Category: فن و ثقافت

-فن و ثقافت

علمی اور ادبی مضامین اور خبریں

Cultural and Literary Stories, Essays and Writings

  • زبیدہ آغا: پاکستانی تاریخ میں پہلی بار آرٹ نمائش منعقد کرنے والی مصّورہ

    زبیدہ آغا: پاکستانی تاریخ میں پہلی بار آرٹ نمائش منعقد کرنے والی مصّورہ

    فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں مصوری بہت اہم اور قابلِ ذکر شعبہ ہے۔ ہمارے ملک میں ماڈرن آرٹ کے حوالے سے خاص طور پر خواتین میں جو چند نام سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک زبیدہ آغا ہے جن کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تھا۔ زبیدہ آغا 1922 میں پیدا ہوئیں اور ان کی زندگی کا سفر 1997 تک جاری رہا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے اسی معروف آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی تھی۔

    لاہور میں خواتین کے ایک کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے سیکھنا شروع کیا۔ ان کا اپنے استاد کے ساتھ یہ سفر طویل عرصہ جاری نہ رہا۔ 1944 سے 1946 تک وہ اپنے دور کے اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ ہر آرٹسٹ کی طرح پکاسو کا فن بھی زبیدہ آغا کو بھی اپنی جانب کھینچتا رہا۔ اس کے علاوہ وہ ایک قیدی فن کار  میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں جس کا تعلق اٹلی سے تھا اور وہ اس وقت انڈیا کا جنگی قیدی تھا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے تخیل اور مشاہدے کے ساتھ اساتذہ سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنی بناتی تھی۔

    2002 میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے  آرٹ اور  اس فن میں مہارت  کو سراہا۔ 2006 میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

  • 60 سال قبل مرنے والا ہیرو فلم میں دوبارہ کاسٹ

    60 سال قبل مرنے والا ہیرو فلم میں دوبارہ کاسٹ

    واشنگٹن : فلمی لیجنڈ جیمز ڈین موت کے 60 برس بعد پھر اسکرین پر واپس آنے کےلیے تیار ہیں، جیمز ڈین کی واپسی پرانی تصاویر اور ویڈیوز سے سے یقینی بنائی جائے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق معروف ہالی ووڈ اسٹار جیمز ڈین ایک مرتبہ پھر اسکرین پر اپنی صلاحیتوں کا جادو دکھانے کےلیے تیار ہیں جو سنہ 1955 میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔

    ہالی ووڈ رپورٹر کا کہنا تھا کہ جیمز ڈین 24 سال کی عمر میں ایک کار حادثے کا شکار ہوئے تھے جو ان کی موت کا باعث بنا تھا لیکن اب وہ ویت نام جنگ پر بنائے گئے ایکشن سے بھرپور ڈرامہ ’فائنڈنگ جیک‘ میں بعد از مرگ کاسٹ کرلیے گئے ہیں۔

    پروڈکشن ہاؤس میجک سٹی فلمز نے گیرتھ کروکر کے 2008 کے ناول میں ہالی ووڈ لیجنڈ کی شبیہ دکھانے کےلیے ان کے اہل خانہ سے ان کی تصاویر استعمال کرنے کے حقوق حاصل کرلیے ہیں۔

    واضح رہے کہ کتاب کی کہانی امریکی فورسز کے کتوں کے گرد گھومتی ہے جنہیں ویت نام میں تعینات کیا گیا تھا تاہم بعد میں انہیں ویتنام میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔

    جیمز ڈین1950 میں دنیا بھر کی پسندیدہ فلمی شخصیت بن گئے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی ختم ہونے قبل ’ریبل ودآؤٹ کاز‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ میں بھی اداکاری کرچکے ہیں۔

     

    ہالی ووڈ رپورٹر کا کہنا ہے کہ ڈین اس نوجوانوں کے لیے رول ماڈل اور ہر دلعزیز شخصیت بن چکے تھے۔

    مستقبل میں سینما گھروں کی زینت بننے والی فلم میں جیمز ڈین روگن کے کردار میں نظر آئے گے جس کو کہانی میں ثانوی مرکزی کردار کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

    فلم کے شریک ڈائریکٹر انتون ارنسٹ کا کہنا ہے کہ ہم نے مذکورہ کردار کےلیے کئی مہینوں بہترین اداکار تلاش کرنے کے بعد روگن کے کردار کےلیے جیمز ڈین کو ہی کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہمیں بہت فخر محسوس ہورہا ہے کہ جیمز کے اہل خانہ ہمارا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جیمز ڈین کی شخصیت ایک لیجنڈ فلم اسٹار کے طور پر برقرار رہے۔

    ڈین کی شبیہہ آرکائیو فوٹیج اور تصاویر کے استعمال سے کمپیوٹر سے تیار کردہ امیجری (سی جی آئی) کے ذریعے تیار کی جائے گی ، جبکہ دوسرا اداکار اپنی آواز فراہم کرے گا۔

    دوسری جانب لوگوں نے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ کیپٹن امریکا مشہور کردار نبھانے والے اداکار کرس ایونز نے ٹویٹ میں کہا کہ ’یہ انتہائی افسوس ناک ہے ممکن ہے ہمیں پکاسو پینٹ کےلیے نیا کمپیوٹر مل جائے، یہاں نہ سمجھنے کی کمی شرمناک ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فلم اگلے نومبر میں ریلیز کی جائے گی، اس کے بنانے والوں کو امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال دوسرے مردہ کرداروں کو بھی دوبارہ پردے پر لانے میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔

  • اداکارہ جویریہ سعود کے گھر پر قرآن خوانی کی محفل

    اداکارہ جویریہ سعود کے گھر پر قرآن خوانی کی محفل

    کراچی: پاکستان کی فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے اداکار جوڑے سعود اور جویریہ سعود کے گھر پر قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق تین روز قبل یعنی پانچ نومبر کو جویریہ سعود کے والد کی برسی تھی، اس ضمن میں انہوں نے اپنے گھر میں قرآن خوانی کی محفل کا انعقاد کیا۔

    اداکارہ نے قرآن خوانی میں شرکت کے لیے اپنے بہن بھائیوں اور دیگر رشتے داروں کو دعوت دی۔  محفل کے دوران گھر میں باجماعت نماز کی ادائیگی بھی کی گئی جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔

    یاد رہے کہ جویریہ اور سعود مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اداکار سعود نامور ثنا خواں قاری وحید ظفر قاسمی کے بھانجے ہیں جبکہ شوبز انڈسٹری میں آنے سے قبل اداکارہ بھی تلاوت اور نعت مختلف مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں جویریہ نے یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا اور انہوں نے اپنے عالیشان گھر کے مختلف حصوں کی ویڈیو دو پارٹ میں کر کے شیئر کی۔

    یاد رہے کہ جویریہ اور سعود 2005 میں ازدواجی بندھن میں بندھے تھے جس کے بعد اُن کے ہاں 2007 میں بیٹی جنت اور 2011 میں بیٹے ابراہیم کی پیدائش ہوئی۔ اداکار جوڑا اپنا اپنا پروڈکشن ہاؤس چلا رہا ہے۔

  • اب سے موسیقی اور تھیٹر سعودی عرب کے تعلیمی نصاب کا حصّہ ہوگا

    اب سے موسیقی اور تھیٹر سعودی عرب کے تعلیمی نصاب کا حصّہ ہوگا

    ریاض : سعودی وزیر تعلیم نے کہا ہے ک نئی ثقافتی اور فنی سرگرمیوں کے اجازت ناموں کے اجرا کا اختیار وزارت ثقافت کو منتقل کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزیر تعلیم کے ساتھ ملاقات کے بعد شہزادہ بدر نے انکشاف کیا ہے کہ مملکت کے اسکولوں میں موسیقی، تھیٹر اور دیگر فنون متعارف کرائے جائیں گے۔

    عرب ٹی وی کے مطابق سعودی وزیر ثقافت نے ٹویٹر پر اسکول کے بچوں کے میوزیکل بینڈ کی ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصویر بھی پوسٹ کی اور اس کے ساتھ یہ عبارت تحریر کی خوب صورت دن واپس آئیں گے۔

    دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر تعلیم حمد آل الشیخ کا کہنا تھا کہ وہ ابتدائی طور پر وزیر ثقافت کے ساتھ متفق ہو گئے ہیں جس کے تحت تعلیمی نصاب اور سرگرمیوں میں بعض فنون کو شامل کیا جائے گا اور نئی ثقافتی اور فنی سرگرمیوں کے اجازت ناموں کے اجرا کا اختیار وزارت ثقافت کو منتقل کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ سعودی حکومت وژن 2030 کے تحت مختلف اقدامات کررہی ہے، مملکت میں اس حوالے سے روشن خیالی سے متعلق اہم اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔

  • جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید بھائی جون کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ضرور ہوتے تھے، مگر مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    علمی مباحث اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے جون ایلیا تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات، سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے۔

    آج نظم اور نثر پر یکساں قادر، منفرد اسلوب کے حامل اورعظیم تخلیق کار جون ایلیا کی برسی منائی جارہی ہے۔
    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔

    آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جون ایلیا نے روایت سے ہٹ کر اپنے محبوب سے براہِ راست کلام کیا۔ یہ قطعہ دیکھیے:

    شرم، دہشت جھجھک، پریشانی
    ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
    آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
    تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

    ایک اور شعر دیکھیے:

    کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
    تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

    یہ شعر ملاحظہ ہو:

    اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
    کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

    جون ایلیا کی زندگی میں ان کا صرف ایک ہی مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان تھا، شاید۔ اس کتاب کا دیباچہ جون کی زندگی کے مختلف واقعات سے آراستہ ہے۔ اس کتاب کے ان چند صفحات نے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔

    جون ایلیا کی شاعری نے ہر عمر اور طبقے کو متاثر کیا۔ ان کا حلیہ، گفتگو اور مشاعرے پڑھنے کا انداز بھی شعروسخن کے شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔ وہ اپنے عہد کے ایک بڑے تخلیق کار تھے، جس نے روایتی بندشوں سے غزل کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

    محبوب سے شکوہ کرنا ہو یا رسوا، زمانے کے چلن سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہو یا کسی رویے پر چوٹ، جون ایلیا خوف زدہ نظر نہیں آتے۔ وہ بات کہنے اور بات بنانے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔

    علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
    وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

    اور یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

    بہت نزدیک آتی جارہی ہو
    بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

    یہ شعر دیکھیے:

    نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
    تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

    جون ایلیا ایک شاعر، مصنف، مترجم اور فلسفی کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ اردو زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور عبرانی بھی جانتے تھے اور ان کے کلام میں ان زبانوں کے الفاظ اور تراکیب پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    جون ایلیا نے زندگی کو اپنی ہی نظر سے دیکھا، سمجھا، اور اپنے انداز سے گزارا۔ وہ کسی کی پیروی اور تقلید کے قائل نہ تھے۔ ان کا باغی طرزِ فکر، ہر شے سے بیزاری اور تلخی ان کی شخصیت کا ایک حصہ بن چکی تھی۔

    جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
    ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں بہ خدا نہیں کیا

    8 نومبر 2002 کو جون ایلیا اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کا ایک شعر ہے:

    ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
    دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

  • کیا دنیا کا بدترین کھانا لندن میں ملتا ہے؟

    کیا دنیا کا بدترین کھانا لندن میں ملتا ہے؟

    پاکستان کے باسی روشن مستقبل کی خاطر لندن اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرتے ہیں، لیکن خواجہ احمد عباس نے لندن کی سیر کرنے کے بعد اپنے سفر نامے میں جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر آپ تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    کہنہ مشق صحافی، ادیب اور  فلم ساز خواجہ احمد عباس نے 17 ملکوں کے مختلف ممالک کی سیرکی تھی اور لندن میں بھی قیام اور  سیروسیاحت کا لطف اٹھایا تھا، یہ 1938 کی بات ہے. خواجہ احمد عباس نے اس زمانے میں لندن سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کو سفرنامے کی شکل دی تو  لکھا کہ لندن کو دنیا کے بدترین کھانوں کا مرکز کہا جاسکتا ہے۔

    انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ یہاں صبح و شام ابلے ہوئے گوشت، ابلے ہوئے آلو اور ابلی ہوئی گوبھی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ بہترین کھانا صرف ہندوستانی ہوٹلوں میں ملتا ہے۔

    اپنے سفر نامے میں شگفتہ بیانی کرتے ہوئے خواجہ احمد عباس نے مزید لکھا ہے۔

    صفائی پسند انگریز دن میں صرف ایک بار منہ دھوتے ہیں اور ہفتے میں ایک بار نہاتے ہیں۔ اخبارات میں زیادہ تر خبریں قتل، ڈاکے اور بدکاری کے متعلق ہوتی ہیں۔ ہر قتل کی واردات کی تفصیل شایع کی جاتی ہے اور ہندوستان کی اہم ترین خبر ایک دو سطروں میں ٹال دی جاتی ہے۔

    خواجہ احمد عباس کو 1938 میں 17 ملکوں کی سیاحت کا موقع ملا تھا جس کے بعد ہندوستان واپسی پر انھوں نے ان ملکوں میں قیام اور سیاحت کی روداد کو شگفتہ پیرائے میں رقم کیا۔ اس سفر نامے کو مصنف کے قلم کی روانی، اسلوب کی انفرادیت اور سادہ پیرایۂ اظہار کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔

  • جب شاعرِ مزدور نے جمعداروں کی نگرانی کرنے کا ارادہ کیا!

    جب شاعرِ مزدور نے جمعداروں کی نگرانی کرنے کا ارادہ کیا!

    احسان دانش اردو ادب کی ان چند شخصیات میں سے ہیں جن کا فن اور فکر آسودہ حالی، معاشی بے فکری کے ساتھ نظم کی شکل میں نہیں ڈھلا بلکہ اس کی آب یاری زندگی کی تلخیوں، مصائب، کڑے حالات اور معاشی تگ و دو نے کی۔

    احسان دانش نے زندگی کے کئی اتار چڑھاؤ اور روپ دیکھے۔ کبھی مزدوری کی، مالی بن کر کسی گلستاں کو سنوار تو پیٹ کی خاطر چپراسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ غرض کوئی بھی کام ملا کر لیا۔ لیکن اس محنت اور کڑی مشقت کے ساتھ ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا۔

    احسان دانش کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔

    اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی زندگی صبح سے رات تک محنت مشقت کرنے اور اگلے دن پھر معاش کی فکر میں گزر جاتی۔ احسان دانش نے محنت سے کبھی منہ نہ موڑا اور حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔

    معروف ادیب اور باکمال خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
    احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔

    احسان دانش عوامی شاعر اور باکمال انشا پردار کی حیثیت سے آج بھی اردو ادب کی تاریخ میں زندہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اس مقبول ترین شاعر کا کلام انقلاب آفریں نغمات، عوامی جذبات کی ترجمانی اور رومان پرور خیالات سے آراستہ ہے۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

  • ملکہ حسن 2019 کا تاج بنگلادیشی طالبہ کے نام

    ملکہ حسن 2019 کا تاج بنگلادیشی طالبہ کے نام

    ڈھاکا: مس یونیورس کے مقابلے میں پہلی بار حصہ لینے والی بنگلادیشی طالبہ نے ملکہ حسن 2019 کا تاج اپنے سرپر سجالیا۔

    غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق بنگلادیشی دارالحکومت ڈھاکا میں گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل کنونشن سٹی بسندھار  میں مقابلۂ حسن کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق شیرین اختر شیلا کو فائنل میں جیوری کی جانب سے 68ویں مس یونیورس کے اعزاز سے نوازا گیا اور ان کی تاج پوشی بھی کی گئی۔ شیرین اختر شیلا نے کسی بھی مقابلۂ حسن میں پہلی بار حصہ لیا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔مس یونیورس منتخب ہونے والی خاتون فزکس تھرڈ ایئر کی طالبہ ہیں۔

    بھارتی اداکارہ ، ماڈل اور 1994 میں مقابلہ حسن جیتنے والی سشمتا سین نے نوجوان حسینہ کو تاج پہنچایا۔

    اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق ملکہ حسن کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اس اہم موقع کا حصہ بننے پر بہت خوشی ہے، آج ہم نے تاریخ رقم کی اور آپ جانتے ہیں کیوں؟ آج پہلی بار بنگلادیش کی نمائندگی ہوئی اور یہ اعزاز  اُن کو ہی ملا‘‘ْ

    مزید پڑھیں: مینیجمنٹ سائنسس کی طالبہ وینیزویلا کی ملکہ حسن منتخب

    مقابلہ حسن میں نیپال، بھارت اور سرلنکا نے حصہ لیا جبکہ پاکستان نے مس یونیورس کے مقابلے میں شرکت نہیں کی۔

  • سائنس فکشن فلم ’ٹرمینیٹر دارک فیٹ‘ کی باکس آفس پر حکمرانی قائم

    سائنس فکشن فلم ’ٹرمینیٹر دارک فیٹ‘ کی باکس آفس پر حکمرانی قائم

    لاس اینجلس : ہالی ووڈ سائنس فکشن فلم’ٹرمینیٹر‘کے سیکوئل’ٹرمینیٹر دار فیٹ‘ نے ریلیز کے پہلے تین روز 12 کروڑ ڈالرز کا ریکارڈ بزنس کرکے باکس آفس پر تہلکہ مچاد دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ہالی ووڈ کی ایکشن فلم ٹرمینیٹر ڈارک فیٹ نے ریلیز کے پہلے تین دنوں میں عالمی باکس آفس پر 18 ارب سے زائد کما کر باقی تمام فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ساڑھے 18 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی ایکشن سے بھرپور فلم ٹرمینیٹر کے سیکوئل نے عالمی باکس آفس پر12 کروڑتین لاکھ ڈالرز کا بزنس کیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی باکس آفس پربھی ایکشن سے بھر پور فلم نے نمبر ون کی پوزیشن حاصل کرلی، فلم کو امریکا کے چار ہزار سے زائد سنیما گھروں میں ریلیزکیا گیا۔

    خیال رہے کہ ایڈونچر سے بھر پور سیریز کی پہلی فلم 1984 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    آرنلڈ اور لنڈا ہیملٹن کی ’ٹرمینٹر ٹو‘ میں واپسی

    واضح رہے کہ سائنس فکشن فلم ٹرمینیٹر دار فیٹ میں ایک بار پھر سے آرنلڈ شوارزنیگر اور لِنڈا ہیملٹن نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں، ہدایت کار ایلن ٹیلر کی اس فلم کی کہانی گزشتہ فلموں کی طرح عظیم مشن انجام دیتے جدید روبوٹس کے گِرد گھوم رہی ہے۔

  • میرا بھارت مہان کہنے میں‌ شرم محسوس ہوتی ہے، بھارتی مصنفہ

    میرا بھارت مہان کہنے میں‌ شرم محسوس ہوتی ہے، بھارتی مصنفہ

    نئی دہلی : بھارتی مصنفہ نے کہا کہ کشمیریوں کی آواز دنیا کو سنانے والے صحافیوں کو بھارتی فورسز کی دہشتگردی کا سامنا، خواتین صحافیوں کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کی نامور مصنفہ اور لکھاری ارون دھتی رائے نے کہاہے کہ بھارت کو مہان کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس ملک کی سچائی مقبوضہ کشمیر کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

    بھارتی شہر جالندھر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی دانشور ارون دھتی رائے نے اپنے ملک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم خاموش تماشائی بن کر ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق انتہا پسند مودی نے تاریخ میں ظلم کی گھناونی مثال قائم کر دی ہے، کشمیریوں کو انہی کی زمین پر قید کیے 3 ماہ کا عرصہ گزر گیا جس سے وادی میں قحط کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔

    مقبوضہ وادی میں کاروبار اور تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، کشمیری معیشت ٹھپ ہوچکی اور ہزاروں طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔

    مقبوضہ جموں و کشمیر ذرائع نقل وحمل اور ہر طرح کے مواصلاتی رابطے منقطع ہیں جس سے شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

    کشمیریوں کی آواز دنیا کو سنانے والے صحافیوں کو بھارتی فورسز کی دہشتگردی کا سامنا ہے اور خواتین صحافیوں کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔