Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    یہ شخصی خاکہ پارو دیوی کا ہے جو سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلا ہے جسے ایک فلم اسٹوڈیو کے شب و روز کے تسلسل میں لکھا گیا ہے۔ منٹو بھی اسی سے وابستہ تھے۔

    اس کے آغاز پر سعادت حسن منٹو نے ایک فلم کمپنی کے مقروض ہوجانے اور مختلف وجوہ کی بنا پر مزید مالی نقصان اٹھانے کی کچھ تفصیل بیان کی ہے جس کے بعد بتایا ہے کہ یہاں اسے ایک پروپیگنڈہ کہانی تیار کرنے کو کہا جاتا ہے اور تب منٹو اور اس کے ساتھیوں کو اسٹوڈیو میں ایک نیا چہرہ نظر آتا ہے۔ پارو نام کی یہ لڑکی اسی پروپیگنڈہ فلم کی سائیڈ ہیروئن کے طور پر خود کو آزمانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ آگے منٹو لکھتا ہے:

    "ایک دن مَیں، واچا، پائی اور اشوک اسٹوڈیو کے باہر کرسیوں پر بیٹھے کمپنی کی ان ہی حماقتوں کا ذکر کر رہے تھے جن کے باعث اتنا وقت، اتنا روپیہ ضائع ہوا کہ اشوک نے یہ انکشاف کیا کہ جو چودہ ہزار روپے رائے بہادر نے ممتاز شانتی کو دیے تھے، وہ انہوں نے اس سے قرض لیے تھے۔ اشوک نے یہ انکشاف اپنی کالی پنڈلی کھجلاتے ہوئے کچھ اس انداز سے کیا کہ ہم سب بے اختیار ہنس پڑے، لیکن فوراً چپ ہو گئے۔”

    "سامنے بجری بچھی ہوئی روش پر ایک اجنبی عورت ہمارے بھاری بھر کم ہیئر ڈریسر کے ساتھ میک اپ روم کی طرف جا رہی تھی۔”

    "دتاّ رام پائی نے اپنے کالے موٹے اور بدشکل ہونٹ کھولے اور خوفناک طور پر آگے بڑھے ہوئے اوندھے سیدھے میلے دانتوں کی نمائش کی اور واچا کو کہنی کا ٹہوکا دے کر اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ۔۔۔ یہ کون ہے؟‘‘”

    "واچا نے پائی کے سر پر ایک دھول جمائی۔ ’’سالے تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا؟‘‘ پائی بدلہ لینے کے لیے اُٹھا تو واچا نے اس کی کلائی پکڑ لی۔ ’’بیٹھ جا سالے۔ مت جا اِدھر۔ تیری شکل دیکھتے ہی بھاگ جائے گی۔‘‘”

    "پائی اپنے اوندھے سیدھے دانت پیستا رہ گیا۔ اشوک جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا، بولا۔ ’’گڈ لکنگ ہے!‘‘ میں نے ایک لحظے کے لیے غور سے اس عورت کو دیکھا اور کہا
    ’’ہاں نظروں پر گراں نہیں گزرتی۔‘‘”

    "اشوک میرا مطلب نہ سمجھا ’’کہاں سے نہیں گزر تی…؟‘‘ میں ہنسا۔ ’’میرا مطلب یہ تھا کہ جو عورت یہاں سے گزر کر گئی ہے۔ اسے دیکھ کر آنکھوں پر بوجھ نہیں پڑتا۔ بڑی صاف ستھری۔۔۔ لیکن قد کی ذرا چھوٹی ہے۔‘‘ پائی نے پھر اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی، ’’ارے، چلے گی۔۔۔ کیوں واچا؟‘‘

    "واچا، پائی کے بجائے اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’دادا منی! تم جانتے ہو، یہ کون ہے؟‘‘ اشوک نے جواب دیا۔ ’’زیادہ نہیں جانتا۔ مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘ کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ کیا گیا، جسے ہم نے پردے پر دیکھا اور سنا اور اپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی، اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا۔ مسکراہٹ بھی غیر دل کش تھی، لیکن پائی اس پر لٹو ہو گیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکر جی سے کہا ’’ونڈر فل اسکرین فیس ہے۔‘‘

    "دَتّا رام پائی فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر۔ فلمستان چونکہ ایسا ادارہ ہے جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی، اس لیے دِتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دوچار ہوتا تھا۔
    ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن ایس مکر جی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پراپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔”

    "اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گھلّو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب ہر رنگین مزاج رئیس کی منظورِ نظر تھی۔ اس کو یہ لوگ میرٹھ کی قینچی کہتے تھے، اس لیے کہ وہ کاٹتی تھی اور بڑا مہین کاٹتی تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی۔ پَر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا جو اسے فلمستان لے آیا۔”

    "جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور مسٹر ساغرؔ نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔ اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔ چھوٹی آستینوں والے پھنسے پھنسے بلاؤز میں اس کی ننگی ننگی باہیں ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھائی دیتیں۔ سفید، سڈول، متناسب اور خوبصورت۔ جلد میں ایسی چکنی چمک تھی جو ’’ولو‘‘ لکڑی پر رندہ پھرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ صبح اسٹوڈیو آئی۔ نہائی دھوئی، صاف ستھری، اُجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، کسی صابن کا اشتہار معلوم ہوئی۔ شام کو جب گھر روانہ ہوتی تو دن گزرنے کے باوجود گرد و غبار کا ایک ذرّہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تر و تازہ ہوتی جیسی صبح کو ہوتی۔”

    "دتاّ رام پائی اس پر اور زیادہ لٹو ہو گیا۔ شوٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی۔ چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے اور اس کے اوندھے سیدھے، میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخن کو کیسے برداشت کرتی تھی۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی کا ڈھانچہ میرے حوالے کیا گیا کہ بڑے غور سے اس کا مطالعہ کروں اور جو ترمیم و تنسیخ میری سمجھ میں آئے، بیان کر دوں۔”

    "نیا ڈھانچہ جب فلمستان کی ’’فل بنچ‘‘ کے سامنے پیش ہوا تو میری وہ حالت تھی جو کسی مجرم کی ہو سکتی ہے۔ ایس مکرجی نے اپنا فیصلہ ان چند الفاظ میں دیا۔ ’’ٹھیک ہے، مگر اس میں ابھی کافی اصلاح کی گنجائش ہے۔‘‘”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے لیے یہ تھی کہ مجھے پارو کو، اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیشِ نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہرحال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہو گئے۔ کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی فضا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔”

    "کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتا رام پائی، اب اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی یہ چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا ’’سالے تو کیوں جلتا ہے۔‘‘”

    "جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کے لیے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہو گئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارو دیوی لکھا گیا۔”

    "دتاّ رام پائی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ یہاں جا دھمکنا شروع کر دیا۔”

    "پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا مرد رہتا تھا۔ قد و قامت میں اس سے دو گنا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور ’’تھامو‘‘ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔”

    "پائی ایسے فخر و ابتہاج سے کینٹین میں پارو سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر نیم عاشقانہ انداز میں کرتا کہ ہنسی آجاتی۔ میں اور ساوک واچا اس کا خوب مذاق اُڑاتے، مگر وہ کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی پارو بھی موجود ہوتی۔ میں اس کی موجودگی میں بھی پائی کے خام اور بھونڈے عشق کا مذاق اُڑاتا۔ پارو بُرا نہ مانتی اور مسکراتی رہتی۔ اس مسکراہٹ سے اس نے میرٹھ میں جانے کتنے دلوں کو اپنی قینچی سے کترا ہو گا۔”

    "پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگو کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقہ سے تھا جو ناشائستگی کی طرف محض تفریح کی خاطر مائل ہوتا ہے۔”

    "پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بڑی اچھی خاصی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی ایکٹرس بنتی ہے، تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے۔ جیسے کہ وہ گیند ہے جسے بلے کے ساتھ کسی نے ہٹ لگائی ہے اور فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی اس تاک میں ہیں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں چلی آئے۔ لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی جلدی نہیں تھی۔”

    "پائی کی حالت اب بہت زیادہ مضحکہ خیز ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ پارو نے ایک روز اسے گھر مدعو کیا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اسے دو پیگ جونی واکر وسکی کے پلائے تھے۔ جب اس کو بہت زیادہ نشہ ہو گیا تھا تو پارو نے اس کو بڑے پیار سے اپنے صوفے پر لٹا دیا تھا۔ اب اس کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس پر مرتی ہے اور ہم لوگ چونکہ ناکام رہے ہیں، اس لیے حسد کی آگ میں جلتے ہیں۔ اس بارے میں پارو کا ردِعمل کیا تھا، یہ مجھے معلوم نہیں۔”

    "شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو نے ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر فلمائے جانے کا وقت آتا گیا، میرے اندیشے بڑھتے گئے۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ امتحان میں پوری نہیں اُترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہو گی۔”

    "ہم سب نے بڑی کوشش کی کہ اس کا تصنع اور ’’چوبی پن‘‘ کسی نہ کسی طریقے سے دور ہو جائے، مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کو کیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا، مگر سیٹ پر وہ حسبِ منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔ بہرحال اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔”

    "چونکہ مجھے اُس کی طرف سے بہت مایوسی ہوئی تھی اس لیے میں نے اُس کے ’’رول‘‘ میں کتربیونت شروع کر دی تھی۔ میری اِس چالاکی کا علم اُس کو پائی کے ذریعے سے ہو گیا۔ چنانچہ اس نے خالی اوقات میں میرے پاس آنا شروع کر دیا۔ گھنٹوں بیٹھی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہتی۔ بڑے شائستہ انداز میں، مناسب و موزوں الفاظ میں جن میں چاپلوسی کا رنگ بظاہر نہ ہوتا، میری تعریف کرتی۔”

    "ایک دو مرتبہ اس نے مجھے اپنے گھر پر مدعو بھی کیا۔ میں شاید چلا جاتا، لیکن اُن دنوں بہت مصروف تھا۔ ہر وقت میرے اعصاب پر پراپیگنڈہ فلم کا منظرنامہ سوار رہتا تھا۔”

  • نیّر مسعود: دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

    نیّر مسعود: دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

    نیّر مسعود اردو کی تہذیبی شناخت کے کہانی نویس تھے جن کی کہانیاں ہندوستان کے قدیم لکھنؤ کے ثقافتی تناظر میں ایک خواب ناک فضا تشکیل دیتی ہیں۔ نیّر مسعود اعلیٰ پائے کے محقّق، مترجم اور نقّاد تھے، فکشن نگاری ان کی وجہِ شہرت ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین اور سوانحی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود کو حکومتی سطح پر اور ادبی تنظیموں نے متعدد ایوارڈز دیے۔ ایک ایسی ہی تقریب میں نیّر مسعود نے جو تقریر کی تھی، وہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ان کا اسلوب اور منفرد طرزِ بیان اس تقریر کی خاص بات ہے اور یہی پارے اُن کی زندگی کے مختلف ادوار کی یادوں‌ کا عکس بھی ہیں۔ نیّر مسعود 2017ء میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کی تقریر ملاحظہ کیجیے۔

    ‘سپاس گزار ہوں کہ آپ نے سرسوتی سمّان کے لیے اردو کے ایک گوشہ نشین افسانہ نگار کا انتخاب کیا۔ اس موقعے پر مجھے اپنے کئی دوست یاد آ رہے ہیں جو اب دنیا میں نہیں ہیں۔ اگر وہ ہوتے تو اس وقت مجھ سے زیادہ خوش ہوتے۔ ان میں میرے نوجوان دوست شہنشاہ مرزا (مدیر بنجارا)، بزرگوں میں محمود ایاز(مدیر سوغات، بنگلور)، پاکستان کے مشہور ادیب محمد خالد اختر، اردو کے برافروختہ نقاد باقر مہدی اور عرفان صدیقی مجھ پر بہت مہربان تھے۔ ان کے علاوہ مظفر علی سید، مشفق خواجہ، زینو (صفدر میر)، صلاح الدین محمود بھی اس وقت یاد آ رہے ہیں۔

    زندہ دوستوں میں (خدا انہیں بہت دن زندہ رکھے) شمس الرحمٰن فاروقی کے رسالے شب خون کے اوراق میرے لیے شروع ہی سے کھلے رہے۔ اجمل کمال (مدیر آج ، کراچی) نے میرے تقریباً سب افسانے اور کئی مجموعے شائع کیے۔ آصف فرخی اور ان کے والد ڈاکٹر اسلم فرخی کو میری تحریروں سے شروع ہی سے بہت دلچسپی رہی۔ محمد سلیم الرحمٰن، پروفیسر شمیم حنفی، انتظار حسین، ڈاکٹر اسلم پرویز، اسلم محمود، اسد محمد خاں اور بمبئی، علی گڑھ اور بہار کے بہت سے دوست ہیں جن کی مہربانیاں میرے شاملِ حال رہیں۔

    آخر میں محمد عمر میمن کا ذکر لازم ہے جنہوں نے اپنے انگریزی رسالے اینول آف اردو اسٹڈیز، میڈیسن، کا ایک نمبر میرے لیے مخصوص کر کے مجھ کو مغربی دنیا سے روشناس کرایا اور میرے افسانوں کے انتخابات انگریزی میں ہندوستان اور امریکا سے چھپوائے اور زیادہ تر ترجمے خود ہی کیے۔

    بچپن سے لے کر انتالیس چالیس سال کی عمر تک خوشی قسمتی سے مجھے اپنے والد مرحوم پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب کا سایہ نصیب رہا۔ وہ اردو اور فارسی کے جید عالم اور ادیب تھے۔ میرے ذوق کی تربیت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کا کتب خانہ ملک بھر میں مشہور تھا۔ اس میں سب کتابیں بڑوں کے پڑھنے کی تھیں، لیکن اپنا شوق پورا کرنے کے لیے میں انہی کتابوں سے دل لگاتا تھا، چنانچہ میں نے دس گیارہ سال کی عمر تک ’ہماری شاعری‘،’آب حیات‘، ’الفاروق‘ اور ’دربار اکبری‘ وغیرہ پڑھ ڈالی تھیں خواہ وہ میری سمجھ میں نہ آئی ہوں۔ والد صاحب بہت اچھے نثر نگار بھی تھے اور نثر لکھنے میں بڑی محنت کرتے تھے۔ اکثر اظہار مطلب کے لیے مناسب لفظ کی تلاش میں کئی کئی دن سرگرداں رہتے تھے۔ میں نثر لکھنا بھی اپنے والد مرحوم ہی سے سیکھا۔

    ہمارے یہاں افسانوں کے مجموعے اور بچوں کی کتابیں نہیں کے برابر تھیں، لیکن ہمارے پڑوس میں ناول نگار الطاف فاطمہ کے یہاں ان کا اچھا ذخیرہ تھا اور وہاں مجھے بہت کتابیں پڑھنے کو ملیں۔

    بیشتر بچوں کی طرح مجھے بھی کہانیاں بنا کر سنانے کا شوق تھا۔ ان میں سے کچھ بچوں کے رسالوں میں شائع بھی ہوئیں۔ پھر نوجوانی کے شروع میں بڑوں کے افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوتے ہوتے ادبی تحقیق میں مصروف ہو گیا اور سنہ 1970-71 تک تحقیقی مضامین لکھتا رہا۔ پھر شمس الرحمٰن فاروقی کے رسالے کے لیے یکے بعد دیگرے پانچ افسانے لکھے جن کا مجموعہ سیمیا کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سے افسانے اور تحقیقی مضامین وغیرہ لکھ رہا ہوں۔

    سنہ 1970ء کے قریب میں نے ایک مکمل اور مربوط خواب دیکھا۔ محسوس ہوا کہ یہ تو اچھا خاصا افسانہ بن سکتا ہے۔ میں نے اس خواب کو معمولی رد و بدل کے بعد لکھ لیا۔ یہ میرا پہلا افسانہ ”نصرت“ تھا۔ افسانے میں کچھ خواب کی اور کچھ دھندلکے کی کیفیت تھی جو میرے کئی دوسرے افسانوں میں بھی محسوس کی گئی۔ مجھے خود یہ کیفیت بہت پسند نہیں ہے لیکن یہ خود بہ خود آ جاتی ہے، شاید اس لیے کہ میرے بہت سے افسانوں کی بنیاد میرے خوابوں پر ہے، مثلاً ”مارگیر“، ”اوجھل“، ”سلطان مظفر کا واقعہ نویس“، ”ندبہ“، ”اکلٹ میوزیم“، ”شیشہ گھاٹ“، ” علام اور بیٹا“، ”خالق آباد“ خوابوں پر مبنی ہیں۔

    اپنی ایک کمزوری کا بھی اعتراف کر لوں۔ میرے سب افسانے میرے شہر لکھنؤ میں اور میرے مکان ”ادبستان“ میں ہی لکھے گئے ہیں۔ باہر کسی جگہ میں نہ افسانہ لکھ سکا ہوں نہ کوئی مضمون یا کتاب۔

    کبھی کبھی مجھ سے میرے کسی افسانے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اور کبھی یہ کہ افسانے کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا اس لیے یہ مہمل ہے۔ میں اس موضوع پر نہ نقادوں سے الجھتا ہوں نہ عام پڑھنے والوں سے۔ مجھے جو کچھ کہنا ہوتا ہے افسانے ہی میں کہہ دیتا ہوں۔ مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ اپنے افسانوں کی تاویل، تعبیر، تشریح خود کروں اور پڑھنے والوں کو بتاؤں کہ میں نے افسانے میں کیا کہنے کی کوشش کی ہے۔

    میرے اطراف میں چکن کاڑھنے والی عورتیں، حکیم، عطار، گھروں میں اوپر کا کام کرنے والیاں، راج مستری، مزدور، مٹی کے نازک کھلونے اور برتن بنانے والے کمہار، ہفتہ واری بازاروں میں نقلیں کرنے والے مسخرے اور طلسمی تیل وغیرہ بیچنے والے دوا فروش بہت تھے اور ان سب کی جھلکیاں میرے افسانوں میں موجود ہیں۔ پرانے مکانوں اور درختوں سے بھی مجھ کو بہت دلچسپی رہی ہے۔ ان میں بہت سی چیزیں پہلے تھیں، اب نہیں ہیں، ان کا ذکر کسی ناسٹلجیا کے بغیر اکثر آتا ہے، لیکن میں نے ان میں سے کسی چیز کو افسانے کا بنیادی موضوع نہیں بنایا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہمارے ملک کی تہذیب کا جزو ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ ہمارے افسانہ نگار ادھر بھی توجہ کریں۔

    میرے کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا تعلق کس زمانے اور کس جگہ سے ہے۔ ایسے افسانوں کے لکھنے کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا سوا اس کے کہ ان کا لکھنا مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے۔

    ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔’

  • دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    ایک زمانہ تھا کہ اہلِ وطن فرش پر دستر خوان بچھاتے، آلتی پالتی مار کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھانا کھاتے۔ پھر جو زمانہ بدلا تو ان کے نیچے کرسیاں اور سامنے میز بچھ گئی جس پر کھانا چُن دیا جاتا۔ پہلے وہ سَر جوڑ کر کھاتے تھے اب سَروں کے درمیان فاصلہ نمودار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا شخص مدّ مقابل نظر آنے لگا۔

    مگر زمانہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ لی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر اور سرو قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جب کہ جنگلی مخلوق چراگاہوں میں چرتی پھرتی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختۂ مشق بناتے تھے، اب باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے آ ملے۔

    اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا ہماری تہذیب کا گراف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے، کیونکہ ہم نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت کو ترک کر کے کھڑے ہو کر اور پھر چل کر کھانا کھانے کے وطیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے یا دانہ دنکا چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھیے کہ اس کے قبضۂ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے۔ فقط یہ دیکھیے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا!

    بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھانوں کی ایک ٹولی وارو ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر اُدھار پر کپڑا بیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر ماحضر تناول فرماتے۔ وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شوربے سے بھری ہوئی پرات بحرُ الکاہل کا منظر دکھاتی، جس میں بڑے گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح ابھری ہوئی دکھائی دیتیں۔ وہ ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شرکائے طعام پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللّٰہ کا پاک نام لے کر کھانے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رُک رُک کر، ٹھہر ٹھہر کر کھاتے، مگر پشتو بغیر رُکے بے تکان بولتے۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ چنانچہ میں ہر شام حجرے کے دروازے میں آکھڑا ہوتا، انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کبھی کبھی برادرانہ اخوّت میں لتھڑا ہوا ایک آدھ لقمہ یا گوشت کا ٹکڑا میری طرف بھی بڑھا دیتے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ان پٹھانوں کی پیش کش کو اگر کوئی مسترد کر دے تو اس کی جان کی خیر نہیں۔ اس لیے میں بادلِ نخواستہ ان کے عطا کردہ لقمۂ تر کو کلّے میں دبا کر آہستہ آہستہ جگالی کرتا اور تا دیر انھیں کھانا کھاتے دیکھتا رہتا۔ عجیب منظر ہوتا۔ وہ کھانے کے دوران میں کمال سیر چشمی کا مظاہرہ کرتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جزاکَ اللّٰہ کے الفاظ وصول کرنے کے بعد اسے اپنے منہ میں ڈالتا۔ اخوّت، محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرزِ عمل سے موازانہ کرتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی، کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی خالہ کے گردا گرد بچّوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے جب بڑی خالہ کھانا تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں ہانڈی میں ڈوئی کے غوطہ لگانے اور پھر وہاں سے برآمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اترنے کے عمل کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتاً بڑی بوٹی چلی جاتی تو بس قیامت ہی آ جاتی۔ ایسی صورت میں خالہ کی گرج دار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے کی تکا بوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی تھی۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیزانِ مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوش گوار فضا از خود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار رہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدّ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔

    دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریکِ طعام حد درجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجیے تو آپ کو نفسا نفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہو گا اور ڈارون کا جہدُ البقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔

    دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حقِ میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر پوری دل جمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوش بُو اور بد بُو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سو گز کی دوڑ میں ہے!

    (ممتاز اردو نقّاد، انشائیہ نگار، اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے بعنوان دستر خوان سے اقتباسات)

  • امریکی مصنّف اور امرتا پریتم

    امریکی مصنّف اور امرتا پریتم

    پنجابی زبان کی مقبول شاعرہ اور فکشن نگار امرتا پریتم کا ادبی سفر چھے دہائیوں پر محیط ہے جس میں انھوں نے ناول، کہانیاں اور کئی مضامین سپردِ قلم کیے۔ متعدد سرکاری سطح کے اعزازات اور ادبی تنظیموں کی جانب سے ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ امرتا پریتم کی کتابوں کا انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔

    بھارت کی اس نام ور ادیبہ کی ایک تحریر سے اقتباس ادب کے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میں اپنی تحریروں میں ترمیم نہیں کیا کرتی۔ وہی لکھتی ہوں، جو لکھنا چاہتی ہوں۔ اگر کوئی قاری میری تحریروں سے اپنی ذہنی وابستگی محسوس کرتا ہے، تو پڑھے ورنہ کونہ میں ڈال دے۔

    ایک بار ایک امریکی مصنف نے ساہتیہ اکیڈمی میں تقریر کی۔ موضوع تھا: مصنف اپنی تحریر کو ہر دل عزیز کیسے بنا سکتا ہے۔ اس کا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں قارئین کے اذہان کو ٹٹولنا چاہیے کہ اُن کے مطالبات کیا ہیں اور اپنی تحریروں کو اُن کے مطابق تراشنا چاہیے۔

    میرا خیال ہے، جو مصنف ایسا کرتا ہے، وہ سرے سے مصنف ہی نہیں۔ میں فوراً چلی آئی۔ میں ایسی مصنفہ نہیں بننا چاہتی۔ ہرگز نہیں۔

    5 دسمبر 1976

    (حوالہ: محبت نامے از امرتا پریتم)

  • بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    "بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔”

    یہ سطور کنہیا لال کپور کی ایک شگفتہ تحریر سے لی گئی ہیں جس کا عنوان ہے بیس سو ستّر(2070)۔

    مزاح نگار، شاعر اور ادیب کنہیا لال کپور نے اپنے شگفتہ مضامین اور نظموں میں سماجی ناہم واریوں، طبقاتی کشمکش اور انسانی رویّوں پر چوٹ کی۔ وہ ادب کو معاشرے کی تعمیر اور لوگوں کی اصلاح کا بڑا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ پیشِ‌ نظر تحریر میں کنہیا لال کپور نے ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی شخصیات اور اِن کی جماعتوں کا خیالی نقشہ کھینچا ہے اور ہندوستان کے مٹ جانے کی پیش گوئی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ہندوستان کی تاریخ میں 2070ء بڑا عجیب اور اہم سال تھا۔ اس سال پوری ایک صدی کے بعد خاندانی منصوبہ بندی رنگ لائی۔ ملک کی آبادی پچپن کروڑ سے گھٹ کر پچپن لاکھ رہ گئی۔ لیکن ادھر آبادی کم ہوئی ادھر سیاسی جماعتوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ چنانچہ ان کی تعداد پانچ سو پچپن تھی۔ حالانکہ 1970ء میں صرف پچپن پارٹیاں تھیں۔”

    "ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشہور سیاسی جماعتوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد پارٹیوں کو جنم دیا ہے۔ مثال کے طور پر “تلوار پارٹی” کو ہی لیجیے۔ اس کی چودہ اولادین ہوئیں جن میں سے ‘تیز تلوار پارٹی’، ‘کند تلوار پارٹی’، ‘ زنگ خوردہ تلوار پارٹی’ قابلِ ذکر ہیں۔ “پاگل پارٹی” کے بچّوں کی تعداد اکیس تھی جن میں سے چند کے نام تھے ‘نیم پاگل پارٹی،’ تین بٹہ چار پاگل پارٹی’، ‘پانچ بٹہ چھ پاگل پارٹی’، ‘ننانوے فیصد پاگل پارٹی’۔ جہاں تک “لچر پارٹی” کا تعلق ہے، اسے بتیس پارٹیوں کا خالق ہونے کا فخر حاصل تھا، جن میں سے ‘لچر لچر پارٹی’، ‘لچر تر پارٹی’، ‘لچر ترین پارٹی’ نے دیارِ ہند میں اپنا مقام پیدا کیا۔ ایک مختصر سے مضمون میں ان تمام پارٹیوں کا تعارف ناممکن ہے، اس لیے صرف چند پارٹیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔”

    پستول پارٹی: (الیکشن نشان کارتوس) یہ 1980ء کی مشہور پارٹی کی (جس کا نام ریوالور تھا) پڑپوتی تھی۔ اس کا نعرہ تھا….اُٹھ ساقی اٹھ، پستول چلا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ جس شخص کو دلائل سے قائل نہیں کیا جاسکتا اسے پستول سے کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ موت کے بعد کوئی شخص بحث نہیں کرسکتا۔ یہ پارٹی سمجھتی تھی کہ ہندوستان کے تمام مسائل کا علاج پستول ہے۔ اگر ہر شخص کے ہاتھ میں پستول تھما دیا جائے تو وہ اپنی روزی کا بندوبست خود کر لے گا اور اس طرح خوراک اور بے روزگاری کے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

    بندوق پارٹی: (الیکشن نشان تھری ناٹ تھری) اس پارٹی کے اراکین پہلے پستول پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے پارٹی کے خلاف بغاوت کر کے ایک نئی پارٹی قائم کی۔ اس پارٹی کی رائے میں ہندوستان کو پستول کی نہیں بندوق کی ضرورت تھی۔ اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ جتنے اشخاص پستول پارٹی نے ایک سال میں ہلاک کیے، ان سے زیادہ اس نے ایک ہفتہ میں کیے۔ اس کا پارٹی کا نعرہ تھا “بندوقا پر مودھرما۔”

    دھماکا پارٹی: (الیکشن نشان ‘بارود’) اس پارٹی کے اراکین کا صرف ایک شغل تھا۔ یعنی ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکا ہونا چاہیے۔ کسی بلڈنگ، کسی چھت، کسی دیوار کو ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑنا چاہیے۔ اس پارٹی سے ریلوے اسٹیشن، ڈاک خانے، تار گھر خاص طور پر پناہ مانگتے تھے۔ کیونکہ اسے اس قسم کی عمارتوں سے “الرجی” تھی۔ اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ “ہم اپنی تخریب کر رہے ہیں ہماری وحشت کا کیا ٹھکانا؟!”

    پراچین سنسکرت پارٹی: (الیکشن نشان’جنگل’) اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو! یہ پارٹی پتھر اور دھات کے زمانے کو از سرِنو زندہ کرنا چاہتی تھی۔ اسے ہوائی جہاز، ٹیلی ویژن اور لپ اسٹک سے سخت نفرت تھی۔ یہ چھکڑے، رتھ اور پان کی دلدادہ تھی۔ اس کے خیال میں وقت کو ماضی، حالت اور مستقبل کے خانوں میں بانٹنا سراسر غلط تھا۔ صحیح تقسیم یہ تھی۔ ماضی، ماضی، ماضی۔

    خونخوار پارٹی: (الیکشن نشان’بھیڑیا’) یہ پارٹی طاؤس و رباب کی بجائے شمشیر و سناں کی سرپرستی کرتی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا، عوام بھیڑیں ہیں، پہلے ان سے ووٹ حاصل کرو پھر ان پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑو۔ اگر وہ شکایت کریں تو انھیں طعنہ دو کہ بھیڑیوں کو ووٹ دو گے تو تمہارا یہی حشر ہوگا۔

    مکار پارٹی: (الیکشن نشان ‘لومڑی’) اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ کامیاب سیاست داں وہ ہوتا ہے جو لومڑی اور لگڑ بگڑ کا مرکب ہو جو غریبوں کے ساتھ ہمدردی جتائے، لیکن ساتھ ہی ان کا خون چوسے۔ جو عوام کی خدمت کرنے کا حلف اٹھائے لیکن دراصل اپنے کنبے کی خدمت کرے جو پلیٹ فارم پر جنتا کی محبت کا دم بھرے لیکن درپردہ انھیں لوٹنے کے منصوبے بنائے۔ جو عوام کو دس بار دھوکا دینے کے بعد گیارھویں بار دھوکا دینے کے لیے تیار رہے اور جو دن رات اقبال کا یہ مصرع گنگنائے…

    کائر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

    غدار پارٹی: (الیکشن نشان’مار آستین’) ملک اور قوم سے غداری کرنا اس پارٹی کا شیوہ تھا۔ یہ پارٹی جس تھالی میں کھاتی تھی اسی میں چھید کرتی تھی۔ اس پارٹی کے اراکین کا شجرۂ نسب جعفر اور صادق سے ملتا تھا جن کے متعلق اقبالؔ نے کہا تھا؎

    جعفر از بنگال و صادق از دکن
    ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن

    ضمیر فروش پارٹی: (الیکشن نشان ‘ابلیس’) یہ پارٹی اپنے ضمیر کوننگا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔ اس کی دانست میں جو شخص اپنے ضمیر کو فروخت نہیں کرتا تھا وہ ہمیشہ تنگ دست اور بدحال رہتا تھا۔ اس پارٹی کے اراکین کھلے بندوں خریداروں کو بولی دینے کے لیے کہتے تھے اور سب سے بڑی بولی پر اپنا ضمیر فروخت کر کے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے تو کہتے تھے منہ پر نقاب ڈال لیں گے۔

    بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘چکنا گھڑا’) یہ پارٹی ہر بار الیکشن میں ناکارہ رہتی تھی، لیکن الیکشن لڑنے سے باز نہیں آتی تھی۔ اس پارٹی کے ہر رکن کی ضمانت ضبط ہو جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود اسے یقین رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گا اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالوں گا۔

    نہایت بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘گنجی چاند’) اس پارٹی کا صرف ایک رکن تھا جو خود ہی پریذیڈینٹ، جنرل سکریٹری اور خزانچی تھا اور جس کو الیکشن میں صرف ایک ووٹ ملتا تھا۔ یعنی اپنا ہی ووٹ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے اس پارٹی کے دو اراکین تھے۔ بعد ان میں جھگڑا ہو گیا اور دوسرے رکن نے اپنی علیحدہ پارٹی بنا لی جس کا نام غایت درجہ بے غیرت پارٹی۔

    گرگٹ پارٹی: (الیکشن نشان ‘گرگٹ’) اس پارٹی کا نعرہ تھا….. بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے! اس پارٹی کے اراکین صبح کو مکار، دوپہر کو خونخوار، شام کو غدار اور رات کو بدکار کہلاتے تھے۔ انھیں اس بات پر ناز تھا کہ جس سرعت کے ساتھ ہم پارٹی بدلتے ہیں، لوگ قمیص بھی نہیں بدلتے۔ معمولی سے معمولی لالچ کی خاطر یہ اپنے احباب کو آنکھیں دکھا کر اغیار کی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ عموماً اپنی صفائی میں علامہ اقبال کا مصرع پیش کیا کرتے تھے

    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

    خود غرض پارٹی: (الیکشن نشان ‘جنگلی سور’) اس پارٹی کے اراکین ملک اور قوم کے مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان میں سے ہر شخص وزیرِ اعلیٰ بننے کی کوشش کرتا اور جب اپنی کوشش میں ناکام رہتا تو وزارت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرتا۔ اور عموماً کامیاب ہوجاتا۔ اس کے بعد داغ دہلوی کا یہ مصرع زبان پر لاتا:

    ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

    (نوٹ) بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔ چنانچہ ان کی مشترکہ امیدیں 2075ء میں بَر آئیں اور ہندوستان کا نام لوحِ جہاں سے حرفِ مکرر کی طرح مٹا دیا گیا اور اس کے ساتھ پارٹیوں کا مادی اور سیاسی وجود بھی ختم ہوگیا!

    (یہ مضمون کپور صاحب کی کتاب نازک خیالیاں میں شامل ہے)

  • "تم چٹان کی طرح ڈٹ جاؤ، میں لندن جا رہا ہوں…”

    "تم چٹان کی طرح ڈٹ جاؤ، میں لندن جا رہا ہوں…”

    ایک زمانہ تھا جب صحافی حق گو اور نڈر ہوتے تھے۔ کسی بھی سیاست داں، وزیر مشیر سے دبنا تو دور کی بات ہے وہ ان سے کسی بھی طرح مرعوب نظر نہیں‌ آتے تھے۔ اُس دور کا صحافی حق گوئی کے ساتھ اپنی غیر جانب داری کو یقینی بناتا تھا اور کسی بھی واقعے پر بے لاگ تبصرہ اور بھرپور تجزیہ کرنا اپنا فرض‌ سمجھتا تھا۔ اسی زمانے کا ایک مختصر مگر نہایت دل چسپ قصّہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    یہ قصّہ ‘مشاہیرِ بہاول پور’ کے عنوان سے کتاب میں درج ہے جس کے مصنّف مسعود حسن شہاب دہلوی ہیں جو شاعر، محقق اور مؤرخ تھے۔ شہاب دہلوی قیامِ پاکستان کے بعد بہاول پور آگئے تھے جہاں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت، زبان و تاریخ کے حوالے سے انھوں نے بڑا کام کیا۔ وہ اپنی متذکرہ بالا کتاب میں ہفت روزہ ‘الامام’ کے مدیرِ اعلی مولوی محمد علی درویش سے متعلق لکھتے ہیں:

    "درویش صاحب کی تحریریں بڑی شگفتہ ہوتی تھیں۔ خبروں کی سرخیاں بھی وہ بڑی دل چسپ لگایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب کہ ہندوستان کی طرف سے پاکستان پر حملے کا خطرہ تھا، مخدوم زادہ حسن محمود جو ان دنوں شاید وزیرِ بلدیات تھے، کسی پارلیمنٹری ڈیلیگیشن میں لندن جا رہے تھے۔ انہوں نے لندن روانگی سے قبل ایک پریس کانفرنس دی جس میں ہندوستان کے متوقع حملے کے خلاف عوام کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا کہ وہ چٹان کی طرح ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ جائیں۔ چنانچہ جب اس کانفرنس کی خبر درویش صاحب نے اپنے اخبار میں چھاپی تو اس کی سرخی یہ لگائی:

    "تم چٹان کی طرح ڈٹ جاؤ، میں لندن جا رہا ہوں۔”

    سب نے اس خبر اور اس سرخی سے بہت لطف اٹھایا۔

  • غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    مجھے یاد ہے کہ جب میں عباس صاحب سے پہلی دفعہ استاذی صوفی تبسم صاحب کے ہاں ملا تو انہوں نے مجھے اپنی نیاز مندی کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُلٹا مجھے بتانے لگے کہ ” میں نے آپ کے سب مضامین پڑھے ہیں، آپ سے غائبانہ تعارف تو ہے، بس ملاقات نہیں ہوئی، تاثیر صاحب، فیض صاحب اور محمد حسن عسکری سے آپ کا ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    واقعہ یہ ہے کہ میرے بچپن کے زمانے میں ہر اُردو پڑھنے والے بچے کی سب سے پہلے جس لکھنے والے سے غائبانہ ملاقات ہوتی تھی وہ غلام عباس تھے۔ اس لیے کہ وہ ’’پھول‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور ’پھول‘ ہر گھر میں ہفتہ وار سوغات کی طرح آتا تھا، میری بھی غلام عباس سے غائبانہ ملاقات اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ غلام عباس کو بچوں اور نوجوان پڑھنے والوں کے دلوں میں گھر کرنے کا فن آتا تھا۔

    عباس صاحب لاہور میں بہت خوش تھے۔ یہاں کی گلیوں میں انہوں نے اپنے لڑکپن اور جوانی کے دن گزارے تھے ، ان کی بہت سی یادیں اس شہر سے وابستہ تھیں اور وہ اکثر ان یادوں کو تازہ کرتے رہتے تھے۔

    ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ چلیے آپ کو اس محلے میں کچھ اپنے پرانے دوستوں سے ملا لائیں۔ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا، ہم جب وہاں پہنچے تو عقب میں واقع بادشاہی مسجد کے میناروں سے دھوپ ڈھل چکی تھی اور محلے کی گلیوں میں شام ہو چکی تھی۔ ایک ذرا کشادہ گلی کی نکڑ پر ایک بڑے سے مکان کے سامنے عباس صاحب نے اپنا موٹر سائیکل روک لیا اور بڑی احتیاط سے پارک کیا۔ آس پاس کے دکان داروں سے علیک سلیک کی۔ مکان سے دروازے ہی پر کچھ ملازم پیشہ لوگوں نے عباس صاحب کو پہچان لیا۔ اندر اطلاع دی گئی تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا۔ ہم اوپر کی منزل کے ایک دالان میں پہنچے تو عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں نمودار ہوئیں، بڑی بوڑھیوں نے عباس صاحب کی بلائیں لیں، دو ایک ہم عمروں نے گلے لگایا اور نئی نویلی لڑکیاں آداب سلام بجا لائیں۔ عباس صاحب نے میرا تعارف کرایا تو گورنمنٹ کالج میں میرے لیکچرار ہونے کا ذکر بھی کیا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ان کے عزیزوں میں سے فلاں فلاں وہاں پڑھتے رہے ہیں اور فلاں اب بھی پڑھ رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد ایک تپائی پر چائے کا سامان رکھ دیا گیا۔ چائے کے ساتھ کھانے کے لیے گرم گرم سموسے اور شامی کباب، گاجر کا حلوہ۔ گپ شپ بھی ہوتی رہی اور کام و دہن کی تواضع بھی۔ آخر ایک مناسب موقع تلاش کر کے عباس صاحب نے میری خاطر سے گانے کی فرمائش کی۔ پہلے تو معمول کے عذر پیش کیے گئے۔ گلا خراب ہے، بہت دنوں سے ریاض نہیں کیا، یوں بھی اب تو لڑکیاں ہی گاتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر پھر مجھ سے یہ کہتے ہوئے کہ آپ عباس کے دوست ہیں اور پہلی دفعہ ہمارے گھر آئے ہیں، ہیرا بائی نے ہامی بھر لی۔ ساتھ والے کمرے سے طنبورہ اور طبلہ منگوائے گئے۔ ایک لڑکے نے طبلہ سنبھالا۔ ہیرا بائی نے طنبورہ ہاتھ میں لیا اور غالب کی غزل شروع کی:

    دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی
    دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

    اور اس طرح ڈوب کر گائی کہ سماں باندھ دیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود بھی غالب کے الفاظ اور اپنی آواز کے جذب و اثر میں کھوئی گئی ہیں، غزل ختم ہوئی تو میں نے جیسے ایک وجد کی سی کیفیت میں یہ شعر دہرا دیا:

    دیکھو تو دل فریبیٔ اندازِ نقشِ پا
    موجِ خرام ِ یار بھی کیا گُل کتر گئی

    ہیرا بائی فوراً بولیں۔ ’’پروفیسر صاحب! اب موجِ خرامِ یار کہاں، اب تو یار پھٹ پھٹی پر آتا ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی عباس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا۔

    کچھ دیر اور ٹھہرنے کے بعد ہم نے اجازت چاہی، نیچے آئے تو ڈیوڑھی کے ساتھ والا دالان جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا، سفید چاندنی پر گاؤ تکیے لگا دیے گئے تھے۔ سازندے سازوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے اور لڑکیاں سجی بنی مسند پر بیٹھی تھیں۔

    ہیرا بائی سے اپنی بھرپور جوانی کے عشق کا قصّہ عباس صاحب مجھے سنا چکے تھے، وہ ان کی زندگی میں پہلی عورت تھی جو اُن سے عمر میں کچھ بڑی بھی تھی لہٰذا اس کی محبت میں کچھ شفقت بھی شامل تھی۔

    عباس صاحب کو اس دو گونہ نشے نے دیوانہ کر دیا تھا مگر ظاہر ہے کہ ہیرا بائی کے گھر والے اس تعلق سے خوش نہیں تھے اور نہ عباس صاحب کی والدہ اِس لیے کہ انہیں اپنے ہونہار اکلوتے بیٹے سے بڑی امیدیں تھیں، وہ بیٹا جس کی لکھی ہوئی کہانیاں رسالوں میں چھپتی تھیں، جو مولوی سید ممتاز علی کے زیر سایہ’’پھول‘‘ اخبار میں کام کرتا تھا اور اہل علم لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا تھا۔

    عباس صاحب کے لیے بھی ادب اور ادیبوں کی صحبت گویا ایک نئی دنیا کی سیر تھی، اس کی کشش نے اُن کے دل کو ایسا رِجھایا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے اوّلین عشق سے دامن چھڑا لیا۔

    (اردو کے نام ور ادیب اور کئی مشہور افسانوں کے خالق غلام عباس پر ڈاکٹر آفتاب احمد کے تذکرے سے اقتباسات)

  • مارکیز کا کاسترو!

    مارکیز کا کاسترو!

    فیدل کاسترو اور مارکیز، دونوں کا شمار مشاہیر میں کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک نام وَر انقلابی اور مدبّر سیاست داں تھا اور دوسرا شہرۂ آفاق ناولوں کا خالق۔ آج یہ دونوں ہی اس دنیا میں نہیں، لیکن ان کا نظریہ اور ان کی تخلیق آج بھی انھیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    لاطینی امریکہ کی ان معتبر شخصیات نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو اپنے افکار و نظریات سے متأثر کیا اور اپنی جرأت و صداقت کے سبب ان کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔

    کیوبا کے انقلابی راہ نما اور صدر فیدل کاسترو کی بات کی جائے تو وہ ایک زبردست مقرر بھی تھے۔ وہ فنِ خطابت ہی میں‌ ماہر نہیں تھے بلکہ کتب بینی کا شوق رکھنے والے اور اعلیٰ پائے کے قلم کار تھے۔ کاسترو ایک کالم نویس بھی تھے اور کیوبا کے اخبارات میں باقاعدگی سے ان کی تحریریں شایع ہوتی تھیں۔ سیاست کے ساتھ ساتھ کاسترو کو ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ وہ انگریزی اور ہسپانوی ادب کے قاری ہی نہیں‌ بلکہ نقّاد بھی تھے۔ کئی ادیبوں سے ان کی دوستی تھی۔ لاطینی امریکہ کے منفرد اسلوب کے حامل ادیب مارکیز سے بھی کاسترو کا تعلق رہا۔ مارکیز کولمبیا کے ناول نگار اور صحافی تھے جن کی کہانیوں اور مضامین کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا۔ گبریئل گارشیا مارکیز کا مشہور ناول ”تنہائی کے سو سال‘‘ کاسترو کو بہت پسند تھا۔ مارکیز بھی کاسترو کو ایک زبردست قاری اور بہترین نقّاد مانتے تھے اور مشہور ہے کہ اس ادیب نے اپنے کئی مسودے تنقیدی جائزہ لینے کی غرض سے کاسترو کے سامنے رکھے تھے۔

    مارکیز نے اپنے سوانحی انٹرویوز پر مبنی کتاب میں کاسترو کی تنقیدی بصیرت کا تذکرہ کیا ہے جس سے ایک دل چسپ پارہ ہم یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ اجمل کمال نے مارکیز کی کتاب کا اردو ترجمہ "امرود کی مہک” کے نام سے کیا تھا۔ اسی ترجمہ سے یہ انتخاب پیشِ خدمت ہے جو اپنے وقت کی ایک غیر معمولی ذہین اور مدبّر شخصیت فیدل کاسترو کے علمی و ادبی ذوق کی گواہی بھی ہے۔

    ”فیدل کاسترو” سے میری قریبی اور دِلی دوستی کا آغاز ادب کے حوالے سے ہوا۔ 1960ء کی دہائی میں ”پرینسا لاطینا” میں ملازمت کے دنوں میں، میں اسے سرسری طور پر جاننے لگا تھا، لیکن مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ ہمارے درمیان کچھ زیادہ چیزیں مشترک ہیں۔

    بعد میں جب میں ایک مشہور ادیب اور وہ دنیا کا معروف ترین سیاست داں بن چکا تھا، ہماری کئی بار ملاقات ہوئی، مگر تب بھی، باہمی احترام اور خیر سگالی کے باوجود، میں نے محسوس نہیں کیا کہ اس تعلق میں سیاسی ہم آہنگی سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔

    چھے برس پہلے ایک روز صبح منہ اندھیرے اس نے مجھ سے اجازت چاہی، کیوں کہ اسے گھر جاکر بہت سا مطالعہ کرنا تھا۔ اس نے کہا کہ اگرچہ یہ کام اسے لازماً کرنا پڑتا ہے لیکن بیزار کن اور تھکا دینے والا کام لگتا ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ اس لازمی مطالعے کی تھکن دور کرنے کے لیے وہ کوئی ایسی چیز پڑھا کرے جو ذرا ہلکی پھلکی ہو، مگر اچھا ادب ہو۔ میں نے مثال کے طور پر چند کتابوں کے نام لیے، اور یہ جان کر حیران ہوا کہ نہ صرف اس نے یہ تمام کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ اس پر اچھی نگاہ تھی۔

    اُس رات مجھ پر اِس بات کا انکشاف ہوا جس سے چند ہی لوگ واقف ہیں کہ فیدل کاسترو بے حد پُرجوش پڑھنے والا ہے کہ اسے ہر زمانے کے اچھے ادب سے محبت ہے، اور یہ کہ وہ اس کا نہایت سنجیدہ ذوق رکھتا ہے۔ دشوار ترین حالات میں بھی، فرصت کے لمحات میں پڑھنے کے لیے اس کے پاس ایک نہ ایک عمدہ کتاب ضرور رہتی ہے۔

    اس شب رخصت ہوتے ہوئے میں نے اسے پڑھنے کے لیے ایک کتاب دی۔ اگلے روز 12 بجے میں اس سے دوبارہ ملا تو وہ اسے پڑھ چکا تھا۔ وہ اس قدر محتاط اور باریک بیں قاری ہے کہ وہ نہایت غیر متوقع مقامات پر تضادات اور واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کر دیتا ہے۔

    میری کتاب ”ایک غرقاب شدہ جہاز کے ملاح کی داستان” پڑھنے کے بعد وہ صرف یہ بتانے کے لیے میرے ہوٹل آیا کہ میں نے کشتی کی رفتار کا حساب لگانے میں غلطی کی ہے، اور اس کے پہنچنے کا وقت ہرگز وہ نہیں ہوسکتا جو میں نے بیان کیا ہے۔ اس کی بات درست تھی۔ اس لیے” ایک پیش گفتہ موت کی روداد” کو شائع کرانے سے پہلے میں مسودہ اس کے پاس لے گیا، اور اس نے شکاری رائفل کی خصوصیات کے بارے میں ایک غلطی کی نشان دہی کی۔

    لگتا ہے اسے ادب کی دنیا سے محبت ہے، یہاں اس کا جی لگتا ہے، اور اسے اپنی بے شمار تحریر شدہ تقریروں کے ادبی اسلوب پر محنت کرنے میں لطف آتا ہے۔ ایک موقعے پر اس نے حسرت زدہ انداز میں، مجھے بتایا: ” اپنے اگلے جنم میں میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں۔

  • نیم حکیم ‘محمد چھتلذ چھتل’ اور نامعلوم شاعر ‘کانو’

    نیم حکیم ‘محمد چھتلذ چھتل’ اور نامعلوم شاعر ‘کانو’

    اُردو زبان میں‌ مشاہیر کی ذاتی زندگی اور حالات و واقعات پر مبنی آپ بیتیاں نہ صرف ہر خاص و عام کی دل چسپی کا باعث بنتی ہیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ شخصیات کی انفرادی زندگی کے ساتھ ان کے دور کے تاریخی اور کئی اہم واقعات کا مستند حوالہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔

    یہاں ہم سندھی زبان کے مشہور شاعر اور ادیب شیخ ایاز کی خودنوشت سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جن میں انھوں نے اپنے دور کے دو ایسے کرداروں کا تذکرہ کیا ہے جو غالباً اُن کے لیے بھی عجیب و غریب اور پُراسرار رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    محمد چھتلذ چھتل ایک نیم حکیم تھا اور جمیعت الشعراء کا ممبر تھا۔ میں جب چھوٹا سا تھا تو وہ شکار پور کے شہر لکھی در میں اپنا سامان زمین پر سجا کر بیٹھا کرتا تھا۔ اس سامان میں قسم قسم کی شیشیاں اور بڑے بڑے مٹی کے تھال ہوتے تھے۔ کچھ تھالوں میں تیل میں شرابور مرے ہوئے سانڈے اور کیکڑوں جیسے بڑے بچھو ہوتے تھے۔ چند تھالوں میں مختلف رنگ کے دوائیوں کے سفوف اور گولیاں ہوتیں۔ اس حکیم کے ساتھ عام طور پر ایک نوعمر لڑکا بھی ہوتا تھا جس کے ساتھ وہ مل کر "میں عامل تو معمول” والا ڈرامہ رچایا کرتا تھا۔

    اور جب مجمع میں لوگ جمع ہونے لگتے تو وہ اردو کا درج ذیل شعر اپنی کراری زبان میں پڑھنے لگتا،

    سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
    کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

    اور پھر یہ دیکھ کر مجمع خوب جم گیا ہے اور تیل کی شیشیوں، کاغذ کی پڑیوں میں لپیٹے ہوئے سفوف اور شیشیوں میں بند گولیوں کے فائدے بتا کر انھیں ہجوم میں بڑی ہوشیاری سے فروخت کرتا اور خوب کمائی کرتا۔

    ان دنوں جمیعت الشعراء کا ایک رسالہ "ادیب سندھ” لاڑکانہ سے نکلا کرتا تھا جس میں جمیعت کے طرحی مشاعروں میں پڑھی گئی غزلوں کا انتخاب شایع ہوتا تھا اور آئندہ کے مشاعروں کے لیے طرح مصرع اور اس کا قافیہ ردیف بھی دیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک طرح مصرع کی ردیف خالص تھی۔ اور قافیہ گلاب، خضاب اور جلاب وغیرہ۔ ان کا وزن چار بار مفاعلاتن دیا گیا تھا۔ اور مزید وضاحت کے لیے گلاب خالص، شراب خالص، خضاب خالص اور جلاب خالص وغیر قافیے اور ردیف اکٹھے کر دیے گئے تھے۔

    انہی دنوں ایک نامعلوم شاعر کے اشعار جس کا تخلص تھا "کانو” ، ‘ادیب سندھ’ کے انتخاب میں بڑے طمطراق سے چھپا کرتے تھے اور اس کی شاعری نے جمیعت الشعراء کے حلقوں میں کافی تھرتھری پیدا کر رکھی تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ کانو دراصل نظامی ہے اور کسی کا خیال تھا کہ یہ کراچی کا کوئی اور شاعر ہے۔ اور جب بھی جمیعت الشعراء کے ارکان ایک دوسرے سے ملتے تو یہ سوال ضرور پوچھتے تھے کچھ پتا چلا یہ کانو کون ہے؟

  • ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو دنیا کے ان ناول نگاروں‌ میں سے ایک ہیں جن کا ذکر کیے بغیر پچھلی دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں‌ ہوسکتا۔ دی گاڈ فادر اس امریکی ادیب کا ایک مشہور ناول ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔

    ماریو پوزو(Mario puzo) کے حالاتِ زندگی اور ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ہم اس فلم کی کہانی بھی بیان کریں‌ گے جو ان کے مشہور ناول پر مبنی ہے۔

    بہترین ناول نگار ہی نہیں ماریو پوزو مختصر کہانی نویسی اور اسکرین رائٹنگ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ان کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ماریو پوزو جس گھرانے کے فرد تھے، وہ امریکہ آن بسا تھا۔ نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو نے 15 اکتوبر 1920ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک معمولی آمدنی والے کنبے کے فرد تھے۔ ماریو پوزو نے نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کرلی، لیکن نظر کمزور تھی، اس لیے ماریو پوزو کا تعلقاتِ عامّہ کے شعبے میں تبادلہ کردیا گیا۔ وہ مطالعہ اور لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے۔ دورانِ ملازمت ان کے افسانے اور کہانیاں‌ شایع ہونے لگیں اور ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    ماریو پوزو کا پہلا افسانہ 1950ء میں شایع ہوا تھا۔ اس ناول نگار کی وجہِ شہرت مافیا پر لکھی گئی کہانیاں‌ بنیں۔ ماریو پوزو نے 11 ناول تحریر کیے، جن میں سب سے زیادہ مقبولیت گاڈ فادر کو ملی اور یہی عالمی ادب میں ماریو پوزو کی پہچان بنا۔ اس ناول پر بننے والی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بعد میں‌ بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور کہانیاں‌ لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری بھی کی۔ پوزو کے افسانوں اور ناولوں کا امریکی معاشرے میں ذہنوں‌ پر گہرا اثر ہوا۔ وہ جن مافیاز کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، اس میں مصنّف کی قوّتِ مشاہدہ کے ساتھ ان کی محنت، مہارت اور ذہانت کا بڑا دخل نظر آتا ہے۔

    ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو چل بسے تھے مگر آج بھی ان کا نام عالمی ادب میں بہترین ناول نگار کے طور پر زندہ ہے۔

    امریکہ میں‌ مافیا کے کرداروں پر ان کے مشہور ناول دی گاڈ فادر پر بننے والی فلم کی بات کریں‌ تو یہ ایسی کہانی ہے جس کا سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) نامی ایک جہاں دیدہ شخص ہے۔ یہ ناول نیویارک شہر میں مافیا کے مختلف خاندانوں‌ کی علاقے اور کاروبار کی دنیا میں ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے لڑائیوں کو بیان کرتا ہے۔ اس دوران کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف نے اپنے ناول میں بڑی تفصیل کے ساتھ کرداروں کی ذہنی کشمکش اور رویے کو‌ بیان کیا ہے جس نے اس کہانی کو مؤثر بنا دیا۔ اس ناول کی ایک خوبی دنیاوی فہم و فراست، ذہانت کے وہ باریک نکات ہیں‌ جس میں‌ ماریو پوزو نے اپنے کرداروں کو فلسفہ جھاڑے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ فلمی پردے پر شائقین کو یہ سسپنس سے بھرپور اور نت نئے موڑ لیتی کہانی معلوم ہوتی ہے اور یہ سب اس کا اشتیاق بڑھاتا ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس کا ایک کردار عظیم فن کار مارلن برانڈو نے ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے اور فلم کو بھی زبردست پذیرائی ملی۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنّف مالی آسودگی کا آرزو مند تھا اور جب وہ اپنی ابتدائی تخلیقات پر اس معاملے میں زیادہ کام یاب نہ ہوئے تو انھوں نے گاڈ فادر لکھا جس کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ناول شاہکار ثابت ہوا۔

    مصنّف کے اس ناول کی ایک اشاعت میں اُن کے بیٹے کا مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس تصنیف کے پیچھے ماریو پوزو کا مقصد کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے والد کے لکھے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں سرسٹھ ہفتے تک شامل رکھا۔