں کے لکھنے کے اوضاع سے لے کر مضامین کی ترتیب تک میں بہت تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کبھی نام مضمون کے نیچے لکھاجاتا تھا اب اوپر لکھا جانے لگا۔ پھر سرخی کے نیچے آگیا۔ کبھی داہنے کونے میں کبھی بائیں ہاتھ۔ عالمگیر تو سرخی کے ساتھ بیل بوٹے بھی بناتا تھا اور توضیحاً ایک اخلاقی نظم ایک علمی مقالہ وغیرہ کی ذیلی سرخی دیتا تھا تاکہ کہیں کچھ اور نہ سمجھ لیا جائے۔ ادیب بھی اپنے نام کے ساتھ القاب اور ڈگریاں دھوم دھام سے لکھتے ہیں۔ بی۔ اے اور ایم ۔اے تو نام کے ساتھ لکھنے کا رواج ابھی حال تک رہا اور ہمایوں کو اس کا خاص لحاظ رہتا تھا۔ لیکن لوگ اپنے عہدے اور پیشے تک لکھ دیتے تھے۔ مثلاً زاہد حسن بی۔ اے نائب تحصیلدار وغیرہ۔ پھر ایک زمانے میں قلمی ناموں کی اور پھر خوبصورت مرکب ناموں کی ریل پیل ہوئی، ترتیب میں نظموں، افسانوں اور مقالوں کے فنکشن الگ کرنا اب ایک عام رواج ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس کی ابتدا 1946ء میں سویرا نے کی۔ سویرا کا ہمارے ادب میں اب بھی بہت اونچا مقام ہے لیکن اس کی آغاز اشاعت کے وقت تو معیار اور حسنِ ترتیب میں اس کا کوئی رقیب نہ تھا۔ پھر عسکری اور منٹو نے اردو ادب نکالا جو سیٹھ کی یہی کی طرح کھلتا تھا لیکن خدا جانے کیوں نہ چلا، اس کی دیکھا دیکھی اسی سائز پر جاوید نکلا۔ ریاض قادر اور ناصر کاظمی نے اوراقِ نو کی صورت میں ایک صوری عیاشی کی۔ پرچہ بہت نفیس نکالا لیکن دیکھنے والوں نے شروع ہی میں اعلان کردیا تھا کہ صاحبزادے جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔ میرا جی نے بمبئی سے خیال نکالا تھا جس پر میرا جیت کی گہری چھاپ تھی۔ بعد میں اختر الایمان بھی ادارت میں شریک ہوئے لیکن اس خیال کو میرا جی سے بھی پہلے موت آگئی۔ لاہور سے انتظار حسین نے اسی نام سے پرچہ نکالا اور اس کی اٹھان بڑی زبردست تھی لیکن اب اس سے تین شمارے اور ایک لطیفہ یادگار ہے اور بس۔ انتظار نے غالباً نقوش والوں کو جلانے کے لیے یہ فقرہ اشتہار میں لکھ دیا تھا کہ خیال ایک ایسا پرچہ ہے جس کا ایڈیٹر بھی ہوگا۔ اور واقعی ادارت کے سلیقے کی وجہ سے ان کی بات ماننی پڑی لیکن مالک غالباً اس کمائی سے لاکھوں میں کھیلنا چاہتا تھا۔ پرچہ بند ہوا اور ایک دوست نے کہا کہ خیال بند ہونے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس پرچے کا ایڈیٹر کے علاوہ ایک مالک بھی تھا۔

    (شاعر و ادیب ابنِ انشاء کے ایک مضمون سے اقتباس جو مشہور ادبی رسالے "ساقی” میں 1955ء” میں شایع ہوا تھا)

  • اُس کتاب کی کہانی جس میں شامل کہانیاں‌ دنیا بھر میں مقبول ہیں

    اُس کتاب کی کہانی جس میں شامل کہانیاں‌ دنیا بھر میں مقبول ہیں

    دنیا کی مشہور اور مقبول ترین کہانیوں کی کتابوں میں ایک ‘الف لیلہ’ بھی ہے جسے رتن ناتھ سرشار نے اردو زبان میں ڈھالا اور یہ ان کا شاہکار ترجمہ ہے۔ تاہم وہ عربی سے الف لیلہ کی ایک جلد کو فصیح و بلیغ اردو میں ترجمہ کر سکے تھے اور ان کے بعد مولوی محمد اسمٰعیل و دیگر نے اسے مکمل کیا۔

    اردو ہی نہیں اس کتاب کا مغربی اور یورپی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا اور یوں عرب ثقافت اور کئی لوک کہانیاں دنیا کے سامنے آئیں۔ الف لیلہ کو کب، کس ملک میں لکھا گیا اور اس کا مصنّف کون ہے، اس بارے میں محققین کی آراء مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن خیال ہے کہ یہ مقبول کہانیاں عرب دنیا کے قصّہ گو سنایا کرتے تھے جسے بعد میں کسی ایک یا کئی مصنّفین نے تحریری شکل دے دی۔ کسی زمانے میں یہ نہایت دل چسپ اور پُرتجسس قصّے ایران، مصر اور قسطنطنیہ تک پہنچ گئے اور وہاں کے قصہ گو اور لکھاریوں نے اس میں مزید واقعات شامل کردیے۔ بعد میں جب یہ کہانیاں ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گئیں تو اس کا نام ’الف لیلۃ و لیلۃ‘ یعنی ’ایک ہزار ایک راتیں‘ ہو گیا۔

    الف لیلہ میں شامل ان کہانیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک بادشاہ پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی بیوی یعنی ملکہ نے اس سے بے وفائی کی ہے۔ وہ عورتوں سے بدظن ہوجاتا ہے اور عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ یہ ملک سمرقند اور بادشاہ شہریار ہے جس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی عورت سے شادی کرتا اور رات کو دلہن کے ساتھ وقت گزار کر صبح قتل کرا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی لڑکی شہرزاد نے عورتوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کی ٹھان کر شہریار سے شادی کرتی ہے اور شادی کے بعد بادشاہ کو پہلی رات اپنے منصوبے کے مطابق ایک کہانی سناتی ہے۔ پہلی رات ختم ہوجاتی ہے، مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہر زاد کو قتل کرنے سے باز رہتا ہے۔ اگلی رات بھی بادشاہ کی نئی بیوی یعنی شہر زاد کہانی شروع کرتی ہے اور صبح تک وہ کہانی ایک ایسے موڑ پر آجاتی ہے جس میں بادشاہ کا تجسس اور اس کی دل چسپی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور بادشاہ کہانی کا انجام جاننے کے لیے اس صبح بھی ملکہ کے قتل سے باز رہتا ہے۔ اسی طرح‌ اگلی رات اور پھر ہر رات کہانی اسی طرح بادشاہ کی توجہ اور دل چسپی بڑھاتی چلی جاتی ہے اور وہ شہرزاد کو قتل نہیں کرتا۔

    شہر زاد کے قصّے کا یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل جاتا ہے۔ اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور ان کے ہاں دو بچّے ہو گئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔

    بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مؤرخ محمد بن اسحاق نے کتاب الفہرست میں کہانیوں کی جس کتاب کا ذکر ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے کیا ہے وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں بطور نمونہ اسی کی پہلی کہانی شامل کی ہے۔ یوں یہ کہا جانے لگا کہ الف لیلہ پہلے ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے موجود تھی۔

    اردو میں رتن ناتھ سرشار نے اس مقبول کتاب کی صرف پہلی جلد پر کام کیا تھا جب کہ 1690ء میں اس کتاب کا مخطوطہ بازیافت ہوا تو یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب آنتون گلاں نے اس کا فرانسیسی ترجمہ شائع کیا اور کہتے ہیں‌ کہ اسی ترجمہ کی بنیاد پر اردو سمیت کم و بیش دوسری زبانوں میں الف لیلہ کے تراجم کیے گئے۔

  • غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ عملاً کسی مخصوص گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عملی زندگی، پنشن اور روزی کے لئے جدوجہد کرنے اور ادبی کاموں میں لگے رہنے تک محدود تھی۔

    روزی کے لئے جدوجہد ان کی طبقاتی زندگی کا مظہر تھی۔ ان کی محنت دماغی تھی جس کے خریدار اور قدر داں امراء اور کھاتے پیتے لوگ ہو سکتے تھے۔ ان کی نگاہ میں عرب اور ایران کے قدر داں بادشاہ اور امراء تھے، خود ہندوستان میں مغل سلاطین، امرائے گولکنڈہ اور بیجا پور کے دربار تھے، جہاں عرفیؔ، نظیریؔ، قدسیؔ، صائبؔ، کلیمؔ اور ظہوریؔ وغیرہ اپنی اسی خصوصیت کی قیمت پا چکے تھے اور عزت کی زندگی بسر کر چکے تھے۔ اس لئے وہ بھی اچھے سے اچھے قصائد لکھ کر، اچھی سے اچھی غزلیں کہہ کر، علمی کام کر کے باوقار زندگی بسر کرنے کا حق اور اطمینان چاہتے تھے۔ ان کے سپاہ پیشہ بزرگوں نے تلوار سے عزت حاصل کی تھی، وہ قلم سے وہی کام لینا چاہتے تھے۔

    اس طرح ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اور ذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچہ میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انھوں نے اس طور پر عمارت کھڑی کی جو انھیں ذہنی طور پر ورثہ میں ملا تھا۔ بس انھوں نے یہ کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چند ایسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ تو ممکن تھے نہ جن کے نقشہ ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالبؔ کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لئے غذا فراہم کرتا تھا اور علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انھیں ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے نقادوں نے جدت، تازگی اور طرفگیٔ مضامین سے تعبیر کیا ہے۔

    اسلام اور دوسرے مذاہب کا مطالعہ، تاریخ، اخلاقیات، ہیئت، طب، منطق، تصوف، یہی وہ علوم ہیں جو رائج تھے اور انہی سے غالبؔ نے زندگی کے سمجھنے میں مدد لی تھی۔ اسلامی علوم اور تصوف جو غالبؔ تک پہنچے تھے، ایران ہو کر پہنچے تھے، اور جب ہم ایران میں لکھی ہوئی مذہب، تاریخ اور اخلاقیات کی کتابوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی تقاضوں سے ان میں کئی عناصر جذب ہو گئے تھے۔ بعض عناصر تو مقامی تھے۔ بعض تجارتی راہوں سے وہاں آئے تھے۔ چنانچہ ایران میں جو علمی آثار عباسیوں کے زمانے میں نمایاں ہوئے ان میں عربی، یونانی، زردشتی اور ہندی اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

    عباسیوں کے زمانے میں ایران کا قومی احیاء بھی ہوا جسے تاتاریوں کی یورش سے دب جانا پڑا۔ ایران نے تاجر اور سپاہی پیدا کئے لیکن تاجر منظم نہ ہو سکے اور سپاہیوں نے انفرادی طور پر سلطنتیں قائم کرکے شاہی نظام کو مضبوط بنا دیا۔ یہیں سے غالبؔ کو وہ فلسفۂ مذہب و اخلاق ملا جس کو آج تک اسلامی نظام فلسفہ میں اونچی جگہ حاصل ہے اور غالبؔ کے زمانہ میں تو دوسرے خیالات کی طرف ہندوستانیوں کا ذہن جا ہی نہیں رہا تھا۔ یہیں سے انھوں نے تصوف کے وہ خیالات لئے جو ایران میں تو افلاطونیت سے مخلوط ہوکر اسلامی عقائد کی سخت گیری کے خلاف پیدا ہوئے تھے، اور جنھیں رسمی مذہب پرستی سے اختلاف رکھنے والے شاعروں نے ہر دل عزیز بنایا۔ یہاں پھر یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ غالبؔ صوفی مشرب ہونے اور وحدت میں عقیدہ رکھنے کے باوجود تصوف کے سارے اصول کو عملی صوفیوں کی طرح نہیں مانتے تھے۔ وحدت الوجود کی طرف ان کا میلان کچھ تو مسائل کائنات کے سمجھنے کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا اور مذہب کی ان ظاہر داریوں سے بچ نکلنے کا ایک بہانہ تھا جو ان کی آزاد پسند طیعت پر بار تھیں۔

    غالبؔ جس سماج کے فرد تھے اس میں باغیانہ میلان اور آزادی کا جذبہ داخلی طور پر تصوف ہی میں نمایاں ہو سکتا تھا کیونکہ غالبؔ کو کوئی خارجی سہارا آزادی کے لئے حاصل نہ تھا۔ کوئی علمی یا ادبی تحریک جس سے وابستہ ہوکر وہ اپنے طبقہ کے ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود آگے بڑھ جاتے، موجود نہیں تھی۔ وہ زمانہ کچھ دن بعد آیا۔ جب سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور زندگی کے نئے مطالبات کی روشنی میں ایک ادبی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ غالبؔ کی ذہنی ترقی کا دور غدر تک ختم ہو چکا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی بارہ سال تک زندہ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ غدر کے بعد غالبؔ کی شاعری تقریباً ختم ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ان کے خطوں میں جس طرح نمایاں ہیں، ان کے اشعار میں نمایاں نہ ہو سکے۔ انھوں نے غدر کے پہلے ہی فضا کی ساری اداسی اور افسردگی کو داخلی بنا کر سینہ میں بھر لیا تھا، اس لئے جذبہ کا وہ تسلسل قائم رہا اور خارجی تغیرات نے نئی داخلی سمتیں نہیں اختیار کیں۔
    ذرائع پیداوار اور انسانی شعور کے عمل اور رد عمل سے زندگی آگے بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک مختلف سماجی اور معاشی منزل پر ہوتے ہیں اور ان کے فلسفۂ زندگی اور تمدنی شعور کی منزلیں بھی کم وبیش اس سے مناسبت رکھتی ہیں۔

    انیسویں صدی کے وسط میں جب ہندوستان اقتصادی پستی کی اس منزل میں تھا، یورپ میں مشینی انقلاب ہو چکا تھا اور سماجی شعور ڈارونؔ، مارکس اور اینگلزؔ کو پیدا کر چکا تھا۔ ہندوستان کا ذہین سے ذہین مفکر اس تخلیقی گرمی سے خالی تھا جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور اپنے اندر اجتماعی روح کی پرورش کرتی ہے۔ غالبؔ نے بھی عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے اندر انسان اور کائنات، فنا اور بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلام روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسرت، آرزوئے زیست اور تمنائے مرگ، کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت و ریا کاری غرضیکہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔

    غالبؔ کے مطالعہ کے دوران میں ایک دل کش حقیقت کی طرف ذہن ضرور منتقل ہوتا ہے کہ گو وہ ہندوستانی سماج کے دورِ انحطاط سے تعلق رکھتے تھے یعنی ایسے انحطاط سے تعلق رکھتے تھے جو ہر طبقہ کو بے جان بنائے ہوئے تھا لیکن ان کی فکر میں توانائی اور تازگی، ان کے خیالوں میں بلندی اور بیباکی کی غیرمعمولی طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس توانائی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس طبقہ میں اور اس کے نصب العین میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس سے غالبؔ کا تعلق تھا۔ پھر اس کی جستجو کہاں کی جائے؟ کیا یہ سب کچھ تخیل محض کا نتیجہ ہے؟ ان کی شاعری کا سارا حسن ان کے انفرادی بانکپن کا عکس ہے یا غالبؔ انسان سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور گو ان کی نگاہوں کے سامنے ان کو جنم دینے والی تہذیب نزع کی ہچکیاں لے رہی تھی، جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن وہ پھر بھی نئے آدم کے منتظر تھے جو زندگی کو پھر سے سنوار کر محبت کرنے کے قابل بنادے۔

    (سیّد احتشام حسین کے مضمون ‘غالب کا تفکر’ سے اقتباسات، آج مرزا غالب کا یومِ پیدائش ہے)

  • جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    منٹوؔ کو شراب پینے کی لت خدا جانے کب سے تھی۔ جب تک وہ دلّی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی۔ بمبئی جانے کے بعد انھوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی۔

    جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا۔ اس لیے انھیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادب جیسی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو ؔ ہی کا کام تھا۔ صحت پہلے کون سی اچھی تھی۔ رہی سہی شراب نے غارت کر دی۔ کئی دفعہ مرتے مرتے بچے۔ روٹی ملے یا نہ ملے بیس روپے روز شراب کے لیے ملنے چاہیے۔ اس کے لیے اچھا بُرا کچھ روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا۔ انھیں لے کر وہ کسی ناشر کے پاس پہونچ جاتے۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انھیں خریدا۔ پھر بے ضرورت پھر اُپرانے اور منہ چھپانے لگے۔ دور سے دیکھتے کہ منٹو آ رہا ہے تو دکان سے ٹل جاتے۔ منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہو گئی تھی جو آخر میں اختر شیرانی اور میرا جی کی۔ بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔

    اگست 1954 میں کئی سال بعد لاہور گیا تھا۔ لاہور کے ادیب، شاعر، ایڈیٹر اور پبلشر ایک بڑی پارٹی میں جمع تھے کہ غیر متوقع طور پر منٹو بھی وہاں آگئے۔ اور سیدھے میرے پاس چلے آئے۔ ان کی حالت غیر تھی۔ میں نے کہا آپ تو بہت بیمار ہیں۔ آپ کیوں آئے؟ میں سے اٹھ کر خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔ بولے ہاں بیمار تو ہوں مگر جب یہ سنا کہ آپ یہاں آ رہے ہیں تو جی نہ مانا۔

    اتنے میں ایک شامت کا مارا پبلشر ادھر آ نکلا۔ منٹو نے آواز دی، "اوئے ادھر آ۔” وہ رکتا جھجکتا آگیا۔

    "کیا ہے تیری جیب میں نکال۔” اس نے جیب میں سے پانچ روپے نکال کر پیش کیے مگر منٹو پانچ روپے کب قبول کرنے والے تھے۔ "حرام زادے دس روپے تو دے۔” یہ کہہ کر اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور دس روپے کا نوٹ نکال کر پھر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ پبلشر نے بھی سوچا کہ چلو سستے چھوٹے۔ وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ منٹو پندرہ بیس منٹ تک بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر ان کی بے چینی بڑھ گئی اور عذر کر کے رخصت ہوگئے۔ مجھ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

    پانچ مہینے بعد اخبارات سے معلوم ہوا کہ منٹو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے پھر چپکے سے شراب پی لی تھی۔ خون ڈالتے ڈالتے مر گئے۔

    (گنجینۂ گوہر از قلم شاہد احمد دہلوی سے اقتباس)