Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    اردو ادب میں میاں‌ بیوی کے تعلق پر مزاح نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اردو ہی نہیں‌ عالمی ادب میں بھی شادی شدہ مردوں کے بارے میں ایسی ہی مزاحیہ تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں‌ جن میں انھیں خاتونِ خانہ کے آگے بے بس اور مجبور بتایا جاتا ہے۔

    یہ پطرس بخاری کی ایک ایسی ہی تحریر ہے جس میں انھوں نے خود کو ایک ایسے خاوند کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنی بیوی کے غصّے اور ناراضی سے ڈرتا ہے اور اس کی ہر بات مانتا ہے۔ وہ خاص طور پر اپنے دوستوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ بیوی کی نظر میں‌ اس کے دوست نکھٹو، احمق اور کام چور ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کا خاوند بھی انہی کی عادات اپنا رہا ہے۔ پطرس کے اس شگفتہ مضمون سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔

    اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہے اور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔

    ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے۔ سردی کا موسم، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پُراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا اور پھر گانے لگے کہ ’’توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔‘‘ اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔

    لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔ تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آرا نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے روشن آرا صرف دو دفعہ میکے گئی ہے، اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔

    کہنے لگی، ’’تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟‘‘

    ’’میں نے کہا، اور کیا؟‘‘ وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کیے۔ یعنی اب بیشک دوست آئیں، بیشک اودھم مچائیں۔ میں بے شک گاؤں، بے شک جب چاہوں اٹھوں۔ بے شک تھیٹر جاؤں۔ میں نے کہا، ’’روشن آرا جلدی کرو۔ نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘

    ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کرا چکا تو کہنے لگی، ’’خط روز لکھتے رہیے۔‘‘

    ’’میں نے کہا، ہر روز اور تم بھی۔‘‘

    ’’کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔

    آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا۔ تہہ کرکے جیب میں ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کر لیا۔ پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں۔ دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔

    کہتے ہیں جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ کے لیے رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان و شوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا۔ آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔

    رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آگیا۔ تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا۔ باہر ہی سے نوکر کو آوازد دی۔
    ’’امجد!‘‘

    ’’حضور!‘‘

    ’’دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔‘‘

    ’’بہت اچھا۔‘‘

    ’’گیارہ بجے سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھے بجے وارد نہ ہو جائے۔‘‘

    ’’بہت اچھا حضور۔‘‘

    ’’اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔‘‘ یہاں سے کلب پہنچے۔ آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سنسان، آدمی کا نام و نشان تک نہیں۔ سب کمرے دیکھ ڈالے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی، تاش کا کمرہ خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کر رہا تھا۔

    اس سے پوچھا، ’’کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟‘‘ کہنے لگا، ’’حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟‘‘ بہت مایوس ہوا۔ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا۔ معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے۔ دفتر پہنچا۔ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ میں نے سب حال بیان کیا۔

    کہنے لگے،’’ تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ شام کا پروگرام کیا ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’تھیٹر۔‘‘

    کہنے لگے، ’’بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو۔ میں ابھی آیا۔‘‘

    باہر کے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی۔ اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پھر سے پڑھنا شروع کر دیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالے اور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔

    آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا، جمائی پہ جمائی۔ جمائی پہ جمائی، حتٰی کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔ اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک گیا۔ پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔ بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا،
    ’’ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا۔ مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کر دیا۔‘‘

    وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے۔ رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے۔ تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ نیند نے بے ہوش کر دیا۔

    صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔

    گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا، ’’حضور حجام آیا ہے۔‘‘
    ہم نے کہا، ’’یہیں بلا لاؤ۔‘‘ یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوا لیں۔ اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کے ليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال آیا۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھر آیا، گھر سُونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔ آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ، ’’میں بہت اداس ہوں۔ تم فوراً آجاؤ!‘‘

    تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ یقین تھا کہ روشن آرا اب جس قدر جلد ہوسکے گا آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔

    دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں۔ اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی۔ سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔

    اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے، قواعد و ضوابط کے مطابق اور متانت و سنجیدگی کے ساتھ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کر دیے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہے پر قہقہے اُڑنے لگے۔

    تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے، کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے لیکن تاش برابر ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوگیا۔ ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جائے وہ چور۔ سب نے کہا ’’واہ وا کیا بات کہی ہے۔‘‘

    ایک بولا، ’’پھر آج جو چور بنا اس کی شامت آجائے گی۔‘‘

    دوسرے نے کہا، ’’اور نہیں تو کیا۔ بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں، سلطنتوں کے۔‘‘

    کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔‘‘ کوئی کہے، ’’ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے۔ کوئی کہے، ’’نہیں حضور! سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔‘‘

    آخر میں بادشاہ سلامت بولے،’’ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اوراس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے اور یہ اسی حالت میں جاکر اندر سے حقے کی چلم بھر کر لائے۔‘‘
    سب نے کہا۔ ’’کیا دماغ پایا ہے حضور نے! کیا سزا تجویز کی ہے! واہ وا‘‘

    ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا، ’’تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔‘‘

    نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی۔ ایک شانِ استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔

    صحن میں پہنچے ہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی۔ منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا۔

    دم خشک ہوگیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا۔ زبان بند ہو گئی۔ سامنے وہ روشن آرا جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ، ’’تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں۔‘‘ اور اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے کمرے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔ روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آرا کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔

    اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے کہ میں بذاتِ خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں میں ہوں۔ مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کر دیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا، سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔

    ’’خط ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’دے جاؤ۔ چلے جاؤ۔‘‘

    ’’ناخن تراش دو۔‘‘

    ’’بھاگ جاؤ۔‘‘

    بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھیے تو سہی!

  • خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    اردو زبان میں رومانوی کہانیاں، تاریخی اور سماجی موضوعات پر ناولوں کے ساتھ جاسوسی ادب خوب لکھا گیا، اور اس میدان میں کئی نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کو تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن سائنس فکشن کا معاملہ کچھ مختلف رہا ہے۔ اگرچہ تقسیمِ ہند سے قبل بھی اردو زبان میں سائنس فکشن لکھا گیا اور مقبول بھی ہوا، لیکن اس میدان میں کم ہی نام سامنے آئے۔ انہی میں ایک خان محبوب طرزی بھی ہیں جن سے اردو ادب اور ناول کے قارئین کی اکثریت واقف نہیں ہے۔

    خان محبوب طرزی کی حیات، ان کے فن اور نگارشات کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لیں‌ کہ وہ تقسیمِ ہند کے بعد چند برس ہی زندہ رہے اور اس وقت تک سائنس فکشن صرف تجسس اور مہم جوئی تک محدود تھا اور سائنسی نظریات یا کسی خاص تھیوری سے متأثر ہو کر بہت کم ناول لکھے گئے، لیکن دنیا بھر میں سائنس فکشن اور بامقصد ادب تخلیق ہو رہا تھا۔ اردو میں بہت بعد میں‌ سائنسی نظریات اور ان کی بنیاد پر ہونے والی ایجادات پر کہانیاں لکھی گئیں۔ کچھ ادیبوں‌ نے اپنے قاری کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر سائنسی مفروضے، چونکا دینے والے آلات یا انوکھی مشینوں کو اپنے ناولوں یا افسانوں میں پیش کیا اور چند ایسے تھے جنھوں نے اپنے تخیل کے سہارے ایسی حیران کن کہانیاں لکھیں جن کا ایک عام آدمی اس زمانے میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

    خان محبوب طرزی کا سنہ پیدائش 1910ء ہے۔ وہ اردو کے ان اوّلین مصنّفین میں سے ہیں جو اپنے سائنس فکشن ناولوں کی بدولت مقبول تھے۔ اس کے علاوہ وہ کئی تاریخی، جاسوسی اور مہم جوئی پر مبنی ناولوں کے بھی خالق تھے۔ محبوب طرزی ہندوستان کے مشہور نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے وابستہ رہے۔

    ان کا تعلق افغانستان کے تاتارزئی قبیلے سے تھا اور اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ طرزی لکھتے تھے۔ ان کے آبا و اجداد بعد میں ہجرت کر کے لکھنؤ چلے گئے تھے اور وہیں محلہ حسین گنج میں خان محبوب طرزی نے آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ویسلی مشن اسکول میں حاصل کی اوراس کے بعد اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں‌ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے جہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ علی گڑھ میں ہی وہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے افسانے اپنے دور کے معروف ادبی پرچوں‌ اور جرائد میں شایع ہونے لگے۔

    خان محبوب طرزی کو ایک بسیار نویس کہا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ بڑے کنبے کی وہ مالی ضرویات بھی تھیں جن کو ایک سربراہ کی حیثیت سے محبوب طرزی کو بہرحال پورا کرنا تھا۔ سو، انھوں نے کئی کہانیاں دوسروں کے نام سے بھی لکھیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ کے لیے قفل سازی کے ایک کارخانے میں سپر وائزر کے طور پر کام کیا۔ فوج میں اسٹور کیپر رہے، فلم سازی اور ہدایت کاری میں بھی خود کو آزمایا۔ کلکتہ کی کار دار کمپنی میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا اور آر پی بھارگو کے ساتھ رقص و موسیقی کا پروگرام’’پرستان‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ کچھ مدت تک لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انھوں نے سائنیٹون فلم کمپنی میں ملازمت کی۔ پھر 1948ء میں خود فلم کمپنی قائم کی مگر کام یابی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ نسیم انہونوی ان کے ایک ایسے شناسا تھے جو سمجھتے ہیں: "طرزی صاحب میرے خیال سے جس کام کے لیے پیدا ہوئے تھے وہ انھیں نہ مل سکا۔ وہ کام تھا فلم کا ڈائریکشن۔ میں نے طرزی صاحب سے بار بار کہا کہ طرزی صاحب ایک بار بال بچّوں کو بھول کر گھر سے راہِ فرار اختیار کیجیے اور بمبئی کی فلم کمپنیوں میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔” طرزی صاحب یہ نہیں‌ کر سکے اور اخراجات کی فکر سے ہلکان ہوتے رہے۔

    خان محبوب طرزی کی علمی اور ادبی دل چسپیوں میں ترجمہ نگاری اور صحافت بھی شامل تھی۔ انھوں نے روزنامہ اودھ، روزنامہ اردو اور بعض دیگر اخبارات میں بھی کام کیا۔ یہاں بھی آسودگی ان کا مقدر نہ بنی۔ اور پھر وہ ناول نگاری میں پوری طرح مشغول ہوگئے۔ امین سلونوی جن سے خان محبوب طرزی کا بہت قریبی تعلق رہا، وہ کہتے ہیں: "وہ کہیں بھی رہے ناول نگار ہی رہے۔

    اگر اسے طرزی صاحب کا امتیازی وصف کہنا غلط نہ ہو تو وہ ایک ساتھ کئی ناول لکھنے والے بسیار نویس تھے۔ مائل ملیح آبادی کے بقول: "وہ بے پناہ لکھنے والے تھے۔ ان کا ہاتھ ٹائپ رائٹر تھا۔ لکھنے لگتے تھے تو لکھے ہوئے کاغذوں کا ڈھیر لگا دیتے۔ سب لوگ باتیں کرتے رہیں لیکن طرزی صاحب وہیں بیٹھے لکھتے رہیں گے اور کاغذ کے بعد کاغذ قلم کے نیچے سے نکلتا رہے گا… انہوں نے گھنٹوں کے حساب سے بھی دو تین سو صفحات کے ناول لکھے ہیں۔ لگ بھگ بارہ سو صفحات کا ناول مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں کسی دوسرے مصنّف کے نام سے لکھ ڈالا۔ پھر اس کے بعد ہی سترہ اٹھارہ سو صفحات کسی اور مصنّف کے نام سے لکھ دیے۔”

    طرزی کی ناول نگاری کے بارے میں سلامت علی مہدی کہتے ہیں: "دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی ناول نگار نہیں ہے جو تاریخی ناول بھی لکھے اور جاسوسی ناول بھی۔ جو دن کے ابتدائی حصے میں کسی سائنسی ناول کا مسودہ لکھے، دن کے آخری حصّہ میں کسی معاشرتی ناول کا حصّہ پورا کرے اور رات کو کسی رومانی ناول میں عورت کے حسن اور اس کے محبت بھرے دل کی کوئی نغمگیں کہانی بیا ن کرے۔”

    بیک وقت تین چار مختلف موضوعات پر کہانیاں بُننا بھی طرزی صاحب ہی کا کمال تھا۔ ہندوستانی ادیب احمد جمال پاشا نے لکھا ہے: ’’بات لکھنے لکھانے پر آئی تو عرض کرنے دیجیے کہ وہ دو تین دن میں چار پانسو صفحات کا ناول لکھ لیتے تھے جب کہ دوسرا محض لکھا ہوا ناول اس مدت میں نقل بھی نہیں کر سکتا۔ لطف یہ ہے کہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں بھی فرق نہ آنے پاتا۔ خود بقول ان کے وہ لکھتے کیا تھے، اپنی تھکن اتارتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات و اسلامی سیاست پر مضامین بھی لکھتے رہتے۔ تقریباً تین سو کتابیں وہ ہیں جو خود ان کے نام سے چھپیں اور کتنے ناول لوگوں نے خرید کر اپنے نام سے چھپوا لیے اور مصنّف کہلائے۔‘‘

    خان محبوب طرزی کے قلم سے سیکڑوں ناول نکلے اور بڑی تعداد میں فروخت بھی ہوئے، لیکن بحیثیت ایک قلم کار وہ آسودگی ان کا مقدر نہیں بن سکی جس کے لیے وہ دن رات لکھنے میں مشغول رہے۔ اس مقبول ناول نگار نے 25 جون 1960ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ان کا ایک ناول "اڑن طشتری” 1952 میں شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے مسلمانوں کی شان دار تاریخ اور اسلاف کے کارناموں کو رجائیت پسندی کے ساتھ پیش کیا۔ اس ناول کا مرکزی خیال یہ تھا کہ نویں صدی عیسوی کے آخر میں اندلسی مسلمانوں کی سائنسی ایجادات سے دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ اور موجودہ دور کے سائنس داں بھی ان ایجادات پر دنگ ہیں۔ ایک اندلسی انجنیئر اڑن طشتری بناتا ہے اور اپنے چالیس ساتھیوں کے ساتھ اس کے ذریعے ایک نئی دنیا میں جا کر آباد ہوجاتا ہے۔ پھر دورِ حاضر کا ایک سائنس داں ٹیلی ویژن کی مدد سے اس سیارہ کا پتہ لگا کر اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر وہاں پہنچتا ہے۔ ان کے اس ناول کے زیادہ تر کردار مسلمان ہی ہیں۔ ان کا یہ ناول ان کے مذہبی تشخص اور اس تفاخر کو اجاگر کرتا ہے جس کا بحیثیت مسلمان وہ شکار رہے کہ دوسرے سیارے پر بھی مسلمان ہی غالب ہیں اور بڑی فصیح و بلیغ عربی بولتے ہیں۔ اس ناول کے اہم کرداروں میں ایک مولوی، مولوی عبدالسلام بھی ہیں جو خلا نوردوں کی راہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں خلائی سفر کے دوران بلکہ دوسرے سیارے پر باجماعت نماز بھی انہی مولوی کی اقتداء میں پڑھی جاتی ہے۔ ناول میں جابجا عربی مارکہ اردو اصطلاحات بھی ہیں جو اکثر مضحکہ خیز اور عام قاری کے لیے ان کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس ناول کی چند کم زوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ اس دور کا ایک دل چسپ ناول تھا، اور مزے کی بات یہ کہ ناول نگار نے خواتین خلا نوردوں کو بھی اس میں پیش کیا ہے مگر روایتی ملبوس اور بناؤ سنگھار میں مصروف دکھا کر خاصی حد تک مضحکہ خیزی پیدا کردی ہے۔

    محبوب خان طرزی سے متعلق اس تحریر میں اب ہم اردو کے ممتاز نقاد، ادیب اور شاعر شمسُ الرحمٰن فاروقی کے مضمون سے چند اقتباسات شامل کررہے ہیں جو ان کے فن اور تخلیقات پر روشنی ڈالتا ہے۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں: "آج کا زمانہ ہوتا تو خان محبوب طرزی پر دو چار رسالوں کے نمبر نکل چکے ہوتے، یا نمبر نہ سہی گوشے ضرورہوتے۔ ایک دو کتابیں بھی ان پر آچکی ہوتیں۔ لیکن وہ زمانہ اور تھا، اردو معاشرے میں تمول کی اتنی فراوانی نہ تھی، اور ہمارے ادیبوں کو بھی اپنی تشہیر سے زیادہ اپنی تحریر کی فکر تھی، کہ اچھے سے اچھا لکھا جائے۔ شہرت تو حاصل ہوتی رہے گی۔

    خان محبوب طرزی ہمارے ان ادیبوں میں تھے جنھوں نے قلیل معاوضے پر اپنی صلاحیتیں قربان کر دیں۔ اردو کا مفلوک الحال ادیب، کا یہ فقرہ ان پر صادق آتا ہے۔ وہ زمانہ بھی ایسا ہی تھا، اردو کو پوچھنے والے کم تھے اور کم ہوتے جارہے تھے۔ ایسے حالات میں اردو فکشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے خان محبوب طرزی کو داد دینی پڑتی ہے۔ اردو میں سائنس فکشن کا انھیں موجد کہا جاسکتا ہے، اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ خان محبوب طرزی جیسا سائنس فکشن اردو میں پھر نہ لکھا گیا۔ اسرار اور مہم جوئی بھی ان کا ایک میدان تھا۔ پھر بچارے کو وہی وہانوی کے نام سے فحش یا نیم فحش افسانے اور مختصر ناول بھی لکھنے پڑے۔ مجھے وہی وہانوی کا کوئی ناول یاد نہیں آتا، لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان ناولوں میں کوئی شاق انگیز بات نہ تھی اور آج کے معیاروں سے انھیں فحش شاید نہ بھی قرار دیا جائے۔

    طرزی صاحب کا پہلا ناول جو مجھے یاد ہے، "برق پاش” تھا۔ اس میں ایک تھوڑے سے جنونی سائنس داں نے لیسر کی طرح کی شعاعوں کو دور سے مار کرنے والے ہتھیار کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ تفصیل ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن لیسر کا اس میں ذکر شاید نہ تھا، ہاں فاصلے سے بجلی کی طرح گرنے اور ہدف کو بے دریغ ہلاک کرنے کا مضمون ضرور تھا۔ اس سائنس داں نے کچھ طریقہ ایسا ایجاد کیا تھا کہ وہ لیسر کی قوت کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں مرتکز کر کے انگلی کے اشارے سے قتل کی واردات انجام دیتا تھا۔ ایک طرح سے اسے انگریزی کے ایک فرضی لیکن مقبول کردار "دیوانہ سائنس داں” کا نقشِ اول کہا جا سکتا ہے۔ پھر میں نے تلاش کر کے، اور کبھی کبھی خود خرید کر کے خان محبوب طرزی کے کئی ناول پڑھے۔ان میں سائنسی ناول "دو دیوانے” مجھے خاص طور پر یاد ہے کیونکہ اس کے مرکزی سائنس داں کردار نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے خلائی جہاز میں ابدُ الآباد کائنات کا چکر لگاتا رہوں گا اور سورج کی شعاعوں سے اپنی غذا حاصل کروں گا۔ اس کا انجام مجھے یاد نہیں، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سورج کی شعاعوں سے غذا حاصل کرنے کا تصور اس زمانے میں بالکل نیا تھا اور سائنس نے شاید اس وقت اتنی ترقی بھی نہ کی تھی کہ ایسا ممکن ہوسکے۔ اس ناول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ خلا کے سفر کے دوران اس سائنس داں کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آواز کبھی مرتی نہیں، مختلف طرح کی اور مختلف زبانوں کی تقریریں اور خطاب کائنات کے مختلف گوشوں میں اب بھی سنے جا سکتے ہیں۔ یہ خیال بھی، جہاں تک میں جانتا ہوں، بالکل نیا تھا۔ ایک اور ناول "سفرِ زہرہ” کا عنوان میرے ذہن میں رہ گیا ہے لیکن اس کے بارے میں اور کچھ مجھے یاد نہیں آتا۔

    "شہزادی شب نور” ناول میں مہم جوئی، اسرار اور جستجو کے کئی عنا صر موجود تھے۔ پورے ناول پر ایک خاموش، پر اسرار فضا چھائی ہوئی محسوس ہوتی تھی جن ناولوں کا میں ذکر رہا ہوں، انھیں میں نے آج سے کوئی ستر بہتر برس پہلے پڑھا تھا۔ ان کا دل کش نقش اب بھی باقی ہے، اگرچہ مطالعے کا ذوق مجھے جلد ہی انگریزی ادب کی طرف لے گیا۔

    میں سمجھتا تھا کہ طرزی صاحب کو آج کوئی نہیں جانتا اور مجھے اس کا رنج بھی تھا کہ اس زمانے میں اردو نے کئی مقبول ناول نگار دنیا کو دیے تھے: رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری، قیسی رامپوری، اے۔ آر۔ خاتون، اور ان سے ذرا پہلے منشی فیاض علی اور ایم۔ اسلم۔ اِن میں کوئی ایسا نہ تھا جو خان محبوب طرزی کی طرح کا ابداع اور تنوع رکھتا ہو۔”

    دوسری طرف طرزی صاحب کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ بسیار نویسی نے ان کے ناولوں کو معیار سے دور کر دیا تھا۔ اس ضمن میں سید احتشام حسین لکھتے ہیں: ’’ یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ بعض مصنفوں کو تاریخ اپنے دامن میں جگہ نہیں دیتی لیکن اس کے پڑھنے والے اس کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ادبی تنقید کا یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے اور ادیب کی وقتی مقبولیت اس کی کام یابی ہے یا تھوڑے سے ایسے لوگوں کا متاثر ہونا جو ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ محبوب طرزی اعلیٰ ادبیات سے دل چسپی لینے والوں میں مقبول نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں چھپتی اور بکتی تھیں اور بعض کتابیں اتنی مقبول تھیں کہ ان کے کئی کئی اڈیشن شائع ہوئے۔

  • بنیے کا ادھار

    بنیے کا ادھار

    ‘میرا ہندوستان‘ جم کاربٹ کی تصنیف ہے جو ایک شکاری تھے اور برطانوی راج میں‌ متعدد آدم خور شیروں اور تیندوؤں کو ہلاک کرکے شہرت پائی۔ جم کوربٹ نے اس زمانے کے حالات و واقعات اور اپنی مہمّات پر کتب بھی یادگار چھوڑی ہیں۔

    یہاں‌ ہم جم کاربٹ کی مذکورہ کتاب کا انتساب نقل کرتے ہوئے، اس کے ساتھ بدھو کے عنوان سے وہ قصّہ بھی نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ساہو کاروں کی سفاکی اور غریب و مجبور انسانوں کی درد ناک زندگی ہمارے سامنے آتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘میرا ہندوستان‘ میں، مَیں نے اس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوّے فیصد انتہائی سادہ، ایمان دار، بہادر، وفادار اور جفاکش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں اور انہیں اور ان کی ملکیت کا تحفظ حکومتِ وقت کا کام ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی محنت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ‘ہندوستان کے بھوکے عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے اور یہ کتاب میں ان لوگوں سے منسوب کرتا ہوں جو ہندوستان کے غریب ہیں۔

    ………..
    بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔ اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچّے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔

    چوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا دیا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔ یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچّوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نوارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمّت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

    بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔

    ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلّے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

    ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

    ‘میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادا کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس اسٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔‘

    بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آبا و اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

    بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔ بنیا نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیا سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیا نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

    جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

    جتنی دیر ہماری خط کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

    اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

    تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

  • "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام پر جو دو وقت کٹھن گزرتے ہیں ان کی صحیح عکاسی کرنے کے لئے مضطر خیرآبادی کے مصرع کی ترتیب میں ذرا سی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

    مصرع اس طرح لکھا جانا چاہیے۔

    اِک ترے جانے سے پہلے

    اِک ترے آنے کے بعد

    اگر آپ مصرع کی الٹی ترتیب کو بغور پڑھیں تو عوام اور عاشق کے کٹھن وقت کے کرب کی مدد سے حکومتوں اور معشوق کی آمدورفت کے صحیح پس منظر سے کماحقہ لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست تھے۔ بے حد جذباتی مگر رکھ رکھاؤ والے۔ اس ملک کے تیسرے عام انتخابات میں پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے جب وہ اپنے گھر سے چلے تو کچھ اس شان سے کہ نئی شیروانی اور نئے جوتے پہن رکھے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ زیر جامہ اور رومال بھی نیا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ اور کان میں عطر کا پھاہا بھی رکھ چھوڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے ہوں۔ یا سہرے کے بغیر خود اپنے ’عقد ثانی‘ میں شرکت کی غرض سے جا رہے ہوں۔ جمہوریت کا نیا نیا تجربہ تھا۔ اور ان دنوں عوام میں جوش و خروش بھی بہت پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض جوشیلے رائے دہندے ایک ہی پولنگ بوتھ پر دس دس بوگس ووٹ ڈال کر آتے تھے۔ آج جب ہم جمہوریت سے اپنے پچاس سالہ شخصی تعلق پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے حقیر اور ادنیٰ سے ووٹ نے جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے علاوہ وی پی سنگھ اور من موہن سنگھ جیسی ہستیوں کو اس ملک کی وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچانے میں مدد کی۔ ان پچاس برسوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ لیکن بعد میں سیاست دانوں کا سماجی اخلاقی اور علمی معیار رفتہ رفتہ گرتا چلا گیا۔

    ہمارے ایک دوست پارلیمنٹ کے رکن ہیں، دہلی میں رہتے ہیں اور انہوں نے ہم پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ ہم کسی محفل میں ان کا تعارف رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے نہ کرائیں۔ کہتے ہیں لاج سی آتی ہے اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے ارکان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ غیر سماجی عناصر اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک اس ملک کی سیاست میں ہماری دل چسپی برقرار رہی۔ لیکن جب پہلی مرتبہ مسز اندرا گاندھی انتخابات میں ہار گئیں تو ہم نے اس بات کا اتنا گہرا اثر قبول کیا کہ دو دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔ بلکہ پریس کلب تک نہیں گئے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنا ووٹ، ووٹ بینک میں رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا ووٹ، ووٹ بینک سے نکالا اور اب اسے حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ یوں بھی بینکنگ سے ہمارا کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ لوگوں نے ہمیں بہت کم کسی بینک میں دیکھا ہو گا۔ جب ہم بینکوں میں اپنا پیسہ تک رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے اکلوتے ووٹ کو کسی ووٹ بینک میں کیوں رکھیں۔

    ہمارے ایک اور دوست ہیں جو مسز اندرا گاندھی کی ہار سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ جمہوریت سے ہی دست بردار ہو گئے۔ اب نہ تو وہ ووٹ دینے جاتے ہیں نہ کسی انتخابی جلسے کو سنتے ہیں۔ ہم شخصی طور پر جمہوری عمل سے اس قدر بد دل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ صبح کبھی نہ کبھی تو آئے گی ہی جب ہمارے ووٹ کی حکمرانی پھر سے قائم ہو جائے گی۔ پچھلی دو دہائیوں کا ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکمرانی قائم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لہذا اب ’مخلوط حکومتوں‘ کا بول بالا ہے۔ مخلوط حکومت بے پیندے کے لوٹوں یا تھالی کی بینگنوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ مخلوط حکومت سرکار چلانے کے کرتب تو دکھا سکتی ہے لیکن کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ پہلے سیاست دان اس ملک کو اور ملک کے شہریوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کرتے تھے۔ مگر اب جوڑ توڑ ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کا چلن عام ہو گیا ہے۔ پہلے کوئی ایک سیاسی پارٹی شہریوں کو لوٹتی تھی مگر اب کئی لٹیرے مل کر پہلے عوام کے ووٹوں کو اور بعد میں ان کے نوٹوں کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس افراتفری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہر کس و نا کس اپنے آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل سمجھنے لگا ہے۔ جس لیڈر کو اس کی تعلیمی لیاقت کی بنیاد پر ایل ڈی سی کو نوکری نہیں مل سکتی اب وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔

    جمہوریت کا یہی تو فائدہ ہے۔ تاہم ہم اپنے طور پر بہ رضا و رغبت یہ اعلان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ اگر کوئی صاحب یا پارٹی ہمیں وزیر اعظم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ ہمارے بھروسے بالکل نہ رہیں۔

    (مجتبیٰ‌ حسین ہندوستان کے ممتاز مزاح نگار، انشا پرداز، خاکہ نویس اور کالم نگار تھے جن کی یہ مزاحیہ تحریر بھارت میں سیاست اور انتخابات سے متعلق ہے)

  • ریشمی ڈوری والی ‘گوہ’!

    ریشمی ڈوری والی ‘گوہ’!

    متحدہ ہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دینے والے جارج ایڈورڈ کیمبیل متعدد کتب کے مصنّف بھی تھے۔ یہ کتب اُن کی یادداشتوں پر مبنی ہیں‌ جن میں اہمیت کے حامل مختلف واقعات، کئی خاص و عام شخصیات سے متعلق دل چسپ قصّے بھی ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    وہ ہندوستان میں مسٹر ویکفیلڈ کے نام سے مشہور تھے۔ انھوں نے اپنی ایک کتاب بعنوان ”پچاس برس کی یادداشتیں“ میں بتایا ہے کہ کس طرح چور اور نقب زن چھتوں پر چڑھ کر گھروں میں داخل ہونے کے لیے گوہ جیسے جانور کو استعمال کرتے تھے۔ چوری کی نیت سے دیوار یا مکان وغیرہ کی چھت میں شگاف کرنے والا یہ طریقۂ واردات انھوں نے بچشمِ خود ملاحظہ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

    ”ایک مرتبہ نقب زنوں کا ایک مشہور گروہ گرفتار ہوا، جنہوں نے پولیس کی نگرانی میں ہمارے سامنے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ گروہ میں ایک کم عمر لڑکا بھی شامل تھا جو کچے مکان کی دیوار کے ساتھ رینگ کر کچھ اوپر چڑھا اور پھر اس نے اپنے کپڑوں میں سے ایک گوہ نکالی جو ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی ہے اور پنجاب کے دیہات میں عام ملتی ہے۔

    گوہ کی کمر کے ساتھ ایک ریشمی ڈوری بندھی تھی۔ لڑکے نے اُسے چھت کی طرف اُچھالا اور جب وہ منڈیر پر پہنچ گئی تو اس نے ڈوری اپنے ساتھیوں کو تھما دی۔ اس دوران گوہ نے اپنے پنجے چھت پر مضبوطی سے گاڑ لیے تھے۔ لڑکا ریشمی ڈوری کے سہارے چھت پر چڑھا اور پھر اس نے ایک مضبوط رسہ اوپر باندھ کر نیچے لٹکا دیا۔ پھر ایک اور آدمی اوپر پہنچا۔ ان دونوں نے مل کر چھت میں شگاف کیا۔ لڑکا اس شگاف سے کمرے کے اندر اُتر گیا اور پھر اس نے دروازے کھول دیے تاکہ دوسرے ساتھی اندر داخل ہو سکیں۔“

  • ‘ڈاک’

    ‘ڈاک’

    تعجب ہوگا کہ اس ڈاک کا ہمارے لغت میں پتہ نہیں۔ عربی میں ڈاک کے لئے برید کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں حضرت امیر معاویہ نے سب سے پہلے اس نظام کو قائم کیا اور برید اس کا نام پڑا۔

    ہمارے عجمی اہلِ لغت نے اس کو فارسی بریدن سے لیا اور بتایا کہ چونکہ ڈاک کے لئے دُم بریدہ یعنی دُم کٹے گھوڑے کام میں لائے جاتے تھے اس لئے ڈاک کو برید کہنے لگے۔ حالانکہ اگر یہ اشتقاق درست بھی ہوتا تو زیر کے بجائے ب کو پیش ہونا چاہیے تھا۔ اب نئی تحقیق یہ ہے کہ یہ یونانی اور لاطینی سے عربی میں آیا ہے اور وریڈاس کی اصل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ پہلے یہی لفظ آیا پھر ترکی لفظ اولاغ چلا۔ (برنی ص 447 کلکتہ) مگر فوراً ہی اس کی جگہ ایک ہندوستانی لفظ نے رواج پایا اور وہ لفظ دھاوا ہے۔ چنانچہ تغلقوں کی تاریخ میں یہ لفظ بولا گیا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے سفرنامہ میں بعینہ یہی لفظ لکھا ہے برنی نے فیروز شاہی میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔ (ص 447 کلکتہ) مگراس کو دھاوا کیوں کہتے تھے، اس کا پتہ اپنوں سے نہیں بلکہ ابنِ بطوطہ جیسے بیگانے سے چلتا ہے۔

    وہ کہتا ہے کہ دھاوا کے معنی اہلِ ہند میں تہائی میل کے ہیں۔ چونکہ یہ ہرکارے ہر تہائی میل پر مقرر ہوتے تھے اس لئے اس کو دھاوا کہتے تھے اور استعمال سے راستے کے بجائے خود راستے والے پیادے کو دھاوا کہنے لگے۔ لیکن غریب نا آشنائے زبان کو اس میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھاوا کے معنی سنسکرت میں دوڑنے کے ہیں، چونکہ یہ دوڑ کر چلتے تھے اس لئے ان کی چال کو دھاوا کہنے لگے۔ پھر خود دھاوا ہوگئے اور ہر تہائی میل پر جہاں ٹھہرتے تھے، وہ دھاوا، ہو گیا۔ دھاوے کے ان پیادوں کی چوکیاں ہر تہائی میل پر دلّی سے لے کر دولت آباد تک بنی ہوئی تھیں۔ پیادہ گھنگھرو دار لاٹھی کو کندھے پر رکھ کر تیزی سے دوڑتا ہوا اگلے دھاوے تک پہنچتا تھا وہاں دوسرا پیادہ گھنگھرو کی آواز سن کر تیار رہتا تھا۔ وہ فوراً اس سے ڈاک لے کر آگے کے دھاوے کو دوڑتا تھا۔ اس طرح سندھ سے دلّی 5 دن میں ڈاک پہنچتی تھی۔

    اس دھاوے کی یادگار ہماری زبان میں دھاوا کرنا، دھاوے پر چڑھنا، دھاوا بول دینا آج بھی موجود ہے اور دھاوے کے پیادے کو پایک کہتے تھے جو پیک کی صورت میں محرم کی تقریب میں امام کے نقلی قاصدوں کا ہم نے نام رکھا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آل تیمور نے جب ہندوستان پر دھاوا کیا تو یہ لفظ یہاں سے مٹ چکا تھا۔ چنانچہ اکبر کے زمانہ میں جب بدایونی نے اس لفظ کو استعمال کیا تواس کو ترجمہ کی ضرورت ہوئی۔

    فرشتہ نے جہانگیر کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی تو دھاوا کا لفظ مٹ کر ڈاک چوکی کا لفظ پیدا ہوچکا تھا۔ مگر کہتا ہے کہ اس کو پہلے یام (ی ا م) کہتے تھے۔ سلطان علاؤ الدین کے حال میں لکھتا ہے، ’’از دہلی تا آنجا ڈاک چوکی کہ بزبان سلف یام می گفتند می نشاندہ۔‘‘ یہ یام فارسی استعمال میں ہے، دکن میں مدراس سے لے کر پونا تک اس کے لئے ٹپ ٹپال اور ٹپہ خانہ بولا جاتا ہے۔ ریاست حیدرآباد کا سرکاری لفظ یہی ہے۔

    بہرحال ڈاک کا لفظ جہانگیر کے زمانہ میں یا اس سے پہلے سے بولا جانے لگا۔ اس کی اصلیت پر میں غور کرتا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس کے معنی منزل کے ہوں گے چونکہ یہ منزل بہ منزل جاتے تھے اس لئے اس کو ڈاک کہنے لگے اوراس کے ہر پڑاؤ کو ڈاک چوکی بمعنی پہرہ جس کی ایک یادگار چوکیدار ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی لئے انگریزوں نے اسی اصول سے بنگال سے الہ آباد تک اپنے منزل بہ منزل سفروں کے لئے جو مختصر قیام گاہیں بنائیں ان کو ڈاک بنگلہ کہا اور اب بھی وہ یہی کہے جاتے ہیں اور اگر لغت گڑھنے کا الزام نہ قائم کیا جائے تو جی چاہتا ہے کہ یہ کہوں کہ ہندوستان اور افغانستان کی سرحد پر ڈکہ اور بنگال کی حد پر ڈھاکہ اور دوسری طرف موتی ہاری سے نیپال کے پاس دوسرا ڈھاکہ اسی منزل گاہ کے باقی نشان ہیں۔ بہرحال منزل نے راستے کی اور راستے نے خط و لفافہ اور اشیائے ڈاک کی صورت اختیار کی اور اب وہ ڈاک کے پچھلے معنی کی صورت ڈاک بٹھانا، ڈاک لگانا، یعنی جلدی جلدی منزل بمنزل یا ہاتھوں ہاتھ چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا رہ گیا ہے۔

    فیضِ ساقی نے مرے ڈاک لگا رکھی ہے
    (راسخؔ)

    روح ہے ہرجسم میں مشتاقِ اخبارِ اجل
    اس لئے یہ آمد و رفتِ نفس کی ڈاک ہے
    (ناسخؔ)

    اسی سے ڈاک بولنا بھی ایک محاورہ ہے یعنی نیلام میں منزل بمنزل کسی چیز کی قیمت بڑھانا۔

    کچھ دن ہوئے ایک قلمی ہندوستانی فارسی لغت برادرم پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی (اسماعیل کالج بمبئی) کے پاس نظر سے گزرا۔ یہ لغت کسی ایرانی یا پارسی نے لکھا ہے۔ تالیف کا سنہ نہیں معلوم۔ اس میں ایک لفظ ڈانکیہ دیکھا جس کے معنی نقیب کے لکھے ہیں۔ نقیب شاہی درباروں میں درباریوں کو با ادب رہنے کے لئے زور سے آواز لگایا کرتے تھے۔ ڈانکنا کے معنی زور سے آواز لگانے کے ہیں۔ اس سے دوسرا خیال یہ ہوتا ہے کہ ڈاک کی اصل ڈانک اور ڈاکیہ کی ڈانکیہ ہے، چونکہ ڈاک کا چوب دار آواز دیتا ہوا چلتا تھا، اس لئے اس کو ڈانکیہ اور اس کے کام کو ڈانک کہا گیا اور ڈانک نے ڈاک کی صورت بدل کر منزل بمنزل رفتار کے معنی اختیار کر لیے۔

    (ہندوستان کے نام وَر سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور کئی کتابوں کے مصنّف سید سلیمان ندوی کے الفاظ اور ان کے معنی سے متعلق مضمون سے اقتباس)

  • حال فردوسی کا!

    حال فردوسی کا!

    ہماری رائے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس قدر شاعر گذرے ہوں گے جس قدر کہ فارس میں پائے گئے ہیں۔ بہت سی کتابیں فارسی نظم میں ایسی ہیں کہ پڑھنے کے لئے زندگی انسان کی کافی نہیں ہے۔ لیکن سب شاعر ایسے نہیں ہیں کہ ان کی تصنیفات لائق پڑھنے کے ہیں لیکن چند ایسے ہیں جو لاثانی ہیں اور جن کی تصنیفات لائق پڑھنے کے ہیں۔ مثلاً حافظ، فردوسی اور سعدی وغیرہ۔

    واضح ہو کہ پہلے لوگ ایران کے دین محمدی نہیں رکھتے تھے۔ وہ آتش پرست تھے اور اس وقت میں بہت سی کتابیں تاریخ وغیرہ کی نظم میں بیچ زبان فارسی کے تھیں اور ان نظم کی کتابوں میں بہت خوبی اور فصاحت سے حال دلیروں اور بادشاہوں سلف کا لکھا ہوا تھا اور از بسکہ بعض آدمی بڑے شجاع اور زوردار زمانۂ سلف میں ملک ایران میں گذرے تھے تو شاعروں نے ان کو دیو ٹھہرا دیا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا۔ اس وقت بہ سبب لحاظِ دین کے خلیفہ اور حکام اہلِ اسلام نے اکثر پرانی کتابوں ایرانی کو غارت کیا اور اس ترکیب سے قدیم اشعار اور نظم کی کتابیں ملک فارس میں کا نام و نشان نہیں رہا۔

    ایسے برے حال میں نویں صدی عیسوی تک فارس رہا اور اس وقت خاندان عباسی کو تنزل ہوا اور کئی صوبہ دار اہل اسلام میں سے خاندان شاہی سے آزاد ہوگئے اور علیحدہ علیحدہ بادشاہ بن بیٹھے اور ان بادشاہوں نے قدر دانی علوم وفنون کی بخوبی کی لیکن اس وقت تک کوئی بڑا شاعر فاضل نہ نمودار ہوا تھا لیکن جب آخر کو دسویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے شرقی اضلاع ایران کے فتح کئے تو اس عہد میں ہم فردوسی کا نام سنتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑا شاعر تھا اور ایران کے فنِ شاعری کا رونق دینے والا۔

    یہ شخص سنہ 940 عیسوی میں بیچ گاؤں شاداب کے کہ ضلع طوس میں جو ملک خراسان میں واقع ہے، پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ بطور باغبان کے حاکم طوس کا نوکر تھا اور فردوسی کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی محنت مزدوری کرتا جاتا اور دل میں مختلف مضامین سوچا کرتا اور تحصیل علوم میں بھی مشغول رہتا اور اس طرح سے بہت سے سال گزر گئے۔ اخیر کو ایک شخص ان کے ہمسایوں میں سے فردوسی اور اس کے برادران سے عداوت رکھنے لگا تھا اور ان سے اکثر تنازع رکھتا تھا اور اس باعث سے فردوسی بہت پریشان خاطر ہوا اور اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں چل بسو۔ لیکن یہ بات اس کے بھائی نے قبول نہ کی اور فردوسی اکیلا وطن چھوڑ کر طرف غزنی کے راہی ہوا، اور وہاں ان دنوں سلطان محمود سلطنت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ قدر دان علم کا تھا اور اہلِ علم اور ہنر کی بہت خاطر کرتا۔ چنانچہ اس کے دربار میں بہت سے شاعر اور فاضل موجود رہتے تھے۔

    اس اوقات میں ایک پرانی تاریخ جس میں حال بادشاہوں ایران کا جو قبل از پیدائش حضرت پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گزرے تھے مندرج تھا، ظاہر ہوئی تھی اور سلطان محمود نے یہ چاہا تھا کہ کوئی شاعر سب حال اس پرانی تاریخِ ایرانِ مذکور کو شاعری میں اچھی طرح سے بیان کرے اور اس کتاب کے ذریعے سے اس کی نیک نامی ہمیشہ رہے۔ اکثر شاعروں نے کچھ کچھ نمونہ اپنی اپنی لیاقتوں کا سلطانِ مذکور کی خدمت میں پیش کیا اور فردوسی بیان کرتا ہے کہ جب میں شہر غزنی میں وارد ہوا تو میں نہایت حیران ہوا کہ میں کس طور سے رسائی سلطان تک حاصل کروں اور اپنی لیاقت اس کے روبرو ظاہر کروں لیکن اخیر کو ایک کتاب مسمی ’’ماسہ نامہ‘‘ کہ جس کے نام کی ہم کو صحّت نہیں ہے، ایک نسخہ اس کے ہاتھ آیا، اس میں سے اس نے چند مقاموں کو نظم میں لکھ کر ایک اپنے دوست کی معرفت سلطان محمود کی خدمت میں بھیجا اور محمود نے ان اشعار کو ملاحظہ کرکے انھیں نہایت پسند کیا اور فرمایا کہ تاریخِ مذکور زمانہ سلف ایران کے فردوسی تیار کرے اور سلطان نے قرار کیا کہ فی شعر ایک اشرفی دوں گا اور فردوسی نے یہ معلوم کر کے خوشی خوشی اس کارِ عظیم کو اس امید سے کہ بذریعہ اس ترکیب کے ایک تو ہمیشہ کو نیک نامی اور دوم دولت حاصل ہوگی، اختیار کیا۔

    فردوسی ہمہ تن اس کتاب کے تیار کرنے میں مصروف ہو گیا اور تیس برس تک محنت کرتا رہا اور آخر کو وہ کتاب مذکورہ تاریخ کی کہ جس کا نام ’’شاہنامہ‘‘ رکھا گیا، تیار ہوئی لیکن اس عرصہ میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔ جو پرانے دوست فردوسی کے تھے وہ یا تو راہی ملک عدم کے ہوگئے تھے یا ان میں سے جوش و خروش دوستی کا جاتا رہا تھا اور بعض موقوف ہو گئے تھے اور دربارِ سلطان میں نئی نئی صورتیں نظر آتی تھیں اور یہ نئے اشخاص بڈھے فردوسی کو دیکھ کر اس کی حقارت کرتے تھے جو بہ سبب تیزیٔ فکروں اور کمال محنت کے بہت کم زور اور ناتواں ہو گیا تھا اور علاوہ از ایں بد نصیبی فردوسی کا سبب یہ بھی ہوا کہ ایک شخص ایاز تھا، اسے بادشاہ بہت چاہتا تھا۔ اس شخص اور فردوسی میں دشمنی ہوگئی اور اس واسطے اس نے سلطان کے کان میں بڑی بڑی باتیں نسبت فردوسی کے پھونکیں اور یہ بیان کیا کہ فردوسی بادشاہ کے خلاف ہے اور دینِ محمدی سے پھرا ہوا ہے اور واسطے مضبوطی اس کلام کے اس نے یہ کہا کہ فردوسی نے اپنی کتاب شاہنامہ میں طریقہ زر دشت کی تعریف لکھی ہے۔

    اگرچہ اور امور میں محمود بڑا عاقل تھا لیکن اس نے غیب فردوسی کو مان لیا اور جب اس شاعر بزرگ نے شاہنامہ کو تمام کرکے سلطان کی نذر کیا تو اس نے کچھ تعریف یا آفرین اس کی محنت پر نہ کی اور انعام مقرری کا تو کچھ ذکر بھی نہ کیا۔ فردوسی نے بہت مدت تک انتظار کیا کہ بادشاہ اسے اقرار کیا ہوا انعام بخشے تاکہ وہ اپنے وطن طوس جاکر اپنی باقی زندگی کو آرام سے بسر کرے لیکن سلطان نے اسے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ آخرکار فردوسی نے چند اشعار کہے کہ مضمون ان کا یہ تھا کہ سلطان جو کہ مثال ایک بحر کے ہے اور گو میں نے اس میں غوطہ مارا لیکن موتی میرے ہاتھ نہ لگا تو وہ میری قسمت کی خطا ہے اور نہ سلطان کی فیاض کے بحر کی۔

    لیکن چند عاقل آدمیوں نے سچ کہا ہے کہ جب کہ محمود ’’شاہنامہ‘‘ کے ملاحظہ سے نہ نرم ہوا تو چند اشعار کا تو اسے کیا خیال ہو، تو محمود نے بجائے اپنے اقرار پورا کرنے کے فردوسی کو ایک رنج دیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سلطان نے جو یہ فردوسی سے اقرار کیا تھا کہ میں فی شعر ایک اشرفی دوں گا تو شاہنامہ کے ساٹھ ہزار اشعار ہیں تو بموجب اقرار کے اسے ساٹھ ہزار اشرفی فردوسی کو دینی لازم تھیں لیکن برعکس اس کے سلطان محمود نے بجائے ساٹھ ہزار اشرفی ساٹھ ہزار درہم فردوسی کے پاس بھیجے اور یہ کہا کہ یہ انعام تیاریٔ شاہنامے کا ہے۔ جس وقت یہ روپیہ پہنچا اس وقت فردوسی حمام میں غسل کر رہا تھا اور یہ خبر سن کر نہایت رنجیدہ اور غضب ناک ہوا اور سلطان کو بہت سی گالیاں سنائیں اور اس سب روپے کو اپنے نوکروں میں جو اس وقت موجود تھے تقسیم کر دیا۔

    یہ دیکھ کر جو افسر یہ درہم لے کرآئے تھے واپس بادشاہ کے پاس گئے اور سب ماجرا بیان کیا۔ یہ سن کر محمود نہایت برہم ہوا اور حکم دیا کہ اس وقت فردوسی کو ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کچلوا کر مروا ڈالو لیکن فردوسی نے بہت ہی عاجزی کی اور اپنی زندگی سلطان سے بخشوائی لیکن محنت بیس برس کی برباد گئی اور تمام اس کی امیدیں جاتی رہیں اور وہ دربار سے گھر کو چلا آیا اور از بسکہ اس کے دل میں نہایت رنج تھا تو اس نے ایک ہجو سلطان کی لکھ کر اور اس پر اپنی مہر کر کے ایک کو حاضرینِ دربار کے پاس بھیج دی اور یہ کہا کہ جب سلطان امورِ ریاست کے باعث بہت دق ہو، اس وقت یہ کاغذ اس کے ہاتھ میں دے دینا۔ اس ہجو میں سلطان کی نہایت برائی لکھی ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ محمود بیٹا ایک غلام کا ہے۔

    جب سلطان محمود نے یہ ہجو ملاحظہ کی تو وہ نہایت غضب میں آیا اور اس نے فردوسی کی تلاش میں اپنے آدمیوں کو ہر سمت میں بھیجا۔ اس وقت میں فردوسی نے شہر بغداد میں پناہ لی تھی اور جو وہاں خلیفہ تھے انہوں نے اس شاعر کی بڑی خاطر کی اور فردوسی نے ان کی تعریف میں ایک ہزار شعر اپنی کتاب شاہنامے میں زیادہ کر دیے۔ ان دنوں میں قادر باللہ خلیفہ بغداد میں تھے اور ان کے پاس محمود غزنوی نےایک سخت پیغام واسطے حوالہ کر دینے فردوسی کے بھیجا اور چونکہ خلیفہ مذکور اس قدر طاقت نہ رکھتا تھا کہ سلطان غزنوی کا مقابلہ کرسکے تو اس باعث سے فردوسی یہاں سے بھی بھاگا اور منزلیں طے کرتا ہوا مدت تک آوارہ پھرا کیا اور یہ خوف اس پر ہر وقت طاری رہا کہ کوئی ملازم محمود کا اسے گرفتار نہ کرے۔

    اخیر کو جب وہ بہت مفلس اور بیمار ہو گیا تب اس نے طرف اپنے وطن طوس کے کوچ کیا اس ارادے سے کہ قبل از مرنے کے ایک دفعہ اپنے وطن کو اور دیکھ لوں۔ اس وقت میں فردوسی کی ایک بیٹی تھی اور یہ اس کے ساتھ تھی اور اسی کے باعث اس ایّامِ پیری میں ذرا تشفی تھی۔ پس وہ اپنے وطن طوس میں پہنچ گیا۔ یہاں وہ اپنی اوائل عمر میں بطور باغباں کے نوکر تھا۔ اس نے یہیں وفات پائی اور اسی مقام میں دفن ہوا۔

    جب سلطان غزنوی نے حالِ وفات فردوسی کا سنا، اس نے بہت افسوس کیا۔ اب اس نے ساٹھ ہزار اشرفیاں اس کی بیٹی مذکور کے پاس بھیج دیں لیکن اس شاعر کی بیٹی بھی اسی قدر عالی مزاج جس قدر کہ اس کا باپ رکھتا تھا، رکھتی تھی اور اس عورت نے یہ اشرفیاں قبول نہ کیں اور کہا کہ ہمیں بادشاہوں کی دولت سے کیا غرض ہے۔

    (متحدہ ہندوستان کے نام وَر ریاضی داں، اور تحقیقی مضمون نگار ماسٹر رام چندر کی تحریر)

  • ایک چینی کسان کی کہانی جو پرل بَک کی وجہِ شہرت بنی

    ایک چینی کسان کی کہانی جو پرل بَک کی وجہِ شہرت بنی

    پرل ایس بَک (Pearl Sydenstricker Buck) پہلی امریکی خاتون ہیں جنھیں 1938 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ یہ انعام اُن کے ناول ‘گڈ ارتھ’ پر دیا گیا تھا۔

    پرل بک امریکی تھیں‌، لیکن چینیوں سے ان کا ذہنی اور قلبی تعلق نہایت گہرا تھا۔ وہ چار ماہ کی تھیں جب والدین کے ساتھ چین چلی گئی تھیں اور پھر وہاں پرل بَک نے دو دہائیاں گزاریں۔ بچپن اور نوعمری کے ساتھ اپنے عنفوانِ شباب میں وہ عام چینی باشندوں سے میل جول کے ساتھ اُس سماج میں گھل مل گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرل بَک نے جب قلم تھاما تو چین کے ہر طبقاتِ عوام اور ان کی معاشرت کو اپنی تحریروں میں شامل کرتی چلی گئیں۔ اسی لیے وہ اپنی وفات تک امریکہ میں چینی تہذیب و ثقافت کی ایک ماہر کے طور پر بھی مشہور رہیں۔ ایک موقع پر پرل بَک نے کہا تھا “میں پیدائشی طور پر امریکی ہوں، لیکن کہانی کا میرا ابتدائی علم، کہانیاں سنانے اور لکھنے کا طریقہ بھی میں‌ نے چین میں رہ کر سیکھا۔”

    پرل بَک (Pearl Sydenstricker Buck) والد کے غصّے کے باوجود بچّوں کا ادب پڑھنے لگی تھیں، ناول اور کہانیوں میں‌ ان کی دل چسپی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی اور بعد میں‌ چین ہی میں‌ رہتے ہوئے انھوں‌ نے فکشن رائٹر کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا، پرل بَک نے اپنے مشاہدات اور تجربات کو اپنی تحریروں کا حصّہ بنایا۔ ناول نگار پرل بَک 1892ء میں امریکا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد عیسائیت کے پرچارک تھے اور اپنی شریکِ حیات کے ساتھ تبلیغی مشن پر چین میں‌ مقیم تھے اور ولادت کا وقت قریب آیا تو یہ جوڑا امریکہ لوٹ آیا جہاں پرل بَک نے جنم لیا۔ والدین ننھّی پرل بَک کو لے کر دوبارہ چین چلے گئے۔

    اردو زبان میں‌ ناول دا گڈ ارتھ کا ترجمہ پیاری زمین کے نام سے ممتاز ادیب اور مترجم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا تھا۔ یہ وہ ناول تھا جس پر نوبیل انعام حاصل کرنے سے چھے سال پہلے یعنی 1932ء پرل بَک کو پلٹزر پرائز دیا جا چکا تھا۔ 1937ء میں ان کے اس ناول پر فلم بھی بنائی گئی تھی جو آسکر کے لیے نام زد ہوئی اور اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ناول کو اُس کی اشاعت کے اوّلین برسوں ہی میں کس قدر توجہ اور پذیرائی ملی تھی۔ امریکہ میں دا گڈ ارتھ بیسٹ سیلر ناول بھی رہا۔ اس ناول کو نوبیل انعام دینے کی وجہ یہ تھی کہ مصنّفہ نے چین کی دیہاتی زندگی کی سچّی اور دل چسپ تصویر کشی کی اور یہ سوانحی شاہ کاروں پر مشتمل تھا۔

    پرل بَک نے اپنے ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو دکھایا ہے جس نے انتہائی غربت جھیلی اور اسی دوران ہمّت کرکے اپنا کام شروع کیا۔ ایک باندی سے شادی کے بعد اس کی مستقل مزاجی اور محنت نے اس کی زمینوں کو وسعت دی۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمین دار بنتا گیا۔ ناول میں مصنفہ نے یہ بتایا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے، وہ اسے کبھی ختم نہیں‌ کر پاتا۔

    اس ناول میں ایک تاریخی قحط کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کے بعد کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوتا ہے۔ وہ بھیک مانگ کر بھی گزارہ کرتے ہیں۔ پرل بَک نے نہایت خوب صورتی سے ناول کے مرکزی کردار کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو واضح کیا ہے۔ مصنّفہ نے انسانی فطرت، غربت اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے مسائل، مال و دولت کی فراوانی کے نتیجے میں جنم لینے والی خرابیوں کے علاوہ سماجی نفسیات کے کئی پہلوؤں کو بھی بیان کیا ہے جو اس ناول کو اہم بناتا ہے۔

    پرل ایس بَک کا پورا نام پرل سیڈنسٹریکر تھا، جن کی شادی 1917ء میں جان لوسنگ بَک نامی شخص سے ہوئی اور اسی نسبت سے وہ پرل سیڈنسٹریکر بَک ہو گئیں‌۔ انھیں‌ پرل بَک کے نام سے پکارا گیا۔

    پرل بَک نے چارلس ڈکنز کو شوق سے پڑھا۔ اور ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی آگے رہیں۔ وہ 1911ء میں گریجویشن کرنے کے لیے امریکہ گئیں‌ اور ورجینیا کی ایک جامعہ سے 1914ء میں سند یافتہ ہوئیں۔ اگرچہ تعلیم کا یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد خود پرل بَک چین جاکر مشنری خدمات انجام دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھیں‌، لیکن اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انھیں چین لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد ان کی شادی ہوگئی اور وہ انوہی صوبے کے ایک چھوٹے سے قصبے سوزہو میں منتقل ہو گئیں۔ اس علاقے کا ذکر انھوں‌ نے “دا گڈ ارتھ” کے علاوہ اپنے ناول “سنز” میں بھی کیا ہے۔ چند سال بعد وہ مزید تعلیم کے حصول کی غرض سے امریکہ لوٹیں۔ انھوں نے 1924ء میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اس کے اگلے ہی برس چین چلی گئیں۔

    یہ 1929ء کی بات ہے جب پرل بَک نے اپنے ایک ناول “ایسٹ ونڈ: ویسٹ ونڈ” کا مسودہ نیویارک میں پبلشر کو تھمایا تھا۔ اگلے سال ان کا یہ ناول شائع ہوگیا۔ اس کی کہانی بھی چین کے گرد گھومتی ہے۔ 1931ء وہ سال تھا جب پرل ایس بَک نے دا گڈ ارتھ کی اشاعت کے بعد عالمی سطح پر ادیبوں کی صف میں نام و مقام پا لیا۔ اس شناخت کے ساتھ وہ اہم اعزازات بھی اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب ہوئیں۔

    1934ء میں پرل بَک نے نیویارک میں مشنری خدمات سے متعلق ایک بیان دیا اور پھر وہ اُس ملک کا دوبارہ رخ نہ کیا جس کی کہانیوں نے انھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچان دی تھی۔ 1935ء میں اپنے پہلے خاوند سے علیحدگی کے بعد پرل بَک نے رچرڈ والش سے دوسری شادی کی اور 1960ء میں رچرڈ کی وفات تک دونوں پینسلوینیا میں مقیم رہے۔

    پرل ایس بَک کی کہانیوں میں‌ تنوع نظر آتا ہے جو خواتین کے حقوق، ایشیائی ثقافتوں، ہجرت، مذہب اور تبلیغ کے ساتھ جنگ اور ایٹم بم جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ 43 ناولوں کے علاوہ پرل بَک نے کئی کہانیاں‌ اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا اور ان کی درجنوں کتابیں شایع ہوئیں۔

    نوبیل انعام یافتہ پرل بَک 1973ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

  • باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’  کو اہمیت دی

    باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’ کو اہمیت دی

    ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں بنا کر شائقین کو متوجہ کرنا چاہا، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ میں بنائی گئی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی کام یابی یا ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔

    اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف و روشن حوالہ بنیں۔

    رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال تک زندہ رہے اور 2020ء میں ممبئی میں دَم توڑا۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

    بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

    چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

    باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

    باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔

  • افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    ہندوستان میں‌ برطانوی راج میں سول سرونٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والوں میں ایک نام جی ای سی ویکفیلڈ کا تھا۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنّف تھے۔ ”پچاس برس کی یادداشتیں“ ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔

    پہلے مسٹر ویکفیلڈ کا مختصر تعارف پیش ہے۔ جی ای سی ویکفیلڈ کا پورا نام جارج ایڈورڈ کیمبیل (George Edward Campbell Wakefield) تھا۔ وہ مسٹر ویکفیلڈ مشہور تھے۔ ان کا تعلق ملتان سے تھا جہاں انھوں نے ایک برطانوی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ ویکفیلڈ کا سنہ پیدائش 1873 اور وفات کا سال 1944 ہے۔ ویکفیلڈ کی دادی ہندوستانی تھیں جنھوں نے عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔

    مسٹر ویکفیلڈ برصغیر میں نصف صدی تک مختلف محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جن میں مالیات، زراعت شامل ہیں، انھوں نے نظامِ دکن کے لیے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اس دوران ویکفیلڈ کو کئی دل چسپ تجربے ہوئے اور انھوں نے بعض ناقابلِ یقین اور حیرت انگیز واقعات بھی دیکھے اور ان کو ویکفیلڈ نے خاص طور پر قلم بند کیا۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ شہزادوں اور مہاراجوں کے حالات اور واقعات شامل ہیں۔

    مسٹر ویکفیلڈ نے اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں‌ درج کیا ہے۔ ”افغان امیر شیر علی خان ہندوستان کے دورے پر آئے تو ابّا جان نے ایک مقام پر اُن کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ رخصت ہوتے وقت امیر نے اُنہیں بُلا بھیجا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرے آرام کی خاطر اچھے انتظامات کیے۔ ابّا جان نے معروف فارسی محاورے کے مطابق کہہ دیا کہ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ اس پر امیر نے خیمے کے اندر موجود ہر چیز باندھنے کا حکم دیا اور وہ ساری اشیا واقعی افغانستان لے گیا جن میں ایک پیانو بھی شامل تھا۔ بعد میں مالیات کے حکام برسوں ابّا جان کے پیچھے پڑے رہے کہ آپ نے اتنی قیمتی اشیا امیر کو مفت پیش کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔“