Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی

    جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی

    صمصام الدّولہ کا اصل نام خواجہ عاصم تھا اور وہ قمر الدّین خاں آصف جاہ اوّل کے دربار سے وابستہ تھے۔ شاعرانہ ذوق بلند اور زبان و بیان نہایت فصیح و شستہ۔ خود بھی فارسی میں کلام کہتے تھے۔

    ایک روز ان کے ایک عزیز نے میر تقی میر سے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میر محمد علی متّقی کے صاحب زادے ہیں۔ میر متّقی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور ان کا مختصر احوال بھی گوش گزار کر دیا۔ صمصام الدّولہ نے انھیں دیکھا اور بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے مجھ پر احسانات تھے۔ لہٰذا، میں میر کے لیے ایک روپیا وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔

    یہ سن کر میر تقی میر نے کہا کہ حضور اس سلسلے میں تحریری حُکم جاری فرما دیں تاکہ کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ صمصام الدّولہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ‘‘قلم دان کا وقت نہیں ہے۔

    ’’ اس پر میر تقی میر نے تبسّم کیا۔ صمصام الدّولہ سے رہا نہ گیا اور انھوں نے تبسّم کی وجہ دریافت کی۔

    میر نے جواب میں کہا کہ اس کا سبب میرا آپ کی بات دو وجوہ سے نہ سمجھ پانا ہے۔ اوّل یہ کہ اگر آپ یہ فرماتے کہ قلم دان بردار اس وقت حاضر نہیں ہے، تو بات درست تھی۔ دوم یہ کہ آپ فرماتے کہ یہ دست خط کا وقت نہیں ہے، تب بھی درست ہوتا۔ تاہم یہ کہنا کہ وقتِ قلم دان نیست (قلم دان کا وقت نہیں ہے) کچھ انوکھی بات ہے۔ میر نے مزید کہا کہ قلم دان لکڑی کا ہونے کے باعث وقت سے واقف نہیں ہے۔ یہ سن کر صمصام الدّولہ نے خوشی کا اظہار کیا اور میر کی ذہانت کا اعتراف کیا۔

    نواب صاحب سے ملاقات کے وقت ان کے ایک جملے کی تصحیح کے ساتھ میر نے زبان و بیان پر اپنی گرفت کا اظہار کر کے گویا یہ ثابت کیا کہ وہ جس کا وظیفہ مقرر کرچکے ہیں، اس عنایت کے لائق بھی ہے اور کوئی معمولی شخص نہیں ہے۔

    اردو شاعری میں میر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میر تقی میر 1722 میں پیدا ہوئے۔ آگرہ میں ان کے والد علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ کم عمری میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں یہیں سے میر کی زندگی میں مصائب و آلام کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب صاحب اور میر کی ملاقات کے اس دل چسپ تذکرے کے ساتھ اس عظیم شاعر کی ایک غزل بھی آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے
    یہ نمائش سراب کی سی ہے
    نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے
    پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
    بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
    حالت اب اضطراب کی سی ہے
    میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
    اسی خانہ خراب کی سی ہے
    میر ان نیم باز آنکھوں میں
    ساری مستی شراب کی سی ہے

  • عراق میں موجود ایک مقدس ٹیلے اور پانی کے چشمے کی حقیقت

    عراق میں موجود ایک مقدس ٹیلے اور پانی کے چشمے کی حقیقت

    موصل میں حضرت یونس علیہ السلام سے منسوب ایک ٹیلہ اور اس کے نزدیک ایک چشمہ ہے۔ کہتے ہیں اس ٹیلے پر ان کی قوم اکٹھی ہوئی تھی اور طہارت کے لیے قریبی چشمے کا رخ کیا تھا۔

    نینوا میں بسی اس قوم میں بت پرستی اور برائیاں عام تھیں۔ یونس علیہ السلام نے انھیں ایمان لانے کی ہدایت کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے جب انھیں عذاب کی وعید سنائی اور جب اس قوم پر یہ ظاہر ہوا کہ واقعی کوئی عذاب آنے والا ہے تو انھوں نے توبہ کی اور حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اقرار کیا، لیکن اس وقت تک وہ بستی چھوڑ کر جا چکے تھے۔

    حضرت یونس علیہ السلام، ان کی قوم اور عذاب کا ذکر قرآن کی ایک سورت میں کیا گیا ہے۔ نینوا کی اس قدیم وادی اور وہاں بسنے والی قوم کا تاریخی کتب میں بھی جا بجا تذکرہ ملتا ہے اور اس حوالے سے مصنفین نے کئی روایات اور واقعات نقل کیے ہیں۔ تاہم ان میں اختلاف بھی ہے۔

    اسی نینوا کے قریبی علاقے میں ایک ٹیلے اور پانی کے ایسے چشمے سے متعلق روایات بھی تاریخ و ثقافت اور مذہب کے موضوعات میں دل چسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں جو یونس علیہ السلام سے منسوب ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ قوم خود پر عذاب کو ٹالنے کے لیے دعا کرنے اس ٹیلے کے گرد اکٹھی ہوئی تھی اور پھر قریبی چشمے کے پانی سے غسل کرکے پاکی حاصل کی تھی۔

    بعد میں اس ٹیلے اور چشمے کی زیارت کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے۔ قرآن میں اس قوم کی سرکشی اور عذاب کے آثار کے بعد توبہ کرنے پر عذاب روک لینے کا بیان موجود ہے۔

    طبرانی شریف کی روایت ہے کہ نینوا پر جب عذاب کے آثار ظاہر ہوئے تو اس وقت تک یونس علیہ السلام نافرمان ہونے کے سبب قوم کو چھوڑ کر علاقے سے نکل چکے تھے۔ لوگوں نے جب عذاب کے آثار دیکھے تو انھیں بہت تلاش کیا، مگر ناکام رہے اور واپس آکر خوب گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ کی جس کے سبب ان کا عذاب اٹھا لیا گیا۔

    ٹیلے اور اس چشمے کا ذکر مشہور مؤرخ اور سیاح ابنِ بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں کیا ہے اور اس کے مطابق یہ دونوں نشانیاں موصل شہر کے نزدیک علاقے میں ہیں۔

  • منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور بٹوارے کے بعد ہجرت کرنے والوں پر جو قیامتیں گزریں، اسے اس دور میں خاص طور پر ادیبوں نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ پاک و ہند کے نام ور مصنفین نے ہجرت کرتے انسانوں کا دکھ اور اس راستے میں انسانیت کی پامالی کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔

    ہم اردو افسانے کے ایک معتبر نام سعادت حسن منٹو کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنف کے کمال کی نظیر ہیں اور ظلم و ناانصافی کے اس ماحول کی عکاس ہیں۔ یہ کہانیاں منٹو کے مجموعہ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ہیں۔

    دعوتِ عمل
    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔
    صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا
    ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’

    خبردار
    بلوائی مالکِ مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔
    کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔
    ‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’

    پیش بندی
    پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔
    دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔
    تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔
    جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔
    ‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’

  • مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی کو کون ‘‘منی’’ کے نام سے پکارتا تھا؟

    مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی کو کون ‘‘منی’’ کے نام سے پکارتا تھا؟

    کیفی اعظمی کا نام رومان پرور  شاعر کے طور پر ہی نہیں لیا جاتا بلکہ ان کی تخلیقات سے ان کے انسان دوست اور انقلابی نظریات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کے دامن کو اپنی فکر اور مختلف اصنافِ سخن میں شعری اظہار سے مالا مال کیا۔ عالمی شہرت یافتہ اداکارہ شبانہ اعظمی انہی کی بیٹی ہیں۔

    شبانہ اعظمی کا نام آرٹ فلموں کے ذریعے خود کو  منوانے والوں میں ممتاز ہے۔ وہ ایک باکمال اداکارہ  ہی نہیں بلکہ اپنے سیاسی و سماجی نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔

    ان کے والد اور اردو زبان کے مشہور و معروف شاعر کیفی اعظمی انھیں ‘‘منی’’ کہتے تھے۔ دنیا بھر میں اپنے فن کی وجہ سے شہرت یافتہ یہ اداکارہ آج بھی گھر بھر کے لیے ‘‘منی’’ ہے۔ شبانہ اعظمی شبانہ اعظمی اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش کے حوالے سے بتاتی ہیں۔

    ‘‘میری پرورش جس ماحول میں  ہوئی وہاں ہر طرف اشتراکیت اور کارل مارکس کی باتیں ہوتی تھیں۔ والدین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی سے گھر ادیبوں، شعرا اور دانش وروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا جس نے میرے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں روایتی عورت کے مقابلے میں سماج کو الگ انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ادب اور پرفارمنگ آرٹ میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور پھر میں نے اپنے کیریر کا آغاز بھی اداکاری سے کیا۔ ابو کے لیے میں ہمیشہ ‘‘منی’’ رہی۔ وہ اسی پیار بھرے نام سے مجھے پکارتے تھے۔ آج بھی مجھے ان کی یاد بہت ستاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ انھیں کاغذ قلم کے ساتھ ٹیبل پر جھکا ہوا پایا۔ مجھے کم عمری میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والد کا کام کیا ہے۔ کچھ شعور آیا تو جانا کہ وہ ایک شاعر ہیں اور فلمی صنعت میں ان کا بہت نام اور مقام ہے۔’’

    شبانہ اعظمی کی چند مشہور  فلمیں شطرنج کے کھلاڑی،  سوامی، منڈی،  فقیرا، پرورش، امر اکبر انتھونی ہیں۔ شبانہ اعظمی نے ہندی سنیما اور آرٹ فلموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فلموں کے لیے بھی اداکاری کی اور کام یاب رہیں۔ متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے والی شبانہ اعظمی کی شادی معروف گیت نگار جاوید اختر سے ہوئی۔

  • پی ٹی وی پر کام حاصل کرنے کے لیے سفارش کروانے والے شفیع محمد

    پی ٹی وی پر کام حاصل کرنے کے لیے سفارش کروانے والے شفیع محمد

    شفیع  محمد یہ اعتراف کرتے تھے کہ ٹیلی ویژن پر کام حاصل کرنے کے لیے انھوں نے  سفارش  کا سہارا لیا تھا۔

    انکساری اور عاجزی شفیع محمد کی شخصیت کا ایک خوب صورت حوالہ ہے. پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہرے دور کا یہ باکمال اداکار آج سے 12 برس پہلے اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا تھا۔ اس خوب صورت فن کار کی زندگی اور فن کی چند لفظی جھلکیاں پیش ہیں۔

    بلند فشارِ خون، ذیابیطس جیسی بیماری کے علاوہ شفیع محمد کو جگر کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ انتقال سے قبل انھوں نے سینے میں شدید درد کی شکایت کی، مگر اسپتال منتقل کیے جانے سے پہلے ہی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا اور شفیع محمد اپنے گھر پر دم توڑا۔

    شفیع محمد نے 1949 میں سندھ کے شہر کنڈیارو کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور پھر سندھ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری لی۔ شفیع محمد نے گھر بسایا اور اس جوڑے کو قدرت نے ایک بیٹے اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ 17 نومبر 2007 کو جہاں شفیع محمد کی اچانک موت پر سوگواروں میں بیوہ اور یہ پانچ بچے شامل تھے، وہیں ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری سمیت ان کے لاکھوں مداحوں کی آنکھیں بھی نم تھیں۔

    شفیع شاہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑا تھا۔ یہ 2002 کی بات ہے جب کراچی کے ایک حلقۂ انتخاب سے انھیں قومی اسمبلی کی نشست پر مقابلے میں اتارا گیا۔ تاہم سیاست کے میدان میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    شفیع شاہ کا فنی سفر ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری تک پھیلا ہوا ہے۔ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن پر صدا کار کی حیثیت سے قدم رکھنے کے بعد نوجوان شفیع شاہ نے ٹیلی ویژن پر اداکار کی حیثیت سے کام کرنے کی خواہش محسوس کی تو جانے کیوں سفارش کا سہارا لیا۔ اس ضمن میں اداکار محمد علی کا نام لیا جاتا ہے کہ انھوں ریڈیو کے اس صدا کار کو ٹیلی ویژن پر قسمت آزمائی کا موقع دینے کے لیے اس دور کے چند بڑے پروڈیوسروں اور لکھاریوں سے بات کی تھی۔ ان میں نصرت ٹھاکر اور قنبر علی شاہ بھی شامل تھے۔ دراصل شفیع شاہ ان دنوں لاہور میں تھے اور ریڈیو پر قسمت آزمانے پہنچے تھے۔ تاہم اس حوالے سے انھیں کچھ خاص کام یابی نہیں ملی تھی۔

    الیکشن کا زمانہ تھا جب شفیع محمد نے لاہور سے مایوس ہو کر واپسی کا فیصلہ کیا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1977 میں ٹی وی اسٹیشن پر ایک خاکے کی ریہرسل دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کے ایک منظر میں حکیم کی دکان پر کوئی مریض دوا لینے آتا ہے۔ اس منظر میں جب ایک اداکار دوا کے نام کی درست طریقے سے ادائی میں ناکام رہا تو شفیع محمد نے کہا کہ وہ کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ موقع ملا اور شفیع نے چند کوششوں کے بعد تین منٹ کا یہ مزاحیہ خاکہ مکمل کروا دیا۔ یہ قصہ معروف صحافی اور لکھاری عارف وقار نے بیان کیا تھا جو خود بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن سے اداکار محمد علی نے شفیع شاہ کی سفارش کی تھی۔

    اس پہلی اور مختصر ترین پرفارمنس کے بعد شفیع محمد نے چھوٹی اسکرین پر کئی لازوال کردار نبھائے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی شبہہ نہیں۔ برزخ میں پرنس کے کردار کے لیے شفیع محمد کو پروڈیوسر اقبال انصاری نے رضامند کیا۔ وہ کردار شفیع محمد نے نہایت خوب صورتی سے نبھایا اور پھر پی ٹی وی کے ساتھ 80 کی دہائی میں نجی پروڈکشن ہاؤس کے تحت بھی شفیع محمد کو بہ طور اداکار ملک بھر میں پہچان ملی۔

    چاند گرہن اپنے وقت کا مقبول ترین ڈراما تھا جو شفیع محمد کے کیریر میں سنگِ میل ثابت ہوا اور اس کے بعد وہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ مرکزی کرداروں سے کیریکٹر رول نبھانے تک شفیع شاہ نے مکالموں کی ادائی، چہرے کے تاثرات اور اداکاری کے دیگر لوازمات کو نہایت خوبی سے نبھایا۔ کہتے ہیں وہ گھسے پٹے مکالمات کو بھی نہایت خوبی اور کمال سے ادا کرتے اور اسے ناظرین کے لیے کم از کم قابلِ قبول بنا دیتے۔ خوب صورت مکالموں میں تو جیسے شفیع محمد کی زبان پر آنے کے بعد جان ہی پڑ جاتی اور وہ یادگار بن جاتے۔ شفیع کی آواز میں ایک خاص مٹھاس، کشش اور ٹھہراؤ تھا جسے وہ اپنے مکالموں کے ساتھ نہایت خوبی سے برت کر انھیں دل نشیں بنا دیتے۔

    فلم کی بات کی جائے تو شفیع محمد وہاں اپنے جوہر کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکے۔ ٹیلی ویژن کا اسکرپٹ اور چھوٹی اسکرین پر کام کرنے کا طریقہ بہت مختلف تھا۔ یہی شاید ان کے مشکل رہا ہو۔ وہ تلاش، روبی، ایسا بھی ہوتا ہے، بیوی ہو تو ایسی اور سلاخیں نامی فلموں میں نظر آئے۔ اردو کے علاوہ سندھی ڈراموں میں بھی شفیع محمد نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    ان کے چند مشہور ڈراموں میں چاند گرہن، آنچ، جنگل، دیواریں شام ہیں۔ پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازے جانے والے فن کار کو پی ٹی وی نے بھی کارکردگی کا اعتراف میں متعدد ایوارڈوں سے نوازا۔

  • عرب نسل کے خوبصورت گھوڑوں کا مقابلہ حسن

    عرب نسل کے خوبصورت گھوڑوں کا مقابلہ حسن

    ریاض: سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں خوبصورت عربی النسل گھوڑوں کے فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔

    عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق عربی النسل گھوڑوں کے درمیان ہونے والے خوبصورتی کے مقابلے میں مکہ مکرمہ کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

    تین روز تک جاری رہنے والے فیسٹیول کے آخری روز جیوری کی جانب سے خوبصورت گھوڑوں کو بالترتیب پوزیشن دی گئیں اور نہیں گورنر نے انعامات سے بھی نوازا۔

    فیسٹیول میں عربی روایات کے مطابق ادب اور شعر و شاعری سے متعلق محفل کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان گھوڑوں کی خوبصورتی کو بیان کرنا تھا۔

    تین دن تک جاری رہنے والے مقابلے میں گھڑ سواروں سمیت دلچسپی رکھنے والے مرد و خواتین نے شرکت کی اور گھوڑوں کی بہترین پرورش پر مالکان کو داد بھی دی۔ گھڑ سواری کے ادارے کے تحت زیر تربیت خواتین کو بھی انعامات دیئے گئے۔

    یاد رہے کہ گھڑ سواری مہنگا ترین شوق ہے البتہ سعودی عرب کے بہت سے شہری اس شوق سے وابستہ ہیں اور وہ مہنگے ترین گھوڑے پالتے ہیں۔

     

  • اداکار شفیع محمد کو بچھڑے12 برس بیت گئے

    اداکار شفیع محمد کو بچھڑے12 برس بیت گئے

    کراچی : سنجیدہ اور رعب دار کرداروں کے لیے مشہور ملنسار، ہنس مکھ شخصیت کے مالک اداکار شفیع محمد کو مداحوں سے بچھڑے 12برس بیت گئے۔

    آواز اور چہرے کے تاثرات پر بھرپور عبور اور اداکاری کے تمام رموز سے مکمل واقفیت رکھنے والے معروف اداکار شفیع محمد کا تعلق اندورن سندھ کے گاؤں کنڈیارو سے تھا جہاں سنہ 1949 میں شفیع محمد کا جنم ہوا تھا۔

    شفیع محمد نے حیدرآباد ریڈیو سے صداکاری کے ذریعے فنی سفر کی شروعات کیں۔

    سنجیدہ دکھائی دینے والے شفیع محمد ساتھی فنکاروں میں ایک ملنسار اور ہنس مکھ شخصیت کے طور پر مشہور تھے انہوں نے ٹیلی وژن اسکرین پر کیرئیر کا آغاز پروڈیوسر شہزاد خلیل کے ڈرامہ سیریل ’اڑتا آسمان‘ سے کیا۔

    تاہم ہر کردار میں جان ڈال دینے کی صلاحیت نے جلد ہی اپنا لوہا منوایا اور ڈرامہ سیریل ‘تیسرا کنارہ’ ان کی شہرت کی وجہ بنا اور وہ پاکستان کے ہر گھر کے جانے پہچانے شخص بن گئے۔ اس کے بعد ڈرامہ سیریل ‘آنچ’ نے انہیں مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔

    اس کے علاوہ چاند گرہن، دائرے، دیواریں، جنگل، بند گلاب، کالی دھوپ، ماروی، تپش اور محبت خواب کی صورت جیسے مقبول عام ڈرامے ان کی فنی شناخت تھے۔

    فلمی کیرئیر کے دوران شفیع محمد نے فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے، تلاش، الزام، مسکراہٹ، روبی‘ میں بھی کام کیا، شہزاد رفیق کی فلم سلاخیں ان کے فنی کیریئر کی آخری فلم ثابت ہوئی۔

    انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے اور حیدر آباد سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

    شفیع محمد 1984 میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

    معروف اداکار کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1985 میں پاکستان ٹیلی ویژن نے بہترین اداکار کے ایوارڈ جبکہ حکومت پاکستان نے تمغۂ حسن کارکردگی کے اعزاز سے نوازا۔

    شفیع محمد کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انھیں 1991ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    2006 کے وسط میں شفیع محمد شاہ بیمار ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھاری بھر کم شخصیت والا یہ شخص اچانک کمزور نظر آنے لگا۔ 17 نومبر2007 کو اداکاری کو نئی جہت دینے والا یہ روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    شفیع محمد کے انتقال کے دوسال بعد انھیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

  • 1857: جب کتب خانے برباد ہوئے!

    1857: جب کتب خانے برباد ہوئے!

    انقلابات و حوادثِ زمانہ کے ہاتھوں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کے مراکز بھی ایسے برباد ہوئے کہ زمانہ اس پر روتا ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ صدیاں گریہ کریں تب بھی تلافی کہاں ممکن۔ ہم کتب خانوں کی بات کررہے ہیں جن کا دامن دنیا بھر کے انمول موتیوں سے بھرا ہوا تھا۔ تشنگانِ علم آتے اور سیراب ہوتے۔

    تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ جس طرح دنیا بھر میں اور قرطبہ، بغداد، قاہرہ و دیگر سلطنتوں کے زوال کے ساتھ ہی بادشاہوں اور صاحبانِ علم کی خصوصی سرپرستی اور مالی معاونت سے اذہان و قلوب کو منور کرنے والے کتب خانے ویران ہوگئے، اسی طرح لوٹ مار کے بعد ان میں اکثر برباد کر دیے گئے۔ توڑ پھوڑ کے ساتھ کتب خانوں کو جلا دیا گیا اور سپاہِ مخالف نے زیرِ قبضہ علاقوں کو روشنی سے محروم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کچھ کمی نہ کی۔

    مغل اور دیگر مسلم ریاستوں کے والی و امرا کی سرپرستی میں کئی کتب خانے ہندوستان میں بھی موجود تھے جو کسی جنگ کے دوران ہی برباد نہیں ہوئے بلکہ لوٹ مار کی بھی نذر ہوئے۔ یہاں ایسے چند واقعات کا تذکرہ اہلِ علم و فن کو رنجیدہ کر دے گا۔

    1739 میں نادر شاہ کے حملے میں دہلی کے کئی کتب خانے برباد ہوئے۔ افواج نے فقط مال و دولت ہی نہیں سمیٹا بلکہ کتب خانوں سے قدیم نسخے اور نوادر بھی لوٹ کر لے گئیں۔

    1757 میں ابدالی نے ہندوستان پر لشکر کشی کی تو دہلی کا علمی خزانہ برباد ہوا۔ کہتے ہیں غلام قادر روہیلے نے قرآنی نسخے اور نادر کتابیں تک شاہی کتب خانے سے سمیٹ لی تھیں۔

    یہ تو اس زمانے کے بادشاہوں کی لڑائیوں اور جنگوں کے دوران ہونے والی لوٹ مار تھی، مگر 1857 میں یعنی ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران بھی کئی نایاب قلمی نسخے، نوادر اور اہم موضوعات پر کتب برباد ہو گئیں اور عوام نے کتب خانوں میں لوٹ مار کی۔
    کتب خانوں کی بربادی اور لوٹ مار کا نقشہ شمس العلما مولوی ذکا اللہ نے یوں کھینچا ہے۔

    ‘‘کتب خانے لٹنے شروع ہوئے۔ لٹیرے عربی، فارسی اردو وغیرہ کی کتابوں کے گٹھر باندھ کر کتب فروشوں، مولویوں اور طالب علموں کے پاس بیچنے لے گئے۔ بعض طلبا بھی جو کتابوں کے شائق تھے، اچھی اچھی کتابیں لے گئے۔ لوگوں نے کتابوں کے اچھے اچھے پٹے اتار لیے کہ جلد سازوں کے ہاتھ بیچیں گے اور باقی کو پھاڑ کر پھینک دیا۔’’

    اس وقت مغلوں کے علاوہ سلطان ٹیپو وغیرہ کے کتب خانوں کی بہت سی کتب انگلینڈ بھیج دی گئیں۔ یہ کتابیں وہاں کے کتب خانوں میں سجائی گئیں۔

    علامہ اقبال انہی کتابوں کو جب یورپ میں دیکھا تو کہا۔

    مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
    جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

  • ڈرامے کے ایک کردار کی موت جو دردناک حقیقت بن گئی!

    ڈرامے کے ایک کردار کی موت جو دردناک حقیقت بن گئی!

    یہ ایک درد ناک واقعہ ہے، ایک ایسی حقیقت جس کا تعلق ایک ڈرامے سے ہے۔ یہ ایک زندگی کے الم ناک انجام کی داستان ہے جس نے شیکسپیر کے مشہورِ زمانہ اور شاہ کار ڈارمے ہملٹ کے بطن سے جنم لیا۔ ہم اسے حیرت انگیز اتفاق کہہ سکتے ہیں۔

    مشہور مصور ہولمین ہنٹس نے شیکسپیر کے ڈرامے کے ایک منظر میں رنگ بھرنے کا سوچا اور اس کے لیے مسز روزیٹی کو منتخب کیا۔ یہ خاتون مصور کے حلقۂ احباب میں سے تھی۔ ہولمین ہنٹس کو ہملٹ کا وہ منظر کینوس پر منتقل کرنا تھا جس کا ایک کردار اوفیلیا تھی جس کی موت ایک حوض میں ڈوبنے سے واقع ہوئی تھی۔

    ہولمین ہنٹس نے اپنے اسٹوڈیو میں ایک بڑے ٹب کا انتظام کیا جس میں پانی بھر کر اس کے نیچے آگ روشن کر دی جاتی تھی تاکہ پانی گرم رہے اور ماڈل کو پانی میں رہنے کی وجہ سے انگلینڈ کا سرد ترین اور یخ بستہ موسم کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ مسز روزیٹی اپنے گھر سے اوفیلیا کا سوانگ بھر کر آتی اور اس ٹب میں مصور کی ہدایات کے مطابق لیٹ جاتی۔ ہولمین تصویر کشی شروع کرتا اور یونہی متعدد دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

    ایک روز معمول کے مطابق مسز روزیٹی کی آمد ہوئی اور وہ پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں لیٹ گئی۔ بدقسمتی سے ہولمین ہنٹس اس روز ٹب کے نیچے آگ جلانا بھول گیا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے آگ جلائی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ماڈل کو پانی میں لیٹتے ہوئے کوئی کچھ محسوس نہ ہوا۔

    کہتے ہیں کہ کسی وجہ سے آگ بجھ گئی تھی اور دونوں ہی اس بات سے بے خبر رہے۔ مصور نے منظر کینوس پر اتارنا شروع کیا اور اس میں اتنا منہمک رہا کہ اسے کسی بات کا احساس نہ ہو سکا۔ مسز روزیٹی کی موت واقع ہو چکی تھی۔ جاڑے کا موسم اور پانی نے اس ماڈل کے بدن کو گویا منجمد کر دیا۔ وہ نمونیہ کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئی. شیکسپیر کے ڈرامے میں اوفیلیا نے بھی زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

  • پشاور سے لنڈی کوتل تک چلنے والی سفاری ریل گاڑی

    پشاور سے لنڈی کوتل تک چلنے والی سفاری ریل گاڑی

    خیبر پختونخوا کے پشاور ریلوے اسٹیشن سے ملک کے مختلف علاقوں کے مسافر ریل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں جب کہ 1947 سے 1982 تک ہر اتوار کو ایک ریل گاڑی لنڈی کوتل تک جاتی تھی۔

    پشاور سے لنڈی کوتل تک یہ ریلوے ٹریک انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اندر سے گزرتا تھا  جس کے لیے  ریلوے کو  دو  تین  روز  قبل ایئر پورٹ حکام  سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ بعد میں یہ ٹریک بند کر دیا گیا۔ سفاری ریل گاڑی کا ٹریک پچاس کلو میٹر طویل بتایا جاتا ہے۔ اس سفاری ریل گاڑی کا سلسلہ جو پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کی سہولت دیتی تھی، 2007 میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ ان راستوں میں کئی پُل اور چھوٹے چھوٹے پلیٹ فارم یا مختلف نشانیاں برطانوی راج کی یادگار کہے جاسکتے ہیں۔

    پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کے دوران آپ کو  اُس دور کے تعمیر کردہ 92 چھوٹے بڑے پُل دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر  اب بھی درست حالت میں ہیں۔ ان پلوں کے نیچے سے روزانہ کئی چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ یہ تمام مقامات پہاڑی اور پتھریلے ہیں اور اکثر یہ راستے نئے مسافروں کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ کئی مقامات پر ریل گاڑی پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی تو عجیب نظارہ ہوتا۔ سفاری ٹرین کے مسافر اور اس زمانے میں سیاحت کی غرض سے آنے والوں کے لیے وہ مناظر خاص کشش کا باعث بنتے۔ کہتے ہیں اس ٹرین کے ذریعے ان علاقوں تک جانے میں غیر ملکی سیاح خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ اسی سفاری ٹرین میں ہائی کمیشن آف یورپ کا 15 رکنی وفد بھی سیر کر چکا ہے۔

    یہاں کئی مقامات پر  پہاڑی  سرنگیں بنائی گئیں جن کی تعداد 34 ہے جن میں سے بیش تر کے دہانے لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ ان کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی گئی جس کے بعد اب یہ سرنگیں اور اس ٹریک پر پرانے زمانے کی تعمیرات یعنی پُل وغیرہ اب صرف اجڑی ہوئی یادگار ہیں۔ تاہم بہت پرانی اور چند دہائیوں قبل ان مقامات کی کھینچی گئی تصاویر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔