Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • ہمایوں سعید کے تھپڑ پر عدنان صدیقی کا جواب

    ہمایوں سعید کے تھپڑ پر عدنان صدیقی کا جواب

    کراچی : اداکار عدنان صدیقی نے ڈراماسیریل”میرے پاس تم ہو” میں تھپڑ مارنے والا سین پر ہمایوں سعید سے کہا صاحب تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا پیار سے لگتا ہے، اس ایک تھپڑ نے شہوار کو دنیا بھر میں دو ٹکے کا کردیا“۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں اس وقت ڈراما سیریل”میرے پاس تم ہو“مقبولیت میں تمام ڈراموں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، سوشل میڈیا پر جہاں اس ڈرامے کےڈائیلاگز کی دھوم مچی ہوئی ہے وہیں ڈرامے کے مرکزی اداکاروں ہمایوں سعید ، عدنان صدیقی اورعائزہ خان کی اداکاری نے بھی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔

    ڈرامے کی کہانی سے جہاں لوگ جذباتی طور پر جڑ گئے ہیں وہیں ڈرامے میں کام کرنے والے اداکار بھی ہر ہفتے نئی قسط نشر ہونے کے بعد اپنے ردعمل کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے ہیں۔

    گزشتہ ہفتے ڈراما سیریل”میرے پاس تم ہو“کی 13 ویں قسط میں ہمایوں سعید کا عدنان صدیقی کو تھپڑ مارنے والا سین بہت زیادہ وائرل ہوا اور لوگوں نے عدنان صدیقی اورہمایوں سعید کو بہترین اداکاری کرنے پر ایک بار پھر خوب داد دی۔

    ہمایوں سعید کی ٹوئٹ کے جواب میں عدنان صدیقی نے دلچسپ ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ”صاحب تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا پیار سے لگتا ہے، اس ایک تھپڑ نے شہوار کو دنیا بھر میں دو ٹکے کا کردیا“۔

    بعد ازاں عدنان صدیقی مزاحیہ انداز میں ہمایوں سے شکوہ کرتے نظر آئے کہ ”دنیا کے سامنے ذلیل وخوار کرکے مجھے آپ میری اداکاری کی تعریف کررہے ہیں؟

    یاد رہے ہمایوں سعید نے لوگوں کی محبتوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس سین کا کریڈٹ عدنان صدیقی کو دیتے ہوئے کہا کہ عدنان صدیقی کی بہترین اداکاری کی وجہ سے یہ سین اتنا کامیاب ہوا۔

  • برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے حافظے میں یہ شعر ضرور محفوظ ہو گا، مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کے خالق آغا حشر ہیں جو برصغیر میں ڈراما نگاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔

    آغا حشر کاشمیری نے بیسویں صدی کے آغاز میں ڈراما نگاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ وہ تھیٹر کا زمانہ تھا اوراسٹیج پرفارمنس نہ صرف ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی بلکہ اس دور میں معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کو بھی تھیٹر پر خوب صورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مضبوط اور مقبول میڈیم تھا جس میں آغا حشر نے طبع زاد کہانیوں کے علاوہ شیکسپئر کے متعدد ڈراموں کا ترجمہ کر کے ان سے تھیٹر کو سجایا۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ بے حد مقبول ہوئے۔

    یکم اپریل 1879 کو بنارس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے آغا حشر کی تعلیم تو واجبی تھی، لیکن تخلیقی جوہر انھیں بامِ عروج تک لے گیا۔ انھیں یوں تو ایک ڈراما نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے ان کا تذکرہ ہوتا ہے، مگر اردو ادب کے سنجیدہ قارئین ضرور انھیں شاعر کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں علامہ اقبال بھی مشاعروں میں ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ آغا حشر کا انتقال 28 اپریل 1935 کو ہوا۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    غزل
    یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
    بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
    ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
    اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
    او وفا نا آشنا کب تک سنوں تیرا گلہ
    بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں
    آرزوؤں کا شباب اور مرگِ حسرت ہائے ہائے
    جب بہار آئے گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں
    حشرؔ میری شعر گوئی ہے فقط فریادِ شوق
    اپنا غم دل کی زباں میں دل کو سمجھاتا ہوں میں

  • ہالی ووڈ اداکار شوٹنگ کے دوران چل بسے

    ہالی ووڈ اداکار شوٹنگ کے دوران چل بسے

    بیجنگ : ہالی ووڈ اداکار گوڈ فرے گاؤ ریئلٹی شو کی شوٹنگ کے دوران گرنے کے بعد جان کی بازی ہار گئے۔

    تفصیلات کے مطابق تائیوان نژاد کینیڈین اداکار35 سالہ گوڈفرے گاؤ چین کے معروف چیمپئن ریئلٹی شو کی شوٹنگ کے دوران اچانک گر پڑے، انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔

    گوڈ فرے گاؤ کی شوٹنگ کے دوران موت پر چین اور تائیوان سمیت کینیڈا میں ان کے مداح غمگین دکھائی دیے، سوشل میڈیا پر مداحوں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اداکار کی اچانک موت کے بعد ریئلٹی شو کی انتظامیہ نے شوٹنگ منسوخ کردی۔

    ہالی ووڈ اداکار نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ماڈل کیا اور وہ کسی مغربی برانڈ میں تشہیر کے لیے منتخب ہونے والے پہلے ایشیائی ماڈل تھے۔ گوڈ فرے گاؤ ہالی ووڈ کی اب تک ایک ہی فلم میں کام کرسکے تھے۔

    تائیوان نژاد کینیڈین اداکار35 سالہ گوڈفرے گاؤ کو چین، ہانگ کانگ اور تائیوان میں خاصی شہرت حاصل تھی۔

    یاد رہے کہ جنوری 2017 میں نوجوان آسٹریلوی اداکار فیٹلی گانے کی شوٹنگ کے دوران آتش گیر مادہ پھٹنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔

  • مہوش حیات کا بھائی کے نام جذباتی پیغام

    مہوش حیات کا بھائی کے نام جذباتی پیغام

    کراچی: تمغہ امتیاز حاصل کرنے والی پاکستانی اداکارہ نے اپنے بھائی کی سالگرہ پر جذباتی پیغام شیئر کرتے ہوئے انہیں اپنا حقیقی ہیرو اور  محافظ قرار دے دیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر مہوش حیات نے گزشتہ روز اپنے بھائی دانش حیات کو انوکھے انداز سے سالگرہ کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے ایک جذباتی پیغام تحریر کیا۔

    اداکارہ نے اپنے بھائی کو مخاطب کر کے لکھا کہ ’میں مسکراتی ہوں کیونکہ تم میرے بھائی ہو، تم ہی میرے حقیقی ہیرو ہو، جب میں جذباتی ہوتی ہوں تو تم سمجھ داری سے کام لیتے ہو‘۔

    مہوش حیات نے لکھا کہ ’میری زندگی میں آنے والے تمام دکھ اور درد میں میرا ساتھ دینے پر تمھارا شکریہ، میں آج جو کچھ بھی ہوں اُس میں آدھی محنت تمھاری ہے کیونکہ تم میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوئے اور میرا ساتھ دیتے رہے‘۔

    مزید پڑھیں: ’بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے‘ مہوش اور احسن کی ویڈیو وائرل

    اداکارہ نے خود کو خوش قسمت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں خوش نصیب ہوں کہ تم میرے بھائی، دوست اور میری زندگی میں شامل ہو، مجھے معلوم ہے تم اپنی چھوٹی بہن کے محافظ ہو، تمھارے اندر ذہانت، مہارت اور حیرت انگیز مزاح و ہنر ہے جو مجھے ہر بار حیران کردیتا ہے‘۔

     

    View this post on Instagram

     

    @danish_hayat I smile because you’re my brother and I laugh because there is nothing you can do about it. You are one of my true heroes. Steady and sensible where I am impulsive and emotional. Thank you for being there for me through all life’s ups and downs. I could not have possibly achieved half of what I have done without you by my side and your undying support in everything I do. I’ve been blessed to have you in my life.. You’re my pal, my buddy, my rock and my best friend too. I know how fiercely protective you are of your little sister. Your amazing sense of humour, your wit, intelligence and talent never fails to amaze me. ♥️ Just a warning .. Danish can be very nice but like the Hulk, mess with him and you’ll find that he can turn into a Big Green Monster ..! lol.. A very happy birthday to you .. May you have a thousand more (Ameen) Love you to infinity !!! ♾ 🤗😘 SWIPE TO SEE SOME OF OUR MEMORABLE MOMENTS TOGETHER ! #DanishHayat #MehwishHayat #siblinglove #thebestbrotherintheworld #mashaAllah💕

    A post shared by Mehwish Hayat (@mehwishhayatofficial) on

  • اسرار الحق مجاز اور مولانا حالی کی شگفتہ بیانی

    اسرار الحق مجاز اور مولانا حالی کی شگفتہ بیانی

    سعادت مند

    مشہور شاعر اسرار الحق مجاز بلا کے مے نوش تھے۔ ایک روز کسی صاحب نے ان سے پوچھ لیا۔
    ’’کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر اعتراض نہیں کرتے؟‘‘
    مجاز جیسے زرخیز ذہن کے مالک اور خوب صورت شاعر نے اس سوال پر ان صاحب کو ایک نظر دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے مختصر جواب دیا۔

    ‘‘جی نہیں۔’’ پوچھنے والا ان کے اس مختصر جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور اس کی وجہ جاننا چاہی۔ اس کے اصرار پر مجاز نے جو کہا وہ ان کی حاضر دماغی اور ظرافت کا ثبوت ہے۔
    ‘‘دیکھیے، یوں تو لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر آپ سمجھ لیں کہ میرے والدین سعادت مند ہیں۔’’

    تن ہا

    یہ اردو کے ایک لکھاری کی شادی کی تقریب کا واقعہ ہے جو اپنے وقت کی قدرآور شخصیات کے نہایت شستہ مزاح اور شگفتہ بیانی کی ایک مثال ہے۔

    محمد یحییٰ تنہا کی شادی تھی۔ انھوں نے تقریب میں اپنے ادیب اور شاعر دوستوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ ان میں مولانا حالی اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں۔
    تقریب کے بعد اپنے وقت کی ان قابل شخصیات نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ اصحاب بیٹھے ہی تھے کہ تنہا وہاں آگئے۔ اسماعیل میرٹھی نے انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولے۔
    جناب، آپ اپنا تخلص بدل دیں، کیوں کہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔
    اس سے پہلے کہ محمد یحییٰ تنہا ان کی بات کا جواب دیتے مولانا حالیؔ بول پڑے۔
    نہیں مولوی صاحب یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘تن۔۔۔ہا’’ تو دراصل یہ اب ہوئے ہیں۔ اس پر سبھی مسکرا دیے اور مولانا حالیؔ کی اس شگفتہ بیانی کا خوب چرچا ہوا۔

  • درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی ایک مختصر کہانی پڑھیے.

    پڑھے لکھے نوجوان کو کہیں جانا تھا۔ وہ بس کے اڈّے پر بسوں کے بورڈ پڑھتا پھر رہا تھا۔
    بے وقوف کہلانے کے ڈر سے اس نے کسی سے بس کے بارے میں پوچھا نہیں، صرف گھومتا رہا۔
    ایک بس سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور چوتھی۔
    ایک اَن پڑھ سا آدمی آیا، اس نے بس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا اور جھٹ سے بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی۔
    پڑھا لکھا نوجوان اب بھی بسوں کے بورڈ پڑھتا ہوا وہیں چکر لگا رہا تھا۔

    جھجک کے عنوان سے یہ کہانی آپ کو یقینا پسند آئی ہو گی. اس کہانی کا موضوع اور بُنت بتاتی ہے کہ مصنف اپنے گرد و پیش اور ماحول سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ گہرا ہے. دوسری طرف مختصر نویسی درشن متوا کی بلند تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔

    درشن متوا کا شمار پنجابی اور ہندی زبان کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے زرخیز ذہن اور قوتِ متخیلہ سے کام لے کر ان موضوعات کو برتا ہے جو ایک زمانے میں ان کے محلِ نظر تھے۔ درشن متوا نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل ناول اور دیگر کہانیاں لکھیں بلکہ مختصر نویسی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ پیشِ نظر کہانی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ فرد اور ایک ان پڑھ کے درمیان اعتماد کے فرق اور شعور کی حالتوں کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ایک عام رویے کی عکاس ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص قسم کے غرور یا کسی کے اپنے پڑھے لکھے ہونے کے بے جا یا غیر ضروری فخر کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے. مصنف نے بتایا ہے کہ یہی فخر ایک موقع پر آگے بڑھنے میں‌ یا کسی کام کو انجام دینے میں‌ کیسے رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور اکثر اس کے سبب ناکامی مقدر بنتی ہے۔ یہ لفظی منظر کشی بامقصد، دل چسپ اور نہایت پُراثر ہے۔

  • کُشتی کا وہ مقابلہ جس نے بھولو پہلوان کو رستمِ پاکستان بنا دیا

    کُشتی کا وہ مقابلہ جس نے بھولو پہلوان کو رستمِ پاکستان بنا دیا

    17 اپریل 1949 کو جب دھوپ ڈھلی تو کراچی کے پولو گراؤنڈ میں ایک ایسا مقابلہ ہوا جو یادگار بن گیا۔

    پنڈال شائقین سے بھرا ہوا تھا اور اکھاڑا پہلوانوں کا منتظر۔ یہ کُشتی کا ایک مقابلہ تھا۔ لاؤڈ اسپیکر پر بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ بھولو پہلوان اور یونس پہلوان کے درمیان دنگل شروع ہونے والا ہے۔ مہمانِ خصوصی اُس وقت کے گورنر جنرل تھے اور اکھاڑے کے فاتح کو ‘‘رستمِ پاکستان’’ کا خطاب ملنا تھا۔ بھولو اور یونس دونوں یہ اعزاز اپنے نام کرنے کے لیے بے تاب تھے۔

    ملک کی تاریخ کے اس مشہور اور یادگار دنگل کا احوال اختر حسین شیخ نے اپنی کتاب ’’داستانِ شہ زوراں‘‘ میں رقم کیا ہے۔ آپ کی دل چسپی کے لیے کشتی کے مقابلے کی وہ روداد پیش ہے۔

    ‘‘ خواجہ ناظم الدین اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ فرائضِ منصفی میجر جنرل اکبر خان نے سرانجام دیے۔ دونوں پہلوان کچھ عرصہ قبل لاہور میں ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگا چکے تھے۔ یونس پہلوان کے لیے یہ مقابلہ گزشتہ داغِ شکست کو دھونے کے مترادف تھا تو بھولو کو اپنی برتری قائم رکھنا تھی۔ علاوہ ازیں رستمِ پاکستان کا معاملہ بھی تصفیہ طلب تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر دونوں شہ زوروں نے تیاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ مہمان خصوصی پانچ بجے شام کشتی گاہ میں تشریف لائے۔

    رستمِ زماں گاما، رستمِ ہند امام بخش اور حمید ارحمانی نے بصد احترام استقبال کیا۔ بھولو پہلوان نے بطورِ خاص ہاتھ ملایا۔ یونس پہلوان بھی پنڈال میں موجود تھا۔ تھوڑی دیر تک خواجہ صاحب دونوں پہلوانوں سے مصروفِ گفتگو رہے اور دونوں کے ڈیل ڈول کو ستائش بھر ی نظروں سے دیکھتے رہے۔

    دونوں شہ زور اکھاڑے میں اترے تو ہجوم نے تالیوں اور فلک شگاف نعروں سے استقبال کیا۔ رسومِ پہلوانی ادا کرنے کے بعد دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ کشتی کے اٹھارہویں منٹ میں بھولو نے حریف کو صاف چت کر دیا۔ منصف نے بھولو کو فاتح قرار دے کر رستمِ پاکستان کا اعلان کیا تو تماشائیوں نے دلی مسرت کا اظہار کیا۔ خواجہ عبدالحمید انکم ٹیکس کمشنر، سائوتھ زون نے بھولو کی دستار بندی کی۔

    بھولو پہلوان کو اہلِ کراچی کی جانب سے سونے کا تاج بھی پہنایا گیا تھا۔

    کسی زمانے میں کسرت کو ایک صحت مند رجحان، پہلوانی کے شوق کو قابلِ فخر اور کُشتی لڑنے کو ایک فن مانا جاتا تھا۔ بھولو کا تعلق ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا اور ان کے والد اور چچا پہلوانی اور کُشتی میں نام ور تھے۔ ان کا اصل نام منظور احمد تھا۔ وہ امرتسر کے تھے، ان کا سن پیدائش 1927 ہے۔

    اپنے وقت کے اس طاقت ور انسان، شہ زور اور دنگل کے داؤ پیچ کے خوگر پہلوان کو 1985 میں موت نے پچھاڑ دیا۔ وہ مارچ کی آٹھ تاریخ تھی جب بھولو پہلوان ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔

  • گلوکار سجاد علی کا نیا گانا پردیسیوں کے نام

    گلوکار سجاد علی کا نیا گانا پردیسیوں کے نام

    کراچی: معروف گلوکار سجاد علی نے اپنا نیا گانا پردیسیوں کے نام کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گلوکار سجاد علی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ویڈیو پیغام میں اپنے نئے گانے کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے نیا گانا پردیسیوں کے لیے بنایا ہے۔

    گلوکار سجاد علی نے کہا کہ ہمیشہ سے مداحوں کی جانب سے میری گلوکاری کو پسند کیا گیا ہے اور امید کرتا ہوں کہ اس گانے کو بھی پسند کیا جائے گا۔

    اس سے قبل سجاد علی نے ویڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ وہ جلد ایک گانا ریلیز کررہے ہیں جس میں تمام پردیسیوں کے لیے پیغام ہوگا۔

    واضح رہے کہ سجاد علی گلوکاری کے ساتھ ساتھ کمپوزنگ میں بھی مہارت رکھتے ہیں جس کا ثبوت ان کے ہرگانے کی کامیابی ہے۔

    ٹویٹر پر ایک صارف نے کہا کہ آپ کا یہ گانا بھی ہٹ ہوگا، ایک اور صارف ارسلام مجتبیٰ نے کہا کہ ہم اس گانے کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سجاد علی کا گانا ’لگایا دل بہت‘ گایا تھا جسے مداحوں کی جانب سے بہت پسند کیا گیا تھا۔

  • مائیکل جیکسن کا ریکارڈ توڑنے والی گلوکارہ

    مائیکل جیکسن کا ریکارڈ توڑنے والی گلوکارہ

    نیویارک: امریکی گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ نے مائیکل جیکسن کا زیادہ ایوارڈز جیتنے کا ریکارڈ توڑ دیا اور سال کی بہترین گلوکارہ  اور دہائی کی بہترین فنکارہ کا ایوارڈ بھی جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق مریکی گلوگارہ ٹیلر سوئفٹ کا شمار صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بہترین گلوکارہ کے طور پر کیا جاتا ہے، ٹیلر سوئفٹ نے سال کی بہترین پلے بیک سنگر سمیت 6 مختلف ایوارڈز اپنے نام کئے۔

    لاس اینجلس کے مائیکرو سافٹ تھیٹر میں سجنے والی ایوارڈ تقریب میں ٹیلر سوئفٹ چھائی رہیں، اس کیساتھ ان کے مجموعی ایوارڈز کی تعداد 29 ہو گئی، تقریب کے آغاز سے لے کراختتام تک ٹیلر سوئفٹ کے لکھے اور گائے گئے گانے ہی بجتے رہے۔

    مزید پڑھیں : امریکی گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ مائیکل جیکسن کا ریکارڈ توڑنے کے قریب

    جس کے بعد 29 ایوارڈ کے ساتھ ہی ٹیلر سوئفٹ نے مائیکل جیکسن کا سب سے زیادہ ایوارڈز جیتنے کا ریکارڈ توڑ دیا، پاپ میوزک کے بادشاہ آنجہانی مائیکل جیکسن کو 24 ایوارڈز جیتنے کا اعزاز حاصل تھا۔

    خیال رہے چند ماہ قبل مایہ ناز امریکی گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ نے کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد طالبہ کی یونی ورسٹی کی فیس ادا کرکے ساری دنیا کو حیران کردیا تھا اور ٹیلر سوئفٹ کے اس اقدام کو ساری دنیا میں سراہا گیا تھا۔

  • دورۂ پاکستان: کیا ملکہ میسکسیما کو پھول بہت پسند ہیں؟

    دورۂ پاکستان: کیا ملکہ میسکسیما کو پھول بہت پسند ہیں؟

    نیدر لینڈز کی ملکہ ہمارے ملک میں ہیں۔ یہ ان کا پاکستان کا دوسرا دورہ ہے۔ میکسیما اس بار اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ بن کر یہاں آئی ہیں۔ ان کا یہ دورہ عالمی ادارے کے تحت ترقی میں اجتماعی معاونت کے پروگرام کی ایک کڑی ہے۔

    یہ تو وہ باتیں اور معلومات ہیں جو آج سارا دن مختلف ذرایع ابلاغ نے آپ تک پہنچائی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، مگر ہم آپ کو کچھ خاص اور سب سے الگ بتانے جا رہے ہیں۔

    ملکہ اپنے دورۂ پاکستان میں سرکاری اور نجی شعبوں کی متعدد نمایاں شخصیات سے ملاقات کریں گی۔ بتایا گیا ہے کہ ملکہ میکسیما اسٹیٹ بینک کے مائیکرو پیمنٹ گیٹ وے پروگرام کی افتتاحی تقریب کی مہمان بھی ہوں گی۔ یہ پروگرام مجموعی مالی تعاون کے فروغ، چھوٹی ادائیگیوں کی لاگت کم کرنے اور  ڈیجیٹل لین دین میں اضافے کی غرض سے شروع کیا گیا ہے۔

    نیدر لینڈز کی ملکہ تو ابھی تین روز تک ہمارے ہی ملک میں رہیں گی اور خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔ کیوں نہ ہم اُن کے وطن کی سیر کر آئیں!

    نیدر لینڈز جسے اکثریت ہالینڈ بھی کہتی اور لکھتی ہے، یورپ میں واقع ہے۔ یہ خطہ پھولوں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ کئی دہائی پہلے کا یہ سفر نامہ ملکہ کی آمد کے ساتھ ہی گویا پھر تازہ ہو گیاہے۔ یہ سطور ممتاز احمد خاں جیسے خوب صورت لکھاری اور صحافی کے قلم کی نوک سے نکلی ہیں جو آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    ہالینڈ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی جو چیز سب سے زیادہ آپ کو متاثر کرتی ہے وہ ہے اس ملک کی شادابی، پانی کی فراوانی اور غیر معمولی صفائی ستھرائی۔

    سارا ملک ایک باغ معلوم ہوتا ہے۔ چاروں طرف گل و گل زار کا سا سماں ہے۔ شہر اور بن میں کوئی فرق نہیں۔ صفائی، سلیقے اور دل آویزی میں دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو کوشاں ہیں۔

    اس ملک کا کونا کونا دیکھنے کا اتفاق ہوا، لیکن چپّا بھر زمین بھی گندگی سے آلودہ نہ دیکھی۔ یا سبزہ ہے یا پھول پھلواری۔

    صفائی اور پھولوں کے یہ لوگ شیدائی ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جو پھولوں سے خالی ہو۔ مزدوروں کے فلیٹ بھی ہمارے بنگلوں سے بہتر ہیں۔ اہلِ ہالینڈ نے پھولوں سے اپنی شیفتگی کو باقاعدہ صنعت کی شکل دے دی ہے۔ بہار میں چاروں طرف پھولوں سے لدے ہوئے کھیت دکھائی دیتے ہیں جن میں گلِ لالہ کی سیکڑوں نئی اقسام پیدا کی گئی ہیں جو رنگ، رعنائی قد اور عمر میں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ کئی ہزار ٹن پھول یہاں سے غیر ممالک کو بھیجے جاتے ہیں۔