Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • میلان: وہ شہر جہاں بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں!

    میلان: وہ شہر جہاں بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں!

    آبادی کے لحاظ سے میلان اٹلی کا دوسرا بڑا شہر اور اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ آج یہ شہر فن و ثقافت کا مرکز اور سیر و سیاحت کے لیے مشہور ہے۔

    موجودہ دور میں سیاحت کی غرض سے جانے والے بعض پاکستانی سیاح اور مصنّفین نے اٹلی کا سفر نامہ بھی اردو زبان میں لکھا ہے۔ لیکن ایک صدی قبل اٹلی میں مختصر قیام کے دوران میلان شہر کا آنکھوں دیکھا حال ہمیں عبدالحلیم شرر بتاتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کی اس ممتاز علمی و ادبی شخصیت نے ناول اور ڈرامہ نویسی کے علاوہ مضمون نگاری اور تراجم بھی کیے جو کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    عبدالحلیم شرر، یورپ کی 26 صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے میلان شہر اور اس کے باسیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

    "میلان میں ہمارا ارادہ ایک شب قیام کرنے کا تھا تاکہ صبح کو سوار ہو کے ایسے وقت سوئٹزر لینڈ کے پہاڑوں میں پہنچیں جب کہ دن ہو اور اچھی طرح سیر ہو سکے۔ میلان کے اسٹیشن کے قریب ہی “ہوٹل ڈی نورڈ” تھا، جس میں جا کے ہم نے اپنا اسباب رکھا اور گاڑی پر سوار ہو کر شہر کی سیر کو روانہ ہوئے۔”

    "میلان، اٹلی ہی نہیں، سارے یورپ کے اعلٰی اور خوش سواد شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے شہر وینس سے عجیب طرح نسبت دی ہے، کہتے ہیں کہ جس طرح وینس اندر اور باہر ہر جگہ سمندر اور پانی سے گھرا ہوا ہے، اسی طرح یہ شہر ہر طرف عمدہ سبزہ زاروں اور جاں فزا مرغزاروں کے جھرمٹ میں ہے۔ اٹلی میں قدامت کی یادگاریں اور تنزل کے نمونہ نمایاں نظر آتے ہیں اور میلان میں موجودہ ترقی کے آثار اور خوش حالی و دولت مندی کے اسباب ہویدا ہیں؛ اور بے شک اس کا ثبوت ہمیں اس دو گھڑی کی سیر میں بھی ہر جگہ اور ہر در و دیوار سے ملتا تھا۔”

    "لوگ خوش حال اور خوش پوشاک ہیں، بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں۔ زن و مرد کے چہروں سے فارغ البالی اور مشقت پسندی کی بشاشت ایک نور کی طرح چمکتی ہے۔ سڑکیں نہایت صاف ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہاں لندن کی سڑکوں سے بھی زیادہ صفائی کا انتظام ہے۔ گیس کی لالٹینوں کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برقی لیمپ چودھویں رات کے چاند کی طرح نور افشانی کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہر وقت معمولی گھوڑے کی گاڑیوں کے علاوہ ٹریموے کی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں اور ٹریموے بھی دونوں قسم کی، وہ بھی جن کو گھوڑے کھینچتے ہیں اور وہ بھی جو برقی قوت سے چلتی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر ایک نئے جانے والے کے دل پر یہ پڑتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شہر جادو کا بنا ہوا ہے اور کوئی مافوق العادت چیز سارے کاروبار کو چلا رہی ہے۔”

    "اٹلی کا یہ نامی اور مشہور شہر قریب ایک مدور وضع میں آباد ہے جس کو پہلے ایک دس میل کی ناتمام فصیل اپنے غیر مکمل دائرہ میں لیے ہوئے ہے۔ اس فصیل کے برابر ہی برابر درختوں کا ایک حلقہ بھی چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، پھر اس فصیل کے اندر ایک دوسرا حلقہ ایک نہر سے بن گیا ہے، جو فصیل کے دائرہ اور مرکز کے عین درمیان میں ہے اور جس نے پانچ میل کے دور میں شہر کو گھیر لینا چاہا ہے۔ شہر کی گنجان اور خاص آبادی نہر کے حلقہ کے اندر ہے اور نہر کے باہر اور فصیل کے اندر بھی مکانات اور آبادی ہے، مگر اس حصے میں زیادہ تر نزہت افزا اور فرحت بخش باغ اور چمن ہیں جو یہاں کے عشرت پسند امرا اور جفاکش اہلِ شہر کے لیے بہت کچھ سامانِ لطف پیش کرتے ہیں۔”

    "ہم گاڑی پر سوار ہو کے شہر کی آبادی، مصفا سڑکوں اور خوبصورت دکانوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کے کیتھڈرل یعنی بڑے کنیسہ میں پہنچے جو خاص شہر روما کے بڑے گرجے کے بعد سارے یورپ کے گرجوں سے اوّل درجہ کا خیال کیا جاتا ہے، مگر افسوس کہ شام ہو جانے کی وجہ سے اندر جا کے اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ یہ گاتھک وضع کی عالیشان اور بے مثل عمارت اپنی قدامت کی شان سے شہر کے عین مرکز پر ایک مربع وضع میں کھڑی ہوئی ہے اور پوری سنگ مرمر سے بنی ہے۔ تقریباً پانچ سو سال پیشتر 1385ء میں جان گلیازو پہلے ڈیوک میلان نے اس کو تعمیر کرانا شروع کیا تھا، مگر بنیاد اتنے بڑے اندازہ پر ڈالی گئی تھی کہ جان گلیازو کی زندگی کا وفا کرنا در کنار آج تک تکمیل نہ ہوسکی، نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف عہدوں، مختلف مذاق کے کاریگروں کا ہاتھ لگا، جس کی وجہ سے یہ عمارت آج ہر قسم اور ہر مذاق کی عمارتوں کا مجموعہ نظر آتی ہے اور یہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ گاتھک دروازہ اور ردکار میں یونانی وضع کی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ پوری عمارت ایک لاطینی صلیب کی وضع میں نظر آتی ہے جس کا طول 493 فٹ، عرض 177 فٹ، اور بلندی 283 فٹ ہے۔ اس گرجے میں 2 محراب دار ستون، 98 برج اور کلس ہیں اور اندر باہر سب ملا کے 4400 پتھر کی ترشی ہوئی مورتیں نصب ہیں۔ ابھرے ہوئے کام کھدائی اور خوشنما سنگین مورتوں کے اعتبار سے یہ گرجا دنیا کے تمام گرجوں سے بڑھا ہوا ہے؛ حتٰی کہ خود روما کے گرجے سینٹ پیٹرس کی بھی کوئی ہستی نہیں جو بہ لحاظ عمارت کے اس سے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر بنا ہوا دہرا راستہ، اس کے ستونوں کی مجموعی خوشنمائی، اس کی بلند محرابیں، اس کی سفید دیواروں کی چمک اور آب و تاب اور چاروں طرف کے بے شمار طاق جن پر ہزار ہا سنگِ مرمر کی ترشی ہوئی مورتیں رکھی ہیں، دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا سماں پیدا کر دیتے ہیں کہ انسان تمام عمارتوں کو بھول جاتا ہے اور اسی قسم کا سماں دکھانے کی اس کی تعمیر میں بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے کہ ستون اگرچہ 90 فٹ اونچی چھت کو اٹھائے ہوئے ہیں مگر 8 فٹ کے دور سے زیادہ موٹے نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام ستون کسی چیز کے دیکھنے میں بہت کم حاجب ہوتے ہیں اور اندر کی پوری فضا ہر طرف سے صاف اور کھلی نظر آتی ہے۔ چھت پر گنبد کے عین درمیان میں جناب مریم کی مورت نصب ہے اور ان ہی کے نام پر یہ گرجا نذر کر دیا گیا ہے۔ پیچھے تہ خانے میں ایک زیارت گاہ ہے جس میں سینٹ چارلس بورومیو دفن ہے۔”

    "چارلس بورومیو سولھویں صدی میں میلان کا آرچ بشپ یعنی بڑا پادری تھا، مرنے کے بعد ولیوں میں شمار کیا گیا اور آج تک اس کی قبر کی پرستش ہوتی ہے، اس سے منت مرادیں مانگی جاتی ہیں اور دور دور سے لوگ زیارت کو آتے ہیں۔

    (ماخوذ از: اٹلی کی مختصر سیر)

  • فلم یا محبّت میں ناکامی گرو دَت کی خود کُشی کی وجہ کیا تھی؟

    فلم یا محبّت میں ناکامی گرو دَت کی خود کُشی کی وجہ کیا تھی؟

    فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار گرو دَت کو ہندوستانی سنیما میں شہرت تو خوب ملی، لیکن اس وقت جب گرو دَت اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ وہ اپنے پیچھے کئی کہانیاں چھوڑ گئے۔

    گرو دَت کی موت طبعی نہ تھی۔ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والے گرو دَت 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح اپنے بیڈ روم میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔ لیکن 1970ء کی دہائی میں گرو دِت کو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ بولی میں ان کی فلموں کا چرچا ہونے لگا اور 1980ء میں ایک فرانسیسی محقق کی گرو دَت پر ریسرچ سامنے آئی تو وہ فن کی دنیا میں‌ عالمی سطح پر بھی پہچانے گئے۔ یہ سلسلہ یوں دراز ہوا کہ گرو دَت کی فلمیں فرانس اور یورپ کے متعدد شہروں میں منعقدہ ثقافتی میلوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

    بھارت کے اس باکمال ہدایت کار، فلم ساز اور اداکار نے بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو آنکھ کھولی تھی۔ وہ صرف 20 برس کے تھے جب اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ انھیں اس وقت کے فلمی صنعت کے گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے بڑے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ فلم ’بازی‘ کو گرو دَت کی اوّلین فلم تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے تین فلمیں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ کے لیے بھی گرو دَت اپنی صلاحیتوں کو آزما چکے تھے۔

    بمبئی میں گرو دَت کی خود کشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ ان کے فلمی دنیا کے وہ ساتھی فن کار جن کی گرو دَت سے گہری دوستی تھی، اطلاع ملتے ہی گرو دَت کے گھر پہنچ گئے۔ ان میں دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان جیسے بڑے فن کار شامل تھے۔ فلم نگری کا ہر چھوٹا بڑا فن کار اور آرٹسٹ اس موقع پر غم زدہ تھا۔ 39 سال کی عمر میں‌ موت کا انتخاب کرنے والے گرو دَت سبھی کے دل میں بستے تھے۔

    1951ء میں بولی وڈ کی کئی خوب صورت اور یادگار فلموں‌ میں گرو دَت کی فلم بازی بھی شامل تھی اور اس نے خاصا بزنس کیا تھا۔ یوں گرو دَت صرف 25 برس کی عمر میں کام یاب ہدایت کار بن چکے تھے جب کہ اپنی فلموں میں‌ بطور اداکار بھی کام کر کے خود کو منوایا تھا۔ اس کے اگلے سال انھوں نے فلم جال کی ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی منظرِ عام پر آئی، جس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا تھا اور یہ فیصلہ اس ہدایت کار کی نجی زندگی کا اہم موڑ بھی ثابت ہوا۔ 1953ء میں گرو دَت نے معروف سنگر گیتا دَت سے شادی کر لی تھی جس کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے، لیکن بولی وڈ کی مشہور اداکارہ وحیدہ رحمان کی محبّت میں‌ گرفتار ہو کر گرو دَت نے اپنی خانگی زندگی کو تلخیوں سے بھر دیا۔ گرو دَت کی بیوی نے تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچّوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ کہتے ہیں‌ کہ وحیدہ رحمان نے یہ دیکھ کر گرو دَت سے دوری اختیار کرنا مناسب سمجھا اور یوں وہ تنہا رہ گئے۔ اسی زمانے میں‌ گرو دَت کی ایک فلم بھی ناکام ہو گئی جس پر گرو دَت سخت دل گرفتہ تھے۔ پھر ان کی خود کشی کی خبر آئی۔ ان کی موت خواب آور گولیاں وافر مقدار میں پھانک لینے سے ہوئی تھی۔

    1987ء میں لندن کی صحافی نسرین منّی کبیر نے ’اِن سرچ آف گرو دَت‘ کےعنوان سے دستاویزی فلم تیّار کی تھی جو تین اقساط پر مشتمل تھی اور چینل فور پر اس کی نمائش کی گئی۔ گرو دَت سے متعلق مواد کو 1996 میں نسرین منّی کبیر ہی نے کتابی شکل دی اور بعد میں ان کے 37 خطوط کا مجموعہ بھی شائع کروایا۔

    گرو دَت اور بولی وڈ کے مشہور اداکار دیو آنند میں گہری دوستی تھی اور دوستی کا یہ تعلق اسی زمانے میں استوار ہوا تھا جب دونوں ہی فلم نگری میں‌ نئے تھے۔ مشہور ہے کہ ان کے درمیان طے یہ پایا تھا کہ اگر گرو دَت پہلے ہدایت کار بن گیا تو وہ اپنی پہلی فلم میں دیو آنند کو چانس دے گا اور اگر دیو آنند نے پہلے فلم پروڈیوس کی تو گرو دَت کو بطور ہدایت کار موقع دے گا۔ ڈھائی تین برس بعد جب دیو آنند کے بڑے بھائی نے اپنی فلم کمپنی شروع کی اور پہلی فلم ’بازی‘ بنائی تو ہیرو کے روپ میں‌ دیوآنند اسکرین پر جلوہ گر ہوئے اور اپنے وعدے کے مطابق انھوں نے گرو دَت کو اس فلم کا ہدایت کار بنایا۔

  • ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ازل سے فطرتِ آزاد ہی تھی آوارہ
    یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

    ن م راشد نے جہانِ سخن میں شوق کو اپنا راہ نما کیا۔ اگر یہ شاعر کسی کو راہ بَر مان کر اس کا ہاتھ تھام لیتا، کسی کی پیروی کرتا تو شاید اردو نظم کی سیج پر روایت سے انحراف کے ایسے پھول بھی نہ کھلتے جن کی خوش بُو چمن زارِ سخن میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور یہ پھول آج بھی لہک لہک کر انسان دوستی، محبّت، وفا اور خلوص کے ترانے سنا رہے ہیں۔ ن م راشد کی شاعری جذبات کی دل آویز کھنک کے ساتھ انسانوں کے دُکھوں اور مصائب کا ادراک کرواتی ہے۔ ان کی نظمیں فرسودہ نظام کو مسترد کرتی ہیں۔ راشد کے تخیل کی یہ آوارگی، خود آگاہی کا وسیلہ بنی اور اس کے طفیل اردو شاعری متنوع اور غیر روایتی موضوعات پر شان دار نظمیں ملیں۔ راشد کی شاعری نرم اور سادہ نہیں بلکہ کھردرے جذبات کی عکاس ہے۔

    آج اردو کے اس جدّت طراز اور روایت شکن شاعر کا یومِ وفات ہے۔ 9 اکتوبر 1975ء میں‌ ن م راشد نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ والد ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ دادا ایک بڑے معالج تھے اور اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ ن م راشد کے والد بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔ راشد کے والد خود شعر کم کہتے تھے لیکن ان کی بدولت راشد کو اردو فارسی کے بڑے شاعروں کے کلام سے آگاہی ہوئی۔ راشد اسکول کے زمانہ میں انگریزی کے شاعروں سے بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے ملٹن، ورڈسورتھ اور لانگ فیلو کی بعض نظموں کے ترجمے کیے اور اسکول کی ادبی محفلوں میں پڑھ کر انعام کے حقدار بنے۔

    راشد کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق ہو گیا۔ راشد، یکم اگست 1910ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے جن کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ ان کا تعلق ایک خوش حال گھرانے سے تھا۔ راشد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کئی اہم عہدوں‌ پر فائز رہے۔ انھوں نے انگریزی، فلسفہ، تاریخ اور فارسی بھی پڑھی۔ انگریزی میں متعدد مضامین بھی لکھے جو رسائل اور اخبار کی زینت بنے جب کہ شاعری میں جداگانہ شناخت بنائی اور ہم عصروں‌ میں‌ جدید نظم گو شاعر کے طور پر امتیاز حاصل کیا۔

    ادبی تذکروں اور سوانح میں‌ لکھا ہے کہ راشد کا خاصا وقت شیخوپورہ اور ملتان میں گزرا۔ یہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر مختلف ادبی اور تعلیمی رسائل کی ادارت کا بھی موقع ملا۔ وہ کمشنر آفس، ملتان میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ اور اِسی عرصے میں چند ناولوں اور مختلف موضوعات پر کتب کا اردو ترجمہ کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں‌ جب ایران میں قیام کا موقع ملا تو راشد نے اہم شعراء کی درجنوں نظموں کا اردو ترجمہ کیا۔ بعد میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے اور ترقی پاکر ڈائریکٹر آف پروگرامز ہوگئے۔

    راشد نے متحدہ ہندوستان کے برطانوی قانون کے مطابق مختلف امتحانات پاس کرنے کے بعد فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اور اس دوران بیرونِ ملک بھی تعینات رہے اور وہاں کی سیاسی، سماجی زندگی اور تہذیب و شعور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ فوج سے رخصت لے کر وہ دوبارہ ریڈیو لکھنؤ سے منسلک ہوگئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد راشد نے ریڈیو پاکستان پشاور سے تعلق جوڑ لیا۔ وہ اقوام متحدہ میں بھی شامل ہوئے اور نیویارک، جکارتہ، کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبۂ اطلاعات میں خدمات انجام دی تھیں،1961 میں ان کی شادی ہوئی لیکن بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی۔راشد نوجوانی میں خاکسار تحریک سے بہت متاثر تھے اور اِس سے وابستہ بھی رہے۔ وہ اکثر تقاریب میں خاکسار وردی اور ہاتھ میں بیلچہ اٹھائے شریک نظر آتے تھے۔

    آزاد نظم میں ہیئت، تیکنیک کے منفرد اور قابلِ ذکر تجربات نے راشد کو جدید نظم کا معمار ثابت کیا۔ اِن کی شاعری تجریدی اور علامتی تجربات سے مزین ہے جو شاعر کے منفرد اسلوب اور پُراثر طرزِ بیان کے سبب بہت مقبول ہوئی۔

    روایت میں جدیدیت کا رنگ بھرنے والے اس شاعر نے معاشرے اور افراد کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور فکر و نظر کے نئے زاویے دیے۔ انھوں‌ نے نظام اور اپنے معاشرے پر ایسا طنز کیا کہ شاعر کو نامُراد اور جنس نگار تک کہا گیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ دشنام طرازی بجائے خود فرسودہ اور پست ذہنیت کا نتیجہ تھی۔ البتہ راشد کے بارے میں‌ یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ وہ ایک تیز طرار انسان تھے اور لابنگ کے علاوہ اپنی بعض حرکتوں‌ کی وجہ سے اکثر شخصیات ان سے ناخوش تھے اور دور رہنا پسند کرتی تھیں۔ لیکن دوسری طرف راشد ایک بااصول شخص بھی بتائے جاتے ہیں، مظفر علی سیّد نے اس بارے میں‌ اپنی کتاب میں‌ دل چسپ واقعہ لکھا ہے: "جب میں ایران میں قیام کے دوران اُن سے ملنے گیا تو انہوں نے پوچھا کہ جدید ایرانی شاعروں کے مجموعے آپ نے خرید لیے ہیں؟ میں نے کہا کہ کچھ خرید لیے ہیں اور کچھ کی تلاش ہے۔ کہنے لگے ’میں آپ کو یہاں کی شاعری کے کچھ مجموعے دکھاتا ہے جو اتفاق سے میرے پاس ڈپلیکیٹ ہوگئے ہیں۔ ان میں ایک ایک آپ رکھ لیجیے جو آپ کے پاس موجود نہ ہوں۔ میں آپ سے صرف آدھی قیمت لوں گا۔‘ ذرا کی ذرا میں دم بخود ہو کے رہ گیا لیکن پھر یہ سوچ کے چل پڑا کہ مجھے مزید مجموعے درکار تو ہوں گے ہی اور آدھی قیمت پر کیا برے ہیں۔ ہمارے دانش ور دوست شاید اسے بُرا سمجھیں مگر اِن لوگوں کے عمل میں ایک آدھ نمائشی فیاضی کے بعد جو مفت خورا پن شروع ہوتا ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ راشد جیسے با اصول آدمی دنیا میں بہت کم ہوں گے لیکن اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اصول پسندی کو بڑی سہولت سے نبھا جاتے تھے۔ انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی کہ یہ میرا اصول ہے اور میں اِس سے سرِمُو انحراف نہیں کر سکتا۔‘

    بطور شاعر راشد نے نئے افکار کے حامل، اِرتقا اور جدت سے ہم آہنگ اور باعمل افراد پر مشتمل معاشرہ تشکیل دینے کی بات کی۔ اِن کا زیادہ تر کلام رجائیت اور خوش کن خیالات سے دور ہے، لیکن بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی یہ نظمیں گھٹن اور حبس زدہ ماحول سے نکلنے اور صبحِ نو کی جوت جگاتی ہیں، جس پر ن م راشد کو ابہام کا شاعر کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی۔ راشد کی علامتی شاعری کو محض لفاظی کہا گیا، لیکن ن م راشد نے اپنی شاعری کے ذریعے تشکیک زدہ معاشرے کو نئے رجحانات اور افکار سے آشنا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    اِن کی شاعری میں کسی کہانی کی طرح وہ کردار بھی ملتے ہیں جو معاشرے کے مکر و فریب اور اخلاقی پستی کو عیاں‌ کرتے ہیں۔ یہ کردار ان کی نظم اندھا کباڑی اور حسن کوزہ گر میں دیکھے جاسکتے ہیں:

    "خواب لے لو… خواب‘‘

    صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
    خواب اصلی ہیں کہ نقلی…
    یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اِن سے بڑھ کر
    خواب داں کوئی نہ ہو!
    مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب
    مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
    اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
    دیکھنا یہ مفت کہتا ہے
    کوئی دھوکا نہ ہو!
    ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
    گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
    یا پگھل جائیں یہ خواب
    بھک سے اڑ جائیں کہیں
    یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
    جی نہیں کس کام کے؟
    ایسے کباڑی کے یہ خواب
    ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!

    ن م راشد ایک داستان گو تھے جنھیں وہ کسی کردار کے ساتھ نظم کے سانچے میں‌ ڈھال کر خوب صورتی پیش کرتے رہے۔ ’حسن کوزہ گر‘ اِن کی ایک شاہکار نظم ہے۔ اِس کا یہ بند دیکھیے:

    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر
    وہی کوزہ گر جس کے کوزے
    تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش
    تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں اِن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
    گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
    معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
    کہ میں اس گل و لا سے، اِس رنگ و روغن
    سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
    دلوں کے خرابے ہوں روشن!

    یہ نظم ایک ایسے فن کار کا المیہ ہے جو اب کوزہ گری کے فن سے محروم ہوگیا ہے اور دوبارہ اس پر قدرت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے وہ ایک نگاہِ ناز کا طلب گار ہے۔

    کرداروں کے ذریعے تخاطب کے ساتھ راشد "میں” کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی مثال اِن کی نظم ‘رقص’، ‘خود کشی’ اور ‘انتقام’ ہیں۔

    راشد کی پہلی نظم انسپکٹر اور مکھیاں تھی جو طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی گئی تھی۔ مشہور ہے کہ ایک روز انسپکٹر آف اسکولز اس اسکول کا معائنہ کرنے آیا جس میں‌ ن م راشد بھی پڑھتے تھے اور وہاں‌ مکھیاں اُس کے سَر پر بھنبھاتی رہیں۔ راشد کے تخیل نے اِس منظر کو نظم میں سمیٹ لیا۔ نو عمر راشد اس وقت "گلاب” تخلّص کرتے تھے۔ چند برس گزرے تو شعور اور سنجیدگی نے انھیں یہ تخلّص ترک کرنے پر مجبور کردیا، اور اُس وقت کے غیر معروف رسائل میں اصل نام سے ان کا کلام شائع ہوتا رہا۔ بعد میں‌ وہ ادبی دنیا میں‌ ن م راشد مشہور ہوگئے۔

    ن م راشد کا شمار اردو مقبول شعرا میں نہیں کیا جاتا جس کی وجہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا امتزاج ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا قاری کے لیے سہل نہیں۔ راشد سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں‌ روایتی طرزِ فکر، جذباتیت، جوشِ خطابت اور زورِ تقریر نے بے عملی کو بڑھاوا دیا ہے، اور اِس کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ لیکن ان کی فکر اور آہنگ اُس دور کے قاری اور ناقد دونوں کے لیے اجنبی اور نامانوس تھا، راشد کا لب و لہجہ اور غیر روایتی تیکنیک اُس دور میں جب کہ نظم کا سانچہ بہت سیدھا تھا، ان پر تنقید کی بڑی وجہ تھی۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ جب انیسویں‌ صدی میں خالق اور مخلوق، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے ادب کا سہارا لیا جارہا تھا تو راشد نے ان مسائل کو ایک مختلف ہیئت اور تکینک کے ساتھ پابند کیا اور بڑی جرأت سے ایسے موضوعات کو بھی نظموں‌ میں‌ پیش کیا جنھیں‌ قبول کرنے میں عام آدمی کے ساتھ مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو بھی بڑا تأمل ہوا۔ مذہب کے بارے میں‌‌ خود راشد کی رائے ایسی تھی کہ اس پر بات نہیں‌ کی جاسکتی۔

    راشد کے دور میں جنگوں اور اُس کے نتیجے میں انسانوں کی بدحالی کے بعد سرمایہ داری کا عفریت بھی لوگوں کو نگلنے کے لیے تیّار تھا۔ بغاوت اور انقلابی امنگوں کے ساتھ ادب میں خدا، اُس کے وجود اور کائنات کے مسائل پر مباحث جنم لے رہے تھے جب کہ انسان پرستی اور انسانوں کے جملہ مسائل کو ادب میں اہمیت دی جانے لگی تھی۔ اِس کا ن م راشد نے گہرا اثر لیا اور اپنی شاعری میں جگہ دی۔

    نظم مکافات کا یہ بند ایک اضطراب، افسوس اور زندگی کی کشمکش کو بیان کر رہا ہے:

    رہی ہے حضرت یزداں سے دوستی میری
    رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
    گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری
    دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
    کسی پہ روح نمایاں نہ ہوسکی میری
    رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا
    دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
    وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں
    زبان شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
    کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں
    خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کی
    کبھی کیا نہ جوانی سے بہریاب انہیں
    یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
    کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
    اذیتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری
    مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
    الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
    فشار ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
    مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
    پیام مرگ جوانی تھا اجتناب مرا

    راشد کی نظمیں، انسانی نفسیات پر اُن کی گہری نظر اور مشاہدے کی مثال ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کا قومی تحویل میں جانا، جمہوریت کی بساط لپیٹے جانا، حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی سازشیں، نسل پرستی کو فروغ دینا، سرمایہ داری، عرب دنیا کی بدحالی اور بے بسی کی جھلک ن م راشد شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کے شعری مجموعے ‘ماورا’، ‘ایران میں اجنبی’، اور ‘لا=انسان’ اُن کی زندگی میں شائع ہوئے، لیکن ایک کتاب بعنوان گمان کا ممکن راشد کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئی تھی۔ ان کے متعدد تنقیدی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوئے تھے لیکن کتابی شکل میں بہم نہیں ہوئے۔

    راشد کے دوسرے شوق گھڑ سواری، شطرنج، کشتی رانی تھے۔ شراب نوشی نے انھیں‌ دل کے عارضہ میں مبتلا کردیا تھا۔ راشد مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ ن م راشد نے برطانیہ میں‌ وفات پائی، کہتے ہیں‌ کہ راشد ایک وصیت چھوڑ گئے تھے کہ ان کے بے روح‌ جسم کو نذرِ آتش کیا جائے۔

  • ایک عظیم استاد اور قابلِ فخر شاگرد کا تذکرہ

    ایک عظیم استاد اور قابلِ فخر شاگرد کا تذکرہ

    ساہیوال میں جس استاد نے یہ پرکھا کہ خورشید رضوی میں عربی اخذ کرنے اور اسے پڑھنے کی خداداد صلاحیت ہے اور انھیں اس زبان سے فطری مناسبت ہے، وہ ڈاکٹر صوفی محمد ضیاءالحق تھے جو گورنمنٹ کالج ساہیوال میں ان کے استاد تھے۔

    وہ ہونہار بروا کو گھر میں اس شرط پر پڑھانے پر راضی ہوئے کہ کچھ بھی ہو جائے یہ ناغہ نہیں کریں گے اور اگر ایسا ہوا تو وہ پڑھانے کا سلسلہ موقوف کر دیں گے۔ خورشید رضوی نے یہ کڑی شرط قبول کر لی۔

    استاد نے اس زمانے میں ان سے اُردو سے عربی میں بہت ترجمے کرائے۔ کوئی غلطی کرتے تو اس کے حساب سے قواعد بیان کر دیتے۔ قواعد کی الگ سے کوئی کتاب نہیں پڑھائی۔

    ایک دن عجب معاملہ ہوا۔ ترجمہ کرتے وقت جملے میں لفظ ’شرمندہ‘ آ گیا، وہ نہیں جانتے تھے کہ اسے عربی میں کیا کہتے ہیں۔ استادِ مکرم سے عرض کی کہ صیغہ بنانے کے لیے لفظ کا مادّہ بتا دیں۔ اس پر جواب ملا کہ ڈکشنری سامنے پڑی ہے، اس میں سے دیکھ لیں۔ اس پر یہ گویا ہوئے کہ یہ تو عربی سے اُردو ڈکشنری ہے جو اگر وہ ساری دیکھیں تب کہیں جا کر شاید مطلوبہ لفظ کے معنی جان سکیں۔ خیر، چار و ناچار ڈکشنری دیکھنے لگے، دو گھنٹے مغزماری کی مگر بے سود۔

    ایسے میں مشفق استاد کہنے لگے:”آج ضروری تو نہیں، شاباش، جاﺅ، کل آکر دیکھ لینا۔“ یہ اس پر بجھ کر رہ گئے کہ کم از کم لفظ تو بتانا چاہیے۔ سوچنے لگے کہ اب مجھے کیا الہام ہو گا کہ ’شرمندہ‘ کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔ یہ الجھن ذہن پر سوار رہی۔ ڈاکٹرخورشید رضوی کے بقول: لاشعور میں ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں جس کا آدمی کو پریشر کے بغیر اندازہ نہیں ہوتا۔ اگلے دن شام کو میں نے جب صوفی صاحب کے لان میں قدم رکھا تو تب بھی میرے ذہن میں کچھ نہیں تھا اور میں سوچ رہا تھا آج بھی گھنٹہ دو گھنٹہ بٹھائیں گے اور پھر کہیں گے کہ جاﺅ۔ اس اثنا میں بجلی کے کوندے کی طرح یہ خیال ذہن میں آیا کہ اسکول کے زمانے میں حافظ محمود شیرانی کی مرتب کردہ سرمایۂ اُردو میں میرانیس کی نظم ”آمدِ صبح“ میں شعر ہے:

    ہیرے خجل تھے، گوہرِ یکتا نثار تھے
    پتّے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے

    اب میں نے سوچا کہ اس شعر میں ”خجل“ یہاں شرمندہ کے معنوں میں آیا ہے۔ یہاں سے صیغہ بننا چاہیے۔ اب میں شیر ہو کر کمرے میں داخل ہوا تو پوچھنے لگے: ”ہاں پھر لفظ تلاش کیا؟“ میں نے جب صحیح لفظ بتایا تو اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے سینے سے لگایا۔ ماتھا چوما اور کہنے لگے: ”میں جانتا تھا، تم ڈھونڈ لو گے، اسی لیے نہیں بتایا تھا۔“ تو ایک طرح سے یہ بھی ان کا اندازِ تدریس تھا۔

    صوفی محمد ضیاءُ الحق شاگردِ رشید کو ذہنی آزمائش سے دوچار کرتے رہتے تھے جس میں سرخروئی پر وہ کھل اٹھتے۔ ایک اور واقعہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے کچھ یوں بتایا:

    ایک روز میں صوفی صاحب کے ساتھ اُن کی کوٹھی کے سامنے والے سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ ایک طویل ترکیبِ نحوی زیرِ غور تھی۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ لفظ ”الّذی“ جو یہاں آیا ہے اس کے بعد آنے والا اِتنا ٹکڑا مجموعی طور پر اِس سے مربوط ہوتا ہے۔ ”الّذی“ کو تو گریمر کی اصطلاح میں ”اسمِ موصول“ کہتے ہیں مگر جو کچھ آ کر اِس کے ساتھ مربوط ہو گا اِس کا اصطلاحی نام مجھے معلوم نہیں۔ کہنے لگے، ”سوچو۔“

    میں نے عرض کیا سوچنے کا تو اس سے کچھ تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ تو اصطلاح کا معاملہ ہے۔ میں سوچ سوچ کر اصطلاح تو دریافت نہیں کر سکتا۔

    فرمایا: ”پھر بھی قیاس کرو۔ آخر ’موصول‘ کے مقابل کیا آسکتا ہے؟ “ میں نے ایک گونہ زچ ہو کر کہا، ”سر، اب قیاس کیسے کروں۔ یوں تو میں کہہ دوں کہ ’موصول‘ کے مقابل ’صلہ‘ ہو سکتا ہے۔“

    انھوں نے داد اور مسرّت کی نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا: ”دیکھا۔ یہی تو اصطلاح ہے۔“

    اِن واقعات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ استاد اپنے شاگرد کی خفتہ صلاحیتوں کو کس طریقے سے بیدار کرتا ہے۔ اس کا جوہر کیسے صیقل کرتا ہے۔ اسے گوہرِ نایاب کیسے بناتا ہے۔ یہ سب علم سے اخلاص کے بغیر ممکن نہیں۔ خورشید رضوی کالج سے چھٹی کے بعد گھر جاتے، دو گھنٹے آرام کے بعد پانچ چھ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرکے صوفی صاحب کے ہاں آتے۔ رات کو اجاڑ بیابان راستے سے واپسی ہوتی۔

    ڈاکٹر خورشید رضوی بی اے میں تھے کہ استاد کا تبادلہ لاہور ہو گیا لیکن ان کی پڑھائی کا انھیں اس قدر خیال تھا کہ ساہیوال چھوڑنے سے پہلے باور کروا دیا کہ ترجمے کی مشق جاری رہے گی۔ اس کے لیے یہ طریقۂ کار وضع ہوا کہ خورشید رضوی روزانہ خط کے ذریعے ترجمہ ارسال کرتے جسے دیکھنے کے بعد اسے واپس بھجوایا جاتا۔ خورشید رضوی کے اورینٹل کالج میں، ایم اے عربی کے لیے داخلہ لینے تک، استاد شاگرد میں خط کتابت جاری رہی۔

    اورینٹل کالج کے زمانے میں استاد سے کسبِ فیض کے لیے گورنمنٹ کالج بھی جاتے رہے۔ کبھی ان کے کمرے میں تو کبھی اوول گراﺅنڈ میں اکتساب کرتے۔ انھی دنوں میں سے ایک دن، جی سی کی راہداریوں سے گزرتے ذہن میں اس خیال نے جنم لیا کہ کاش ایسا ہو کہ کبھی یہاں پڑھانے پر مامور ہوں۔ قسمت کی خوبی دیکھیے۔ صوفی محمد ضیاءُ الحق گورنمنٹ کالج میں شعبۂ عربی کے صدر تھے، خورشید رضوی بھی اسی کالج میں شعبۂ عربی کے سربراہ بنے۔ نقشِ قدم پر چلنا اسی کو کہتے ہیں۔

    انارکلی میں نگینہ بیکری ادیبوں دانشوروں کا اہم مرکز رہی ہے۔ اورینٹل کالج کے زمانے میں صوفی صاحب کے ساتھ خورشید رضوی کبھی کبھار وہاں چلے جاتے۔ خورشید رضوی کو وہاں کے کوکونٹ بسکٹ پسند تھے۔ صوفی صاحب انھیں چائے کے ساتھ یہ بسکٹ تو کھلاتے تھے لیکن علمی گتھیاں سلجھانے سے ان کی جان یہاں بھی نہیں چھوٹتی تھی۔ ایک دن نگینہ بیکری میں پرچے پر لکھے عربی کے دو گنجل دار شعر خورشید رضوی کو دیے تاکہ انھیں ذہنی ”خلفشار“ سے دوچار کیا جاسکے۔ اپنی ذہانت سے وہ اس امتحاں سے آساں گزر گئے تو صوفی صاحب بہت سرشار ہوئے۔

    ایک دفعہ ایک کتاب پر یہ شعر لکھ کر دیا:

    اعمل بعلمی و لا تنظر الیٰ عملی
    ینفعک قولی و لا یضررک تقصیری

    تو میرے علم پر عمل کر اور میرے عمل کو نہ دیکھ، میری بات تجھے فائدہ دے گی اور میری کوتاہی سے تجھے نقصان نہ ہوگا۔

    (محمود الحسن کی کتاب ’گزری ہوئی دنیا سے‘ میں شامل مضمون ’ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق اور ڈاکٹر خورشید رضوی: عظیم استاد اور قابلِ فخر شاگرد‘ سے اقتباس)

  • وجینتی مالا: فلمی دنیا کی ایک ساحرہ

    وجینتی مالا: فلمی دنیا کی ایک ساحرہ

    وِجینتی مالا کی آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے قدرت نے نہیں، جیمنی رائے نے بنایا ہو۔ وہ کسی حد تک کانوں کی طرف کھنچی ہوئی ہیں۔ انھیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ سامنے دیکھتی ہوئی پیچھے بھی دیکھ رہی ہوں گی۔

    ایسی آنکھیں پورے جلال میں آجانے پر کیا ہوتا ہوگا؟ ان میں سے برستا نور میں نے ڈرامائی مناظر میں دیکھا ہے، جہاں ان آنکھوں کی وجہ سے مکالمے لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

    مجھے وجینتی مالا کے ساتھ چار فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے: دیوداس، مدھومتی، آس کا پنچھی اور رنگولی میں۔

    ”دیو داس“ میں وجینتی مالا نے ایک طوائف کا رول کیا تھا، جو کسی طرح بھی ہیروئن کا رول نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن جنھوں نے شرت چندر کا ناول ”دیو داس“ پڑھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ چندر مکھی کا رول چھوٹا ہونے کے باوجود اپنے آپ میں اتنا ہی تیکھا ہے کہ اس کی بات ہیروئن ’پارو‘ کو میسّر نہیں آتی۔

    ان دنوں وجینتی مالا مدراس کی ایک دو ہندی فلموں میں کام کرچکی تھی۔ جب وہ ہمارے سامنے آئی، تو ہم اسے ایسی گڑیا سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے، جو چابی دینے سے ہاتھ پانو چلانے لگتی ہے۔ اس کے سامنے ہیروئن کے رول میں مشہور بنگالی اداکارہ سچترا سین تھی، جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اعلا درجے کی فن کار بھی تھی۔ ان ہی دنوں اسے ایک بین الاقوامی ایواڈ بھی ملا تھا۔ اس کے سامنے وجینتی مالا کا ٹکنا بہت مشکل تھا۔ اور پھر اس کے رول میں اتنی گہرائی تھی کہ اس کی تہوں کو پانا کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہ تھی۔

    طوائف چندر مکھی، دیو داس سے اس باعث محبت کرتی ہے کہ وہ پہلا مرد تھا، جس نے اس سے نفرت کی۔ اس نفرت نے چندر مکھی کی ’بری‘ عورت کو سدا کے لیے فنا کر دیا اور وہ اپنا پیشہ چھوڑ کر جسم کی بجائے صرف روح بن گئی۔ وجینتی مالا نے کچھ اداس سی اداؤں اور بہکی بہکی نظروں سے اس بے حد مشکل رول کو بہت عمدہ ڈھنگ سے نبھایا۔ اس کا رقص تفریح کا ذریعہ تھا، تو اس کی اداکاری روح کی غذا تھی۔

    شاید اسی لیے بمل رائے نے وجینتی مالا کو اپنی اگلی فلم ”مدھو متی“ میں ہندی فلموں کے سب سے بڑے اداکار، دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کے لیے منتخب کیا۔ ”مدھو متی“ میں کئی ایسے منظر آتے ہیں جن میں دلیپ کمار سراسر حسن بن جاتا ہے اور وجینتی مالا خالصتاً محبت۔ وجینتی مالا نے دیکھنے والوں کے سامنے محبت کی وہ تصویر پیش کی کہ وہ اسے پانے کے لیے آئندہ جنموں کی مصیبتیں سہنے کو بھی تیار تھے۔ اگر وہ دوسرے جنموں کا سلسلہ نہ ہوتا، تو میں اس فلم کو کیسے لکھتا؟

    ”آس کا پنچھی“ میں وجینتی مالا کا ایک عام سا رول تھا اور اس کا کینواس بھی، ہیرو کے مقابلے، بہت چھوٹا تھا۔ لیکن رول چھوٹا ہونے کے باوجود وجینتی مالا نے اعلا فن کا ثبوت دیا۔ ”رنگولی“ میں نے خود لکھی اور بنائی تھی۔ تب وجینتی مالا سے میرا براہِ راست واسطہ پڑا، جس میں تلخ تجربے بھی ہوئے اور میٹھے بھی۔ لیکن ایک بات جو وجینتی مالا کے حق میں جا سکتی ہے، وہ یہ کہ ایک بار ”کال شیٹ“ منظور کر لینے کے بعد، دیگر اداکاروں کے مقابلے، وہ اس میں کم ہی ادل بدل کرتی ہے اور سیٹ پر اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے۔

    ”رنگولی“ کے آغاز میں، پہلے ہی دن اسے طویل مکالموں پر مبنی ایک ڈرامائی سین دیا گیا تھا۔ ہماراخیال تھا کہ مادری زبان تامل ہونے کی وجہ سے وہ ہندی لب و لہجہ آسانی سے نہ اپنا سکے گی۔ سین ایک روز پہلے، شام کے وقت، اس کے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اگلی صبح جب وہ سیٹ پر آئی تو اسے نہ صرف سین کا ایک ایک لفظ یاد تھا، بلکہ اس کا لہجہ اور ادائیگی بھی دیکھنے لائق تھی۔

    (ہندوستانی فلموں کی معروف اداکارہ پر راجندر سنگھ بیدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • بڈھا اور  ٹکٹ کلکٹر (ایک واقعہ)

    بڈھا اور ٹکٹ کلکٹر (ایک واقعہ)

    میری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس پر یہ اصرار ہو کہ میں اسے ضرور یاد رکھوں۔ مجھے اپنے بارے میں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ کسی اور کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا ہوگا جس کا تعلق مجھ سے رہا ہو اور وہ اسے بھول نہ گیا ہو۔

    نہ بھلائے جانے والے واقعات عام طور پر یا تو توبۃُ النّصوح قسم کے ہوتے ہیں یا تعزیراتِ ہند کے۔ بقول شخصے ’’یعنی گویا کہ‘‘ ترقی پسند ہوتے ہوئے میری زندگی کے اوراق میں اس طرح کے ’سال کا بہترین افسانہ‘ یا ’بہترین نظم‘ نہیں ملتی۔ میں تو اس درجہ بدنصیب سَر پھرا ہوں کہ لکھتے وقت یہ بھی بھول جاتا ہوں کہ ادب میں صرف ’اشتراکیت‘ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ اس کا سبب کیا ہے، مجھے بالکل نہیں معلوم، مجھے اس کی فکر بھی نہیں کہ معلوم کروں۔ اگر آپ اس کے درپے ہیں کہ کوئی نہ کوئی وجہ دریافت کر لیں تو پھر صبر کیجیے اور اس وقت کا انتظار کیجیے، جب میں عزیزوں اور دوستوں سے زیادہ خوش حال اور نیک نام ہو جاؤں یا مجھ پر غبن یا اغوا کا مقدمہ دائر ہوجائے۔ اس وقت آپ میرے عزیزوں یا دوستوں ہی سے میرے بارے میں ایسے واقعات سن لیں گے جو مجھ پر گزرے ہوں یا نہیں، آپ خود ان کو کبھی نہ بھلائیں گے۔

    لیکن اربابِ ریڈیو نے مجھے اس پر مامور کیا ہے کہ آپ کو کوئی واقعہ سناؤں ضرور، اور میں سناؤں گا بھی ضرور۔ آپ نے گاؤں کی یہ روایت یا کہاوت تو سنی ہوگی کہ ’’نائی کا نوشہ ججمانوں کو سلام کرتا پھرے۔‘‘ اس روایت پر جو اصول بنایا گیا ہے وہ البتہ ایسا ہے جو کبھی نہ بھلایا جاسکے یعنی حق تمام تر ججمانوں کا اور ذمہ داری تمام تر نائی کے نوشوں کی۔ ایک دفعہ پھر ’’یعنی گویا کہ‘‘ لکھیں ہم، ترقی پسند آپ! یہ اصول ہماری سوسائٹی اور زندگی پر کتنا لاگو ہے، میں نے لاگو کا لفظ ان دوستوں کے احترام میں استعمال کیا ہے جو عدالت یا کونسل میں بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں، ان معنوں میں ہرگز استعمال نہیں کیا جن معنوں میں دلّی کی میونسپلٹی نے حال ہی میں لاگو جانوروں کے بارے میں اشتہار دیا ہے کہ جو شخص ان کو مار ڈالے اس کو انعام ملے گا۔ میں اس غرض سے دلّی آیا بھی نہیں ہوں۔ البتہ مجھے انعام لینے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ خواہ انعام کی رقم آدھی ہی کیوں نہ کر دی جائے۔ میرا یہ کارنامہ کیا کم ہوگا کہ میں کسی لاگو جانور کا شکار نہ ہوا! تو واقعہ ہے۔

    زیادہ دونوں کی بات ہیں ہے۔ میں حاضر، غائب، متکلم کی حیثیت سے آپ سے گفتگو کرنے دلّی آرہا تھا۔ جس ڈبّے میں مجھے جگہ ملی وہ خلافِ توقع اتنا بھرا ہوا نہ تھا جتنا کہ ریلوے والے چاہتے تھے۔ یہ بات بھی میں بھول نہیں سکتا لیکن اس اعتبار سے ڈبہ بھرپور تھا کہ اس میں ہر جنس، ہر عمر اور ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک بوڑھا کسان بھی گرتا پڑتا داخل ہوا۔ زندگی میں اس طرح کے بڈھے کم دیکھے گئے ہیں، بڑی چوڑی چکلی ہڈی، بہت لمبا قد لیکن اس طور پر جھکا ہوا جیسے بڑھاپے میں قد سنبھلتا نہ تھا اس لیے جھک گیا تھا۔ جسم پر کچھ ایسا گوشت نہ تھا لیکن اس کی شکل اور نوعیت کچھ اس طرح کی تھی کہ اس کے دیکھنے سے اس کے چھو لینے کا احساس ہوتا تھا جیسے گوشت اورچمڑے کے بجائے مصنوعی اور مرکب ربر وغیرہ قسم کی کوئی چیز منڈھ دی گئی ہو۔ سخت ناہموار موسم پروف ہی نہیں، رگڑ پروف بھی۔ ہتھیلی اور اس سے متصل انگلیوں کی سطح ایسی ہوگئی تھی کہ جیسے کچھوے کی پیٹھ کی ہڈی کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کی پچے کاری کردی گئی ہو۔ میرے دل میں کچھ وہم سا پیدا ہوا جیسے یہ آدمی نہ تھا۔ کھیت، کھاد، ہل، بیل، مرض، قحط، فاقہ، سردی، گرمی، بارش سب نبٹنے اور اپنی جیسی کر گزرنے کی ایک ہندوستانی علامت سامنے آگئی ہو۔

    ڈبے میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے اس کی پذیرائی اس طور پر نہ کی ہو جیسے کوئی معذور، مریل، خارشی کتا آگیا ہو۔ نوجوانوں نے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ عورتوں نے بیٹی بیٹے مر جانے کے کوسنے دیے۔ بوڑھوں نے یہ دیکھ کر کہ نووارد بڈھا ان سے پہلے مر جائے گا اپنوں کو جوانوں میں شمار کر لیا اور ماں بہن کی گالی دینی شروع کر دی۔ بے دردی اور اپنی اپنی بڑائی بگھارنے اور بکھاننے کا ایسا بھونچال آیا کہ میں نے محسوس کیا کہ تعجب نہیں کہ ڈبہّ بغیر انجن کا چلنے لگے گا۔ نووارد کی نظر ایک دوسرے بڈھے پر پڑی جو شاید اس قسم کے سلوک سے دوچار ہو کر ایک گوشے میں سہما سمٹا اپنے ہی بستر پر جو فرش پڑا ہوا تھا، دونوں یکجا ہوگئے۔ آنے والا اپنی لٹھیا کے سہارے فرش پر اکڑوں بیٹھ گیا اور سر کو اپنے دونوں گھٹنوں میں اس طور سے ڈال لیا کہ دور سے کوئی اچٹتی ہوئی نظر ڈالے تو چونک پڑے کہ یہ کیسا شخص تھا جس کے کندھوں پر سر نہ تھا۔ شور اور ہنگامہ کم نہ ہوا تھا کہ گاڑی پلیٹ فارم سے سرکنے لگی۔ ایک کلکٹر صاحب نازل ہوگئے۔ ڈبّے میں کچھ ایسے لوگ تھے جن کے پاس ٹکٹ نہ تھے۔ صرف قیمتی سگریٹ کیس، فاؤنٹن پین، گھڑی اور سونے کے بٹن تھے۔ ٹکٹ کلکٹر کو کسی نے سگریٹ پیش کیا، کسی نے دو بڑے بڑے انناس دیے، کسی نے اپنی ساتھی خاتون کا یوں تعارف کرایا کہ وہ بی اے پاس تھیں اور فلم میں کام کرتی تھیں۔ سب کو نجات مل گئی…. بڈھا پکڑا گیا۔ اور وہ سب جو ٹکٹ نہ لینے کے مواخذہ سے نجات پا چکے تھے، ٹکٹ کلکٹر کی حمایت میں بڈھے کو برا بھلا کہنے لگے اور وہی قصے پھر سے شروع ہوگئے۔ یعنی پھبتی، پھکڑ، گالی گلوچ اور معلوم نہیں کیا کیا۔

    بڈھا بھونچکا تھا اور برابر کہے جارہا تھا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ بڑی مصیبت اور تکلیف میں تھا۔ کسی کے پاؤں پکڑ لیتا، کسی کی دہائی دیتا۔ اس کی بیوہ لڑکی کا اکیلا نوعمر ناسمجھ لڑکا گھر سے خفا ہوکر دلّی بھاگ گیا تھا۔ بغیر کچھ کھائے پیے یا لیے، جس کے فراق میں ماں پاگل ہورہی تھی اور گھر کے مویشیوں کے گلے میں بانہیں ڈال ڈال کر روتی تھی، جس طرح بڈھا ہم سب کے پاؤں میں سر ڈال کر منتیں کرتا اور روتا تھا۔ گاؤں والے کہتے تھے کہ ماں پر آسیب ہے۔ بڈھا بے اختیار ہو ہو کر کہتا تھا، حجور سچ مانوں میری بہو پاگل نہیں ہے، اس پر آسیب نہیں ہے، وہ تو میری خدمت کرتی تھی، ڈھور، ڈنگر کی دیکھ بھال کرتی ہے، کھیتی باڑی کا بوجھ اٹھاتے ہوئے گھر کا سارا دھندا کرتی ہے۔ اس پر سونے کے بٹن نے فرمایا، ارے بڈھے تو کیا جانے وہ اور کیا کیا دھندا کرتی ہے۔ بڈھا بلبلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر رونے لگا۔ بولا، ’’سرکار مائی باپ ہو۔ یہ نہ کہو میری بہو ہیرا ہے۔ دس سال سے بیوہ ہے، سارے گاؤں میں مان دان ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے ایک موٹی سی گالی دی اور بولا، ’’ٹکٹ کے دام لا، بڑا بہو والا بنا ہے۔‘‘ بڈھا پھر گڑگڑانے لگا۔ اس پر کسی صاحب نے، جن کا لباس میلا، فاؤنٹن پین امریکن اور شکل بنجاروں جیسی تھی اور پتّے پر سے انگلی سے چاٹ چاٹ کر دہی بڑے ختم کیے تھے، سنی ہوئی انگلی سے بالوں کو خلال کرتے ہوئے فرمایا، کیوں رے بڈھے! منھ پر آنکھ نہ تھی کہ ہمارے ڈبے میں گھس آیا۔ شریفوں میں کبھی تیرے پُرکھا بھی بیٹھے تھے۔ بڈھا گھگھیا کر بولا،’’بابو! سراپھوں ہی کو دیکھ کر چلا آیا، سراپھ دیالو ہوتے ہیں۔ تمہارے چرنوں میں سکھ اور چھایا ہے، تھرڈ کلاس میں گیا تھا۔ ایک نے دھکیل دیا، گر پڑا۔ بہو نے بچّے کے لیے ایک نئی ٹوپی اور کچھ سوکھی جلیبی دی تھی جو انگوچھا میں بندھی تھی کہ لونڈا بھوکا ہوگا، دے دینا۔ ٹوپی پہن کر جلیبی کھائے گا تو خوشی کے مارے چلا آئے گا۔ ہڑبڑ میں نہ جانے کس نے انگوچھیا ہتھیا لی۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے سگریٹ کا آخری ٹکڑا کھڑکی کے باہر پھینکا اور فیصلہ کن انداز سے کھڑے ہو کر فیصلہ دیا۔ بڈھا تو یوں نہ مانے گا، اچھا کھڑا ہو جا اور جامہ تلاشی دے ورنہ لے چلتا ہوں ڈپٹی صاحب کے ہاں، جو پاس کے ڈبے میں موجود ہیں اور ایسوں کو جیل خانے بھیج دیتی ہیں۔ بڈھا جلد تلاشی کے لیے اس خوشی اور مستعدی سے تیار ہوگیا جیسے بے زری اور ناکسی نے بڑے آڑے وقت میں بڑے سچے دوست یا بڑے کاری اسلحہ کا کام کیا تھا۔ اب دوسرے بڈھے سے نہ رہا گیا۔ اس نے کہا، ’’ بابو صاحب بڈھے نے برا کیا جو اس ڈبے میں چلا آیا اور ٹکٹ نہیں خریدا لیکن اس کو سزا بھی کافی مل چکی ہے۔ اب مار دھاڑ ختم کر دیجیے، بڈھا بڑا دکھی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر کا نزلہ اب دوسرے بڈھے پر گرا۔ فرمایا، ’’ آپ ہوتے کون ہیں؟ ہم کو تو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’آپ فرض ادا کرتے ہیں، بڑا اچھا کام کرتے ہیں لیکن فرض ادا کرنا تو 24 گھنٹے کا کاروبار ہوتا ہے۔ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ چند منٹ پہلے بھی اس ڈبے میں اپنا فرض ادا کرتے تھے۔ بڈھے کی جامہ تلاشی کیوں لیتے ہیں۔ آپ کو جس چیز کی تلاش ہے وہ اس کے پاس تو کیا اس کی نسل میں بھی کبھی نہ تھی۔ اس کے ہاں تو صرف وہ بہو ملے گی جس کا ایک دھندا اپنے لڑکے کو کھو دینا اور اپنے سوکھے مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر تسکین پانے کی کوشش کرنا ہے۔ ممکن ہے وہ دھندا بھی ہو جو ہمارے ان ساتھی دوست کو معلوم ہے جو ایک لاچار بڈھے کی غم نصیب بہو کا دھندا خود اپنے بے ٹکٹ سفر کرنے سے زیادہ بہتر طریقہ پر سمجھتے ہیں۔ کتنی بے عقل بہو ہے کہ بچے کے غم میں مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر روتی ہے اور ہمارے دوست کے گلے سے لپٹ کر رقص کرتی ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے کہا، ’’یہ دیہاتی بڑی حرفوں کے بنے ہوتے ہیں اور دام رکھ کر بے ٹکٹ سفر کرتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں تو رو پیٹ کر چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’لیکن آپ کو اس کا بھی تجربہ ہوگا کہ بعض دیہاتی ایسے نہیں ہوتے۔‘‘ فرمایا، ’’آپ رہنے دیجیے میں تو اس کے حلق سے دام نکال لوں گا۔‘‘

    طوفان تھم سا گیا۔ گاڑی کی رفتار معمول سے زیادہ بڑھتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کر اس حلقے میں جا بیٹھے جہاں جوان عورت، سونے کے بٹن اور قیمتی سگریٹ تھے۔ ایک سگریٹ اور سیاسی مسائل پر سستے جذبات کا اظہار کرنے لگے۔ دوسری طرف نکمے بڈھے نے کسان کو ٹکٹ کے دام دیے۔ وہ شکریے میں کچھ اور رونے پیٹنے پر آمادہ ہوا تو نکمے نے بڑے اصرار اور کسی قدر سختی سے روک دیا۔ کلکٹر صاحب پھر سے تشریف لائے اور بے ٹکٹ بڈھے سے مواخذہ شروع کردیا۔ بڈھے نے کرایہ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ ٹکٹ کلکٹر متحیر رہ گیا لیکن فوراً سمجھ گیا کہ واقعہ کیا تھا۔ دوسرے بڈھے سے بولا، ’’آپ نے روپے کیوں دیے؟ آپ کا نقصان کیوں؟ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ بڈھے کو یہ معلوم ہو کہ بے ٹکٹ سفر کرنا معاف کیا جاسکتا ہے۔ دو چار روپے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ ٹکٹ کلکٹر کچھ دیر تک خیال میں کھویا رہا۔ بے خبری ہی میں اس نے اپنا سگریٹ نکالا اور سلگا کر پینے لگا۔ ابھی نصف بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سگریٹ کو فرش پر ڈال دیا اور جوتے سے مَسَل دیا اور دیر تک مسلتا رہا۔ اس کا خیال کہیں اور تھا۔ دور بہت دور۔ قریب کی جھاڑیاں، تار کے کھمبے، درخت، مویشی، پانی کے گڈھے، آسمان کی وسعتیں، افق کا نیم دائرہ، تیزی سے گزرتی اور چکر کاٹتی معلوم ہونے لگیں۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کھڑا ہوا جیسے وہ یا تو ڈبے کی زنجیر کھینچ لے گا یا خود کھڑکی باہر جست کر جائے گا۔ اس نے دونوں انناس ہاتھ میں اٹھائے اور لے جا کر اس کے مالک کے پاس رکھ دیے اور بولا، ’’ان کو واپس لیجیے اور ٹکٹ کے دام لائیے۔‘‘ ٹکٹ کلکٹر کے ارادے میں ایسی قطعیت اور اس کے تیور کا کچھ اندازہ تھا کہ مسافر نے پرس کھول کرٹکٹ کے دام گِن دیے۔ دوسروں نے بھی بغیر کسی تمہید یا تامل کے دام دے دیے۔ ٹکٹ کلکٹر نے سب کو رسید دی۔ ان سے فارغ ہو کر وہ جوان عورت سے مخاطب ہوا اور بولا، ’’شریمتی جی! میں آپ سے روپے نہ لوں گا۔ یہ لیجیے رسید حاضر ہے۔ عورت تیار نہ ہوئی اور رد و قدح شروع ہو گئی۔‘‘

    گاڑی دلّی کے اسٹیشن پر آکر رکی۔ میں بھی اتر پڑا۔ اب دیکھتا ہوں کہ ایک طرف بڈھا کسان دوسرے بڈھے کے پیچھے پیچھے روتا دعائیں دیتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جوان عورت ٹکٹ کلکٹر کے تعاقب میں چلی جارہی ہے اور میں آپ کی خدمت میں باتیں بنانے حاضر ہو گیا۔

    (اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار رشید احمد صدیقی کی ایک تحریر)

  • میرؔ کا تذکرہ جن کے آئینۂ فکر میں پُرخلوص تجربات کا جوہر شامل ہے

    میرؔ کا تذکرہ جن کے آئینۂ فکر میں پُرخلوص تجربات کا جوہر شامل ہے

    کہا جاتا ہے کہ مولانا حسرت موہانی نے سرتاج الشّعرا میر تقی میر کے اُن بہتّر اشعار کا انتخاب کیا تھا جو ان کی نظر میں میر کے بہترین اشعار تھے یہ میر کے بہتّر نشتر کے نام سے مشہور ہیں۔

    حسرت نے یہ انتخاب اپنے رسالے اردوئے معلٰی میں شایع کیا تھا، لیکن آج وہ انتخاب کسی کے علم میں‌ نہیں‌ ہے۔ میر تقی میر کو اپنے کلام کی وقعت اور اپنی عظمت کا بہت احساس تھا، سو یہ تعلّی انھیں زیب دیتی ہے:

    جانے کا نہیں شور سخن کا مِرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مِرا دیوان رہے گا

    خدائے سخن کہلانے والے میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی تھی۔ آج بھی میر اور ان کے بہتّر نشتر اشعار کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ میر کے یومِ وفات کی طرح ان کے جائے مدفن پر بھی اختلاف ہے۔ ان کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں‌ اور لکھنؤ میں ایک جگہ کو ان کی قبر بتایا جاتا ہے۔

    میر تقی میر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل میں ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعورِ فن اور ہی مزہ دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

    مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
    درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

    ہوتے ہوئے بھی ایک عمومی رنگ رکھتے ہیں

    نام وَر ادیب اور نقّاد رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔ "آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔”

    میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ میرؔ کے والد کا نام تذکروں میں میر محمد علی لکھا گیا ہے اور وہ علی متّقی مشہور تھے۔ میرؔ کے والد درویش صفت اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے۔ میرؔ نے اکبر آباد (آگرہ) میں 1723ء میں جنم لیا۔ تنگ دستی اور معاشی مشکلات دیکھیں۔ والد کی وفات کے بعد مزید مصائب اٹھائے۔ ان کا زمانہ بڑا پُر آشوب تھا۔ سلطنتِ مغلیہ زوال کی طرف گام زن تھی اور شاہانِ وقت، نواب و امراء سبھی بربادی دیکھ رہے تھے۔ میر نے دلّی چھوڑی اور لکھنؤ پہنچ گئے اور وہیں‌ زندگی بھی تمام کی۔

    محمد حسین آزاد اپنی کتاب ’آب حیات‘ میں لکھنؤ کے مشاعرے میں شرکت کے موقع پر اُن کا حلیہ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں: ’ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا، ناگ پھنی کی انی دار جوتی، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار۔

    دلّی میں‌ تو میر اپنے اور چند ہم عصروں کا تذکرہ یوں کرتے تھے، ’دلّی میں صرف ڈھائی شاعر ہیں۔ ایک میں، ایک سودا اور آدھا میر درد۔‘ میر نے درد کو آدھا شاعر اس لیے کہا تھا کیوں کہ وہ صرف غزل کے شاعر تھے جب کہ اس دور میں‌ شاعر مثنوی، قصیدہ، رباعیات میں‌ بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔

    آل احمد سرور لکھتے ہیں، میرؔ کو بچپن ہی میں مہربان ’’چچا‘‘ اور شفیق باپ کی موت کی وجہ سے ایک محرومی کا احساس ہوا۔ بھائی نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ محرومی کے احساس میں ظلم کا احساس بھی شامل ہو گیا۔ دہلی میں انہیں خان آرزو جیسے سنجیدہ اور ثقہ آدمی کی صحبت ملی مگر خان آرزوؔ کی شفقت انھیں نصیب نہ ہوئی۔ قصور خاں آرزوؔ کا زیادہ ہے یا میرؔ کا۔ اس کے متعلق کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاں آرزوؔ میرؔ کے اطوار سے خوش نہ تھے۔ یہ اطوار اخلاقی اعتبار سے کتنے ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہوں ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک عالم اور ایک ’‘رند‘‘ کے مزاج میں جو فرق ہو سکتا ہے وہ یہاں بھی موجود تھا۔ اس فرق نے اپنا رنگ دکھایا۔ میرؔ، خان آرزو سے رخصت ہوئے، ایک گھنے سایہ دار درخت کا سایہ ان کے لیے عذاب ہوگیا۔ انھوں نے کڑی دھوپ کی آزادی پسند کی اور اس سائے میں جو چوٹیں ان کے دماغ پر لگی تھیں انھیں ساتھ لیے ہوئے اپنی انانیت کے سہارے زندگی کے خارزار میں مردانہ وار نکل کھڑے ہوئے۔

    مؤرخ رعنا صفوی میر کی قبر کے بارے میں‌ کہتی ہیں‌ کہ لکھنؤ میں میر کی قبر اور قبرستان اب صرف تاریخ کا حصہ رہ گئے ہیں۔ مؤرخین اور مداحوں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں کے زمانے میں اس پر ریل کی پٹری بچھا دی گئی تھی۔ صفوی، جن کی پرورش 1960 کی دہائی میں لکھنؤ میں ہوئی، بتاتی ہیں کہ ان کا گھر ان ہی ریل کی پٹریوں کے سامنے تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پٹری کے کنارے وہاں ایک دروازہ ہوا کرتا تھا، جسے بڑے بزرگ کہتے تھے کہ وہاں میر کی قبر ہوا کرتی تھی۔‘

    آج وہاں سے کچھ قدم دور میر کے نام سے ’نشانِ میر‘ نامی ایک علامتی ڈھانچہ ہے اور اس کا بھی حال بُرا ہے۔ دستیاب تاریخی ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ اکھاڑہ بھیم نامی مقام پر میر کا قبرستان تھا لیکن اب وہ علاقہ اکھاڑہ بھیم کے نام سے جانا بھی نہیں جاتا۔

    آل احمد سرور نے میر پر اپنے مضمون میں لکھا ہے، میرؔ بہرحال اپنے دور کی پیداوار ہیں لیکن ان کی شاعری کی اپیل آفاقی ہے، وہ اپنے اظہار میں اپنے دور سے بلند بھی ہو جاتے ہیں اور ذہن انسانی کے ایسے سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں جو ہر دور کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ کارگہ شیشہ گری کا کام صرف میرؔ کے زمانے میں ہی نازک نہیں تھا، آج بھی نازک ہےاور اگرچہ آج سانس آہستہ لینے کا زمانہ نہیں ہے پھر بھی اس شعر کو پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے ہم سانس روک لیتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ موجودہ دور کے سارے کمالات کے باوجود جسم و جان کا رشتہ ایک ڈورے سے بھی زیادہ نازک ہے اور زندگی ایک پل صراط کی طرح ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔

  • کیتھولک اور مسلمان

    کیتھولک اور مسلمان

    دنیا کی تاریخ میں آسمانی مذاہب کی بات کی جائے تو عام تعلیمات کے علاوہ ان کے ماننے والوں کی عبادات اور بعض فرائض کی بنیاد اور طریقہ بھی قدرے مشترک ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے ہزاروں سال کے دوران آپس میں کئی جنگیں‌ لڑی ہیں اور مذہبی تفریق اور اس کی بنیاد پر مباحث آج بھی جاری ہیں، مگر مذہب ہو، سیاست، قومیت یا ثقافت اور سماج سے جڑا کوئی مسئلہ یا کوئی بھی تنازع ہو، تحمّل اور برداشت کے ساتھ اس پر مکالمہ ضرور مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ مصنّف پاؤلو کوئیلہو کا ناول الکیمسٹ شاید آپ نے بھی پڑھا ہو، ان کی کتاب Like the Flowing River سے یہ مختصر تحریر آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم کس طرح مثبت سوچ کا اظہار کرسکتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میں دوپہر کے کھانے پر ایک کیتھولک پادری اور ایک نوجوان مسلمان سے بات کر رہا تھا۔”

    "جب بیرا طشت لے کر آیا تو ہم سب نے اپنا کھانا نکالا، سوائے اُس مسلمان کے جو قرآنی احکام کے مطابق اس سال کے روزے سے تھا۔ جب دوپہر کا کھانا ختم ہوا، اور لوگ جانے لگے تو دیگر مہمانوں میں سے ایک سے رہا نہ گیا اور وہ کہنے لگا: ‘آپ نے دیکھا کہ یہ مسلمان کتنے کٹّر ہیں! مجھے خوشی ہے کہ آپ کیتھولک لوگ ان کی طرح نہیں ہیں۔”

    ’’لیکن ہم ہیں!‘‘ پادری نے جواباً کہا۔ ‘وہ خدا کے اتارے گئے فرائض ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جیسا کہ میں کرتا ہوں۔ ہم صرف مختلف قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ اور اس نے گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا: ‘ یہ افسوس کی بات ہے کہ لوگ صرف اختلافات کو دیکھتے ہیں، جو ان کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں۔ اگر آپ زیادہ محبّت بھرے انداز سے دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ بنیادی طور پر ہم میں کیا مشترک ہے، پھر دنیا کے نصف مسائل تو ایسے حل ہو جائیں گے۔’

  • لوح و قلم کا معجزہ…

    لوح و قلم کا معجزہ…

    اگر تم میری ہدایتوں پر عمل کرو گے تو صاحبِ ہنر محرّر بن جاؤ گے۔

    وہ اہل قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے، آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس قابل ہوئے کہ اپنی اولاد کے لئے دولت چھوڑ جاتے۔ لیکن ان کی وارث ان کی تحریریں تھیں جن میں دانائی کی باتیں لکھی تھیں۔ وہ اپنی لوحوں اور نرسل کے قلموں کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے اور پتھر کی پشت کو بیوی سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ گو انہوں نے اپنا جادو سب سے چھپایا لیکن یہ راز ان کی تحریروں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ گو وہ اب زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں لوگ اب بھی یاد رکھتے ہیں۔ پس یاد رکھو تمہیں بھی تحریر کا علم حاصل کرنا ہوگا کیونکہ کتاب عالیشان مقبرے سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

    یہ بارہویں صدی قبل مسیح کی ایک مصری تحریر ہے۔

    علمائے آثار کی تحقیق شاہد ہے کہ تحریر کا فن سب سے پہلے دجلہ و فرات کی وادی ہی میں وضع ہوا۔ گو مصریوں اور پھر فونیقیوں نے بھی یہ ہنر جلد ہی سیکھ لیا لیکن اوّلیت کا شرف بہرحال قدیم عراقیوں ہی کو حاصل ہے اور اگر ان لوگوں نے بنی نوع انسان کوعلم اور معرفت کا کوئی اور تحفہ عطا نہ کیا ہو، تب بھی ان کا یہ کارنامہ ایسا ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ یہ انقلابی ایجاد اب سے ساڑھے پانچ ہزار برس پیشتر سمیر کے شہر ایرک کے معبد میں ہوئی۔ ایرک اس وقت عراق کا سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر تھا۔

    اس شہر کی عظمت کی نشانی ورقہ کے وہ کھنڈر ہیں جو چھ میل کے دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کھنڈروں کی کھدائی جرمنوں نے 1924ء میں شروع کی تھی مگر وہ پندرہ سال کی مسلسل محنت کے باوجود کام مکمل نہ کر سکے۔ ماہرین آثار کا تخمینہ ہے کہ اس شہر کی کھدائی کے لئے تقریباً نصف صدی درکار ہوگی۔

    ورقہ کے ٹیلوں کی کھدائی میں جرمنوں نے پچاس فٹ کی گہرائی پر ایک زیگورات دریافت کیا۔ یہ زیگورات 35 فٹ اونچا تھا اور مٹی کے ردوں کو رال سے جوڑ کر بنایا گیا تھا۔دیواروں کی زیبائش کے لئے مٹی کے چھوٹے چھوٹے تکونے ٹکڑے استعمال کئے گئے تھے۔ ان تکونوں کو رنگ کر آگ میں پکایا گیا تھا اور پھر گیلی دیواروں پر چپکا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے دیواریں بڑی خوشنما معلوم ہوتی تھیں۔ زیگورات کے ملبوں میں ماہرین آثار کو کارتوس نما کئی مہریں بھی ملی ہیں جن پر مناظر کندہ ہیں۔ ایک مہر پر قیدیوں کو قتل ہوتا دکھایا گیا ہے۔ ایک مہر پر مویشیوں کے جھنڈ بنے ہیں۔ ایک مہر پر شیر چوپایوں پرحملہ کر رہا ہے۔ ایک مہر پر پروہت کوئی مذہبی ناچ ناچ رہے ہیں، اور بالکل برہنہ ہیں، لیکن ان مہروں سے بھی زیادہ قیمتی مٹی کی وہ تختی ہے جس پر تصویری حروف کندہ ہیں۔ اس تختی پر ایک بیل کا سر، ایک مرتبان کی شکل اورکئی قسم کی بھیڑیں بنی ہوئی تھیں اور دو مثلث بھی کھنیچے گئے تھے۔ یہ انسان کی سب سے پہلی تصویری تحریر تھی جو 3500 ق۔ م کے قریب لکھی گئی۔

    لوح پر کندہ کی ہوئی یہ تصویریں بظاہر سامنے کی چیز معلوم ہوتی ہیں اور ان کا مفہوم کافی واضح ہے، لیکن اصل میں یہ علامتیں ہیں اور ان علامتوں میں حروف کا سا تجریدی عمل بھی موجود ہے۔ مثلاً مرتبان کی شکل فقط مرتبان کی علامت نہیں ہے کہ بلکہ مرتبان میں رکھی ہوئی کسی چیز کا، گھی تیل وغیرہ کا وزن بھی بتاتی ہے۔ ان تصویروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تختی پر مندر کی املاک کا کوئی حساب درج ہے۔ اسی زمانے کی کچھ اور تختیاں جمدۃ النصر اور دوسرے مقامات پر بھی ملی ہیں۔ ان پر بھی اس قسم کے حسابات لکھے ہیں۔

    دراصل تحریر کا فن مندروں کی معاشی ضرورتوں کے باعث وجود میں آیا۔ مندر کی دولت چونکہ دیوتاؤں کی ملکیت ہوتی تھی، اس لئے پروہتوں کو اس کا باقاعدہ حساب رکھنا ہوتا تھا۔ زرعی پیدادار کا حساب، بیج، آلات اور اوزار کا حساب، چڑھاوے اور قربانی کا حساب، کاریگروں کی مزدوری کا حساب، اشیا برآمد و درآمد کا حساب، غرض کہ آمدنی اور خرچ کی درجنوں مدیں تھیں اور ذہین سے ذہین پروہت بھی اس وسیع کاروبار کا حساب اپنے ذہن میں محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حسابات کوئی نجی معاملہ نہ تھے۔ بلکہ سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کی معاش ان سے وابستہ تھی۔ تیسرے یہ کہ خرید و فروخت کا سلسلہ فقط ایک شہر، ایرک تک محدود نہ تھا بلکہ دوسرے شہروں سے بھی تجارتی تعلقات رکھنا پڑتے تھے۔ اس لئے تحریری علامتوں کو پورے ملک کی مروجہ علامتیں بنانا ضروری تھا۔

    لیکن ان تصویری حروف کی خرابی یہ تھی کہ وہ فقط اشیا کی علامت بن سکتے تھے۔ کسی خیال یا جذبے کی نمائندگی نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی ہدایت نہیں دے سکتے تھے اور نہ کوئی سوال پوچھ سکتے تھے۔ تحریر کا فن حقیقی معنی میں تحریر کا فن اس وقت بنا جب اشیا کی تصویریں اشیا کی علامت کے بجائے ان کے نام کی آوازوں کی علامت بن گئیں۔ یہ کٹھن مرحلہ بھی اہل سمیر نے خود ہی طے کر لیا۔ چنانچہ شہر شروپک (فارا) سے بڑی تعداد میں جو لوحیں برآمد ہوئی ہیں، ان کے تصویری حروف اشیا کے ناموں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً یہ علامت داڑھی دار سر کی بھی ہے اور "کاکی” بھی جو سر کا سمیری تلفظ ہے اور بولنا چیخنا کی بھی۔ اسی طرح پیر کی علامت پیر کی نمائندہ بھی تھی۔ دو کی بھی جو پیر کا سمیری تلفظ ہے اور پیر سے متعلق حرکات ،گب (کھڑا ہونا) ،گن (جانا) اور، توم (آنا) کی آوازوں کی بھی۔

    ایرک کے دور میں تصویری حروف کی تعداد دو ہزار سے بھی زیادہ تھی لیکن رفتہ رفتہ ان میں تخفیف ہوتی گئی۔ چنانچہ شروپک کی لوحوں میں جو 3 ہزار ق۔ م کی ہیں حروف کی تعداد گھٹ کر فقط آٹھ سو رہ گئی۔ شروپک کی لوحوں پر بھی مندر کے حسابات ہی کندہ ہیں۔ ان کے علاوہ چند علامتوں کی فہرستیں ہیں جو مندر کے طلباء کو بطور نصاب سکھائی جاتی تھیں۔ یہ فہرستیں موضوع وار ہیں۔ مثلاً مچھلیوں کی مختلف قسمیں ایک جگہ درج ہیں اور ہر علامت کے سامنے اس پروہت یا نویسندہ کا نام کندہ ہے جس نے یہ علامت ایجاد کی تھی۔

    29 ویں صدی قبل مسیح کے لگ بھگ یعنی سو سال کے اندر ہی تصویری حروف میں اور کمی ہوئی چنانچہ ان کی تعداد صرف چھ سو رہ گئی۔ اس کے باوجود لکھنے پڑھنے کا علم مدت تک مندر کے پروہتوں اور شاہی خاندان کے افراد کی اجارہ داری رہا کیونکہ علم کو عام کرنا ارباب اقتدار کے مفاد کے خلاف تھا۔

    (سید سبط حسن کے ایک نہایت علمی اور تحقیقی مضمون سے اقتباسات)

  • چھے الفاظ پر مشتمل المیہ!

    چھے الفاظ پر مشتمل المیہ!

    یہ تحریر دنیا کی اُس مختصر کہانی سے متعلق ہے جو انگریزی کے فقط چھے الفاظ پر مشتمل ہے اور کسی درد ناک واقعے یا کرب کی عمدہ مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

    ابنِ آدم کو قصّہ گوئی سے شغف ہمیشہ سے رہا ہے۔ شاید اسی وقت سے جب اُس نے بولنا شروع کیا اور بامعنیٰ گفتگو کا آغاز کیا۔ ہر طاقت وَر، دیو ہیکل، اپنے سے قوی اور ضرر رساں شے، گزند پہنچانے والی کوئی بھی انجانی، نامعلوم، پُراسرار، دیدہ و نادیدہ ہستی اور اشیاء اس کی داستانوں میں جگہ پاتی چلی گئیں۔ اور پھر داستان گوئی، کہانی کہنا اور کہانی لکھنا ادب شمار ہوا اور دورِ جدید میں مختصر کہانیاں لکھنے کا چلن ہوا۔

    امریکہ کے مشہور وائرڈ میگزین نے 2006 میں مختصر ترین کہانیوں کا ایک مقابلہ منعقد کیا تھا جس میں امریکہ کے صفِ اوّل کے درجنوں مصنّفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجی تھیں۔ ان کہانیوں کے موضوعات متنوع تھے جن میں سے چند کا اردو ترجمہ آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت
    2۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا، خدا حافظ
    3۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی!
    4۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا
    5۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔
    6۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا۔

    اب چلتے ہیں چھے الفاظ کی اُس کہانی کی طرف جو ارنسٹ ہیمنگوے سے منسوب ہے۔ وہ امریکی ادب کا ایک بہت بڑا نام، ایک اعلیٰ پائے کے ناول نگار، افسانہ نویس اور صحافی تھے۔ پیٹر ملر نامی مصنّف نے 1974ء اپنی ایک کتاب میں‌ مختصر کہانی نویسی پر ایک واقعہ ہیمنگوے سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اُس نے ایک اخبار کے مالک کی زبانی سنا تھا جس کے مطابق ایک ریستوراں میں کھانا کھاتے ہوئے ارنسٹ ہیمنگوے کی اپنے دوست سے ایک بات پر ٹھن گئی۔ اس نے ہیمنگوے کو چیلنج کیا کہ وہ چھے الفاظ میں کوئی پُراثر کہانی لکھ کر دکھا دے اور ہیمنگوے نے ایک نیپکن پر چند الفاظ لکھ کر اس دوست کی طرف بڑھا دیے۔ ہیمنگوے نے لکھا تھا:

    "For sale: baby shoes, never worn.”

    "برائے فروخت: غیر استعمال شدہ، بے بی شوز۔” لیکن اس واقعہ کی صداقت مشکوک ہے۔ اس پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی، مگر آج بھی فلیش فکشن یا مائیکرو فکشن کے باب میں اس کہانی کی مثال دی جاتی ہے۔

    اس تحریر میں ایسا کیا ہے جس کا ذکر مختصر کہانی نویسی کے ضمن میں‌ دنیا بھر کے ادیب اور ناقدین کرتے ہیں اور اسے متأثر کن تحریر کہا جاتا ہے؟ یہ بظاہر ایک اشتہار ہے جس میں ایک بچّے کے جوتوں کا جوڑا فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس بے بی شوز کے بارے میں بیچنے والے کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر استعمال شدہ ہیں، یعنی کبھی جوتے کی اس جوڑی کو کسی بچّے نے نہیں‌ پہنا۔ لیکن انھیں خریدا ضرور گیا تھا اور گویا یہ ‘ری سیل’ کیے جا رہے ہیں۔ یہی وہ اشارہ ہے جو اس کہانی کو ایک رمز اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ Never worn یعنی کبھی نہ پہنے گئے یا غیر استعمال شدہ…. یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک المیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاید والدین نے جس بچّے کے لیے اسے خریدا تھا، وہ اب دنیا میں نہیں رہا، اور والدین شاید کسی مجبوری کے تحت انھیں بیچ رہے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ یہ کسی اور بچّے کے کام آجائیں۔

    الغرض اس کی تفہیم کرنے والوں نے ان چھ الفاظ پر مشتمل کہانی کو والدین کے لیے ایک تکلیف دہ واقعے، اور انسانی المیے کے طور پر ہی دیکھا ہے۔ اس کا مصنّف کوئی بھی ہو، یہ کہانی اپنے مفہوم اور پیغام کے اعتبار سے ایک شان دار تخلیق ہے۔ مائیکرو فکشن کا حصّہ اس کہانی کو "ٹویٹریچر” بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ ٹویٹر پر بھی آسانی سے لکھی جا سکتی ہے۔