اگر اردو نثر و ںظم میں خواجہ الطاف حسین حالی کو ایک مجدّد اور تنقید کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا تو ‘یادگارِ غالب’ بھی وہ سوانح ہے جو حالی کی شناخت اور پہچان کبھی ماند نہیں پڑنے دے گی۔ الطاف حسین حالی، مرزا غالب کے ایک ایسے معتقد تھے جن کی غالب سے دوستی بھی تھی، اور ان کے وہ شاگرد بھی تھے۔
یہاں ہم اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کی زندگی کے آخری ایّام، اُن کی خوراک اور انھیں مرغوب غذا کے بارے میں حالی کی تحریر سے یہ پارے نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔
"مرزا کی نہایت مرغوب غذا گوشت کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔ ایک وقت بھی بغیر گوشت کے نہیں رہ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ مسہل کے دن بھی انہوں نے کھچڑی یا شوربہ نہیں کھایا۔ اخیر میں ان کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی۔ صبح کو وہ اکثر شیرہ بادام پیتے تھے۔ دن کو جو کھانا ان کے لئے گھر میں سے آتا تھا اس میں صرف پاؤ سیر گوشت کا قورمہ ہوتا تھا۔ ایک پیالہ میں بوٹیاں اور دوسرے میں لعاب یا شوربہ، ایک پیالی میں ایک پھلکے کا چھلکا شوربے میں ڈوبا ہوا۔ ایک پیالی میں کبھی کبھی ایک انڈے کی زردی، ایک اور پیالی میں دو تین پیسہ بھر دہی اور شام کو کسی قدر شامی کباب یا سیخ کے کباب۔ بس اس سے زیادہ ان کی خوراک اور کچھ نہ تھی۔
ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر کہا، ’’اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجے تو میرا دسترخوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا۔‘‘
ایک دن قبل غروب آفتاب کے مرزا صاحب شام کو کھانا کھا رہے تھے اور کھانے میں صرف شامی کباب تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا اور ان کے سامنے بیٹھا رومال سے مکھیاں جھل رہا تھا، مرزا نے کہا آپ ناحق تکلیف فرماتے ہیں، میں ان کبابوں میں سے آپ کو کچھ نہ دوں گا۔ پھر آپ ہی یہ حکایت بیان کی۔ نواب عبدالاحد خاں کے دسترخوان پر ان کے مصاحبوں اور عزیزوں اور دوستوں کے لئے ہر قسم کے کھانے چنے جاتے تھے، مگر خاص ان کے لئے ہمیشہ ایک چیز تیار ہوتی تھی۔ وہ اس کے سوا کچھ نہ کھاتے تھے۔ ایک روز ان کے لئے مز عفر پکا تھا وہی ان کے سامنے لگایا گیا۔ مصاحبوں میں ایک ڈوم بہت منہ لگا ہوا تھا جو اس وقت دسترخوان پر موجود تھا۔ نواب نے اس کو کھانا دینے کے لئے خالی رکابی طلب کی۔ اس کے آنے میں دیر ہوئی۔ نواب کھانا کھاتے جاتے تھے اور خالی رکابی بار بار مانگتے تھے۔ وہ مصاحب نواب کے آگے رومال ہلانے لگا اور کہا، ’’حضور رکابی کیا کیجیے گا اب یہی خالی ہوئی جاتی ہے۔‘‘ نواب یہ فقرہ سن کر پھڑک گئے اور وہی رکابی اس کی طرف سرکا دی۔ "
دلّی کے غریبوں میں بھی یہ بات تھی کہ وہ کسی نہ کسی ہنر میں یکتا ہونا چاہتے تھے، چنانچہ جو ہنر یا فن انہیں پسند آتا اسے اس فن کے استاد سے باقاعدہ سیکھتے تھے۔
استاد اپنے شاگردوں سے پیسہ کوڑی نہیں لیتے تھے۔ اس لیے بڑے بے نیاز ہوتے تھے۔ شاگرد خدمت کر کے استاد کے دل میں گھر کر لیتا تھا اور کسی بات سے خوش ہوکر استاد شاگرد کو دوچار گُر بتا دیا کرتا تھا۔
دراصل خدمت لینے میں یہ گُر پوشیدہ تھا کہ استاد شاگرد کی خو بُو سے اچھی طرح واقف ہو جاتا تھا۔ استاد کو اندازہ ہو جاتا کہ شاگرد اس فن کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ اطاعت و فرماں برداری کرتا ہے یا نہیں۔ جو کچھ ہم کہیں گے اسے مانےگا یا نہیں؟ اگر ہم نے بتایا اور اس نے نہ کیا تو ہماری بات نیچی ہوگی اور شاگرد کا کچا پن ہماری بدنامی کا باعث ہوگا، لہٰذا خوب کَس لیتے تھے۔ کوڑی پھیرا بازار کا کراتے، برتن منجھواتے، گھر کی جھاڑو دلواتے، ہاتھ پاؤں دبواتے۔ جو اِن ناگواریوں کو گوارا کر لیتا، اسے اس کے ظرف کے مطابق اپنا فن یا ہنر سکھا دیتے۔ نااہل کو کبھی کوئی استاد کچھ نہ دیتا تھا۔ اناڑی کے ہاتھ میں تلوار دینا بندر کے ہاتھ میں استرا دینا ان کے نزدیک گناہ تھا۔
معمولی سی بات ہے پنجہ لڑانا، مگر دلّی میں اس کے بھی استاد تھے۔ پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا اور اس کی بھی کچھ رکاوٹیں تھیں جنہیں استاد سے سیکھا جاتا تھا۔ دلّی کے میر پنجہ کش کا نام بہت مشہور ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پنجہ لڑانے والوں کا خط خراب ہو جاتا ہے، مگر میر پنجہ کش نہ صرف پنجہ کشی کے استاد تھے بلکہ اپنے زمانے کے اعلیٰ درجہ کے خوش نویس بھی تھے۔ ان کی لکھی ہوئی وصلیاں دیکھ کر آج بھی آنکھوں میں نور آتا ہے۔ اٹھارہ سال پہلے تک دلّی میں بعض نامی پنجہ کش تھے جو اپنے شاگردوں کو زور کراتے اور پنجے کے داؤ پیچ بتاتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دبلا پتلا سا نوجوان ہے جو ایک قوی ہیکل دیہاتی سے پنجہ پھنسائے بیٹھا ہے۔ دیہاتی کا چہرہ زور لگا لگا کر سرخ ہوا جا رہا ہے مگر نوجوان کا ہاتھ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس نے کچھ اس انداز سے انگلیاں چڑھا رکھی ہیں کہ دیہاتی کی ساری طاقت بیکار ثابت ہو رہی ہے۔
جب دیہاتی کام یاب نہیں ہوتا تو کہتا ہے، ’’نہیں جی، یوں نہیں میری انگلی اتر گئی تھی۔‘‘ پھر خوب انگلیاں جما کر کہتا ہے، ’’ہاں اب لو۔‘‘ مگر اب کے بھی اس کی پیش نہیں جاتی۔ کہتا ہے، ’’میاں جی اب تم موڑو۔‘‘ نوجوان اس کا پنجہ ایسے پھیر دیتا ہے جیسے موم کا ہو۔ دیہاتی حیران ہوکر کہتا ہے، ’’ٹھیرو میاں جی، مجھے اپنی انگلیاں تو جما لینے دو۔‘‘
’’لے بھئی چودھری، تو بھی کیا یاد کرے گا خوب گانٹھ لے۔ اچھا اب ہوشیار ہو جاؤ۔‘‘ اور پھر چودھری کا پنجہ نہیں رکتا اور پھرتا چلا جاتا ہے۔ دراصل ہنر اور فن میں گاؤ زوری نہیں چلتی۔ جبھی تو رستمِ زماں گاما پہلوان اپنے سے دوگنے پہلوانوں کو مار کر لیا کرتا تھا۔
(اردو کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، ماہرِ موسیقی اور مدیرِ مشہور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی کے مضمون دلّی کے حوصلہ مند غریب سے اقتباس)
انگریزی زبان سے ہماری مرعوبیت اور اپنی قومی زبان اردو سے بے اعتنائی اور اس سے دوری کی ایک وجہ ہمارا وہ احساسِ کمتری بھی ہے جس کی ابتدا ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں ہوگئی تھی اور معاشرہ مغربی تہذیب و ثقافت سے متأثر ہونے لگا تھا۔
مولانا عبد الماجد دریا بادی 1977ء میں انتقال کرگئے تھے۔ وہ اپنے وقت کے ایک بے مثل ادیب، جیّد صحافی، نقاد، محقق اور مفسرِ قرآن تھے۔ مولانا کو ایک مصلح اور اپنی قوم کا خیرخواہ بھی سمجھا جاتا ہے جن کے ایک شگفتہ مضمون سے یہ اقتباسات اس دور میں انگریزی زبان کے زیرِ اثر لوگوں کے خیالات میں تبدیلی سے آگاہ کرتے ہیں۔
عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں: اگر آپ کا تعلق اونچے طبقہ سے ہے تو کسی ’’سرا‘‘ میں ٹھہرنا آپ کے لیے باعث توہین، لیکن کسی ’’ہوٹل‘‘ میں قیام کرنا ذرا بھی باعث شرم نہیں، حالاں کہ دونوں میں کیا فرق بجز اس کے ہے کہ ’’سرا‘‘ مشرقی ہے، ہندوستانی ہے، دیسی ہے اور ’’ہوٹل‘‘ مغربی ہے، انگریزی ہے، ولایتی ہے۔
کوئی اگر یہ کہہ دے کہ ’’سرا‘‘ کے فلاں ’’بھٹیارے‘‘ سے آپ کا یارانہ ہے تو آپ اس کا منہ نوچ لینے کو تیار ہو جائیں لیکن فلاں ہوٹل کے منیجر سے آپ کا بڑا ربط و ضبط ہے اسے آپ فخریہ تسلیم کرتے ہیں۔ حالانکہ سرا کے ’’بھٹیارے‘‘ اور ہوٹل کے ’’منیجر‘‘ کے درمیان بجز ایک کے دیسی اور دوسرے کے ولایتی ہونے کے اور کوئی فرق ہے؟ کسی مدرسہ میں اگر آپ ’’مدرس‘‘ ہیں تو بات کچھ معمولی ہی ہے، لیکن کسی ’’کالج‘‘ میں آپ ’’لیکچرار‘‘ یا ’’پروفیسر‘‘ ہیں تو معزّز ہیں، صاحبِ وجاہت ہیں، حالانکہ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے ’’مدرّس‘‘ اور پروفیسر‘‘ ایک ہی چیز ہیں۔
ندوہ کے ’’دارُالاقامہ‘‘ میں اگر آپ قیام پذیر ہیں تو آپ کا دل کچھ خوش نہیں ہوتا لیکن اسی ’’دارُالاقامہ‘‘ کا نام جب آپ ’’شبلی ہوسٹل‘‘ سنتے ہیں تو آپ کا چہرہ فخر و خوشی سے دمکنے لگتا ہے۔ ’’مدرسہ‘‘ میں اگر آپ پڑھتے یا پڑھاتے ہیں تو خود اپنی نظروں میں آپ بے وقعت ہیں لیکن اگر آپ کا تعلق کسی ’’کالج‘‘ سے ہے تو پھر آپ سے زیادہ معزّز کون ہے؟ اب ہر مدرسہ طبیہ، طبیہ اسکول اور ’’مدرسہ تکمیلُ الطّب‘‘ اور ’’مدرسہ منبع الطّب‘‘ اب ’’تکمیل الطّب کالج‘‘ اور ’’منبع الطّب کالج‘‘ ہیں۔ مدرسہ وہاجیہ طبیہ کا زمانہ گیا۔ اب اس کا صحیح نام طبیہ وہاجیہ ’’کالج‘‘ ہے۔ طبی درس گاہوں کو چھوڑیے، خود دینی درس گاہوں کا کیا حال ہے؟ وہ دن گئے جب زبانوں پر ’’مدرسہ چشمۂ رحمت‘‘ کا تذکرہ تھا۔ اب وہ چشمۂ رحمت کالج ہے اور وہاں کے صدر مدرّس ’’پرنسپل‘‘ صاحب ہیں۔ مدرسۂ نظامیہ فرنگی محل کے سب سے بڑے استاد کو ’’صدر مدرّس‘‘ ذرا کہہ کے تو دیکھیے آپ کی غلطی کی تصحیح کی جائے گی کہ ان کا عہدہ اب صدر مدرسی کا نہیں ’’پرنسپلی‘‘ کا ہے۔
کوئی آپ سے کہے کہ یہ کیا آپ گلی میں کھڑے ہوکر ’’گلی ڈنڈا‘‘ کا تماشہ دیکھ رہے ہیں تو آپ شرما سے جائیں گے، لیکن آپ ’’کرکٹ‘‘ یا ’’فٹ بال‘‘ یا ہاکی کی میچ کھلے میدان میں دیکھ رہے ہوں گے، تو اس وقت نہ آپ اپنے بڑوں سے شرمائیں گے نہ چھوٹوں سے بلکہ عجب نہیں کہ گراں قدر ٹکٹ خریدنے کے بعد دوسروں کی طرف اکڑ کر دیکھیں۔ مینڈھے لڑاتے ہوئے یا بٹیر بازی یا مرغ بازی کرتے ہوئے اگر آپ کہیں پکڑ لیے گئے تو اپنے کو کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھیں گے لیکن جب شہر میں باکسنگ کا مقابلہ ہوگا یا کوئی HEAVY WEIGHT CHAMPION آ جائیں گے تو ان کا تماشہ دیکھنا تہذیب و روشن خیالی میں داخل۔ کہیں چوری چھپے ’’رہس‘‘ یا ’’نوٹنکی‘‘ دیکھنے کھڑے ہوجائیے تو خود آپ کی ثقافت اور وضع داری آپ پر لاحول پڑھنے لگے لیکن تھیٹر میں آدھی آدھی رات بے تکلف بسر کیجیے کہ ’’ڈراما‘‘ جیسے فنِ شریف کی شرافت و عظمت میں کسی کو کلام ہو سکتا ہے؟
فارسی کی کہاوت ہے ہَر کمالے را زوال اور اس عبرت سرا میں عروج و زوال کی ان گنت داستانیں، بلندی اور پستی کی بے شمار کہانیاں ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ اگر بات کریں فلم انڈسٹری کی تو کئی پری چہرہ آئے گئے اور ان کا پُرشباب دور نہایت شان دار طریقے سے تمام ہوا، لیکن ان میں چند ایسے ستارے بھی تھے جنھیں یا تو زمانہ سازی نہ آئی یا پھر وہ وقت کی ستم ظریفی کا نشانہ بنے۔ اے شاہ شکار پوری بھی ایسا ہی نام ہے جنھیں فراموش کردیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا کے ابتدائی دس، پندرہ برسوں میں تین مزاحیہ اداکاروں نے خوب نام کمایا اور یہ وہ کامیڈین تھے جنھیں فلموں کی کام یابی کی ضمانت تصوّر کیا جاتا تھا۔ انہی میں سے ایک اے شاہ شکار پوری تھے۔ ان کی فلمی دنیا میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلمی پوسٹروں پر ان کی تصویر نمایاں اور نام جلی حروف میں لکھا جاتا تھا۔ اپنے دور کے یہ مقبول کامیڈین اپنے زمانۂ عروج میں لاہور کے ایک شان دار مکان میں رہا کرتے تھے، لیکن آخری عمر میں وہ کرائے دار کے طور پر ایک تنگ کوٹھڑی میں رہنے پر مجبور تھے۔
اے شاہ شکار پوری کے ابتدائی حالاتِ زندگی کا علم تو بہت کم ہی کسی کو ہوسکا، لیکن کوئی کہتا ہے کہ وہ 1906ء میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے تھے اور بعض سوانحی خاکوں لکھا ہے کہ وہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کا اصل نام عبدُاللّطیف شاہ تھا اور فلمی دنیا میں انھیں اے شاہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان کے نام کے ساتھ "شکار پوری” کیوں لکھا گیا، اس بارے میں کہتے ہیں کہ 1947ء میں "مسٹر شکار پوری” ریلیز ہوئی تھی اور اس میں اے شاہ کا نام بطور اداکار، ہدایت کار اور نغمہ نگار شامل تھا، ٹائٹل رول بھی اے شاہ نے نبھایا تھا۔ غالباً اسی فلم کے بعد شکار پوری ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔ اسی سے یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ وہ سندھ کے مشہور شہر شکار پور کے باسی تھے۔
وہ اتنے مقبول کامیڈین تھے کہ درجنوں فلموں کی کہانیاں ان کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھوائی گئیں، اور اے شاہ نے ان میں ٹائٹل رولز کیے۔ پھر وہ وقت آیا جب کوئی پروڈیوسر، ڈائریکٹر اے شاہ کو فلم میں سائن نہیں کرتا تھا، اور وہ مکمل طور پر نظر انداز کردیے گئے، کیوں کہ وقت بدل چکا تھا اور لہری، رنگیلا، منور ظریف کا شہرہ تھا اور انہی کے نام پر فلمیں کام یاب ہونے لگی تھیں۔
اے شاہ شکار پوری کی بیوی ان پڑھ اور عام سی گھریلو عورت تھیں جن کے بطن سے انھیں بیٹے کی مسرّت نصیب ہوئی تھی۔ جب اے شاہ کو فلموں میں کام ملنا بالکل بند ہوگیا تو ان کے اکلوتے بیٹے امانت نے مزنگ بازار کے چھور پر جہاں سمن آباد کا پہلا گول چکر آتا ہے، پتنگوں کی دکان کھول لی۔ اے شاہ بھی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے نظر آتے۔ یہی دکان ان کی روزی روٹی کا اکلوتا ذریعہ تھی۔ وہ لاہور کے علاقے سمن آباد کا شان دار مکان چھوڑ چکے تھے اور اب نواں مزنگ میں ڈیڑھ مرلے کے ایک کھولی ٹائپ مکان میں رہنے لگے تھے۔ یہ گھر کیا تھا، ایک ڈبہ نما کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی رکھنے کے بعد دو تین آدمیوں کے بیٹھنے کی بمشکل گنجائش نکل آتی تھی۔
اے شاہ نے منفی اور ولن ٹائپ کے سنجیدہ سماجی کرداروں کو مزاحیہ انداز میں بخوبی نبھایا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اداکاری اور فلم سازی کے انھوں نے نغمہ نگاری بھی کی۔ ان کا تخلّص عاجز تھا۔ اے شاہ کے فلمی سفر کا آغاز تقسیمِ ہند سے قبل 1934ء میں ریلیز ہونے والی فلم فدائے توحید سے ہوا تھا۔ انھوں نے اُس دور میں متعدد فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ پاکستان میں اے شاہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم نوکر تھی جو 1955ء کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اسی سال کی ایک فلم حقیقت بھی تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار فلم ساز، ہدایت کار، نغمہ نگار اور اداکار کے طور پر نظر آئے لیکن کام یاب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے درجنوں فلموں میں بطور اداکار کام کیا۔ 1963ء اور 1966ء میں انھوں نے سماجی موضوعات پر بنائی گئی فلموں چاچا خوامخواہ اور چغل خور میں ٹائٹل رول کیے۔اے شاہ کی اپنی ایک فلم منشی سب رنگ بھی تھی جو ریلیز نہیں ہو سکی تھی۔
فلمی دنیا سے متعلق مضامین کے مطابق اے شاہ کی آخری پنجابی فلم اک نکاح ہور سہی تھی اور یہ بات 1982ء کی ہے۔ بطور کامیڈین ان کی یادگار پاکستانی فلموں میں حمیدہ، نوکر، سلمیٰ، موج میلہ، چوڑیاں، ڈاچی، نائلہ، جی دار، لاڈو، جند جان شامل ہیں۔
وہ پچاس کی دہائی کے وسط تک بھارت میں رہے اور پھر ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اے شاہ شکار پوری نے فلم ”بابل” میں دلیپ کمار کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔
پاکستانی فلموں کے اس کام یاب مزاحیہ اداکار نے 21 دسمبر 1991ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔
اطالوی مصوری کی دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک مصوّر موجود ہے، جنہوں نے آرٹ کی دنیا پر حکمرانی کی، لیکن ایسے مصور بھی ہیں، جنہیں زندگی نے مہلت کم دی، لیکن پھر بھی آرٹ کی دنیا میں انہوں نے اپنی قابلیت کا سکہ چلایا۔ اطالوی مصوّر ‘رافیل Raphael’ بھی ایسا ہی نبض شناس مصوّر تھا۔
سولہویں صدی کے وسط میں رافیل کا شمار دنیا کے بہترین مصوروں میں ہونے لگا تھا۔ اس نے مصوّری کے تمام مروجہ معیارات کو چھو لیا تھا۔
رافیل کا آرٹ ورک تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ اوّل، اپنے کریئر کی ابتدا میں کیا ہوا کام، جس میں تقریباً 21 فن پارے تخلیق کیے۔ دوم، وہ کام جو اس نے فلورنس میں کیا، اس عرصے میں کوئی 27 شاہکار بنائے اور سوم، وہ دور جب اس نے روم میں قیام کیا۔ رافیل کے عہد میں اس کے علاوہ مائیکل اینجلو اور لیونارڈو ڈاونچی جیسے ماہر مصور بھی کام کر رہے تھے۔ اس لیے یہ عہد مصوری کا ”ثلاثی عہد“ بھی کہلاتا ہے۔ ایک ایسا دور جس میں مصوری کے اساتذہ اپنی فنی مہارت کو کینوس پر بکھیر رہے تھے۔ اجسام کی مصوری میں رافیل کے کام کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
رافیل کی بنائی ہوئی مشہورِ زمانہ پینٹنگز میں دو بہت مقبول ہیں، جن میں سے ایک ”اسکول آف ایتھنز“ ہے۔ یہ تصویر دنیا کی ان چند پینٹنگز میں سے ہے جو es Fresco تکنیک پر بنی ہوئی ہے۔ Fresco تکنیک کی بنیاد Mural Painting ہے، یعنی ایسی پینٹنگ جو براہِ راست دیوار پر بنائی جائے۔ یہ تصویر 1510 سے 1511 کے درمیانی عرصے میں بنائی گئی۔ اسکول آف ایتھنز کے جمالیاتی پہلو بیان کرتے ہیں کہ رافیل نے کینوسز اور دیواروں پر ایک دنیا آباد کی۔
ایک ایسا جہاں، جس میں ارسطو اور افلاطون جیسے مفکر اور فلسفی محوِ گفتگو ہیں۔ دنیا کے دیگر عالم بھی سوچ میں غرق ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ حسن کی پیکر دیویاں بھی اس تصویر میں نمایاں ہیں۔ بچوں کی معصومیت اور زندگی کے رنگ، ان کے لباس اور چہرے کے تاثرات سے چھلک رہے ہیں۔
رافیل کی دوسری مشہور پینٹنگ ”دِی ویژن آف اِے نائٹ“ ہے۔ اس تصویر کو بنانے کے لیے اس نے مصوری کی ایک خاص تکنیک ”Egg Rempera“ کا استعمال کیا، یعنی پانی اور انڈے سمیت کئی اجزا کے عناصر کے پیسٹ سے پینٹنگ بنائی۔ اس تکنیک کو مصوری میں کلاسیکی درجہ حاصل ہے۔
اس پینٹنگ کا جمالیاتی پہلو یہ ہے، ایک جنگجو صرف تلوار اور کشت و خون کا ہی دلدادہ نہیں ہوتا۔ اس کو صرف جسم پر ہی زخم نہیں لگتے، بلکہ زندگی کی لڑائی میں اس کی روح بھی گھائل ہوتی ہے۔ اس کے خواب بھی ٹوٹتے ہیں۔ وہ پا پیادہ زندگی کو جینے اور اپنے آدرشوں کو پالینے کی تمنا لیے تشنگی کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہ تصویر بھی کچھ ایسے ہی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔
(فلمی ناقد، تحقیقی مضمون نگار اور مصنف خرّم سہیل کے ایک مضمون سے منتخب کردہ)
ہر شہر اور قریہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عام لوگوں سے مختلف اور یکتا شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور خصلتیں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور وہ ان کے محبوب بن جاتے ہیں۔ استاد رساؔ بھی ایسے ہی لوگوں میں ایک تھے۔
ان کی بنیادی شناخت تو شاعری تھی، لیکن شاعری کے سوا ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو وہ گالیاں تھیں جو پرانی دلّی میں آج بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ استاد رساؔ ایک قلندرانہ صفات کے حامل شاعر تھے، لیکن پرانی دلّی کے گلی کوچوں میں ان کا شہرہ شاعری سے زیادہ ان بلیغ گالیوں کی وجہ سے تھا جو ان کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت رہتی تھیں اور جنھیں سننے کے لیے لوگ ان سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ اردو شاعری کی پوری تاریخ میں شاید ہی ان جیسا کوئی دوسرا شاعر گزرا ہو جو شاعری اور گالیوں پر یکساں عبور رکھتا تھا۔
ڈاکٹر اسلم پرویز کے بقول: "ان کی گفتگو میں گالیوں کی مقدار نمک میں آٹے کی برابر ہوتی تھی۔”
جو کوئی ان کی گالیوں کا حال سنتا تو ان سے ملنے کا متمنی ہوتا تھا، لیکن وہ ہر ایرے غیرے کے سامنے گالیاں بکنا بھی کسرِ شان سمجھتے تھے۔ اس کے لیے ایک مخصوص موڈ اور محفل کی ضرورت ہوتی تھی اور انھیں مشتعل کرنے والا خاص پس منظر بھی۔
نہ جانے کب سے گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونے کی شعری حکایت جوں کی توں چلی آتی ہے۔ استاد رساؔ دہلوی کی گالیوں کی خوبی یہ تھی کہ کوئی انھیں سن کر بے مزہ نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض تو ایسے بھی تھے جو ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
استاد رساؔ حضرت بیخود دہلوی کے نہایت سعادت مند شاگرد تھے، لیکن خود ان کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ عرفِ عام میں ’استاد‘ مشہور ہو گئے تھے۔
استاد رساؔ کھرے دلّی والے تھے۔ وہ فصیل بند شہر کے لوگوں کو ہی اصلی دلّی والا مانتے تھے۔ دہلی کے باقی علاقوں میں رہنے والوں کو وہ ’غیر ملکی‘ تصور کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ انگریزوں نے جمنا کے اوپر پل بنا کر دلّی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ نہ یہ پُل ہوتا اور نہ باہر کے لوگ دلّی آتے۔ استاد رساؔ کا اپنا مکان حوض سوئیوالان میں تھا، لیکن وہ سب سے کم اسی علاقہ میں نظر آتے تھے۔سنا ہے انھیں فٹبال کھیلنے کا بھی شو ق تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک آزاد منش انسان تھے۔ بیوی بچوں کو بوجھ سمجھتے تھے، اس لیے یہ روگ بھی انھوں نے نہیں پالا تھا۔ ان کے مزاج اور چال ڈھال میں بلا کا بانکپن تھا۔ ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کے درمیان بیچ کا راستہ نہیں تھا۔ مخالفوں کا شجرۂ نسب انھیں منہ زبانی یاد رہتا تھا اور وقتِ ضرورت اس کے بیان میں انھیں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔
استاد رساؔ نے 8 اکتوبر 1976ء کو بہ عارضہ کینسر 76 سال کی عمر میں وفات پائی۔
کھیل کا میدان ہو یا اکھاڑا پُھرتی اور جسمانی طاقت کا مظاہرہ یا زور آزمائی آج بھی مختلف شکلوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ سب فن جیسا درجہ رکھتا تھا اور اس کے ماہر داد و تحسین بٹورتے تھے۔ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کے ہندوستان کی بات کریں تو مختلف گھریلو ساختہ اور سادہ ہتھیار شغل اور تفریح کے لیے ہی نہیں، جان و مال کی حفاظت اور کسی موقع پر اپنا دفاع کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔
اردو کے ممتاز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے یہ اقتباسات اُسی زمانے کے ماہر بنّوٹیوں اور غلیل بازوں سے متعلق ہیں، یہ باتیں اور واقعات دل چسپ بھی ہیں اور ہمارے لیے کسی حد تک حیران کُن بھی۔
لکڑی یا بِنَّوٹ کا فن بھی ایک ایسا ہی فن ہے جس کا جاننے والا قوی سے قوی حریف کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ یہ دراصل ’’بن اوٹ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی کوئی روک نہیں ہے۔ استاد گھنٹوں اس کے پینتروں کی مشق کراتے ہیں۔ بِنَّوٹیوں میں مچھلی کی سڑپ ہونی چاہیے۔ اگر چستی پھرتی نہیں ہو گی، مار کھا جائے گا۔ لدھڑ آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا فن ہے کہ اس پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر یہ فن سَر تا پا عمل ہے، اس لیے کسی استاد سے سیکھے بغیر نہیں آتا۔
دلّی کے 1947ء کے فسادات میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ جب ہندو لٹھ بندوں نے کسی محلّے پر حملہ کیا تو چند مسلمان لونڈے لکڑیاں لے کر باہر نکلے اور کائی سی پھٹتی چلی گئی، لٹھ دھرے کے دھرے رہ گئے اور ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے بھری ہو گیا۔ اپنی آنکھوں تو نہیں دیکھا، ہاں کان گنہگار ہیں کہ ایسے ایسے بھی بنوٹیے ہو گزرے ہیں جو تلواریے سے تلوار چھین لیتے تھے اور اس کی گٹھری بنا کر ڈال دیتے تھے۔ البتہ یہ کمال ہم نے ضرور دیکھا ہے کہ چارپائی کے نیچے کبوتر چھوڑ دیجیے، کیا مجال جو بنّوٹیا اسے نکل جانے دے۔ یہی کیفیت بانک، پٹہ، گتکہ، چھری اور علمی مد کے ہنر مندوں کی تھی۔ بجلی سی چمکی اور حریف ختم۔
تیر اندازی کے تو ہم نے قصے ہی سنے ہیں البتہ بعض بڈھوں کی غلیل بازی دیکھی ہے۔ وہ غلیل، یہ آج کل کی دو شاخہ وائی کی شکل کی غلیل نہیں ہوتی تھی۔ یہ کوئی دو ہاتھ لمبے لچک دار بانس کو چھیل کر بنائی جاتی تھی۔ اس کے دونوں سروں کے درمیان دہرا تانت کھینچ کر باندھا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل کمان جیسی ہو جاتی تھی۔ دہرے تانت کے بیچوں بیچ دو انگل چوڑا کپڑا غُلّہ رکھنے کے لیے ہوتا تھا۔ جب غلیل استعمال میں نہ ہوتی تو اس کا چلہ اتار دیا جاتا تھا تاکہ بانس کے جھکاؤ کا زور قائم رہے۔ غُلّے خاص طور سے چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے۔ اگر زیادہ مضبوط درکار ہوتے تو چکنی مٹی میں روئی ملالی جاتی تھی اور گیلے غلوں کو دھوپ میں سکھا لیا جاتا تھا۔ دلّی میں غلیل کا سچا نشانہ لگانے والے آخر وقت تک باقی تھے۔ چور کے پاؤں کی ہڈی غُلّے سے توڑ دیتے تھے۔
جس زمانے میں مکّہ سے مدینہ اونٹوں پر جایا کرتے تھے، تو دلّی کے ایک غلیل باز بھی حج کو گئے تھے۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ بعض دفعہ بدو لوگ قافلے کو لوٹ لیتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے ساتھ غلیل بھی لیتے گئے تھے۔ سوئے اتفاق سے ان کے قافلہ پر بدوؤں نے حملہ کر دیا۔ بڑے میاں نے اپنی غلیل کچھ فاصلے پر پھینک دی اور سب کے ساتھ کجاوے میں اتر آئے۔ جب بدو قافلے کو لوٹ کر گٹھریاں باندھنے میں مصروف ہوئے، تو بڑے میاں نے لٹیروں کے سردار کی پیشانی پر ایسا تاک کر غُلّہ (مٹّی کی خاص گولیاں جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں) مارا کہ وہ چِلّا کر گر پڑا۔ اب جو بھی چونک کر دیکھتا کہ یہ کیا معاملہ ہے اس کی کن پٹی پر غلہ لگتا اور وہ ڈھیر ہو جاتا۔
جب کئی جوان لوٹ گئے تو بڑے میاں نے للکار کر کہا، ’’خیریت چاہتے ہو تو مال چھوڑ دو اور اپنے آدمیوں کو اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ تم میں سے ایک بھی بچ کر نہیں جا سکے گا۔‘‘ بدؤں نے کچھ توقف کیا تو انہوں نے اتنی دیر میں دو ایک کو اور لٹا دیا۔ لہٰذا لٹیروں نے جلدی جلدی اپنے زخمیوں کو اٹھایا اور وہاں سے چمپت ہو گئے۔
دلّی میں ایسے بھی غلیل کے نشانہ باز کبھی تھے جو ایک غُلّہ ہوا میں اوپر مارتے اور جب وہ غُلّہ واپس آنے لگتا تو دوسرا غلہ اس پر مارتے اور دونوں غُلّے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر جاتے۔
یہ اردو کے مقبول ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کی زندگی کا ایک دل چسپ باب ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ والد ان کے مستقبل کے لیے فکر مند تھے اور اکثر ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ تک نوبت آجاتی تھی۔ اے حمید نے جھوٹ بول کر کس طرح ایک معمولی نوکری حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا۔ اے حمید کی زبانی جانیے۔
"یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں حسبِ عادت خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کر رہا تھا۔ صبح امرتسر تو شام لاہور میں ہوتی تھی۔”
"والد صاحب مجھے کسی جگہ مستقل ملازمت دلوانے کی فکر میں رہتے تھے۔ میں ان سے خوف زدہ بھی تھا۔ وہ پہلوان ٹائپ آدمی تھے اور ان کو میرے مستقبل کی فکر بھی تھی جو بڑی جائز بات تھی۔ میری حالت یہ تھی کہ کسی جگہ ٹک کر کام کرنا میرے مزاج کے بالکل خلاف بات تھی۔”
"ان کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ سے تنگ آکر میں کلکتہ اور بمبئی کی طرف بھی بھاگ جایا کرتا تھا، کبھی ان کے قابو آ جاتا تو کسی جگہ مہینہ ڈیڑھ مہینے کے لیے نوکری بھی کر لیتا تھا۔ چنانچہ جب میں نے پہلی بار عرب ہوٹل کو دیکھا تو اس زمانے میں اسلامیہ کالج کی لائبریری میں بطور کیئرٹیکر ملازم تھا۔ یہ ملازمت بھی میں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی۔”
"لائبریری کا لائبریرین ایک دُبلا پتلا، گورے رنگ کا کم سخن، بڑی ذہین آنکھوں والا دانشور قسم کا نوجوان جہانگیر تھا۔ پورا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ نوکری میں نے اس لیے بھی کر لی کہ چاروں طرف کتابوں کی الماریاں لگی تھیں۔ لائبریری میں بڑی خاموشی رہتی اور بڑا ادبی قسم کا ماحول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا رنگون کی آوارہ گردیوں سے واپس آیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لائبریری میں کام کرنے کا پہلے کوئی تجربہ ہے؟ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا… ’’جی ہاں! میں رنگون ریڈیو اسٹیشن کی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین تھا۔ حالانکہ مجھے لائبریری کے ٹیکنیکل کام کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ جہانگیر صاحب نے کچھ کتابیں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا…
’’ان کی کیٹے لاگنگ کر دو۔‘‘”
"میری بلا جانے کہ کیٹے لاگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ میں کتابیں سامنے رکھ کر یونہی ان کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ جہانگیر صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ میں اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ کام بالکل نہیں آتا لیکن اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو والد صاحب مجھے بہت ماریں گے۔ مسٹر جہانگیر بڑے شریف النفس اور درد مند انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کیئرٹیکر کی نوکری دے دی۔ میرا کام کتابوں کو اٹھا کر الماری میں رکھنا اور نکالنا تھا۔ مجھے لائبریری کا ماحول اور اسلامیہ کالج کے لمبے خاموش ٹھنڈے برآمدوں میں چلنا پھرنا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن یہ نوکری بھی میں نے دو مہینے کے بعد چھوڑ دی۔”
"پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔”
"پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔ میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے تھے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن ٹاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی۔”
یہ تذکرہ ہے بینَ الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار، شاعر اور مضمون نگار میلان کنڈیرا کا جنھوں نے موسیقی میں دل چسپی سے شاعری اور شاعری سے کہانی بُننے تک اپنے سفر کو لازوال بنایا۔
میلان کنڈیرا ایسے ناول نگار تھے جن کے نزدیک، اُن کی تخلیقات کے تراجم ایک دہشت ناک خواب تھے جنھیں پڑھ کر وہ پریشان ہوجاتے تھے۔ اس کی تفصیل دل چسپ بھی ہے اور شاید ایک بڑے ادیب کی اپنی کہانیوں کے مترجمین سے ناراضی کا اظہار بھی۔
میلان کنڈیرا یکم اپریل 1929 میں چیکوسلوواکیہ کے ایک شہر برنو میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک متوسط طبقے کے فرد تھے جس میں ان کے والد لڈوک کنڈیرا کو ایک موسیقار کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا جو پیانو بہت اچھا بجاتے تھے۔ میلان کنڈیرا نے بھی اپنے والد سے پیانو بجانا سیکھا۔ انھیں موسیقی سے حد درجہ لگاؤ رہا۔ ان کے ناولوں میں جگہ جگہ موسیقی پر مباحث ملتے ہیں۔ خاص طورپر ان کے مشہور ناول ‘دی جوک’ میں جس کا ایک طویل باب موسیقی کے انتہائی دقیق اورپیچیدہ مسائل پر مبنی ہے۔
میلان کنڈیرا کو موسیقی کے ساتھ بچپن سے ہی ادب سے شغف رہا۔ وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے جب پہلی نظم لکھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کنڈیرا نے جاز موسیقار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ کنڈیرا کا تعلق نوجوانوں کی اُس نسل سے ہے جسے جنگ عظیم سے پہلے کے چیکوسلوواکیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کے لیے چیکوسلوواکیہ کا ‘ری پبلک’ ہونا ایک خواب کے مانند رہا۔ دوسری جنگ عظیم اور چیکوسلوواکیہ پر جرمنی کے قبضے کے بعد نوجوانوں کی یہ نسل ایک خاص آئیڈیالوجی کی حامی ہوگئی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بھی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔
بعد میں وہ پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور جمالیات کے طالبِ علم رہے۔ سنہ 1952 میں کنڈیرا کا تقرر پراگ اکادمی آف پرفارمنگ آرٹ میں عالمی ادب کے پروفیسر کے طور پر ہوا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے اپنی نظمیں اور مضامین شائع کرانا شروع کیے اور کئی اہم ادبی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی۔
پچاس کی تقریباً پوری دہائی میں کنڈیرا نے بہت سے تراجم کیے، مضامین لکھے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ 1953 میں کنڈیرا کی نظموں کی پہلی کتاب ‘مین اے وائیڈ گارڈن’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1961 میں دی لاسٹ مئی اور 1965 میں ‘مونولاگز’ کے عنوان سے نظموں کے دو مجموعے اور شائع ہوئے۔ ان نظموں میں مارکسٹ آئیڈیالوجی کا اثر نمایاں ہے، مگر اس کے باجود کنڈ یرا اس کٹر قسم کی مارکسی فکر کے خلاف نظر آتا ہے جو اس زمانے میں ادب اور شاعری کا ناگزیر عنصر بن گئی تھی۔
1967 میں میلان کنڈیرا کا شاہکار ناول دی جوک شائع ہوا۔ اس ناول سے دنیا میں میلان کنڈیرا کا شہرہ ہوا، اور ان کی کہانیوں کے مجموعے لاف ایبل لوز کو بھی جو تقریباً اسی زمانے میں شائع ہوا تھا، بے حد سراہا گیا۔ ان کا دوسرا ناول 1972 میں فیئرویل والٹز شائع ہوا جسے زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ تیسرا ناول جس کا عنوان ’لائف از السویئر‘ تھا، پیرس سے 1973 میں شائع ہوا۔ 1975 میں اس نے پراگ کو خیرباد کہا اور فرانس آگیا۔ 1979 میں اسے چیکوسلوواکیہ کی شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کیوں کہ اس چوتھے ناول دی بک آف لافٹر اینڈ فارگیٹنگ میں جو کچھ لکھا گیا تھا، اسے چیکو سلوواکیہ کی حکومت برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ناول 1978 میں شائع ہوا تھا اور اسے میلان کنڈیرا کی شہرہ آفاق تحریر کا درجہ حاصل ہے۔
سن 1981 میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی شہریت اختیار کر لی تھی۔ 11 جولائی 2023 کو میلان نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔
یہاں ہم بین الاقوامی ادب میں نام و مرتبہ پانے والے میلان کنڈیرا کی ترجمے اور مترجمین کے بارے میں وہ رائے نقل کر رہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح کم علم مترجمین اپنے ناقص تراجم سے ادب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ میلان کنڈیرا نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار جارڈن ایلگرابلی سے گفتگو کے دوران کیا تھا جس کا ترجمہ بلند پایہ اہلِ قلم اور بہترین مترجم محمد عمر میمن نے کیا۔ میلان کنڈیرا کہتے ہیں۔
”آہ، یہ میرے تجربے کا سب سے زیادہ اندوہ ناک باب ہے۔ ترجمہ وہ دہشت ناک خواب ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں، بظاہر، اُن نادر ادیبوں میں سے ہوں جو اپنے تراجم کو اور میری حد تک یہ فرانسیسی، انگریزی، جرمن، حتیٰ کہ اطالوی میں ہوتے ہیں…. پڑھتا ہے، اور بار بار پڑھتا ہے، اُنہیں چھان پھٹک کر دیکھتا ہے اور اُن کی تصحیح کرتا ہے۔ چنانچہ، اپنے بیشتر ہم منصبوں کے مقابلے میں میں زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ترجمہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس کی وجہ سے باقاعدہ دہشت زدہ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ میں نے تقریباً چھ ماہ لگا کر ”مذاق“ کا فرانسیسی میں دوبارہ ترجمہ کیا۔ مترجم نے …. یہ سولہ برس پہلے کی بات ہے جب میں ابھی پراگ ہی میں سکونت پذیر تھا۔ میری کتاب کا ترجمہ کہاں کیا تھا، اُس نے تو اسے دوبارہ خود سے لکھ مارا تھا! اُسے میرا اسلوب بے حد روکھا پھیکا نظر آیا! اُس نے میرے مسودے میں سیکڑوں (جی ہاں، سیکڑوں!) آرائشی استعارے گھسیڑ دیے تھے؛ جہاں میں نے ایک ہی لفظ بار بار استعمال کیا تھا، وہاں اُس نے مترادفات بھڑا دیے تھے؛ صاحب، وہ تو ایک ”خوبصورت اسلوب“ تخلیق کر رہا تھا! جب، دس سال بعد، یہ قتلِ عام مجھ پر منکشف ہوا، تو میں تقریباً ہر جملے کو درست، اور اس کا ازسرِ نو ترجمہ، کرنے پر مجبور ہو گیا! پہلا انگریزی ترجمہ تو اور بھی واہیات تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے اِس کے بیشتر تفکراتی حصّوں کو سرے سے حذف کر دیا تھا؛ مثلاً، وہ تمام حصے جن کا تعلق موسیقی سے ہے۔ ابواب کی ترتیب بدل کر تو اُس نے حد ہی کر دی، یوں ناول پر، ایک اور ہی ترتیب منڈھ دی گئی۔ آج (بہرحال) ”مذاق“ قابلِ اعتماد ترجمہ ہو کر دوبارہ چھپ گیا ہے۔
مجھے تو ہمیشہ یہی گمان رہا ہے کہ میرے متن اتنے سادہ ہوتے ہیں کہ ان کا بڑی آسانی کے ساتھ ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ غایت درجے کے شفاف ہوتے ہیں۔ ان کی زبان قدرے کلاسیکی، واضح اور غیر عامیانہ ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سادہ ہوتے ہیں، ٹھیک اسی لیے ترجمے کے وقت مطلق معنوی صحت (absolute semantic exactitude) کا تقاضا کرتے ہیں! اب مترجمین دن بدن تحریر کو دوبارہ لکھنے والے بن گئے ہیں۔ ”وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت“ کے امریکی ترجمے کے مسودے پر مجھے تین مہینے صرف کرنے پڑے، اور خدا گواہ ہے کہ یہ بڑے صبر آزما مہینے تھے! اسلوب کے بارے میں میرا اصول یہ ہے: جملے کو غایت درجے کا سلیس اور مولک ہونا چاہیے؛ اِس کے برخلاف، بیچارے میرے مترجمین جس اصول کا پاس رکھتے ہیں، وہ یہ ہے: جملے کو متمول نظر آنا چاہیے (تا کہ مترجم اپنی لسانی قابلیت، اپنی فائق ہنر مندی (virtuosity) کا مظاہرہ کر سکے اور حتیٰ المقدور پیش پا افتادہ بھی (کیونکہ طبّاعی مترجم کے یہاں بھدّے پن کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے؛ لوگ اُس پر یہ پھبتی کس سکتے ہیں: ”انگریزی میں ایسے نہیں کہتے!“، لیکن جو میں لکھتا ہوں اُسے بھی چیک میں ایسے نہیں کہتے!)۔ آپ کی نگارش کو ایسا بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سپاٹ نظر آنے لگتی ہے۔ اُسے پیش پا افتادہ، حتیٰ کہ بازاری، بنا دیا جاتا ہے۔ یہی حشر آپ کی فکر کا بھی کیا جاتا ہے۔ بایں ہمہ، کسی ترجمے کے اچھے ہونے کے لیے بہت لاؤ لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی: بس اسے مطابق اصل ہونا، مطابقِ اصل ہونے کا خواہش مند ہونا چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ میری نگارشات کے بہترین مترجم وہ ہیں جن کا تعلق چھوٹے چھوٹے ملکوں سے ہے: ہالینڈ، ڈنمارک، پرتگال، یہ مجھ سے باقاعدہ رجوع کرتے ہیں، اپنے سوالوں کی بھرمار سے مجھے مغلوب کر دیتے ہیں، ہر تفصیل کے بارے میں پریشان ہوتے پھرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان چھوٹے چھوٹے ملکوں کے لوگ قدرے کم کلبیت پسند واقع ہوئے ہیں اور اب بھی، ادب کے دلدادہ ہیں۔”
1969 میں اگست کے مہینے میں دو شہریوں کے وحشیانہ قتل کی خبر لاس اینجلس کے اخبارات میں شایع ہوئی۔ انھیں خنجر کے وار کر کے بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ بعد میں اس قتل میں ملوث 19 سالہ لڑکی لیسلی وان ہوٹن گرفتار ہوئی۔ اس واردات سے چند روز قبل ہی ہالی وڈ کی ایک اداکارہ، اسکرپٹ رائٹر سمیت دو آرٹسٹوں اور ایک نوجوان لڑکے کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا تھا۔ ہالی وڈ میں خوف کے ساتھ رنج و غم کی فضا تھی جب کہ ان پانچ افراد کا قتل اُس وقت شہ سرخیوں میں تھا۔
جواں سال لیسلی وان ہوٹن جو ایک دکان دار کے قتل میں ملوث تھیں
لیسلی وان ہوٹن اب 73 برس کی ہیں اور دو روز قبل (منگل) ہی وہ جیل سے باہر آسکی ہیں۔ وان ہوٹن کی اس ‘آزادی’ کے ساتھ ہی فلمی دنیا اور فیشن انڈسٹری کے اُن آرٹسٹوں کی یاد بھی تازہ ہوگئی ہے جنھیں رات کی تاریکی میں موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔
وان ہوٹن کو 73 سال کی عمر میں جیل سے رہا کیا گیا ہے
مقتولین میں ہالی وڈ کی ابھرتی ہوئی اداکارہ شیرون ٹیٹ، ہیئراسٹائلسٹ جے سیبرنگ، اسکرین رائٹر فریکوِسکی اور ایک سرگرم سوشلسٹ ایبیگیل اینے کے علاوہ 18 سالہ ایک نوجوان شامل تھا۔
مقتول اداکارہ شیرون ٹیٹ
لیسلی وان ہوٹن 50 سال عمر قید سے زیادہ بھگت کر پیرول پر رہا ہوئی ہیں۔ ان کی وکیل کے مطابق کیلیفورنیا میں خواتین کی جیل سے رہائی کے بعد وہ ممکنہ طور پر تین سال کے لیے ‘آزاد’ رہیں گی۔ وان ہوٹن کیلیفورنیا میں ایک دکان دار لینو لابیانکا اور ان کی اہلیہ روز میری کے قتل میں ملوث رہی تھیں۔
ان معروف شخصیات اور اس کے فوراً بعد لابیانکا اور اہلیہ کا قتل دراصل ’مینسن‘ کے اکسانے پر کیا گیا تھا جو گم راہ کُن عقائد کا حامل اور ایک جنونی تھا۔ امریکی اسے شیطان کی شبیہ اور ایک بدصفت انسان کہتے ہیں۔
مینسن فیملی کا سربراہ عدالت میں پیشی کے موقع پرچارلس مینسن
نوخیز اداکارہ شیرون ٹیٹ اور اس کے ساتھیوں کے قتل نے فلمی ستاروں کا مسکن سمجھے جانے والے شہر لاس اینجلس میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔ وہ فلم ڈائریکٹر رومن پولانسکی کی بیوی تھی اور یہ جوڑا بیورلی ہلز کے شمال میں واقع مینشن سیلو ڈرائیو کا رہائشی تھا۔ پولانسکی ایک فلم کی شوٹنگ کی غرض سے لندن گیا ہوا تھا اور اس کی بیوی اداکارہ شیرون ٹیٹ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔
اداکارہ شیرون ٹیٹ اپنے شوہر رومن پولانسکی کے ساتھ
اس ہولناک واردات سے اگلی ہی رات ویورلی ڈرائیو میں ایک دکان دار اور اس کی اہلیہ کو بھی خنجر کے وار کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے اور یہ مقام سیلو ڈرائیو سے چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع تھا، لیکن پھر یہ سلسلہ رک گیا۔
قاتلوں کا سراغ اور ان وارداتوں کی وجہ تو بعد میں سامنے آئی، لیکن پولیس کا خیال تھا کہ قاتل صرف مشہور یا پھر امیر لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
چارلس مینسن ان وارداتوں کا اصل ذمہ دار تھا۔ اس کی زندگی ناآسودہ اور محرومیوں کا شکار رہی جس نے اسے آوارہ اور مفاد پرست بنا دیا تھا۔ وہ ایک شاطر نوجوان تھا جس کی جوانی کا بڑا عرصہ چھوٹے موٹے جرائم اور دنگا فساد کی وجہ سے جیلوں میں گزرا۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنی باتوں سے لوگوں کو متأثر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ماں باپ کی موت کے بعد اس نے سوسائٹی میں اپنا وجود منوانے اور بقاء کے لیے منفی سرگرمیوں کو اپنا لیا۔ اس کی باتیں ایسی تھیں کہ نوجوان اور ہر عمر کے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ وہ انھیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنا گرویدہ بنا لیتا اور بالخصوص نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر اپنا فرماں بردار اور مطیع کرلیتا۔ شاطر اور مجرمانہ ذہینت کے حامل چارلس مینسن نے جادو بیانی کی اپنی طاقت کا استعمال صحیح اور غلط کا فرق جانے بغیر کیا۔ اسے جیل میں ایک خطرناک اور ناقابلِ بھروسہ شخص بھی قرار دیا گیا تھا۔ چارلس مینسن نے 1955 میں شادی کی، لیکن بیوی اسے چھوڑ گئی اور وہ جرائم پیشہ زندگی میں مگن ہوگیا۔ اس نے مختلف جرائم کی پاداش میں سنہ 1958 سے لے کر سنہ 1967 تک جیل کاٹی۔ اسی عرصہ میں وہ موسیقی کی طرف متوجہ ہوا اور گٹار بجانا سیکھا۔ موسیقی کو سمجھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ گٹار بجانے کی مشق کرتے ہوئے چارلس مینسن خود کو ایک موسیقار سمجھنے لگا۔ وہ اس وقت کے مشہور میوزیکل بینڈ ‘دی بیٹلز’ سے بہت متأثر تھا۔ اسی میوزیکل بینڈ کے ایک گیت کو مینسن نے وہ معنیٰ دیے اور اس کا وہ مفہوم نکالا جو شاید اس کے ذہن میں پنپتے ہوئے کسی خیال اور جنونی سوچ کی تکمیل میں بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔
چارلس مینسن کو 1967 میں جیل سے رہائی ملی۔ اُس وقت وہ 32 سال کا تھا اور جیل سے باہر آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اس کا ذہن شیطانی منصوبے ترتیب دینے لگا۔ اس نے میل جول کے دوران اپنی اثر انگیز باتوں سے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کیا اور ایک ٹھکانہ بنا کر وہاں ان کے سامنے خاص فکر اور نظریات کا اظہار کرنے لگا۔ وہ ایک قسم کا واعظ بن چکا تھا جس کے گرد عقیدت مند اکٹھے ہوتے گئے اور انہی کے ذریعے چارلس مینسن نے کئی افراد کو قتل کروایا۔ وہ ہپی طرزِ زندگی اپنا چکا تھا اور بعد میں لوگوں کو منشیات کے زیرِاثر اپنی بات ماننے پر مجبور کرتا رہا۔ اس نے ایک قسم کا فرقہ اور گروہ بنا لیا تھا جس میں شامل مینسن کے کئی پیروکاروں میں اکثریت کم عمر لڑکیوں کی تھی۔ اوپر ہم نے وان ہوٹن کا ذکر کیا ہے، جو اسی چارلس مینسن کی پیروکار تھی اور نوجوانی میں اس کی باتوں سے متأثر ہوگئی تھی۔ دراصل چارلس مینسن کے گرد جمع ہونے والوں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل تھی جو غیر روایتی طرزِ زندگی اپنانے کی شدید خواہش رکھتے تھے اور سماجی یا مذہبی اصول اور پابندیاں انھیں پسند نہ تھیں۔ ان میں سے ایک گم راہ کُن خیالات رکھتے تھے اور وہ آسانی سے چارلس مینسن دامِ فریب میں گرفتار ہوگئے۔ ان کا مسیحا اور گرُو ان نوجوانوں کے سامنے حق و باطل پر سوال اٹھاتا اور مذہبی تعلیمات یا تہذیب و تمدّن کے اصولوں کی وہ تفہیم کرتا جو دراصل اس کے دل کی مراد ہوتی اور جس سے وہ لڑکے لڑکیاں بھی خوش ہوسکتے تھے۔ انھیں امریکہ میں ‘مینسن فیملی’ کہا جانے لگا اور ان کی تعداد سو سے زائد تھی جس میں اضافہ ہو رہا تھا۔
چارلس مینسن کوشش کرتا کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے اور سب اس کے تابع فرمان رہیں۔ اس کے لیے مینسن نے منشیات، موسیقی اور مذہبی معاملات میں تاویل اور من چاہی فکر کا پرچار کیا اور وہ وقت بھی آیا جب وہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی سوچ پر غلبہ پانے اور ان کے ارادوں کو اپنے حکم کی تعمیل میں بدلنے پر قادر ہوگیا۔ یہی وہ وقت تھا جب چارلس مینسن خود کو پیغمبر سمجھنے لگا اور مینسن فیملی بھی اسی طرح سوچنے لگی تھی۔
1968ء میں ‘دی بیٹلز’ کا ایک البم ریلیز ہوا جس کے گیتوں ‘ہیلٹر سکیلٹر’ بھی شامل تھا۔ اسی کی تشریح چارلس مینسن نے اپنے طریقے سے کی اور اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ بہت جلد ایک عالم گیر معرکہ شروع ہونے والا ہے جس میں تمام سیاہ فام، گوروں کے خلاف بغاوت کرکے ان سب کو ختم کر دیں گے۔ اس نے سب کو یہ یقین دلایا کہ اس نسل پرستانہ جنگ کے دوران وہ ایک محفوظ مقام پر رہیں گے اور بعد میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل کر سیاہ فاموں کو اپنا مطیع بنا لیں گے۔ اور پھر پوری دنیا پر ان کا راج ہوگا۔ لیکن چارلس مینسن کے مطابق جس معرکے کا سنہ 1969 کی گرمیوں میں آغاز ہونا تھا، وہ نہ ہوا تو مینسن فیملی میں بے چینی بڑھنے لگی۔ تب، چارلس مینسن نے ایک ڈرامہ رچایا اور انھیں کہا کہ سیاہ فام کبھی کوئی کام خود نہیں کرسکتے، انہیں اس کی ترغیب دلانا پڑتی ہے۔ اور ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سیاہ فاموں کو بغاوت کے لیے اکسائیں۔ اس کام کے لیے چارلس مینسن نے سیلو ڈرائیو کا انتخاب کیا۔ لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس علاقے کا انتخاب چارلس مینسن نے یونہی نہیں کیا تھا۔
دراصل زمانۂ قید میں چارلس مینسن نے موسیقی سیکھنے کے ساتھ خود کو ایک بڑے امریکی موسیقار کے روپ میں دیکھنا شروع کردیا تھا، یہ سب اس کے اندر موجود شہرت کی خواہش، نام و نمود اور اثر و رسوخ کی آرزو کا عکس ہی تو تھا۔موسیقار بننے کے لیے چارلس مینسن نے باقاعدہ کوشش کی اور وہ کئی فن کاروں سے ملا بھی، لیکن وہ اس قابل نہیں تھا، سو اس نے انکار سنا اور کسی نے اس کی حوصلہ افزائی نہ کی۔ وہ اسی کا بدلہ لینا چاہتا تھا فن کاروں سے اور شیرون ٹیٹ اور دیگر آرٹسٹ اسی نفرت کی بھینٹ چڑھے۔ اس کام کے لیے چارلس مینسن نے اپنے پیروکاروں کو استعمال کیا۔ بعد میں چارلس مینسن اور اس کے پیروکار گرفتار ہوئے اور یہ کہانی دنیا کو معلوم ہوئی۔
یہ قتل شاید رازِ سربستہ ہی رہتے، لیکن مینسن فیملی کی ایک رکن سوسن ایٹکنز جو قتل کی ان وارداتوں میں بھی پیش پیش رہی تھی، ایک معمولی جرم کی پاداش میں گرفتار ہوگئی۔ ایک روز اس نے ساتھی قیدیوں کے سامنے اپنے ان جرائم کی روداد انھیں سنائی اور بات پھیل گئی۔
مینسن فیملی کی رکن سوسن ایٹکنز جس کی وجہ سے پولیس قاتلوں تک پہنچیچارلس مینسن اور سوسن ایٹکنز عدالت میں موجود ہیں
حکام کو معلوم ہوا تو سوسن سے پوچھ گچھ کی گئی اور تب اس نے سیلو ڈرائیو کے رہائشیوں کے قتل کا اعتراف کرلیا۔ اس گروہ کا آخری شکار شیرون ٹیٹ اور اس کے ساتھی تھے۔ سوسن نے بتایا کہ وہ مزید مشہور شخصیات کو قتل کرنا چاہتے تھے اور اس کا ایک مقصد دنیا کو حیران کرنا بھی تھا۔
اس اعتراف کے بعد یکم دسمبر 1969 میں شاطر اور جنونی چارلس مینسن سمیت مینسن فیملی کے کئی اراکین کی گرفتاری عمل میں آئی اور دنیا نے ان کا اصل روپ دیکھا۔ تاہم وہ سب اپنے گرُو کو بچانے کی کوشش کرتے رہے اور خود چارلس مینسن بھی باتیں بناکر اور ہنسی ٹھٹھا کر کے پولیس کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا رہا۔ دوسری طرف یہ کیس امریکہ اور دنیا بھر میں اخبارات میں جگہ پاتا رہا اور مقدمے کی کارروائی کے دوران بھی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا جو مینسن فیملی کے گرفتاری سے بچ جانے والے اراکین کی کارروائیوں کا نتیجہ تھے۔ عدالت میں بھی مینسن کی عقیدت مند نوجوان لڑکیاں اپنے گرُو کی حفاظت کے لیے لاطینی زبان میں کچھ پڑھتی بھی دکھائی دیتی تھیں۔
15 جنوری 1971 کو اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا اور چارلس مینسن کو ساتھیوں سمیت موت کی سزا ہوگئی۔ مگر 1972 میں یہ سزا تاحیات قید میں تبدیل کر دی گئی، کیوں کہ امریکی سپریم کورٹ نے سزائے موت کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
چارلس مینسن سلاخوں کے پیچھے تو چلا گیا لیکن وہاں بھی اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ جیل کر اندر وہ منشیات کی ترسیل کا کام کرتا رہا۔ امریکہ میں چارلس مینسن کی مجرمانہ شہرت کے بعد اس پر کتابیں لکھی گئیں، ڈرامے اور موویز بنائیں گئیں۔ 2017ء میں یہ شیطان صفت انسان جیل ہی میں موت کے منہ میں چلا گیا۔
رواں ماہ رہائی پانے والی وان ہوٹن کی بات کریں تو اب انھیں انٹرنیٹ استعمال کرنا سیکھنا ہے۔ وہ یہ بھی سیکھیں گی کہ نقدی کے بغیر کیسے چیزیں خریدی جاسکتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اتنے برس جیل میں رہی ہیں اور دنیا بہت بدل چکی ہے۔
وان ہوٹن جیل میں اور سماعت کے دوران قتل میں اپنے کردار اور مینسن کے ساتھ ملوث ہونے پر افسوس کا اظہار کرتی رہی ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ انھوں نے چارلس مینسن کو اپنی ’انفرادی سوچ‘ پر حاوی ہونے دیا تھا۔