Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • معصوم چہرے پر شاندار تاثرات، اداکار بابر علی کی بیٹی چھا گئیں، ویڈیو وائرل

    معصوم چہرے پر شاندار تاثرات، اداکار بابر علی کی بیٹی چھا گئیں، ویڈیو وائرل

    کراچی: پاکستان کی فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے اداکار بابر علی کی اپنی صاحبزادی کے ساتھ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی پندرہ سیکنڈ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بابر علی اپنی صاحبزادی زینب کے ساتھ موجود ہیں جس میں اُن کی بیٹی معصوم سے چہرے پر شاندار تاثرات لاکر اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہے۔

    اداکار کی بیٹی کے ساتھ ویڈیو کو صارفین نے بہت سراہا اور زینب کو منفرد تاثرات پر خوب داد بھی دی۔

    یاد رہے کہ بابر علی کا شمار اُن اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے لالی ووڈ انڈسٹری کو کامیاب فلمیں دیں۔ اداکار کے تین بچے جن میں دو بیٹیاں اور بیٹا ہے۔

    حیران کن طور پر بابر علی نے اپنے بچوں کو اب تک میڈیا انڈسٹری سے دور رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ اُن کی اہل خانہ کے ساتھ زیادہ تصاویر بھی سامنے نہیں آئیں۔

    یہ بھی یاد رہے کہ بابر علی نے گریجویشن تک تعلیم مکمل کر کے چھوٹی اسکرین سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا جس کے بعد وہ پی ٹی وی پر 1995 میں نشر ہونے والے ڈرامے ’لبیک‘ میں عرب کے فوجی کا کردار ادا کرتے نظر آئے تھے، بعد ازاں انہوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور لالی ووڈ میں بہت سی کامیاب فلمیں دیں۔

  • لوک داستانوں کے مشہور کرداروں کا تعلق کن شہروں سے تھا؟

    لوک داستانوں کے مشہور کرداروں کا تعلق کن شہروں سے تھا؟

    پاکستان کی لوک داستانوں کے ان چند کرداروں کا نام اور ان سے منسوب داستانیں آپ نے بھی سنی اور پڑھی ہوں گی۔ سسی، ماروی، شیریں اور لیلیٰ جیسے نام نہ صرف ہمارے ہاں عام ہیں بلکہ تاریخ اور ثقافت پر مبنی کتب میں ان افسانوی کرداروں کو مختلف روایات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ ادب کی بات کی جائے تو نظم و نثر میں بھی لوک داستانوں اوران کے افسانوی کرداروں کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر ڈرامے بھی بنائے گئے جن کو بہت مقبولیت ملی۔

    ان لوک داستانوں کے مرکزی کرداروں کا تعلق کن علاقوں سے تھا، یہ جاننا آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    تاریخ و ثقافت کے مختلف حوالوں اور شاعری میں آپ نے سسی کا ذکر ضرور سنا اور پڑھا ہوگا۔ یہ سندھ اور بلوچستان کی مشہور لوک داستان کا کردار ہے۔ روایت ہے کہ سسی پنوں کی محبت میں جب وہ موڑ آیا جہاں جدائی مقدر بن گئی تو ایک نئی داستان رقم ہوئی۔ سسی اپنے محبوب کی تلاش میں نکل پڑی اور اس راستے میں اس نے سختیوں اور کئی مشکلات کا سامنا کیا۔

    ایک اور مشہور لوک داستان کا کردار ماروی بھی آپ کے ذہن میں ہو گا۔ اس افسانوی کردار کا تعلق سندھ کے صحرائے تھر سے ہے۔ راویات کے مطابق عمر ماروی کی کہانی جس طرح بیان کی جاتی ہے اس میں ماروی کو اپنی مٹی سے پیار اور اس کی پاک دامنی کے باعث یاد کیا جاتا ہے۔

    شیریں اور فرہاد کا نام تو سبھی نے سنا ہے۔ ان دونوں کرداروں سے ایک داستان منسوب ہے، جس پر نثر اور نظم دونوں کی مختلف اصناف میں نہایت خوب صورت انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس افسانوی داستان کے کردار شیریں کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران بتایا جاتا ہے۔

  • پیار بھرے دو شرمیلے نین کے خالق: خواجہ پرویز

    پیار بھرے دو شرمیلے نین کے خالق: خواجہ پرویز

    اکثر فرصت کے لمحات میں جب ہم ماضی کی یادوں سے بہلنے لگتے ہیں یا اکیلے پن اور تنہائی کا احساس ستاتا ہے تو کوئی گیت گنگنانے اور موسیقی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ کبھی آپ پر بھی ایسی کیفیت ضرور طاری ہوئی ہو گی جب آپ کے لبوں پر بے اختیار کوئی گیت، کوئی شعر گویا بول اٹھا ہو۔

    پیار بھرے دو شرمیلے نین جیسا خوب صورت گیت آپ سبھی نے سنا ہو گا اور کبھی گنگنایا بھی ہو گا۔ کیا آپ اس گیت کے خالق کا نام جانتے ہیں؟

    ان کا نام خواجہ پرویز ہے جو صرف اسی مقبولِ عام گیت کے خالق نہیں بلکہ انھوں نے اردو اور پنجابی زبان میں سیکڑوں نغمے تخلیق کیے جو ان کی شہرت کا سبب بنے۔ معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز کی فلمی شاعری کو اپنے وقت کے نام ور گائیکوں نے اپنی آواز دی اور وہ سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    اس خوب صورت گیت نگار کا اصل نام خواجہ غلام محی الدین تھا جب کہ پرویز تخلص۔ تاہم فلمی دنیا میں انھیں خواجہ پرویز کے نام سے شہرت ملی۔

    ان کے لکھے ہوئے دیگر مشہور گیتوں میں سے چند یہ ہیں۔
    ‘‘تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں’’ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔

    ‘‘تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں’’ فلم آنسو کا وہ گانا تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    ‘‘کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا’’ اُس زمانے کا ایک مقبول گانا تھا جس کی دھن ماسٹر عنایت نے بنائی تھی۔

    خواجہ پرویز کا لکھا ہوا گیت ‘‘پیار بھرے دو شرمیلے نین’’ فلم چاہت میں شامل تھا۔

  • اداکارہ ماریہ واسطی نے جدید اسلحہ کیوں‌ اٹھایا؟ ویڈیو وائرل

    اداکارہ ماریہ واسطی نے جدید اسلحہ کیوں‌ اٹھایا؟ ویڈیو وائرل

    انقرہ: پاکستانی اداکارہ ماریہ واسطی نے نشانے بازی ’شوٹنگ‘ کے کھیل میں اپنی مہارت دکھا کر سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق تنزانیہ میں پیدا ہونے والی ماریہ واسطی نے نوے کی دہائی سے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری پر راج کیا، انہوں نے بہت کم عرصے میں اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    اداکارہ آج کل تفریح کی غرض سے ترکی میں موجود ہیں، انہوں نے گزشتہ دنوں پیرا گلائیڈنگ کا تجربہ کیا جس کی انہوں نے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ویڈیو شیئر  کی تھی۔

    گزشتہ روز وراسٹائل اداکارہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر نشانے بازی کی ویڈیو شیئر کی۔

    ماریہ واسطی نے انسٹاگرام  پر نشانے بازی کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اداکاری اور نشانے بازی قدرتی طور پر آتی ہے اور مجھے معلوم تھا کہ یہ میں کرسکتی ہوں۔

    انہوں نے بتایا کہ رائفل سے ہدف کونشانہ بنانے پر مجھے 100 میں سے 100 جبکہ نائن ایم ایم سے 100 میں سے 95 نمبر دیے گئے۔ یاد رہے کہ نشانہ بازی کے کھیل میں حصہ لینے والے کھلاڑی یا کسی بھی شخص کو ٹارگٹ کو اچھے انداز سے نشانہ بنانے پر ماہر نمبرز دیتے ہیں۔

  • رابی پیرزادہ نے نئے سفر کا آغاز کردیا

    رابی پیرزادہ نے نئے سفر کا آغاز کردیا

    لاہور: پاکستانی گلوکارہ رابی پیرزادہ نے شوبز انڈسٹری کو چھوڑنے کے بعد نئے سفر کا آغاز کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہونے کے بعد گلوکارہ نے شوبز انڈسٹری کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور ساتھ میں ایک اصلاحی ٹویٹ بھی کیا گیا۔

    شوبز کو خیرباد کہنے کے بعد رابی پیرزادہ بالکل خاموش تھیں البتہ انہوں نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر زندگی کا نیا سفر شروع کرنے کے حوالے سے ایک پیغام لکھا اور شاندار پینٹگز شیئر کیں۔

    راپی پیرزادہ نے خانہ کعبہ کی پینٹنگز شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ ایک نیا آغاز ہے‘‘۔

    رابی پیر زادہ کے کیریئر پر ایک نظر                                                     

    گلوکارہ رابی پیرزادہ کوئٹہ میں پیدا ہوئیں، وہ تعلیم کے میدان میں بہترین طالبہ رہیں تاہم موسیقی سے لگاؤ انہیں شوبز انڈسٹری میں کھینچ لایا تھا۔ انہوں نے 2005 میں اپنے گانے ’داہدی کُڑی‘ سے ڈیبیو کیا، جس کے بعد ’مجھے عشق ہے‘ اور ’جادو‘ بہت مقبول ہوئے اور گلوکارہ کی ترقی کا سفر شروع ہوا۔

    مزید پڑھیں: گلوکارہ رابی پیرزادہ نے شوبز کو خیرباد کہہ دیا

    رابی پیرزادہ نے شعیب منصور کے لکھے گانے ’کسی کے ہو کے رہو‘ میں اپنی آواز کا جادو جگایا تھا جو مداحوں کو بے حد پسند آیا تھا، رابی پیرزادہ کے گانوں کے البم مداحوں میں آج بھی مقبول ہیں۔ رابی پیرزادہ نے مختلف ٹی وی چینلز پر پروگرام کی میزبانی کی اور کشمیر کے مسئلے سمیت دیگر سماجی مسائل پر بھی اپنی آواز بلند کی۔

  • اے نیر: ایک خوب صورت آواز جو تین برس پہلے ہم سے روٹھ گئی

    اے نیر: ایک خوب صورت آواز جو تین برس پہلے ہم سے روٹھ گئی

    شاید آپ کی سماعت میں یہ گیت ابھی تازہ ہوں، یا زندگی کی کم از کم چالیس بہاریں دیکھنے والوں کو تو ضرور یہ گیت اور گائیک یاد ہو گا۔

    ایک بات کہوں دلدارا، تیرے عشق نے ہم کو مارا
    مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اور یہ درد بھرا نغمہ بھی آپ کی سماعتوں میں تازہ ہو گا۔
    میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا

    یقینا، آپ کے ذہن کے پردے پر اپنے دور کے معروف پلے بیک سنگر اے نیر کی تصویر ابھری ہو گی۔ آج اس جادو بھری آواز کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے ہیں۔

    ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی ہر عمر کے شائقینِ موسیقی میں پسند کیے جاتے ہیں۔ ان گیتوں کے خوب صورت بول، موسیقی اور اے نیر کی مدھر آواز نے 80 کی دہائی میں سبھی کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اے نیر اس زمانے میں مقبول ترین گلوکاروں میں سے ایک تھے اور شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ وہ ایک کام یاب پلے بیک سنگر کی حیثیت سے عرصے تک انڈسٹری میں مصروف رہے۔ ان کے گائے ہوئے تمام گیتوں کو لازوال شہرت ملی۔ اے نیر کو ملک میں اور سرحد پار بھی اپنی گائیکی کی وجہ سے بے حد مقبولیت ملی۔

    ان کا اصل نام آرتھر نیر تھا۔ 1955 میں ساہیوال میں پیدا ہونے والے آرتھر نیر نے گلوکاری کے میدان میں اے نیر کے نام سے پہچان بنائی۔ ان کا بچپن پنجاب کے شہر عارف والا میں گزرا اور بعد میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا۔ یہیں گریجویشن کیا اور اپنے شوق و لگن کی وجہ سے گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا۔ کہتے ہیں وہ شروع ہی سے فلموں کے رسیا تھے۔ گائیکی کا شوق اسی زمانے میں پروان چڑھا اور وہ پاکستان کے نام ور گلوکاروں کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب رہے۔

    1974 میں اے نیر نے پہلا فلمی گیت گایا جس کے ذریعے انڈسٹری اور شائقین سے ان کا تعارف ہوا۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور وقت نے اے نیر کو پاکستان کے مقبول ترین گلوکاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

    بہترین گلوکاری پر پانچ بار نگار ایوارڈ اپنے نام کرنے والے اے نیر نے فلموں کے لیے ہزاروں گیت ریکارڈ کروائے۔ انھیں پہلا نگار ایوارڈ 1979 میں دیا گیا۔ اے نیر فن گائیکی میں احمد رشدی کو اپنا استاد مانتے تھے۔

    12 نومبر 2016 کو یہ خوب صورت گلوکار ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلا گیا۔ وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے اور 66 سال کی عمر میں زندگی کا سفر تمام کیا۔ 2018 میں حکومت کی جانب سے انھیں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔

  • ماہیا: پنجاب کی مقبول ترین صنفِ سخن

    ماہیا: پنجاب کی مقبول ترین صنفِ سخن

    اردو اور مقامی زبانوں میں بھی تخلیق ہونے والا ادب یوں تو ہمارے تمدن، تہذیب اور ثقافت کو اجاگر کرتا ہے، مگر لوک ادب میں اس کا خاص رنگ جھلکتا ہے۔

    لوک ادب میں کسی بھی علاقائی رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی نہایت خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ اسی میں شاعری بھی شامل ہے جس کی مختلف اصناف داستانوں، افسانوی شخصیات کے تذکروں سے آراستہ ہیں۔ ماہیا ایک ایسی ہی صنف ہے جسے ہم سرزمین پنجاب کے مقبول ترین عوامی گیت کہہ سکتے ہیں۔ اس صنفِ سخن کا تعلق لوک روایات سے ہے۔

    ماہیا، دراصل ماہی سے تشکیل پایا ہے۔ اردو زبان میں ماہی سے مراد محبوب ہے۔ تاہم بعض محققین کے نزدیک یہ لفظ بھینس چرانے والے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور بعد میں مجازاً پیارے اور محبوب کے لیے بولا جانے لگا۔ مقامی شعرا نے پنجاب کے حسن، محبت کی داستانوں اور انسانی جذبات کو اس صنفِ سخن میں نہایت خوب صورتی سے سمیٹا ہے۔

    ماہیا وہ کلام ہے جس میں تین مصرعوں میں شاعر اپنی بات کہتا ہے۔ اس صنف کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم وزن جب کہ درمیانی مصرع کے دو حروف پہلے اور آخری مصرع کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ پنجاب کی اس مقبول صنف نے اردو زبان اور شعرا کو بھی متاثر کیا اور فلموں اور ریڈیو میں اردو ماہیے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بنیادی طور پر گائی جانے والی صنف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے دُھن، ردھم اور آوازوں کو اہمیت دی گئی۔

    ماہیے میں خطۂ پنجاب کی خوب صورتی، دل کشی، یہاں کی تہذیب و اقدار اور ثقافت کو مدنظر رکھا گیا، مگر اردو شعرا نے بھی اس طرف توجہ دی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو زبان کے تخلیق کاروں نے اسے مقامی ادب سے نکال کراس کی اہمیت بڑھا دی۔ اردو زبان میں اسی طرح تین مصرعوں کی ہائیکو اور ثلاثی جیسی اصناف بھی موجود ہیں جن کے شعری لوازم جدا ہیں۔

    ماہیے کے حوالے سے اردو شعرا کا نام لیا جائے تو قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی سے پہلے ہمت رائے شرما اور قتیل شفائی کے ماہیے فلموں میں گائے گئے۔ اس حوالے اختر شیرانی، چراغ حسن حسرت جیسے مشہور شعرا کا نام بھی لیا جاتا ہے۔

    ماہیا پنجاب کی مقبول صنفِ سخن ہے اور ادبی محافل اور خاص تقاریب میں ضرور سنے جاتے ہیں اور سب ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں پنجاب کے دیہات کی خوب صورت زندگی اور دل رُبا داستانوں سے لازوال کرداروں کو سمیٹا گیا ہے۔ اردو زبان میں اس صنفِ سخن میں یہ مشہور گیت پیشِ خدمت ہے۔

    ساون میں پڑے جھولے
    تم بھول گئے ہم کو
    ہم تم کو نہیں بھولے

  • عید میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے علی ظفر کا کلام جاری

    عید میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے علی ظفر کا کلام جاری

    کراچی: ملک بھر میں آج جشن عیدمیلاد النبی ﷺ کو مذہبی جوش و خروش سے منایا گیا، ہر شخص نے پرمسرت دن کو اپنے انداز سے منایا اور دوستوں کو مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔

    پاکستانی اداکار اور معروف شخصیات نے بھی مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ محسنِ انسانیت حضور اقدس ﷺ کے ولادت کے دن کو منایا اور مبارک باد پیش کی۔ پاکستانی گلوکار اور اداکار علی ظفر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے نئے کلام کی ویڈیو شیئر کی اور لکھا کہ ’’آج وہ دن ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے، یہ کلام میری طرف سے اُس ہستی کے لیے چھوٹا سا ہدیہ ہے، اللہ ہم سب پر اپنی سلامتی قائم رکھے‘‘۔

    اداکارہ مہوش حیات نے نعتِ رسول مقبول ﷺ کا شعر لکھا ’دعا جو نکِلی تھی دل سے آخر، پلٹ کے مقبول ہو کے آئی، وہ جذبہ جس میں تڑپ تھی سچی، وہ جذبہ آخر کو کام آیا!! زہے مقدر حضورِ حق سے سلام آیا پیام آیا!‘

    اداکار ہمایوں سعید نے عید میلاد النبی کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اللہ ہم سب کو  نبی ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اچھے انسان بن سکیں‘‘۔

    پاکستانی گلوکار و اداکار فخر عالم نے بھی ٹویٹ‌ کیا۔

    یاد رہے کہ جشن عید میلاد النبی ﷺ کے سلسلے میں کراچی سمیت ملک کے طول عرض میں عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا گیا جبکہ ہر سو درودو سلام کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔

    ویڈیو دیکھیں: سرفراز احمد کی خوبصورت آواز میں‌ نعتِ‌ رسول ﷺ ، ویڈیو دیکھیں

    جشن عید میلادالنبی کے سلسلے میں عاشقان رسول ﷺ نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے حوبصورت ماڈلز بنا کر سرور کائنات سے اظہار عقیدت کیا، رسول کریم ﷺ محبت کا تقاضا ہے کہ مسلمان متحد ہو کر معاشرے میں امن و آشتی قائم کریں کیونکہ آپ ﷺ نے امن و محبت، بھائی چارگی اور احترام انسانیت کا ہی درس دیا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔

  • معروف ریسلر جان سینا کی فلم ’پلیئنگ ود فائر‘ ریلیز

    معروف ریسلر جان سینا کی فلم ’پلیئنگ ود فائر‘ ریلیز

    واشنگٹن : معروف ریسلر جان سینا کی مزاحیہ فلم ’پلیئنگ ود فائر‘سینماء گھروں میں نمائش کیلئے پیش کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق معروف ریسلر جان سینا کی مزاح سے بھرپور فلم ’پلیئنگ ود فائر‘گزشتہ روز سینماء گھروں زینت بنی جسے شائقین نے بھرپور سراہا ہے۔

    جان سینا نے فلم کی ریلیز سے قبل پروموشنل تقریبات میں شرکت کی غرض سے ڈبلیو ڈبلیو ای سے بریک لے رکھی تھی۔

    ہالی ووڈ کی دھوم مچا دینے والی فلم میں فائرفائٹرزاور شرارتی بچوں کی دھما چوکڑی دکھائی گئی۔

    جب فائر سپرنٹینڈینٹ جیک کارسون اپنی ٹیم کے ساتھ گھر میں پھنسے تینوں بچوں کو ریسکیو کرتے ہیں البتہ بچوں کی مسلسل شرارتیں انہیں جدید مہارت کے باوجود پریشان کردیتی ہیں۔

    ایک فائر فائٹر بچوں کے قریب جاکر انہیں صورتحال سمجھانے کی کوشش کرتا ہے اسی دوران دیگر تین ریسکیو اہلکار بچوں کی نفسیات کو سمجھ جاتے ہیں۔

    فلم کی کاسٹ میں جان سینا، جوڈی گریر، کیگن مائیکل کی، بیراننا ہائی لیڈ برانڈ شامل ہیں۔

  • انور مسعود، جس نے  قہقوں سے مسائل بیان کیے

    انور مسعود، جس نے قہقوں سے مسائل بیان کیے

    لاہور: نامور پاکستانی مزاحیہ شاعر انور مسعود آج اپنی 84ویں سالگرہ منارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق انور مسعود کی پیدائش 8 نومبر 1935ء کو گجرات، پاکستان میں ہوئی، بعد ازاں آپ کے والد وہاں سے لاہور منتقل ہوگئے تھے۔انور مسعود نے ابتدائی تعلیم لاہور میں ہی حاصل کی جس کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ گجرات منتقل ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے گجرات زمیندارا کالج سے ایم اے فارسی کی ڈگری حاصل کی۔

    انور مسعود معروف شاعر ہونے کے ساتھ مختلف زبانوں پر مہارت رکھتے ہیں جنہیں نہ صرف وہ پڑھ سکتے بلکہ انہیں سمجھ اور لکھ بھی سکتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب کے مختلف کالجوں میں فارسی کے پروفیسر رہے۔

    انور مسعود کے اب تک گیارہ مجموعے شائع ہوئے جن میں سے کچھ پنجابی جبکہ بقیہ اردو زبان میں ہیں، انہوں نے ’فارسی ادب کے چند گوشے‘ کے نام سے مقالے کو بھی کتابی شکل میں شائع کروایا۔

    تصانیف

    میلہ اکھیاں دا – پنجابی (پنجاب رائٹرز گلڈ انعام یافتہ)

    شاخ تبسم – اردو

    غنچہ پھر لگا کھلنے – اردو

    میلی میلی دھوپ – اردو

    اک دریچہ اک چراغ – اردو

    قطعہ کلامی -(اردو قطعات)

    فارسی ادب کے چند گوشے -(مقالے)

    ہُن کیہ کریئے؟ -(پنجابی کلام) (ہجرہ انعام یافتہ)

    تقریب (تعارفی مضامین۔ اُردو)

    درپیش – (مزاحیہ اردو)

    بات سے بات -(مضامین)


    آپ کی مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری نے بہت ہی کم عرصے میں خاصہ بلند مقام حاصل کیا، اُن کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    مرد ہونی چاہیے خاتون ہونا چاہیے

    اب گرامر کا یہی قانون ہونا چاہیے

    ***

    وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی

    وہ جو نرم مثل حریر تھی

    وہ جو آملے کا اچار تھا

    تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

    ***

    غم و رنج عاشقانہ نہیں کیلکولیٹرانہ

    اسے میں شمار کرتا جو نہ بے شمار ہوتا

    وہاں زیر بحث آتے خط و خال و خوئے خوباں

    غم عشق پر جو انورؔ کوئی سیمینار ہوتا

    ***

    ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مسکان وغیرہ

    قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ

    بلی تو یوں ہی مفت میں بدنام ہوئی ہے

    تھیلے میں تو کچھ اور تھا سامان وغیرہ

    انور مسعود نے اپنی سالگرہ کا دن اہل خانہ کے ساتھ گزارا اور کیک کاٹا، پاکستان بھر میں اُن کے چاہنے والوں نے مزاحیہ شاعر کے لیے عمرِ خضر اور خوشیوں کے پیغامات بھی بھیجے۔