Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • دلّی آمد اور عبد الخالق خلیق کا سوال

    دلّی آمد اور عبد الخالق خلیق کا سوال

    میں جب مانسہ ( پٹیالہ) میں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا۔ اس زمانہ دہلی میں ایک شاعر منشی عبد الخالق خلیق رہتے تھے۔ ان سے خط کتابت تھی۔

    ان کے خط آیا کرتے کہ میں کبھی دہلی آؤں۔ چھ ماہ تک جب ان کے خط آتے رہے اور انہوں نے دہلی آنے کے لیے بار بار لکھا تو میں ان سے ملنے کے لیے مانسہ سے دہلی آیا۔ میں دہلی اور دہلی کے لوگوں کے حالات سے قطعی نا واقف تھا اور یہ خیال بھی نہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوست کے بار بار لکھنے کے بعد ملنے کے لیے جائے تو وہ دعوت دینے والے کے مکان پر نہ ٹھہرے۔

    میں نے دہلی ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد تانگے میں سامان رکھوایا اور بازار لال کنوال میں پہنچا۔ وہاں گلی چابک سواراں کے سرے پر تانگہ والے سے یہ کہہ کر تانگہ کھڑا رکھنے کے لیے کہا کہ میں ابھی آ کر سامان لے جاتا ہوں۔ میں گلی چابک سواراں کے اندر منشی عبد الخالق صاحب خلیق کے مکان پر پہنچا۔ خلیق صاحب کو آواز دی۔ اپنے دہلی آنے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ میری آواز سن کر خلیق صاحب مکان سے باہر نکلے اور بہت اخلاق اور تپاک سے ملے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ میرا قیام کہاں ہے؟۔ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ملنے کے لیے آئے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ قیام کہاں ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کے لیے جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہوٹل یا سرائے میں ٹھہرے۔ میزبان اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور تمام پنجاب میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرا کر لطف، حظ اور اپنی عزت محسوس نہ کرتا ہو۔

    خلیق صاحب کا یہ سوال سن کر کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔ میں کچھ حیران سا ہو گیا اور میں نے کھسیانا سا ہو کر جواب دیا کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ چناں چہ ان سے شام کو پھر ملنے کا وعدہ کر کے میں گلی سے باہر آیا اور تانگہ والے سے کہا کہ کسی ہوٹل میں لے چلو ۔ تانگے والا مجھے مہاراجہ ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں میں نے قیام کیا اور شام کو خلیق صاحب کا نیاز حاصل کرنے کے لیے پھر ان کے مکان پر آیا۔ وہ مجھے حکیم محمود علی خاں ماہر اکبر آبادی جو بعد میں دہلی میں آنریری مجسٹریٹ اور خطاب یافتہ خاں صاحب تھے کے مکان پر لے گئے۔ جہاں ہم کچھ دیر بیٹھے اور علمی موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ میں دو تین دن دہلی میں رہ کر اور دہلی دیکھ کر واپس مانسہ چلا آیا۔

    (دیوان سنگھ مفتون کی آپ بیتی سے ایک پارہ)

  • میرا جی: پرلے درجے کا مخلص جس نے لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا

    میرا جی: پرلے درجے کا مخلص جس نے لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا

    منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے۔ اردو نظم کو جدّت اور بہ لحاظِ ہیئت انفرادیت عطا کرنے والے میرا جی اپنے فن و تخلیق کے لیے تو اردو ادب میں زیرِ بحث رہے ہی ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بعض پہلوؤں سے بھی ان کے ہم عصر اہلِ قلم صرفِ نظر نہیں کرسکے اور میرا جی کے ‘اعمالِ بد’ کو بھی ادبی تذکروں اور خاکوں کا حصّہ بنایا ہے۔ آج میرا جی کی برسی ہے۔

    مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور روایت سے انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بھی ثابت کیا ہے اور مگر ان کی فنی عظمت کا اعتراف سبھی کرتے ہیں اور انھیں بالخصوص اردو نظم کو تنوع اور نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والا شاعر کہا جاتا ہے۔ لیکن بحیثیت انسان وہ اپنی آوارہ مزاجی اور ذہنی عیّاشی کے سبب ایسی قبیح عادات میں مبتلا رہے جو ناگفتہ بہ ہیں۔ انھیں جنسی مریض‌ بھی سمجھا گیا، 3 نومبر 1949ء کو میرا جی ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔

    میرا جی نے زندگی کی صرف 38 بہاریں دیکھیں۔ ان کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ میرا جی 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں ملازم تھے۔ بسلسلۂ ملازمت ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہا اور میرا جی نے بھی تعلیم مختلف شہروں میں مکمل کی۔ یہ کنبہ لاہور منتقل ہوا تو وہاں‌ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی ثناء اللہ ڈار کی زندگی میں داخل ہوئی۔ انھوں نے اس کے عشق میں گرفتار ہوکر اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق ناکام رہا۔ اس کے بعد میرا جی نے محبّت اور ہوس میں کوئی تمیز نہ کی اور کئی نام نہاد عشق کیے اور رسوائیاں اپنے نام کیں۔ یہ تو ایک طرف، میرا جی نے اپنا حلیہ ایسا بنا لیا تھا کہ نفیس طبیعت پر بڑا گراں گزرتا۔ ادیبوں نے میرا جی پر اپنی تحریروں میں لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔

    علم و ادب کی دنیا سے میرا جی کا تعلق مطالعہ کے شوق کے سبب قائم ہوا تھا۔ میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشّاق قاری تھے۔ انھوں نے جب اپنی طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری کا آغاز کردیا اور پھر ادب سے شغف کی بنیاد پر ایک مشہور رسالہ ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور وہ مضمون نگار بن گئے، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ ادبی حلقے سے حوصلہ افزائی نے میرا جی کو طبع زاد تحریروں اور تنقیدی مضامین لکھنے کی طرف راغب کیا اور یوں وہ ادب کی دنیا میں نام و مقام بناتے چلے گئے۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے۔ عمر خیام کی رباعیات کو انھوں نے بڑے سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنایا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی تھیں اور اردو ادب بھی نئے رجحانات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہورہا تھا۔ اسی دور میں میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی اور آگے چل کر جدید نظم کے بانیوں میں ان کا شمار ہوا۔ ظفر سیّد نے بی بی سی پر اپنی ایک تحریر میں‌ میرا جی کے لیے لکھا تھا، وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید میرا جی کے بارے میں لکھتے ہیں، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی دوران انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ اردو شاعری میں‌ میرا جی کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

    ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

    اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    یہاں ہم اردو کے جدید اردو نظم کے بانی اور مشہور شاعر میرا جی کی ایک غزل باذوق قارئین کے مطالعے کے لیے نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
    کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

    کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
    کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

    کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
    من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

    اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
    دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

    ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
    ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

    سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
    لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

  • بامقصد تفریح کے قائل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا بھی ذریعہ سمجھتے تھے

    بامقصد تفریح کے قائل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا بھی ذریعہ سمجھتے تھے

    مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک ایسے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر محفوظ ہے جس نے اپنے کام سے ایک عہد کو متأثر کیا۔ وہ تھیٹر سے فلم کی دنیا میں آئے تھے اور ان کی فلمیں‌ ہندوستانی سنیما کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔

    شانتا رام نے 1901ء میں ہندوستان کے شہر کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام شانتا رام راجا رام ونیکدرے تھا۔ شانتا رام 30 اکتوبر 1990ء کو چل بسے تھے۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ بیس برس کی عمر میں‌ جب وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تو ویملا بائی ان کی پہلی شریکِ حیات تھیں اور شادی کے وقت ان کی عمر 12 برس تھی۔ ان کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ 1941ء میں وی شانتا رام نے اپنے وقت کی معروف اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کرلی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں سندھیا نامی ایک کام یاب اداکارہ ان کی تیسری بیوی بنی، لیکن وہ بے اولاد رہی۔

    اس فلم ساز اور پروڈیوسر نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا اور بعد فلم سازی اور اداکاری بھی کی، ان کی بنائی ہوئی فلمیں مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ 1929ء کی بات ہے جب شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے اپنے شہر کولہا پور میں پربھات فلم کمپنی شروع کی تھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    فلم ساز شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ ان کی فلمیں‌ سماجی جبر کے خلاف ہوتی تھیں۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کو اپنی فلموں میں نشانہ بناتے اور اس میڈیم کے ذریعے انسان دوستی کا پرچار کرتے تھے۔ فلم بینوں کو یہ موضوعات بہت متاثر کرتے تھے۔ شانتا رام فلمی دنیا میں‌ بھی اپنے صبر و تحمل، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفہ کے لیے مشہور رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی رنگین فلم ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولہا پور سے پونے منتقل کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں جو بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ وہ خود ترقی پسند خیالات اور امید افزا کہانیاں‌ سنیما کو دینے میں مصروف رہے۔ وہ ایک اختراع کار اور ایسے آرٹسٹوں میں سے تھے جن کی فلموں‌ میں سے سب پہلے ہندوستانی عورت کی زندگی کو بھی نمایاں کیا گیا۔

    1937ء میں شانتا رام نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    وی شانتا رام نے تیسری شادی کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی دیکھی گئیں۔ شکنتلا ان کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلموں‌ کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی زیادہ تر فلمیں مقبول ہوئیں اور آج بھی فلمی ناقدین اور تبصرہ نگار اس دہائی میں شانتا رام کی فلموں کا ذکر کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج (جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    وی شانتا رام کا عروج 1950ء کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ وہ خود کو بدلتی ہوئی فلم انڈسٹری میں اجنبی محسوس کرنے لگے اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی ہندوستانی سنیما کے سنہرے دور کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔

  • حئی بن یقظان: عربی کا وہ ناول جس سے مغربی مصنّفین نے بھی استفادہ کیا

    حئی بن یقظان: عربی کا وہ ناول جس سے مغربی مصنّفین نے بھی استفادہ کیا

    نیاز فتح پوری نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ذکر میں لکھا تھا کہ ایک بار حکمائے اسلام کے سلسلہ میں ابنِ طفیل کا ذکر آگیا تو مولانا نے اس کی مشہور کتاب "حئی بن یقظان” کی ساری داستان ایک نشست میں اس طرح سنا دی گویا وہ اس کے حافظ تھے۔

    اسی تذکرہ نے ابنِ طفیل اور اس کی کتاب کے متعلق جستجو پیدا کی۔ ابو بکر محمد بن عبد الملک بن محمد بن طفیل القیسی 1110ء کو غرناطہ کے نواح میں پیدا ہوئے۔ ان کے ابتدائی حالات تاریکی میں ہیں۔ ابنِ طفیل نے طبابت کا پیشہ اختیار کیا۔1154ء میں طنجہ کے گورنر کے سیکریٹری مقرر ہوئے اور پھر الموحد خاندان کے فرمانروا، ابو یعقوب یوسف کے دربار میں پہنچے جہاں انہیں وزیر مقرر کیا گیا اور عہدۂ قضا بھی انہیں کے سپرد تھا۔ مشہور فلسفی ابنِ رشد کو انہوں نے ہی شاہی دربار تک پہنچایا تھا۔

    ابنِ طفیل نہ صرف طبیب بلکہ ماہرِالٰہیات، فلکیات، فلسفی اور ناول نگار بھی تھے۔ ان کی کتابوں میں صرف ایک کتاب "اسرارُ الحکمۃ المشرقیہ” (حئی بن یقظان) محفوط رہی۔ ابنِ طفیل کا انتقال 1185ء میں طنجہ میں ہوا۔

    حئی بن یقظان ایک فلسفیانہ ناول ہے جس میں افلاطونیتِ جدیدہ کے مسائل کو افسانے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کے مقدمہ میں ابنِ طفیل نے پہلے مسلم فلاسفی کی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے ابنِ سینا، ابنِ باجہ اور غزالی کی تعریف کی ہے۔ اور پھر یہ ثابت کیا ہے کہ فلسفہ کی اصل غائت ذاتِ خداوندی سے متحد کر دینا ہے اور یہی فلسفہ صوفیا کا ہے۔

    قصہ یوں شروع ہوتا ہے:
    ایک شہزادی نےاپنے لڑکے کو، جس کا باپ نہ تھا، سمندر میں ڈال دیا اور یہ بہتا بہتا ایک سنسان جزیرے میں پہنچ گیا۔ اس موقع پر وہ اس نظریہ کو پیش کرتے ہیں کہ اوّل اوّل زمین میں گرمی سے جو کیفیت خمیر کی پیدا ہوئی تھی اس سے جاندار کی تخلیق ہونا ممکن تھی، ابنِ طفیل نے اس کا نام حئی ( زندہ ) رکھا۔ اس لڑکے کو ایک ہرن لے گیا اور اسی ہرن نے اس کی پرورش کی۔ جب حئی نے ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ وہ دوسرے جانوروں کی طرح ننگا اور غیر مسلح تھا، اس لئے اس نے پتّوں سے جسم کو ڈھانکا اور درختوں کی شاخ سے لکڑی توڑ کر ایک چھڑی تیار کی۔ اس طرح سب سے پہلے اسے اپنی ہاتھ کی قوت کا علم ہوا۔ رفتہ رفتہ وہ شکاری بن گیا اور اپنی رہائش کے لیے ایک جھونپڑا بھی تیار کرلیا۔

    جب ہرن بہت بوڑھا ہو کر بیمار پڑگیا تو اس لڑکے نے سوچا کہ بیماری کیا چیز ہے اور اس کا سبب کیا ہے۔ پھر وہ یہ سوچ کر کہ بیماری کا تعلق سینہ سے ہے وہ اسے ایک تیز نوک دار پتھر سے چیرنے لگا۔ اس طرح اسے دل، پھیپھڑے اور اندرونی اعضاء کا علم ہوا اور اسی کے ساتھ وہ یہ بھی محسوس کرنے لگا کہ جسم کے اندر کوئی اور چیز ایسی تھی جو نکل گئی تو اس کے باعث ہرن بے حس و حرکت ہو گیا۔ جب ہرن کا جسم سڑنے لگا تو حئی نے ایک کوّے کو دوسرے کوّے کا مردہ جسم زمین کھود کر اندر گاڑتے ہوئے دیکھ کر خود بھی ہرن کا جسم زمین میں دفن کر دیا۔

    اس کے بعد اتفاق سے خشک شاخوں کی باہمی رگڑ سے آگ پیدا ہوتے دیکھ کر اس نے خود بھی آگ سے جان پہچان بنائی۔ اسی کے ساتھ اس گرمی کی طرف بھی اس کا خیال منتقل ہوا جو جسمِ حیوانی میں پائی جاتی ہے اور وہ جانوروں کی کھال نکال کر ان کی جسمانی حرارت پر غور کرنے لگا۔ اس کی ذہانت اب ایک قدم اور آگے بڑھی۔

    یعنی وہ کھالوں کے لباس بنانے لگا۔ اس نے روئی کاتی، سوئی بنائی اور چڑیوں کے گھونسلے دیکھ کر مکان تیار کیا۔ شکاری پرندوں کو دیکھ کر خود بھی شکار کرنا شروع کیا۔ چڑیوں کے انڈے کھانے لگا اور جانوروں کے سینگوں سے ہتھیار کا کام لیا۔

    اب اس کا علم بڑھتے بڑھتے فلسفہ کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ رفتہ رفتہ نباتات و معدنیات کا مطالعہ کرنے لگا۔ اعضاء، وزن اور دیگر خصوصیاتِ طبعی کی بنا پر جانوروں کی قسمیں مقرر کیں۔ آخر میں وہ روح پر غور کرنے لگا جس کا تعلق اس کے نزدیک دل سے تھا اس نے روح کی دو قسمیں (روحِ نباتی، روحِ حیوانی) قرار دیں۔ اس کے بعد اس نے عناصرِ اربعہ کا علم حاصل کیا اور مٹی پر غور کرتے کرتے اس کا خیال مادّہ کی طرف منتقل ہوا۔ پانی کو بخار ( بھاپ ) میں تبدیل ہوتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک مادّہ دوسرے مادّہ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور پھر اس کا خیال علتِ تخلیق کی طرف منتقل ہو کر خالق تک پہنچا اور زمین سے ہٹ کر اب اس کی نگاہیں آسمانوں کی طرف مائل ہوتی نظر آئیں۔ اس نے سوچا کہ کیا یہ کائنات غیر محدود ہے؟

    لیکن اس کی عقل اس بات کو قبول نہیں کر رہی تھی۔ اس نے سیاروں کے کُروی ہونے کا گمان کیا۔ آخر کار رفتہ رفتہ ایک خالق یا خدا کا تصور اس کے ذہن میں پیدا ہوا جسے حئی بن یقظان نے آزاد اور صاحبِ علم و ادراک تصور کیا اور پھر روحِ انسانی کو بھی غیر فانی قرار دے کر ذاتِ خداوندی سے اس کے ربط و تعلق پر غور کرنے لگا۔ ایک زمانہ اس نے اسی فکر و مراقبہ میں گزارا۔

    اس موقع پر قریب کے جزیرہ سے ایک شخص اسال وہاں پہنچا جو ایک الہامی مذہب کا پیامبر تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسال جس مذہب کا پابند ہے وہ دراصل وہی ہے جس تک حئی سالہا سال کے غور و فکر سے پہنچا۔ پھر اسال نے اسے آمادہ کیا کہ وہ جزیرہ جا کر وہاں کے بادشاہ سلامان کو اس حقیقت سے آگاہ کرے کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ اور فطرت کے قوانین کو مت توڑو۔ لیکن سلامان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ آخر کار حئی اور اسال دونوں واپس آ گئے اور صحرا میں رہ کر فکر و مراقبہ میں انھوں نے اپنی زندگی تمام کر دی۔

    ابنِ طفیل کی اس عربی کتاب پر حواشی بھی لکھے گئے اور اس کتاب سے نصیر الدین طوسی اور جامی نے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس کتاب سے مغربی مصنفین نے بھی بہت فیض حاصل کیا ہے۔ انگریزی کے مشہور ناول ٹارزن میں ہیرو کی تربیت کا تصور اسی کتاب سے استفادہ کا ثبوت ہے۔ انگریزی ہی کے ایک اور مشہور ناول رابنسن کروسو (Robinson Crusoe) کی تخلیق میں اس کے مصنف ڈینیل ڈیفو (Daniel Defoe) نے اسی ناول کی تقلید کی ہے۔ لئیون گوئٹے نے حئی بن یقظان کے مقدمہ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ رابنسن کروسو میں فرائی ڈے کا کردار، اسال کا چربہ ہے اور اس میں جو فلسفیانہ نکتہ سنجی اور حکیمانہ موشگافیاں پائی جاتی ہیں وہ بھی اسی سے ماخوذ ہیں لیکن اسلوب عصرِ جدید کے مطابق ہے۔

    جوناتھن سوِفٹ (Jonathan Swift) اپنی کہانی گلیورز ٹریولز (Gulliver`s Travels) کی تالیف میں "حئی بن یقظان” ہی کا مرہونِ منت ہے۔ بون یونیورسٹی کے پروفیسر روڈلف نیس نے اپنے ناول خاندان سوئزر لینڈ میں اسی عربی کتاب کا تتبع کیا ہے۔

    1671 میں اس کتاب کا ترجمہ ایڈورڈ پوکوک نے لاطینی میں کیا۔ اس کا ترجمہ فرانسیسی، انگریزی، جرمن، ہسپانوی، ولندیزی اور اردو میں ہوچکا ہے۔ 1900ء میں اس کا ایک ترجمہ عبرانی زبان میں بھی کیا گیا ہے۔

    اشویل نے اپنے انگریزی ترجمہ کے مقدمہ میں ابنِ طفیل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔

    "ابو بکر ابنِ طفیل مشہور مسلمان فلسفی ہے۔ اس نے اپنے قصہ میں ارتقائے عقلِ انسانی کے مدارج واضح کیے ہیں اور نہایت چابک دستی سے راز ہائے کائنات کا انکشاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی دقتِ مشاہدہ حوادثِ کون و مکاں کی تفسیر میں ظاہر بین ہے۔”

    (یہ اقتباس اردو کے معروف علمی و ادیی جریدے نگار کے 1955ء میں شایع ہونے والے ایک شمارے سے لیا گیا ہے)

  • علّامہ اقبال اور گوتم بدھ

    علّامہ اقبال اور گوتم بدھ

    مذاہب کا سلسلہ، روحانیت، انسانوں کا ان پر اعتقاد اور روحانی شخصیات سے تعلق اتنا ہی قدیم ہے جتنی یہ دنیا۔

    گوتم بدھ کا نام بھی تاریخ میں ایک عظیم روحانی شخصیت اور مصلح کے طور پر زندہ ہے جن کا فلسفۂ حیات ایشیائی ممالک اور بالخصوص برصغیر میں خاصا مقبول ہوا اور اس خطّے میں ان کی تعلیمات کو لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنایا۔ انھیں بدھا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق ان کا اصل نام سدھارتھ تھا جو 563 قبل مسیح یا 480 قبلِ مسیح میں ایک ریاست کے راجہ کے گھر میں پیدا ہوئے، لیکن مادّی زندگی کو ناپسند کیا اور روحانی کشمکش سے دوچار ہونے کے بعد راج پاٹ سے الگ ہو کر خلوت نشینی اختیار کر لی۔ مہاتما بدھ نے نہایت کٹھن وقت گزارا، لیکن ریاضت جاری رکھی اور تلاشِ حق میں مصروف رہے۔ انھوں نے اپنی ریاضت اور مسلسل غور و فکر سے یہ پایا کہ ترکِ دنیا اور نفس کشی ہی انسان کی معراج ہے۔ جب بدھا کو یہ محسوس ہوا کہ اس طرح ایک انسان روحانی بالیدگی حاصل کرسکتا ہے تو وہ اس تصوّر کو دوسروں تک پہنچانے لگے۔ بدھ مت میں چوں کہ ایک خدا کا تصوّر نہیں ہے، اس اعتبار سے ایک فلسفیانہ مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات اصلاحِ نفس پر آمادہ کرتی ہیں۔ یوں بدھ مت کو رواج ملا جس کے بانی گوتم بدھ نے عملی اخلاقیات اور زندگی کے سادہ اصولوں پر زور دیا ہے۔

    گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق، انسانی زندگی میں چار اہم مدارج ہیں، جنھیں ’’چار سچائیوں‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مصائب یا مشکلات پہلی سچائی ہے، جس کا ہر انسان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری سچائی، ان مصائب کی وجہ یعنی انسان کے اعمال ہیں۔ تیسری سچائی، ان مصائب و مشکلات کا خاتمہ اور آخری یہ کہ اعمالِ‌ صالحہ انسان کو اس مشکل سے نجات دے سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گوتم نے کبھی نہ تو خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اپنا بُت بنانے کا حکم دیا۔ یہ سب اُن کی وفات کے بعد شروع ہوا۔ یہ ایک طویل بحث ہے جسے یہیں چھوڑ کر ہم شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی مشہورِ زمانہ کتاب جاوید نامہ کی طرف بڑھتے ہیں جس میں‌ وہ گوتم بدھ سے ملتے ہیں۔

    یہ فارسی کا وہ کلام ہے جس میں اقبال نے بشمول بدھا مختلف غیر مسلم مشاہیر و فلاسفہ کا تذکرہ کیا ہے۔ جاوید نامہ میں علّامہ اقبال نے اپنا کلام مثنوی کی شکل میں لکھا ہے، جو تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ جاوید نامہ کی اوّلین اشاعت 1932 میں ہوئی تھی۔

    یہ دراصل علّامہ اقبال کا خیالی سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے مولانا روم کو اپنا روحانی مرشد ظاہر کیا ہے جو انھیں آسمانوں پر مختلف مقامات کی سیر کرواتے ہیں۔ اس سیر کے دوران علّامہ اقبال عہدِ رفتہ کی نام وَر ہستیوں کی ارواح سے ملاقات کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس مثنوی میں قسم قسم کے علمی و فکری، دینی و سیاسی اور اجتماعی حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا آغاز مناجات سے ہوتا ہے مگر اصل مطالب اس وقت آتے ہیں جب شاعر شام کے وقت دریا کے کنارے مولانا رومی کے بعض اشعار پڑھ رہا ہوتا ہے کہ ان کی روح وہاں حاضر ہوجاتی ہے۔ ان سے سوال و جواب کے بعد علّامہ اقبال کو رومی مختلف شخصیات سے ملواتے ہیں۔

    ہم جانتے ہیں‌ کہ شاعرِ مشرق علّامہ محمّد اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ خاص طور پر نوجوان نسل سے مخاطب ہیں اور اسے اپنی اصلاح کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جاوید نامہ کے علاوہ بانگِ درا میں اقبال کی نظم’’نانک‘‘ کے ابتدائی چند اشعار میں گوتم بدھ کا ذکر آیا ہے۔ نظم کا پہلا شعر ہی اقبال کی نظر میں گوتم کے پیغام کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ جاوید نامہ میں اقبال اور گوتم کی تصوّراتی ملاقات کا ذکر کچھ یوں‌ ہے؎

    قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی
    قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانا کی

    اقبال اپنے کلام میں گوتم بدھ کو راست باز اور انسانوں کو بدی اور ہر قسم کی ایسی برائیوں‌ سے بچانے والا قرار دیتے ہیں جس سے انسان کی روح متاثر ہوتی ہے اور وہ جسمانی کرب کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں‌ گرفتار ہوسکتا ہے۔ جاوید نامہ میں‌ جب سفرِ افلاک کے دوران اقبال اور بدھا کا آمنا سامنا ہوتا ہے، اُس وقت بھی وہ ایک رقاصہ کو سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔

  • ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر

    ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر

    اردو شاعری میں راشد کو نظم نگاری کے باعث جو مقام ملا، اسے اُن کی شاعری پر تنقید اور اعتراضات ماند نہیں کرسکے۔ ن م راشد رجحان ساز اور اردو نظم کے بڑے شاعر کہلائے۔

    ممتاز ادیب اور مشہور افسانہ نگار غلام عبّاس نے راشد سے متعلق اپنی یادیں رقم کرتے ہوئے اُن کے مشہور شعری مجموعہ اور اس کے ناشر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘ماوریٰ’’ چھپ گئی۔ چغتائی صاحب نے اس کا بہت خوب صورت گرد پوش بنایا تھا۔ کرشن چندر نے دیباچہ لکھا تھا۔ جیسا کہ توقع تھی کتاب ملک میں بہت مقبول ہوئی۔ اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ کچھ رسائل و جرائد میں اس کے خلاف تنقیدیں بھی چھپیں مگر اس کی مقبولیت پر کچھ اثر نہ پڑا۔

    اس دوران میں دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا۔ اور وہ کپتان بن کر ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد واپس آئے تو دلّی میں میرے ہی پاس آکر ٹھہرے۔ ان کی عدم موجودگی میں ‘‘ماوریٰ’’ کا دوسرا ایڈیشن چھپ گیا تھا۔ جس کی ایک جلد میں خرید لایا تھا۔ خوش خوش اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔ اچانک ان کا چہرہ غصّے سے متغیر ہو گیا۔ ناشر نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی وہ نظمیں بھی رسائل سے لے کر شامل کر دی تھیں جو انہوں نے ‘‘ماوری’’ کے چھپنے کے بعد پچھلے ڈیڑھ دو سال میں کہی تھیں۔ حالانکہ انہوں نے ناشر کو اس کی سخت ممانعت کر دی تھی۔ راشد شاید ان نظموں کو اپنے دوسرے مجموعے کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

    وہ اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے۔ رات کو نیند بھی نہ آئی۔ بس تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر وردی پہن کر گھر سے نکل گئے، تین چار دن غائب رہے۔ اس کے بعد آئے تو بڑے ہشاش بشاش، لپٹ لپٹ کر گلے ملتے اور قہقہے لگاتے رہے۔

    بولے، جانتے ہو میں کہاں سے آرہا ہوں؟ لاہور سے۔ میں اس صبح اپنے دفتر سے اجازت لے کر لاہور روانہ ہو گیا تھا۔ میں سیدھا انار کلی چوک کے تھانے میں پہنچا۔ میں نے تھانے دار سے کہا، میں فوج میں کپتان ہوں۔ میں جنگ کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب ہم جنگ پر ملک سے باہر جائیں تو سرکار ہمارے پیچھے ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ اب دیکھیے میرے ساتھ میرے پبلشر نے کیا کیا، اس کے بعد میں نے تھانے دار کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔ اس نے کہا، صاحب آپ فکر نہ کریں، میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر ناشرکی دکان پر تالا ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جس پریس میں کتاب چھپی تھی اس کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔

    ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر بڑا اکڑ باز تھا۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کبھی کبھی مارپیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ مگر راشد کی اس کارروائی سے اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔ گڑگڑا کر راشد سے معافی مانگی اور کہا کہ میں پوری رائلٹی کے علاوہ ایک ہزار روپیہ اس کا ہرجانہ بھی دوں گا۔ پریس والے بے قصور تھے، انہیں معاف کر دیا گیا۔ البتہ ان کے رجسٹر سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ پہلا ایڈیشن ایک ہزار نہیں جیسا کہ اس میں درج تھا بلکہ دو ہزار جلدوں کا چھاپا گیا تھا۔ چنانچہ ناشر کو ایک ہزار کی مزید رائلٹی ادا کرنی پڑی۔

  • ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر 1921ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لا تعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِ اقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبد القادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضامین کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سید امتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہو سکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔ سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔

    بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    1922ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تا دیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔

    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لا تعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    اسی طرح مجھ سے انہوں نے بارہا کہا کہ آپ اخبار میں ایک چوکھٹا مستقل طور پر لگاتے رہیں جس کے اندر جلی حروف میں یہ عبارت مرقوم ہو کہ ’’بائیں ہاتھ چلو۔‘‘ روزانہ یہ چوکھٹا چھپتا رہے گا تو یقین ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو بائیں ہاتھ چلنے کی اہمیت کا احساس ہوتا جائے گا۔

    میں خود ماضی پر نظر بازگشت ڈالتا ہوں۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب، مؤرخ، نقاد اور مترجم غلام رسول مہر کی ایک تحریر)

  • ’’اگر دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا!‘‘

    ’’اگر دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا!‘‘

    ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر واقع قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) دنیا کے اہم اور عظیم ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا جس کی ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر فرانس کے مشہور حکم ران نپولین نے کہا تھا: ’’اگر پوری دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا۔‘‘

    یہاں ہم قسطنطنیہ کے مختصر حالات کے عنوان سے علّامہ شبلی نعمانی کے سفر نامے سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ علّامہ شبلی نعمانی 1914ء میں وفات پاگئے تھے۔ یہ سفرنامہ ایک صدی پہلے رقم کیا گیا تھا۔

    کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کے برابر خوش منظر نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ منظر کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش نما ہونا خیال میں بھی نہیں آتا۔ اسی لحاظ سے اس کی بندر گاہ کو انگریزی میں گولڈن ہارن یعنی سنہری سینگ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں عین دریا کے کنارے پر عمارتوں کا سلسلہ ہے اور دور تک چلا گیا ہے۔ عمارتوں کے آگے جو زمین ہے۔ وہ نہایت ہموار اور صاف ہے۔ اس کی سطح سمندر کی سطح کے بالکل برابر ہے۔ اور وہاں عجیب خوش نما منظر پیدا ہو گیا ہے۔

    شہر کی وسعتِ تمدن کا اس اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خاص استنبول میں پانچ سو جامع مسجدیں، ایک سو اکہتّر حمام، تین سو چونیتیس سرائیں، ایک سو چونسٹھ مدارس، قدیم پانچ سو مدارس، جدید بارہ کالج، پینتالیس کتب خانے، تین سو پانچ خانقاہیں، اڑتالیس چھاپے خانے ہیں۔ کاروبار اور کثرتِ آمدورفت کی یہ کیفیت ہے کہ متعدد ٹراموے گاڑیاں، بارہ دخانی جہاز، زمین کے اندر کی ریل، معمولی ریلیں، جو ہر آدھ گھٹنے کے بعد چھوٹتی ہیں، ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ اور باوجود اس کے سڑکوں پر پیادہ پا چلنے والوں کا اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ ہر وقت میلہ سا معلوم ہوتا ہے۔

    غلطہ اور استنبول کے درمیان جو پل ہے، اس پر سے گزرنے کا محصول فی شخص ایک پیسہ ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔

    قہوہ خانے نہایت کثرت سے ہیں۔ میرے تخمینہ میں چار پانچ ہزار سے کم نہ ہوں گے۔ بعض بعض نہایت عظیم الشان ہیں جن کی عمارتیں شاہی محل معلوم ہوتی ہیں۔ قہوہ خانوں میں ہمیشہ ہر قسم کے شربت اور چائے قہوہ وغیرہ مہیا رہتا ہے۔ اکثر قہوہ خانے دریا کے ساحل پر اور بعض عین دریا میں ہیں جن کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ قہوہ خانوں میں روزانہ اخبارات بھی موجود رہتے ہیں۔ لوگ قہوہ پیتے جاتے ہیں اور اخبارات دیکھے جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ بلکہ ان تمام ممالک میں قہوہ خانے ضروریات زندگی میں محسوب ہیں۔ میرے عرب احباب جب مجھ سے سنتے تھے کہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں تو تعجب سے کہتے تھے: "وہاں لوگ جی کیونکر بہلاتے ہیں۔” ان ملکوں میں دوستوں کے ملنے جلنے اور گرمی صحبت کے موقعے یہی قہوہ خانے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ہندوستانیوں کو ان باتوں کا ذوق نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس قسم کی عام صحبتیں زندگی کی دل چسپی لے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ اور طبیعت کی شگفتگی پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ دوستانہ مجلسیں ہمارے ہاں بھی ہیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دوست کے مکان پر دو چار احباب کبھی کبھی مل بیٹھتے ہیں لیکن اس طریقہ میں دو بڑے نقص ہیں۔ اوّل تو تفریح کے جلسے پُرفضا مقامات میں ہونے چاہییں کہ تازہ اور لطیف ہوا کی وجہ سے صحتِ بدنی کو فائدہ پہنچے۔دوسرے سخت خرابی یہ ہے کہ یہ جلسے پرائیوٹ جلسے ہوتے ہیں اس لیے ان میں غیبت، شکایت اور اسی قسم کی لغویات کے سوا اور کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ بخلاف قہوہ خانوں کے جہاں مجمعِ عام کی وجہ سے اس قسم کی باتوں کا موقع نہیں مل سکتا۔ قسطنطنیہ اور مصر میں، مَیں ہمیشہ شام کے وقت دوستوں کے قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن میں نے سوائے کبھی اس قسم کے تذکرے نہیں سنے۔ تفریح اور بذلہ سنجی کے سوا وہاں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہو سکتا تھا۔

    قسطنطنیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو یورپین اور ایشیائی تمدن کی تصویر ایک مرقع میں دیکھنی ہو تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کی سیر کرو تو ایک طرف نہایت وسیع دکان ہے۔ سنگِ رخام کا فرش ہے۔ شیشہ کی نہایت خوبصورت الماریاں ہیں۔ کتابیں جس قدر ہیں مجلّد اور جلدیں بھی معمولی نہیں بلکہ عموماً مطلا و مُذَہَّب۔ مالکِ دکان میز کرسی لگائے بیٹھا ہے۔ دو تین کم سن، خوش لباس لڑکے اِدھر اُدھر کام میں لگے ہیں۔ تم نے دکان میں قدم رکھا۔ ایک لڑنے نے کرسی لا کر سامنے رکھ دی۔ اور کتابوں کی فہرست حوالہ کی۔ قیمت فہرست میں مذکور ہے۔ اس میں کمی بیشی کا احتمال نہیں۔

    دوسری طرف سڑک کے کنارے چبوتروں پر کتابوں کا بے قاعدہ ڈھیر لگا ہے۔زمین کا فرز اور وہ بھی اس قدر مختصر کہ تین چار آدمی سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ قیمت چکانے میں گھنٹوں کا عرصہ درکار ہے۔

    اسی طرح پیشہ و صنعت کی دکانیں دونوں نمونہ کی موجود ہیں۔ عام صفائی اور زیب و زینت کا بھی یہی حال ہے۔ غلطہ کو دیکھو تو یورپ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں بلند اور آراستہ۔ سڑکیں وسیع اور ہموار۔ کیچڑ اور نجاست کا کہیں نام نہیں۔ بخلاف اس کے استنبول میں جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اکثر سڑکیں ناصاف اور بعض بعض جگہ اس قدر ناہموار کہ چلنا مشکل۔

    اس شہر میں آ کر ایک سیاح کے دل میں غالباً جو خیال سب سے پہلے آتا ہو گا۔ وہ یہ ہو گا کہ اس عظیم الشان دارالسلطنت کے دو حصّوں میں اس قدر اختلافِ حالت کیوں ہے؟ چنانچہ میرے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا۔ میں نے اس کے متعلق کچھ بحث و تفتیش کی۔ باشندوں کے اختلافِ حالت کا سبب تو میں نے آسانی سے معلوم کر لیا۔ یعنی مسلمانوں کا افلاس اور دوسری قوموں کا تموّل۔ لیکن سڑکوں اور گزر گاہوں کی ناہمواری و غلاظت کا بظاہر یہ سبب قرار نہیں پا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ایک معزز ترکی افسر یعنی حسین حسیب آفندی پولیس کمشنر سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری میونسپلٹی کے ٹیکس بہت کم ہیں۔ بہت سی چیزیں محصول سے معاف ہیں۔ لیکن غلطہ میں یورپین سوداگر خود اپنی خواہش سے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے میونسپلٹی اس رقموں کو فیاضی سے صرف کرسکتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ وہی غلطہ ہے۔ جس کی نسبت ابنِ بطوطہ نے نجاست اور میلے پن کی سخت شکایت کی ہے۔ یا اب ان کو صفائی و پاکیزگی کا یہ اہتمام ہے کہ اس کے لیے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صفائی اور خوش سلیقگی آج کل یورپ کا خمیر بن گیا ہے۔ یہاں کی عمارتیں ہندوستان کی عمارتوں سے بالکل جدا وضع کی ہیں۔ مکانات عموماً منزلہ، چو منزلہ ہیں۔ صحن مطلق نہیں ہوتا۔ عمارتیں تمام لکڑی کی ہیں۔ بڑے بڑے امرا اور پاشاؤں کے محل بھی لکڑی ہی کے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ یہاں اکثر آگ لگتی ہے۔ کوئی مہینہ بلکہ ہفتہ خالی نہیں جاتا۔ کہ دو چار گھر آگ سے جل کر تباہ نہ ہوں۔ اور کبھی کبھی تو محلّے کے محلّے جل کر خاکِ سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آگ بجھانے کے لیے سلطنت کی طرف سے نہایت اہتمام ہے۔ کئی سو آدمی خاص اس کام پر مقرر ہیں۔ ایک نہایت بلند منارہ بنا ہوا جس پر چند ملازم ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جس وقت کہیں آگ لگتی دیکھیں، فوراً خبر کریں۔ اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے منارے جا بجا بنے ہوئے ہیں۔ جس وقت کہیں آگ لگتی ہے فوراً توپیں سر ہوتی ہیں اور شہر کے ہر حصّے کے آگ بجھانے والے ملازم تمام آلات کے ساتھ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ بے تحاشہ دوڑتے جائیں۔ یہاں تک اگر کوئی راہ چلتا ان کی جھپٹ میں آ کر پس جائے تو کچھ الزام نہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ پتھر کی عمارتیں کیوں نہیں بنتیں۔ معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور تندرستی کو نقصان پہنچتا ہے۔

    آب و ہوا یہاں کی نہایت عمدہ ہے۔ جاڑوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور کبھی کبھی برف بھی گرتی ہے۔ گرمیوں کا موسم جس کا مجھ کو خود تجربہ ہوا، اس قدر خوش گوار ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ ہمارے یہاں کے امراء شملہ اور نینی تال کی بجائے قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے! پانی پہاڑ سے آتا ہے۔ اور نہایت ہاضم اور خوش گوار ہے۔

  • "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹنے والے حمید اختر

    "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹنے والے حمید اختر

    دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اپنی شخصیت کے اس پہلو کا خوب احساس تھا یا پھر وہ اپنے اداکاری کے شوق اور صلاحیتوں کا ادراک کرچکے تھے کہ قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے۔ حمید اختر کی یہ کوشش رائیگاں‌ نہ گئی اور ’آزادی کی راہ پر‘ کے نام سے ایک فلم میں انھیں کسی طرح‌ سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام بھی ہو گیا۔

    حمید اختر کو شہرت اور نام و مقام تو ملا مگر بطور اداکار نہیں‌ بلکہ ایک صحافی، کالم نویس، ادیب اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے۔ وہ 2011ء میں کینسر کے مرض سے ہار گئے۔ حمید اختر کا انتقال 17 اکتوبر کو ہوا تھا۔

    متحدہ ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں حمید اختر نے 1924ء میں آنکھ کھولی اور وہیں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے۔ اردو زبان کے مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے اور اردو کے مشہور مزاح نگار اور شاعر ابن انشاء سے بھی اسکول کے زمانہ میں ہی دوستی ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے یہ دوست اور خود حمید اختر بھی علم و فنون میں گہری دل چسپی لینے لگے۔ وہ زمانہ ہندوستان میں ترقی پسند فکر اور ادبی رجحانات کے عروج کا تھا جب ساحر اور انشاء نے تخلیقی سفر شروع کیا اور حمید اختر نے بھی کوچۂ صحافت میں قدم رکھ دیا۔ جلد ہی وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ حمید اختر نے اپنی عملی صحافت کا آغاز لاہور میں‌ روزنامہ امروز سے کیا اور بعد میں اس کے مدیر بنے۔ اسی سفر کے دوران انھوں نے کالم نگاری شروع کی اور یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔

    جن دنوں حمید اختر بمبئی میں مقیم تھے، وہاں فلمی دنیا اور ادبی مجلسوں‌ میں ان کی ملاقاتیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے بڑے اہلِ قلم اور ترقی پسند مصنّفین سے ہوئیں اور پھر ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آگئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں اور اہلِ‌ قلم پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی ترقی پسند نظریات اور اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہوئے اور دو سال تک قید میں‌ رہے۔ بعد میں حمید اختر کے قلم نے ’کال کوٹھڑی‘ تحریر کی جو ان کے ایامِ اسیری کی روداد ہے۔

    1970ء میں حمید اختر نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہوگیا۔

    حمید اختر نے خاکہ نگاری بھی کی اور یہ خاکے اُن ترقی پسند مصنّفین کے ہیں‌ جن کی رفاقت حمید اختر کو نصیب ہوئی۔ ان کے شخصی خاکوں کی یہ کتاب ‘احوالِ دوستاں’ کے نام سے شایع ہوئی۔ حمید اختر کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے، یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔”

    حمید اختر نے افسانہ نگاری بھی کی، لیکن صحافتی مصروفیات اور تنظیمی سرگرمیوں‌ کی وجہ سے اس طرف یکسوئی سے توجہ نہیں‌ دے سکے، انھوں نے چند فلمی اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ 2010ء میں‌ حمید اختر کو تمغائے حسنِ‌ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کی مقبول اداکارہ صبا حمید انہی کی بیٹی ہیں۔

  • جب امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے مرعوب نظر آیا!

    جب امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے مرعوب نظر آیا!

    اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ ڈاکٹر اجمل پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور بعد میں‌ صدرِ شعبہ رہے۔ ڈاکٹر صاحب وسیعُ المطالعہ، نہایت قابل اور بڑے نکتہ سنج تھے جن کی گفتگو بھی سحر انگیز ہوتی تھی۔ ڈاکٹر اجمل کے لیکچرز اور ان کے علمی مضامین شاگردوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے تھے۔ ہر کوئی ان سے مرعوب نظر آتا۔ ڈاکٹر صاحب ایسی سحر انگیز اور عالمانہ انداز میں گفتگو کرتے تھے کہ سننے والے کا جی نہیں بھرتا تھا۔

    اردو زبان کے نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ موسیقی ڈاکٹر داؤد رہبر بھی اجمل صاحب کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے متعلق ایک واقعہ نہایت دل چسپ پیرائے میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بوسٹن میں میرے مہربان دوست ڈاکٹر محمد اجمل صاحب اپنے عزیز اشرف جان صاحب کے ہاں آ کر ٹھہرے تو میں نے انہیں اپنے ہاں تناول کی دعوت دی۔”

    "ڈاکٹر جڈ ہوورڈ کو بھی بلایا، یہ نفسیات کے پروفیسر تھے، ڈاکٹر اجمل صاحب بھی پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر رہ چکے ہیں، لندن یونیورسٹی میں انہوں نے تحلیلِ نفسی کی اعلیٰ تعلیم پائی۔ میں ان کو چھیڑ کر کہا کرتا تھا پاکستان میں پاگل کہاں! آپ کی پریکٹس وہاں نہ چلے گی۔”

    "بوسٹن میں انہوں نے ڈاکٹر جڈ ہوورڈ سے تین گھنٹے گفتگو میں ایسی زندہ دلی کا ثبوت دیا کہ کیا کہنے! دوسرے روز ڈاکٹر ہوورڈ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تمہارے دوست کی وسعتِ نظر اور گفتگو کی جولانی میری زندگی کا ایک خاص تجربہ ہے، میں نے امریکا میں نفسیاتی ڈاکٹروں کے حلقوں میں ایسا چومکھی ذہن والا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔”

    "پروفیسر ہوورڈ اور ڈاکٹر اجمل کے آفاقِ ذہنی کے تفاوت کی وجوہ میں سب سے بڑی وجہ ڈاکٹر اجمل کے تجاربِ زندگی کا تنوع ہے جو ڈاکٹر ہوورڈ کو خواب میں بھی نصیب نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کون ہے جس کی گفتگوئیں نانبائیوں، حلوائیوں، نائیوں، کمہاروں، پہلوانوں، کنجڑوں، سقوں، لوہاروں، موچیوں، لکڑہاروں، جولاہوں، بھٹیاروں، کوچوانوں، قلیوں، بھڑبھونجوں، بھانڈوں، میراثیوں، ہیجڑوں، درزیوں، عطاروں، طبیبوں، موذنوں اور مولویوں سے نہ رہ چکی ہوں۔”

    "ہندوستان اور پاکستان کے مسالہ دار کھانے، آم پارٹیاں، نہاری پارٹیاں، پوشاکوں کی رنگا رنگی، پنجابی اور سندھی اور پشتوں اور بلوچی اور مارواڑی اور انگریزی بولیوں کے زمزمے اور سب سے بڑھ کر وہاں کی ٹریفک کی سنسنی خیز اُودھم زندگی کا ایسا بارونق تجربہ، اور اس پر بہترین تعلیم، ڈاکٹر اجمل کا ذہن باغ و بہار کیوں نہ ہو۔”