Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ اردو زبان کے اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ منیر نیازی کے طرزِ بیان اور شعری اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    اردو ادب میں منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور ان کی شاعری کسی دبستان کے اثر سے مغلوب نہیں‌ بلکہ وہ اپنی شاعری سے ایک نئے دبستان کی طرح ڈالنے والے ایسے شاعر ہیں جس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میر کے ساتھ ہماری تنقید کا کیا رویہ ہے؟ زمانے بدلتے رہے مگر اردو تنقید افسوس ناک حد تک آہستہ رو رہی ہے۔

    میر کبھی گم نامی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی قبر پر ریل چل گئی تو کیا ہوا، تمام اردو شعراء نے اپنی دھڑکنوں میں ہمیشہ میر کو جگہ دی۔ ان کی کلیات بھی چھپتی رہی مگر وقفے وقفے سے۔ پھر بھی میر کے پرستاروں کو شکایت رہی کہ ان کی پذیرائی کم ہوئی۔ مجھے اثر لکھنوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ میر کو ہر دل عزیز بنانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے کہ ان بزرگوں نے اپنی ساری ذہانت کو میر کے مطالعے میں صرف کر دیا ہے مگر برا ہو اردو تنقید کا جو شاعری میں افکار اور احساسات و جذبات کو الگ الگ خانوں میں دیکھنے کی عادی ہے۔
    ناصر کاظمی ایسا فہیم شاعر بھی میر پر مضمون لکھتے ہوئے قدم قدم پر جھجھکتا ہے اور آخر میں میر اور اقبال کے یہاں مماثلت تلاش کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔

    وارث علوی کی زبان میں ’’معنی کس چٹان پر بیٹھا ہے‘‘ یعنی شاعری میں اقدار و افکار کی جستجو، جذبات اور احساسات سے الگ چہ معنی دارد؟ غالب ایسا عظیم شاعر بھی میر کی استادی کو اس طرح تسلیم کرتا ہے کہ میر کے انداز یعنی سہلِ ممتنع میں شاعری کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میر کے کلام میں بے پناہ تاثیر، زبان میں ندرت، جذبات کے اظہار میں شائستگی اور شعری صداقت، ساری نزاکتوں کا ایک آئینہ در آئینہ سلسلہ ملتا ہے۔

    میری رائے میں 1857ء کے تباہ کن اثرات سے ہم بے طرح گھبرا گئے تھے۔ حالی نے غیرشعوری طور سے اس روایت کو مجروح کر دیا جس سے ہم میر سے منسلک تھے۔ میں حالی پر الزم نہیں لگاتا، اس لیے کہ انگریز حکومت کے مہلک اثرات کی وجہ سے ہم آج تک اپنی ثقافتی تفہیم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ کبھی ہم ماضی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں بنیاد پرستوں کی طرح اور کبھی مغرب زدہ لوگوں کی بنائی ہوئی ’’جنت‘‘ کو اپنا مستقبل سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ ہمارا ماحول کیا تھا اور اب کیا ہے؟ نہ جانے کس نے ہمیں یہ سمجھا دیا تھا کہ ’’وقت کی آواز‘‘ عشقیہ شاعری کے خلاف ہے جب کہ میر کی شاعری کار زارِ حیات کی سب سے دل کش آواز تھی۔ اسی وقت سے ہماری تنقید نے میر فہمی کی راہ کھول دی تھی۔ حسن عسکری نے ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’اگر لوگ میر کے اس شعر کی جدلیات کو سمجھ لیں تو جو انقلاب رونما ہوگا وہ مارکس کے انقلاب سے کہیں بڑا ہوگا۔‘‘ (حوالہ: انسان اور آدمی)

    ظاہر ہے کہ یہ جملہ صرف ’’ترقی پسندوں‘‘ کو چھیڑنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ میر کا شعر ہے،

    وجہِ بے گانگی نہیں معلوم
    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    اس شعر میں جو نکتہ قابلِ غور ہے وہ علیحدگی، بےگانگی (Alienation) کو جنم دیتا ہے اور ہم صنعتی نظام میں داخل ہوئے تھے کہ اس کا شکار ہو گئے۔ اب ہماری بیگانگی دشمنی میں بدلتی جارہی ہے۔ اردو کی سب سے جان دار روایت عشقیہ شاعری کی تھی۔ عشق ہی تصوف اور بھکتی تحریروں کی جان تھا۔ ہماری مشترکہ تہذیب کی بنیاد تھا (قرۃ العین حیدر کے نئے ناول ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں اس دور کے چند مناظر اور کردار دیکھے جاسکتے ہیں ) ہم نے انجانی اصلاحی اقدار کے فریب میں آکر اپنی ’جڑوں ‘سے خود کو کاٹ لیا ہے اور آج ہم زندگی کی سزا پا رہے ہیں اور ادب میں خون ناحق کو بہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور حیران و ششدر ہیں۔ ہم خود اپنے جرائم کی سزا پا رہے ہیں، کم از کم بقول میر ہمارے سینے تو سوزِ عشق سے منور ہوتے،

    اعجازِ عشق سے ہم جیتے رہے وگرنہ
    کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے

    آج ہمارے پاس عشق کا سوزِ دروں ہے نہ عمل کی لگن۔ ہم۔ سب۔ ایک معنی میں ایلیٹ کے ’’کھوکھلے آدمی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں!

    میرتقی میر بنیادی طور سے رومانی کرب کے شاعر تھے مگر یہ کرب صرف جنسی تشنگی اور دیوانگی کی دین نہیں تھا، اس میں آئندہ مستقبل کے خواب کی پنہاں آرزوئیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ یہی نہیں اپنے ماحول کی ساری تہذیبی شکست و ریخت بھی شامل تھی۔ اطالوی ناقد ماریو پراز (Mario Praz) نے یوروپی شاعری (اٹھارہویں صدی) کو اسی اصطلاح سے جانچنے کی کوشش کی تھی۔ اٹھارہویں صدی کا یورپ بھی ہنگاموں اور انقلابوں کا مرکز تھا۔ انقلابِ فرانس نے یورپ کو پہلی بار انسانیت کو مساوات، اخوت اور آزادی کا پیغام دیا تھا۔ اس دور کے شاعر بھی اسی جانکاہ درد و غم سے سرشار تھے جس سے کہ رومانی کرب کی پہچان ہوتی ہے۔

    روسو کے اعترافات (دوجلدیں ) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت سے انسانی دوری کتنی مہلک ہوگی۔ ماریو پراز کا خیال تھا کہ مسرت کی جستجو ہی درد و غم کی راہ سے گزرتی ہے اور درد ہی مسرت کی جستجو کی منزل ہے۔ اس طرح خوشی اور غم کی جذباتی کشمکش حزنیہ لب و لہجے کو جنم دیتی ہے جو رومانی کرب کی نشان دہی کرتا تھا۔ میر کی شاعری میں جو گھلاوٹ، نرمی اور سپردگی ہے، وہ اسی غم کی قبولیت کی وجہ سے کہ درد ہی مسرت کی جان ہے اور مسلسل کرب ہی جہدِ حیات ہے۔

    انگریزی رومانی شعرا سے میر کا تقابل پروفیسر احمد علی نے بھی کیا تھا۔ احمد علی نے اپنی کتاب سنہری روایت (The Golden Tradition) میں میر کی عظمت کا اعتراف کیا ہے، یہ کتاب آج بھی مطالعے کے قابل ہے، گو کہ اس کو شائع ہوئے پندررہ برس گزر چکے ہیں (مطبوعہ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ ۱۹۷۳ء) میر تقی میر کی شاعری کو ان کی کشادہ شخصیت، بے پناہ تخلیقی قوت اور فکر خیز تخیل (Imagination) کی رہینِ منت ٹھہرایا ہے۔ یہی نہیں ان کی (احمدعلی) رائے میں میر کے پائے کا شاعر انگریزی رومانی شعرا میں کوئی نہیں تھا۔ فراق اردو میں یہی بات کہہ چکے ہیں۔ وہ میر کی شاعری میں ’دل‘ کے استعارے کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری یہ بات اپنے مضمون میں کہہ چکے ہیں (سردار جعفری ایک عرصے تک مجنوں سے اس لیے خفا رہے کہ مرحوم نے کئی شعر ایسے لکھے تھے جو میر کے نہیں ہیں۔ خیر) احمد علی کا خیال ہے کہ میر کے ذہن کی جستجو ہمیں ان اشعار سے کرنی چاہیے جو میر نے دل کو محور بنا کر کہے تھے، اس لیے کہ دل ہی عشق اور زندگی کا سرچشمہ ہے اور یہ اشعار بھی پیش کیے ہیں،

    جا کے پوچھا جو میں یہ کارگہِ مینا میں
    دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
    کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
    ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
    دل ہی سارے تھے یہ اک وقت میں جو کر کے گداز
    شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں سے شیشہ

    یہی نہیں، احمد علی کا خیال ہے کہ ایک معنی میں میر ایک وجودی شاعر تھے اور سارتر کا بیان نقل کرتے ہیں :Existence Precedes Essence یعنی وجود روح سے پہلے ہے۔ میر کا خیال ہے، ’’مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا‘‘ کی مثال بھی دیتے ہیں۔ میر پر انگریزی میں جو چند مضامین اور کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں یہ کتاب زیادہ ’’شہرت‘‘ کی مستحق تھی، اس لیے کہ اس کتاب میں میر کے اچھے خاصے ترجمے بھی شامل ہیں۔

    اور ایک سوال میر ے ذہن میں آتا ہے کہ میر کی عشقیہ شاعری کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ کیا اب یہ عہد پارینہ کی ایک شعری داستان ہے اور بس۔۔؟ سرمایہ دارانہ سماج میں ہر شے فروخت ہو سکتی ہے۔ اب عشق یا تو محض جنسی شے (بدن کی تہذیب کہاں؟) یا تفریح کا سامان۔ ایک ایسے دور میں جب ہم میر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت اور معصومیت سے نئی لذت کے ساتھ دوچار ہوتے ہیں یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب وہ ’’رومانی کرب‘‘ اپنی جاذبیت بڑی حد تک کھو چکا ہے مگر کسی حد تک معصومیت حسن کی اور عشق کی کشمکش کو بڑی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔

    عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
    قیس کی آبرو کا پاس رہا
    عشق کا گھر ہے میر سے آباد
    ایسے پھر خانماں خراب کہاں

    رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
    جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

    دور بیٹھا غبار میر ان سے
    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    یہ خود کلامی کا ’’جادو‘‘ بھی رکھتی ہے۔ پروفیسر مسعود حسین ادیب نے میر کی شاعری کو ’’عشق کی زبان‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ مجھے اکثر یہ احساس ہوا ہے کہ میر کے آنسو’’پارس پتھر‘‘ تھے، جس لفظ کو چھو لیتے تھے کندن بن جاتا تھا۔ اس طرح جسمانی حسن کا بیان بھی ساری لطافتیں لیے ہوئے ہے،

    ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
    جیسے جھمکے ہے پڑا گوہرِ تر پانی میں

    حسن کی بالیدگی کا یہ عالم شاید ہی کسی اردو شاعر نے کبھی سوچا اور بیان کیا ہو گا۔ میر کی عشقیہ شاعری ایک جمالیات کی نئی دستاویز تھی جس میں انبساط کے کم رنگ تھے مگر زرد رنگ سب سے نمایاں تھا جیسے ڈچ مصور وان گاف کی مصوری! آج میر کی عشقیہ شاعری ایک ایسی ’’فردوسِ گمشدہ‘‘ کی یاد دلاتی ہے جس میں دوزخ کو سیر کرنے کے لیے ملا دیا گیا ہو۔

    (ممتاز نقاد اور روایت شکن قلم کار باقر مہدی کے مضمون کا ایک حصّہ ہند و پاک سمینار جامعہ ملیہ (نئی دہلی) میں ۱۹۸۳ء میں پڑھا گیا تھا)

  • اکبر، جن کا نام قہقہوں نے اچھالا، اور شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا!

    اکبر، جن کا نام قہقہوں نے اچھالا، اور شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا!

    لسانُ العصر اردو زبان کے نامور شاعر اکبر الہ آبادی کا لقب ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے دور میں اردو شاعری کو ایک نئی راہ دکھائی اور ان کا ظریفانہ کلام بہت مشہور ہوا۔ وہ مشرقیت کے دلدادہ تھے اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے بڑے مخالف تھے۔

    غیرمنقسم ہندوستان کے مشہور عالمِ دین، بے مثل ادیب اور شاعر عبدالماجد دریا بادی نے ‘پیامِ اکبر’ یعنی حضرت اکبر الہ آبادی کی کلیاتِ سوم پر ایک مضمون رقم کیا تھا جس سے یہ اقتباسات ہمیں اکبر کی شخصیت اور ان کے فن کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "لسانُ العصرحضرت اکبر مغفور زمانۂ حال کے ان چندر بزرگوں میں تھے جن کا مثل و نظیر کہیں مدتوں میں جا کر پیدا ہوتا ہے۔

    ان کی ذات ایک طرف شوخی و زندہ دلی اور دوسری طرف حکمت و روحانیت کا ایک حیرت انگیز مجموعہ تھی یا یوں کہیے کہ یک طرفہ معجون۔ آخر آخر ان کی شاعری نہ شاعری رہی تھی، نہ ان کا فلسفہ فلسفہ۔ ان کا سب کچھ بلکہ خود ان کا وجود مجسم حکمت و معرفت کے سانچہ میں ڈھل گیا تھا۔

    ان کی گفتگو جامع تھی حکمت و ظرافت کی، ان کی صحبت ایک زندہ درس گاہ تھی تصوف و معرفت کی۔ روز مرہ کے معمولی فقروں میں وہ وہ نکتے بیان کر جاتے کہ دوسروں کو غور و فکر کے بعد بھی نہ سوجھتے اور باتوں باتوں میں ان مسائل کی گرہ کشائی کر جاتے جو سال ہا سال کے مطالعہ سے بھی نہ حل ہو پاتے۔

    خوش نصیب تھے وہ جنہیں ان کی خدمت میں نیاز مندی کا شرف حاصل تھا۔ جن کی رسائی اس چشمۂ حیات تک نہ ہو سکی، انہیں آج اپنی نارسائی و محرومی پر حسرت ہے اور جن کی ہو چکی تھی انہیں یہ حسرت ہے کہ اور زیادہ سیراب کیوں نہ ہو لیے۔”

    عبدالماجد دریا بادی نے اکبر کی ظرافت و زندہ دلی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔

    "اکبر کی شہرت و مقبولیت کی سب سے بڑی نقیب ان کی ظرافت تھی، ان کے نام کو قہقہوں نے اچھالا، ان کی شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا۔ ہندوستان میں آج جو گھر گھر ان کا نام پھیلا ہوا ہے، اس عمارت کی ساری داغ بیل ان کی شوخ نگاری و لطیفہ گوئی ہی کی ڈالی ہوئی ہے۔ قوم نے ان کو جانا مگر اس حیثیت سے کہ وہ روتے ہوئے چہروں کو ہنسا دیتے ہیں۔ ملک نے ان کو پہچانا مگر اس حیثیت سے کہ وہ مرجھائے ہوئے دلوں کو کھلا دیتے ہیں۔ اس میں ذرا کلام نہیں کہ اکبر ظریف اور بہت بڑے ظریف تھے۔ لیکن جس زمانہ کے کلام پر یہاں خصوصیت کے ساتھ تبصرہ مقصود ہے، یہ زمانہ ان کی ظرافت کے شباب کا نہ تھا۔ جب تک خود جوان رہے شوخ طبعی بھی جوان رہی۔ عمر کا آفتاب جب ڈھلنے لگا تو ظرافت کا بدرِ کامل بھی رفتہ رفتہ ہلال بنتا گیا۔ اب اس کی جگہ آفتابِ معرفت طلوع ہونے لگا۔ بالوں میں سفیدی آئی، صبحِ پیری کے آثار نمودار ہوئے، تو ظرافت نے انگڑائیاں لیں اور زندہ دلی کی شمع جھلملانے لگی۔ حکمت کی تابش اور حقیقت کی تڑپ دل میں پیدا ہوئی۔ جمال حقیقی کی جلوہ آرائیوں نے چشمِ بصیرت کو محوِ نظارہ بنایا۔ سوزِ عشق نے سینہ کو گرمایا، ذوقِ عرفان نے دل کو تڑپایا، اور نورِ معرفت کی شعاعیں خود ان کے مطلعِ قلب سے اس چمک دمک کے ساتھ پھوٹیں کہ تماشائیوں کی آنکھیں قریب تھا کہ چکا چوند میں پڑ جائیں۔

    لیکن ہے یہ کہ قسّامِ ازل نے ذہانت و فطانت، شوخی و زندہ دلی کی تقسیم میں ان کے لیے بڑی فیاضی سے کام لیا تھا۔ اس لیے پیرانہ سالی میں بھی ایک طرف ذاتی صدمات و خانگی مصائب کا ہجوم، اور دوسری طرف مشاغلِ دین و تصوف کے غلبہ کے باوجود یہ جذبات فنا ہرگز نہیں ہونے پائے۔ شمع جھلملا ضرور رہی تھی مگر بجھی نہ تھی یا آفتاب ڈھل ضرور چکا تھا مگر غروب تو نہیں ہوا تھا۔ بدر، ہلال بننے لگا تھا لیکن بے نور نہیں ہوا تھا، چمن سے بہار رخصت ہونے کو تھی تاہم خزاں کا سایہ بھی ابھی نہیں پڑنے پایا تھا۔ زندہ دلی نہ صرف قائم تھی بلکہ اس وقت کے ساتھ اس شدت کے ساتھ کہ دیوان پڑھنے والے متحیر اور کلام سننے والے ششدر رہ گئے۔”

    اکبر کے کلیات پر تبصرہ کرتے ہوئے مضمون نگار آگے لکھتے ہیں۔

    "اکبر ظریف تھے۔ ’’ہزال‘‘ و فحاش نہ تھے۔ دلوں کو خوش کرتے تھے۔ چہروں پر تبسم لاتے تھے۔ جذباتِ سفلی کے بھڑکانے کی کوشش نہ کرتے۔ ان کی ظرافت ہزل گوئی کے مترادف نہ تھی۔ اکثر صورتو ں میں معنویت سے لبریز ہوتی تھی، کہیں کہیں زبانی محاورہ، لفظی مناسبت، ترکیب کی ندرت قافیہ کی جدت کے زور سے شعر کو لطیفہ بنا دیتے تھے۔ سیاسی مسائل میں رائے بڑی آزاد رکھتے تھے لیکن جتنا کہہ جانے میں جری تھے، اتنا ہی سنانے میں چھاپنے میں پھیلانے میں محتاط تھے۔ قدم اتنا پھونک پھونک کر رکھتے کہ مخلصوں اور نیاز مندوں تک کو حیرت کی ہنسی آ جاتی۔ اور جو اتنے معتقد و باادب تھے وہ تو جھنجھلاہٹ میں خدا جانے کیا کچھ کہہ سن ڈالتے۔”

  • جب منٹو کی مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے!

    جب منٹو کی مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے!

    سعادت حسن منٹو نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات اور فلمی دنیا سے وابستہ فن کاروں کے بارے میں‌ کئی دل چسپ واقعات اور شخصی خاکے لکھے ہیں جن میں‌ ایک نام سندر شیام چڈا کا بھی ہے۔ شیام ایک ہندوستانی اداکار تھے۔ ان کی فلمی زندگی آغاز 1942ء میں ہوا اور وہ 1951ء میں اپنی وفات تک فلموں میں اداکاری کرتے رہے۔ ان کا انتقال بھی ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ہوا تھا۔ شیام، سعادت حسن منٹو کے قریبی اور اچھے دوست تھے۔

    یہاں‌ ہم اداکار شیام پر منٹو کے ایک خاکے سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی اور توجہ کا باعث بنیں‌ گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    شیام صرف بوتل اور عورت ہی کا رسیا نہیں تھا۔ زندگی میں جتنی نعمتیں موجود ہیں، وہ ان سب کا عاشق تھا۔ اچھی کتاب سے بھی وہ اسی طرح پیار کرتا تھا جس طرح ایک اچھی عورت سے کرتا تھا۔ اس کی ماں اس کے بچپن ہی میں مر گئی تھی مگر اس کو اپنی سوتیلی ماں سے بھی ویسی ہی محبت تھی، جو حقیقی ماں سے ہوسکتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سوتیلے بہن بھائی تھے۔ ان سب کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صرف اس کی اکیلی جان تھی۔ جو اتنے بڑے کنبے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

    ایک عرصے تک وہ انتہائی خلوص کے ساتھ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ اس دوران میں تقدیر نے اسے کئی غچے دیے مگر وہ ہنستا رہا، ’’جانِ من ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تو میری بغل میں ہوگی۔‘‘ اور وہ کئی برسوں کے بعد آخر وہ دن آہی گیا کہ دولت اور شہرت دونوں اس کی جیب میں تھیں۔

    موت سے پہلے اس کی آمدنی ہزاروں روپے ماہوار تھی۔ بمبے کے مضافات میں ایک خوبصورت بنگلہ اس کی ملکیت تھا اور کبھی وہ دن تھے کہ اس کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تھی، مگر مفلسی کے ان ایام میں بھی وہی ہنستا ہوا شیام تھا۔ دولت و شہرت آئی تو اس نے ان کا یوں استقبال نہ کیا جس طرح لوگ ڈپٹی کمشنر کا کرتے ہیں۔ یہ دونوں محترمائیں اس کے پاس آئیں تو اس نے ان کو اپنی لوہے کی چارپائی پر بٹھا لیا اور پٹاخ پٹاخ بوسے داغ دیے۔

    میں اور وہ جب ایک چھت کے نیچے رہتے تھے تو دونوں کی حالت پتلی تھی۔ فلم انڈسٹری ملک کی سیاسیات کی طرح ایک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہی تھی۔ میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ اس کا وہاں ایک پکچر کا کنٹریکٹ تھا دس ہزار روپے میں۔ عرصے کی بیکاری کے بعد اس کو یہ کام ملا تھا۔ مگر وقت پر پیسے نہیں ملتے تھے۔ بہرحال ہم دونوں کا گزر کسی نہ کسی طور ہو جاتا تھا۔ میاں بیوی ہوتے تو ان میں روپے پیسے کے معاملے میں ضرور چخ چخ ہوتی، مگر شیام اور مجھے کبھی محسوس تک نہ ہوا۔ ہم میں سے کون خرچ کررہا ہے اور کتنا کررہا ہے۔

    ایک دن اسے بڑی کوششوں کے بعد موٹی سی رقم ملی (غالباً پانچ سو روپے تھے) میری جیب خالی تھی۔ ہم ملاڈ سے گھر آرہے تھے۔ راستے میں شیام کا یہ پروگرام بن گیا کہ وہ چرچ گیٹ کسی دوست سے ملنے جائے گا۔ میرا اسٹیشن آیا تو اس نے جیب سے دس دس روپے کے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ آنکھیں بند کر کے اس کے دو حصے کیے اور مجھ سے کہا، ’’جلدی کرو منٹو۔۔۔ ان میں سے ایک لے لو۔‘‘

    میں نے گڈی کا ایک حصہ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا۔ اور پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ شیام نے مجھے’’ٹاٹا‘‘ کہا اور کچھ نوٹ جیب سے نکال کر لہرائے، ’’تم بھی کیا یاد رکھو گے سیفٹی کی خاطر میں نے یہ نوٹ علیحدہ رکھ لیے تھے۔۔۔ ہیپ ٹلا!‘‘ شام کو جب وہ اپنے دوست سے مل آیا تو کباب ہورہا تھا۔ مشہور فلم اسٹار’’کے کے‘‘ نے اس کو بلایا تھا کہ وہ اس سے ایک پرائیویٹ بات کرنا چاہتی ہے۔ شیام نے برانڈی کی بوتلیں بغل میں سے نکال کر اور گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈال کر مجھ سے کہا، ’’پرائیویٹ بات یہ تھی۔ میں نے لاہور میں ایک دفعہ کسی سے کہا تھا کہ ’’کے کے‘‘ مجھ پر مرتی ہے۔ خدا کی قسم بہت بری طرح مرتی تھی۔ لیکن ان دنوں میرے دل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اس نے مجھے اپنے گھر بلا کر کہا کہ تم نے بکواس کی تھی۔ میں تم پر کبھی نہیں مری۔ میں نے کہا تو آج مر جاؤ۔ مگر اس نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور مجھے غصے میں آکر اس کے ایک گھونسہ مارنا پڑا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا، ’’تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا؟‘‘ شیام نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا جو زخمی ہو رہا تھا، ’’کم بخت آگے سے ہٹ گئی۔ نشانہ چوکا اور میرا گھونسہ دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خوب ہنسا، ’’سالی بیکار تنگ کررہی ہے۔‘‘

    میں نے اوپر روپے پیسے کا ذکر کیا ہے۔ غالباً دو برس پیچھے کی بات ہے۔ میں یہاں لاہور میں فلمی صنعت کی زبوں حالی اور اپنے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے مقدمے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ عدالتِ ماتحت نے مجھے مجرم قرار دے کر تین مہینے قیدِ بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ میرا دل اس قدر کھٹا ہوگیا تھا کہ جی چاہتا تھا، اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کردوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ چنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں، کسی پر نکتہ چینی کروں نہ کسی معاملے میں اپنی رائے دوں۔
    ایک عجیب و غریب دور سے میرا دل و دماغ گزر رہا تھا۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ افسانے لکھ کر ان پر مقدمے چلوانا میرا پیشہ ہے۔ بعض کہتے تھے کہ میں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ سستی شہرت کا دلدادہ ہوں اور لوگوں کے سفلی جذبات مشتعل کر کے اپنا الو سیدھا کرتا ہوں۔ مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں۔ ان چار الوؤں کو سیدھا کرنے میں جو خم میری کمر میں پیدا ہوا، اس کو کچھ میں ہی جانتا ہوں۔

    مالی حالت کچھ پہلے ہی کمزور تھی۔ آس پاس کے ماحول نے جب نکما کردیا تو آمدنی کے محدود ذرائع اور بھی سکڑ گئے۔ ایک صرف مکتبہ جدید، لاہور کے چودھری برادران تھے جو مقدور بھر میری امداد کررہے تھے۔ غم غلط کرنے کے لیے جب میں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کی تو انہوں نے چاہا کہ اپنا ہاتھ روک لیں۔ مگر وہ اتنے مخلص تھے کہ مجھے ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔

    اس زمانے میں میری کسی سے خط کتابت نہیں تھی۔ دراصل میرا دل بالکل اچاٹ ہو چکا تھا۔ اکثر گھر سے باہر رہتا اور اپنے شرابی دوستوں کے گھر پڑا رہتا، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی صحبت میں رہ کر جسمانی و روحانی خود کشی کی کوشش میں مصروف تھا۔ ایک دن مجھے کسی اور کے گھر کے پتے سے ایک خط ملا۔ تحسین پکچرز کے مالک کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا کہ میں فوراً ملوں۔ بمبے سے انہیں میرے بارے میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہے۔ صرف یہ معلوم کرنے کے لیے یہ ہدایت بھیجنے والا کون ہے۔ میں تحسین پکچرز والوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ بمبے سے شیام کے پے در پے انہیں کئی تار ملے ہیں کہ مجھے ڈھونڈ کر 500 روپے دے دیے جائیں۔ میں جب دفتر میں پہنچا تو وہ شیام کے تازہ تاکیدی تار کا جواب دے رہے تھے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود انہیں منٹو نہیں مل سکا۔ میں نے 500 روپے لے لیے اور میری مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    میں نے بہت کوشش کی کہ شیام کو خط لکھ کر اس کا شکریہ ادا کروں اور پوچھوں کہ اس نے مجھے یہ 500 روپے کیوں بھیجے تھے، کیا اس کو علم تھا کہ میری مالی حالت کمزور ہے۔ اس غرض سے میں نے کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ میرے لکھے ہوئے الفاظ شیام کے اس جذبے کا منہ چڑا رہے ہیں جس کے زیرِ اثر اس نے مجھے یہ روپے روانہ کیے تھے۔

  • ’’زرقا‘‘ ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم

    ’’زرقا‘‘ ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم

    1960 کی دہائی کو بالعموم پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج کا دور کہا جاتا ہے جس میں فلموں کی مجموعی تعداد نے ایک ہزار کا ہندسہ عبور کیا۔ اس وقت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں سنیما گھروں پر شائقین کا رش رہتا تھا۔ ’’زرقا‘‘ اسی دہائی کی ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی جس کا موضوع فلسطین کی جدوجہدِ آزادی تھا۔

    60 کی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ جو نئے چہرے داخل ہوئے تھے ان میں‌ اداکار وحید مراد، ندیم، محمد علی، زیبا، شبنم اور فردوس کے نام شامل ہیں۔ اسی طرح مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا وہ گلوکار تھے جنھیں‌ سنیما کی بدولت ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی زمانے میں‌ فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں بھی کئی بڑے نام شامل تھے۔

    فلمی تاریخ‌ بتاتی ہے کہ 1969ء میں زرقا پاکستانی سینما میں ایک نیا تجربہ تھا۔ مسلم دنیا میں اس وقت فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور عام فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام پر شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے اور دنیا جنگ بندی پر زور دے رہی ہے، لیکن اسرائیل عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی اور غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔

    نصف صدی سے زائد عرصہ بیت گیا جب معروف فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف ریاض شاہد نے زرقا کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا تھا اور اس فلم نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی تھی۔ یہ فلم 17 اکتوبر 1969ء کو پاکستان بھر میں سنیماؤں کی زینت بنی۔ کراچی کے اوڈین سنیما میں اس فلم کو نمائش کے بعد 102 ہفتے پورے ہوئے تھے اور یہ پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم بنی تھی۔

    فلم کی کہانی بیت المقدس کے خلاف ہونے والی ایک سازش سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کو مغرب اور اس دور کی عالمی طاقتوں نے مل کر یہودیوں کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔

    فلم زرقا کے نغمات کی شاعری اس موضوع کو سامنے رکھ کر تحریر کیے گئے تھے۔ فلم کا تھیم سونگ تھا،’’ہمیں یقین ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی یہ شام اے فلسطیں…‘‘ فلم کا ایک اور گیت تھا، اے وطن تیری بربادی پر چپ کیوں کر رہوں، لٹ چکا ہے جو چمن اس کو چمن کیسے کہوں۔ قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے مسلمانانِ‌ عالم کے اتحاد پر زور دیتی اس فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے جنھیں‌ عربی دھنوں پر کمپوزیشن بنانے میں کمال حاصل تھا۔ تاہم وہ فلم کے تین گیت کمپوز کرنے کے بعد وفات پاگئے تھے۔ ان کے بعد وجاہت عطرے نے اس کے گانوں کی دھنیں مرتب کیں۔ جن گلوکاروں نے اس فلم کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں نسیم بیگم، منیر حسین، مہدی حسن شامل ہیں۔

    فلم کا ٹائٹل رول اداکارہ ’’نیلو‘‘ نے نبھایا تھا۔ یہ اداکارہ نیلو کے فلمی کیریئر کا لازوال کردار تھا۔ اداکار اعجاز نے اس فلم میں ہیروئن یعنی اداکارہ نیلو کے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں‌ عرب مجاہد عمار کے روپ میں سامنے آئے تھے۔ اس فلم میں ایک یہودی میجر کی بیوی انجیلا کا کردار اداکارہ ناصرہ نے ادا کیا تھا۔

    سینئر اداکار ساقی نے حریت پسند لیڈر شعبان لطفی کے بچپن کے دوست کا کردار ادا کیا، جو ایک صحرائی چور تھا۔ آخر اس کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور وہ وطن کے لیے شہید ہوجاتا ہے۔ اداکار کمال ایرانی نے حبشی غلام کا کردار عمدگی سے ادا کیا۔ اداکار علاء الدین نے حریت پسند تنظیم کے سربراہ کا کردار کچھ اس انداز سے کیا کہ آج بھی لوگ شعبان لطفی کو نہیں بھلا پائے۔ فضل حق، سیندو، بختی، الیاس کاشمیری، اسلم پرویز اور دیگر بھی اس فلم میں‌ شامل تھے۔

    اس فلم میں نیلو کا ایک ڈریس اس وقت بے حد مقبول ہوا تھا، جب پورے ملک میں فلم کی نمائش جاری تھی۔ اس ڈریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین نے زرقا ڈریس کے نام سے اس ملبوس کی ریکارڈ خریداری ہوئی۔

  • ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُ المطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔

    کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلالپوری ان کثیرُ المطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا اور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔

    مطالعے کی اس وسعت کے ساتھ ان کی دل چسپیوں کے میدان بھی گوناگوں تھے جو نفسیات، ناول و افسانہ، موسیقی اور مصوری سے ہوتے ہوئے جنسیات تک چلے گئے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ کیسے کر لیا تھا؟ انہوں نے اس کا جو جواب دیا، اسے سن کر مجھے اپنی زندگی کے رائیگاں چلے جانے کا بہت افسوس ہوا۔ کہنے لگے ”سیّد صاحب! اس میں میرا کوئی بڑا کمال نہیں ہے۔ میں نے بس اتنا کیا ہے کہ زندگی میں اپنا وقت بہت کفایت شعاری سے استعمال کیا ہے۔ میں نے اسے روزمرہ کے فضول مشاغل میں ضائع نہیں ہونے دیا۔ میں نے کبھی بے مقصد مطالعہ نہیں کیا اور جو کچھ بھی پڑھا ہے ایک منصوبے کے تحت پڑھا ہے، چاہے وہ فلسفہ ہو، تاریخ ہو یا ناول و افسانہ ہو اور پھر اس کے باقاعدہ نوٹس (Notes) لیے ہیں اور میرے ان نوٹس کے پلندوں سے بوریاں بھر گئی ہیں۔ چنانچہ آج کل کسی موضوع پر لکھتے ہوئے مجھے جب بھی ان پڑھی ہوئی کتابوں کی طرف رجوع لانے یا ان کا حوالہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے، میں اپنے یہی نوٹس نکال کر سامنے رکھ لیتا ہوں اور وہ سب کچھ جو میں نے پڑھا تھا، مستحضر ہو جاتا ہے۔“

    لیکن پتا نہیں کیوں اس سارے مطالعے اور علم و دانش کے باوجود شاہ صاحب کی شخصیت اور مزاج میں ایک کمی محسوس ہوتی تھی اور وہ کمی تھی رواداری اور لچک کی، مخالف کی بات برداشت کرنے کی….ایسی کمی جس کی توقع ایک اسکالر سے نہیں کی جاتی۔

    مجھے کئی موقعوں پر یوں لگا کہ شاہ صاحب میں بعض چیزوں کے حق میں اور بعض چیزوں کے خلاف خاصا تعصب موجود ہے اور اس معاملے میں ان کا رویہ بالکل بے لچک ہے۔ وہ جب کسی بات پر اڑ جاتے تو پھر اس کے خلاف کوئی دلیل نہ سنتے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ زندگی بھر تدریس کے منصب پر فائز رہے اور استاد حضرات کے مخاطب ہمیشہ چونکہ ان کے کم علم شاگرد ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ دوسرے لوگوں سے بھی جب بات کرتے ہیں تو لاشعوری طور پر استادی کی سطح ہی سے بات کرتے ہیں یا اس کی وجہ شاہ صاحب کا وہ خاص مزاج اور طبیعت ہو سکتی ہے جو انہیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی۔ کچھ بھی ہو شاہ صاحب کو اپنی اس مزاجی خصوصیت کی وجہ سے بعض موقعوں پر کافی ناخوش گوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ میرے ذہن میں آتا ہے:

    ایک دن حسبِ معمول ”فنون“ کی محفل جمی ہوئی تھی کہ اتفاق سے سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نظم گو شاعر صلاح الدّین محمد آ نکلے۔ پہلے تو کچھ شعر و سخن پر گفتگو ہوئی، پھر باتیں سیاست کی طرف چل نکلیں۔ صلاح الدین محمد کا خیال تھا کہ دوسرے صوبوں اور خصوصاً کراچی اور اس میں آباد اُردو بولنے والے طبقے کے ساتھ اہلِ پنجاب کا رویہ ہم دردانہ اور منصفانہ نہیں تھا۔ شاہ صاحب نے حسبِ توقع پنجاب اور اہلِ پنجاب کا دفاع کیا اور اپنی بات کے حق میں دلائل دیے، لیکن اس بحث میں دونوں طرف کچھ تیزی آ گئی۔ شاہ صاحب اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ اتنے میں صلاح الدّین محمد کی زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکل گیا، ”سید صاحب! آپ بھی اپنے علم کے باوجود نہایت متعصب اور پست ذہنیت رکھنے والے انسان ہیں۔“ یہ سننا تھا کہ شاہ صاحب جلال میں آ گئے اور غصے میں بے قابو ہو کر اس مہمان کو ایسی بے نقط سنائیں کہ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے۔

    ان کی اس تیز و تند تقریر کا ٹیپ کا جملہ یہ تھا کہ ”ہم جلالپور کے رہنے والے ہیں، جب کوئی ہمارے ساتھ اس طرح گستاخی کرے تو وہ اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا۔“ صلاح الدّین محمد کو فوراً ہی احساس ہوا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اب وہ معذرت کر رہے ہیں، معافی مانگ رہے ہیں کہ یہ فقرہ ان کے منہ سے بے ساختہ سوچے سمجھے نکل گیا ہے لیکن شاہ صاحب کا پارہ جب ایک دفعہ چڑھ گیا تو نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اتنے میں وہ اٹھے اور اپنی چھڑی سنبھال دفتر کی سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے گئے۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد شاہ صاحب نے ”فنون“ کے دفتر آنا چھوڑ دیا اور کسی کے ہاتھ کوئی پیغام بھی نہ بھیجا۔ ہم لوگوں نے پہلے کچھ عرصہ تو ان کے آنے کا انتظار کیا لیکن جب ان کی غیر حاضری کو ایک مہینہ گزر گیا تو مدیر ”فنون“ اور راقم السّطور نے طے کیا کہ ان کے گھر جا کر انہیں منانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک دن ہم ان کے گھر ساندہ جا نکلے۔ ہم اندر سے ڈر رہے تھے کہ خدا جانے ہمیں یوں دیکھ کر ان کا فوری ردعمل کیا ہو گا۔ ہم نے جب گھنٹی بجائی تو یہ امکان بھی ہم نے سوچ رکھا تھا کہ شاہ صاحب جب باہر نکل کر ہمیں دیکھیں گے تو بڑی رکھائی سے کہیں گے ”فرمائیے، آپ صاحبان نے کیسے زحمت کی!“ لیکن خدا کا شکر کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ شاہ صاحب باہر آئے تو ہم دونوں کو دیکھ کر نہال ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے ہم سے ملے اور ہمیں اندر لے گئے۔ اِدھر اُدھر کا حال دریافت کرتے رہے۔ چائے اور فرنچ ٹوسٹوں کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ پھر پیشتر اس کے کہ ہم کچھ بولیں، خود ہی کہنے لگے ”اس دن میں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک نہیں تھا، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہوں۔ جب کوئی ناگوار بات سن کر مجھے غصہ آتا ہے تو یہ بلڈ پریشر یکلخت شوٹ کر جاتا ہے اور میرے لیے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بہرحال مجھے اس واقعے کا بہت افسوس ہے۔“ ہم نے شاہ صاحب کو اطمینان دلایا کہ وہ بات آ گئی ہو گئی ہے اور ان کے لیے اب گھر میں محصور رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ”فنون“ کی محفل سے ان کی غیر حاضری کو بہت محسوس کر رہے ہیں، اس لیے مہربانی کر کے اب وہ آنا شروع کر دیں۔ شاہ صاحب نے ہماری بات مان لی اور ان کے آجانے سے ”فنون“ کی ہفتہ وار مجلس پھر سے آباد ہو گئی۔

    (اردو کے ممتاز محقّق، مترجم اور عربی داں محمد کاظم کے ایک مضمون سے اقتباس)

  • ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    کئی برس ہوئے نئی دہلی میں کلکتہ کے ایک ہندو بنگالی کلرک تھے۔ تنخواہ ڈیڑھ دو سو روپیہ ماہوار کے قریب۔ ان کی بیوی مر چکیں تھیں۔ کوئی لڑکا نہ تھا اور صرف ایک لڑکی تھی جس کا نام شیلا تھا۔

    اس زمانہ میں ہر شے ارزاں تھی اور ان بابو جی کے صرف ایک بچّی تھی۔ اس لیے آپ اس بچّی پر کافی روپیہ صرف کرتے اور آپ نے اس لڑکی کی تعلیم کا انتظام دہلی کے کوئین میری اسکول تیس ہزاری میں کیا تھا جہاں مصارف کی زیادتی کے باعث صرف امراء کی لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ شیلا جب چودہ برس کی تھی تو ان کے والد انتقال کر گئے اور گھر میں (جو سرکاری کوارٹر تھا) کوئی نہ رہ گیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک نوعمر اور ناتجربہ کار لڑکی صرف اکیلی رہ جائے تو اس کے دل اور ذہن کی کیا کیفیت ہوگی۔ میرے پاس ایک خاتون کا پیغام پہنچا کہ لڑکی اکیلی رہ گئی ہے۔ اس کے رشتہ دار کلکتہ میں ہیں اور جب تک اس کے چچا اس کو لینے کے لیے نہ آجائیں۔ اس لڑکی کے رہنے کا انتظام کسی خاتون کے ہاں کر دیا جائے۔ لڑکی جوان تھی اور ذمہ داری کا بھی سوال تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی ایک خاتون کے ہاں بھیجوا دیا جائے۔ یہ خاتون بہادر شاہ ظفر بادشاہ کے خاندان میں سے تھیں اور کوئین میری اسکول ہی کی تعلیم یافتہ تھیں۔ یہ "ریاست” اور اس کے ایڈیٹر کی مداح تھیں اور اس خاتون کا کبھی کبھی خط آیا کرتا تھا۔ میں نے ظفر احمد صاحب ( جو میرے اخبار ریاست کے پرنٹر و پبلشر تھے اور دفتر میں کام کرتے تھے) کو بھیج کر لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں بھجوانے کا انتظام کر دیا اور اس خاتون نے اس لڑکی کے لیے اپنے مکان کی اوپر کی منزل میں ایک کمرہ دے دیا اور چوں کہ یہ لڑکی ہندو تھی، اس کے کھانے کا انتظام اس خاتون نے دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل میں کر دیا۔ جہاں سے ہوٹل کا ملازم دونوں وقت کھانا دے جاتا اور میں نے کلکتہ اس کے چچا کو تار بھجوایا کہ شیلا اکیلی ہے۔ اسے آکر لے جائے۔

    دنیا میں زوال کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ شیلا کے چچا نے جب سنا کہ اس کے بھائی کا انتقال ہو چکا ہے اور شیلا دہلی میں اکیلی ہے تو اس نے بھی کچھ زیادہ پروا نہ کی اور لڑکی کو کلکتہ لا کر رکھنا ایک بوجھ سمجھا اور جب اسے بار بار لکھا گیا تو یہ کئی روز بعد دہلی پہنچا اور شیلا دو ہفتہ کے قریب کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں رہیں۔ اس دو ہفتہ کے قیام میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ صرف ایک واقعہ دل چسپ ہے۔

    میرے پاس اطلاع پہنچی کہ شیلا کو بخار ہے۔ میں نے ظفر صاحب کو بھیجا کہ وہ کسی ڈاکٹر کو دکھا کر دوا کا انتظام کر دیں۔ ظفر صاحب کوچۂ چیلاں گئے ۔ شیلا کو اس وقت بخار نہ تھا۔ ظفر صاحب نے کہا کہ وہ ڈاکٹر کو بُلا کر دکھا دیتے ہیں تو شیلا نے کہا کہ ڈاکٹر کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خود ڈاکٹر کے ہاں جا کر نبض دکھا کر دوا لے آئے گی۔ ظفر صاحب نے ڈولی منگائی (اس زمانہ میں دہلی میں ڈولیوں کا رواج بہت تھا اور عورتیں ڈولیوں میں ہی جایا کرتی تھیں)۔ شیلا جب ڈولی میں سوار ہونے لگی تو کمزوری کے باعث یہ کچھ لڑکھڑا سی گئی۔ ظفر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کمزور ہیں تو چاہا کو سہارا دے کر ڈولی میں بٹھا دیں۔ مگر جب ظفر صاحب سہارا دینے لگے تو اس نے بے اختیاری کے عالم میں کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔”

    شیلا ڈولی میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاں گئیں۔ ظفر صاحب ساتھ تھے۔ ڈاکٹر کو نبض دکھائی گئی اور شیلا دوا لے کر واپس کوچۂ چیلاں پہنچ گئی۔ ظفر صاحب جب دفتر میں واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ جب وہ سہارا دینے والے تھے تو شیلا نے کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔” یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب آج سے چالیس پچاس برس پہلے ہر ہندو عورت کسی غیر مرد کو چھونا بھی پاپ اور گناہ سمجھتی تھی۔ شیلا کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے گھر قیام کیے دو ہفتے ہو گئے تھے کہ اس کے چچا اس کو لینے دہلی پہنچے۔ پہلے اپنے بھائی کے کوارٹر میں گئے۔ وہاں پڑوسیوں نے بتایا کہ شیلا کوچۂ چیلاں فلاں مسلمان خاندان کے گھر رہتی ہے۔ شیلا کے چچا نے جب یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے یہ سمجھ لیا کہ شیلا مسلمان ہوگئی ہے۔ وہ کوچۂ چیلاں میں اس خاتون کے یہاں پہنچا اور دروازہ پر شور پیدا کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ ایک معصوم لڑکی کو اغوا کر کے لائے ہو۔ شیلا اوپر کے کمرے میں تھی۔ جب اس نے یہ شور سنا تو نیچے آئی اور چچا کو دیکھا، کہ وہ غصہ کی حالت میں دشنام طرازی کر رہا ہے۔ شیلا نے جب یہ کیفیت دیکھی تو اس نے اپنے چچا کو تمام اصل حالات بتائے اور کہا کہ دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل سے کھانا آتا ہے، صرف ازراہِ ہمدردی اسے یہاں رکھا گیا ہے۔ شیلا کے چچا کو جب اصل حالات معلوم ہوئے تو بے حد شرمندہ ہوا، اس نے معافی چاہی اور وہ شیلا کو لے کر رات کی گاڑی سے کلکتہ روانہ ہو گیا۔

    شیلا جب کلکتہ پہنچی تو خاندان میں اس کی شادی کا سوال پیدا ہوا اور لڑکے کی تلاش شروع ہوئی۔ بنگالی ہندوؤں میں بغیر جہیز کے لڑکی کی شادی کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لڑکے والے دس دس پندرہ پندرہ اور بیس تیس ہزار روپیہ طلب کرتے ہیں اور اگر کسی کے پانچ لڑکے ہوں تو اس کا خاندان امیر ہو جاتا ہے۔ شیلا کا باپ معمولی کلرک تھا۔ جو اپنی بیٹی پر فراخ دلی کے ساتھ روپیہ صرف کرتا رہا۔ شیلا کے چچا کے پاس بھی روپیہ نہ تھا اور اگر ہوتا تو شاید وہ پھر بھی شیلا کے جہیز میں ہزار ہا روپیہ نہ دیتا۔ جہیز کے لیے روپیہ نہ ہونے کے باعث شیلا کے چچا نے اس کی سگائی ایک معمر بنگالی کے ساتھ کر دی جو انبالہ چھاؤنی میں گڈس کلرک تھا۔ شیلا کی شادی ہونے کے چھ ماہ بعد شیلا کا شوہر جگر کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ یہ رخصت لے کر علاج کے لیے کلکتہ گیا۔ وہاں اسپتال میں داخل ہوا اور اسپتال میں ایک ماہ زیرِ علاج رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔

    شیلا کے بیوہ ہوتے ہی گھر کے لوگوں نے اس کو مجبور کیا کہ یہ رواج کے مطابق اپنے بال کٹوا دے تا کہ بدصورت نظر آئے۔ شیلا کوئین میری اسکول کی اچھے گھرانے کی لڑکیوں کے ساتھ پڑھی ہوئی تعلیم یافتہ خوب صورت اور نو عمر لڑکی تھی۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ اس کے بال نہ کاٹے جائیں۔ (بنگالی عورتوں کے بال بے حد حسین ہوتے ہیں اور بنگالی عورتیں اپنے بالوں کو لمبے چمکیلے اور خوب صورت بنانے پر کافی محنت کرتی ہیں) مگر گھر والوں نے خاندان کے وقار کے خیال سے شیلا کے بال کاٹ دیے۔ شیلا کو ایک کمرے میں بند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ تا کہ اس کی منحوس صورت شادی شدہ عورتیں نہ دیکھیں اور ان کا سہاگ قائم رہے۔ کیوں کہ بنگالیوں کے خیال کے مطابق سہاگن عورتوں کو صبح ہی صبح بیوہ عورتوں کی صورت نہ دیکھنی چاہیے۔ شیلا کی جب یہ کیفیت ہوئی تو اس نے مجھے انگریزی میں ایک خط لکھا کیوں کہ وہ اُردو نہیں جانتی تھیں اور میں بنگالی زبان سے واقف نہ تھا جس میں اس کے شادی ہونے اور بیوہ ہونے کے تمام حالات تفصیل سے درج تھے اور لکھا تھا کہ ظفر صاحب کو کلکتہ بھیج دو تا کہ وہ دہلی چلی آئے۔ کیوں کہ اس کی موجودہ زندگی ناقابلِ برداشت حد تک اذیت میں ہے۔

    جب یہ خط پہنچا تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ میں نے ظفر صاحب کو کلکتہ بھیجا کہ وہ شیلا کو دہلی لے آئیں اور یہاں اس کا کوئی انتظام کیا جائے ظفر صاحب کلکتہ گئے تو وہاں ان کے پہنچنے سے ایک روز پہلے شیلا زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کر چکی تھی۔ ظفر صاحب نے بتایا کہ اس بے گناہ اور معصوم لڑکی کی شادی معمر اور بیمار شخص کے ساتھ کر کے سوسائٹی نے اس پر بہت بڑا ظلم کیا۔ کیوں کہ جہیز کے لیے روپیہ نہ تھا اور جہیز بغیر کوئی اچھا لڑکا شادی کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے اس ظلم کے مقابلہ پر موت کو ترجیح دی۔ یہ دن رات کمرہ میں پڑی رہتی۔ جب اس کی موت ہوئی تو اس کے پاس کوئی نہ تھا اور صبح گھر والوں نے دیکھا کہ اس کی لاش چارپائی پر پڑی ہوئی ہے۔ ظفر صاحب یہ حالات سن کر واپس آگئے۔ مجھے حالات سن کر بے حد تکلیف ہوئی۔ مگر سوائے اخبار میں غم و غصہ اور اظہار افسوس کے کر ہی کیا سکتا تھا۔ چناں چہ اسی ہفتہ شیلا کی موت پر ریاست میں ایک درد ناک نوٹ لکھا گیا۔ جس میں جہیز کی لعنت پر آنسو بہائے گئے۔

    (از قلم دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر "ریاست” اخبار)

  • سینما کا عشق

    سینما کا عشق

    "سینما کا عشق” عنوان تو عجب ہوس خیز ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔

    اس سے آپ یہ نہ سمجھیے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو ارمان انگیزی ہے میں اس کا قائل نہیں۔ میں تو سینما کے معاملے میں اوائلِ عمر ہی سے بزرگوں کا موردِ عتاب رہ چکا ہوں لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کے طفیل سینما گویا میری دکھتی رگ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں اس کا نام سن پاتا ہوں بعض درد انگیز واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس سے رفتہ رفتہ میری فطرت ہی کج بین بن گئی ہے۔ اوّل تو خدا کے فضل سے ہم کبھی سینما وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کو ذرا دخل نہیں یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے جو کہنے کو تو ہمارے دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے ان کی دوستی سے جو نقصان ہمیں پہنچے ہیں کسی دشمن کے قبضہ قدرت سے بھی باہر ہوں گے۔

    جب سینما جانے کا ارادہ ہو ہفتہ بھر پہلے سے انہیں کہہ رکھتا ہوں کہ کیوں بھئی مرزا اگلی جمعرات سینما چلو گے نا؟ میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کوئی ہرج واقع نہ ہو لیکن وہ جواب میں عجب قدر ناشناسی سے فرماتے ہیں: "ارے بھئی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور پھر کبھی ہم نے تم سے آج تک ایسی بے مروتی بھی برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو؟”

    ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہو جاتا ہوں۔ کچھ دیر چپ رہتا ہوں اور پھر دبی زبان سے کہتا ہوں: "بھئی اب کے ہو سکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟”

    میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہو جاتا ہے۔ خیر میں بھی بہت زور نہیں دیتا۔ صرف ان کو بات سمجھانے کے لیے اتنا کہہ دیتا ہوں: "کیوں بھئی سینما آج کل چھ بجے شروع ہوتا ہے نا؟”

    مرزا صاحب عجیب معصومیت کے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ "بھئی ہمیں یہ معلوم نہیں۔”

    "میرا خیال ہے چھ ہی بجے شروع ہوتا ہے۔”

    "اب تمہارے خیال کی تو کوئی سند نہیں۔”

    "نہیں مجھے یقین ہے چھ بجے شروع ہوتا ہے۔”

    "تمہیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟”

    اس کے بعد آپ ہی کہیے میں کیا بولوں؟

    خیر جناب جمعرات کے دن چار بجے ہی ان کے مکان کو روانہ ہو جاتا ہوں اس خیال سے کہ جلدی جلدی انہیں تیار کرا کے وقت پر پہنچ جائیں۔ دولت خانے پر پہنچتا ہوں تو آدم نہ آدم زاد۔ مردانے کے سب کمروں میں گھوم جاتا ہوں۔ ہر کھڑکی میں سے جھانکتا ہوں ہر شگاف میں سے آوازیں دیتا ہوں لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی آخر تنگ آ کر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ وہاں دس منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا رہتا ہوں، پھر سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر ادھر اُدھر جھانکتا ہوں۔ وہاں بدستور ہُو کا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آ جاتا ہوں اور اخبار پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ ہر کالم کے بعد مرزا صاحب کو ایک آواز دے لیتا ہوں۔ اس امید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔ سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں۔ یا نہا رہے تھے تو شاید غسل خانے سے باہر نکل آئے ہوں۔ لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں میں سے گونج ہر واپس آ جاتی ہے آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنانے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنے کھولتے ہوئے خون پر قابو میں لا کر متانت اور اخلاق کو بڑی مشکل سے مد نظر رکھ کر پوچھتا ہوں:

    "کیوں حضرات آپ اندر ہی تھے؟”

    "ہاں میں اندر ہی تھا۔”

    "میری آواز آپ نے نہیں سنی؟”

    "اچھا یہ تم تھے؟ میں سمجھا کوئی اور ہے؟”

    آنکھیں بند کر کے سر کو پیچھے ڈال لیتا ہوں اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں اور پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں:

    "تو اچھا اب چلیں گے یا نہیں؟”

    "وہ کہاں”؟

    "ارے بندۂ خدا آج سینما نہیں جانا؟”

    "ہاں سینما۔ سینما۔ (یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں) ٹھیک ہے۔ سینما۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہے جو مجھے یاد نہیں آتی اچھا ہوا تم نے یاد دلایا ورنہ مجھے رات بھر الجھن رہتی۔”

    "تو چلو پھر اب چلیں۔”

    "ہاں وہ تو چلیں ہی گے میں سوچ رہا تھا کہ آج ذرا کپڑے بدل لیتے۔ خدا جانے دھوبی کم بخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں۔ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔”

    اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہو جاتا لیکن کیا کروں اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں بے بس ہوتا ہوں صرف یہی کر سکتا ہوں کہ: "مرزا بھئی للہ مجھ پر رحم کرو۔ میں سینما چلنے کو آیا ہوں دھوبیوں کا انتظام کرنے نہیں آیا۔ یار بڑے بدتمیز ہو پونے چھ بج چکے ہیں اور تم جوں کے توں بیٹھے ہو۔”

    مرزا صاحب عجب مربیانہ تبسّم کے ساتھ کرسی پر سے اٹھتے ہیں گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھئی تمہاری طفلانہ خواہشات آخر ہم پوری کر ہی دیں۔ چنانچہ پھر یہ کہہ کر اندر تشریف لے جاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آؤں۔

    مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا قانون کی رو سے انہیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ کپڑے پہنے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں دوسرا ہاتھ میں، میں بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب۔ پھر اندر آ جاتا ہوں مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید رہے ہوتے ہیں۔ "ارے بھئی چلو۔”

    "چل تو رہا ہوں یار، آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟”

    "اور یہ تم کیا کر رہے ہو؟”

    "پان کے لیے ذرا تمباکو لے رہا تھا۔”

    تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے جاتے ہیں۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چارپانچ قدم آگے پاتا ہوں۔ کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں وہ ساتھ آ ملتے ہیں تو پھر چلنا شروع کر دیتا ہوں پھر آگے نکل جاتا ہوں پھر ٹھہر جاتا ہوں۔ غرض یہ کہ گو چلتا دوگنی تگنی رفتار سے ہوں لیکن پہنچتا ان کے ساتھ ہی ہوں۔

    ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ، بہتیرا آنکھیں جھپکتا ہوں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز دیتا ہے۔ "یہ دروازہ بند کر دو جی!” یا اللہ اب جاؤں کہاں۔ رستہ، کرسی، دیوار، آدمی، کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سر ان بالٹیوں سے جا ٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے لیے دیوار پر لٹکی رہتی ہیں، تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک تر سا دھبہ دکھائی دے جائے۔ وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہو گی خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں، اس کے پاؤں کو پھاند کر اس کے ٹخنوں کو ٹھکرا۔ خواتین کے گھنٹوں سے دامن بچا۔ آخرکار کسی گود میں جا کر بیٹھتا ہوں وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں مرزا صاحب سے کہتا ہوں: "میں نہ بکتا تھا کہ جلدی چلو خوامخواہ میں ہم کو رسوا کروا دیا نا! گدھا کہیں کا!” اس شگفتہ بیانی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ کی کرسی پر جو حضرت بیٹھے ہیں اور جن کو مخاطب کر رہا ہوں وہ مرزا صاحب نہیں کوئی اور بزرگ ہیں۔ اب تماشے کی طرف متوجہ ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ فلم کون سا ہے اس کی کہانی کیا ہے اور کہاں تک پہنچ چکی ہے اور سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جو پردے پر بغل گیر نظر آتے ہیں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں گے۔ اس انتظار میں رہتا ہوں کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے تو معاملہ کھلے کہ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرات ایک وسیع و فراخ انگڑائی لیتے ہیں جس کے دوران میں کم از کم دو تین سو فٹ فلم گزر جاتا ہے۔ جب انگڑائی کو لپیٹ لیتے ہیں تو سر کو کھجانا شروع کر دیتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے خمیدہ رکھتے ہیں۔ میں مجبوراً سر کو نیچا کر کے چائے دانی کے اس دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لیے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی نشست پر کوئی مچھر یا پسو محسوس ہوتا ہے چنانچہ وہ دائیں سے ذرا اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں۔ ایک دو لمحے کے بعد وہی مچھر دوسری طرف ہجرت کر جاتا ہے چنانچہ ہم دونوں پھر سے پینترا بدل لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے وہ دائیں تو میں بائیں اور وہ بائیں تو میں دائیں ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دل یہی چاہتا ہے کہ اگلے درجے کا ٹکٹ لے کر ان کے آگے جا بیٹھوں۔ اور کہوں کہ لے بیٹا دیکھوں تو اب تو کیسے فلم دیکھتا ہے۔

    پیچھے سے مرزا صاحب کی آواز آتی ہے: "یار تم سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ اب ہمیں ساتھ لائے ہو تو فلم تو دیکھنے دو۔”

    اس کے بعد غصے میں آ کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قتل عمد، خودکشی، زہر خورانی وغیرہ معاملات پر غور کرنے لگتا ہے۔ دل میں، میں کہتا ہوں کہ ایسی کی تیسی اس فلم کی۔ سو سو قسمیں کھاتا ہوں کہ پھر کبھی نہ آؤں گا۔ اور اگر آیا بھی تو اس کم بخت مرزا سے ذکر تک نہ کروں گا۔ پانچ چھ گھنٹے پہلے سے آ جاؤں گا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اچھلتا رہوں گا! بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آؤں گا اور اپنے اوور کوٹ کو دو چھڑیوں پر پھیلا کر لٹکا دوں گا! بہرحال مرزا کے پاس تک نہیں پھٹکوں گا!

    لیکن اس کم بخت دل کو کیا کروں۔ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ کر پاتا ہوں تو سب سے پہلے مرزا کے ہاں جاتا ہوں اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ کیوں بھئی اگلی جمعرات سے سینما چلو گے نا؟

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ابوالکلام:‌ چار باغ اسٹیشن سے قیصر باغ کی بارہ دری تک

    ابوالکلام:‌ چار باغ اسٹیشن سے قیصر باغ کی بارہ دری تک

    اردو کی پسماندہ صحافت میں الہلال نکال کر ابوالکلام نے ایک نئے شان دار اور یادگار دور کا آغاز کیا، الہلال کے ساتھ ابوالکلام کا طرزِ انشا بھی اتنا انوکھا اور نرالا تھا کہ جو سمجھ گیا اس نے بھی داد دی اور جو نہ سمجھ سکا داد دینے پر وہ بھی مجبور ہو گیا!

    1924ء میں کہ میں ندوہ کی ابتدائی جماعت کا ایک طالب علم تھا، علی برادران کے ساتھ ابوالکلام بھی لکھنؤ آئے۔ رات کو رفاہِ عام کے ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ مسلمانانِ لکھنؤ کا منعقد ہوا، ندوہ سے کئی طالبِ علم جلسہ کی شرکت کے لیے گئے، میں بھی ساتھ ہو لیا، بڑی دیر تک مولانا کی تقریر ہوتی رہی مگر میری سمجھ میں کچھ خاک نہ آیا، گھر میں بچپن سے ابوالکلام کا ذکر عقیدت و عظمت کے ساتھ سنتا چلا آ رہا تھا، میرے بڑے بھائی سید عقیل احمد صاحب جعفری تو ابوالکلام کے پرستاروں میں تھے، اسی "پروپیگنڈہ‘‘ کا اثر تھا میں رفاہِ عام کے جلسہ میں چلا گیا، لیکن جا کر پچھتایا کہ نہ معلوم یہ اتنے مشہور کیوں ہیں؟

    اگست 1928 میں کانگریس کی مشہورِ زمانہ نہرو رپورٹ قیصر باغ کی بارہ دری (لکھنؤ) میں پیش ہوئی، ندوہ کے طلبہ قومی معاملات میں عملی حصہ لینے کے خوگر تھے۔ اور مقامی قومی کارکن قومی تقریبات کے مواقع پر ان کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کے عادی تھے، اس آل پارٹیز کانفرنس کے سلسلہ میں بھی ندوہ سے رضاکاروں کی طلبی ہوتی، ندوی رضا کاروں کے دستہ کا ایک فرد میں بھی تھا۔

    میرے ذمہ ڈیوٹی یہ تھی، کہ چند رضاکاروں کے ساتھ چار باغ اسٹیشن پر موجود رہوں اور جو زعمائے قوم اور راہ نمایانِ ملّت تشریف لائیں انہیں منزلِ مقصود تک پہچانے کے انتظام میں اپنے سردار کا ہاتھ بٹاؤں۔

    ہر ٹرین پر دس پانچ معمولی اور دو چار بڑے "لیڈر” تشریف لاتے رہتے تھے۔ کوئی ٹیلر پیلس میں مہاراجہ صاحب محمود آباد کا ذاتی مہمان ہے، کوئی ٹھاکر نواب علی کے قصر فلک نما کو اپنا نشیمن بنائے ہوئے ہے، آخری ٹرین سے مولانا ابوالکلام آزاد تشریف لائے۔ آپ کی پیشوائی کے لیے ہم معمولی رضاکاروں کے علاوہ چند سربر آوردہ شخصیتیں بھی پلیٹ فارم پر ٹہل رہی تھیں، مہاراجہ محمود آباد کی طرف سے ان کے پرائیوٹ سکریٹری مسٹر سعید الرّحمٰن قدوائی موجود تھے اور ندوہ کے ارباب انتظام کی طرف سے نواب علی حسن خاں ناظم ندوۃُ العلماء نے اپنے بڑے صاحبزادے امیر حسن صاحب کو بھیجا تھا لیکن مولانا نے دونوں دعوتیں بڑی خندہ پیشانی اور وسعتِ قلب کے ساتھ مسترد کر دیں، انہوں نے فرمایا، میرے بھائی یہ سچ ہے آپ مجھے اپنے ہاں ٹھہرانا چاہتے ہیں لیکن مجھے آرام ہوٹل ہی میں ملے گا، قبل اس کے کہ سعید الرّحمٰن صاحب یا امیر حسن صاحب مزید اصرار فرمائیں، مولانا ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر محمد جان کے ہوٹل کی طرف روانہ ہو چکے تھے، ان دونوں میزبانوں کی حالت اس وقت قابلِ دید تھی۔

    خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کر
    گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

    میں نے سوچا یہ کیسا اکل کھرا لیڈر ہے جو مہاراجہ اور نواب جیسے جلیل القدر میزبانوں تک کی دعوت پوری استغنا کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے۔ عجیب شخص ہے۔ پھر یہ دیکھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے ایوانِ زر نگار میں دھواں دھار تقریریں ہورہی ہیں، کبھی بپن چندر گوپال گرج رہے ہیں، کبھی مسٹر اینے بسنٹ کی آواز کانوں کے پردے سے ٹکرارہی ہے، ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا لیڈر اپنی گرمیٔ گفتار کے کمالات دکھا رہا ہے، لیکن ابوالکلام صاحب ابوالسّکوت بنے بیٹھے ہیں، پرائیوٹ مجلسوں میں بلبل ہزار داستان کی طرح چہکتے ہیں، لیکن جلسۂ عام میں مہر بہ لب۔

    بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست

    بعض لوگوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اس اجتماع کو مجلسِ مشاعرہ اور نہرو رپورٹ کو اس کا مصرعہ طرح سمجھ کر مولانا سے بھی طبع آزمائی کی درخواست کی، لیکن مولانا نے انکار فرما دیا، میرے بھائی تقریریں کافی ہو چکیں، کسی مزید تقریر کی کیا ضرورت ہے؟ مہاراجہ محمود آباد پاس بیٹھے تھے، انہوں نے بھی بڑا اصرار کیا، اب مولانا نے زبان کے بجائے صرف گردن سے جواب دینا شروع کیا۔

    یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
    واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں

    میں رضا کار کی حیثیت سے ڈائس کے قریب کھڑا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، حیرت اس پر تھی کہ یہ شخص مہاراجہ کے اصرار کو بھی خاطر میں نہیں لایا، جن کی شاعرانہ تعریف مسز سروجنی نائیڈو تک نے اپنی لچھے دار تقریر میں کر ڈالی۔

    خوب ادائیں ہیں اس لیڈر کی بھی، زمانہ اور آگے نکل گیا۔

    (از قلم: رئیس احمد جعفری)

  • دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    پروفیسر آذر کی دعوت میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ پنجابی لطائف نے بھی بہت دل چسپی پیدا کر دی اور باتوں باتوں میں آذر صاحب نے سب سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ ہر شخص ایمان داری کے ساتھ بتائے کہ دہلی میں آکر اس نے کیا کچھ حاصل کیا یعنی علمی، مالی یا دوسرے اعتبار سے اس نے دہلی میں آکر کیا فوائد حاصل کیے۔

    سب لوگوں نے بتانا شروع کیا، کسی نے کہا کہ اس نے ایک لاکھ روپیہ پیدا کیا، کسی نے بتایا کہ اس نے علمی اعتبار سے یہ مدارج طے کیے۔ کسی نے ظاہر کیا کہ اس نے فلاں فلاں ترقی و پوزیشن حاصل کی۔ جب میری باری آئی تو میں نے کہا چوں کہ آپ لوگ سچ بتا رہے ہیں اور سچ پوچھ رہے ہیں اس لیے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ دہلی میں آنے کے بعد مالی اعتبار سے میرے قرضہ میں تو کئی گنا اضافہ ہوا لیکن جب دہلی میں آیا تھا تو بے حد مخلص اور مہمان نواز تھا۔ مگر اب طبیعت میں کمینہ پن اور خود غرضی پیدا ہو چکی ہے۔ چناں چہ پہلے اگر کوئی دوست ایک دو روز کے لیے بھی آجاتا تو اس کو کئی کئی ہفتے تک جانے نہ دیا جاتا۔ مہمان کی خدمت گزاری میں لطف اور حظ محسوس ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ چھے چھے ماہ اور ایک ایک سال تک دوست مستقل مہمان کی صورت میں مقیم رہے اور ایک دوست مسٹر محسن ایڈیٹر اودھ اخبار لکھنؤ جو بعد میں ایسوسی ایٹڈ پریس میں ملازم ہو کر دہلی تشریف لائے تھے۔ غالباً دو سال تک بطور مہمان رہے اور جب بھی وہ اپنے لیے مکان لے کر رہنا چاہتے تو ان کو روک لیا جاتا۔ مگر اب کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی دوست دہلی میں تشریف لانے کی اطلاع خط یا تار کے ذریعہ دیتا ہے تو میں اسٹیشن نہیں جاتا تاکہ وہ کسی دوسری جگہ قیام کر لے۔ اگر وہ پھر بھی آجائے تو مہمان کی خدمت گزاری طبیعت پر بھاری محسوس ہوتی ہے اور اس فرق کی وجہ دہلی کا پانی اور دہلی کی فضا ہے جس کا اثر طبیعت پر ہوا۔

    گو یہ تمام دوست خود بھی دہلی کی فضا کے اس اثر کو اپنے اندر محسوس کرتے تھے مگر تعجب کا اظہار کر رہے تھے۔ کیوں کہ ان کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ میں اس کمزوری کا اقرار کروں گا۔ چناں چہ میں نے اس کے ثبوت میں تفصیل کے ساتھ ان کو ذیل کے وہ واقعات بتائے جن کا میری ذات کے ساتھ تعلق تھا۔

    میں جب مانسہ( پٹیالہ) میں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا۔ اس زمانہ دہلی میں ایک شاعر منشی عبد الخالق خلیق رہتے تھے۔ ان سے خط کتابت تھی۔ ان کے خط آیا کرتے کہ میں کبھی دہلی آؤں۔ چھ ماہ تک جب ان کے خط آتے رہے اور انہوں نے دہلی آنے کے لیے بار بار لکھا تو میں ان سے ملنے کے لیے مانسہ سے دہلی آیا۔ میں دہلی اور دہلی کے لوگوں کے حالات سے قطعی نا واقف تھا اور یہ خیال بھی نہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوست کے بار بار لکھنے کے بعد ملنے کے لیے جائے تو وہ دعوت دینے والے کے مکان پر نہ ٹھہرے۔

    میں نے دہلی ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد تانگے میں سامان رکھوایا اور بازار لال کنوال میں پہنچا۔ وہاں گلی چابک سواراں کے سرے پر تانگہ والے سے یہ کہہ کر تانگہ کھڑا رکھنے کے لیے کہا کہ میں ابھی آ کر سامان لے جاتا ہوں۔ میں گلی چابک سواراں کے اندر منشی عبد الخالق صاحب خلیق کے مکان پر پہنچا۔ خلیق صاحب کو آواز دی۔ اپنے دہلی آنے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ میری آواز سن کر خلیق صاحب مکان سے باہر نکلے اور بہت اخلاق اور تپاک سے ملے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ میرا قیام کہاں ہے؟۔ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ملنے کے لیے آئے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ قیام کہاں ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کے لیے جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہوٹل یا سرائے میں ٹھہرے۔ میزبان اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور تمام پنجاب میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرا کر لطف، حظ اور اپنی عزت محسوس نہ کرتا ہو۔

    خلیق صاحب کا یہ سوال سن کر کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔ میں کچھ حیران سا ہو گیا اور میں نے کھسیانا سا ہو کر جواب دیا کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ چناں چہ ان سے شام کو پھر ملنے کا وعدہ کر کے میں گلی سے باہر آیا اور تانگہ والے سے کہا کہ کسی ہوٹل میں لے چلو ۔ تانگے والا مجھے مہاراجہ ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں میں نے قیام کیا اور شام کو خلیق صاحب کا نیاز حاصل کرنے کے لیے پھر ان کے مکان پر آیا۔ وہ مجھے حکیم محمود علی خاں ماہر اکبر آبادی جو بعد میں دہلی میں آنریری مجسٹریٹ اور خطاب یافتہ خاں صاحب تھے کے مکان پر لے گئے۔ جہاں ہم کچھ دیر بیٹھے اور علمی موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ میں دو تین دن دہلی میں رہ کر اور دہلی دیکھ کر واپس مانسہ چلا آیا۔

    یہ کیفیت تو مہمان نوازی کے متعلق دہلی کی فضا کی ہے۔ میں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ میں جب دہلی آیا تو مہمان نوازی کے اعتبار سے خالص طور پر پنجابی تھا اور دو دو چار چار دن کے عارضی مہمانوں کے علاوہ چھ چھ ماہ اور سال سال تک رہنے والے مستقل مہمان بھی ہوا کرتے اور دوپہر کو لنچ پر اور رات کو ڈنر پر آٹھ آٹھ دس دس اصحاب ضرور ہوتے۔ اگر کوئی مہمان جانا چاہتا تو مختلف طریقوں سے یعنی گاڑی جانے کا وقت غلط بتا کر یا گھڑی کو پیچھے کر کے اسے روک لیا جاتا اور گر کوئی مہمان آجاتا تو دل کو مسرت سی محسوس ہوتی۔ لیکن دہلی کے پانی اور یہاں کی فضا کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا گیا۔

    پروفیسر آذر صاحب کے ہاں ڈنر پارٹی والے دوستوں کو میں نے یہ واقعات بیان کرنے کے بعد بتایا کہ اگر دہلی کی فضا مہمان نوازی کے خلاف ہے تو اس میں دہلی والوں کا قصور نہیں، یہ پانی کا اثر ہے۔ ہر دریا کے اندر مختلف اجزا ہوتے ہیں اور ان اجزا کا دل دماغ اور قویٰ پر اثر ہوتا ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مہمان نواز صوبہ سرحد کے لوگ ہیں۔ اس کے بعد پوٹھوہار (راولپنڈی، جہلم) کے علاقہ کے لوگ، ان سے کم گوجرانولہ، لاہور اور امرتسر کے لوگ اور ان سے کم لدھیانہ اور انبالہ کے لوگ۔ اس کے بعد نمایاں فرق شروع ہوتا ہے اور جہاں جہاں جمنا کا پانی سیراب کرتا ہے۔ وہاں مہمان نوازی کے اعتبار سے بالکل ہی صفائی ہے۔ چناں چہ پنجاب کے صوبہ کے لوگوں میں شاید اس بات کا یقین نہ کیا جائے گا کہ دہلی ،لکھنؤ، الہ آباد اور بنارس وغیرہ میں پانی پلانے والے پانی کی قیمت ایک یا دو پیسہ لے لیتے ہیں۔ حالاں کہ پنجاب میں پانی کی قیمت لینا ایک گناہ اور پاپ سمجھا جاتا ہے اور پانی پلانے والا چاہے کتنا بھی غریب ہو پانی کی قیمت قبول نہیں کر سکتا۔

    اگر اپنی کمزوری کا اظہار کرنا اس کمزوری کو رفع اور دل میں طہارت پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے تو میں یہ صاف الفاظ میں اقرار کرتا ہوں کہ جمنا کے پانی کے باعث میں اس خوبی سے محروم ہو چکا ہوں جو اخلاص اور مہمان نوازی کے متعلق مجھ میں چند برس پہلے موجود تھی۔

    (مشہور صحافی اور ادیب دیوان سنگھ مفتون کے قلم سے)